چند مذموم خصلتیں

﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ اَیْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰٓىِٕكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ وَ لَا یَنْظُرُ اِلَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْ ۪ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝﴾(آل عمران:77)

’’بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے عوض تھوڑی قیمت لیتے ہیں. وہ لوگ ہیں کہ ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اللہ قیامت کے دن نہ ان سے بات کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے ۔‘‘

گذشتہ خطبہ جمعہ المبارک میں بعض انسانوں میں پائی جانے والی چند ایسی صفات و عادات کا ذکر ہو رہا تھا، جو انسان کی شخصیت کو مجروح کر دیتی اور مکروہ بنا دیتی ہیں اس کے نفس کو آلودہ کر دیتی ہیں، معاشرے میں فساد اور بگاڑ پیدا کرتی اور اسے بے رنگ بنا دیتی ہیں، اس میں کوئی رونق اور رعنائی باقی نہیں رہنے دیتیں، ہر طرف خود غرضی، مطلب پرستی اور نفسا نفسی نظر آنے لگتی ہے۔

انسان کی دو صفات ذمیمہ معاشرے میں عام ہونے اور رواج پا جانے کی وجہ سے اس شدت سے بری محسوس نہیں ہوتیں جتنی کہ حقیقت میں وہ شدید قبیح ہوتی ہیں۔ وہ خصال رذیلہ معاشرے پر بڑے گہرے منفی اثرات چھوڑتی ہیں اور آخرت میں بھی ان کا انجام نہایت سخت ترین بتلایا گیا ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالی ایسے لوگوں کی طرف قیامت کے دن دیکھیں گے بھی نہیں، اور اللہ تعالی کا کسی کی طرف نہ دیکھنے کا مطلب آپ جانتے ہیں کہ ناراضی ، قصہ اور غضب ہے۔ اعاذنا الله منه ۔ اللہ تعالی ہمیں اپنے غضب سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین۔

گذشتہ خطبہ جمعہ میں جن بری خصلتوں کا ذکر ہوا ان میں سے ایک یہ ہے کہ کسی ضرورت مند اور پیاسے مسافر کو اپنی ضرورت سے زائد اور فالتو پانی دینے سے انکار کر دینا۔

اور ایک خصلت جھوٹی قسمیں کھا کھا کر مال تجارت بیچنا، اور اسی طرح ایک بری خصلت کسی سے کوئی نیکی کر کے اس پر احسان جتلانا ہے۔ اسی طرح کئی ایک اور بھی بری خصلتیں ہیں جیسا کہ بڑھاپے کی عمر میں بدکاری کرنا، شراب کا رسیا ہونا، دیوث ہونا، عورت کا مردوں سے مشابہت اختیار کرنا وغیرہ۔

جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا: ((ثَلاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَومَ القِيامَةِ، وَلا يُزَكِّيْهِمْ وَلا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ، شَيْخٌ زَانٍ وَمَلِكٌ كَذَّابٌ، وَعَائِلٌ مُسْتَكْبِرٍ)) . (مسلم:107)

’’فر مایا: تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالی جن سے ہم کلام ہوگا نہ ان کا تزکیہ کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے بلکہ ان کے لیے عذاب الیم ہے۔ بوڑھا زانی، جھوٹا بادشا اور فقیر اور نادار متکبر۔‘‘

سوال یہ ہے کہ بدکاری ہر صورت میں ہر حال میں اور ہر عمر میں حرام اور قبیح و شنیع فعل پھر خصوصی طور پر بڑھاپے کی عمر میں ہی اس کو اس قدر سنگین جرم کیوں قرار دیا گیا ہے؟

 تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جوانی میں اگر کوئی شخص اس برائی کا مرتکب ہوتا ہے تو اگر چہ وہ بھی حرام کا مرتکب ہی ہوتا ہے مگر اس میں خفت یا اس کی سنگینی میں کمی کے کئی ایک اسباب ہوتے ہیں۔

جوانی کی عمر میں انسان کی تمام قوتیں اپنے عروج پر ہوتی ہیں، عقل پر جذبات کا غلبہ ہوتا ہے، شیطان کے حملے شدید ہوتے ہیں، ماحول کا اور بری مجلسوں کا اثر ہوتا ہے، ہر طرف فتنے اور آزمائشیں ہوتی ہیں۔

تو انسان ان تمام قوتوں کا مقابلہ نہیں کر پاتا ان کے سامنے ڈھیر ہو جاتا ہے، شکست کھا جاتا ہے۔ جبکہ بڑھاپے کی عمر میں پہنچ کر تجربات اور مشاہدات سے آدمی کی عقل پختہ ہو جاتی ہے، اس کے قول و فعل میں سنجیدگی آجاتی ہے اس کے طرز عمل میں تحمل اور بردباری آجاتی ہے، جذبات میں ٹھہراؤ پیدا ہو جاتا ہے اور ان پر عقل غالب ہو جاتی ہے جسمانی قوتیں مضمحل ہو چکی ہوتی ہیں، برائی کی طرف جانے والے راستے ایک ایک کر کے اس کے سامنے بند ہوتے چلے جاتے ہیں، لہٰذا اب بھی اگر وہ اس برائی کا مرتکب ہوتا ہے تو جذبات سے مغلوب ہو کر نہیں بلکہ جان بوجھ کر اور اس کے انجام کو نظر انداز کرتے اور دین کا استخفاف کرتے ہوئے وہ  خود برائی کے راستے تلاش کرتا ہے۔

 اسی طرح جھوٹا بادشاہ ہے، اب جھوٹ بھی ہر حال میں منع اور حرام ہے، لیکن بادشاہ کے جھوٹ کو اس قدر سنگین کیوں قرار دیا گیا ؟

اس لیے کہ عموماً انسان جھوٹ کسی مجبوری اور ڈر اور خوف کی وجہ سے بولتا ہے، مگر کسی بادشاہ کو تو کسی کا ڈر اور خوف نہیں ہوتا، کوئی مجبوری نہیں ہوتی مگر پھر بھی وہ جھوٹ بولتا ہے تو مطلب ہے کہ اس کے نزدیک دین کی کوئی اہمیت نہیں، جھوٹ کو برائی نہیں سمجھتا اور جھوٹ سے بچنے کی کوشش ہی نہیں کرتا بلکہ شوق سے جھوٹ بولتا ہے۔

اسی طرح تیسرا شخص (عائل مستکبر ) کوئی فقیر اور تنگ دست انسان تکبر کرتا ہو۔ تکبر بھی ہر حال میں حرام ہے اور ہر شخص پر حرام ہے چاہے وہ امیر ہو یا غریب۔ الا یہ کہ میدان جنگ میں متکبرانہ چال چلنا، اکڑ کر چلنا جائز اور اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے۔

((وَأَمَّا الخيلاء التي يُحِبُّ اللهُ فَاخْتِيَالُ الرَّجُلِ بِنَفْسِهِ عِنْدَ الْقِتَالِ)) (مسند احمد، ج:5، ص:446 ، رقم:23803)

’’متکبرانہ چال جو اللہ تعالی کو پسند ہے وہ وہ ہے جو انسان میدان جنگ میں چلتا ہے۔‘‘

تو تکبر ہر شخص کے لیے حرام ہے لیکن اگر کوئی فقیر اور مفلوک الحال شخص تکبر کرتا ہے تو وہ تکبر زیادہ نشین ہوگا، اور اس کی وجہ یہ ہے تکبر عموماً مال و دولت اور قوت و طاقت کی وجہ سے ہوتا ہے، لہٰذا امیر آدمی اگر تکبر کرتا ہے تو اگر چہ اس کا تکبر بھی حرام ہی ہوگا مگر اس کے تکبر کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہوتی ہے، جبکہ غریب آدمی کا تکبر جیسے ہمارے معاشرے میں چوہڑے کی اکڑ یعنی بھنگی کی اکڑ کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہوتا ہے کہ تکبر کا کوئی سبب اور سامان تو ہے نہیں پھر کس بات پر اکڑ رہا ہے! یعنی اس کو تکبر زیب نہیں دیتا۔ اسی طرح کسی انسان کو بھی تکبر زیب نہیں دیتا کیونکہ انسان محتاج ہے اور ضرورت مندہ محتاج اور فقیر ہو کر بھی تکبر کرے تو چوہڑے کی اکڑ ہی کہلائے گی۔ تو غریب آدمی کا تکبر کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے محبت باطنی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اسی طرح چند اور بری خصلتیں بھی حدیث میں بیان ہوئی ہیں جن کے معاشرے پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور عند اللہ بھی انہیں سنگین جرائم گردانا گیا ہے۔جیسا کہ حدیث میں، آپﷺ نے فرمایا:

((ثلاثة لَا يَنظُرُ اللَهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ))

’’تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالی جن کی طرف دیکھے گا نہیں۔‘‘

((الْعَاقُّ لِوَالِدَيْهِ))

’’والدین کا نافرمان ۔‘‘

 ((والمرأة المترجلة))

’’مرد نما عورت‘‘

((وَالدَّيُّوْثُ))

’’اور دیوث‘‘

((وَثَلَاثَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ))

’’اور تین قسم کے لوگ جنت میں داخل نہیں ہوں گے ۔‘‘

((الْعَاقُ لِوَالِدَيْهِ))

’’والدین کا نا فرمان‘‘

((وَمُدْ مِنُ الْخَمْرِ))

’’اور شراب کا رسیا، نشے کا عادی ۔‘‘

((وَالْمَنَّانُ بِمَا أَعْطٰی)) (النسائی:2562)

’’اور کچھ دے کر، نیکی کر کے احسان جتلانے والا۔‘‘

والدین کی نافرمانی کے بارے میں تو آپ نے پہلے بہت کچھ سنا ہوگا۔ کیونکہ خطبات جمعہ میں اور تقریروں میں اس موضوع کو اکثر بیان کیا جاتا ہے، اس لیے زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں رہی۔

لہٰذا اس بارے میں صرف اتنا عرض کرنے پر ہی اکتفا کروں گا کہ اولاد پر والدین کے اتنے زیادہ حقوق شاید اس لیے رکھے گئے ہیں کہ والدین کے اولاد پر بہت زیادہ احسانات میں سے ایک سب سے بڑا احسان دنیا میں ان کے وجود کا ذریعہ بنتا ہے۔

اور دوسرا بڑا احسان نہایت ہی پیار، محبت اور شفقت کے ساتھ انہیں بچپن میں پالنا ہے۔

والدین اپنی اولاد کو کس طرح پالتے پوستے ہیں، کس قدران سے پیار کرتے ہیں، اولاد اس کو نہیں سمجھ سکتی ، صرف والدین ہی جانتے ہیں۔

بہت سے بچے اپنے والدین سے شکوہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ آپ نے ہمارے لیے کیا گیا۔ وہ شاید اس بات کو والدین کی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ والدین ان کے لیے کوئی بہت بڑا بینک بیلنس چھوڑ کے جائیں یا انہیں کوئی چلتا ہوا بزنس دے کر جائیں۔ حالانکہ یہ بات عقلی طور پر والدین کی ذمہ داری بنتی ہے اور نہ شرعی طور پر۔  البتہ والدین کی یہ ذمہ داری ضرور ہے کہ وہ اولاد کے اچھے نام رکھیں اور اچھی تربیت کریں۔ اور اس سے بھی پہلے والد کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ہونے والی اولاد کے لیے اچھی اور شریف ماں کا انتخاب کرے۔

اور جہاں تک مال و دولت کا تعلق ہے، وہ اللہ تعالی کی تقسیم ہے اس کا علم عقل اور محنت سے قطعًا کوئی تعلق نہیں، لیکن پھر بھی مقدور بھر محنت اور کوشش کرنا ضروری ہے۔

والدین کی نافرمانی کے بعد دوسرا جو سنگین اور گھناؤنا جرم حدیث میں بیان ہوا ہے وہ ہے۔

((اَلمَرْأَةُ الْمَتَرَجِّلَة))

’’مرد نما عورت۔‘‘

یعنی وہ عورت جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہے، لباس میں، چال ڈھال میں، گفتگو میں، بود و باش میں اور رہن سہن میں۔

اور ایک دوسری حدیث میں ایسے مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ایسی عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں، آپﷺ نے لعنت فرمائی ہے۔

حدیث میں ہے کہ ((لَعَنَ رَسُولُ اللهِ الْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ))

’’آپﷺ نے ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں سے مشابہت کرتے ہیں ۔‘‘

((وَالْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ)) (بخاری:5885)

’’اور ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو مردوں سے مشابہت کرتی ہیں ۔‘‘

 اسی طرح تیسری نہایت ہی مکروہ خصلت یہ بیان ہوئی کہ کسی مرد کا دیوث ہونا، اور دیوث کسے کہتے ہیں؟

((الَّذِي يُقِرُّ الخُبْثَ فِي أَهْلِهِ)) (مسند احمد، ج:2، ص:104، رقم:5814)

’’جو اپنے گھر والوں میں خباثت کا اقرار کرتا ہے، یعنی برائی دیکھ کر خاموش رہتا ہے۔‘‘

یہاں خباثت سے مراد زنا اور اس کے مقدمات و شروعات ہیں، زنا کے مقدمات کیا ہوتے ہیں، ہر وہ  کام جو آہستہ آہستہ انسان کو زنا تک پہنچا دے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ اس کی ابتداء بات چیت سے ہوتی ہے، پھر غیر محرم مردو عورت کا آپس میں ہنس ہنس کے باتیں کرنا۔

 آج ہمارے معاشرے میں ان چیزوں کو ماڈرن ، براڈ مائنڈڈ ، جدت پسند، ترقی یافتہ اور روشن خیال ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ روشن خیالی نہیں بلکہ اندھیر نگری ہے، غیرت کا فقدان ہے، معاشرے کی تباہی و بربادی کے اسباب میں سے ایک بہت بڑا سبب ہے۔ غیرت کی ضرورت و اہمیت اور اس کی تاکید و ترغیب معلوم کرنا ہو تو قرآن و حدیث بھرے پڑے ہیں، غیرت کے نمونے دیکھنے ہوں تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم زندگیوں کا مطالعہ کریں۔

 شرم و حیاء اسلام کا شعار ہے، اور ہمارے اسلاف کی تہذیب ہے۔ اور غیرت مردانگی کی علامت ہے، مردانگی کا مطلب مرد ہوتا نہیں بلکہ کچھ اوصاف کا نام مردانگی ہے، جن میں بہادری، سخاوت، گرفت کی قدرت رکھنے کے باوجود درگزر کرنا، اور غیر محرم عورت کو دیکھ کر نظریں نیچی کر لینا وغیرہ۔

اور یہ کوئی بہت پرانی بات بھی نہیں، ماضی قریب میں ہمارے معاشرے میں یہ شرم وحیا اور مردانگی اور غیرت موجود رہی ہے۔ جب اپنے محلے اور گاؤں کی بیٹی گلی بازار سے گزر رہی ہوتی تو آدمی نظریں نیچی کر کے اور سر جھکا کر گزر جاتے ۔ مگر آج کا نوجوان دور سے آتی ہوئی سے لڑکی کو دیکھ کر بال سنوار نا شروع کر دیتا ہے اور جب وہ قریب آتی ہے تو گانا گنگناتے ہوئے گھور گھور کر دیکھنے لگتا ہے۔ اور سبب یہ ہے کہ غیرت کا فقدان ہے۔ غیرت صرف یہی نہیں ہے کہ اپنی عورتوں کو درندوں اور بھیڑیوں سے بچا ئیں بلکہ غیرت یہ بھی ہے کہ اپنی نظریں بھی نیچی رکھیں، یہی قرآن کا حکم ہے۔

تو دیوث کا مفہوم بہت وسیع ہے، اس کے مفہوم میں یہ بات تو شامل ہے کہ آدمی اس بات کی پرواہ نہ کرے کہ اس کے گھر میں کون آتا اور کون جاتا ہے، بلکہ اس کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آپ کی بیٹی، بیوی، بہن اور ماں کا لباس کیسا ہے، وہ کس طرح کا لباس پہن کر باہر جاتی ہے اور کیوں جاتی ہے؟ اور یہ ان پر ناروا پابندی اور قد غن نہیں بلکہ ان کی عزت اور شرافت کی حفاظت ہے، ان کے مقام اور مرتبے کا اعتراف اور اہتمام ہے۔

آج ہمارے معاشرے میں کچھ خود ساختہ رشتوں کو متعارف کروا کے غیر محرم مرد و عورت کے میل جول کا جواز مہیا کیا جاتا ہے، کوئی بھائی بن جاتا ہے، کوئی بہن بن جاتی ہے۔ کوئی بھابی بن جاتی ہے۔

اسلام مرد کے سگے بھائی کو اس کی بیوی کے لیے موت قرار دیتا ہے، آپ ﷺسے دریافت کیا گیا کہ: (اَرَاَیْتَ الْحَمْوَ) کہ آپ دیور کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟

فرمایا: ((اَلْحَمْوُ الْمَوْتُ)) فرمایا: ’’دیور موت ہے۔‘‘(بخاری:5232)

ہمارے معاشرے میں کسی قدر بگاڑ واقع ہو چکا ہے، آپ لوگ اس سے بے خبر نہیں ہیں، اپنے قرب و جوار سے حالات معلوم کرتے ہوں گے، ٹی وی اور اخبارات میں سنتے اور پڑھتے ہوں گے۔

آج امت مسلمہ میں کیسے کیسے گھناؤنے امور اور قابل نفرت چیزیں در آئی ہیں کہ کہتے اور سنتے بھی شرم آتی ہے، مگر آپ ﷺ نے ان سے پیشگی خبردار کر رکھا ہے تا کہ امت ان صحیح چیزوں سے باز رہے۔ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:

((لَا يَنظُرُ اللهُ إِلَى رَجُلٍ أَتَى رَجُلًا أَوِ امْرَأَةً فِي دُبُرِهَا)) (مصنف ابن أبي شيبة، ج:1، ص:251، رقم:17070)

’’اللہ تعالی ایسے شخص کی طرف نہیں دیکھیں گے جس نے کسی مرد کے ساتھ نا جائز تعلقات قائم کیے یا عورت کے پاس غیر فطری راستے سے آیا۔‘‘

 یہ کتنے فتیح افعال ہیں ہر فطرت سلیمہ رکھنے والاشخص ان کی قباحت و شناعت کو سمجھ سکتا ہے، ایسے گندے اور غلاظت بھرے اخلاق کا حامل شخص اس قدر انسانیت کے مقام سے اپنے آپ کو گرا  لیتا ہے کہ جانوروں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے کیونکہ جانوروں میں بھی یہ غیر فطری فعل اور بد تمیزی یا بد اخلاقی نہیں پائی جاتی۔

 امت مسلمہ میں ایسے افعال شنیعہ کی پیشین گوئی آپﷺ نے فرما رکھی ہے، جب آپ ﷺنے فرمایا:

((لَتَسْلُكُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حَذْوَا النَّعْلِ بِالنَّعْل)) (مستدرك الحاكم، ج:1، ص:219 ، رقم:445)

’’تم ضرور گزشتہ قوموں کے طریقے پر چلو گے جیسے جوتا جوتے کے برابر ہوتا ہے۔‘‘

 مسلم معاشرے میں یہ بد اخلاقیاں کہاں سے آئی ہیں یہ جاننا کوئی مشکل نہیں، مگر شاید کوئی جانتا نہیں چاہتا، یہ چیزیں آزادی کا تحفہ ہیں، آزادی جو ہم نے اپنے آپ کو دے رکھی ہے، اپنے بچوں کو دے رکھی ہے اپنے اہل خانہ کو دے رکھی ہے۔ اس بے راہ روی کا کون ذمہ دار ہے، ہر شخص اپنے اپنے دائرے میں اپنی اپنی حیثیت میں اس کا جواب دہ ہوگا۔

((كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ)) (بخاری:5200)

’’تم میں سے ہر کوئی حکمران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا۔‘‘

باپ ہے، بھائی ہے، خاوند ہے، بیٹا ہے، جہاں جہاں کسی کی ذمہ داری بنتی ہے وہ خوب سمجھتا ہے اور اسے قیامت کے دن جواب دہ ہوتا ہوگا۔

 غزوہ خندق کے موقع پر ایک صحابی جن کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اجازت لے کر دو پہر کے وقت گھر جاتے، ایک دن دیکھا کہ بیوی دروازے پر کھڑی ہے، فورًا نیز و سیدھا کیا، عورت نے کہا: ٹھہر جاؤ پہلے اندر جائے تو دیکھ لو کہ میں باہر کیوں آئی ہوں وہ اندر گئے تو ایک اژدها بستر پر دیکھا، انہوں نے اس سانپ کو نیزے پر اٹھا لیا، سانپ تو مر گیا مگر ساتھ ہی وہ صحابی بھی فوت ہو گئے ۔ حضرت ابوسعید الخدری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ:

((فَمَا يُدْرَى أَيُّهُمَا كَانَ أَسْرَعُ مَوْتًا الْحَيَّةُ أَمِ الفَتٰى)) (مسلم:2236)

’’یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان دونوں میں سے پہلے کون فوت ہوا سانپ یا وہ نو جوان‘‘

 واقعہ مشہور  ہے پورا قصہ تو آپ نے سن رکھا ہوگا ۔ اس میں سے جو بات معاشرے میں خرابی اور بگاڑ کے اسباب کے حوالے سے اس وقت یہاں ذکر کرنا مقصود تھی وہ یہ ہے کہ اس صحابی کی حیاء اور غیرت نے یہ گوارا نہ کیا کہ ان کی بیوی گھر کے دروازے پر جا کر بھی کھڑی ہو۔ چہ جائیکہ وہ گھر سے باہر جائے اور مردوزن کا اختلاط ہو، اور معاشرے کی خرابی کا سبب بنے۔

……………..