داغ لگوانے کا فائدہ یقینی ہو اور اس کے بغیر چارہ نہ ہو تو اس کے ذریعے سے علاج جائز بصورت دیگر نا جائز ہے بشرطیکہ عقیدہ یہ ہو کہ یہ محض سبب ہے، شفا دینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، نیز تندرست آدمی کے لیے داغ لگوانا حرام ہے

777۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما  نبی اکرمﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

((الشِفَاءُ فِي ثَلَاثَةٍ فِي شَرْطَةِ مِحْجَمٍ، أَوْ شَرْبَةِ عَسَلٍ، أَوْ كَيَّةٍ بِنَارٍ، وَأَنْهٰی أُمَّتِي عَنِ الْكَيِّ)) (أخرجه البخاري: 5680،5681)

’’شفا تین چیزوں میں ہے: سینگی کے پچھنے، شہد پینےیا آگ سے داغنے میں لیکن میں اپنی امت کو داغنے سے منع کرتا ہوں۔‘‘

توضیح و فوائد: مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں علاج میں بہت زیادہ موثر ہیں۔ یہ مقصد نہیں کہ علاج کے لیے کوئی اور طریقہ اختیار ہی نہیں کیا جاسکتا۔ پرانے وقتوں میں کسی کا زخم خراب ہو جاتا تھا تو اس کا طریقہ علاج یہ تھا کہ تیل گرم کر کے زخم میں ڈالا جاتا یا لوہا گرم کر کے اس زخم کے اوپر لگایا جاتا تھا۔ اس عمل کو داغنا کہتے ہیں۔ اگر کوئی معتبر ڈاکٹر صرف یہی علاج تجویز کرے تو جائز ہے۔ بصورت دیگر دوسرے ذرائع اختیار کرنے چاہئیں۔ جن احادیث میں داغ لگا کر علاج کرانے کی ممانعت ہے، وہ ممانعت از راہ کراہت کی گئی ہے۔

778۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

((إِنْ كَانَ فِي شَيْءٍ مِنْ أَدْوِيَتِكُمْ … أَوْ يَكُونُ فِي شَيْءٍ مِنْ أَدْوِيَتِكُمْ … خَيْرٌ فَفِي شَرْطَةِ مِحْجَمٍ، أَوْ شَرْبَةِ عَسَلٍ، أَوْ لَذْعَةٍ بِنَارٍ تُوَافِقُ الدَّاءَ، وَمَا أُحِبُّ أَنْ أَكْتَوِيَ)) (أخرجه البخاري: 5683، 5702 5704، ومسلم:2205)

’’اگر تمھاری دواؤں میں سے کسی چیز میں شفا ہے تو وہ سینگی کے پچھنے لگوانے، شہد پینےیا آگ سے داغ دینے میں ہے جبکہ یہ بیماری کے موافق ہو لیکن میں آگ سے داغ دینے کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

779۔ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:

((نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنِ الكَيِّ، فَاكْتَوَيْنَا، فَمَا أَفَلَحْنَا وَلَا أَنْجَحْنَا)) (أخرجه أحمد: 19831، 19864، والترمذي: 2049، وابن حبان: 6061، والْحَاكِم:213/4)

’’رسول اللہﷺ نے ہمیں داغنے سے منع فرمایا لیکن ہم نے دغوایا تو ہم نے نہ نجات پائی اور نہ فلاح‘‘

780۔ سیدنا عمران بن حصینﷺ فرماتے ہیں:

((كَانَ يُسَلِّمُ عَلَىَّ حَتَّى اكْتَوَيْتُ، فَتْرِكْتُ، ثُمَّ تَرَكْتُ الْكَيَّ، فَعَادَ)) (أخرجه مسلم:1226)

’’مجھے فرشتوں کی طرف سے سلام کیا جاتا تھا لیکن جب میں نے بواسیر کی بنا پر اپنے آپ کو دغوایا تو مجھے (سلام کہنا) چھوڑ دیا گیا، پھر میں نے دغوانا چھوڑ دیا تو وہ (فرشتوں کا سلام) دوبارہ شروع ہو گیا۔‘‘

781۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

((مَنِ اكْتَوٰى أَوِ اسْتَرْقٰى فَقَدْ بَرِيءَ مِنَ التَّوَكَّلِ)) (أخرجه أحمد: 18180، 18200، والترمذي: 2055، وابن ماجه: 3489، وابن حبان:6087)

’’جس شخص نے خودکو دانا یا دم کروایا تو وہ توکل سے محروم ہو گیا۔‘‘

توضیح و فوائد: مطلب یہ ہے کہ اس میں توکل کا اعلی درجہ نہیں رہتا اور ایسا کرنا کمال توکل کے منافی ہے کیونکہ بار بار دانے یا دم کرانے اور صحت یاب ہونے سے ولی میلان کچھ نہ کچھ داغ لگانے اور دم کرنے والے کی طرف ہو جاتا ہے جو کمال توکل کے منافی ہے۔

782۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ چند لوگ نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے کہا: ہمارے ایک ساتھی کو تکلیف ہو رہی ہے، کیا ہم (لوہے کے ساتھ) اسے داغ دیں؟

(راوی حدیث ) کہتے ہیں: آپ ﷺ خاموش رہے، انھوں نے پھر پوچھا: کیا اسے داغ دیں؟ آپ پھر خاموش رہے، بعد ازاں فرمایا: ((إِكْوُوهُ وَأَرْضِفُوهُ رَضْفًا)) (أخرجه أحمد: 3701، 3852، 4021، 4054، والحاكِم:416/4، وَصَحَّحَهُ ووافقه الذَّهَبِي)

’’اسے داغ دو لیکن اسے گرم پتھر کے ساتھ اچھی طرح داغنا۔‘‘

783۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ سیدنا سعد بن معاذ ﷺ (کے بازو) کی رگ اکحل میں تیر لگا تو نبیﷺ نے انھیں اپنے دست مبارک سے تیر کے پھل کے ساتھ داغا، پھر وہ (مقام رگ) سوج گیا تو آپ نے دوبارہ اس پر داغ لگایا۔(أخرجه مسلم:2208)

784۔ سیدنا عمران بن حسین رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ))

’’میری امت کے ستر ہزار افراد حساب کے بغیر جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘

صحابہ کرام نے پوچھا: اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:

((هُمُ الَّذِينَ لَا يَكْتَوُونَ، وَلَا يَسْتَرْقُونَ، وَعَلٰى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ))

’’وہ ایسے لوگ ہیں جو دانھنے کے عمل سے علاج کراتے ہیں نہ دم کراتے ہیں اور اپنے رب پر کامل بھروسا کرتے ہیں۔‘‘

عکاشہ رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کی: اللہ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے بھی ان میں (شامل) کر دے۔

آپﷺ نے فرمایا: ((أنت منهم)) ’’تم ان میں سے ہو۔‘‘

 (عمران) کہتے ہیں: پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا:

اللہ کے نبی! اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ مجھے (بھی) ان میں (شامل) کر دے، آپﷺ نے فرمایا:

((سَبَقَكَ بِهَا عُكاشه)) ’’اس (درخواست) میں عکاشہ تم سے سبقت لے گئے ہیں۔‘‘ (أخرجه مسلم: 318)