درجات جنت

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ وَ سَارِعُوْۤا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ﴾ [آل عمران: 133]
’’اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ جو پرہیز گاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘
یوں تو جنت کے بے شمار درجات ہیں مختلف لوگ مختلف درجات میں ہوں گے اور جنت کے درجات کی کثرت کا اندازہ اس حدیث سے بھی ہوتا ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ فِي الْجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ أَعَدَّهَا اللهُ لِلْمُجَاهِدِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ. مَا بَيْنَ الدَّرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَاسْأَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّهُ أَوسَطُ الْجَنَّةِ وَأَعْلَى الْجَنَّةِ، أَرَاهُ فَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ وَمِنْهُ تَفَجَّرُ انْهَارُ الْجَنَّةِ) [صحیح البخاري، كتاب الجهاد، باب درجات المجاهدين في سبيل الله (2790)]
’’بلا شبہ جنت کی سو منزلیں ہیں۔ اللہ تعالی نے ان کو ان لوگوں کے لیے تیار کیا ہے جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں۔ دو منزلوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا ز مین اور آسمان کے درمیان ہے۔ پس جب تم اللہ سے سوال کرو تو اس سے جنت الفردوس کا سوال کرو اس لیے کہ وہ افضل و اعلیٰ جنت ہے۔ اس کے او پر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے اور اس سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔‘‘
جب صرف مجاہدین کے لیے 100 درجات ہیں تو تمام درجات کسی قدر زیادہ ہوں گے۔ لیکن جنت میں داخل ہونے والے لوگوں کی بنیادی چار قسمیں ہیں:
پہلی قسم:
السابقون: نیکی کے میدان میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرنے والے جن کی دوڑ جن کا مقابلہ جن کی ساری محنت و کوشش ہی یہ ہے کہ کوئی نیکی ہاتھ سے کلنے نہ پائے اور ہم سارے لوگوں سے نیکی کے میدان میں آگے نکل جائیں وہ دنیا کو محض ایک ضرورت سمجھتے ہوئے محدود حد تک حاصل کرتے ہیں اور آخرت ان کی منزل اور نصب العین ہے۔
اس پہلی قسم کا تذکرہ اللہ رب العزت نے سورۃ الواقعہ میں فرمایا ہے: ﴿وَ السّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَۚۙ۝۱۰ اُولٰٓىِٕكَ الْمُقَرَّبُوْنَۚ۝۱۱ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ۝۱۲ ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَۙ۝۱۳ وَ قَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَؕ۝۱۴ عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَةٍۙ۝۱۵ مُّتَّكِـِٕیْنَ عَلَیْهَا مُتَقٰبِلِیْنَ۝۱۶ یَطُوْفُ عَلَیْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَۙ۝۱۷ بِاَكْوَابٍ وَّ اَبَارِیْقَ ۙ۬ وَ كَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍۙ۝۱۸ لَّا یُصَدَّعُوْنَ عَنْهَا وَ لَا یُنْزِفُوْنَۙ۝۱۹ وَ فَاكِهَةٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَۙ۝۲۰ وَ لَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَهُوْنَؕ۝۲۱ وَ حُوْرٌ عِیْنٌۙ۝۲۲ كَاَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُوْنِۚ۝۲۳ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۲۴﴾[الواقعة: 10-24]
’’اور جو آگے والے ہیں وہ تو آگے والے ہی ہیں۔ وہ بالکل نزدیکی حاصل کیے ہوئے ہیں۔ نعمتوں والی جنتوں میں ہیں۔ (بہت بڑا گروہ تو اگلے لوگوں میں سے ہو گا (یعنی اُمت کے ابتدائی لوگوں میں بہت زیادہ السابقون ہیں) اور تھوڑے سے پچھلے لوگوں میں ہے۔ یہ لوگ سونے کے تاروں سے بنتے ہوئے تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔ ان کے پاس ایسے لڑکے جو ہمیشہ (لڑکے ہی) رہیں گے آمد و رفت کریں گے یعنی خدمت میں پیش پیش ہوں گے۔ آبخورے اور جنگ لے کر اور ایسا جام لے کر جو بہتی ہوئی شراب سے پر ہو۔ جس سے نہ سر میں درد ہو نہ عقل میں فتور آئے اور ایسے میرے لیے ہوئے جو ان کی پسند کے ہوں گے اور پرندوں کے گوشت جو انہیں مرغوب ہوں گے۔ اور بڑی بڑی آنکھوں والی حور میں جو چھپے ہوئے موتیوں کی طرح ہیں۔ یہ صلہ ہے ان کے (نیک) اعمال کا جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔‘‘
یہ امت کے ابتدائی لوگوں (صحابہ و تابعین) میں بہت زیادہ ہوں گے اور بعد والوں میں تھوڑے ہوں گے۔ ان کی مزید شان کتب حدیث کے اندر موجود ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’بلا شبہ جنتی لوگ اپنے اوپر بالا خانوں میں رہنے والوں کو (اس طرح) دیکھیں گے جیسا کہ تم (دنیا میں) اس روشن ستارے کو دیکھتے ہو جو مشرقی یا مغربی افق میں ڈوب رہا ہوتا ہے اس لیے کہ جنتیوں کے درمیان مراتب کا فرق ہو گا۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! کیا یہ منزلیں انبیاء علیہم السلام کی ہوں گی دوسرے لوگ ان تک رسائی حاصل نہیں کر سکیں گے ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: کیوں نہیں!
(وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، رِجَالٌ آمَنُوا بِاللَّهِ وَصَدَّقُوا الْمُرْسَلِينَ) [صحیح مسلم، كتاب الجنة و صفة نعيمها، باب ترائی اهل الجنة أهل الغرف كما (7322)]
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ان لوگوں کی بھی جو اللہ پر پختہ ایمان لائے اور انہوں نے پیغمبروں کی تصدیق کی۔‘‘
بخاری و مسلم کی روایت ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ أَوَّلَ زُمْرَةٍ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ)[صحیح البخاري، كتاب أحاديث الأنبياء، باب خلق آدم صلوات الله علیه و ذریته (3327) و مسلم (7325)]
’’بلاشبہ جو لوگ جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں گے (یعنی السابقون) وہ چودہویں رات کے چاند کی شکل میں ہوں گے۔‘‘
سات لاکھ افراد ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے بیک وقت ایک آدمی کی طرح جنت میں داخل ہوں گے جونہی ان میں سے پہلا داخل ہو گا آخری بھی داخل ہو جائے گا۔ ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے۔[صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب الدليل على دخول طوائف المسلمين الجنة بغير حساب (548)]
دوسری قسم:
أصحب اليمن: یہ وہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں گناہوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوں گئی اور ان نیکیوں کی وجہ سے ان کے گناہ (جو تھوڑے بہت ہوں گے) وہ بخش دیئے جائیں گے۔ اور یہ بھی سیدھے جنت میں داخل ہوں گے۔ ان کی تفصیل اور انہیں ملنے والے انعامات بھی سورۃ الواقعہ میں مذکور ہیں:
﴿وَ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ ۙ۬ مَاۤ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِؕ۝۲۷ فِیْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍۙ۝۲۸ وَّ طَلْحٍ مَّنْضُوْدٍۙ۝۲۹ وَّ ظِلٍّ مَّمْدُوْدٍۙ۝۳۰ وَّ مَآءٍ مَّسْكُوْبٍۙ۝۳۱ وَّ فَاكِهَةٍ كَثِیْرَةٍۙ۝۳۲ لَّا مَقْطُوْعَةٍ وَّ لَا مَمْنُوْعَةٍۙ۝۳۳ وَّ فُرُشٍ مَّرْفُوْعَةٍؕ۝۳۴ اِنَّاۤ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَآءًۙ۝۳۵ فَجَعَلْنٰهُنَّ اَبْكَارًاۙ۝۳۶ عُرُبًا اَتْرَابًاۙ۝۳۷ لِّاَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ ؕ۠۝۳۸ ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَۙ۝۳۹ وَ ثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَؕ۝۴۰﴾ [الواقعة: 27-40]
’’اور داہنے ہاتھ والے کیا ہی اچھے ہیں داہنے ہاتھ والے وہ بغیر کانٹوں کے بیریوں اور تہ بہ تہ کیلوں اور لمبے لیے سایوں اور بہتے ہوئے پانیوں اور بکثرت پھلوں میں ہوں گے۔ جو نہ ختم ہوں نہ روک لیے جائیں ۔ اور اونچے اونچے فرشوں میں ہوں گے۔ ہم نے ان کی (بیویوں کو) خاص طور پر بنایا ہے۔ اور ہم نے انہیں کنواریاں بنا دیا ہے۔ محبت والیاں اور ہم عمر ہیں۔ دائیں ہاتھ والوں کے لیے ہیں۔ جم غفیر ہے اگلوں میں ہے۔ اور بہت بڑی جماعت ہے پچھلوں میں سے۔‘‘
یعنی یہ ابتدائی لوگوں میں بھی کثیر تعداد میں ہوں گے۔ اور آخری لوگوں میں بھی بڑی تعداد میں ہوں گے۔
غرضیکہ ”السابقون‘‘ کے بعد بہت بڑا مقام و مرتبہ پانے والے جنتی ’’اصحاب الیمین‘‘ جن کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال پکڑائے جائیں گئے جن کی چھوٹی موٹی لغزشیں خطائیں اور غلطیاں نیکیوں کی بہتات اعمال صالحہ کی کثرت اور بھلائیوں کی بھر مار کی وجہ سے معاف کر دی جائیں گی اور یہ سیدھے جنت میں داخل ہوں گئے یہ بھی کامیاب و کامران اور خوش بخت و خوش نصیب لوگ ہیں ان کی شان و عظمت قرآن مجید میں بکثرت مذکور ہے اس سورۃ الواقعہ کے اخیر میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:
﴿وَ اَمَّاۤ اِنْ كَانَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِۙ۝۹۰ فَسَلٰمٌ لَّكَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِؕ﴾ [الواقعة:90،91]
’’اور اگر وہ اصحاب الیمین میں سے ہے تو تیرے لیے سلامتی ہے کہ تو اصحاب الیمین میں سے ہے۔‘‘
اصحاب الیمین کے مزید فضائل و مناقب سورة البلد 17-18 سورة الانشقاق 7 تا 9 اور سورۃ الحاقہ 19تا 24 میں مذکور ہیں۔
تیسری قسم:
اصحاب الاعراف: یہ وہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں اور گناہ برابر برابر ہیں۔ انہیں دیر تک جنت اور دوزخ کے درمیان ایک دیوار پہ بیٹھا دیا جائے گا ان کی دائیں جانب سر سے لے کر پاؤں تک نیکیوں کی وجہ سے انتہائی خوبصورت ہو گی اور بائیں جانب برائیوں کی وجہ سے انتہائی بدصورت ہوگی۔[صحيح البخاري، كتاب التعبير باب تعبير الرؤيا بعد صلاة الصبح رقم: 7047]
ان کے بارے سورۃ الاعراف میں تفصیل موجود ہے:
﴿وَ بَیْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ وَ عَلَی الْاَعْرَافِ رِجَالٌ یَّعْرِفُوْنَ كُلًّۢا بِسِیْمٰىهُمْ ۚ وَ نَادَوْا اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ ۫ لَمْ یَدْخُلُوْهَا وَ هُمْ یَطْمَعُوْنَ۝۴۶ وَ اِذَا صُرِفَتْ اَبْصَارُهُمْ تِلْقَآءَ اَصْحٰبِ النَّارِ ۙ قَالُوْا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ﴾ [الأعراف: 46-47]
’’اور ان دونوں کے درمیان ایک آڑ ہو گی اور اعراف کے اوپر بہت سے آدمی ہوں گے وہ لوگ ہر ایک کو ان کے قیافہ سے پہچانیں گے۔ اور اہل جنت کو پکار کر کہیں گے السلام علیکم! ابھی یہ اہل اعراف جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے اور اس کے امیدوار ہوں گے۔ اور جب ان کی نگاہیں اہل دوزخ کی طرف پھریں گی تو کہیں گے اے ہمارے رب! ہم کو ان ظالم لوگوں کے ساتھ شامل نہ کر۔‘‘
جب تک اللہ کو منظور ہو گا یہ اعراف پر رہیں گے۔ پھر اللہ تعالی انہیں جنت میں داخل فرمادیں گے اور ان کا جسم پھر دونوں جانب سے خوبصورت بنا دیا جائے گا۔ غور فرمائیے! اللہ رب العزت کے ہاں کامیابی کا معیار 33 فیصد یا 40 فیصد نہیں، بلکہ تقریباً ساٹھ فیصد ہے یعنی نیکیاں گناہوں سے زیادہ ہوں، جن کی نیکیاں اور گناہ برابر برابر ہوں گے یعنی جن کا نتیجہ پچاس فیصد ہوگا ہو گا وہ بھی کامیاب نہیں ہوں گئے بلکہ اصحاب الاعراف ہوں گے۔
لیکن آج ہم اپنا جائزہ لیں، ہم دن رات گناہوں کی دلدل میں ڈوبے رہتے ہیں اور رسمی طور پر چند نیکیاں کر لیتے ہیں اور اس کے باوجود ہم خوش فہمی میں مبتلا ہیں اور اپنے آپ کو جنتی اور بخشا بخشا یا تصور کرتے ہیں۔……
چوتھی قسم:
یہ وہ لوگ ہیں جن کے گناہ نیکیوں سے زیادہ ہوں گے (یوں یہ مؤمن اور موحد ہوں گے) اس لیے یہ سیدھے جنت میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ گناہوں کی سزا بھگتے کے لیے انہیں پہلے جنم میں داخل کیا جائے گا پھر انہیں جہنم سے نکال دیا جائے گا۔ ان کے جسم کوئلہ ہو چکے ہوں گے صرف سجدے کے اعضاء والی جگہ صحیح و سالم ہوگی۔ انہیں چشمہ حیات میں ڈالا جائے گا تو اس طرح آئیں گے جس طرح پانی کے بہاؤ میں جو بوجھ ہوتا ہے اس میں دانہ اُگتا ہے۔ پھر انہیں جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ ان لوگوں میں سے جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جائے گا اور آخر میں جنت کے اندر داخل کیا جائے گا۔ اس کا بڑا دلچسپ واقعہ تفصیل کے ساتھ عرض کرتا ہوں۔
صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے آخرت کے مفصل حالات بیان کرتے ہوئے) فرمایا:
’’سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والا وہ شخص ہے جسے اس حالت میں آگ سے نکالا جائے گا کہ وہ چلتا ہوا کرتا پڑتا ٹھوکریں کھاتا آگ سے باہر نکلے گا جب وہ آگ سے مکمل طور پہ باہر نکل آئے گا تو اس کی طرف مڑ کر دیکھے گا اور کہے گا وہ ذات بڑی برکت اور عظمت والی ہے جس نے مجھے تجھ (آگ) سے نجات دی ہے اللہ نے تو مجھے وہ کچھ دے دیا ہے جو اولین اور آخرین میں سے کسی کو نہیں دیا (غور کیجئے اور آگ سے نکلنے کو ہی کتنی بڑی نعمت تصور کرے گا) پھر اس کے لیے ایک درخت ظاہر کیا جائے گا تو وہ کہے گا: اے میرے رب! مجھے اس درخت کے کے قریب کر دے تاکہ میں اس کے سائے تلے آؤں اور اس کا پانی پیوں تو اللہ تعالی فرمائیں گئے ممکن ہے اگر میں تجھے وہ درخت دے دوں تو تو کچھ اور مانگے؟ وہ کہے گا: میں وعدہ کرتا ہوں کہ کچھ اور نہیں مانگوں گا۔ جب اللہ تعالی اس کی معذوری دیکھیں گے (کہ یہ اس پرکشش درخت سے صبر کر ہی نہیں سکتا) تو اسے اس کے قریب کر دیں گے وہ اس کے سائے سے مستفید ہو گا اور پانی بنے گا پھر اس کے لیے ایک اور درخت بلند کیا جائے گا جو پہلے درخت سے زیادہ خوبصورت ہوگا (وہ اسے دیکھ کر مبر نہیں کر پائے گا) اور مطالبہ کرے گا کہ اے میرے رب! مجھے اس درخت کے قریب کر دے (پھر اس کے اور اللہ کے درمیان پہلی بار جیسا مکالمہ ہو گا) آخر کار اللہ اسے اس دوسرے درخت کے قریب کر دیں گے۔ پھر اس کے لیے جنت کے دروازے پر ایک درخت ظاہر کیا جائے گا جو پہلے دونوں درختوں سے زیادہ خوبصورت ہوگا (وہ اسے دیکھ کر صبر نہیں کر پائے گا) اور مطالبہ کرے گا کہ اے میرے رب! مجھے اس درخت کے قریب کر دے (پھر اس کے اور رب تعالی کے درمیان پہلی اور دوسری بار والا مکالمہ ہوگا) آخر کار اللہ تعالی اسے اس درخت کے قریب کر دیں گئے جب وہ اس کے قریب ہو جائے گا تو جنتیوں کی آوازیں سنے گا (اور جنت کے پرکشش مناظر دیکھے گا تو پھر صبر نہیں کر پائے گا اور) کہے گا: اے میرے رب مجھے جنت کے اندر ہی داخل کر دئے تو اللہ رب العزت کہیں گے: اے ابن آدم! تیرے مطالبے ختم ہی نہیں ہو ر ہے؟ بتلا! کیا تو اس بات پر خوش ہے کہ تجھے پوری دنیا اور اس کے مثل اور عطاء کر دوں؟ تو وہ بندہ کہے گا: کیا تو مجھ سے مذاق کر رہا ہے جبکہ تو رب العالمین ہے؟ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ یہ بات بیان کر کے ہنس پڑے اور کہنے لگے: مجھے پوچھتے کیوں نہیں کہ میں کیوں ہنسا ہوں؟ لوگوں نے کہا: کیوں ہتے ہو؟ تو ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اس بات کو بیان کر کے رسول اللہ ﷺ بھی ہنس پڑے تھے تو لوگوں نے پوچھا آپ کیوں ہنسے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: اس لیے کہ اس بندے کی یہ بات سن کر رب العالمین بھی ہنس پڑے گا اور کہے گا: میں مذاق نہیں کر رہا لیکن میں ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہوں۔‘‘[صحیح مسلم، كتاب الإيمان، باب آخر نقل النار خروجًا (463) والترمذی (2595)]
سبحان اللہ! اللہ کی رحمت کس قدر وسیع اور بے انتہاء ہے اور آخرت کی نعمتیں کس قدر زیادہ اور بابرکت ہیں؟
غور کیجئے! جب سب سے آخر میں جنت میں جانے والے کو اتنا کچھ ملے گا۔ تو السابقون اور اصحاب الیمین کو کتنا ملے گا۔
تو یہ چار قسم کے جنتی ہیں اور چاروں قسمیں مؤمنوں اور موحدوں توحید پرستوں کی ہیں کیونکہ کافر اور مشرک تو دائی جہنمی ہیں وہ بھی بھی جہنم سے نہیں نکالے جائیں گے۔ اب ان چاروں قسموں میں حقیقی کامیاب صرف پہلی دو قسموں والے ہیں:
1۔ السابقون: جن کا دوسرا نام المقربون بھی ہے۔
2۔ اصحاب الیمین: یعنی کامیاب صرف وہ ہیں جو سید ھے جنت میں داخل ہوں گے۔

﴿فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ﴾
کیونکہ سزا بھگت کے جنت میں جاتا ہوا خطر ناک معاملہ ہے جہنم کی تو گرم ہوا بھی بڑی خوفناک ہے۔ چہ جائیکہ آدمی جہنم کی سزا بھگت کر جنت میں داخل ہو۔
جہنم کا ایک غوطہ:
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’قیامت کے وان دوزخیوں میں سے ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ پیش و آرام کی زندگی بسر کرتا تھا اسے دوزخ میں ایک غوطہ دیا جائے گا۔ اس کے بعد اس سے دریافت کیا جائے گا اے آدم کے فرزند! کیا تو نے (دنیا میں) کبھی کوئی بھلائی دیکھی تھی ؟ کیا (دنیا میں) تجھ پر کوئی نعمتوں کا دور گزرا تھا ؟ وہ کہے گا نہیں! اے میرے پروردگار! اللہ کی قسم (میں نے دنیا میں بھی کوئی بھلائی اور رحمت نہیں دیکھی) اور اسی طرح جنتیوں میں سے ایسے شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ تنگی اٹھانے والا ہوگا اسے جنت میں غوطہ دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ کیا تو نے تنگی دیکھی تھی؟ اور کیا تجھ پر بھی سختی کا دور آیا تھا ؟ وہ جواب دے گا نہیں! اللہ کی قسم! اے میرے پروردگارا مجھ پر کبھی تنگی نہیں آئی اور نہ ہی میں نے کبھی سختی کا دور دیکھا تھا۔[صحیح مسلم، کتاب صفات المنافقين، باب صبغ أنعم أهل الدنيا في النار، رقم: 7088]
جو آیت میں نے خطبہ میں پڑھی ہے اس میں اللہ رب العزت نے یہی ترغیب دی ہے کہ جنت میں اونچا مقام حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرو مقابلہ کرو لوگ دنیا کی عارضی زندگی کو بہتر سے بہتر اور پر آسائش بنانے کے لیے بڑی محنت کرتے ہیں۔ جبکہ اصل محنت آخرت کی اعلیٰ کامیابی کے لیے ہونی چاہیے۔ رب ارض و سماء نے فرمایا:
﴿وَ سَارِعُوْۤا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ﴾ [آل عمران: 133]
’’اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جو پرہیز گاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘
سوره حدید میں خالق کائنات نے فرمایا:
﴿سَابِقُوْۤا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ ۙ﴾ [الحديد:21]
’’آؤ دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین کی وسعت کے برابر ہے۔‘‘
آج صدیقی سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اور وہ صدیقی سوچ کیا ہے؟
صحیح البخاری میں حدیث ہے: ایک دن رسول اللہﷺ (نیکی کی ترغیب دیتے ہوئے) جنت کے دروازوں کا تذکرہ فرماتے ہیں: کہ جس نے بکثرت (نفلی) نمازیں پڑھیں اسے باب الصلوٰۃ سے پکارا جائے گا جس نے بکثرت جہاد کیا اسے باب الجہاد سے پکارا جائے گا جس نے بکثرت (نفلی) روزے رکھے اسے باب الریان سے پکارا جائے گا اور جس نے بکثرت صدقہ و خیرات کیا اسے باب الصدقہ سے پکارا جائے گا۔ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ عرض کرتے ہیں: اے اللہ کے رسولﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ہوں اس بات کی کوئی ضرورت تو نہیں کہ کسی کو جنت کے تمام دروازوں سے پکارا جائے کیونکہ ایک ہی دروازے سے گزر کر جنت میں جانا ہے) لیکن کیا کوئی ایسا (خوش قسمت اور سعادت مند) شخص بھی ہے کہ جسے جنت کے (آٹھوں) دروازوں سے پکارا جائے کہ باب الصلاۃ کا دربان کہے: آؤ میرے دروازے سے گزر کر جنت میں جاؤ باب الجہاد کا دربان کہے: آؤ میرے دروازے سے گزر کر جنت میں جاؤ باب الریان کا دربان فرشتہ پکارے آؤ میرے دروازے سے گزر کے جنت میں جاؤ باب الصدقہ کا دربان آواز دے: آؤ میرے دروازے سے گزر کر جنت میں جاؤ کیا کوئی ایسا خوش قسمت بھی ہو گا ؟ تو آپ اسلام نے فرمایا: ’’نعم‘‘ ہاں (ایسے خوش قسمت لوگ بھی ہوں گے)۔
(وارجو ان تكون منهم) [صحيح البخاري، كتاب الصوم، باب فضل الصوم (1897)، و كتاب المناقب، باب (3666)]
’’اور (اے ابو بکر!) مجھے یقین ہے کہ آپ انہی میں سے ہوں گئے۔‘‘
غور کیجئے! کیسی سوچ ہے؟ اور کیسا عظیم الشان صلہ اور نتیجہ ہے؟ اور صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ سوچ صرف تخیلات اور آرزوؤں تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ آپ اس آرزو کو پورا کرنے کے لیے رات اور دن بڑی محنت کرتے تھے نیکی کا کوئی کام ہاتھ سے نکلنے نہیں دیتے تھے صحیح البخاری اٹھائیے: ایک دفعہ رسول اللہﷺ اپنے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کو مخاطب کر کے پوچھتے ہیں: ’’تم میں سے آج نماز جنازہ کس نے ادا کی ہے؟‘‘ جناب ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: میں نے نماز جنازہ ادا کی ہے۔ پھر پوچھا: ’’تم میں سے آج بیمار کی عیادت کس نے کی ہے؟‘‘ ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں نے بیمار کی عیادت کی ہے۔ پھر پوچھا: ’’آج بھوکے کو کھانا کس نے کھلایا ہے؟‘‘ صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں نے بھوکے کو کھانا کھلایا ہے۔ پھر پوچھا: ’’آج نفلی روزہ کس نے رکھا ہے؟‘‘ صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں نے آج نفلی روزہ رکھا ہے۔ تو ناطق وحی محمد عربیﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص میں یہ چاروں خصلتیں جمع ہوں اس کے لیے جنت واجب ہو گئی‘‘[صحيح مسلم، الزكاة، باب من جمع الصدقة و أعمال البر (1028)]
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی نیکی کا ایسا سچا جذ بہ عطاء فرمائے اور ہمیں جنت کا داخلہ عطاء فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔