چار گُناہ ، چار سزائیں

اہم عناصر :
❄ جھوٹ ❄ قرآن کے مطابق عمل نہ کرنا ❄ زنا ❄ سود
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ [التوبہ: 119]وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا [بنی اسرائیل: 32] يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ [البقرۃ: 276]
ذی وقار سامعین!
ہر بندہ کوئی نہ کوئی خواب دیکھتا ہے ، امّتی کو بھی خواب آتا ہے ، نبی کو بھی خواب آتا ہے لیکن امتی کا خواب ضروری نہیں ہے کہ وہ سچا ہی ہو، لیکن نبی کے خواب کی خاصیت یہ ہے کہ وہ وحی ہوتا ہے اور اس کی بہترین مثالیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا خواب ہے ، انہوں نے خود کو اپنے بیٹے کو ذبح کرتے ہوئے دیکھا اور سیدنا یوسف علیہ السلام کا خواب ہے کہ انہوں نے گیارہ ستاروں ، چاند اور سوج کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا. آج کے خطبہ جمعہ میں ہم آقا علیہ السلام کا ایک خواب ذکر کریں گے جو صحیح بخاری (1386) میں مذکور ہے اس میں آقا علیہ السلام نے بہت سارا کچھ دیکھا لیکن ہم اس میں سے صرف چار باتیں ذکر کریں گے کہ آقا علیہ السلام نے چار بندوں کو مختلف عذاب ہوتے دیکھے اور ان کے بارے میں پوچھا کہ یہ کون کون ہیں؟ ان کا جرم کیا؟ تو سیدنا جبرائیل اور سیدنا میکائیل علیہما السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے بارے میں بتلایا۔
عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَقَالَ مَنْ رَأَى مِنْكُمْ اللَّيْلَةَ رُؤْيَا قَالَ فَإِنْ رَأَى أَحَدٌ قَصَّهَا فَيَقُولُ مَا شَاءَ اللَّهُ فَسَأَلَنَا يَوْمًا فَقَالَ هَلْ رَأَى أَحَدٌ مِنْكُمْ رُؤْيَا قُلْنَا لَا قَالَ لَكِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ رَجُلَيْنِ أَتَيَانِي فَأَخَذَا بِيَدِي فَأَخْرَجَانِي إِلَى الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز (فجر) پڑھنے کے بعد (عموماً) ہماری طرف منہ کرکے بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ آج رات کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرو۔ راوی نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اسے وہ بیان کردیتا اور آپ اس کی تعبیر اللہ کو جو منظور ہوتی بیان فرماتے۔ ایک دن آپ نے معمول کے مطابق ہم سے دریافت فرمایا کیا آج رات کسی نے تم میں کوئی خواب دیکھا ہے؟ ہم نے عرض کی کہ کسی نے نہیں دیکھا۔ آپ نے فرمایا لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے م کہ دو آدمی میرے پاس آئے۔ انہوں نے میرے ہاتھ تھام لیے اور وہ مجھے ارض مقدس کی طرف لے گئے۔ (اور وہاں سے عالم بالا کی مجھ کو سیر کرائی)
اس خواب میں آقا علیہ السلام نے چار بندوں کو دیکھا کہ ان کو مختلف طرح کا عذاب دیا جارہا ہے. آقا علیہ السلام کو سیر کے آخر پر بتایا گیا کہ ان کے یہ یہ جرم ہیں۔
1۔ جھوٹ
فَإِذَا رَجُلٌ جَالِسٌ وَرَجُلٌ قَائِمٌ بِيَدِهِ كَلُّوبٌ مِنْ حَدِيدٍ قَالَ إِنَّهُ يُدْخِلُ ذَلِكَ الْكَلُّوبَ فِي شِدْقِهِ حَتَّى يَبْلُغَ قَفَاهُ ثُمَّ يَفْعَلُ بِشِدْقِهِ الْآخَرِ مِثْلَ ذَلِكَ وَيَلْتَئِمُ شِدْقُهُ هَذَا فَيَعُودُ فَيَصْنَعُ مِثْلَهُ قُلْتُ مَا هَذَا قَالَا انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا
"وہاں دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکس (آلہ) تھا جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں ڈال کر اس کے سرکے پیچھے تک چیردیتا پھر دوسرے جبڑے کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا تھا۔ اس دوران میں اس کا پہلا جبڑا صحیح اور اپنی اصلی حالت پر آجاتا اور پھر پہلے کی طرح وہ اسے دوبارہ چیرتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیاہورہا ہے؟ میرے ساتھ کے دونوں آدمیوں نے کہا کہ آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے”
جبریل اور میکائیل علیہما السلام نے بتایا کہ ؛
أَمَّا الَّذِي رَأَيْتَهُ يُشَقُّ شِدْقُهُ فَكَذَّابٌ يُحَدِّثُ بِالْكَذْبَةِ فَتُحْمَلُ عَنْهُ حَتَّى تَبْلُغَ الْآفَاقَ فَيُصْنَعُ بِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ”وہ جو آپ نے دیکھا تھا اس آدمی کا جبڑا لوہے کے آنکس سے پھاڑا جارہا تھا تو وہ جھوٹا آدمی تھا جو جھوٹی باتیں بیان کیا کرتا تھا۔ اس سے وہ جھوٹی باتیں دوسرے لوگ سنتے۔ اس طرح ایک جھوٹی بات دور دور تک پھیل جایا کرتی تھی۔ اسے قیامت تک یہی عذاب ہوتا رہے گا۔”
سچ بولنے کا حکم قرآن و حدیث میں:
❄ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ [التوبہ: 119]
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہوجاؤ۔”
❄ یَاأَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِیْدًا. یُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَمَن یُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا [الأحزاب: 71-70]
’’اے ایمان والو ! تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور بات صاف سیدھی کیا کرو ۔ اس سے اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو درست کردے گا اور تمھارے گناہ معاف کردے گا ۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتا رہے اس نے یقینا بڑی کامیابی حاصل کر لی ۔‘‘
❄ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "تم صدق پر قائم رہو کیونکہ صدق نیکی کے راستے پر چلاتا ہے اور نیکی جنت کے راستے پر چلاتی ہے۔ انسان مسلسل سچ بولتا رہتا ہے اور کوشش سے سچ پر قائم رہتا ہے، حتی کہ وہ اللہ کے ہاں سچا لکھ لیا جاتا ہے اور جھوٹ سے دور رہو کیونکہ جھوٹ کج روی کے راستے پر چلاتا ہے اور کج روی آگ کی طرف لے جاتی ہے، انسان مسلسل جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کا قصد کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسے جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے۔”[مسلم: 6639]
سچ بولنا اعلٰی صفت ہے:
❄ جب رسول اکرم ﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ شدید پریشانی کے عالم میں گھر واپس لوٹے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا تھا:
فَوَ اللّٰهِ لَا یُخْزِیْکَ اللّٰهُ أَبَدًا،وَاللّٰهِ إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ،وَتَصْدُقُ الْحَدِیْثَ،وَتَحْمِلُ الْکَلَّ،وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ،وَتَقْرِی الضَّیْفَ،وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ [بخاری: 3 ، مسلم: 160] ’’اللہ کی قسم! آپ کو اللہ تعالیٰ کبھی رسوا نہ کرے گا۔ اللہ کی قسم! آپ تو صلہ رحمی کرتے ، سچ بولتے ، بوجھ اٹھاتے ، جس کے پاس کچھ نہ ہو اسے کما کر دیتے ، مہمان نوازی کرتے اور مصائب وآلام میں دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘
جھوٹ بولنا منافق کی نشانی:
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا ائْتُمِنَ خَانَ وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ [بخاری: 34-33 ، مسلم: 59-58]
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ وہ فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے۔ اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔‘‘ (بخاری و مسلم) اور دونوں کے ہاں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے: ’’جب لڑے تو گالی دے۔‘‘
مذاق میں جھوٹ بولنا:
❄ قَالَ بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ فَيَكْذِبُ وَيْلٌ لَهُ وَيْلٌ لَهُ [ترمذی: 2315 حسنہ الالبانی]
ترجمہ: معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا ہے: تباہی وبربادی ہے اس شخص کے لیے جو ایسی بات کہتاہے کہ لوگ سن کر ہنسیں حالانکہ وہ بات جھوٹی ہوتی ہے تو ایسے شخص کے لیے تباہی ہی تباہی ہے۔ پتہ چلا کہ جو مذاق میں جھوٹ بولتا ہے تا کہ لوگ ہنسیں اس کے لئے ہلاکت و بربادی ہے، اور جو شخص مذاق میں بھی جھوٹ چھوڑ دیتا ہے اس کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔
❄ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: أَنَا زَعِيمٌ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا، وَبِبَيْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَإِنْ كَانَ مَازِحًا، وَبِبَيْتٍ فِي أَعْلَى الْجَنَّةِ لِمَنْ حَسَّنَ خُلُقَهُ [ابوداؤد: 4800 حسنہ الالبانی]
ترجمہ: سیدنا ابوامامہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” میں ذمہ دار ہوں ایک محل کا ‘ جنت کی ایک جانب میں ‘ اس شخص کے لیے جو جھگڑا چھوڑ دے ‘ اگرچہ حق پر ہو۔ اور ایک محل کا ‘ جنت کے درمیان میں ‘ اس شخص کے لیے جو جھوٹ چھوڑ دے ‘ اگرچہ مزاح ہی میں ہو اور جنت کی اعلی منازل میں ایک محل کا اس شخص کے لیے جو اپنے اخلاق کو عمدہ بنا لے۔
بچوں کے ساتھ جھوٹ بولنا:
❄ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ , أَنَّهُ قَالَ: دَعَتْنِي أُمِّي يَوْمًا وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَاعِدٌ فِي بَيْتِنَا، فَقَالَتْ: هَا, تَعَالَ أُعْطِيكَ! فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: وَمَا أَرَدْتِ أَنْ تُعْطِيهِ؟ قَالَتْ: أُعْطِيهِ تَمْرًا، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَمَا إِنَّكِ لَوْ لَمْ تُعْطِهِ شَيْئًا كُتِبَتْ عَلَيْكِ كِذْبَةٌ [ابوداؤد: 4991 حسنہ الالبانی]
ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن عامر کہتے ہیں کہ ایک دن میری والدہ نے مجھے بلایا۔ ادھر آؤ ، چیز دوں گی اور رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر میں تشریف فر تھے۔ آپ ﷺ نے میری والدہ سے دریافت فرمایا ” تم اسے کیا دینا چاہتی ہو؟“ انہوں نے بتایا کہ میں اسے کھجور دینا چاہتی ہوں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا۔ ” اگر تم اسے کچھ نہ دیتیں تو تم پر ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا۔“پتہ چلا کہ بچوں کو بہلانے کے لئے بھی جھوٹ بولنا جائز نہیں۔

تین جگہوں پر جھوٹ بولنا جائز ہے:
❄ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَحِلُّ الْكَذِبُ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ يُحَدِّثُ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ لِيُرْضِيَهَا وَالْكَذِبُ فِي الْحَرْبِ وَالْكَذِبُ لِيُصْلِحَ بَيْنَ النَّاسِ [ترمذی: 1939 صححہ الالبانی]
ترجمہ: اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ‘صرف تین جگہ پر جھوٹ جائز اور حلال ہے ، ایک یہ کہ آدمی اپنی بیوی سے بات کرے تا کہ اس کو راضی کرلے ، دوسراجنگ میں جھوٹ بولنا اورتیسرا لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولنا’۔
2۔ قرآن کے مطابق عمل نہ کرنا
حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ مُضْطَجِعٍ عَلَى قَفَاهُ وَرَجُلٌ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِهِ بِفِهْرٍ أَوْ صَخْرَةٍ فَيَشْدَخُ بِهِ رَأْسَهُ فَإِذَا ضَرَبَهُ تَدَهْدَهَ الْحَجَرُ فَانْطَلَقَ إِلَيْهِ لِيَأْخُذَهُ فَلَا يَرْجِعُ إِلَى هَذَا حَتَّى يَلْتَئِمَ رَأْسُهُ وَعَادَ رَأْسُهُ كَمَا هُوَ فَعَادَ إِلَيْهِ فَضَرَبَهُ قُلْتُ مَنْ هَذَا قَالَا انْطَلِقْ
"ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سرپر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سرکو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سرپر پتھر مارتا تو سرپر لگ کروہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جاکر اٹھا لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہوجاتا۔ بالکل ویسا ہی جیسا پہلے تھا۔ واپس آکر وہ پھر اسے مارتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے.” جبریل اور میکائیل علیہما السلام نے بتایا کہ؛
وَالَّذِي رَأَيْتَهُ يُشْدَخُ رَأْسُهُ فَرَجُلٌ عَلَّمَهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَنَامَ عَنْهُ بِاللَّيْلِ وَلَمْ يَعْمَلْ فِيهِ بِالنَّهَارِ يُفْعَلُ بِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
"جس شخص کو تم نے دیکھا کہ اس کا سرکچلا جارہا تھا تو وہ ایک ایسا انسان تھا جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا لیکن وہ رات کو پڑا سوتا رہتا اور دن میں اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ اسے بھی یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا”
یہ سزا جس شخص کو ہو رہی تھی اس کے دو جرم تھے؛
1۔ ایک تو اسی حدیث میں بیان ہوا ہے کہ وہ قرآن پر عمل نہیں کرتا تھا اور اس نے قرآن کو پسِ پشت ڈال دیا تھا ، اس لئے اسے یہ عذاب دیا جا رہا تھا۔ یہ کوئی معمولی جرم نہیں کہ ایک مسلمان اور مومن قرآن کا علم ہونے کے باوجود اس پر عمل نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ [طٰہ: 124]
"اور جس نے میری نصیحت سے منہ پھیرا تو بے شک اس کے لیے تنگ گزران ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائیں گے۔”
قرآن مجید کے ایک اور مقام پر ہے کہ کل قیامت والے دن نبی اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ سے شکایت کریں گے کہ ان لوگوں نے قرآن کو چھوڑ دیا تھا اور پسِ پشت ڈال دیا تھا؛
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا [الفرقان: 30]
"اور رسول کہے گا اے میرے رب! بے شک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑا ہوا بنا رکھا تھا۔”
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا؛
وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ "قرآن تیرے لئے یا تیرے خلاف حجت (دلیل)ہے”
اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کل قیامت والے دن بندے کے حق میں گواہی دیے گا کہ یہ مجھ پر عمل کرتا تھا یا یہ قرآن مجید بندے کے خلاف حجت ہوگا کہ اللہ اس نے مجھ پر عمل نہیں کیا تھا۔
2۔ دوسرا اس کا جرم یہ تھا کہ وہ فرضی نماز کے سویا رہتا تھا اور فرضی نماز سے کوتاہی کرتا ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے؛
وَيَنَامُ عَنْ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ [بخاری: 7047]
فرض نماز کو چھوڑ کر سو جاتا۔
نماز عقیدہ توحید کے بعد سب سے اہم فریضہ ہے ، جو بندہ اس میں کوتاہی کرتا ہے اس شخص کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے۔
❄عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ [مسلم: 247]
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا: ’’ آدمی اور شرک و کفر کے درمیان (فاصلہ مٹانے والا عمل) نماز چھوڑنا ہے۔‘‘
❄سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌ﷺنے ایک دن نماز کا ذکر کیا اور فرمایا: جس نے نماز کی اچھی طرح حفاظت کی تو یہ اس کے لیے قیامت کے روز نور، دلیل اور نجات ہو گی اور جس نے اس کی پوری طرح حفاظت نہ کی تو یہ اس کے لیے قیامت کے دن نہ نور ہو گی، نہ دلیل اور نہ نجات اور ایسا آدمی قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہو گا۔ [مسند احمد: 1090 صححہ الالبانی]
3۔ زِنا
فَانْطَلَقْنَا إِلَى ثَقْبٍ مِثْلِ التَّنُّورِ أَعْلَاهُ ضَيِّقٌ وَأَسْفَلُهُ وَاسِعٌ يَتَوَقَّدُ تَحْتَهُ نَارًا فَإِذَا اقْتَرَبَ ارْتَفَعُوا حَتَّى كَادَ أَنْ يَخْرُجُوا فَإِذَا خَمَدَتْ رَجَعُوا فِيهَا وَفِيهَا رِجَالٌ وَنِسَاءٌ عُرَاةٌ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا قَالَا انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا
"ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں۔ میں نے اس موقع پر بھی پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لیکن اس مرتبہ بھی جواب یہی ملا کہا کہ ابھی اور آگے چلو”
جبریل اور میکائیل علیہما السلام نے بتایا کہ؛وَالَّذِي رَأَيْتَهُ فِي الثَّقْبِ فَهُمْ الزُّنَاةُ
"جنہیں آپ نے تنور میں دیکھا تو وہ زنا کار تھے۔”
زنا کی مذمت:
❄ وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا [بنی اسرائیل: 32]
"اور زنا کے قریب نہ جاؤ، بے شک وہ ہمیشہ سے بڑی بے حیائی ہے اور برا راستہ ہے۔”
❄ اللہ تعالیٰ عبادالرحمن (رحمان کے خاص بندوں) کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں
وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا [الفرقان: 68]
"اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ اس جان کو قتل کرتے ہیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ کرے گا وہ سخت گناہ کو ملے گا۔”
❄ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جو بدر کی لڑائی میں شریک تھے اور لیلۃالعقبہ کے (بارہ) نقیبوں میں سے تھے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس وقت جب آپ کے گرد صحابہ کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی فرمایا کہ مجھ سے بیعت کرو اس بات پر کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے ، چوری نہ کرو گے ، زنا نہ کرو گے ، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے اور نہ عمداً کسی پر کوئی ناحق بہتان باندھو گے اور کسی بھی اچھی بات میں (خدا کی) نافرمانی نہ کرو گے۔ جو کوئی تم میں (اس عہد کو) پورا کرے گا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے اور جو کوئی ان (بری باتوں) میں سے کسی کا ارتکاب کرے اور اسے دنیا میں (اسلامی قانون کے تحت) سزا دے دی گئی تو یہ سزا اس کے ( گناہوں کے) لیے بدلا ہو جائے گی اور جو کوئی ان میں سے کسی بات میں مبتلا ہو گیا اور اللہ نے اس کے ( گناہ) کو چھپا لیا تو پھر اس کا (معاملہ) اللہ کے حوالہ ہے ، اگر چاہے معاف کرے اور اگر چاہے سزا دے دے۔ (عبادہ کہتے ہیں کہ) پھر ہم سب نے ان (سب باتوں) پر آپ ﷺ سے بیعت کر لی۔ [بخاری: 18 ، مسلم: 1709] ❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا يَنْتَهِبُ نُهْبَةً يَرْفَعُ النَّاسُ إِلَيْهِ فِيهَا أَبْصَارَهُمْ حِينَ يَنْتَهِبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ [بخاری: 2475 ]
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، زانی مومن رہتے ہوئے زنا نہیں کرسکتا۔ شراب خوار مومن رہتے ہوئے شراب نہیں پی سکتا۔ چور مومن رہتے ہوئے چوری نہیں کرسکتا۔ اور کوئی شخص مومن رہتے ہوئے لوٹ اور غارت گری نہیں کرسکتا کہ لوگوں کی نظریں اس کی طرف اٹھی ہوئی ہوں اور وہ لوٹ رہا ہو۔
❄ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ: أَنْ يُرْفَعَ العِلْمُ وَيَثْبُتَ الجَهْلُ، وَيُشْرَبَ الخَمْرُ، وَيَظْهَرَ الزِّنَا [بخاری: 80 ، مسلم: 2671]
ترجمہ : حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ علامات قیامت میں سے یہ ہے کہ ( دینی ) علم اٹھ جائے گا اور جہل ہی جہل ظاہر ہو جائے گا۔ اور (علانیہ) شراب پی جائے گی اور زنا پھیل جائے گا۔
❄ سیدنا عبداللہ بن مسعود نے بیان کیا کہ ایک صاحب نے عرض کیا:
یا رسول اللہ! کون سا گناہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا ہے؟ فرمایا کہ تم اللہ کی عبادت میں کسی کو بھی شریک بناؤ حالانکہ تمہیں اللہ نے پیدا کیا ہے۔ پوچھا پھر کون سا؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے بچے کو اس خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا۔ پوچھا پھر کون سا؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الفرقان میں) اس کی تصدیق میں قرآن نازل فرمایا ؛وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا
"اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود باطل کو نہیں پکارتے اور جو کسی ایسے کی جان نہیں لیتے جسے اللہ نے حرام کیا ہے سوا حق کے اور جو زنا نہیں کرتے اور جو کوئی ایسا کرے گا وہ سخت گناہ کو ملے گا۔” [بخاری: 7532 ، مسلم: 86]
❄ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنْ الزِّنَا أَدْرَكَ ذَلِكَ لَا مَحَالَةَ فَزِنَا الْعَيْنَيْنِ النَّظَرُ وَزِنَا اللِّسَانِ النُّطْقُ وَالنَّفْسُ تَمَنَّى وَتَشْتَهِي وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ ذَلِكَ أَوْ يُكَذِّبُهُ
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر اس کے حصے کا زنا لکھ دیا ہے، وہ لامحالہ اپنا حصہ لے گا۔ آنکھ کا زنا (جس کا دیکھنا حرام ہے اس کو) دیکھنا ہے۔ زبان کا زنا (حرام بات) کہنا ہے، دل تمنا رکھتا ہے، خواہش کرتا ہے، پھر شرم گاہ اس کی تصدیق کرتی ہے (اور وہ زنا کا ارتکاب کر لیتاہے) یا تکذیب کرنی ہے (اور وہ اس کا ارتکاب نہیں کرتا۔)”
❄ عَنْ أَبِي هُرَيْرَة قال قَالَ رَسُول الله ﷺ إِذَا زَنَى الْعَبْدُ خَرَجَ مِنْه الْإِيمَان، وكان كَالظُّلَّة، فَإِذَا انْقَلَعَ مِنْهَا رَجَعَ إِلَيْه الْإِيْمَان [سلسلہ صحیحہ: 938]
"ابوہریرہ‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: جب بندہ زنا كرتا ہے توایمان اس سے نكل جاتاہےاورایك چھتری(سائے) كی طرح اس كے سر پر كھڑا ہوجاتا ہے۔ جب زنا سے رک/ ہٹ جاتا ہے توایمان اس كی طرف لوٹ آتا ہے۔ ”
مجھے زنا کی اجازت دیجئے: ❄ سیدنا ابو امامہ انصاری سے روایت ہے کہ ایک انصاری نوجوان، نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے زنا کی اجازت دیں، لوگ اس پر پل پڑے اور کہا: خاموش ہو جا، خاموش ہو جا تو،لیکن آ پ ﷺ نے اس نوجوان سے فرمایا: قریب ہو جا۔ پس وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب ہوکر بیٹھ گیا، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تو اپنی ماں کیلئے اس چیز کو پسند کرتا ہے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! ہرگز نہیں، اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسی طرح لوگ بھی اپنی ماؤں کیلئے اس برائی کو پسند نہیں کرتے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اچھا کیا تو اپنی بیٹی کے لئے اس چیز کو پسند کرے گا؟ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کر دے، آپ ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اس برائی کو اپنی بیٹیوں کے لئے پسند نہیں کرتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اچھا کیا تو زنا کو اپنی بہن کے لئے پسند کرتا ہے؟ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر فدا کرے، میں اپنی بہن کے لیے اس کو کبھی بھی پسند نہیں کروں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اپنی بہنوں کے لئے اس برائی کو پسند نہیں کرتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تو اس کو اپنی پھوپھی کے لئے پسند کرے گا؟ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم میں اس کو پسند نہیں کروں گا، اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر لوگ بھی اپنی پھوپھیوں کے لئے پسند نہیں کرتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اچھا یہ بتاؤ کہ کیا تو اس برائی کو اپنی خالہ کے لیے پسند کرے گا؟ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! میں اس کو پسند نہیں کروں گا، اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر لوگ بھی اپنی خالاؤں کے لئے اس برائی کو پسند نہیں کرتے، آپ ﷺ نے اپنا دست مبارک اس پر رکھا اور اس کے حق میں یہ دعا فرمائی:
” اے میرے اللہ! اس کے گناہ بخش دے، اس کے دل کو پاک کر دے اور اس کی شرمگاہ کو محفوظ کر دے۔”
اس کے بعد وہ نوجوان کسی چیز کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔
[مسند احمد: 6648 ، سلسلہ صحیحہ: 2819]
عبید بن عمیر رحمہ اللہ اور حسین عورت:
❄ عبید بن عمیر مکی ثقہ تابعی ہیں، اور فصیح و بلیغ ایسے کہ ابن عمر کیسے لوگ ان کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے، مجاہد ان پر فخر کیا کرتے تھے، امام عجلی الثقات میں ان کا قصہ احمد بن حنبل کی سند سے نقل کرتے ہیں، فرماتے ہیں؛
مکہ مکرمہ میں ایک جوان عورت رہا کرتی تھی، شادی شدہ تھی، اور بے پناہ حسن کی مالک،حسن جو بڑے بڑے بہادروں اور سورماؤں کو مرغ بسمل کی طریوں تڑپا دیوے، حسن جو غالب سے دیوان لکھوائے، اور حسن جو تاج محل بنوائے، راوی کنارے نور جہاں کی آرامگاہ کا منظر بھی حسن کی فسوں کاریوں کا مظہر، اور یہی حسن ملکوں میں جنگوں کا باعث بھی، لیکن یہاں اس حسن کا پالا ایک نئی مخلوق سے پڑا ہے، یہ خاتون ایک روز آئینہ دیکھ رہی تھی، جانے کیا سوجھی کہ شوہر سے گویا ہوئیں، حضور والا! کبھو ایسا بھی ہوگا کہ کوئی ابن آدم اس چہرے کو دیکھے اور دل نہ ہاردے؟ شوہر نے کہا : ہاں، ایک شخص ایسا بھی ہے، کہنے لگی کون؟ کہا: عبید بن عمیر، اسے شرارت سوجھی، کہنے لگی: آپ مجھے اجازت دیں، میں ابھی انہیں اپنی زلفوں میں باندھ کر حاضر کئے دیتی ہوں، شوہر نے اجازت دے دی، وہ عبید بن عمیر کے پاس آئی، کہا: مجھے تنہائی میں آپ سے کوئی ضروری مسئلہ پوچھنا ہے، چنانچہ عبید بن عمیر مسجد حرام کے ایک گوشے میں اس کے ساتھ الگ چلے گئے، تو اس نے اپنے چہرے سے نقاب سرکا دیا،اور اس کا چاند ایسا چہرہ قیامت ڈھانے لگا، عبید کہنے لگے: خدا کی بندی، اللہ دے ڈر جائیے، کہنے لگی: میں آپ کو دل دے بیٹھی ہوں، میرے متعلق غور فرما لیجئے، اشارہ دعوت گناہ کی طرف تھا، عبید بھلا کب جھانسے میں آتے تھے،وہاں تجھ کو دیکھا تو پھر اس کو نہ دیکھا کی سی کیفیت تھی، کہا: بی بی کچھ سوال پوچھنا چاہتا ہوں، جواب دو گی؟ اگر آپ جواب دینے میں کامیاب ہوجاتی ہیں، میں آپ کی دعوت پر غور کر لیتا ہوں:
فرمایا: موت کا فرشتہ روح قبض کرنے آجائے، تو کیا یہ گناہ اس وقت آپ کو اچھا لگے گا؟ کہنے لگی: ہر گز نہیں، فرمایا: لوگوں کے اعمال نامے دئیے جارہے ہوں اور تجھے اپنے نامہ اعمال کے تئیں معلوم نہ ہو کہ دائیں ہاتھ میں ملے گا یا کہ بائیں ہاتھ میں، تب یہ گناہ کیسا فیل کرو گی؟ اچھا پل صراط عبور کرتے سمے تجھے اس گناہ کی خواہش ہووے گی؟ عرض کیا کہ نہیں، فرمایا: اللہ کے حضور جب نامہ اعمال تولے جاویں گے، تب یہ گناہ اچھا لگے گا؟ کہا نہیں، پھر عبید نے اس کو مخاطب کیا، کہا: خدا کی بندی، اپنے خدا سے ڈر جا! اللہ نے تجھ پر انعام کئے ہیں، ان کا شکر بجا لا! یہ خاتون گھر لوٹ آئی، مگر یوں کہ دل کی دنیا بدل چکی تھی، دنیوی لذتیں اور شوخیاں بے حقیقت محسوس ہونے لگیں: شوہر نے پوچھا: کیا ہوا؟ کہنے لگی، مرد اگر عبادت کر سکتے ہیں تو ہم عورتیں کیوں نہیں؟ اور اس کے بعد وہ خاتون نماز اور روزے میں اس طور منہمک ہوئیں کہ اس کا خاوند کہا کرتا تھا، مجھے عبید کے پاس شرارت کے لئے بیوی کو بھیجنے کا مشورہ کس نے دیا تھا؟ اس نے تو میری بیوی بگاڑ کر رکھ دی، پہلے ہماری ہر رات شب زفاف تھی، اب اس کی ہر شب، شب زفاف بن گئی ہے، وہ راتوں کی راہبہ بن چکی۔ [کتاب الثقات للعجلی: 2/119]
زنا چھوڑنے کا انعام:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ نے فرمایا کہ سات طرح کے آدمی ہوں گے۔ جن کو اللہ اس دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا۔ جس دن اس کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ اوّل انصاف کرنے والا بادشاہ، دوسرے وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں جوانی کی امنگ سے مصروف رہا، تیسرا ایسا شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں لگا رہتا ہے، چوتھے دو ایسے شخص جو اللہ کے لیے باہم محبت رکھتے ہیں اور ان کے ملنے اور جدا ہونے کی بنیاد یہی للٰہی ( اللہ کے لیے محبت ) محبت ہے،
وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ، فَقَالَ: إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ
پانچواں وہ شخص جسے کسی باعزت اور حسین عورت نے ( برے ارادہ سے ) بلایا لیکن اس نے کہہ دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں،
چھٹا وہ شخص جس نے صدقہ کیا، مگر اتنے پوشیدہ طور پر کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہوئی کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔ ساتواں وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور ( بے ساختہ ) آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ ] بخاری 660 [
زانی کی حد(سزا):
اگرزانی شادی شدہ عاقل وبالغ ہےتواسے سنگسار کیا جائے گا حتیٰ کہ مرجائے،خواہ مرد ہو یا عورت۔ [ابن ماجہ: 2553 صححہ الالبانی]
اگر زنا کرنے والا غیر شادی شدہ ہوتو اس کی سزا سو کوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
الزّانِيَةُ وَالزّانى فَاجلِدوا كُلَّ و‌ٰحِدٍ مِنهُما مِا۟ئَةَ جَلدَةٍ .. [النور: 2]
"زنا کار عورت ومرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ۔”
کنوارے مرد کو سو کوڑے مارنے کے بعد ایک سال کے لیے جلاوطن کردیا جائے۔یہ حکم حدیث رسول ﷺ سے ثابت ہے،چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو سو کوڑے مارنے کا حکم دیا اور اسے جلاوطن بھی کیا تھا۔سیدنا ابوبکر اور عمر نے بھی زانی کو کوڑے مارے اور اسے جلاوطن کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:”الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ سَنَةٍ”
"کنوارہ مرد اور کنواری عورت زنا کریں تو(ان کی سزا سو) سوکوڑے ہیں اور(مرد پر) ایک سال کی جلاوطنی ہے۔”[مسلم: 1690]
حد کب لگانی ہے۔۔۔؟
کسی شخص پر زنا کی حد قائم کرنے سے قبل ضروری ہے کہ اس کا زناکرنا واضح طور پر ثابت ہو۔یہ ثبوت دو صورتوں میں سے کسی ایک صورت سے حاصل ہوسکتا ہے: 1۔ وہ شخص خود ہی چار مرتبہ اقرار واعتراف کرلے جیسا کہ ماعز بن مالک اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں حدیث میں وارد ہے کہ اس نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر چار مرتبہ زنا کااعتراف کیا۔
2۔ کسی کے زنا پر چار آدمی گواہی دے دیں تو اس پرحد جاری ہوجائے گی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:لَوْلَاجَاءُوا عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ [النور: 13]
"اگر وہ اس پر چار گواہ نہ لائے”
اورفرمان الٰہی ہے:وَالَّذينَ يَرمونَ المُحصَنـٰتِ ثُمَّ لَم يَأتوا بِأَربَعَةِ شُهَداءَ [النور: 4]
"جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں،پھر چار گواہ نہ پیش کریں۔”
نیز فرمان الٰہی ہے: فَاستَشهِدوا عَلَيهِنَّ أَربَعَةً مِنكُم [النساء : 15]
"ان پر اپنے میں سے چار گواہ طلب کرو۔”
حد کون لگائے گا۔۔۔؟
کسی نے مرد و عورت کو زنا کرتے ہوئے دیکھا اور اس کے پاس چار گواہ موجود ہیں تو وہ عدالت میں جائے. عدالت یا حاکمِ وقت ان پر حد لگائے گا.
4۔ سود
حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى نَهَرٍ مِنْ دَمٍ فِيهِ رَجُلٌ قَائِمٌ عَلَى وَسَطِ النَّهَرِ وَعَلَى شَطِّ النَّهَرِ رَجُلٌ بَيْنَ يَدَيْهِ حِجَارَةٌ فَأَقْبَلَ الرَّجُلُ الَّذِي فِي النَّهَرِ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ رَمَى الرَّجُلُ بِحَجَرٍ فِي فِيهِ فَرَدَّهُ حَيْثُ كَانَ فَجَعَلَ كُلَّمَا جَاءَ لِيَخْرُجَ رَمَى فِي فِيهِ بِحَجَرٍ فَيَرْجِعُ كَمَا كَانَ فَقُلْتُ مَا هَذَا قَالَا انْطَلِقْ
"ہم آگے چلے۔ اب ہم خون کی ایک نہر کے اوپر تھے نہر کے اندر ایک شخص کھڑا تھا اور اس کے بیچ میں ایک شخص تھا۔ جس کے سامنے پتھر رکھا ہوا تھا۔ نہر کا آدمی جب باہر نکلنا چاہتا تو پتھر والا شخص اس کے منہ پر اتنی زور سے پتھر مارتا کہ وہ اپنی پہلی جگہ پر چلا جاتا اور اسی طرح جب بھی وہ نکلنے کی کوشش کرتا وہ شخص اس کے منہ پر پتھر اتنی ہی زور سے پھر مارتا کہ وہ اپنی اصلی جگہ پر نہر میں چلا جاتا۔ میں نے پوچھا یہ کیاہورہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔
جبریل اور میکائیل علیہما السلام نے بتایا کہ
وَالَّذِي رَأَيْتَهُ فِي النَّهَرِ آكِلُوا الرِّبَا "جس کو آپ نے نہر میں دیکھا وہ سود خور تھا.”
رِبا (سود) کی تعریف:
رِبا عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی زیادتی، بڑھوتری اور اضافہ کے ہیں۔ اُردو زبان میں اس کے لئے سود کا لفظ استعما ل کیا جاتا ہے ،۱ سی سے ہی سودو زیاں ( نفع و نقصان )کالفظ بھی استعمال ہوتاہے۔ انگریزی میں Interest اور Usury ربا کے ہم معنی ہیں۔
شریعت کی اصطلاح میں سود سے مراد؛
”وہ مشروط اضافہ ہے جو معاہدئہ لین دین میں بغیر کسی حق کے حاصل کیا جاتا ہے”
سود کی مذمت :
❄ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ [البقرہ: 275]
"وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں، کھڑے نہیں ہوں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر خبطی بنا دیا ہو۔ یہ اس لیے کہ انھوں نے کہا بیع تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا، پھر جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے کوئی نصیحت آئے پس وہ باز آجائے تو جو پہلے ہوچکا وہ اسی کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جو دوبارہ ایسا کرے تو وہی آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔”
❄ يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ [البقرہ: 276]
"اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ایسے شخص سے محبت نہیں رکھتا جو سخت ناشکرا، سخت گنہگار ہو۔”
❄ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ "اے لوگو جو ایمان لائے ہو! مت کھاؤ سود کئی گنا، جو دگنے کیے ہوئے ہوں اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔” [البقرہ: 130]
❄ حضرت ابوہریرہ نے بیان کیا، کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ؛ سات مہلک گناہوں سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ کیا کیا ہیں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، ناحق کسی کی جان لینا جو اللہ نے حرام کیا ہے، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے دن پیٹھ پھیرنا اور پاک دامن غافل مومن عورتوں کو تہمت لگانا۔ [بخاری: 6857]
❄ عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ» [مسلم: 4098]
ترجمہ: حضرت جابر سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا: (گناہ میں) یہ سب برابر ہیں۔
❄ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَنْظَلَةَ الرَّاهِبِ مرفُوعاً: دِرْهَمٌ رِبًا يَأْكُلُهُ الرَّجُلُ وَهُوَ يَعْلَمُ أَشَدُّ عِند اللهِ مِنْ سِتَّةٍ وَثَلَاثِينَ زَنْيَةٍ [سلسلہ صحیحہ: 1247]
"عبداللہ بن حنظلہ راہب رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ:سود كا ایك درہم جو آدمی کھاتا ہےاوراسےمعلوم بھی ہو تو یہ اللہ كے نزدیك چھتیس مرتبہ زنا سے بدتر ہے۔”
❄ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِب مرفوعاً: الرِّبَا اثْنَان وَسَبْعُون بَابًا، أَدْنَاهَا مِثْلُ إِتْيَانِ الرَّجُلِ أُمَّهُ. [سلسلہ صحیحہ: 1250]
"براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ: سود كے بہتر(۷٢) درجےہیں، اس كا سب سے كم ترین درجہ آدمی كا اپنی ماں سے زنا كرنے كے برابر ہے۔”
❄❄❄❄❄