دعوت الی اللہ اور اس کی اہمیت و فضیلت

الحمد لله الملك العلام، الداعي إلى دار السلام، دعا عباده إلى ما ينفعهم في عاجلهم وأجلهم، وأمر نبيه أن يدعو إلى سبيله بالحكمة والموعظة الحسنة، أحمده سبحانه وأشكره في كل آن، وأسأله المزيد من فضله والإحسان، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له ذو العز والسلطان، وأشهد أن سيدنا محمدا عبده ورسوله الهادي إلى سبيل الرشد والرضوان، صلى الله عليه وعلى آله وأصحابه دعاة الحق والصلاح، والتابعين لهم بإحسان۔
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے جو دار السلام کی جانب بلانے والا ملک و علام ہے اپنے بندوں کو اس چیز کی دعوت دی جو دنیا و آخرت دونوں جگہ ان کے لئے کار آمد اور نفع بخش ہے اور ا۔ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے راستہ کی طرف حکمت و موعظت کے ساتھ لوگوں کو بلانے پر مامور کیا میں ہر لحظہ اس رب پاک کی حمد و تعریف اور شکر گزاری کرتا اور اس سے مزید فضل و احسان کا سوال کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس اللہ عزیز و غالب کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم رشد و ہدایت کی طرف بلانے والے اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اس نبی برحق پر حق و صلاح کی طرف بلانے والے ان کے آل و اصحاب پر اور ان کی سچی پیروی کرنے والوں پر اللہ کا درود و سلام نازل ہو۔ اما بعد!
برادران اسلام! اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَی اللّٰهِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۝۳۳﴾ (فصلت:32)
’’اس شخص سے بات کا اچھا کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمان ہوں۔‘‘
مذکورہ بالا آیت اس بات کی نہایت کھلی اور واضح دلیل ہے کہ اللہ کی جانب لوگوں کو بلانا اللہ کے نزدیک سب سے بہتر اور افضل ترین اعمال میں سے ہے، یہ دعوت و تبلیغ اللہ اور اس کے دین بر حق کی جانب ہو اسلامی تعلیمات کے منافی کسی مذہب کی طرف یا کسی دنیاوی غرض کے لئے یا کتاب وسنت کے طریقہ سے ہٹ کر کسی اور مقصد کی خاطر ہرگز نہ ہو بلکہ دعوت و تبلیغ کا مقصد صرف یہ رہے کہ اس کے ذریعہ اللہ کا دین بلند ہو ایسی دعوت حق اور دعوت دین ہے جو ایک عربی کو بھی پیش کی جائے گی اور عجمی کو بھی قریب کو بھی اس کی طرف بلایا جائے گا اور بعید کو بھی، دوست کو بھی یہ دعوت دی جائے گی اور دشمن کو بھی۔
دعوت حق کا فریضہ کسی متعین جماعت یا کسی خاص نسل و طبقہ اور کسی مخصوص زمانہ کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ یہ وہ فریضہ ہے جو ہر دور میں اور امت محمدیہ کے ہر فرد پر حسب استطاعت عائد ہوتا ہے اور امت کا کوئی بھی فرد خواہ وہ عربی ہو یا عجمی، بادشاہ ہو یا فقیر، حکومت ہو یا قوم، جو بھی اس مقدس دعوت کو لے کر اٹھے گا اسے عزت و سر بلندی ملے گی اللہ کی نصرت و تائید حاصل ہوگی اللہ تعالی اسے اپنے حفظ وامان میں رکھے گا اور صالح مومن بندوں میں سے اس کے لئے اعوان و انصار اور محافظ و مددگار عطا کر دے گا فرمایا:
﴿ وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ۝۴۰﴾ (الحج:40)
’’جو شخص اللہ کی مدد کرتا ہے اللہ اس کی ضرور مدد کرتا ہے، بیشک اللہ توانا اور غالب ہے۔‘‘
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت
﴿وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَی اللّٰهِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۝۳۳﴾ (فصلت:32)﴾
کی تلاوت کی تو فرمایا کہ یہ اللہ کا حبیب ہے یہ اللہ کا ولی ہے یہ اللہ کا منتخب بندے ہے یہ اللہ کا بہترین بندے ہے۔ یہ روئے زمین پر اللہ کا سب سے پسندیدہ بندے ہے، جس نے اللہ کی دعوت قبول کی اور دوسرے لوگوں کو بھی اس کی طرف بلایا اور دعوت قبول کرنے کے نتیجہ میں اس نے نیک عمل کیا اور اپنے آپ کو مسلمان کہا۔
مسلمانو! اللہ تعالی نے تمہیں اسلام کی توفیق بخشی ہے اور متاع ایمان سے آراستہ فرمایا ہے۔ لہٰذا اس عظیم ترین نعمت ”اسلام“ کی قدر و منزلت پہچانو اور اس کے واجبات و حقوق کی ادائیگی میں کو تاہی نہ کرو، دین حق کی بھر پور تائید کرو اور دشمنان دین کے مقابلہ میں ڈٹ جاؤ اور ان کا منہ پھیر دو۔ اللہ تعالی نے تمہیں حق اور اہل حق کی نصرت و حمایت اور باطل اور اہل باطل کو باطل رسوا و شکست خوردہ بنا کر ان کی طاقت کچل دینے کا حکم دیا ہے تاکہ باطل لوگوں کے اوپر اپنا ظلم اور تعدی نہ چلا سکے اور منارہ حق کو زمین بوس کر کے حق کے رخ زیبا کو اپنی ملمع سازیوں سے بدنما نہ کر سکے۔
اللہ کے بندو! ضروری ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے حق کو لازم پکڑو اس کی تلقین ووصیت کرو۔ اس کی تائید و حمایت میں لگے رہو اور اس کے اعوان و انصار بن کر جئو۔ کیونکہ جو معاشرہ حق کا ساتھ نہ دے اور کلمہ حق کو بلند نہ کرے وہ ہر طرح کے خیر و سعادت سے محروم ہو جاتا ہے جو امت حق کا علم بلند نہیں کرتی اور اس کے تقدس کا احترام نہیں کرتی وہ روئے زمین پر باقی بھی نہیں رہ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل باطل کے لئے ناکامی اور نامرادی لکھ دی ہے اور اہل حق کے حصہ میں فوز و فلاح، شان و شوکت، عزت و عظمت اور غلبہ و سلطنت مقدر کر دیا ہے فرمایا:
﴿كَتَبَ اللهُ لأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيْزُ﴾ (المجادله:21)
’’اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ضرور غالب رہیں گے، بیشک اللہ قوی و عزیز ہے۔‘‘
بھائیو! رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے اصحاب کرام آپ کے اصحاب کرام کی سیرت و حیات ہمارے لئے اسو ہ و نمونہ ہے، جنہوں نے دعوت دین اور دعوت حق کی راہ میں اپنے مال لٹا دیئے اور اپنی جانوں تک کی قربانیاں دے دیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ اور انہی کی قربانیوں سے دین اسلام کو غالب و ظاہر اور باطل کو پاش پاش کر دیا۔
دینی بھائیو! اپنے دین و ایمان کی بابت اللہ کا خوف کرو۔ اپنے لئے اعمال صالحہ کا ذخیرہ تیار کرو۔ کوتاہیوں اور بداعمالیوں کے انجام سے ڈرو۔ قرآن کریم اور سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت و ہدایت کو لازم پکڑو کیونکہ کتاب اللہ اور سنت رسول کا التزام و تمسک ہی حق مبین ہے اور حق کے بعد جو کچھ ہے وہ زیغ و ضلال ہے۔ برائی کی دعوت دینے والے کونے کونے پر بیٹھے ہوئے ہیں الحاد و بے دینی کے پیشوا جگہ جگہ پھیل چکے ہیں اور تخریب کار گروه گرانقدر اصول و مبادی کو ختم کرنے اور اعلیٰ اقدار و اخلاق کو مٹانے کے لئے پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اتر چکا ہے۔ ایسے نازک حالات میں سوائے دین اسلام کے اور کوئی قلعہ نہیں جو ہمیں پناہ دے سکے۔ دین اسلام ہی وہ قلعہ ہے جو ہر اس شخص کی حفاظت کا ضامن ہے جو اس کے آغوش میں آجائے حفاظت کے ساتھ ہی اسلام اسے عزت و عظمت شان و شوکت اور سیادت و سلطنت بھی عطا کرے گا۔ عزت و سربلندی صرف اللہ اللہ کے رسول اور اہل ایمان کے لئے ہے لیکن دشمنان دین اسے نہیں جانتے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَ جَاهِدُوْا فِی اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ ؕ هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ؕ مِلَّةَ اَبِیْكُمْ اِبْرٰهِیْمَ ؕ هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِیْنَ ۙ۬ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ هٰذَا لِیَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِیْدًا عَلَیْكُمْ وَ تَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۖۚ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اعْتَصِمُوْا بِاللّٰهِ ؕ هُوَ مَوْلٰىكُمْ ۚ فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ۠۝7﴾ (الحج:78)
’’اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے اس نے تم کو برگزیدہ کیا ہے اور تم پر دین (کی کسی بات) میں تنگی نہیں کی (اور تمہارے لئے) تمہارے باپ ابراہیم کا دین (پسند کیا) اس نے پہلے بھی تمہارا نام مسلمان رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی تاکہ پیغمبر تمہارے بارے میں شاہد ہوں اور تم لوگوں کے مقابلہ میں شاہد ہو، اس نماز پڑھو اور زکوۃ دو اور اللہ (کے دین کی رسی) کو مضبوطی سے پکڑے رہو وہی تمہارا مولا ہے اور وہ بهترین مولا اور بہترین مددگار ہے۔‘‘
بارك الله لي ولكم في القرآن الكريم، ونفعني وإياكم بما فيه من الآيات والذكر الحكيم، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب، فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خطبه ثانیه
الحمد لله على إحسانه، والشكر له على توفيقه وامتنانه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن سيدنا محمدا عبده ورسوله، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وأصحابه
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے جو اس نے احسان و انعام فرمایا اور توفیق اور مہربانیوں پر اسی کے لئے شکر و سپاس ہے میں شہادت دیتا ہوں کہ اس وحدہ لاشریک کے سوا کوئی معبود نہیں، اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ! تو اپنے بندے ورسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
برادران اسلام! ایمان باللہ اور استقامت کے بعد افضل ترین عمل دعوت الی اللہ ہے یہ دعوت کتاب اللہ اور سنت رسول کی جانب ہو اور بصیرت کے ساتھ ہو، دعوت الی اللہ کا عمل انبیاء و رسل علیہم السلام کی سنت ہے اور سیدنا محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی رب تعالیٰ کی جانب سے میں حکم ملا تھا ارشاد ہوا:
﴿قُلْ هٰذِهٖ سَبِیْلِیْۤ اَدْعُوْۤا اِلَی اللّٰهِ ؔ۫ عَلٰی بَصِیْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ ؕ وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ۝۱۰۸﴾ (يوسف:108)
’’کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے کہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں سمجھ بوجھ کر میں بھی اور میرے پیرو بھی اور اللہ پاک ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘
دعوت الی اللہ کسی مخصوص مذہب یا جماعت کی طرف بلانے کا نام نہیں، دعوت الی اللہ سنت نبوی کے معارض کسی اصول کی دعوت کا نام نہیں۔ دعوت الی اللہ کسی عصبیت یا جاہلی حمیت یا قومیت یا وطنیت کی جانب بلانے کا نام نہیں بلکہ اللہ کی توحید اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت و ہدایت کی طرف لوگوں کو بلانے کا نام ہے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند و غالب ہو کلمئہ کفر تہس نہس ہو۔ پوری دنیا میں اللہ کے دین کا بول بالا ہو اور شرک و بدعت کے شائبہ سے پاک ہو کر عبادت خالص اللہ کے لئے ہو جیسا کہ اس کا ارشاد ہے:
﴿وَمَا أُمِرُوْا إِلاَّ لِيَعْبُدُوا اللهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ حُنَفَاهَ وَيُقِيْمُواالصَّلاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَذَلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ﴾ (البينه:5)
’’انہیں حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں یکسو ہو کر اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں اور یہی سچا دین ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔