بیمار پرسی اور احکام میت

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ ﴿ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ ؕ وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ؗ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰی مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۱8۵﴾ (البقرة: 185)
’’تم میں جو شخص اس مہینے میں مقیم ہو اسے روزہ رکھنا چاہئے۔ ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو۔ اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہئے ۔ اللہ تعالی کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کر لو۔ اور اللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بیمار اور مسافر کی آسانی کے لئے یہ فرمایا ہے اگر رمضان شریف میں روزہ رکھنے کی ہمت نہ ہو تو دوسرے مہینوں میں روزے رکھ لیں۔ اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتا ہے سختی نہیں کرنا چاہتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے بیمار کی خاص رعایت رکھی ہے۔ اور اس کی دلجوئی فرمائی ہے۔ اسی طرح سے کمزوروں کی بھی ہمدردی کی ہے۔ دنیا میں ہر کمزور انسان بلکہ ہر جاندار جو اپنی خدمت آسانی سے نہیں کر سکتا وہ ہماری ہمدردیوں کا زیادہ محتاج ہے بیماروں کی دیکھ بھال ان کی غم خواری تیمار داری اور خدمت گذاری کو عیادت و بیمار پرسی کہتے ہیں۔ یہ عیادت بقدر ہمت ہر تندرست انسان پر فرض ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بیماروں کی عیادت کی خاص تاکید فرمائی ہے۔ اس کے آداب اور دعا میں سکھائی ہیں اور اس کا ثواب بھی بتایا ہے۔ آپﷺ فرماتے ہیں:
1۔ (أَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَعُوْدُوْ الْمَرِيضَ وَ فُكُّوا الْعَانِي)[1]
’’بھوکے کو کھانا کھلاؤ اور بیمار کی عیادت اور خدمت کرو اور قیدی کو چھڑاؤ۔‘‘
اور فرمایا:
2۔ (حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ خَمْسٌ رَدُّ السَّلَامِ وَعِیَادَةُ الْمَرِيضِ وَ اتَّبَاعُ الْجَنَائِزِ وَاجَابَةُ الدَّعْوَةِ وَتَشْمِيتُ الْعَاطِسِ)[2]
’’ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں سلام کا جواب دینا۔ بیمار کی بیمار پرسی کرنا۔ جنازے کے پیچھے جانا، دعوت قبول کرنا، چھینکنے کا جواب دینا۔‘‘
3۔ (مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَعُودُ مُسْلِمًا غُدْوَةً إِلَّا صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّى يُمْسِيَ وَإِنْ عَادَه عَشِيَّةً إِلَّا صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّى يُصْبِحَ وَكَانَ لَهُ خَرِيفٌ فِي الْجَنَّةِ)[3]
’’جو مسلمان کسی مسلمان کی بیمار پرسی کے لئے صبح کو جائے تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے حق میں دعائے مغفرت مانگتے ہیں۔ اور جب وہ شام کو بیمار پرسی کے لئے جاتا ہے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے بارگاہ الہی میں دعاء کرتے ہے اور اسے پختہ میووں والا جنت کا ایک باغ ملے گا۔‘‘
اور آپ ﷺ نے فرمایا:
4۔ (وَمَنْ عَادَ مَرِيضًا نَادَى مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ طِبْتَ وَطَابَ مَمْشَاكَ وَتَبَوَّأْتَ مِنَ الْجَنَّةِ مَنْزِلًا)[4]
’’جو شخص کسی بیمار کی خدمت کو جائے اس کی تیمارداری کرے تو آسمان سے فرشتہ اس کو پکارتا ہے کہ تم نے بہت اچھا کام کیا ہے، تمہارا چلنا پھرنا تمہیں مبارک ہو۔ تم نے اپنا ٹھکانہ جنت میں بنا لیا۔‘‘
اور آپ ﷺ نے فرمایا: جب کسی کی عیادت کے لئے جاؤ تو اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر تسلی دو۔ اور اس کے شفا پانے کی دعاء کرو۔[5]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب المرضى، باب وجوب عيادة المريض (5649)
[2] بخاري: كتاب الجنائز، باب الأمر باتباع الجنائر (1241)
[3] ابو داود: كتاب الجنائز، باب فضل العيادة(152/3)
[4] ابن ماجه: كتاب الجنائز، باب ما جاء في ثواب من عاد مريضا (1443)
[5] بخاري: کتاب المرضى، باب وضع اليد على المريض (5659)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انحضرت ﷺ خود بھی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے تھے بلکہ غیر مسلموں، مشرکوں، یہودیوں اور منافقوں کی بیمار پرسی کے لئے بھی جایا کرتے تھے۔[1]
حضرت سعد بن معاذ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ جب جنگ خندق ۵ ھ میں زخمی ہو گئے تھے تو آپ ﷺ نے ان کا خیمہ مسجد میں نصب فرمایا تھا تاکہ سب نمازی آسانی سے اُن کی عیادت کر سکیں۔[2]
حضرت رفیدہ رضی اللہ تعالی عنہا صحابیہ جو ثواب کی خاطر زخمیوں کا علاج اور اُن کی خدمت کیا کرتی تھیں، ان کا خیمہ بھی اس مسجد میں رہا کرتا تھا تاکہ لڑائیوں کے زخمی مسلمانوں کی تیمار داری اور مرہم پٹی کریں۔ سیرت ابن ہشام میں ان کا حال بہت تفصیل سے لکھا ہے چونکہ زخمیوں کی مرہم پٹی اور بیماروں کی تیمار داری عورتیں ہی اچھی طرح کر سکتی ہیں۔ اس لئے غزوات اور لڑائیوں میں بھی بعض ایسی بیبیاں ساتھ رہتی تھیں جو بیماروں کی خدمت اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔[3]
بیماری کے سلسلے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي قَالَ يَارَبِّ كَيْفَ أعُوْدُكَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعَلَمِينَ قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِى فَلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعْدُهُ اَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَّهُ لَوَجَدْتَّنِي عِندَهُ)[4]
’’قیامت کے دن اللہ تعالی دریافت فرمائے گا اے ابن آدم علیہ السلام میں بیمار پڑا تو نے عیادت نہیں کی۔ وہ کہے گا: اے میرے پروردگار! تو تو سارے جہان کا پروردگار ہے میں تیری عیادت کیونکر کرتا؟ فرمائے گا: کیا تجھے خبر نہ ہوئی کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا۔ مگر تو نے اس کی عیادت نہ کی اگر کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔‘‘
بیمار اور قریب الموت کے پاس جانا کسی بیمار کے پاس بیٹھنا اس کی تسلی تشفی کے لئے موجب خیر و برکت ہے اور بیٹھنے والا رحمت خداوندی میں داخل ہوتا ہے۔[5]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب المرضى باب عيادة المشرك (5657)
[2] بخاري: كتاب الصلوة، باب الخيمة في المسند للمرضى وغيرهم (463)
[3] بخاري: كتاب الجهاد و السير باب مداواة النساء الجرحي في الغزو (2883، 2882)
[4] مسلم: كتاب البرو الصلة، باب فضل عيادة المريض-
[5] مسند احمد: 460/3۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(إِذَا حَضَرْتُمُ الْمَرِيْضِ أَوِ الْمَيْتَ فَقُوْلُوْا خَيْرًا فَإِنَّ الْمَلٰئِكَةُ يُؤْمِّنُونَ عَلٰى مَا تَقُوْلُوْنَ)[1]
’’یعنی تم مریض کے پاس یا قریب الموت کے پاس جاؤ تو وہاں نیک اور اچھی باتیں کہو کیونکہ تمہاری نیک باتوں پر فرشتے آمین کہتے ہیں۔‘‘
اور یہ بھی فرمایا کہ (لا اله الا الله) کی تلقین کرو۔[2]
تلقین کا مطلب یہ ہے کہ اسکے سامنے کثرت سے لا اله الا اللہ پڑھتے رہا کرو تاکہ سن کر وہ بھی اس کلمہ کو پڑھنے لگے۔
سکرات موت کے وقت دعاء
نزع کی حالت میں مرنے والے کے سامنے ’’لا اله الا اللہ‘‘ پڑھیں تاکہ مرنے والا بھی سن کر پڑھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو ’’لا اله الا اللہ‘‘ پڑھتا ہوا مرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا۔[3]
اور جو اپنی زندگی سے مایوس ہو اور نزع کی سی حالت ہو گئی ہو اور اس کو ابھی ہوش ہو تو اسے ان دعاؤں کو پڑھتے رہنا چاہئے۔ رسول اللہ ﷺ نے سکرات کے وقت ان دعاؤں کو پڑھا ہے۔
1۔ (اللَّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ الْأَعْلَى)[4]
’’اے اللہ مجھے معاف کر دے۔ میری حالت پر رحم فرما۔ اور مجھے رفیق اعلی کے ساتھ ملا دے۔‘‘
میت کی آنکھیں بند کرنا
جب جان نکل جائے تو میت کی آنکھیں بند کر دی جائیں اور ہاتھ پاؤں سیدھے کر کے تمام بدن کپڑے سے ڈھک دیا جائے۔ حضرت امّ سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا ہیں حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کے وقت رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو حضور ﷺ نے ان کی نظر کو اوپر چڑھی ہوئی دیکھ کر فرمایا: جب روح جسم سے جدا ہو جاتی ہے تو نظر اُس کا پیچھا کرتی ہے۔ پھر حضور ﷺ نے ان کی آنکھوں کو اپنے دست مبارک سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الجنائز باب ما يقال عند المريض۔
[2] مسلم: كتاب الجنائز باب تلقين الموتى لا اله الا الله۔
[3] مسند احمد: 247/5، ابو داود: كتاب الجنائز باب التلقين (159/3۔)
[4] بخاري: کتاب المغازی، باب مرض النبيﷺ و وفاته (4440)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بند کر دیا۔[1]
حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جب قریب المرگ آدمی کے پاس تم جاؤ تو اس کی آنکھیں بند کر دو۔ کیونکہ روح کی مفارقت کے وقت نظر اس کے پیچھے جاتی ہے اور نیک باتیں کیا کرو۔ کیونکہ تمہاری گفتگو پر فرشتے آمین کہتے ہے[2]
از راه شفقت و محبت میت کی پیشانی کا بوسہ لینا بھی جائز ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا بیان ہے حضور ﷺ نے عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالی عنہ کی میت کو روتے ہوئے بوسہ دیا تھا اور اشک مبارک ان کے چہرے پر جاری تھے۔[3]
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور ﷺ کی میت مبارک کو بوسہ دیا تھا۔[4]
نوحه (رونا پیٹنا )
مر جانے کے بعد میت پر زور زور سے رونا پیٹنا، سرنو چنا حرام ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے[5]
اور فرمایا کہ میت پر رونے سے میت کو عذاب دیا جاتا ہے۔[6]
اور رونے والے بھی سخت مجرم ہیں۔ ہاں بلا آواز کے آنسو بہانا جائز ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ آنسوؤں سے آہستہ رونا خدا کی رحمت ہے۔ جب آپﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ کا انتقال ۔ ہوا تو آپ ﷺ نے رو کر زبان مبارک سے فرمایا: کہ اے ابراہیم! ہم تیری مفارقت سے سخت غمگمین ہیں۔[7]
جب ابو سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ فوت ہوئے تو آنحضرت ﷺ ان کے گھر تشریف لے گئے۔ اتفاق سے اُسی وقت ان کی روح نے جسم سے علیحدگی کی تھی ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور ہنوز جسم گرم تھا۔ آپ ﷺ نے ان کی آنکھیں بند کیں اور فرمایا کہ جب آدمی کی روح نکلتی ہے تو اس کی آنکھیں پیچھے لگی رہتی ہیں۔ پھر گھر والوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الجنائز، باب في اغماض الميت و الدعاء له اذا حضر۔
[2] ابن ماجه: كتاب الجائز، باب ماجاء في تغميض الميت (1455)
[3] ابن ماجه: کتاب الجنائز، باب ماجاء في تقبيل الميت (1456)
[4] بخاري: کتاب الجنائز باب الدخول على الميت بعد الموت (1291)
[5] بخاري: كتاب الجنائز، باب ليس منا من شق الجيوب (1294)
[6] بخاري: کتاب الجنائز، باب البكاء عند المريض (1304)
[7] بخاري: کتاب الجنائز، باب قول النبيﷺ انا بك لمحزونون(1303)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نے چلا چلا کر رونا شروع کر دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ان کے لئے نیک دعاء کرو کیونکہ فرشتے تمہاری باتوں پر آمین کہتے ہیں۔[1]
اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ رونے والے اس بات کا ضرور خیال رکھا کریں کہ بے جا رونا، مرنے کے دوران میں کوئی ناشائستہ کلمہ زبان سے نہ نکلنے پائے۔ ہاں اگر بے اختیار رونے کی آواز نکل جائے تو مضائقہ نہیں۔ اور اگر قصدًا چلا کر روئے تو یہ درست نہیں۔
تعزیت و تسلی
میت کے گھر والوں کو تعزیت اور تسلی اور صبر کی تلقین دینا باعث اجر و ثواب ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(مَا مِنْ مُؤْمِنٍ یُّعَزِى أَخَاهُ بِمُصِيْبَةٍ إِلَّا كَسَاهُ اللهُ سُبْحَانَهُ مِنْ حُلَلِ الْكَرَامَةِ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ)[2]
’’جو شخص کسی مسلمان بھائی کی مصیبت پر اس کی تعزیت کرتا ہے اور تسلی دیتا ہے تو اللہ تعالی اس کے بدلے میں قیامت کے دن اس کو عزت اور کرامت کا لباس پہنائے گا۔‘‘
بہرحال مصیبت کے وقت میں مصیبت زدہ کو تسلی دینا اسلامی اور انسانی ہمدردی کا ثبوت دینا ہے۔ ہاں رسمی طور پر تعزیتی جلسہ کرنا اور مرثیہ خوانی کرنا جائز نہیں ہے۔
میت کے گھر کھانا بھیجنا
رشتہ داروں اور ملنے جلنے والوں کو بھی مناسب ہے کہ میت کے گھر کھانا پکوا کر بھیج دیں۔ کیونکہ مصیبت کے وقت ان کو کھانے پکانے کا موقع نہیں ملے گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(اِصْنَعُوا لِآلِ جَعْفَرَ طَعَامًا فَقَدْ أَتٰهُمْ مَا يُشْغِلُهُمْ)[3]
’’حضرت جعفر کی شہادت کی خبر جب آپ ﷺ کو ملی تو آپ ﷺ نے اپنے گھر والوں سے فرمایا کہ جعفر کے گھر والے ان کی موت کے صدمہ میں گرفتار ہیں تم ان کیلئے کھانا تیار کرو۔
چنانچہ کھانا تیار کر کے اُن کے گھر بھیجا گیا لہٰذا یہ طریقہ مسنون ہے۔ میت کے گھر جمع ہو کر میت کے گھر کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الجنائز، باب في اغماض الميت و الدعاء له اذا حضر.
[2] ابن ماجه: كتاب الجنائز، باب ما جاء في ثواب من عزى مصابا (1601)
[3] ابن ماجه: کتاب الجنائز، باب ما جاء في الطعام يبعث إلى اهل الميت (1610)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانا، تیجہ، چالیسواں کے طور پر ناجائز ہے۔
میت کی خدمت:
انتقال ہو جانے کے بعد میت کی آنکھیں بند کر دی جائیں اور ہاتھ پاؤں سیدھے کر کے تمام بدن کو کپڑے سے ڈھانک دیا جائے۔ اور میت کی تجہیز وتکفین کے لئے جلدی کی جائے۔ بلاوجہ دیر کرنا مناسب نہیں ہے۔
سنت کے مطابق میت کو نہلانے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی تخت یا چار پائی پر میت کو لٹا دیں۔ اور ستر کو ننگا کئے بغیر اس کے کپڑے اتار دیں۔[1]
پھر ہاتھ پر کپڑا لپیٹ کر استنجا کرائیں۔[2]
پھر کلی اور ناک میں پانی دینے کے علاوہ تمام وضو ایسا ہی کرائیں، جیسا کہ نماز کا وضو ہوتا ہے۔ لیکن وضو کا آغاز داہنی طرف سے ہو۔[3]
اور سیدھی کروٹ پر لٹا کر سارا جسم نرمی سے دھوئیں اور جب اس طرف سے فارغ ہوں تو دوسری کروٹ پر لٹا کر اس طرف کا جسم پاک کریں۔ تمام جسم پر ہاتھ پہنچائیں۔
اور ایک ایک جوڑ کو تین یا پانچ پانچ بار دھوئیں اگر ضرورت ہو تو اس سے زیادہ بار بھی دھوئیں۔ لیکن طاق عدد کا خیال رہے۔ پانی گرم کرتے وقت بیری کے پتے ڈال دیں۔ اور سب سے آخر میں وہ پانی بہائیں جس میں کافور کی ملونی ہو۔ عورت کے بالوں کے تین حصے کریں اور چوٹیاں گوندھ کر نیچے ڈال دیں۔[4]
جو لوگ معرکہ جہاد میں شہید ہوں انہیں غسل نہیں دینا چاہئے۔ بلکہ جس حالت میں وہ شہید ہوں اُسی حالت میں انہیں کپڑوں کے ساتھ دفن کرنا چاہئے۔[5]
ان کے علاوہ تمام شہیدوں کو غسل بھی دینا کفن بھی دینا اور نماز جناز ہ بھی پڑھنی چاہیے۔ اگر کوئی مردہ بغیر غسل دیئے دفن کیا گیا اور گمان ہے کہ ابھی نعش گلی سڑی نہ ہوگی تو قبر سے نکال کر اسے غسل دے کر پھر دفن کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: (146/1)
[2] مستدرك حاكم: كتاب المغازي باب غسل النبيﷺ و عليه ثيابه۔
[3] بخاري: کتاب الجنائز، باب یبدا بميامن الميت (1255)
[4]بخاري: كتاب الجنائز، باب يلقى شعر المرأة خلفها.
[5] بخاري: كتاب الجنائز، باب من لم يرغسل الشهداء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میت کے نہلانے والے کو غسل کرنا اور جنازہ اٹھانے والوں کو وضو کرنا مستحب ہے۔ فرض واجب نہیں۔ جو لوگ میت کو نہلاتے وقت کچھ پڑھتے ہیں۔ آنحضرتﷺ سے کچھ ثابت نہیں۔
مرد اپنی عورت کو اور عورت اپنے مرد کو غسل دے سکتے ہیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے غسل دیا۔ حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کا انتقال ہو گیا تھا۔ ہم لوگ حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کو غسل دے رہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ان کو تین یا پانچ بار نہلا کر اور اگر اس سے زیادہ مناسب سمجھو تو زیادہ بھی کر سکتی ہو۔ بیری کے پتوں میں جوش دے کر اس پانی سے نہلانا اور آخر میں کافور یا خوشبودار چیز مل دینا۔ اور داہنی طرف سے وضو کی جگہوں سے شروع کرو۔ اور نہلانے کے بعد مجھے خبر دو۔ چنانچہ ہم لوگوں نے آپ ﷺ کے ارشاد کے مطابق نہلایا۔ اور فراغت کے بعد آپ ﷺ کو خبر دی۔ تو آپ ﷺ نے اپنی تہ بند دے کر فرمایا کہ اس تہہ بند کو جسم کے ساتھ لپیٹ دو۔ (تبرک کے طور پر ) اس کے اوپر دوسرے کفن کے کپڑے پہناؤ۔ یعنی سب سے نیچے تبہ بند رہے۔[1]
نہلاتے وقت نہلانے والے کو پردہ پوشی اور عیب پوشی بھی نہایت ضروری ہے اس کے عیبوں کو کسی کے سامنے نہیں ظاہر کرنا چاہئے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(مَنْ غَسَّلَ مَيْتًا فَكَتَمَ عَلَيْهِ غَفَرَ اللهُ لَهُ أَرْبَعِينَ كَبِيرَةً)[2]
’’جس نے میت کو نہلایا اور اس کے عیبوں کو چھپایا تو اس کے بڑے بڑے چالیس گناہوں کو خدا معاف کر دیگا۔‘‘
کفن میت
میت کو کفن دینا فرض کفایہ ہے۔ اور کفن کے تین درجے ہیں:
(1) ضرورت (2) کفایت (3) سنت ۔ مرد کیلئے تین کپڑے سنت ہیں اور عورت کیلئے پانچ ہیں۔
کفن کفایت مرد کیلئے دو کپڑے ہیں۔ لفافہ ازار اور عورت کے لئے تین ہیں۔ لفافہ، ازار اوڑھنی یا لفافہ، قمیص۔ اور کفن ضرورت مرد عورت کے لئے یہ کہ جو میسر آ جائے۔ اور کم سے کم اتنا ہو کہ تمام بدن پوشیدہ ہو جائے۔ اور لفافہ یعنی چادر کی مقدار یہ ہے کہ میت کے قد سے اتنی بڑی ہو کہ دونوں طرف باندھ سکیں۔ اور ازار یعنی تہہ بند چوٹی سے قدم تک یعنی لفافہ سے اتنی چھوٹی جو بندش کے لئے زیادہ سے زیادہ ہو۔ اور قمیص جس کو کفنی کہتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بجاري: كتاب الجنائز، باب يلقى شعر المرأة خلفها۔
[2] مستدرك حاكم: كتاب الجنائز، باب فضيلة تغسيل الميت (354/1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے۔ وہ گردن سے گھٹنوں کے نیچے تک اور آگے پیچھے دونوں طرف برابر ہو۔
کفن کا کپڑا نہ زیادہ قیمتی ہو اور نہ زیادہ خراب ہو۔ ہاں درمیانی درجہ کا اچھا سفید رنگ کا ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(إِذَا كَفَّنَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُحْسِنُ كَفَنَهُ)[1]
’’جب اپنے بھائی کو کفن دو تو اچھا کفن دو۔‘‘
اور ابو داؤد کی روایت میں ہے:
(اِلْبَسُوا مِنْ ثِيَابِكُمُ الْبَيَاضَ فَإِنَّهَا مِنْ خَيْرِ ثِبَابِكُمْ وَكَفِّنُوا فِيْهَا مَوْتَاكُمْ)[2]
’’سفید کپڑے پہنو کیونکہ سب کپڑوں سے سفید کپڑے اچھے ہوتے ہیں۔ اور انہی کپڑوں میں اپنے مردوں کو دفن کرو۔‘‘
اور حاجی محرم میت کو احرام ہی کے دو کپڑوں میں کفن دینا چاہئے۔ جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا:
(وَكَفَنُوْهُ فِي ثَوْبَيْهِ وَلَا تُمِسُّوهُ طِيبًا وَلَا تُحَمِّرُوا رَأْسَهُ)[3]
’’یعنی اس محرم کو اس کے دونوں کپڑوں (یعنی چادر اور تنبہ بند) میں کفن دو۔ نہ سر ڈھانکو اور نہ خوشبو لگاؤ۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کو تین سفید کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا، جس میں کرتہ اور پگڑی نہیں تھی۔[4]
کفنانے کا طریقہ
کفناتے وقت پہلے سر، ڈاڑھی اور کفن میں خوشبو وغیرہ مل دیں۔ اور پیشانی، ناک، دونوں ہتھیلیوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں کے اگلے حصوں یعنی سجدے کی جگہوں پر کافور ملیں۔ پھر تینوں چادروں کو ایک دوسرے پر بچھائیں اور میت کو ان پر چت لٹا کر اوپر کی چادر داہنی طرف سے لپیٹنا شروع کریں ۔ تینوں چادروں کو لپیٹ کر سر اور پاؤں کی طرف کفن کو باندھ دیں۔ اگر کرتا ازار اور لفافہ میں کفنانا ہو تو پہلے کرتا پہنا کر ازار لپیٹیں۔ پھر اوپر سے لفافہ لپیٹ دیں۔ اور عورت میت کے کفن کے لئے پانچ کپڑے ہونے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الجنائز باب في تحسين كفن الميت۔
[2] ابوداود: کتاب اللباس، باب في البياض (4054)
[3] بخاري: کتاب الجنائز، باب كيف يكفن المحرم (1297)
[4] بخاري: کتاب الجنائز، باب الثياب البيض للكفن (1264)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاہئیں ۔ تہہ بند، کرتا، خمار یعنی اوڑھنی سربند اور دو لفافہ۔ مرد کی طرح عورت میت کو کفنانے سے پہلے عطر اور کافور لگا دیں۔ اور اس کے بالوں کی تین چوٹیاں بنا کر پیچھے ڈال دیں۔ پھر پہلے تہہ بند میں بغل سے رانوں کے نیچے تک لپیٹ دیں۔ پھر کرتا پہنائیں۔ اور خمار سے سر اور بالوں کو چھپائیں، پھر دونوں لفافوں میں لپیٹ کر سر اور پاؤں کی طرف باندھ دیں۔ بخاری شریف میں ہے:
(وَقَالَ الْحَسَنُ الْخِرْقَةُ الْخَامِسَةُ يَشُدُّ بِهَا الْفَخِذَيْنِ وَالْوَرِكَيْنِ تَحْتَ الدَّرْعِ)[1]
’’اور امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ عورت کیلئے ایک پانچواں کپڑا چاہنے قمیض کے تلے رانوں اور کمر کو لپیٹ دیا جائے۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ تین سفید سوتی اور دھوئے ہوئے کپڑوں میں کفنائے گئے۔ نہ ان میں قمیص تھی نہ عمامہ۔[2]
بلکہ آپ ﷺ کے کفن میں ایک ازار تھی۔ ایک چادر ایک لفافہ۔ بس سنت کے یہی تین کپڑے ہیں۔
جنازہ اٹھانے اور لے چلنے کا بیان
جب جنازہ بالکل تیار ہو جائے تو مسلمان اسے کندھوں پر جلد اٹھا لیں اور معمولی چال سے ذرا تیز چلیں۔
اور قبرستان میں لے جا کر دفن کر دیں۔ کیونکہ مرنے والا اگر نیک ہے تو اپنی مراد پر جلد کامیاب ہوگا۔ اور اگر وہ بد ہے تو تمہاری گردنیں اس کے بوجھ سے جلد ہلکی ہوں گی۔ جنازے کے ساتھ بغیر کسی ضرورت و عذر کے سوار ہو کر نہیں چلنا چاہئے۔ اور اگر عذر سے سوار ہو کر چلے تو جنازے سے پیچھے رہے۔ پیدل آدمی جس طرح چاہیں داہنے بائیں یا آگے پیچھے چلیں مگر جنازے سے قریب رہیں۔[4]
جنازہ کسی کا بھی ہوا سے دیکھ کر کھڑا ہو جانا مستحب ہے۔[5]
جو شخص صرف نماز جنازہ پڑھنے تک میت کے ساتھ رہے گا وہ نیکیوں کے دو ڈھیر کمائے گا۔[6]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخار: کتاب الجنائز باب كيف الاشعار للميت.
[2] بخاري: كتاب الجنائز، باب الثباب البيض للكفن (1264)
[3] بخاري: كتاب الجنائز، باب السرعة بالجنازة (1315)
[4] ابو داود: كتاب الجنائز، باب الراكب يسير خلف الجنازة: (179/3)
[5] بخاري: کتاب الجنائز، باب من تبع جنازة فلا يقعد حتى توضع۔
[6] بخاري: كتاب الجنائز، باب من انتظر حتى تدفن (1325)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عورتوں کو جنازے کے ساتھ جانا درست نہیں ہے۔[1]
مرے ہوئے کی تعریف کرنا مستحب ہے اُس کو برا کہنا منع ہے۔[2]
موحد مسلمان جس میت کے حق میں کہیں گے کہ یہ شخص اچھا تھا تو وہ شخص جنتی ہوگا۔ انشاء اللہ۔ اور جس شخص کے حق میں موحد مسلمان کے اعلان کریں گے اس پر دوزخ واجب ہو گی۔ اگر اللہ نے چاہا تو ایسا ہی ہو گا۔[3]
کیونکہ حضرت رسول مقبول ﷺ کا فرمانا خلاف نہیں ہو سکتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس موحد مسلمان کے حق میں چار یا تین یا دو ہی موحد بھلائی کی گواہی دیں گے۔ اللہ تعالی اس کو جنت میں داخل کرے گا۔[4]
جب تک جنازہ زمین پر نہ رکھا جائے بیٹھنا منع ہے۔[5]
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس جنازے کی نماز چالیس موحد مسلمان پڑھیں گے، اللہ تعالی اس میت کے گناہوں کو بخش دے گا۔[6]
جنازے کی نماز مسلمانوں پر واجب ہے۔[7]
جنہوں نے جنازہ کی نماز نہ پڑھی تھی سودہ بھی اگر پڑھنا چاہیں تو پڑھ لیں-[8]
اگر مردہ دفن ہو چکا ہو تو جنازے کی نماز قبر پر پڑھنا جائز ہے۔[9]
جنازہ اگر مرد کا ہے تو امام میت کے سر کے سامنے کھڑا ہو۔[10]
اگر عورت کا ہے تو ناف کے سامنے کھڑا ہو۔[11]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الجنائز، باب اتباع النساء الجنازة.
[2] بخاري: کتاب الجنائز، باب ما ينهى من سب الأموات (1393)
[3][4]بخاري: کتاب الجنائز، باب ثناء الناس على الميت (1367)
[5] بخاري: کتاب الجنائز، باب من تبع جنازه فلا يقعد حتى توضع.
[6] مسلم: كتاب الجنائز، باب من صلى عليه اربعون شفعواله.
[7] بخاري: کتاب الجنائز، باب الأمر باتباع الجنائز.
[8]، [9] بخاري: کتاب الجنائز، باب الأذن بالجنازة (1247)
[10] ابن ماجه: كتاب الجنائز: (1494)
[11] بخاري: كتاب الجنائز، باب اين يقوم من المرأة و الرجل (1332)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنحضرت ﷺ نے بیضاء کے دونوں بیٹوں پر نماز جنازہ مسجد میں پڑھی تھی۔[1]
پس نماز جنازہ چاہیں مسجدوں میں پڑھیں، جنگل میں، جہاں بھی پڑھیں درست ہے۔ عورتیں بھی جنازے کی نماز مسجد میں پڑھیں تو درست ہے۔ دوسری جگہوں سے کسی مسلمان کے مرنے کی خبر پہنچے اور مسلمان اس کی نماز جنازہ غائبانہ پڑھیں تو جائز ہے۔ جیسے آنحضرتﷺ نے نجاشی کی نماز جنازہ غائبانہ ادا کی تھی۔[2]
جو شخص خود کشی کر کے مر جائے تو آنحضرت ﷺ نے اس کا جنازہ نہیں پڑھا۔[3]
نہ آپ قرضدار کے جنازے کی نماز پڑھتے تھے۔ جب تک اس کا قرض ادا نہ کیا جاتا تھا۔ یا اس کے قرض کا کوئی ضامن نہ ہو جاتا تھا۔ اور آپﷺ نے فرمایا کہ مسلمان کی روح اس کے قرض کے سبب لٹکی رہتی ہے جب تک اس کا قرض ادا نہیں کیا جاتا ہے لیکن صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم آپ ﷺ کے حکم سے ایسے لوگوں کی نماز پڑھتے تھے۔ اور جب بیت المال قائم ہو گیا تو آپ ﷺ نے بیت المال سے قرض ادا کر کے میت کے جنازہ کی نماز پڑھی ہے۔[4]
اور سوائے شہید فی سبیل اللہ کے سب کا جنازہ پڑھنا چاہئے۔ مگر کافر اور منافق اور مرید اور مشرکہ، اور منکر حدیث کی نماز جنازہ درست نہیں ہے۔ اور نہ ان پر جنازہ پڑھنا ثابت ہے۔ اور اگر کئی میتیں جمع ہو جا ئیں تو سب کی نماز ایک جگہ پڑھیں ایک نماز کافی ہو سکتی ہے۔[5]
اور سقط یعنی جو بچہ ناقص (جس میں روح نہ پڑی ہو اور ویسے ہی مرا پیدا ہو) اس کے جنازہ کی نماز پڑھنا ضروری نہیں۔ زندگی شرط ہے جنازہ کی نماز میں۔[6]
جنازے کی نماز
جنازے کی نماز بھی ایک نماز ہے جس میں رکوع سجدہ نہیں ہے صرف قیام قرات اور دعاء ہے۔ اور یہ نماز فرض کفایہ ہے۔ کچھ لوگوں کے ادا کرنے سے سب سے فرضیت ساقط ہو جاتی ہے اس کے لئے بھی طہارت اور استقبال قبلہ ضروری ہے۔ میت کو سب سے آگے مناسب جگہ پر اس طرح رکھیں کہ اس کا سر ہانا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الجنائز، باب الصلوة على الجنازة في المسجد.
[2] بخاري: كتاب الجنائز، باب الصفوف على الجنازة.
[3] مسلم: كتاب الجنائز، باب ترك الصلوة على القائل (2262)
[4] بخاري: كتاب الكفالة، باب الدين (2298)
[5] ابو داود: كتاب الجنائز، باب اذا حضر حنائز رجال و نساء من يقدم (3187)
[6] ابو داود: كتاب الجنائز، باب المشي امام الجنازة (3174)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمال کی جانب ہو، اور جنوب کی جانب پیر ہوں اور قبلہ کی جانب منہ ہو۔ مسلمان با وضو تمام شرائط کا لحاظ رکھ کر قبلے کی طرف تین پانچ سات یعنی طاق صفیں باندھ کر کھڑے ہو جائیں۔ امام مرد میت کے سرہانے اور عورت میت کے ناف کے مقابل میں کھڑا ہو۔ جنازہ کی نماز میں اذان اور اقامت نہیں ہے۔
الغرض سب قبلہ کی طرف منہ کر کے میں خوب درست کر کے کھڑے ہو جائیں۔ اور اپنے دل میں جنازہ کی نماز کی اس طرح نیت کریں کہ میں اللہ تعالی کے لئے نماز اس میت کی بخشش کے لئے ادا کرتا ہوں ۔ پھر امام زور سے اور مقتدی آہستہ سے تکبیر کہہ کر دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھا کر سینے کے اوپر باندھ لیں۔ پھر وہی دعاء آہستہ سے پڑھیں جو ہر نماز کی تکبیر تحریمہ کے بعد پڑھتے ہیں۔ پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھ کر امام سورہ فاتحہ آواز سے پڑھے۔ اور مقتدی آہستہ پڑھیں۔
سورہ فاتحہ ختم ہو جانے کے بعد امام قل ھو اللہ وغیرہ آواز سے پڑھے۔ مقتدی الحمد کے سوا دوسری سورت نہ پڑھیں۔ جب اس قرآت سے فارغ ہو جائیں تو امام آواز سے اور مقتدی آہستہ سے وہی درود شریف پڑھیں جو اور نمازوں میں پڑھتے ہیں۔ پھر تیسری تکبیر کہہ کر رفع یدین کر کے ہاتھوں کو سینے پر باندھ لیں۔ امام آواز سے اور مقتدی آہستہ آہستہ ان دعاؤں کو جو نیچے لکھی ہیں پڑھیں:
(اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ وَاكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا نَفَيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ وَابْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِّنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِّنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِّنْ زَوْجِهِ وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَاعِذُهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ النَّارِ)[1]
’’اے اللہ! تو اس کے گناہوں کو بخش دے اور اس پر رحم فرما اور بلاؤں سے سلامتی عطا کر اور معاف فرما اور جنت میں اسکی اچھی مہمانی کر اور اسکی قبر کشادہ کر۔ اور اس کو پانی برف اور اولے سے دھو دے۔ اور اُسے گناہوں سے ایسا پاک وصاف کر دے جس طرح تو نے سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا ہے۔ اور اس کو دنیا کے گھر سے بہتر گھر عطا فرما۔ اور دنیا کے اہل سے بہتر اہل عنایت فرما۔ اور دنیا کے جوڑے سے اچھا جوڑا عطا فرما۔ اور اسے جنت میں داخل فرما اور قبر و دوزخ کے عذاب سے اسے بچا لے۔‘‘
(اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيّنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيرِنَا وَكَبِيْرِنَا وَذَكَرِنَا وَاُنْثَانَا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الجنائز، باب الدعاء للميت في الصلوة (2232)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَللّٰهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَاحْیِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِيْمَانِ اَللَّٰهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَهُ)[1]
’’اے اللہ! تو ہمارے زندوں اور مردوں اور حاضروں اور غائبوں اور چھوٹوں اور بڑوں مردوں اور عورتوں کو بخش دے۔ الہی ہم میں سے جسے تو زندہ رکھے تو اسے اسلام پر زندہ رکھیو۔ اور جسے وفات دے تو اس کو ایمان پر ماریو۔ اے اللہ! اس کے ثواب سے محروم نہ رکھیو اور اس کے پیچھے ہم کو فتنہ میں نہ ڈالیو۔‘‘
اگر جنازہ نابالغ لڑ کے یا نابالغ لڑکی کا ہے تو ان دعاؤں کے ساتھ اس دُعاء کو بھی پڑھے
(اللهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا فَرَطًا وَسَلَفًا وَأَجْرًا)[2]
’’اے اللہ ! اس بچے کو ہماری نجات کے لئے آگے جانے والا اور اس کی جدائی کی مصیبت کو ہمارے لئے اجرو ذخیرہ اور شافع مشفع بنا۔‘‘
اس کے بعد امام آواز سے اور مقتدی آہستہ سے چوتھی تکبیر کہیں ۔ پھر امام آواز سے اور مقتدی آہستہ سے داہنی جانب پھر بائیں جانب سلام پھیر دیں۔ اس طرح کرنے سے جنازے کی نماز ہو جائے گی۔
قبر اور دفن کا طریقہ
تجہیز و تکفین اور نماز کے بعد مردے کو قبر میں دفن کرنا ضروری ہے۔ میت کے قد و قامت سے کچھ لمبی قبر کھودی جائے۔ اور نصف قد گہری ہو قبر کی دو قسمیں ہیں:
1۔ لحد کہ قبر کھود کر اس میں قبلہ کی طرف میت کے لٹانے کے لئے جگہ کھو دی جائے جس کو بغلی کہتے ہیں۔ اور یہی سنت اور افضل ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ لحد میں دفن کئے گئے ہیں۔[3]
2۔ صندوق کی طرح جس کا عام طور پر رواج ہے۔
مردے کو قبر میں اتارنے کا طریقہ یہ ہے کہ قبر کی پائنتی کی جانب سے پہلے میت کا سر داخل کریں۔ پھر سر کا کر قبر کے سرہانے کی طرف لے جائیں۔[4]
سنت طریقہ یہی ہے۔ اچھے اور نیک لوگ میت کو قبر میں اتاریں۔ اور میت کو قبر میں رکھتے وقت یہ دعاء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابو داود: كتاب الجنائز، باب الدعا الميت (3195)188/3.
[2] بخاري: كتاب الجنائز، باب قراءة فاتحة الكتاب على الجنازة تعليقا.
[3] مسلم: كتاب الجنائز، باب في اللحد و نصب اللبن على الميت (2240)
[4] ابوداود: کتاب الجنائز، باب كيف يدخل الميت قبره (3205)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پڑھیں (بسم الله وَ بِاللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ)[1]
اور میت کو داہنی کروٹ لٹائیں۔ اور منہ قبلہ کی طرف پھیر دیں۔ اور کفن کے بندھنوں کو کھول دیں۔ لحد کو کچی اینٹوں سے بند کر دیں۔[2]
یا پتھر یا لکڑی کے تختوں سے قبر بند کرنے کے بعد سب لوگ مٹی ڈالیں۔
سرہانے کی طرف سے دونوں ہاتھوں سے تین تین بارمٹی ڈالیں۔[3]
باقی مٹی کدال یا پھاوڑے وغیرہ سے ڈال کر قبر کو اونٹ کے کوہان کی طرح بنائیں۔ اور پھر اوپر سے پانی چھڑک دیں۔ اس کے بعد سب مسلمان مل کر میت کے واسطے دعاء مغفرت کریں کہ یا اللہ اس وقت اس کے اوپر آسانی کر۔ اور اسے ثابت قدم رکھ۔ اور اس بے چارے کی مدد کر۔ اور اس پر رحم فرما تاکہ اس پر منکر نکیر کے سوال کا جواب آسان ہو۔ اس طرح سے بہت دیر تک ہمدردی سے اس کے حق میں دعائے خیر کرنا چاہئے اور بہت دیر تک تسبیح و تہلیل اور تکبیر کہتے رہیں۔[4]
قبر کو پختہ بنانا درست نہیں ہے۔[5]
قبروں پر چلنا پھرنا اور پیشاب کرنا حرام ہے ۔[6]
قبر پر قرآن مجید وغیرہ کا لکھنا ناجائز ہے۔ اور اس پر چراغ جلانا، چادر چڑھانا، پھول چڑھانا اور ناچ گانا اور عرس و غیرہ کرنا سب ناجائز ہے۔ قبر کی طرف نماز پڑھنا بھی منع ہے ۔ اور قبر سے مشکل کشائی حاجت روائی کرنا بھی حرام ہے۔
زیارت قبور
قبر کی زیارت کرنا سنت ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُوْرُوْهَا)[7]
’’میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا اب اجازت دیتا ہوں۔ تم زیارت کیلئے جایا کرو۔‘‘
اس سے موت یاد آتی ہے اور دنیا سے بے رغبتی ہوتی ہے۔ قبرستان میں جا کر اس دعاء کو پڑھنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذي: كتاب الجنائز، باب ما يقول اذا ادخل الميت القبر.
[2] مسلم: كتاب الجنائز، باب في اللحد و نصب اللبن على الميت.
[3] ابن ماجه: كتاب الجنائز، ما جاء في حثو التراب في القبر (1565)
[4] ابو داود: كتاب الجنائز، باب الاستغفار عند القبر عند الانصراف.
[5] مسلم: كتاب الجنائز، باب النهي تجصيص القبر و البناء عليه (2245)
[6] مسلم: كتاب الجنائز، باب النهي عن الجلوس على القبر و الصلوة عليه (2250)
[7] مسلم: کتاب الاضاحی، باب بيان ما كان من النهي عن أكل لحوم الأضاحي.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنت ہے۔
(اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ یٰأَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُسْلِمِيْنَ وَإِنَّا وَإِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَلَاحِقُوْنَ نَسْأَلُ اللهُ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ)[1]
’’سلام ہے تم پر اے ایماندار اور مسلمان گھر والو! انشاء اللہ ہم تم سے ملنے والے ہیں۔ ہم اپنے اور تمہارے لئے عافیت مانگتے ہیں۔‘‘
دور دراز سے قبروں کی زیارت کو جانا درست نہیں ہے۔ اور عورتوں کو میلے اور تماشے کے طور پر قبرستان میں جانا جائز نہیں ہے۔ اور قبر سے حاجت مانگنا اور بوسہ دینا اور طواف کرنا حرام ہے۔ اسی طرح سے مروجہ تیجہ اور چالیسواں کرنا جائز نہیں ہے۔
ایصال ثواب
یعنی میت کو ثواب پہنچانے کی خاطر بغیر ریا نمود کے کار خیر کرنا یعنی اس کی طرف سے صدقہ خیرات کرنا، کنواں بنوا دینا، مسافر خانہ تیار کرا دینا جائز ہے۔ لیکن موجودہ زمانے کا جو نتیجہ، دسواں، بیسواں، چالیسواں کیا جاتا ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اور قرض لے کر ان رسموں کو کرنا اور یتیموں، رانڈوں کی حق تلفی کرنا سخت گناہ ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے تمام اعمال موقوف ہو جاتے ہیں۔ مگر تین چیزیں مرنے کے بعد بھی فائدہ پہنچاتی رہتی ہیں : (1) صدقہ جاریہ (2) وہ صالح اولاد جو اس کے حق میں دعاء کرتی رہے (3) وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ یعنی مذہبی کتابیں وغیرہ تصنیف کرنا جن سے اس کے مرنے کے بعد بھی لوگوں کو فائدہ پہنچتا رہے۔[2]
اللہ تعالی ہم سب مسلمانوں کو نیکیوں کی توفیق عطا فرمائے ۔ ہم میں جو زندہ ہیں انہیں صراط مستقیم پر گامزن کرنے اور ان کا خاتمہ بالخیر کرے۔ اور ہم میں جو موت یافتہ ہیں ان کے گناہوں کو معاف فرما کر اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین۔
رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ وَصَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلٰى خَيْرٍ خَلْقِهِ مُحَمَّدٍ وَّآلِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ بِرَحْمَتِكَ يَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الجنائز، باب ما يقال عند دخول القبور والدعاء لاهلها (2257)
[2] مسلم: كتاب الوصية، باب ما يلحق الانسان من الثواب بعد وفاته (4223)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔