دعوت و تبلیغ کی اہمیت و شرعی حیثیت

از  قاری  نعیم الحق نعیم رحمۃ اللہ علیہ

 الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ ﴿اُدْعُ إِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلُهُمْ بِالَّتِي هِيَ اَحْسَن﴾ (النحل: 125)

( لوگوں کو) اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ بلا ؤ! اور ان سے ایسے طریقے سے مجادلہ و مباحثہ کرو جو انتہائی سلجھا ہوا اور خوبصورت ہو۔)

﴿وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾ (القصص:87)

(اور ( لوگوں کو) اپنے رب کی طرف بلاؤ اور مشرکوں میں سے مت ہو جاؤا)

﴿قُلْ هٰذِهِ سَبِيلِي اَدْعُوا إِلَى اللهِ عَلٰي بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعْنِي وَ سُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ المُشْرِكِينَ ) (يوسف: (108)

(اے پیغمبر علیہ الصلوۃ السلام) کہہ دیجئے کے یہ ہے میرا راستہ ۔ میں علی سبیل البصیرت اللہ کی طرف بلاتا ہوں میں اور ہر وہ شخص جو میر اتبع ہے اور پاک ہے اللہ تعالیٰ اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔) ﴿وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ﴾ (حم سجده:33)

’’اور کسی شخص کی بات اس سے اچھی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔ )

اندازہ کیجئے کہ دعوت و تبلیغ کا کام کسی قدر عظمت و اہمیت کا حامل ہے کہ خود سید الاولین وسید الآخرین افضل الانبياء والمرسلین رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے کرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ اور بتایا جارہا ہے کہ جو شخص بھی آپ ﷺ کا حقیقی متبع ہے وہ بھی یہ کام کرتا ہے۔ بلکہ یہ ضمانت دی جارہی ہے کہ ایک داعی و مبلغ کی زبان سے دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں نکلنے والے بول کلمات اور جملے اللہ کی نگاہ میں دنیا بھر کے بولوں کلمات  اور جملوں سے بہتر اور خوبصورت ہیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔

(مَنْ دَلَّ عَلٰى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرٍ فَاعِلِهِ).

 (صحیح مسلم: كتاب الجهاد۔ باب فضل اعانة الغازي في سبيل الله،  رقم الحدیث:1893)

’’جس نے بھلائی کے کام کی طرف کسی کی راہنمائی کی اس کو بھلائی کا کام کرنے والے کے برابر اجر و ثواب ملے گا۔‘‘

 گویا جو لوگ کسی داعی و مبلغ سے متاثر ہو کر راہ راست پر آ جاتے ہیں ان سب کے نیک اعمال اس داعی و مبلغ کے نامہ اعمال میں بھی درج ہوتے رہتے ہیں جس کی دعوت و تبلیغ سے متاثر ہو کر انہوں نے نیکی کی زندگی اختیار کی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ:

رسول اللہ ﷺ ے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: (فَوَ اللَّهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ) (صحیح بخاري: كتاب المغازي، باب  خيبر، رقم الحديث: 421)

’’اللہ کی قسم ! تمہارے ذریعے اللہ تعالیٰ ایک شخص کو ہدایت دے دے تو یہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ بہتر ہے۔‘‘ چونکہ عربوں کی معاشرتی و معاشی زندگی میں سرخ اونٹوں کی بہت زیادہ اہمیت تھی اس لئے آپ ﷺ نے ان کی قدر و قیمت کے ساتھ مقابلہ کر کے دعوت و تبلیغ کی اہمیت و فضیلت اجا گر فرمائی ہے۔

﴿وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَيُطِيْعُوْنَ اللهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللهُ﴾ (التوبة:71)

’’اور سب مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے ہمدر دو مددگار ہیں۔ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں۔ اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں۔ اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرتے ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا۔‘‘

 اس آیت کریمہ سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ اہل ایمان کی باہم محبت ومودت اور ہمدردی و موالات کا تقاضا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں ۔

اور دوسرے یہ کہ نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا ان کاموں میں سے ایک ہے جن کی بنا پر انسان اللہ تعالی کے رحم کا مستحق ہو جاتا ہے۔

﴿يُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ﴾ (ال عمران:114)

’’وہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔‘‘

اس آیت کریمہ میں ان اہل کتاب کا ذکر کیا گیا ہے جو حق پر قائم تھے۔ ان لوگوں کی دیگر خوبیوں کے ساتھ ان کی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی خوبی کو خصوصی طور پر بیان کیا گیا ہے۔

﴿فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ أَنجَيْنَا الَّذِيْنَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْءِ وَأَخَذْنَا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ﴾ (الاعراف: 165)

’’پس جب وہ اس چیز کو بھول گئے جس کی ان کو نصیحت کی گئی تھی تو ہم نے ان لوگوں کو نجات دی جو برائی سے روکتے تھے۔ اور ظلم کرنے والوں کو سخت عذاب کی گرفت میں لے لیا کیونکہ وہ نافرمانی کرتے تھے۔‘‘

اس آیت کریمہ میں اہل کتاب کے اس گروہ کا ذکر کیا گیا ہے جنہیں ہفتے کے دن پچھلی کا شکار کرنے سے منع کر دیا گیا تھا مگر وہ حیلہ سازی سے اس حکم کی مخالفت کیا کرتے تھے۔ ہفتے کے دن مچھلیوں کی کثرت کی وجہ سے دریا کے کنارے پر کھودے ہوئے گڑھوں اور کھائیوں میں پانی کو مچھلیوں سمیت جمع کر لیتے اور اتوار کے دن جا کر وہاں سے مچھلیوں کو پکڑ لاتے۔

ان حیلہ سازوں کی اس روش کی وجہ سے اہل کتاب تین گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ تو ان حیلہ سازوں کا تھا جو برائی کا ارتکاب کیا کرتے تھے دوسرا گروہ اس برائی سے روکنے والوں کا تھا۔ اور تیسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جو نہ اس برائی کا ارتکاب کرتے تھے اور نہ اس سے روکتے تھے۔

اوپر کی آیت کریمہ میں برائی کا ارتکاب کرنے والوں کے متعلق بتایا گیا ہے کہ ان کو اللہ تعالی کے شدید عذاب نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ (یعنی ان کو بندر اور سور بنا دیا گیا) اور برائی سے روکنے والوں کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ ان کو اس عذاب سے محفوظ رکھا گیا۔ اور برائی سے منع نہ کرنے والوں کا اس آیت میں صراحتاً ذکر نہیں ہے۔

علماء فرماتے ہیں کہ وہ بھی برائی کا ارتکاب کرنے والوں کے ساتھ ہی عذاب الٰہی کی گرفت میں آ گئے تھے۔ کیونکہ متذکرہ آیت کریمہ میں یہ تصریح کی گئی ہے کہ ہم نے ظلم کرنے والوں کو سخت عذاب کی گرفت میں لے لیا۔ اور قدرت کے باوجود برائی سے نہ روکنا بھی ایک قسم کا طلم ہی ہے۔

ہمارے خیال میں یہ دوسری رائے زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے۔

(إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا مُنْكَرًا فَلَمْ يُغَيِّرُوْ یُوْشَکُ أَنْ يَّعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابِهِ)

(جامع ترمذی، کتاب تفسير القرآن من سورة المائدة – رقم الحديث:3057، ابن ماجه كتاب الفتن باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر – رقم الحديث4005)

’’لوگ برائی کو دیکھ کر اسے ختم کرنے کی کوشش نہ کریں تو ہو سکتا ہے اللہ تعالی ان پر عام عذاب نازل کردے (جو برائی کرنے والوں اور اس سے منع نہ کرنے والوں دونوں کو اپنی لپیٹ میں لے)‘‘

عبداللہ بن مستورد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

(لَمَّا وَقَعَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ فِي الْمَعَاصِي نَهَتْهُمُ عُلَمَاؤُهُمْ فَلَمْ يَنْتَهُوا فَجَالَسُوْهُمْ فِي مجَالِسِهِمْ وَأَكَلُوهُمْ وَشَارَبُوْهُمْ فَضَرَبَ اللَّهُ قُلُوبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ فَلَعَنَهُمْ عَلٰى لِسَانِ دَاوُدَ وَعَيْسَى بْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ)

(ابو داود: کتاب الملاحم، باب الامر و النهي- رقم الحديث 4336، جامع ترمذي، كتاب تفسير القرآن، بات من سورة المائدة، رقم الحدیث:3047)

’’جب بنی اسرائیل نافرمانی کے کاموں میں پڑے گئے تو ان کے علماء نے ان کو منع کیا مگر وہ باز نہ آئے پھر (بھی) وہ ان مجلسوں میں ان کے ساتھ بیٹھتے رہے اور ان کے ساتھ کھاتے پیتے رہے تو اللہ تعالی نے ان (علماء اور عوام) سب کے دلوں کو آپس میں خلط ملط کر دیا (یعنی عوام کے دلوں کی سیاہی علماء کے دلوں پر بھی اثر انداز ہونے لگی) پھر ان (سب) پر حضرت داؤد اور اور حضرت عیسی بن مریم علیهما الصلوة والسلام کی زبانی لعنت کی۔ یہ اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے تجاوز کرتے تھے۔‘‘

ان لوگوں کی نافرمانی اور حد سے تجاوز کی قرآن مجید میں یوں وضاحت کی گئی ہے۔

﴿كَانُوْا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوهُ﴾ (المائده:79)

’’کہ وہ لوگ جس برائی کو کرنے لگ جاتے تھے پھر ایک دوسرے کو اس سے منع نہیں کرتے تھے۔‘‘

 اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل کو جو ملعون قرار دیا گیا تھا تو اس کی وجہ در اصل یہ تھی کہ ان لوگوں نے اہل معصیت کو معصیت سے روکنے کا کام اور باہم دعوت و تبلیغ کا سلسلہ ترک کر دیا تھا۔ گویا اہل اسلام کو یہ تنبیہ کی جا رہی ہے کہ وہ اس قسم کے طرز عمل سے احتراز کریں اور نہ ان کو بھی بنی اسرائیل کے سے نتائج سے دو چار ہونا پڑے گا۔

دوسرے یہ کہ علماء اگر اہل معصید ت سے باز رہنے کی تلقین و تبلیغ کریں اور وہ ارتکاب معاصی سے باز نہ آئیں تو پھر علماء کو چاہیے کہ وہ ان کی مجلسوں میں شرکت ان کے ساتھ مل کر کھانے پینے اور بے تکلف اختلاط کا سلسلہ ختم کر دیں۔ ورنہ ان کی مصاحبت و مجالست ان پر بھی اثر انداز ہو گی ۔ اور برائی کے متعلق ان کی نفرت آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی اور ایک دن آئے گا جب وہ خود بھی اس برائی میں مبتلا ہو جائیں گے۔ گویا برائی کو نہ روکنا اور برے لوگوں کی صحت و مجالست کا سلسلہ جاری رکھنا برائی کو اپنے اوپر مسلط ہو جانے کی دعوت یا اجازت دینے کے مترادف ہے۔

اس اصول کی تائید درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے۔

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

(مَثَلُ الْمُدْهِنِ فِي حُدُودِ اللهِ وَالْوَاقِعِ فِيهَا مَثَلُ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا سَفِينَةً فَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَسْفَلِهَا وَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَعْلَاهَا فَكَانَ الَّذِي فِي أَسْفَلِهَا يَمُرُّ بِالْمَاءِ عَلَى الَّذِينَ في أَعْلَاهَا فَتَأَذُّوا بِهِ فَأَخَذَ فَأَسًا فَجَعَلَ يَنْقُرُ أَسْفَلَ السَّفِيئَةِ فَآتَوُهُ فَقَالُوا مَالَكَ؟ قَالَ تأذّيتُمْ بِي وَلَا بُدَّلِي مِنَ الْمَاءِ فَإِنْ أَخَذُوا عَلٰى يَدَيْهِ اَنْجَوْهُ وَنَجَّوا انْفُسَهُمْ وَإِنْ تَرَكُوْهُ أَهْلَكُوهُ وَأَهْلَكُوا أَنفُسَهُمْ)

(صحیح بخاری، کتاب الصلح، باب القرعة في المشكلات. رقم الحديث:2686)

’’اللہ تعالی کے منع کردہ امور میں مداہنت کرنے والے شخص اور ان کا ارتکاب کرنے والے شخص کی مثال یوں ہے کہ کچھ لوگوں نے ایک بحری جہاز میں بیٹھنے کے لئے قرعہ اندازی کی۔ کچھ لوگ لے حصے میں ہو گئے اور کچھ اس کے اوپر کے حصے میں۔ پس ایک شخص جو اس کے نیچے کے حصے کے حصے میں تھا اوپر والوں کے پاس سے پانی وغیرہ لے کر گزرتا رہا تو انہوں نے اس کی تکلیف محسوس کی (اور ناگواری کا اظہار کیا) چنانچہ اس نے کلہاڑا لیا اور جہاز کے نچلے حصے میں سوراخ کرنا شروع کر دیا (تاکہ اپنی پانی کی ضرورت پوری کر سکے) پھر وہ سب اس کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تمہیں کیا ہے؟ اس نے کہا کہ تم نے میری آمد و رفت کی وجہ سے) تکلیف محسوس کی تھی حالانکہ پانی کے بغیر میرے لئے کوئی چارہ کار ہی نہیں۔ (آپ ﷺ نے فرمایا) اب اگر وہ اس کے ہاتھوں کو روک لیتے ہیں تو اس کو بھی بچا لیں گے اور اپنے آپ کو بھی بچالیں گے ۔ اور اگر اسے اس کی حالت پر چھوڑ دیتے ہیں تو اسے بھی ہلاک کر ڈالیں گے اور اپنے آپ کو بھی ہلاک کر ڈالیں گے۔‘‘

گویا اسلامی معاشرہ بحری جہاز کی مانند ہے۔ اور اس میں برائی کا ارتکاب کرنا بحری جہاز کے نچلے حصے میں سوراخ کرنے کے برابر ہے۔ اور اس برائی کے خلاف جدوجہد ترک کر دینا ایسے ہے جیسے کسی جہاز کو غرق ہو جانے کے لئے چھوڑ دیا جائے۔

اس حدیث شریف سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کسی برائی کو دیکھ کر اس کو مٹانے کی کوشش نہ کرنے والے لوگ بھی ایک دن اس برائی اور اس کے ہولناک نتائج کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔

چنانچہ آج اگر ہم اپنی انفرادی معاشرتی اور اجتماعی زندگی کا جائزہ لیں تو قدم قدم پر ایسے مقام آتے ہیں جہاں ہمیں بادل ناخواستہ برائی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات انسان برائی کے ارتکاب پر مجبور ہو کر رہ جاتا ہے۔ ہمارے خیال میں اس صورت حال کی اصل ذمہ داری اس لا پروائی پر عائد ہوتی ہے جو دعوت و تبلیغ کے سلسلہ میں ہم مدت دراز سے روار لکھے ہوئے ہیں۔ اور جو ہمیں ’’گر بہ کشتن روز اول‘‘ پر عمل پیرا نہیں ہونے دیتی۔

دعوت و تبلیغ کی شرعی حیثیت

دعوت و تبلیغ کی شرعی حیثیت حالات و افراد کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔ کبھی یہ فرض عین ہوتی ہے بھی فرض کفایہ اور کبھی سنت موکدہ۔

فرض عین

جب ہر طرف جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی ہو، نیکی مغلوب اور برائی غالب ہو۔ برائیوں کا ارتکاب کرنے والے بے حد و بے شمار ہون اور برائی کرنے والے داعی، مبلغ انتہائی قلیل ہوں تو ایسی صورت میں مسلمانان عالم کے ہر ہر فرد پر حسب استطاعت دعوت و تبلیغ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام فرض عین ہو جاتا ہے۔ یعنی جو مسلمان بھی اس فریضے کو حسب استطاعت ادا نہیں کرے گا۔ عنداللہ مجرم اور گنہگار تصور کیا

جائے گا۔

حالات حاضرہ کے پیش نظر راقم کے خیال میں حسب طاقت دعوت و تبلیغ ہر ہر مسلمان پر فرض عین ہو چکی ہے کیونکہ جہالت اور برائی کا ہر سوغلبہ ہے ۔ داعی و مبلغ انتہائی قلیل اور مغلوب ہیں الحاد و دہریت کا سیلاب امڈ آیا ہے اور بے دینی مسلمانوں تک کے گھروں پر دستک دے رہی ہے۔ بلکہ بہت سے مسلمان گھرانوں میں دندنا رہی ہے۔

اسی طرح اگر کوئی مسلمان ایسے علاقے میں رہتا ہو جہاں اس کے سوا دوسرا کوئی شخص بھی دعوت وتبلیغ کی اہلیت و صلاحیت نہ رکھتا ہو تو وہاں اس مسلمان کے لئے بھی حسب استطاعت دعوت و تبلیغ کا کام فرض عین کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔

فرض کفایہ

جب برائی کمزور ہو برائی کے مرتکب معدودے چند اشخاص ہوں۔ نیک لوگوں کی کثرت اور ان کا غلبہ ہو تو ایسی صورت میں دعوت و تبلیغ کا کام فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے یعنی چند لوگ اگر اس فریضے کو ادا کر دیں تو باقی سب مسلمان بھی اس سے سبکدوش ہو جائیں گے اور اگر ان میں سے ایک شخص بھی اس فریضے کو ادا نہیں کرتا تو سب کے سب گنہگار ہوں گے۔

سنت مؤکده

دعوت و تبلیغ کے فرض کفایہ ہو جانے کی صورت میں جب کچھ لوگ اس کی ادائیگی کے لئے مختص اور مقرر ہو چکے ہوں برائی کا سر کچل دینے کی قوت سے بہرہ ور ہوں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو انتہائی مؤثر طریقے سے سر انجام دے رہے ہوں تو ایسے حالات میں عامۃ المسلمین کے لئے دعوت و تبلیغ میں شرکت کرنا سنت مؤکدہ ہے۔ یعنی اگر وہ اس فریضے کی انجام دہی میں شریک ہو جاتے ہیں تو ان کے لئے بہت اجرو ثواب ہے۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو عنداللہ گنہ گار نہیں ہوں گے۔

 دعوت تبلیغ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی شرعی حیثیت کو سمجھنے کے لئے درج ذیل آیات واحادیث پر غور فرمائے۔

﴿كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بالله﴾ (آل عمران:110)

’’تم تو بہترین امت تھے جسے لوگوں کی خاطر معرض وجود میں لایا گیا تم (تمام دنیا کے لوگوں کو) نیکی کا حکم کرتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔)

﴿وَكَذَلِكَ جَعَلْنَكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا﴾ (البقرة: 143)

’’اور اسی طرح ہم نے تم کو درمیانی (افراط و تفریط سے مبرا) امت بنایا تاکہ تم (تمام دنیا کے) لوگوں پر گواہ ہو جاؤ۔ اور رسول (علیہ الصلوۃ والسلام) تم پر گواہ ہو جائیں۔‘‘

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے پوری امت محمدیہ (علی صاحبہا الصلوة والسلام) پر یہ ذمہ داری ڈال دی ہے کہ وہ تمام لوگوں کے لئے دعوت و تبلیغ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور شہادت علی الناس کا فریضہ سر انجام دے۔

﴿وَلْتَكُن مِنْكُمُ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ (آل عمران: 104)

’’اور (اے مسلمانو!) تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو (عام مسلمانوں کو) بھلائی کی دعوت دے نیکی کا حکم کرے اور برائی سے منع کرے اور یہی لوگ فلاح و کامرانی پانے والے ہیں۔‘‘

﴿فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُوْنَ﴾ (التوبة: 122)

’’پس ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان میں سے ہر (علاقے کی) جماعت سے ایک گروہ نکلتا تاکہ وہ لوگ دین کی تعلیم اور سمجھ حاصل کرتے اور تاکہ جب وو اپنی قوم کی طرف لوٹتے تو ان کو (اللہ کے عذاب یا جہالت کے نتائج سے) ڈراتے۔ شاید وہ لوگ (اللہ کی نافرمانی سے بچ جاتے۔)

ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں ایک گروہ ایسا ضرور ہونا چاہیے جو مسلمانوں کے اندر دعوت الی الخیر امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور انذار (اللہ کے عذاب سے ڈرانے) کا کام کرتا ہو۔

حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ تم نے فرمایا:

 (مَنْ رَّأَى مِنْكُمْ تُنْكَرًا فَلْيُغَيْرُهُ بِيَدِهِ فَإِن لَّمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ)

(صحیح مسلم: كتاب الإيمان، باب بيان كون النهي عن المنكر من الأيمان، رقم الحديث: 49)

’’جو شخص تم میں سے کسی منکر (برائی) کو دیکھئے اسے چاہیے کہ وہ اس کو اپنے ہاتھ سے بدل ڈالے (یعنی مٹا دے) سو اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو اپنی زبان سے (اس کے خلاف بات کرے) اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو اپنے دل سے (اس کو برا جانے) اور یہ (آخری صورت) ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘

داعی دعوت، مدعو اور مدعوالیہ کے متعلق چند اصولی باتیں

1۔ دعوت دین چونکہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا کام ہے اس لئے داعی کے اندر ان برگزیدہ ہستیوں کے اوصاف و عادات زیادہ سے زیادہ ہونے چائیں، جنہیں اخلاق حسنہ کے لفظ سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ لہذا جو شخص داعی بننا چاہئے اسے سب سے پہلے پوری کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اخلاق حسنہ سے متصف ہو۔ اگر وہ کسی درسگاہ میں زیر تعلیم ہے تو منتظمین درسگاہ کی ذمہ داری ہے کہ اس کی صحیح اخلاقی تربیت کریں۔ اگر منتظمین کی طرف سے ایسا بندو بہت نہ کیا گیا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ خود اپنے اخلاق سنوارنے کی کوشش کرے۔ با اخلاق اساتذہ اور طلبہ سے زیادہ تعلق رکھنے اس موضوع پر لکھی گئیں کتابیں زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی کوشش کرے۔ اور اس سلسلہ میں اللہ تعالی سے دعا بھی کرتا رہے۔ مثلا یہ دعا پڑھ سکتا ہے:

(اللَّهُمَّ اهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَعْمَالِ وَأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِاَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ وَقِنِي سَيِّءَ الْأَعْمَالِ وَسَيَّءَ الْأَخْلَاقِ لَا يَقِي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ)

(سنن نسائی: كتاب الافتتاح باب الدعاء بين التكبيرة و القراءة. رقم الحديث 897)

’’یااللہ بہترین اعمال اور بہترین اخلاق کی طرف میری رہنمائی فرما۔ تیرے سوا بہترین اخلاق و اعمال کی طرف رہنمائی فرمانے والا کوئی نہیں اور مجھے میرے اعمال اور میرے اخلاق سے بچا۔ تیرے سوا میرے اخلاق و اعمال سے بچانے والا کوئی نہیں۔

2۔ داعی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ’’مدعوالیہ‘‘ یعنی اللہ تعالی کے ساتھ اس کا انتہائی مضبوط اور گہرات تعلق ہو۔ اس سلسلہ کی راہنمائی حاصل کرنے کے لئے ہمیں ابتدائی کی دور کی نازل شدہ سورتوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ مثلاً سورۃ العلق کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ (اے نبی) سجدہ کر کے (اللہ  کا قرب حاصل کروا ﴿وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ﴾ (العلق:19)

گویا سجدہ ونماز سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ انسان سجدے کی حالت میں سب سے زیادہ اپنے رب کے قریب ہوتا ہے۔(صحيح مسلم كتاب الصلاة باب ما يقال في الحكم و السجون في الحديث .)

لہٰذا نماز اور سجدوں کی کثرت اور ان کے طول سے تقرب کے لمحات کو بھی طول دیا جا سکتا ہے جو آہستہ آہستہ دوام میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

سورۃ المدثر کے آغاز میں پہلا حکم ہے کہ اٹھ کر لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈراؤ! ﴿قُمْ فَاَنْدِرْ﴾ (المدثر:2)

اور دوسرا حکم ہے کہ اپنے رب کی کبریائی کا اظہار و اعلان کردو! ﴿وَ رَبَّكَ فَكَبِّرْ﴾ (المدثر:3)

 اس کے بعد اپنے لباس اور اپنے اخلاق کو پاک اور صاف ستحرار رکھنے کا حکم ہے۔ اس کے بعد شرک کی آلودگیوں سے خود کو بچا کر رکھنے کا حکم ہے۔ ﴿وَثِیَابَكَ فَطَهِّرُ، وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ﴾ (المدثر:4،5)

اس کے بعد یہ حکم ہے کہ کسی پر احسان کرو تو بے غرض ہو کر کرو! (وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ﴾ (المدثر:6)

 اور آخر دعوت و تبلیغ کی راہ میں پیش آنے والی تکالیف و مشکلات پر اپنے رب کے لئے صبر کرنے کا حکم ہے۔ ﴿وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ﴾ (المدثر:7)

اسی طرح سورۃ المزمل کی ابتدائی آیات میں داعی کے لئے اس سلسلہ کی تقریبًا مکمل راہنمائی دے دی گئی ہے۔ اس میں سب سے پہلا حکم قیام اللیل کا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قیام اللیل اللہ سے تعلق جوڑ نے اور اس کا قرب حاصل کرنے کا قوی ترین سبب ہے بشرطیکہ اس کے آداب و شروط کا خیال رکھا جائے ۔ یعنی خلوص نیت، خشوع و خضوع اور حضور قلب کے ساتھ لیے لیے سجدوں اور رکوع و قیام کا اہتمام کیا جائے۔ دوسرا حکم قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا ہے۔ قرآن کو ترتیل کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر اور سوچ سمجھ کر غور و فکر کرتے ہوئے پڑھنا بھی انسان کو اللہ کے قریب کرتا ہے۔ کیونکہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔ اور کلام سے تعلق پیدا ہو جائے تو صاحب کلام سے بھی تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ تیسر احکم اللہ کے نام کا ذکر کرنے کا ہے۔ اللہ کے نام کے ذکر اور یاد کے دوام و کثرت سے خود اللہ کا کر اور یاد حاصل ہو جاتی ہے۔ جب اللہ کا ذکر ہر دم دل میں رہنے گئے تو پھر سمجھنا چاہیے کہ اللہ سے تعلق پیدا ہو گیا اور اس کا قرب کسی حد تک حاصل ہو گیا ہے۔ چوتھا حکم تبتل کا ہے۔ یعنی تمام دنیوی علائق سے قلبی تعلق منقطع کر کے صرف اللہ تعالی کا ہو رہنا۔ یہ گویا ایک قسم کی اندرونی، فکری، قلبی، نفسیاتی یا روحانی جدوجہد کا نام ہے جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ پانچواں حکم اللہ کو اپنا سہارا بنا لینے کا ہے۔ یعنی اپنے تمام معاملات میں اللہ تعالی کی ذات وحدہ لا شریک لہ پر مکمل توکل اور بھروسہ کرنا چاہیے۔ اور ظاہر ہے کہ بھروسہ اور اعتماد اسی پر کیا جاتا ہے جس کے ساتھ پہلے کوئی قریبی تعلق قائم ہو چکا ہو۔ چھٹا حکم مخالفین کی دل آزار باتوں پر صبر کرنے کا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کسی کے ساتھ قرب اور محبت و مودت کا تعلق پیدا ہو چکا ہو تو پھر اس کے راستے میں مصائب و مشکلات پیش آئیں تو انہیں برداشت کرنا اور صبر کرنا مشکل نہیں ہوتا ۔ ساتواں حکم یہ ہے کہ مخالفین کی باتیں سن کر ان کے پیچھے نہ پڑ جائیں اور ان کو سوچ سوچ کر خود کو پریشان نہ کریں۔ بلکہ ان کی پروانہ کرتے ہوئے اور ان کی باتوں کو اہمیت نہ دیتے ہوئے ان سے ذرا مناسب حد تک دوری اختیار فرما لیں۔ پھر دیکھیں آپ کی دعوت کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔

مذکورہ بالا تمام احکام ایسے ہیں کہ ان پر مستقل کتب لکھی جا سکتی ہیں۔ یہاں صرف اصول اور اساسی باتوں کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ تفصیل و جزئیات بیان کرنا مقصود نہیں۔

3۔ داعی کو مدعوالیہ (اللہ تعالی) کے متعلق معلومات بھی کافی اور درست ہونی چاہئیں تا کہ وہ اس کے متعلق جو کچھ بھی بیان کرے وہ بالکل درست اور علی سبیل البصیرت ہو۔ دوسرے لفظوں میں ایک اچھے داعی کے لئے ضروری ہے کہ وہ علوم شرعیہ (کتاب وسنت اور ان کے خادم علوم وفنون) میں اچھی خاصی مہارت حاصل کرے۔

﴿قُلْ هَذِهِ سَبِیْلِي اَدْعُوا إِلَى اللهِ عَلٰى بَصِيْرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي﴾ (يوسف: 108)

4۔ داعی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے مدعو (مخاطب جسے دعوت دے رہا ہے) کو اچھی طرح جانتا پہچانتا ہو اور اس کے خیالات و نظریات اور اس کے افکار و عقائد سے بخوبی آگاہ ہوتا کہ اس کی تمام گفتگو مخاطب کے مناسب حال ہو سکے۔ رسول اللہﷺ نے جب حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو یمن کا گورنر اور قاضی بنا کر بھیجا تو اس نکتے پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:

(إِنَّكَ تَأْنِي قَوْمًا مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ)

(صحیح بخاری، کتاب الزکٰوة، باب أحد الصدقة من الاغنياء. رقم الحديث : 1496، صحیح مسلم، کتاب الإيمانن باب الدعاء إلي الشهادتين و شرائع الإسلام- رقم الحديث 19)

’’یعنی تم اہل کتاب کے ایک گروہ کے پاس جارہے ہو۔‘‘

اس لئے ذہنی طور پر اچھی طرح تیار ہو کر اور دلائل و براہین سے مسلح ہو کر جانا۔  کیونکہ وہ لوگ اہل علم میں مشرکین مکہ کی طرح جاہل نہیں۔ اور اہل علم کیساتھ گفتگو اور دینی مبادی نسبتًا مشکل بھی ہوتا ہے اور مختلف بھی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بھی مشرکین مکہ کو اور طرح سے خطاب کیا گیا ہے اور یہود و نصاری کو اور طرح سے۔ لہٰذا تمام جدید فکری فتنوں (کیمونزم، سوشلزم، ڈیموکریسی سیکولرزم وغیرہ) اور تمام گمراہ فرقوں کے متعلق بنیادی معلومات ہر داعی کو حاصل ہونی چاہئیں البتہ تفصیلی معلومات کے لئے ہر فرقے کے متعلق مخصص (سپیشلسٹ) داعی تیار کرنا زیادہ مناسب ہے۔

5۔ داعی کو چاہیے کہ اس کی دعوت اکثر و بیشتر حالات واوقات میں مثبت انداز کی ہو۔ یعنی اپنا موقف بیان کیا جائے اور اسے انتہائی مؤثر دلائل کے ساتھ مزین کیا جائے۔ باقی رہی مد مقابل موقف کی تردید تو وہ کبھی کبھار ہونی چاہیے جب کہ اس کی ضرورت انتہائی ناگزیر معلوم ہونے لگے۔ یعنی مخالفت کی تردید کو اوڑھنا بچھونا نہیں بنا لینا چاہیے کیونکہ اس سے داعی اور اس کے مخاطبین کی شخصیت منفی قسم کی بن جاتی ہے حالانکہ شخصیت کی مضبوطی مثبت قسم کے امور سے وابستہ ہے۔ منفی چیزیں صرف دفاع کے لئے ہوتی ہے۔ جس طرح کہ انسان کو غذا تو ہمیشہ کھانی چاہیے کیونکہ اس کے ساتھ اس کی بقا وابستہ ہے۔ جب کہ دوا کو صرف بیماری کی ناگز ہر صورت ہی میں استعمال کرنا چاہیے۔

6۔ دعوت انتہائی سنجیدہ اور متین انداز میں ہونی چاہیے۔ مخالف پر طنز کرنا فقرے کسنا، اس کا استہزاء، اس کی تواین و تحقیر، لطیفہ بازی یہ سب امور سنجیدگی اور متانت کے خلاف ہیں۔ بلکہ مخاطب کو محسوس ہونا چاہیے کہ واعی کے دل میں واقعی اس کی ہمدردی اور خیر خواہی کا جذب ہے جو اسے دعوت دینے پر مجبور کر رہا ہے تا کہ مخاطب میں انتقامی جذبہ اور ضد و عناد پیدا نہ ہونے پائے۔

یہ بھی ضروری ہے کہ دعوت کا انداز انتہائی باوقار ہو۔ سر ہلا ہلا کر، جھوم جھوم کر موسیقی کی سروں میں گانے بجانے کے انداز میں تقریر و خطاب کرنا کسی طرح بھی داعی کے لئے مناسب نہیں۔ اس لئے کہ دعوت دین کا کام انبیاء علیہم السلام کا کام ہے اور ظاہر بات ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی شان کے لائق نہیں کہ وہ گانے بجانے کے انداز میں اپنی قوم کو خطاب کریں۔ لہٰذا جو امر ایک نبیﷺ کے لائق نہیں وہ ایک داعی کے لئے بھی مناسب نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ وہ نبی ﷺ ہی کا وارث ہوتا ہے۔ اسی طرح اندھا دھند زور لگا کر اور ’’بڑھکوں‘‘ کے انداز میں تقریر و خطاب سے اجتناب بھی ہماری ہے کیونکہ یہ  وقار نمکنیت اور دعوت و داعی کی شان کے منافی ہے۔

7۔ دعوت مکمل دین کی دینی چاہیے۔ صرف چند مشہور اختلافی مسائل تک اسے محدود نہیں رکھنا چاہیے۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ مسئلہ حاضر و ناظر، علم غیب، قبر پرستی، رفع یدین، آمین، تقلید وغیرہ کے علاوہ داعی کے پاس کوئی مسئلہ ہی نہ ہو جس پر وہ گفتگو کر سکے ۔

8۔ دعوت میں مسائل و احکام کے شرعی مقام و اہمیت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ جو مسئلہ اور حکم جتنی اہمیت کا حامل ہوا۔ اسے اتنی ہی اہمیت دینی چاہیے۔ اہم کو غیر اہم اور غیراہم کو اہم یا اہم ترین نہیں بنا دینا چاہیے۔ اسی طرح مقصود بالذات حکم کو وسیلہ اور وسیلہ کو مقصود بالذات نہیں بنا لینا چاہیے۔ مثلا آج کل جلسوں اور تقریروں کو مقصود بالذات بنا لیا گیا ہے حالانکہ وہ دعوت و تبلیغ کے لئے محض وسیلہ و ذریعہ ہیں۔

9۔ دعوت میں مناظرے کی قباحتوں، مثلاً غرور و تکبر، شہرت طلبی کا جذبہ، ریا کاری، ہر صورت میں اپنی برتری اور مخالف کو شکست دکھانے کا شوق وغیرہ سے مکمل طور پر اجتناب کرنا چاہیے۔ اگرچہ یہ سب چیزیں رذائل اخلاق میں داخل ہیں۔ لیکن ان کی اہمیت کے پیش نظر ان سے خصوصی طور پر بچنے کا ذکر ضروری سمجھا گیا ہے۔

10۔ ’’دعوت الی اللہ‘‘ کا مفہوم ہے لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا۔ لہٰذا داعی کو چاہیے کہ لوگوں کو اپنی طرف نہ بلائے نہ کسی اور شخصیت کی طرف دعوت دے بلکہ اس کی دعوت صرف اور صرف اللہ، رسول ﷺ اور ان کے دین کی طرف ہونی چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں دعوت میں اپنی یا کسی اور شخصیت کی اہمیت اجاگر کرنے کے بجائے اللہ رسول ﷺ اور ان کے دین کی اہمیت اجاگر کرنی چاہیے۔

﴿قُلْ هَذِهِ سَبِيْلِي اَدْعُوا إِلَى اللهِ عَلٰى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعْنِي﴾ (يوسف:108)

 فرما دیجئے! یہ میرا راستہ ہے میں علی وجہ البصیرت اللہ کی طرف بلاتا ہوں میں بھی اور میری اتباع کرنے والے بھی۔‘‘

﴿اُدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ﴾ (النحل: 125)

’’اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیجئے حکمت کے ساتھ اور عمدہ نصیحت کے ساتھ ‘‘

11۔ انبياء عليهم الصلواۃ والسلام کی سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی دعوت پیش کرنے کے لئے لوگوں سے فردًا فردًا بھی ملاقات کیا کرتے تھے بلکہ ان کی دعوت کا زیادہ تر انحصار انفرادی اور شخصی تبلیغ ہی پر ہوا کرتا تھا۔ لہٰذا ہمیں بھی زیادہ تر یہی طریقہ اپنانا چاہیے۔ اور اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں مخاطب داعی کی باتوں کو نسبتا زیادہ توجہ اور سنجیدگی کے ساتھ سنتا ہے۔ کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ داعی کی باتوں کا میں اکیلا ہی مخاطب ہوں جب کہ اجتماعی تبلیغ میں عام طور پر ہر شخص دوسرے کو اس کا اصل مخاطب قرار دے کر اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھ لیتا ہے اور نتیجتًا تبلیغ بے اثر رہتی ہے۔ الا ان يشاء الله

12۔ اگر حالات کا تقاضا ہو تو اجتماعی تبلیغ بھی کی جاسکتی ہے۔ یہ کوئی ممنوع نہیں۔ تاہم موجودہ دور کے نام نہاد تبلیغی جلسوں کے اسلوب اور ان کے اندر ہونے والی قباحتوں سے کلیتہ پرہیز کرنا چاہیے کہ ان سے دعوت دین کا کام بری طرح متاثر ہو رہا ہے

(1) لاؤڈ سپیکر کا بلاضرورت اور بے تحاشا استعمال

 (2) آدھی آدھی رات تک عوام کو بلا وجہ بٹھائے رکھنا۔

(3) دوران تقریر مختلف قسم کے نعرے اور پھر ان کی حوصلہ افزائی بلکہ مقرر وداعی کا جیوے جیوے! اور زندہ باد اور مردہ باد! قسم کے نعروں کا شدید متمنی ہونا۔

(4) مساجد جیسے مقدس مقامات کا تقدس پامال کیا جانا۔

(5) نام لے لے کر مخالف شخصیات پر کیچڑ اچھالنا۔

(6) تصویر سازی وغیره۔

(7) جلسہ گاہ کے قرب و جوار میں رہنے والے طلبہ اور مریضوں کو تنگ کرنا۔

 یہ تمام امور دعوت و تبلیغ کے سراسر منافی ہیں۔

13۔ جن لوگوں کو دین کی دعوت دیتی ہو اگر وہ اس مقصد کے لئے کھانے کی دعوت پر بلا لئے جائیں تو داعی کے لئے دعوت دین کا کام کسی قدر آسان اور مدعوین کے لئے بہت حد تک سنجیدہ اور توجہ طلب ہو جاتا ہے اور یہ طریقہ دعوت و تبلیغ مسنون بھی ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں اسراف و تبذیر سے اجتناب کیا جائے ورنہ مدعوین کی توجہ دعوت دین کی بجائے دعوت طعام پر مرکوز ہو کر رہ جائے گی۔

14۔ انسانی مزاج و خیالات بدلتے رہتے ہیں اس لئے داعی کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں کے بدلتے ہوئے خیالات و مزاج کا خیال رکھے اور سازگار فضا اور مناسب ماحول میں دعوت دین پیش کرے۔ ہر وقت اٹھتے بیٹھتے یہ کام نہیں کرتے رہنا چاہیے۔ اس سے فائدہ کے بجائے نقصان کا زیادہ اندیشہ ہوتا ہے۔

15۔ بد معاش، غنڈے، چور، اچکے، ڈاکو وغیرہ قسم کے لوگوں کے لئے بھی دعوت و تبلیغ کا خصوصی پروگرام بنانا چاہیے۔ عام طور پر نیک لوگوں ہی کو تبلیغ کی جاتی ہے۔ اس طرح فلمی اداکار، اخبارنویسی، مصور و آرٹسٹ، شعراء وادباء بھی اس کا استحقاق رکھتے ہیں کہ انہیں بھی تبلیغ کی جائے کہ یہ لوگ معاشرے پر بہت زیاد و اثر انداز ہوتے ہیں۔ نیز ڈاکو، چور قسم کے لوگ اگر درست ہو جائیں تو یہ لوگ دوسروں کی بہ نسبت دین کے لئے زیادہ مفید اور کار آمد ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ ان لوگوں کے اندر بڑے بڑے خطرات مول لینے کی جرأت اور زبردست شجاعت ہوتی ہے جو عام لوگوں میں نہیں ہوتی۔

دعوت دین، حکمت موعظہ حسنہ اور جدال بطریق احسن

﴿أُدْعُ إِلٰى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمُوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ﴾ (النحل:125)

’’اے پیغمبر! لوگوں کو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت و دانائی اور عمدہ نصیحت (موعظ حسنہ) کے ساتھ بلاؤ! اور ان (دشمنان دین) سے بہترین (اور سلجھے ہوئے) طریقے سے جدال و مباحثہ کرو!)

16۔ دعوت

کا مفہوم تو واضح ہی ہے کہ لوگوں کو اللہ تعالی رسول اللہﷺ اور دین حق کی طرف بلانا تاکہ وہ اپنی زندگی دین حق کی روشنی میں بسر کریں اور دنیا و آخرت میں کامیاب وکامران ہو جائیں۔

17۔ حکمت

سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کو دین حق کی طرف بے ہنگم طریقے سے نہ بلایا جائے بلکہ اس کے لئے ایسا طریقہ اپنایا جائے جو انتہائی دانائی پر مبنی ہو۔ اس سلسلہ میں ایک تو یہ پیش نظر رہے کہ اپنے موقف کے اثبات کے لئے انتہائی سنجیدہ اور باوقار انداز میں ایسے عام فہم قسم کے دلائل پیش کئے جائیں کہ مخاطب متاثر ہوئے  بغیر نہ رہے۔ دوسرے یہ کہ داعی اور مبلغ کی زبان اور لب ولہجہ انتہائی نرم اور مشفقانہ ہو۔ داعی میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ سخت سے سخت موقف اور تلخ سے تلخ مسئلے کے بیان کے لئے انتہائی نرم اور شیریں الفاظ کا انتخاب کر سکے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام و حضرت ہارون علیہ السلام کو فرعون کی طرف تبلیغ کے لئے بھیجتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا تھا:

﴿فَقُوْلَا لَهُ قَوْلًا لَّيْنَا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى﴾ (طه: 44)

’’اس سے نرمی سے بات کرنا۔ شاید وہ نصیحت حاصل کرے یا ڈر جائے ۔‘‘

یہیں سے یہ بات بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام خصوصاً آخری نبی ﷺ سب سے زیادہ فصیح اللسان کیوں تھے ۔ گویا دعوت بالحکمہ کے لئے ضروری ہے کہ داعی کا زبان وادب کے ساتھ گہرا تعلق ہو اور وہ اس کی باریکیوں کو بخوبی جانتا ہو ۔ تیسرے یہ کہ مخاطب کو اشتعال میں لانے والی زبان اور سخت لب ولہجہ سے پرہیز کیا جائے ۔ چوتھے یہ کہ مخاطب کی اشتعال انگیز کاروائیوں پر صبر و برداشت کا مظاہرہ کیا جائے۔ پانچویں یہ کہ شخصیات کو زیر بحث لائے بغیر نفس مسئلہ پر اظہار خیال کیا جائے۔ فرعون نے حضرت موسی علیہ السلام کو شخصیات میں الجھانے کی غرض سے کہا تھا۔

﴿فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الْأَولَى﴾ (طہ: 15)

’’گزشتہ نسلوں کا کیا بنے گا؟‘‘

تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا:

﴿عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي فِي كِتَابٍ لَّا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَى﴾ (طه: 52)

’’ان کے بارے میں تمام معلومات میرے رب کے پاس کتاب میں مندرج ہیں میرا رب نے غلطی کرتا ہے نہ بھولتا ہے۔‘‘

چھٹے یہ کہ مخاطب کی استعداد ذہنیت نفسیات حالات اور موقع و محل کو پیش نظر رکھ کر گفتگو کی جائے ان تمام چیزوں سے بے نیاز ہو کر دعوت و تبلیغ کا کام کرنا حکمت کے منافی ہے۔

الغرض حکمت کا لفظ بہت وسیع مفہوم رکھتا ہے جس میں تقریبا تمام فضائل اخلاق کو اپنانا اور رذائل اخلاق سے خود کو بچانا بھی آجاتا ہے۔

18۔ موعظه حسنه

سے مراد یہ ہے کہ دوران تقریر و گفتگو ایسی چیزوں کا ذکر کیا جائے جن سے مخاطب کا دل نرم ہو تاکہ بآسانی دعوت حق قبول کر سکے۔ مثلاً: زندگی کی بے ثباتی کا ذکر، موت کا ذکر، آخرت کی ہولناکیوں کا ذکر، عذاب قبر اور عذاب جہنم کا بیان وغیرہ۔ اسی طرح اس کی اخلاقی حس کو انگیخت کرنے والے کلمات اور جملوں کا موقع ومحل کے مطابق استعمال تا کہ وہ بد اخلاقی پر نہ اتر آئے۔ گویا مخاطب کے دل کو نرم کرنے والی اور اس کی اخلاقی حس کو بیدار کرنے والی باتیں ’’موعظہ حسنہ‘‘ ہیں۔

19۔ جدال بطریق احسن

سے مراد یہ ہے کہ مخالف کے ساتھ افہام و تفہیم کے لئے مبادلہ خیال کیا جائے اور اس کے دلائل و شبہات کو سن کر ان کا مضبوط دلائل کے ساتھ ازالہ کیا جائے تا کہ دعوت حق کے قبول کرنے میں جو رکاوٹ ہے وہ دور ہو جائے۔ مخالف کے موقف پر تنقید اور اس کے دلائل کی تردید چونکہ بہت نازک کام ہے کیونکہ اس میں پہلے دونوں کاموں (دعوت بالحکمہ اور موعظہ حسنہ) کی نسبت مخاطب کے اشتعال میں آنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے اس لئی یہاں بالصراحت یہ شرط لگا دی گئی ہے کہ ایسا نازک کام انتہائی احسن طریق سے سر انجام دینا چاہیے تاکہ مخاطب میں ضد و عناد اور اشتعال پیدا نہ ہونے پائے۔ یہاں یہ بات از خود واضح ہو جانی چاہیئے ’’دعوت‘‘ میں اگر ’’حکمت و دانائی‘‘ اور ’’موعظہ حسنہ‘‘ کی شدید ضرورت ہے تو ’’جدال بطریق احسن‘‘ میں ان دونوں کی لازمًا اس سے بھی زیادہ شدید ضرورت ہوگی۔ اس اہم نکتے کی طرف داعیان دین کی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔

20۔ داعی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی دعوت دین کا اولین مخاطب اپنے آپ کو سمجھے یعنی سب سے پہلے اپنے آپ کو اس کا پابند بنائے اور کوشش کرے کہ اس کا عمل اس کے قول کے مخالف نہ ہو کیونکہ اس سے دعوت کمزور ہو جاتی ہے۔ اور مخاطب یہ بات سوچنے میں حق بجانب ہو گا کہ اگر اس کی دعوت سچی ہوتی تو داعی خود عملًا اس کی مخالفت کیوں کرتا؟

﴿اَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ﴾ (البقرة: 44)

’’کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔‘‘

﴿لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ﴾ (الصف: 2)

’’کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟‘‘

اس کے بعد داعی کے اہل وعیال کا حق ہے کہ انہیں دعوت دی جائے اس کے بعد قریبی رشتہ دار اور پھر دور کے رشتہ دار علی ہذا القیاس جتنا کسی کا قریبی تعلق ہوگا اتنا ہی اس کا دعوت کے بارے میں استحقاق زیادہ ہو گا۔

﴿قُوْا اَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا﴾ (التحريم: 11)

’’اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو آگ سے بچاؤ۔‘‘

﴿وَ اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْأَقْرَبِيْنَ﴾ (الشعراء:214)

’’اپنے قریبی رشتہ داروں کو (اللہ کے عذاب سے) ڈراؤ۔‘‘

(کُلَّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيهِ)

(صحیح مسلم: کتاب الامارۃ- باب فضيلة الأمير العادل و عقوبة الجائر- رقم الحديث: 1829)

’’تم میں سے ہر شخص رعیت والا ہے اور ہر شخص سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھ کچھ ہوگی‘‘

21۔ دعوت میں احکام و مسائل کی ترتیب و تدریج کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ یعنی جو مسائل سب سے اہم میں انہیں سب سے پہلے پیش کرنا چاہیے اور جو کم اہم ہیں انہیں بعد میں پیش کرنا چاہیے۔ چنانچہ سب سے پہلے عقائد و ایمانیات اور  قلبی عبادات(صحیح بخاری:  كتاب الإيمان- باب فضل من استبراء لدينه- رقم الحديث، 52)

 کی دعوت اور ان پر زور دینا چاہئے اور اس کے بعد ظاہری اعمال و مسائل پر۔ اس لئے کہ جس طرح دل کی اہمیت پورے جسم کے اندر سب سے زیادہ ہے اس طرح دل سے تعلق رکھنے والے مسائل و اعمال کی اہمیت بھی باقی تمام اعضاء و جوارح سے تعلق رکھنے والے مسائل واعمال سے زیادہ ہے۔ لہٰذا دعوت میں انہیں مقدم رکھنا چاہیے۔ کیونکہ دل کی اصلاح سے باقی تمام جسم کی بھی اصلاح ہو جاتی ہے۔

دل کی اصلاح سے باقی تمام جسم کی بھی اصلاح ہو جاتی ہے۔ (اِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذا صلحت صلح الجسَدُ كُلَّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ اَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ)

اسی طرح مطلب کے سامنے تمام مسائل و احکام یک مشت نہیں پیش کر دینے چائیں۔ بلکہ مخاطیوں کی استعداد و صلاحیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہیں تدریجًاررپیش کرنا چاہیے۔ قرآن مجید کا تدریجًا نازل ہونا بھی اسی اصول کی تائید کرتا ہے اور نبی ﷺ کی معلمانہ عملی زندگی بھی اسی پر دال ہے۔

عقیدے کی اصلاح کے لئے کتاب التوحید مصنفہ محمد بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ، تقویۃ  الایمان، نصیحۃ المسلمین اور تذکیر الاخوان وغیرہ کا مطالعہ کرنا کرانا چاہیے۔ ایمانیات سے مراد اایمان باللہ، ایمان باملائکۃ، ایمان باالکتب، ایمان بالرسل، ایمان بالآخرۃ اور ایمان بالتقدیر ہے۔ اس سلسلہ میں سید سلیمان ندوی رحمۃ  اللہ علیہ کی سیرۃ النبی ﷺ جلد چهارم  پیش نظر رہنی چا ہیے۔ اور قلبی عبادات سے مراد ہے اخلاص، توکل، صبر شکر، اور تقوی وغیرہ۔ قلبی عبادات کی تشریح و توضیح  کے لئے سیرۃ النبی مصنفہ سید سلیمان  ندوی رحمۃ اللہ علیہ جلد 5 بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘