دعوتِ اہل حدیث اور منہجِ سلف کے اُصول وضوابط
اہم عناصرِ خطبہ :
01. امت میں افتراق
02. طائفہ منصورہ اور فرقۂ ناجیہ کون ؟
03. دعوتِ اہل حدیث اور منہج سلف کے اصول وضوابط
پہلا خطبہ
محترم حضرات !
آج کے خطبۂ جمعہ کا آغاز ہم ایک حدیث مبارک سے کرتے ہیں ، جس کے راوی حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ ہیں ، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کا بغور جائزہ لیتا رہا یہاں تک کہ فجر ہو گئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرا ہوا اور میں نے کہا :
((یَا رَسُولَ اللّٰہ ! بِأَبِیْ أَنْتَ وَأُمِّیْ،لَقَدْ صَلَّیْتَ اللَّیْلَۃَ صَلَاۃً مَا رَأَیْتُکَ صَلَّیْتَ نَحْوَہَا))
اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، آج رات آپ نے ایسی نماز پڑھی کہ اُس جیسی نماز پڑھتے ہوئے میں نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا ۔
( مسند احمد کی روایت میں ہے کہ آج آپ ساری رات نماز پڑھتے رہے ۔ )
توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( أَجَلْ إِنَّہَا صَلَاۃُ رَغَبٍ وَرَہَبٍ ))
’’ ہاں ، یہ ایسی نماز تھی کہ جس میں دعا کی قبولیت کی رغبت بھی تھی اوردعا کے قبول نہ ہونے کا ڈر بھی تھا ۔ ‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا :
(( سَأَلْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ فِیْہَا ثَلَاثَ خِصَالٍ ، فَأَعْطَانِی اثْنَتَیْنِ ، وَمَنَعَنِیْ وَاحِدَۃً ))
’’میں نے اس نماز میں اپنے رب عز وجل سے تین چیزیں مانگیں ، تو اس نے مجھے دو دے دیں اور ایک نہیں دی ۔ ‘‘
01. (( سَأَلْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ أَن لَّا یُہْلِکَنَا بِمَا أَہْلَکَ بِہِ الْأُمَمَ قَبْلَنَا ، فَأَعْطَانِیْہَا ))
’’میں نے اپنے رب عز وجل سے دعا کی کہ وہ ہمیں اُس چیز کے ساتھ ہلاک نہ کرے جس کے ساتھ اس نے پہلی امتوں کو ہلاک کیا ،( یعنی ایسا عذاب نازل نہ کرے کہ پوری امت ہی ہلاک ہو جائے جیساکہ قوم نوح ، قوم عاد ، قوم ثمود وغیرہ ہلاک ہوئیں ) تو اس نے میری یہ دعا قبول کرلی ہے ۔ ‘‘
02. (( وَسَأَلْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ أَن لَّا یُظْہِرَ عَلَیْنَا عَدُوًّا مِّنْ غَیْرِنَا ، فَأَعْطَانِیْہَا ))
’’اور میں نے اپنے رب عز وجل سے دعا کی کہ وہ ہمارے اوپرکسی ایسے دشمن کو غلبہ نہ دے جو ہم میں سے نہ ہو ،( یعنی ایسے نہ ہو کہ کافر پوری امت اسلامیہ پر غالب آجائیں ) تو اس نے میری یہ دعا بھی قبول کرلی ہے ۔ ‘‘
03. (( وَسَأَلْتُ رَبِّیْ أَنْ لَّا یَلْبِسَنَا شِیَعًا ، فَمَنَعَنِیْہَا ))
’’اور میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ وہ ہمیں مختلف گروہوں میں تقسیم نہ کرے ، تو اس نے میری یہ دعا قبول نہیں کی ۔ ‘‘ سنن النسائی :1638۔ وصححہ الألبانی، مسند أحمد :21091۔ وصححہ الأرنوؤط
اسی طرح حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ’ عالیہ ‘ کی طرف سے آئے ، یہاں تک کہ جب آپ بنو معاویہ کی مسجد کے پاس سے گزرے تو آپ اس میں داخل ہوئے اور آپ نے دو رکعت نماز ادا کی ۔ہم نے بھی آپ کے ساتھ ہی نماز پڑھی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے لمبی دعا مانگتے رہے ۔ اس کے بعد ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا :
(( سَأَلْتُ رَبِّیْ ثَلَاثًا فَأَعْطَانِیْ ثِنْتَیْنِ وَمَنَعَنِیْ وَاحِدَۃً ))
’’میں نے اپنے رب سے تین چیزوں کا سوال کیا ، تو اس نے مجھے دو عطا کردی ہیں اور ایک نہیں دی ۔ ‘‘
((سَأَلْتُ رَبِّیْ أَن لَّا یُہْلِکَ أُمَّتِیْ بِالسَّنَۃِ ، فَأَعْطَانِیْہَا ))
’’ میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ وہ میری امت کو قحط سالی کے ساتھ ہلاک نہ کرے ، تو اس نے میری یہ دعا قبول کر لی ہے۔ ‘‘
(( وَسَأَلْتُہُ أَن لَّا یُہْلِکَ أُمَّتِیْ بِالْغَرَقِ ، فَأَعْطَانِیْہَا ))
’’ اور میں نے اللہ تعالی سے یہ بھی مانگا ہے کہ وہ میری امت کو غرق کرکے ہلاک نہ کرے ۔ تو اس نے میری یہ دعا بھی قبول کر لی ہے۔ ‘‘
(( وَسَأَلْتُہُ أَن لَّا یَجْعَلَ بَأْسَہُمْ بَیْنَہُمْ ، فَمَنَعَنِیْہَا )) صحیح مسلم :2890
’’اور میں نے اللہ سے یہ دعا بھی کی کہ میرے امتی آپس میں نہ لڑیں اور ان کے درمیان مخالفت نہ ہو ، تو اللہ تعالی نے میری یہ دعا قبول نہیں کی ۔ ‘‘
ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوتاہے کہ اِس امت میں ایک دوسرے کی مخالفت اور اُس کی بناء پر لڑائی اور گروہ بندی ہونی ہی ہونی ہے ۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دعا فرمائی کہ اس میں باہمی مخالفت ، لڑائی اور فرقہ واریت نہ ہو تو وہ دعا قبول نہیں کی گئی ۔ اور اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگاہ فرما دیا تھا کہ
(( فَإِنَّہُ مَن یَّعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِیْ فَسَیَرَی اخْتِلَافًا کَثِیْرًا)) سنن أبی داؤد : 4609، سنن ابن ماجہ :43۔ وصححہ الألبانی
’’ تم میں سے جو شخص میرے بعد ( لمبے عرصے تک ) زندہ رہے گا تو وہ عنقریب بہت اختلاف دیکھے گا ۔ ‘‘
اور ایسے ہی ہوا جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے کچھ ہی عرصہ بعد امت میں اختلافات پیدا ہوگئے ، جو آہستہ آہستہ مخالفت کی شکل اختیار کرتے گئے اور پھر نوبت لڑائی تک جا پہنچی ۔ اور آج بھی امت اسلامیہ کی حالت انہی حدیثوں کا مصداق نظر آرہی ہے ۔
تاہم یہ بات ذہن میں رہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گروہ کے بارے میں یہ بھی ارشاد فرمایا تھا کہ
(( لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ أُمَّتِیْ ظَاہِرِیْنَ عَلَی الْحَقِّ ، لَا یَضُرُّہُمْ مَّنْ خَالَفَہُمْ حَتّٰی یَأْتِیَ أَمْرُ اللّٰہِ وَہُمْ کَذَلِکَ )) صحیح مسلم : 1920
’’ میری امت کا ایک گروہ حق پر قائم رہتے ہوئے ( دلائل وبراہین کے ساتھ ) غالب رہے گا ، جو ان کی مخالفت کرے گا وہ انھیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا ۔ یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے گا اور وہ بدستور اسی حالت میں ہونگے۔‘‘
امام ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ، امام علی بن المدینی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کہتے ہیں کہ اس گروہ سے مراد اصحاب الحدیث ہیں ۔ بلکہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ
(( إِن لَّمْ یَکُونُوا أَہْلَ الْحَدِیْثِ فَلَا أَدْرِیْ مَنْ ہُمْ ؟ ))
’’اگر اس سے مراد اہل حدیث نہیں تو پھر میں نہیں جانتا وہ کون لوگ ہیں ؟ ‘‘
اوراس کی تائید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے ، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ تَفَرَّقَتْ عَلٰی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِیْنَ مِلَّۃً،وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِیْ عَلٰی ثَلَاثٍ وَّسَبْعِیْنَ مِلَّۃً،کُلُّہُمْ فِی النَّارِ إِلَّا وَاحِدَۃً))
’’ بنو اسرائل ۷۲ فرقوں میں تقسیم ہوئے اور میری امت کے لوگ ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہوں گے ۔ ان میں سے ایک کے سوا باقی سب جہنم میں جائیں گے ۔ ‘‘
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : یا رسول اللہ ! وہ ایک گروہ کونسا ہے جو نجات پائے گا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِی )) ’’ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔ ‘‘
ایک اور روایت میں ارشاد فرمایا : (( وَہِیَ الْجَمَاعَۃُ )) ’’ نجات پانے والا گروہ ہی جماعت ہے ۔ ‘‘ رواہ الترمذی : 2641 ۔ وأبو داؤد :4597، وابن ماجہ :3993۔ وحسنہ الألبانی
اور یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ جس دین ومنہج پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم قائم تھے ، آج اُسی دین ومنہج پر اگر کوئی جماعت قائم ہے تو وہ اہلحدیث حضرات کی جماعت ہے ۔ کیونکہ وہ حضرات صرف قرآن وحدیث پر عمل کرتے تھے اور ان کے ہاں قرآن وحدیث کے علاوہ کوئی تیسری چیز واجب الاتباع نہ تھی ، اسی طرح اہلحدیث بھی قرآن وحدیث پر ہی عمل کرتے ہیں اور ان کے نزدیک کوئی تیسری چیز ایسی نہیں جو واجب الاتباع ہو ۔ گویا اہلحدیث حضرات طائفہ منصورہ اور فرقۂ ناجیہ ہیں ، جو ہردور میں حق پر قائم رہا ہے اور قیامت تک اسی پر قائم رہے گا ۔ان شاء اللہ
لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج اہلحدیثوں کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے ۔
٭ کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ’نیا ٹولہ ‘ ہے !
حالانکہ اہلحدیث اُس وقت سے ہیں جب سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔ کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے پیروکاروں کے دور میں کوئی فقہی مسلک نہ تھا اور نہ ہی فقہی مسلک کی بناء پر کوئی فرقہ تھا ۔ وہ لوگ بھی قرآن وسنت کی ہی اتباع کرتے تھے اور اہلحدیث حضرات بھی قرآن وسنت ہی کی اتباع کرتے ہیں ۔ ان کا منہج بھی قرآن وحدیث پر مبنی تھا اور اہلحدیث حضرات کا منہج بھی قرآن وسنت پر ہی مبنی ہے ۔
بلکہ ہم تو ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے جن لوگوں کے بارے میں سورۃ التوبہ کی آیت نمبر ۱۰۰ ﴿ وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ﴾ میں یہ ذکر فرمایا ہے کہ وہ مہاجرین وانصار کی اچھے طریقے سے اتباع کرنے والے ہیں تو ان میں ’ اہلحدیث ‘ حضرات بھی شامل ہیں۔ کیونکہ اہلحدیث حضرات ہی وہ لوگ ہیں جو صحیح معنوں میں ان کے نقش ِ قدم پہ چلتے ہیں ۔
٭ اور کبھی کہا جاتا ہے کہ جماعت ِ اہلحدیث انتہا پسند ، دہشت گرد اور متشدد جماعت ہے !
حالانکہ یہ بھی غلط ہے ۔ کیونکہ جماعت ِاہلحدیث اعتدال پسند جماعت ہے ۔ اور دعوتی اسلوب میں حکمت ونصیحت کی قائل ہے ، نہ کہ تشدد اور انتہا پسندی کی ۔
٭ اور کبھی اہلحدیثوں کو سواد اعظم کا مخالف اور ائمۂ کرام رحمہم اللہ کا دشمن کہا جاتا ہے !
حالانکہ اہلحدیث حضرات تمام سلف صالحین اور ائمہ ٔ دین رحمہم اللہ کا احترام کرتے اور انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ بلکہ اگر دیکھا جائے تو ائمۂ اربعہ رحمہم اللہ کی حقیقی پیرو کار جماعت بھی جماعت ِ اہلحدیث ہی ہے ۔ کیونکہ ان کی تعلیمات بھی یہی تھیں کہ ہماری نہیں بلکہ قرآن وحدیث ہی کی پیروی کریں ۔ آگے چل کر ہم ان شاء اللہ ان کے اقوال سے یہ بات بھی ثابت کریں گے ۔
تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اِس جماعت ِ حقہ اور طائفہ منصورہ کے دعوتی اصولوں اور اس کے منہج پر روشنی ڈالیں تاکہ اس کے بارے میں جو شبہات پیدا کئے جاتے ہیں ان کا رد کیا جا سکے اور جو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان کا جواب دیا جا سکے ۔
دعوتِ اہل حدیث اور منہج سلف کے اصول وضوابط
1۔ دین دو عظیم اصولوں پر مبنی ہے :
1۔ اخلاص ۔ یعنی ہر عمل ِ صالح اور ہرعبادت کومحض اللہ تعالی کی رضا کے حصول اور اس کا تقرب حاصل کرنے کیلئے سرانجام دینا ۔اور ریاکاری سے اجتناب کرنا ۔
2۔ متابعت ۔ یعنی ہر عمل ِ صالح اور عبادت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق کرنا۔
ان دونوں اصولوں کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :
﴿ بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَ ھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ ﴾ البقرۃ 2: 112
’’ سنو ! جو بھی اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جھکا دے اور وہ ہو بھی نیکو کار ، تو اس پر نہ تو کوئی خوف ہوگا ، نہ غم اور اداسی ۔ ‘‘
اس آیت مبارکہ میں ﴿اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ﴾ سے مراد ’اخلاص ‘ہے ۔ یعنی اللہ کی رضا کیلئے عمل کرنا
اور ﴿وَ ھُوَ مُحْسِنٌ﴾ سے مراد ’متابعت ‘ہے ۔ یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق عمل کرنا ۔
یاد رہے کہ ان دو اصولوں کے لحاظ سے لوگوں کی چار قسمیں ہیں :
01. جن میں اخلاص بھی ہوتا ہے اور متابعت بھی ہوتی ہے ۔
02. جن میں نہ اخلاص ہوتا ہے اور نہ متابعت ہوتی ہے ۔
03. جن میں اخلاص تو ہوتا ہے لیکن متابعت نہیں ہوتی ۔
04. جن میں متابعت تو ہوتی ہے لیکن اخلاص نہیں ہوتا بلکہ ریاکاری ہوتی ہے ۔
02. شریعت ، دعوت اور عبادت تینوں کا مصدر ومنبع دو چیزیں ہیں : قرآن اور سنت
لہذا تمام شرعی احکام ، عبادات کے طریقے اور دعوتی اسلوب وغیرہ قرآن وسنت سے ہی حاصل کئے جائیں گے ۔
کیونکہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے ۔
فرمایا : ﴿ وَ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ﴾ آل عمران3 :132
’’ اورتم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو ، تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ ‘‘
اور ظاہر بات ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام وفرامین ہم صرف اور صرف قرآن وحدیث سے ہی معلوم کر سکتے ہیں ۔ قرآن وحدیث کے علاوہ اس کاکوئی اورذریعہ نہیں ہے ۔
اسی طرح فرمایا : ﴿ اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ﴾ الأعراف7:3
’’ تم صرف اُس چیز کی پیروی کرو جو تمھاری طرف تمھار ے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے ۔ اور اس کو چھوڑ کر دیگر دوستوں کی پیروی مت کرو ۔ تم کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو ۔ ‘‘
اسی طرح فرمایا : ﴿ فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِیْٓ اُوْحِیَ اِِلَیْکَ اِِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ٭ وَاِِنَّہٗ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَ﴾ الزخرف43:43۔44
’’ لہذا آپ اسے مضبوطی سے تھام لیجئے جس کی آپ کو وحی کی گئی ہے ، آپ یقینا راہِ راست پر ہیں ۔ اور بلاشبہ وہ آپ کیلئے اور آپ کی قوم کیلئے نصیحت ہے ۔ اور عنقریب تم لوگوں سے پوچھ گچھ کی جائے گی ۔ ‘‘
اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ چیز ایک تو قرآن مجید ہے اور دوسری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث
مبارکہ ہیں ۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالی فرماتے ہیں : ﴿ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی ٭ اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی﴾ النجم53 :3 ۔4
’’اور وہ ( رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی خواہش نفس کی پیروی میں بات نہیں کرتے بلکہ وہ تو وحی ہوتی ہے جو ان پر اتاری جاتی ہے ۔ ‘‘
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( تَرَکْتُ فِیْکُمْ شَیْئَیْنِ ، لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہُمَا : کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّتِیْ ، وَلَنْ یَّتَفَرَّقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ)) صحیح الجامع :2937
’’ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔ ان کے بعد ( یعنی اگر تم نے انھیں مضبوطی سے تھام لیا تو) کبھی گمراہ نہیں ہو گے ۔ ایک ہے کتاب اللہ ( قرآن مجید ) اور دوسری ہے میری سنت۔ اور یہ دونوں چیزیں کبھی جدا جدا نہیں ہو نگی یہاں تک کہ حوض پر میرے پاس آئیں گی ۔ ‘‘
03. قرآن مجید کو سنت کے بغیر سمجھنا نا ممکن ہے
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ﴾ النحل16 :44
’’ اور ہم نے آپ کی طرف ذکر ( قرآن مجید ) کو نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کیلئے اُس چیز کو بیان کریں جو ان کی طرف اتاری گئی ہے ۔ ‘‘
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف اتاری گئی چیز ( قرآن مجید ) کو ان کیلئے کیسے بیان کیا ؟ اپنے فرامین اور اپنے عمل کے ذریعے ، جسے سنت کہا جاتاہے ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلاۃ ، زکاۃ ، حج اور صوم وغیرہ کے بہت سارے احکامات اپنے ارشادات اور عمل کے ذریعے بیان کئے ۔ اگر یہ ’ بیان ‘ نہ ہوتا تو قرآن مجید کے بہت سارے احکامات کو سمجھنا ہی نا ممکن ہوتا ۔
اوراسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے قرآن مجید میں تین مقامات پر کہا گیا کہ
﴿ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ ﴾ آل عمران3 :164
’’ اور وہ انھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔ ‘‘
تو حکمت سے مراد کیا ہے ؟ یقینی طور پر اس سے مراد سنت نبویہ ہی ہے ۔
اورحضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( أَ لَا إِنِّی أُوْتِیْتُ الْکِتَابَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ ، أَ لَا یُوْشِکُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلٰی أَرِیْکَتِہٖ یَقُوْلُ : عَلَیْکُمْ بِہٰذَا الْقُرْآنِ ، فَمَا وَجَدْتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوْہُ ، وَمَا وَجَدْتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوْہُ ، أَ لَا لَا یَحِلُّ لَکُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الْأَہْلِی ، وَلَا کُلُّ ذِیْ نَابٍ مِنَ السَّبُعِ ۔۔)) سنن أبی داؤد :4604 ۔ وصححہ الألبانی
’’ خبردار !مجھے قرآن مجید دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس کی مثل بھی ۔ خبردار ! عنقریب ایک آدمی آئے گا جو سیر ہو کر اپنے تکیے کا سہار الئے ہوئے کہے گا : تم بس اس قرآن پر ہی عمل کرو اور تمہیں اس میں جو حلال ملے اسی کو حلال سمجھو اور اس میں جس چیز کو حرام کہا گیا ہو صرف اسی کو حرام سمجھو ۔ خبردار ! تمھارے لئے گھریلو گدھے کا گوشت حلال نہیں ہے اور نہ ہی کچلیوں والے درندے حلال ہیں ۔۔۔ ‘‘
04. قرآن وحدیث کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے فہم کے مطابق سمجھنا ضروری ہے ۔
کیونکہ اللہ تعالی نے سورۃ التوبہ کی آیت نمبر ۱۰۰ ﴿ وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ﴾ میں مہاجرین وانصار کے بعد ان لوگوں کا ذکر کیا جنھوں نے ان کی اچھے طریقے سے اتباع کی ، پھر انھیں بھی اپنی رضامندی اور ان کیلئے جنات کی خوشخبری دی ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا فہم اور ان کا طرز ِعمل اللہ کے نزدیک معتبر ہے ۔
یہ وہ حضرات تھے جنھوں نے براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کو سیکھا اور اس کی تفسیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی شکل میں اپنے کانوں سے سنی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن ِ مبارکہ کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ۔ اِس لحاظ سے وہ قرآن وحدیث کے سب سے بڑے عالم اور سب سے زیادہ فقیہ تھے ۔ ان سے بڑا عالم یا فقیہ نہ کبھی آیا ہے اور نہ ہی قیامت تک کوئی آئے گا۔
اور اِس اصول کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمانِ صادق کو باقی لوگوں کیلئے معیار قرار دیا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِہِ فَقَدِ اہْتَدَوا وَّإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا ہُمْ فِیْ شِقَاقٍ ﴾ البقرۃ2 :137
’’ پس اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یافتہ ہو جائیں اور اگر منہ پھیر لیں (اور نہ مانیں) تو وہ (اس لئے کہ آپ کی ) مخالفت پر تلے ہوئے ہیں ۔‘‘
﴿ آمَنتُم﴾ میں مخاطب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔
اور اس کی تیسری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے راستے کو چھوڑکر دوسرا راستہ اختیار کرنے والوں کو جہنم کی وعید سنائی ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿وَمَن یُّشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاء تْ مَصِیْرًا﴾ النساء4 :115
’’ اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا کسی اور راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اُسے اُدھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن) جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بُرا ٹھکانا ہے ۔ ‘‘
اس آیت میں مومنوں سے مراد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ، کیونکہ اس کے نزول کے وقت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہی تھے جو اس کے سب سے پہلے مخاطب تھے ۔ لہذا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے راستے اور ان کے طرز عمل کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اور طرز عمل اختیار کرنے والے لوگوں کو اللہ تعالی کی اس وعید سے ڈرنا چاہئے ۔
اور ہم نے جو حدیث خطبہ کے آغاز میں ذکر کی ہے اور جس میں یہ الفاظ ہیں : ( مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِی) ’’ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔ ‘‘ تو یہ بھی اسی بات کی دلیل ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا منہج اور ان کا طرز عمل ہمیشہ ملحوظ خاطر رہنا چاہئے ۔ نہ یہ کہ کوئی شخص اپنی مرضی کے مطابق یا اپنے مخصوص نظریے کے مطابق جیسے چاہے قرآن وحدیث کو ڈھال لے ۔
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے تھے : (مَنْ کَانَ منکم متأسیا فَلْیتأس بِأَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وسلم ، فإنہم کَانُوْا أبَرَّہَذہ الْأُمَّۃِ قُلُوْبًا ، وَأعْمَقَہَا عِلْمًا ، وَأقَلَّہَا تَکَلُّفًا، وَأَقْوَمَہَا ہَدْیًا ، وَأَحْسَنَہَا حَالًا ،قَوْمًا اِخْتَارَہُمُ اﷲُ لِصُحْبَۃِ نَبِیِّہٖ صلي الله عليه وسلم وَإِقَامَۃِ دِیْنِہٖ ، فَاعْرِفُوْا لَہُمْ فَضْلَہُمْ ، وَاتَّبِعُوْہُمْ فِیْ آثَارِہِمْ فَإِنَّہُمْ کَانُوْا عَلَی الْہُدَی الْمُسْتَقِیْمِ ) جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر :926
’’ تم میں سے جو شخص اقتداء کرنا چاہتاہو تو وہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرے ۔ کیونکہ وہ امت کے سب سے زیادہ پاکیزہ دل والے ، سب سے زیادہ گہرے علم والے ، سب سے کم تکلف کرنے والے ، سب سے زیادہ مضبوط طریقے پر چلنے والے ، سب سے زیادہ اچھے حال والے تھے ۔ یہ وہ لوگ تھے جنھیں اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور اپنے دین کو قائم کرنے کیلئے منتخب کر لیا تھا ۔ لہٰذا تم ان کی فضیلت کو پہچانو اور ان کے اخلاق اورطور طریقوں میں ان کی پیروی کرو کیونکہ وہ صراطِ مستقیم پر چلنے والے تھے ۔ ‘‘
اسی طرح کا قول جناب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اور امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی مروی ہے ۔
05. توحید ِ الوہیت دعوت کا اولین اورسب سے اہم رکن
جی ہاں ! توحید ِ الوہیت دعوت کا سب سے پہلا اور سب سے اہم رکن ہے ۔ کیونکہ اسی توحید کیلئے اللہ تعالی نے تمام انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔ چنانچہ ہر نبی نے اپنی دعوت کا آغاز ﴿ اُعْبُدُوْا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِنْ إِلٰہٍ غَیْرُہُ ﴾سے کیا ۔ اور ہر رسول کو اللہ تعالی نے یہ پیغام دے کر بھیجا کہ لوگوں کو حکم دوکہ ﴿اُعْبُدُوْا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ﴾
’’ اکیلئے اللہ تعالی کی عبادت کرو اور طاغوت کی پوچا کرنے سے بچو ۔ ‘‘
سید الرسل جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی دعوت کا آغاز اسی توحیدسے کیا اور فرمایا :
(( قُوْلُوْا : لَا إِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ ، تُفْلِحُوْا ))
’’ تم کہو کہ اﷲ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ، اگر یہ کہو گے تو کامیاب ہوجاؤگے۔‘‘
اور یہی وہ توحید ہے جس کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے دعوت دینے کی تلقین مبلغین کو کرتے تھے ۔
چنانچہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو آپ نے حکم دیا :
(( إِنَّکَ تَقْدَمُ عَلیٰ قَوْمِ أَہْلِ کِتَابٍ فَلْیَکُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوْہُمْ إِلَیْہِ عِبَادَۃُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ))
’’ بے شک تم اہلِ کتاب کی ایک قوم کے پاس جا رہے ہو ، لہذا سب سے پہلے تم نے انہیں جس بات کی طرف دعوت دینی ہے وہ ہے صرف اللہ تعالی کی عبادت ۔‘‘ صحیح البخاری : 1458 ، صحیح مسلم : 19
سامعین گرامی ! ہم خاص طور پر ’ توحید ِ الوہیت‘ کا کیوں کہتے ہیں ؟ اس لئے کہ توحید ربوبیت کا تو تقریبا سارے مسلمان اقرار کرتے ہیں ، بلکہ مشرکین مکہ بھی اللہ تعالی کو رب ( خالق ومالک ) مانتے تھے ، انھیں اعتراض تھا تو توحید الوہیت پہ تھا ۔ وہ کہا کرتے تھے :
﴿ اَجَعَلَ الْاٰلِہَۃَ اِِلٰہًا وَّاحِدًا ﴾ ’’ کیا اس نے سب معبودوں کو ایک ہی معبود بنا دیا ؟ ‘‘
اور آج بھی بہت سارے لوگ اللہ رب العزت کو خالق ومالک تو مانتے ہیں ، لیکن اس کیلئے تمام عبادات کو خاص نہیں کرتے ۔ بلکہ غیر اللہ کے سامنے رکوع ، سجدہ بھی کرتے ہیں ، غیر اللہ کو داتا ، غوث ، حاجت روا اور مشکل کشا بھی مانتے ہیں ، غیر اللہ سے امیدیں بھی وابستہ کرتے ہیں ، ان سے خوف بھی کھاتے ہیں اور ان پر توکل بھی کرتے ہیں ۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ دعوت الی اللہ کا فریضہ سر انجام دینے والے تمام حضرات اپنی
دعوت کا آغاز توحید ِ الوہیت سے کریں ۔ اور لوگوں کو شرک کی تمام شکلوں سے ڈرائیں اور انھیں اس کے برے انجام کے بارے میں آگاہ کریں ۔
اسی طرح توحید ِ اسماء وصفات کے بارے میں بھی لوگوں کو آگاہ کرنا ضروری ہے ۔ کیونکہ آج بہت سارے لوگ اس میں بھی بھٹک گئے ہیں اور اللہ تعالی کے اسماء وصفات کے بارے میں غلط نظریات کے حامل ہیں ۔ لہذا انھیں اسمائے حسنی وصفات علیا کے بارے میں اہل السنہ والجماعہ کے عقیدے سے آشنا کرانا انتہائی ضروری ہے ۔
06. پورے دین پر عمل بھی کیا جائے اور پورے دین کی طرف دعوت بھی دی جائے
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ﴾ البقرۃ2:208
’’ اے ایمان والو ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کی اتباع نہ کرو کیونکہ وہ تمھارا واضح دشمن ہے ۔ ‘‘
لہذا تمام شعبوں میں دین اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ چاہے عقائد ہوں یا عبادات ہوں ۔ معاملات ہوں یا حقوق ہوں ۔ اخلاق وکردار کا معاملہ ہو یا سیاسی اور معاشی مسائل ہوں ۔ الغرض یہ کہ اسلام کے تمام کے تمام احکام پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ اور عمل کے ساتھ ساتھ دین کی تمام تعلیمات کی طرف دعوت دینا بھی ضروری ہے ۔
ہم جب یہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے توحید ِ الوہیت کی طرف دعوت دینی چاہئے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کے علاوہ دین کے باقی امور کو دعوت میں نظر انداز کر دیا جائے ! بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ توحید ِ الوہیت کو ترجیح دی جائے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ دین کے باقی تمام امور کی طرف بھی لوگوں کو متوجہ کیا جائے اور انھیں ترغیب وترہیب کے ذریعے ان پر عمل کرنے کی بھی تلقین کی جائے ۔
07. کتاب وسنت کے دلائل کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا ضروری ہے اوران کے مقابلے میں عقلی آراء اور مسلکی اقوال کو پیش کرنا اور ان سے چمٹے رہنا حرام ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اِِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤمِنِیْنَ اِِذَا دُعُوْٓا اِِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ٭ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَخْشَ اللّٰہَ وَیَتَّقْہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفَآئِزُوْنَ ﴾ النور24 :51 ۔52
’’مومنوں کی تو بات ہی یہ ہے کہ جب انھیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلایا جائے کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو کہتے ہیں کہ ’’ ہم نے سنا اور اطاعت کی ‘‘ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے ، اللہ سے ڈرتا رہے اور اس کی نافرمانی سے بچتا رہے تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔ ‘‘
اسی طرح اللہ تعالی نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کے بارے میں فرمایا :
﴿ فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ النساء4 :65
’’ پس قسم ہے تیرے رب کی ! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپس کے تمام اختلافات میں آپ کو حاکم (فیصل) نہ مان لیں ، پھر جو فیصلہ آپ ان میں کردیں اس سے وہ دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی محسوس نہ کریں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں ۔ ‘‘
دانستہ طور پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنا اور ان کے فیصلوں سے روگردانی کرنا واضح گمراہی ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ وَ مَا کَانَ لِمُؤمِنٍ وَّ لَا مُؤمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِیْنًا ﴾ الأحزاب33 :36
’’ کسی مومن مرد اور مومنہ عورت کو حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسول کسی کام کا فیصلہ کردیں تو ان کیلئے اپنے معاملے میں کچھ اختیار باقی رہ جائے ۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ یقینا واضح گمراہی میں جا پڑا ۔ ‘‘
بلکہ اللہ تعالی نے ان لوگوں کو دردناک عذاب کی دھمکی دی ہے جو جان بوجھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ النور24 :63
’’لہذا جو لوگ رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انھیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ کہیں وہ کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہو جائیں یا ان پر کوئی المناک عذاب نہ آجائے ۔ ‘‘
لہذا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے مقابلے میں مسلکی آراء کو پیش کرنے سے باز رہنا چاہئے ۔
حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے مقابلے میں شیخین کریمین جناب ابو بکر رضی اللہ عنہ اور جناب عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کو پیش کرنے پر بھی اللہ کے عذاب سے ڈراتے تھے ۔
جیسا کہ امام ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ نے عروۃ سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا : آپ اللہ سے نہیں ڈرتے کہ آپ حجِ تمتع کی رخصت دیتے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا : اے عروۃ ! تم اپنی والدہ سے پوچھ لو ، عروۃ کہنے لگے : ابو بکر وعمر ( رضی اللہ عنہما ) نے تو تمتع نہیں کیا ! یہ سن کر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
( وَاللّٰہِ مَا أُرَاکُمْ مُنْتَہِیْنَ حَتّٰی یُعَذِّبَکُمُ اللّٰہُ ، نُحَدِّثُکُمْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ،وَتُحَدِّثُوْنَا عَنْ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ)
’’ اللہ کی قسم ! میں نہیں سمجھتا کہ تم باز آؤ گے یہاں تک کہ تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو جائے ، ہم تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے ہیں اور تم اس کے مقابلے میں ابو بکر وعمر ( رضی اللہ عنہما ) کی بات کرتے ہو؟‘‘
اور دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
( أُرَاہُمْ سَیَہْلِکُوْنَ ، أَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم ، وَیَقُوْلُوْنَ : قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ ؟ )
’’ میں سمجھتا ہوں کہ وہ عنقریب ہلاک ہو جائیں گے ، میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یوں ) فرمایا اور یہ کہتے ہیں کہ ابو بکر وعمر ( رضی اللہ عنہما ) نے ( یوں ) کہا ؟‘‘ صحیح جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر ۔ أبو الأشبال : ص 525
یہاں پر یہ بات ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ خود ائمۂ اربعہ رحمہم اللہ بھی قرآن وسنت کی نصو ص کے مقابلے میں اپنی آراء پر عمل کرنے سے منع کرتے تھے۔
٭ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا تھا :
( لَا یَحِلُّ لِأَحَدٍ أَن یَّأْخُذَ بِقَوْلِنَا ، مَا لَمْ یَعْلَمْ مِنْ أَیْنَ أَخَذْنَاہُ )
’’ کسی کیلئے جائز نہیں کہ وہ ہمارے کسی قول کو قبول کرے جب تک وہ یہ نہ معلوم کر لے کہ ہم نے اسے کہاں سے لیا ‘‘
اسی طرح انھوں نے کہا تھا : ( حَرَامٌ عَلٰی مَن لَّمْ یَعْرِفْ دَلِیْلِیْ أَن یُّفْتِیَ بِکَلَامِی ، فَإِنَّنَا بَشَرٌ نَقُولُ الْقَوْلَ الْیَوْمَ وَنَرْجِعُ عَنْہُ غَدًا )
’’ جس شخص نے میری دلیل کو نہیں پہچانا اس پر حرام ہے کہ وہ میرے کلام کے ساتھ فتوی دے ۔ کیونکہ ہم
بشر ہیں ، ہم آج ایک بات کرتے ہیں اور کل اس سے رجوع بھی کر سکتے ہیں ۔ ‘‘
٭ اور امام مالک رحمہ اللہ نے کہا تھا : ( إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أُخْطِیُٔ وَأُصِیْبُ ، فَانْظُرُوا فِی رَأْیِی ، فَکُلُّ مَا وَافَقَ الْکِتَابَ وَالسُّنَّۃَ فَخُذُوہُ ، وَکُلُّ مَا لَمْ یُوَافِقِ الْکِتَابَ وَالسُّنَّۃَ فَاتْرُکُوْہُ )
’’ میں ایک انسان ہی ہوں ، میں غلطی بھی کرتا ہوں اور صحیح موقف بھی اختیار کرتا ہوں ۔ لہذا تم میری رائے کے متعلق غور کر لیا کرو ، میری جو بھی رائے کتاب وسنت کے مطابق ہو تو قبول کر لو اور اگر کتا ب وسنت کے مطابق نہ ہو تو اسے چھوڑ دو ۔ ‘‘
٭ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا تھا : ( أَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلٰی أَنَّ مَنِ اسْتَبَانَ لَہُ سُنَّۃٌ عَن رَّسُولِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم لَمْ یَحِلَّ لَہُ أَنْ یَّدَعَہَا لِقَوْلِ أَحَدٍ )
’’ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس آدمی کیلئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت واضح ہو جائے تو اس کیلئے جائز نہیں کہ وہ کسی کے قول کی بناء پر اسے چھوڑ دے ۔ ‘‘
اسی طرح انھوں نے کہا تھا : ( إِذَا صَحَّ الْحَدِیْثُ فَہُوَ مَذْہَبِی )
’’ جب حدیث صحیح سند کے ساتھ ثابت ہو جائے تو وہی میرا مذہب ہے ۔ ‘‘
٭ اور امام احمد رحمہ اللہ نے کہا تھا : ( لَا تُقَلِّدْنِی وَلَا تُقَلِّدْ مَالِکًا وَلَا الشَّافِعِیَّ وَلَا الْأوْزَاعِیَّ وَلَا الثَّوْرِیَّ ، وَخُذْ مِنْ حَیْثُ أَخَذُوْا )
’’ تم میری تقلید نہ کرو ۔ اور نہ ہی مالک ، شافعی ، اوزاعی اور ثوری کی تقلید کرو ۔ بلکہ تم وہاں سے لو جہاں سے ان سب نے لیا ۔ ‘‘ یعنی ان سب نے بھی دین کتاب وسنت سے لیا ، اسی طرح تم بھی کتاب وسنت سے ہی لو ۔
08. دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنا حرام ہے
کیونکہ اللہ تعالی نے حجۃ الوداع کے موقع پر ﴿ اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾ کے ذریعے اعلان فرما دیا تھا کہ اس نے دین مکمل کردیاہے ۔
پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ((أَلَا ہَلْ بَلَّغْتُ ))فرما کر اعلان کردیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا مکمل دین امت تک پہنچا دیا ہے ۔ اس لئے اس میں کسی قسم کی کمی بیشی کرنا ہرگز درست نہیں ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہر خطبہ میں دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے ڈراتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادتین کے بعد یوں ارشادفرماتے تھے :
((أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَیْرَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہِ ، وَخَیْرَ الْہَدْیِ ہَدْیُ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وسلم وَشَرَّ الْأُمُوْرِ
مُحْدَثَاتُہَا، وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ)) صحیح مسلم :867
’’حمد وثناء کے بعد ! یقینا بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے ۔ اور امور میں سب برا امر وہ ہے جسے ایجاد کیا گیا ہو اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔‘‘
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ)) صحیح البخاری :2697، صحیح مسلم : 1718
’’ جس شخص نے ہمارے اس دین میں نیا کام ایجاد کیا جو اس سے نہیں تھا تو وہ مردود ہے ۔‘‘
مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں : (( مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ ))
’’ جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں تو وہ مردود ہے۔ ‘‘
اِس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دین میں ہر نیا کام اور ہر نیا طریقہ مردود اور ناقابل قبول ہے ۔
09. برحق راستہ ایک ہی ہے ، متعدد نہیں
کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ﴾ الأنعام6 :153
’’ اور یقینا یہی میرا سیدھا راستہ ہے ، لہذا تم لوگ اسی کی اتباع کرو اور دوسرے راستوں پر مت چلو جو تمھیں اس کی سیدھی راہ سے جدا کردیں ۔ اللہ نے تمھیں انہی باتوں کا حکم دیا ہے تاکہ تم تقوی کی راہ اختیار کرو۔‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سیدھی لکیر کھینچی ، پھر اس کے دائیں بائیں کچھ اور لکیریں کھینچ دیں ، پھر فرمایا : (( ہٰذَا صِرَاطُ اللّٰہِ مُسْتَقِیْمًا ، وَہٰذِہِ السُّبُلُ عَلٰی کُلِّ سَبِیْلٍ مِّنْہَا شَیْطَانٌ یَّدْعُو إِلَیْہِ ))
’’ یہ سیدھی لکیر اللہ تعالی کا سیدھا راستہ ہے ۔ اور یہ جو دائیں بائیں راستے ہیں ان میں سے ہر ایک پر شیطان ہے جو اس کی طرف دعوت دے رہا ہے ۔ ‘‘ رواہ أحمد والدارمی والحاکم بسند حسن
اِس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی آیت تلاوت کی جو ابھی ہم نے ذکر کی ہے ۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بر حق راستہ ایک ہی ہے ، متعدد نہیں ، جیساکہ بعض لوگ باور کراتے ہیں ۔
10. حق وباطل کا معیار دلائل وبراہین ہیں ، اکثریت نہیں ۔کیونکہ اکثریت کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں :
کہیں ﴿ اَکْثَرُھُمْ لَا یُؤمِنُوْنَ﴾ فرمایا ۔ البقرۃ2 : 100 یعنی ’’ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے ۔‘‘
اور کہیں ﴿وَاَکْثَرُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ﴾ فرمایا ۔ المائدۃ5 :103 ’’ان میں سے زیادہ تر لوگوں کو عقل نہیں ۔ ‘‘
اور کہیں ﴿اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ فرمایا ۔ الأنعام 6: 37
’’ ان میں سے اکثر نہیں جانتے ۔‘‘
اور کہیں ﴿ اَکْثَرَھُمْ یَجْھَلُوْنَ﴾ فرمایا ۔ الأنعام6 :111 ’’ ان میں سے اکثرجاہل ہیں ۔‘‘
اور کہیں فرمایا :﴿وَ لَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَ ﴾ الأعراف7: 17
’’ آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائیں گے ۔‘‘
اور کہیں فرمایا:﴿وَمَا وَجَدْنَا لِاَکْثَرِھِمْ مِّنْ عَھْدٍ وَ اِنْ وَّجَدْنَآ اَکْثَرَھُمْ لَفٰسِقِیْنَ ﴾ الأعراف7: 102 ’’ اور ان میں سے زیادہ تر لوگوں کو ہم نے عہد کا وفادار نہیں پٖایا۔ ہم نے تو ان میں سے اکثر کو فاسق ہی پایا۔ ‘‘
اور کہیں فرمایا :﴿ وَ مَا یَتَّبِعُ اَکْثَرُھُمْ اِلَّا ظَنًّا﴾ یونس10 :36 ’’ اور ان میں سے اکثر لوگ ظن وگمان ہی کی پیروی کرتے ہیں ۔ ‘‘
اور کہیں فرمایا :﴿وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَشْکُرُوْنَ ﴾ یونس10 :60 ’’ اور ان میں سے اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے ۔ ‘‘
اور کہیں فرمایا :﴿وَ مَا یُؤمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاللّٰہِ اِلَّا وَ ھُمْ مُّشْرِکُوْنَ﴾ یوسف12 :106 ’’اور ان کی اکثریت اللہ پر ایمان نہیں لاتی مگر شرک بھی کرتی ہے ۔ ‘‘
اور کہیں فرمایا :﴿ بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ الْحَقَّ فَھُمْ مُّعْرِضُوْنَ ﴾ الأنبیاء21 :24 ’’ بلکہ ان میں سے اکثر لوگ حق کو نہیں جانتے ، اسی لئے وہ اس سے اعراض کرتے ہیں۔‘‘
اورکہیں فرمایا:﴿اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ اِِنْ ہُمْ اِِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا ﴾ الفرقان25 :24
’’ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے اور سمجھتے ہیں ؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں ۔ ‘‘
اورکہیں فرمایا :﴿ فَاَعْرَضَ اَکْثَرُہُمْ فَہُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ ﴾ حم السجدۃ41 :4
’’پھر ان میں سے اکثر نے منہ پھیر لیا ، چنانچہ وہ سنتے ہی نہیں ۔ ‘‘
ان آیات سے ثابت ہوا کہ اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو نہیں جانتے ، جو نہیں سمجھتے ، جو نہیں سنتے ، جو شکر ادا نہیں کرتے ، جو اعراض کرتے ہیں ، جو جاہل ہیں ، جو چوپائے جانوروں سے بھی بد تر ہیں ، جو ایمان لا کر بھی شرک کرتے ہیں ، جو ظن وگمان کی اتباع کرتے ہیں اور جو اللہ سے کئے ہوئے عہد کا پاس نہیں کرتے ۔
اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا : ﴿وَ اِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ ھُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ﴾ الأعراف7: 116
’’ اور اگر آپ اہل ِزمین کی اکثریت کی اتباع کریں گے تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بہکا دیں گے ۔ وہ تو محض ظن کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔ اور صرف قیاس آرائیاں کرتے ہیں ۔ ‘‘
تمام آیات سے معلوم ہواکہ حق وباطل کی پہچان اکثریت سے نہیں ، بلکہ اس کی پہچان دلائل وبراہین کے ساتھ ہوتی ہے ۔ لہذا محض اکثریت کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ اتنے زیادہ لوگ فلاں عقیدہ رکھتے ہیں ، یا اتنے زیادہ لوگ فلاں عمل کرتے ہیں ، تو وہ غلط نہیں ہو سکتے ! بلکہ اس کے برعکس حق پر چلنے والے لوگ ہمیشہ تعداد کے لحاظ سے کم رہے ہیں ۔ اور انہی کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْر﴾ سبأ34 :13
’’ اور میرے بندوں میں سے شکرگزار بندے کم ہی ہوتے ہیں ۔ ‘‘
11۔ ضعیف اور موضوع احادیث سے ڈرانا ضروری ہے
کیونکہ ہمارے معاشرے میں ضعیف اور موضوع احادیث بری طرح سے منتشر ہیں ۔ اور یہ ایسی احادیث ہیں جن پر غلط عقائد اور باطل نظریات کی بنیاد ہے ۔ اور بیشتر بدعات کی اساس بھی اسی قسم کی احادیث ہیں ۔
جبکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں سے صرف وہ احادیث معتبر اور قابل حجت ہیں کہ جو صحیح سند کے ساتھ ثابت ہوں یا کم ازکم حسن درجے کی ہوں ۔ اور جو احادیث محدثین کے نزدیک ضعیف یا موضوع ومن گھڑت ہوں تو وہ قطعی طور پر معتبر اور قابل حجت نہیں ہیں ۔ ایسی احادیث سے نہ مسائل واحکام اخذ
کئے جا سکتے ہیں اور نہ ہی ان سے فضائل اعمال ثابت ہوتے ہیں ۔ لہذا ان احادیث کا تعلق چاہے فضائل اعمال سے ہو یا احکام سے ، دونوں صورتوں میں انھیں ناقابل حجت سمجھنا چاہئے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹی اور من گھڑت احادیث بیان کرنے والے لوگوں کے متعلق پیشین گوئی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا :
(( یَکُوْنُ فِی آخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالُونَ کَذَّابُونَ ، یَأْتُونَکُمْ مِّنَ الْأحَادِیْثِ بِمَا لَمْ تَسْمَعُوْا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُکُمْ ، فَإِیَّاکُمْ وَإِیَّاہُمْ ، لَا یُضِلُّونَکُمْ وَلَا یَفْتِنُونَکُمْ)) رواہ مسلم فی المقدمۃ
’’ آخری زمانے میں کچھ لوگ آئیں گے جو دجل وفریب سے کام لیں گے اور بہت جھوٹ بولیں گے اور وہ تمھیں ایسی ایسی حدیثیں سنائیں گے کہ جو نہ تم نے سنی ہونگی اور نہ تمھارے آباؤ اجداد نے سنی ہونگی ۔ لہذا تم ان سے بچناذ ، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمھیں گمراہ کردیں اور تمھیں فتنے میں مبتلا کردیں ! ‘‘
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی حرف بحرف سچی ثابت ہوئی اور کئی لوگ ایسے آئے کہ جنھوں نے ہزاروں کی تعداد میں احادیث گھڑیں اور انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا ۔ اِس طرح کے لوگ پہلے بھی آئے اور آج بھی موجود ہیں جو ’فضائل اعمال ‘کے نام سے سینکڑوں انتہائی ضعیف اور جھوٹی احادیث بیان کرتے ہیں اور انھیں پوری دنیا میں پھیلا رہے ہیں ۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا :
(( مَنْ حَدَّثَ عَنِّی بِحَدِیْثٍ یَّرَی أَنَّہُ کَذِبٌ فَہُوَ أَحَدُ الْکَاذِبِیْنَ)) رواہ مسلم فی المقدمۃ
’’ جو شخص ایسی حدیث بیان کرے کہ جس کے بارے میں اسے پتہ ہو کہ یہ جھوٹی ہے تو وہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے ۔ ‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹی حدیثیں بیان کرنے والے لوگوں کو سخت وعید سناتے ہوئے ارشاد فرمایا :(( لَا تَکْذِبُوا عَلَیَّ فَإِنَّہُ مَن یَّکْذِبْ عَلَیَّ یَلِجِ النَّارَ )) رواہ مسلم فی المقدمۃ
’’ تم میرے اوپر جھوٹ نہ بولنا ، کیونکہ جو میرے اوپر جھوٹ بولے گا تو وہ جہنم میں داخل ہوگا ۔ ‘‘
اور کئی لوگ سنی سنائی باتوں کو ہی ’ احادیث ‘ تصور کرلیتے ہیں ، پھر انھیں مسائل واحکام میں بھی حجت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور ان سے فضائل اعمال بھی ثابت کرتے ہیں ۔ بلکہ بڑی بڑی بدعات کے ثبوت کیلئے بھی وہ انہی سنی سنائی حدیثوں کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں ! حالانکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ (( کَفٰی بِالْمَرْئِ کَذِبًا أَن یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ)) رواہ مسلم فی المقدمۃ
’’ آدمی کے جھوٹ کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کرے ۔ ‘‘
12. مسلمانوں میں اتفاق واتحاد ضروری ہے اور افتراق قابل مذمت ہے
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوا ﴾ آل عمران3 :103
’’تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں مت بٹو ۔‘‘
اللہ کی رسی سے کیا مراد ہے ؟ آئیے حدیث نبوی کی روشنی میں معلوم کرتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ((أَلَا وَإِنِّی تَارِکٌ فِیْکُمْ ثَقَلَیْنِ ، أَحَدُہُمَا کِتَابُ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ہُوَ حَبْلُ اللّٰہِ ، مَنِ اتَّبَعَہُ کَانَ عَلَی الْہُدَی وَمَنْ َترَکَہُ کَانَ عَلٰی ضَلَالَۃٍ)) صحیح مسلم :2408
’’ خبر دار ! میں تم میں دو بہت ہی بھاری چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ، ان میں سے پہلی کتاب اللہ ہے جو اللہ کی رسی ہے ۔ جو اس کی اتباع کرے گا وہ ’ ہدایت ‘ پر رہے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہی پر ہوگا ۔ ‘‘
گویا اللہ کی رسی سے مراد قرآن مجید ہے ، جس کو اللہ تعالی نے مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا ہے ۔اور اس کے ساتھ ہی اللہ تعالی نے فرقہ بندی سے بھی منع فرمایا ہے ۔
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : ﴿ اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلَاتَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ﴾ الشوری42 :13 ’’ دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو ۔ ‘‘
بلکہ ایک اور آیت میں اللہ تعالی نے تفرقہ ڈالنا مشرکین کی صفات میں ذکر فرمایا ہے ۔
فرمایا : ﴿مُنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ وَاتَّقُوْہُ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ٭ مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَ کَانُوْا شِیَعًا کُلُّ حِزْبٍ م بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ ﴾ الروم30 :31۔32
’’ ( لوگو ! ) اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے ( اسی بات پر قائم ہو جاؤ ) اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو ۔ اور نماز کو قائم رکھو ۔ اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ ، جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہوں میں بٹ گئے ۔ ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی میں مگن ہے ۔ ‘‘
بلکہ معاملہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے ، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْادِیْنَہُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْھُمْ فِیْ شَیْئٍ اِنَّمَآ اَمْرُھُمْ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ یُنَبِّئُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ﴾ الأنعام6 :159
’’ جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور کئی فرقے بن گئے ان سے آپ کا کچھ سروکار نہیں ۔ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے ۔پھر وہ انھیں بتلا دے گا کہ وہ کن کاموں میں مصروف تھے ۔ ‘‘
سامعین گرامی !
مسلمانوں میں اختلاف کا فیصلہ کیسے ہوگا ؟ اس کیلئے اللہ تعالی کا یہ فرمان سامنے رکھیں :﴿ وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیْئٍ فَحُکْمُہٗٓ اِِلَی اللّٰہِ﴾ الشوری 42 :10
’’اور جس بات میں بھی تم اختلاف کرتے ہو اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار اللہ کے پاس ہے ۔ ‘‘
اسی طرح اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی :﴿یَااَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْیئٍ فَرُدُّوْہُ اِلیَ اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا ﴾ النساء4: 59
’’ اے ایمان والو ! تم اللہ تعالی کا حکم مانو اور رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانو۔ اور تم میں جو حکم والے ہیں ان کا۔ پھر اگر تمھارا کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹادو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو ۔ یہی (تمہارے حق میں )بہتر ہے اور اس کا انجام بہت اچھاہے ۔‘‘
اختلافی بات کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانے کا معنی یہ ہے کہ اس کا فیصلہ کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں کیا کرو ۔
یہ اختلافات کو ختم کرنے کا ربانی نسخہ ہے ۔ اگر تمام مسلمان اس پر عمل کریں تو یقینی طور پر ان میں موجودہ اختلافات ختم ہو سکتے ہیں ۔ جیسا کہ قرونِ اولی کے لوگ اپنے اختلافات اسی منہج کو اختیار کرتے ہوئے نمٹا لیا کرتے تھے ۔ اور جب امت میں اختلافات ہوں تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا ہے وہ کیا ہے ؟ سنئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ارشاد فرمایا !
(( عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الْمَہْدِیِّیْنَ الرَّاشِدِیْنَ ، تَمَسَّکُوْا بِہَا وَعَضُّوْا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ ، وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ )) سنن أبی داؤد :4607 ۔ وصححہ الألبانی
’’ تم میری سنت کو لازم پکڑنا اور اسی طرح ہدایت یافتہ اور راہِ راست پر گامزن خلفاء کے طریقے پر ضرور عمل کرنا ۔ اس کو مضبوطی سے تھام لینا اور اسے قطعا نہ چھوڑنا ۔اور تم دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچنا کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔‘‘
آخر میں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں ان تمام اصولوں پر عمل کرنے کی توفیق دے ۔
دوسرا خطبہ
معزز سامعین !
ہم اس خطبہ میں دعوت ِاہلحدیث اور منہج ِ سلف صالحین کے مزید چار اصول وضوابط بیان کرنا چاہتے ہیں ۔
13. قرآن مجید اور سنت ِ نبویہ کو پڑھنا اورسمجھنا انتہائی ضروری ہے ۔
کیونکہ قرآن مجید اللہ تعالی کی لا ریب کتاب ہے ۔ اور باطل کی آمیزش سے بالکل پاک ہے ۔
قرآن مجید کو اللہ تعالی نے کتاب ِ ہدایت قرار دیا ہے ۔ لہذا جو شخص سچے جذبے کے ساتھ حق وہدایت کا متلاشی ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ کی کتاب ( قرآن مجید ) کو پڑھے ، اسے سمجھے اور اس پر عمل کرے ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ قَدْ جَائَ کُم مِّنَ اللّٰہِ نُورٌ وَّکِتَابٌ مُّبِیْنٌ٭ یَہْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہُ سُبُلَ السَّلاَمِ وَیُخْرِجُہُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِہِ وَیَہْدِیْہِمْ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ المائدۃ5 :15۔16
’’ تمھارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور ( ایسی ) واضح کتاب آ چکی ہے جس کے ذریعے اللہ تعالی ان لوگوں کو سلامتی کی راہوں کی طرف ہدایت دیتا ہے جو اس کی رضا کی اتباع کرتے ہیں ۔ اور اپنے حکم سے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے ۔ اور صراط مستقیم کی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے ۔ ‘‘
اور یہ کہنا غلط ہے کہ قرآن مجید کو سمجھنا مشکل ہے اور اس کو سمجھنے کیلئے متعدد علوم کا ماہر ہونا ضروری ہے !
کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ ﴾ القمر54 :22
’’ اور ہم نے یقینا قرآن مجید کو نصیحت کیلئے آسان بنا دیا ہے ، تو کیا کوئی ہے نصیحت پکڑنے والا ؟ ‘‘
اسی طرح فرمایا : ﴿فَاِِنَّمَا یَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِکَ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ ﴾ الدخان44 :58
’’ ہم نے اس قرآن کو آپ کی زبان میں آسان بنا دیا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں ۔ ‘‘
اسی لئے اِس بابرکت کتاب کی اتباع کرنے کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالی فرماتے ہیں :
﴿وَہَذَا کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ مُبَارَکٌ فَاتَّبِعُوہُ وَاتَّقُوا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ ﴾ الأنعام 6: 155
’’ یہ کتاب جو ہم نے نازل کی ہے یہ بڑی با برکت ہے ۔ لہذا تم اس کی اتباع کرو اور ( اللہ تعالی سے)
ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ ‘‘
اور جہاں تک سنت نبویہ کا تعلق ہے تو رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر فرمایا تھا :
(( فَاعْقِلُوْا أَیُّہَا النَّاسُ قَوْلِیْ ، فَإِنِّیْ قَدْ بَلَّغْتُ ، وَقَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَّا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہُ إِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِہٖ : کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّۃَ رَسُوْلِہٖ صلي الله عليه وسلم )) السنۃ للمروزی : 68 من حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ
’’ اے لوگو ! میری باتوں کو اچھی طرح سے سمجھ لو ، میں نے یقینا اللہ کا دین آپ تک پہنچا دیا ۔ اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھام لیا تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے اور وہ ہے : اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ۔ ‘‘
لہذا تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ قرآن مجید اور سنت ِ نبویہ کو پڑھنے اور سمجھنے کا اہتمام کریں ، تاکہ حق وباطل میں فرق کرسکیں ۔ پھر سمجھنے کے بعد کتاب وسنت کو اپنا دستور حیات بنا لیں اور اپنے تمام مسائل کا حل انہی کے اندر سے معلوم کریں ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو حق بات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے ۔
14. داعی وہ شخص ہو جس کے پاس قرآن وحدیث کا علم ہو
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ ﴾ یوسف12 :108
’’ آپ فرما دیجئے کہ یہ میرا راستہ ہے ، میں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں علم وبصیرت کی بنیاد پر ، میں خود بھی اور جس نے میری اتباع کی وہ بھی ۔ ‘‘
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ دعوت کا فریضہ وہ شخص سرانجام دے جس کے پاس قرآن وحدیث کا علم ہو اور وہ صاحب بصیرت ہو ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے جہاں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مشن ذکر فرمایا کہ وہ علم وبصیرت کی بناء پر اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں ، وہاں اس نے یہی مشن ہر اس شخص کا ذکر فرمایا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیروکار ہو ۔
15. دعوت صرف کتاب وسنت کی طرف اور وہ بھی حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿ اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ﴾ النحل16 :125
’’ آپ اپنے رب کے راستہ کی طرف دعوت دیجئے ، حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ ۔ اور ان سے ایسے
طریقہ سے مباحثہ کیجئے جو بہترین ہو ۔ ‘‘
اس آیت مبارکہ میں غور کیجئے کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے دعوت کا نصاب بیان کیا ہے اور وہ ہے : ﴿سَبِیْلِ رَبِّک ﴾یعنی ’’آپ کے رب کا راستہ ‘‘ اور رب کے راستے سے مراد قرآن وسنت ہے ۔ لہذا تمام دعاۃ پر یہ بات فرض ہے کہ وہ صرف اور صرف کتاب وسنت کی طرف ہی لوگوں کو دعوت دیں ۔
اس کے بعد دعوت کا اسلوب اور انداز بیان کیا ہے ۔ اور وہ ہے حکمت اور عمدہ نصیحت ۔ لہذا تمام دعاۃ کو اپنی دعوت میں اسی اسلوب کو اختیار کرنا چاہئے ۔ ایسا اسلوب اور انداز اختیار کریں کہ جس میں محبت وپیار اور مدعوین کیلئے خیرخواہی کا سچا جذبہ ہو ۔ اور اگر مخالفین سے تکرار ومباحثہ کرنا پڑے تو اس کیلئے بھی بہترین طریقہ اختیار کریں ۔ سختی ، تشدد اور طعن وتشنیع سے پرہیز کریں ، تاکہ ان کی دعوت کا اپنوں پر بھی اچھا اثر ہو اور مخالفوں پر بھی ۔
16. فتوی وہ شخص دے جس کے پاس قرآن وحدیث کا علم ہو
کیونکہ جس کے پاس قرآن وحدیث کا علم نہ ہو اور لوگ اس سے فتوی پوچھیں تو وہ بغیر علم کے فتوی دے کر خود بھی گمراہ ہو گا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا ۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ اللّٰہَ لَا یَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا یَنْتَزِعُہُ مِنَ الْعِبَادِ ، وَلٰکِن یَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَائِ ، حَتّٰی إِذَا لَمْ یُبْقِ عَالِمًا ، اِتَّخَذَ النَّاسُ رُؤُسًا جُہَّالًا ،فَسُئِلُوْا فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوْا وَأَضَلُّوْا)) صحیح البخاری : 100 ، صحیح مسلم : 2673
’’ اللہ تعالی علم کو اِس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے بندوں (کے دلوں) سے کھینچ لے ، بلکہ وہ علماء کی ارواح کو قبض کرکے علم کو اٹھائے گا ۔ یہاں تک کہ جب کسی عالم کو باقی نہیں چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو مفتی بنا لیں گے۔چنانچہ ان سے سوال کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے ، اِس طرح وہ خود بھی گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ۔ ‘‘
آخر میں ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم سب کو ان تمام اصولوں پر عمل کرنے کی توفیق دے ۔ آمین ۔
وآخر دعوانا أن الحمد ﷲ رب العالمین