بیوی کے حقوق

ارشاد ربانی ہے: ﴿وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾ (سورة نساء آیت (۱۹)
ترجمہ: ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بود و باش رکھو۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ: اسْتَوْصُوْا بِالنِّسَاءِ خيْرًا، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضَلْعٍ، وَإِنْ أَعْوَجَ شَيْءٍ مَا فِي الضَّلَعِ أَعْلَاهُ فَإِن ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ (متفق عليه).
(صحیح بخاري: كتاب أحاديث الأنبياء، باب خلق آدم صلوات الله عليه وذريته، صحيح مسلم كتاب الرضاع، باب الوصية بالنساء.)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو، اس لئے کہ عورت کی تخلیق پسلی سے ہوئی اور پسلی میں سب سے زیادہ ٹیڑھا حصہ اس کا اوپر کا حصہ ہے، اگر تو اسے سیدھا کرنے لگے گا تو اسے توڑ بیٹھے گا،اور اگر اسے چھوڑ دے گا تو وہ ٹیڑھ جاری رہے گا۔
عَنْ حَكِيْمٍ بْنِ مُعَاوِيَةٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ: مَا حَقُّ زَوجَةِ أَحَدِنَا عَلَيْهِ؟ قَالَ : أَنْ تُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمْتَ، وَتَكْسُوْهَا إِذَا اكْتَسَيْتَ أَوْ اكْتَسَبْتَ ولا تَضْرِبُ الوَجْهَ، وَلَا تُقَبِّحُ وَلَا تَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ (أخرجه ابو داود).
(سنن ابو داؤد: كتاب النكاح، باب في حق المرأة على زوجها، وقال الألباني حسن صحيح في صحيح أبي داود: (2142)
حکیم بن معاویہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا، ہم میں سے کسی کی بیوی کا اس پر کیا حق ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: جب تو کھائے تو اسے کھلا، جب تو لباس پہنے تو اسے بھی پہنا اور اس کے چہرے پر مت مار، نہ اسے برا بھلا (یا بد صورت) کہہ اور اس سے (بطور تنبيه) علیحدگی اختیار کرتی ہو تو گھر کے اندر ہی کر۔
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: لا يَفْرُكَ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً إِنْ كَرِهَ مِنْهَا خُلُقًا رَضِيَ مِنْهَا آخَرَ (اخرجه مسلم)
(صحيح مسلم: كتاب الرضاع، باب الوصية بالنساء.)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن مرد، ایمان دار عورت (بیوی) سے نفرت نہ کرے، اگر اس کی کوئی ایک عادت یا صفت اسے ناپسند ہو گی تو اس کی کسی دوسری صفت سے وہ خوش بھی ہوگا۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : أَكْمَلْ المُؤْمِنِينَ إِيْمَانًا أَحْسَنُهُم خُلْقًا وَخِيَارُكُم خِيَارُكُم لِنِسَائِهِمْ. (أخرجه الترمذي).
(سنن ترمذى: أبواب الرضاع، باب ماجاء في حق المرأة على زوجها، وقال: حسن صحيح، وقال الألباني حسن صحيح في الصحيحة : (284)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہے اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں سب سے بہتر ہے۔
عَنْ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيُّ ﷺ فِي حجَّةِ الوَدَاعِ يَقُولُ : أَلا وَاسْتَوْصُوْا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا فَإِنَّمَا هُنَّ عَوَانٍ عِنْدَكُمْ لَيْسَ تَمْلِكُونَ مِنْهُنَّ شَيئًا غَيْرَ ذٰلِكَ (أخرجه الترمذي).
(سنن ترمذی، أبواب الرضاع، باب ماجاء في حق المرأة على زوجها، وقال: حسن صحيح، و حسنه الألباني في صحيح سنن ابن ماجه (1851)
عمرو بن احواص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو جنت الوداع کے موقع پر بیان کرتے ہوئے سنا آپ فرمارہے تھے کہ عورتوں کے ساتھ بھلائی کرو کیونکہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں اس کے سوا ان پر تمہارا اور کوئی اختیار نہیں۔
تشریح:
اسلام نے میاں بیوی کے حقوق کو الگ الگ بیان کیا ہے یعنی جس طرح شوہر کے حقوق بیوی پر ہیں اسی طرح بیوی کے حقوق بھی شوہر پر ہیں اور جب تک دونوں میں آپسی مفاہمت نہیں ہوگی اور ایک دوسرے کے حقوق کو حکم الہی کے مطابق عدل و انصاف کے ساتھ ادا نہیں کریں گے ازدواجی زندگی قاعدے سے بسر نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے مردوں کو حکم دیا کہ جو تم کھاؤ وہی اپنی عورتوں کو بھی کھلاؤ جو پہنو وہی عورتوں کو بھی پہناؤ اور ان کے چہروں پر نہ مارو، ان کے ساتھ بھلائی سے پیش آؤ، ان سے بہترین معاملہ کرو، اگر تمہیں ان کی کوئی عادت اچھی نہیں لگتی تو ان کے ساتھ صبر کا مظاہرہ کرو اور جان لو کہ تم میں سب سے بہتر وہ انسان ہے جو اپنے اہل وعیال کے لئے سب سے بہتر ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اپنے اہل وعیال کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ یقینا بیوی کا حق شوہر پر ہے۔
٭ عورتوں کے ساتھ احسان کرنا واجب ہے۔
٭ عورتوں کے معاملات میں صبر کرنا مشروع ہے۔
٭ عورتیں ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہیں۔
٭ تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے اہل و عیال کے لئے بہتر ہے۔
٭٭٭٭