دین ہماری ضرورت ہے!

﴿لَقَدْ جِئْنٰكُمْ بِالْحَقِّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ﴾ (الزخرف:78)
’’ہم تمھارے پاس حق لے کر آئے تھے مگر تم میں سے اکثر کو حق ہی نا گوار تھا۔‘‘
گذشتہ جمعے دین کی ضرورت اور اہمیت کے حوالے سے بات ہو رہی تھی کہ دین انسان کی بنیادی ضرورت ہے، اس کی دنیا کی زندگی کے لیے بھی اور آخرت کی زندگی کے لیے بھی، قرآن وحدیث کے واضح دلائل کی روشنی میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے اور منقلی دلائل بھی اس پر شاہد ہیں، جیسا کہ گذشتہ جمعے چند ایک کا ذکر کیا گیا۔ اور اس موضوع سخن کا سبب یہ ہے کہ اس دور میں مسلمانوں نے دین کو پس پشت ڈال رکھا ہے اور ان میں سے بہت سے ایسے (مسلمان) بھی ہیں کہ جن کی دین سے دوری اور اعراض اُس سے نفرت و عداوت کی حدوں کو چھونے لگا ہے، بلکہ بعض تو اُن میں سے ایک درجہ اور بھی آگے نکل گئے ہیں کہ اختیار کی طرف سے اسلام دشمنی میں اتنی شدت نظر نہیں آتی جتنی شدت خود اسلام کے نام لیواؤں کی طرف سے دیکھنے میں آتی ہے۔
یوں تو دیگر تمام ادیان و مذاہب والے بھی اپنے اپنے مذہب سے کوسوں دور ہیں، مگر ان کا عمل کرنا نہ کرنا برا بر ہے، بلکہ نہ کرنا شاید زیادہ بہتر ہو، کیونکہ یا تو ان کے مذاہب تحریف شدہ ہیں یا خود ساختہ ہیں اور دونوں صورتوں میں وہ گمراہی اور بے راہ روی کی طرف ہی گامزن ہوتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا اسلام سے انحراف و اعراض افسوسناک بھی ہے اور خطر ناک بھی ، اس لیے کہ اسلام ہی دنیا میں وہ واحد سچا اور غیر متزف دین ہے جو دنیا کی رہنمائی کے لیے ہے اور مسلمان ہی وہ واحد قوم ہیں جنہیں دنیا کی سیادت، امامت اور رہبری کی ذمہ داری سونپی اور اعزاز بخشا گیا ہے۔
﴿كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ﴾ (آل عمران:110)
’’وہ بہترین گروہ تم جو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔‘‘
اور جب راہبر ہی گم گشتہ راہ ہو جائیں تو بتلائے پھر لوگ کدھر جائیں گے اور دنیا کا کیا بنے گا ؟ اس لیے مسلمانوں کی دین سے دوری ایک نہایت ہی خطرناک معاملہ ہے۔ مسلمانوں کے دین کو پس پشت ڈال دینے کا حتمی نتیجہ دنیا میں بگاڑ ، فتنہ و فساد اور بے راہ روی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی دین سے دور جا چکے ہیں؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں کوئی بہت زیادہ محنت کی ضرورت نہیں پڑے گی ، صرف اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا اور جواب مل جائے گا اور اگر پھر بھی جواب نہیں ملتا تو پھر صورت حال بہت تھمیر ہوگی ، جس کا مطلب ہوگا کہ Damage بہت زیادہ ہو چکا ہے یعنی احساس زیاں ہی جاتا رہا ہے۔
حالانکہ ہماری دین سے دوری کے بہت واضح شواہد موجود ہیں، ہم دین سے دوری کے نتائج بھی بھگت رہے ہیں، آج ہم پر ذلت و رسوائی چھائی ہوئی ہے، ہماری حیثیت خس و خاشاک کی سی ہے، ہم سے حقارت آمیز سلوک کیا جاتا ہے، دنیا میں کہیں بھی کوئی افسوسناک واقعہ رونما ہو تو بغیر کسی تحقیق اور بغیر کسی ثبوت کے اس کا التزام فوراً ہم پر تھونپ دیا جاتا ہے۔ غرضیکہ ہماری دین سے دوری کے بہت واضح دلائل اور شواہد موجود ہیں اور اگر ہم اپنے اسلاف کی عزت اور شان و شوکت سے موازنہ کریں تو ہماری بد عملی ، دین سے دوری بد حالی بے بسی ، بے کسی اور کسمپرسی ہم پر اور بھی عیاں ہو جائے۔ ہمارے اسلاف ہر میدان میں اور زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی اور تمدن کی مثال تھے۔ مالی اعتبار سے بھی بڑے خوشحال اور مالدار تھے۔ دولت و ثروت کا اندازہ لگائیے کہ عباسی خلیفہ مامون کے دور میں بغداد کے بیت المال میں مختلف اسلامی ریاستوں سے آئے والی دولت آج کے 70بلین ڈالر کے برابر تھی اور 1700 ٹن سونا اس کے علاوہ تھا۔ اسی طرح تعلیم ، ٹیکنالوجی اور ہر شعبے میں وہ ترقی یافتہ تھے۔
اور میدان جنگ میں، شجاعت اور بہادری میں تو ان کا کوئی ثانی نہ تھا اور سبب اس کا یہ تھا کہ ان کا دین سے گہرا تعلق تھا اور اس بات کی گواہی خود اغیار نے دی ہے۔ جنگ یرموک کے موقعے پر قیصر روم عیسائی بادشاہ الطاقیہ میں موجود تھا کہ اس کی شکست خودرو فوج واپس آئی کہ جس نے مسلمانوں سے عبرتناک شکست کھائی تھی ۔ مسلمان ۳۵ ہزار اور رومی لشکر اڑھائی لاکھ تھے، مگر انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں 15 ہجری میں یہ جنگ ہوئی، قیصر روم، ہر قل کی فوجیں جب شکست کھا کر واپس آئیں تو اس نے ان سے کہا ؟ ((قَالَ لَهُمْ أَخْبِرُونِي عَنْ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ ، اَلَیْسُوا هُمْ بَشَرًا مِثْلُكُم))
’’ذرا ان لوگوں کے بارے میں بتاؤ تو سہی جو تم سے لڑتے ہیں، کیا وہ تمہارے جیسے انسان نہیں ہیں؟‘‘
((قَالُوا بَلَى ))
’’کہنے لگے ہاں کیوں نہیں!‘‘
((قَالَ: فَأَنْتُمْ أَكْثَرُ ، أَمْ هُمْ ؟))
’’پوچھا کیا تم زیادہ ہو یا وہ لوگ ؟‘‘
((قَالُوا: بَلْ نَحْنُ أَكْثَرُ مِنْهُمْ أَضْعَافًا فِي كُلِّ مَوْطِنٍ))
’’کہنے لگے ہم ہر میدان میں ان سے کہیں زیادہ ہیں۔‘‘
((قَالَ: فَمَا بَالَكُمْ تَنْهَزِمُونَ؟))
’’کہا: تو پھر کیا وجہ ہے کہ تمہیں شکست ہوتی ہے۔‘‘
((فَقَالَ شَيْخٌ مِنْ عُظَمَائِهِمْ))
’’تو ان کے دانشوروں میں سے ایک بوڑھے شخص نے کہا: وہ اس لیے جیتتے ہیں۔‘‘
((مِنْ أَجْلِ أَنَّهُمْ يَقُومُونَ اللَّيْلَ، وَيَصُومُونَ النَّهَارَ وَيُوفُونَ بالعهد ويأمرون بالمعروف وينهون عن المنكر ، ويتناصفون بَيْنَهُمْ وَمِنْ أَجْلِ أَنَّا نَشْرَبُ الْخَمْرَ، وَنَزْنِي، وَنَرْكَبُ الْحَرَامَ وَنَنْقُصُ الْعَهْدَ، وَنَغْصَبُ وَنَظْلِمُ، وَنَأْمُرُ بِمَا يُسْخِطُ اللَّهَ وَ تَنْهَى عَمَّا يُرْضِى الله عَزَّ وَجَلَّ وَنُفْسِدُ فِي الْأَرْضِ))
’’ کہ وہ رات کو قیام کرتے ہیں۔ دن کو روزہ رکھتے ہیں، وعدے کی پاسداری کرتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں اور آپس میں برابری کرتے اور انصاف سے کام لیتے ہیں اور اس لیے بھی وہ جیتے اور ہم شکست کھاتے ہیں کہ ہم شراب پیتے ہیں، زنا کرتے ہیں، حرام کاموں کا ارتکاب کرتے ہیں، عہد کو توڑتے ہیں، غضب ڈھاتے اور ظلم کرتے ہیں، جس کام سے اللہ ناراض ہو اس کا حکم دیتے ہیں جس کام سے اللہ عز وجل راضی ہوتا ہے اس سے روکتے ہیں اور ہم زمین میں فساد بپا کرتے ہیں ۔‘‘
((قال: أنت صدقتني)) (المجالسة وجواهر العلم ، رقم:1259)
’’ تو قیصر روم ہر قل نے کہا کہ تم نے سچ بات کی ہے۔‘‘
اس واقعے سے ہم بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہم اسلام سے کتنے قریب یا کتنے دور ہیں اور ہمارا طرز زندگی اسلاف سے مماثلت رکھتا ہے یا اغیار سے مشابہت رکھتا ہے۔ تو ہماری دین سے دوری کے واضح شواہد بھی ہیں، اس کی علامات بھی ہیں اور پیشین گوئیاں بھی ہیں اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے بہت غور و خوض کے بعد معلوم ہونے والی بات نہیں ہے کیونکہ یہ ہم میں سے اکثریت کا حال ہے، اور اکثریت کا حال روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے۔
اور ہماری اس حالت پر آپ سے مریم کی پیشین گئی بھی موجود ہے، جس میں آپ ﷺ نے فرمایا:
لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَكُمُ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ سلَكُوا جُحْرَ ضَبٌ لَسَلَكْتُمُوهُ ))
’’فرمایا: تم لوگ اپنے سے پہلی امتوں کے نقش قدم پر چلو گے، ایک ایک بالشت اور ایک ایک ہاتھ کے برابر۔ اگر وہ کسی گوہ کی بل میں گھسے ہوں گے تو تم بھی گھسوگے۔‘‘
((قُلْنَا: يَارَسُولَ الله اليهود و النَّصَارَى قَالَ: فَمَنْ .)) (صحيح البخاری ، کتاب احادیث الانبياء (عليهم السلام):3456)
’’ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ کی مراد یہود و نصاری ہیں ؟ فرمایا: تو اور کون؟‘‘
اسی طرح یہ بھی پیشین گوئی ہے کہ بے عملی بڑھ جائے گی اور لوگ قرآن و حدیث کو پس پشت ڈال دیں گے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:
(((عَنْ زِيَادِ بْنِ لَبِيْدِ ، قَالَ ذَكَرَ النَّبِيُّ ﷺ شَيْئًا، فَقَالَ: ذَاكَ عِندَ أَوَان ذَهَابِ الْعِلْمِ))
’’حضرت زیاد بن لبید رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم سے ہم نے کسی بات کا ذکر کیا اور فرمایا: یہ اُس وقت ہوگا جب علم اٹھ جائے گا۔‘‘
((قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ يَذْهَبُ الْعِلْمُ، وَنَحْنُ نَقْرَهُ الْقُرْآنَ، وَنُقْرِئُهُ أَبْنَاءَنَا، وَيُقْرِتُهُ أَبْنَاؤُنَا أَبْنَاءَ هُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ))
’’حضرت زیاد کہتے ہیں ، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ!علم کیسے اٹھ جائے گا جبکہ ہم قرآن پڑھتے ہیں اور اپنی اولادوں کو پڑھاتے ہیں اور وہ آگے اپنی اولادوں کو پڑھا ئیں گے اور یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا۔‘‘
((قَالَ: ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ زِيَادُ))
’’فرمایا: اسے زیاد! تمہاری ماں تمہیں گم پائے! (کلمہ تعجب ہے، اگر چہ ظاہری معنی موت کی دعا ہے )‘‘
((إن كُنتُ لَا رَاكَ مِنْ أَفَقَهِ رَجُلٍ بِالْمَدِينَةِ))
’’میں تو تمہیں مدینہ کے سب سے سمجھدار لوگوں میں شمار کرتا تھا۔‘‘
((أو لَيْسَ هَذِهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى يَقْرَءُونَ التَّوراة والانجيل، لا يَعْمَلُونَ بِشَيْءٍ مِمَّا فِيهِمَا ؟)) (سنن ابن ماجه ، کتاب الفتن ، باب ذهاب القرآن والعلم:4048)
’’کیا یہ حقیت نہیں ہے کہ یہود و نصاری تو رات اور انجیل کو تو پڑھتے ہیں، لیکن ان میں جو کچھ ہے اس میں سے کسی چیز پر عمل نہیں کرتے!‘‘
تو اس حدیث سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ علم کے اٹھ جانے کا مطلب: اس پر عمل نہ کرنا ہے، اور دوسرے یہ کہ جو شخص علم ہونے کے باوجود عمل نہیں کرتا، اس میں اور جاہل میں کوئی اور فرق نہیں ہے، بلکہ قرآن پاک تو اسے گدھے سے تشبیہ دیتا ہے۔
﴿ كَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا ؕ ﴾ (الجمعة:5)
’’اس کی مثال گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لادی گئی ہوں۔‘‘
اور تیسری بات یہ ہے کہ قیامت کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ بے عملی عام ہو جائے گی ، قرآن وحدیث کو پس پشت ڈال دیا جائے گا۔ کر تو چونکہ آج ہم دین سے بہت دور تو چونکہ آج ہم دین سے بہت دور ہو چکے ہیں اور اس کی بہت سی شکلیں اور صورتیں ہیں، کسی نے دین کے کسی ایک من پسند حکم اور جزو کو پکڑ کر اسے پورے دین کا نام دے دیا ہے، کسی نے دین کو اپنی مرضی اور پسند کے مطابق ڈھالنے کے لیے اک خود ساختہ معنی و مفہوم پہنا رکھا ہے، حالانکہ دین کا معنی و مفہوم صرف اور صرف وہی قابل قبول ہے جو صحابہ کرام سمجھےاور جس پر انہوں نے عمل کر کے دکھایا۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ صحابہ کرام کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:
﴿فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا ۚ ﴾ (البقرة:137)
’’اگر لوگ اس طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو پھر وہ ہدایت پر ہیں ۔‘‘
تو چونکہ ہم دین سے بہت دور ہو چکے ہیں، اس لیے ضرورت ہے یاد دہانی کی اور بالکل بنیاد سے یہ بات جاننے کی کہ دین ہماری ضرورت ہے، مگر افسوس کہ اس قدر گہرائی میں اتر کر ہمیں کوئی اس کی ضرورت کا احساس دلانے والا اور آگاہ کرنے والا نہیں ہے۔ اندازہ کریں! کہ لوگ انسانوں کے بنائے ہوئے قانون اور آئین کی ضرورت و اہمیت اور حفاظت کوکس طرح جانتے اور سمجھتے ہیں اور کس طرح لوگوں کو خبردار کرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ:
پاکستان کے آئین میں ترمیم یا بنیادی تبدیلیوں کی کوشش کی گئی تو ہمالیہ روئے گا اور اس کے اشکوں سے آنے والا سیلاب وفاق کی دی گئی حدود کو کہیں تبدیل نہ کردے۔
آپ نے دیکھا! پاکستان کے آئین کی ضرورت واہمیت اور حفاظت کو بیان کرنے کے لیے کس قدر پر جوش اور جذباتی انداز گفتگو اختیار کیا گیا۔
پاکستان کے آئین میں کوئی تبدیلی ہو جائے تو ہمالیہ روئے گا اور اللہ کا قانون سارے کا سارا بدل دیا جائے اور اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیا جائے اور پس پشت ڈال دیا جائے ، اس کی تضحیک کی جائے، مذاق اڑایا جائے اور دین پر چلنے والوں کو سرعام کو سا جائے تو کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگے، تعجب ہے!
ہمارا المیہ یہ ہے کہ دین سے دوری صرف عوام کی حد تک نہیں ہے بلکہ اس میں خواص بھی شامل ہیں اور ایسے خواص شامل ہیں کہ جن پر عوام کی ہدایت و اصلاح اور خیر خواہی کی ذمہ داری ہے۔
عربوں میں ایک رواج تھا، بلکہ ان کی ضرورت اور طرز زندگی تھا کہ جب وہ کہیں سفر کرتے، تو ایک شخص قافلے کے آگے آگے ہوتا، جو قافلے کے لیے بارش اور سبزے کی جگہ تلاش کرتا اور پھر قافلے کو وہاں لے جا کر پڑاؤ ڈالا جاتا، کیونکہ صحراء میں دور دور تک پانی اور سبزے کا نام و نشان تک نہ ہوتا تھا اور یہ دونوں چیزیں انسان کی اور ان کے جانوروں کی ضرورت ہیں۔
وہ شخص کہ جس پر یہ ساری ذمہ داری ہوتی تھی کہ وہ اپنے قبیلے، اپنی قوم اور اپنے قافلے کے لیے پانی اور سبزے کی جگہ تلاش کرے اُس کو الرائد کہا جاتا تھا، جس کا معنی ہے محافظ نگہبان، لیڈر پوری قوم اس پر اعتماد کرتی تھی اور ایسا اعتماد کرتی تھی کہ ان کے ہاں ایک مقولہ مشہور تھا: ((الرَّائِدُ لَا يَكْذِبُ أَهْلَهُ )) لیڈر ، محافظ اور نگہبان اپنی قوم سے بھی جھوٹ نہیں بولتا، یعنی اُن کا سچا ہمدرد اور خیر خواہ ہوتا ہے۔
آج مسلمان قوم کو کسی ایسے ہی ہمدردہ مخلص اور خیر خواہ لیڈر کی ضرورت ہے، جو انہیں ان کے حقیقی مسائل سے آگاہ کرے اور ان کا حل پیش کرے، جو قوم سے دھوکہ نہ کرے، ان سے جھوٹ نہ بولے اور انہیں صیح سمت پر لے جائے اور سیدھی راہ پر گامزن کرے۔ مگر جانتے ہیں کہ آپ سے ہم نے ہمیں قیامت کی جن نشانیوں سے اور اس کے بڑے بڑے فتنوں سے خبردار کیا ہے، ان میں سے ایک گمراہ کرنے والے حکمرانوں کا فتنہ بھی ہے اور ایسے ایسے حکمران بھی ہیں جو انسانی جسموں میں شیطانوں کے دل رکھنے والے ہوں گے۔
حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((وَإِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ))
’’فرمایا: میں اپنی امت کے بارے میں گمراہ کرنے والے حکمرانوں سے ڈرتا ہوں کہ وہ امت کو فتنوں میں مبتلا نہ کردیں۔‘‘
((وَإِذَا وُضِعَ السَّيْفُ فِي أُمَّتِي ، لَمْ يُرفع عنها إلى يوم الْقِيَامَةِ)) (سنن ابی داود:4252)
’’اور میری امت میں ایک دفعہ جب تلوار نکل آئی تو قیامت تک میان میں میں نہ جائے گی۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں۔
((قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا بِشَرٍّ فَجَاءَ اللهُ بِخَيْرٍ، فَنَحْنُ فِيهِ ، فَهَلْ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟ ))
’’حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! ہم لوگ آپﷺ کی بعثت سے پہلے (برے حالوں میں) شر میں مبتلا تھے کہ اللہ تعالی نے ہمیں (آپﷺ کے ذریعے ) خیر اور بھلائی عطا فرمائی، تو کیا اس خیر اور بھلائی کے بعد دوبارہ شر اور برائی بھی آئے گی ؟‘‘
تو آپﷺ نے فرمایا:
((نعم:)) ’’ہاں۔‘‘
((قُلْتُ: هَلْ وَرَاءَ ذِلِكَ الشَّرْ خَيْرٌ))
’’میں نے عرض کیا؟ کیا اس شر کے بعد بھی خیر ہوگا ۔‘‘
((قال: نعم)) ’’تو آپ ﷺنے فرمایا: ہاں۔‘‘
((قُلْتُ: فَهَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الْخَيْرِ شَرٌّ))
’’میں نے عرض کیا؟ کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہوگا۔‘‘
((قَالَ: نَعَمْ))
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: ہاں ۔‘‘
((قُلْتُ: كَيف؟))
’’میں نے عرض کیا: وہ کیسے ؟‘‘
((قَالَ: تَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لَا يَهْتَدُونَ بِهدَايَ، وَلَا يَسْتَنُونَ بسُنَّتي))
’’فرمایا: میرے بعد ایسے حکمران آئیں گے جو میری ہدایت کے مطابق لوگوں کی رہنمائی نہیں کریں گے اور نہ میری سنت پر لوگوں کو چلائیں گے۔‘‘
((وَسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ انس))
’’اور ان میں سے ایسے حکمران بھی ہوں گے جو انسانی جسموں میں شیطانی دل رکھتے ہوں گے۔‘‘
((قَالَ: قُلْتُ كَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ ))
’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ اگر میں ویسا وقت پاؤں تو کیا کروں ؟‘‘
((قَالَ: تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلْأَمِيرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ وَأُخِذَ مَالَكَ، فاسمع واطع .)) (صحيح مسلم: 1847)
’’تو فرمایا: تو ان کی بات سن اور اطاعت کر، خواہ تیری کمر زخمی کر دی جائے اور تیرا مال چھین لیا جائے ، ہر حال میں اُن کی بات سن اور اطاعت کر‘‘
آج ایسے حکمران کہاں ہیں جو لوگوں کو آپ سے علم کی ہدایت اور سنت کے مطابق چلاتے ہیں اور انہیں ان کے حقیقی مسائل سے آگاہ کرتے ہیں۔ آج ایسے لیڈران کہاں ہیں جو لوگوں کے حقیقی مخلص اور خیر خواہ ہیں، ان کو تو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ انسان کا حقیقی اور سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے۔
انسان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ:
﴿یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰی رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِیْهِۚ﴾(الإنشقاق:6)
’’اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جارہا ہے اور اس سے ملنے والا ہے ۔‘‘
اور جب اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے تو کیا منتظر ہوگا، قرآن بیان کرتا ہے:
﴿وَ عُرِضُوْا عَلٰی رَبِّكَ صَفًّا ؕ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍۭ ؗ بَلْ زَعَمْتُمْ اَلَّنْ نَّجْعَلَ لَكُمْ مَّوْعِدًا۝۴۸﴾ (الكهف:48)
’’اور سب کے سب تمہارے رب کے حضور صف در صف پیش کئے جائیں گے۔ لو دیکھ لو! آگئے ٹائم ہمارے پاس اسی طرح جیسا ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔ (ننگے پاؤں، ننگے بدن جیسا کہ حدیث میں ہے ) تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تمہارے لیے کوئی وعدے کا وقت مقرر ہی نہیں کیا ہے۔‘‘
﴿وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْهِ وَ یَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّ لَا كَبِیْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَا ۚ وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا ؕ وَ لَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا۠۝﴾ (الكهف:49)
’’اور کتاب رکھ دی جائے گی پس تو مجرموں کو ڈرنے والے دیکھے گا اس سے جو اس میں ہے اور وہ کہیں گے ہائے! ہماری پر بادی! اس کتاب کو کیا ہے وہ نہ کوئی چھوٹی بات چھوڑتی ہے اور نہ کوئی بڑی مگر اس نے اس کو شمار کر رکھا ہے اور وہ اس میں موجود پائیں گے جو انھوں نے کیا اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا ۔‘‘
اللہ تعالی ہمیں اس روز کی سختیوں سے ، اس روز کے عذاب اور اس روز کی ذلت اور رسوائی سے محفوظ فرمائے ۔ آمین