دین اسلام میں غیرت کی اہمیت و ضرورت (حصہ اول)
﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۙ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النور:19)
اسلام دین فطرت ہے، دین رحمت، دین امن و سلامتی، دین اخوت و محبت، دین همدردی و خیر خواهی، دین اخلاق و آداب، دین شرم و حیاء دین غیرت و محبت اور دین طہارت و پاکیزگی ہے۔
دنیا میں پُر امن، پاکیزہ، صاف ستھری، پُر وقار، با عزت، بے خوف اور خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے اسلام نے انسان کی بنیادی ضروریات کی حفاظت پر مبنی نظام دیا ہے، اس کے اصول و قواعد اور قوانین و ضوابط مقرر فرمائے ہیں ، ان کے مطابق زندگی گزارنے سے پاکیزہ اور خوشگوار زندگی ملتی ہے اور انہیں نظر انداز کرنے اور پس پشت ڈالنے سے زندگی الجھنوں کا شکار ہو جاتی ، نظام زندگی تلپٹ اور درہم برہم ہو جاتا ہے، مصیبتیں، پریشانیاں ، لڑائی جھگڑے اور دنگا فساد شروع ہو جاتے ہیں، دلوں میں بغض، حسد، نفرتیں ، کدورتیں اور عداوتیں پیدا ہو جاتیں ہیں۔
اسلام انسان کی جن بنیادی ضروریات کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے اس کو ضروریات خمسہ کے نام سے جانا جاتا ہے اور مقاصد شریعت کہا جاتا ہے وہ انسان کی نہایت ہی بنیادی پانچ ضرورتیں ہیں۔
دین نفس (جان ) عقل نسل (عزت ) ، مال ۔ بنیادی ضرورتوں کا مطلب ہے کہ ایسی ضرورتیں جو انسان کے دین اور دنیا کے مفادات کے حصول کے لیے ضروری ہوں ، ان کا فقدان دین اور دنیا کے مفادات کا فقدان ہو، وہ امور جن پر انسان کی دینی اور دنیوی زندگی موقوف ہے اور جن میں اگر خلل واقع ہو تو انسان کی دنیوی زندگی متاثر ہوتی ہے اور آخرت بھی بگڑ جاتی ہے۔ تو اسلام انسان کی ضروریات خمسہ کی ، جنہیں کلیات خمسہ بھی کہا جاتا ہے کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ تو آج ہم ان ضروریات خمسہ میں سے ایک کا ذکر کرنا چاہیں گے اور وہ ہے: نسل یا عزت کی حفاظت ۔
تقدیم و اولویت کے لحاظ سے سب پر مقدم اور سب سے اہم تو یقینًا ضرورت دین ہے، مگر نسل انسانی کی حفاظت اور اس کی عزت و حرمت کے بارے میں چونکہ آج کل بہت تساہل برتا جارہا ہے اور اس حوالے سے بہت سے نقاط نظریات لوگوں میں در آئے ہیں، جس کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ بڑھتا جا رہا ہے، لہذا اس کی توضیح اور اصلاح کے نقطہ نظر سے اس موضوع پر گفتگو کرنا ضروری سمجھا۔
نسل انسانی کی حفاظت اور اس کی عزت و حرمت کی حفاظت یقینًا انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے، چنانچہ اس کی حفاظت کی خاطر ایک طرف نکاح کو مشروع قرار دیا اور دوسری طرف اسے گڈمڈ اور اختلاط کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے زنا کو حرام قرار دیا۔
حتی کہ اس کی عزت و حرمت کی حفاظت کے لیے حد قذف متعین کی اور دیگر پابندیاں عائد کیں، تا کہ معاشرے میں بے حیائی کی باتیں نہ پھیلیں اور نسب خراب نہ ہو اور انسانی جان کی طرح وہ بھی محفوظ رہے۔ نسل انسانی، سلسلۂ نسب اور اس کی عزت و حرمت کی حفاظت کے لیے اللہ تعالی نے جو انتظامات فرمائے ، ان میں سے ایک انسان میں غیرت کا ودیعت کرنا بھی ہے۔ تو غیرت انسان میں ایک نہایت ہی قابل قدر اور عالی مرتبت اخلاقی خوبی اور صفت ہے، اور وہ انسان کی شخصیت کا حسن ہے۔ لفظ غیرت تغیر قلب سے ماخوذ ہے، یعنی انسان جب اپنی پسندیدہ اور محبوب چیز میں کسی غیر کو شریک ہوتے ہوئے محسوس کرتا ہے، تو اُس کے دل کی کیفیت متغیر ہو جاتی ہے، اُس کے نحصے میں ہیجان، جوش اور شدت پیدا ہو جاتی ہے۔
’’By Default‘‘ یعنی طے شدہ طور پر غیرت ہر انسان میں موجود ہوتی ہے، مرد ہو یا عورت ، چھوٹا ہو یا بڑا، عالم ہو یا عالمی۔ غیرت کو اسلام میں بہت سراہا گیا ہے، اس کی قدر کی گئی ہے، اس کی ترغیب دی گئی اور تعریف کی گئی ہے۔ اور غیرت کے فقدان کی مذمت کی گئی ہے، اسے معیوب قرار دیا گیا ہے ، بہت بڑی اخلاقی کمزوری گردانا گیا ہے اور اس کے برے انجام سے خبردار کیا گیا ہے۔
غیرت کی تائید و حمایت میں تو کہنے کو بہت کچھ ہے، حتی کہ اسے اس مختصر سے خطبے میں سمیٹنا کاری دارد والا معاملہ ہے۔ مگر پہلے غیرت کا جو ایک منفی مفہوم اور تاثر عوام میں پھیل رہا ہے بلکہ قصد او عمدا پھیلایا جارہا ہے، اس سے متعلق تھوڑی سی گفتگو ہو جائے۔ آج کل عالمی میڈیا پر بالعموم اور مسلم میڈیا پر بالخصوص ایک جملہ اکثر پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل اور پھر اس کی خوب خدمت کی جاتی ہے۔
یہ جملہ فی ذاتہ تو صحیح ہے، حق اور سچ ہے کہ غیرت کے نام پر کسی کو قتل کرنا جائز نہیں ہے۔ بالخصوص اگر بدکاری کا ارتکاب نہ کیا ہو اور اگر بدکاری کے مرتکب ہوئے ہوں مگر غیر شادی شدہ ہوں تو بھی قتل نہیں ہے، صرف کوڑے ہیں اور اگر بدکاری کے مرتکب ہوں اور شادی شدہ ہوں تو چار گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ بھی حد نافذ کرنے کی ذمہ داری حاکم شرعی کی ہے۔ (نا کہ عوام کی )
لہٰذا کسی فرد کے لیے جائز نہیں کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے اگر چہ اس مسئلے میں علماء کرام کے درمیان میں کچھ اختلاف بھی ہے، تاہم ایک حد تک تو یہ بات صحیح ہے، مگر یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے، کیونکہ جن لوگوں کی طرف سے یہ آواز اٹھائی جاتی ہے ان کا مقصد قتل کے خلاف آواز اٹھانا نہیں بلکہ ان کا مقصد غیرت کو نشانہ بناتا ہے، غیرت کو ہدف تنقید بنانا، اس کی مذمت کرتا ہے اور غیرت کے تصور کو ختم کرنا ہے۔
تاہم یہ بات اپنی جگہ صیح ہے کہ جیسے ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے ایسے ہی غیرت کی بھی ایک حد ہے اور وہ جب اپنی حد سے تجاوز کر جاتی ہے تو پھر وہ قابل ستائش نہیں رہتی بلکہ قابل خدمت ہو جاتی ہے اور بدلنی اور تہمت کا روپ دھار لیتی ہے۔ چنانچہ آپ سے ہم نے اس بات سے منع فرمایا کہ جب کوئی شخص لمبے سفر سے واپس لوٹے تو رات کو گھر آئے۔ حضرت جابر رضیاللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ أَنْ يَطرق الرجُلُ أَهْلَهُ لَيْلًا يَتَخَوَّنُهُمْ أَوْ يطلب عشراتهم)) (صحيح مسلم ، كتاب الامارة:715)
’’آپ ﷺنے منع فرمایا کہ آدمی اپنے اہل خانہ کے پاس اچانک رات کو گھر واپس آئے ، ان کی خیانت کی جاسوسی کرنے یا اُن کی لغزشوں کی تلاشی کی نیت ہے۔‘‘
یعنی چھاپہ مارنے کے انداز سے نہ آئے ، یہ دیکھنے کے لیے کہ گھر میں کہیں کوئی خرابی تو نہیں ہے، بلکہ بنا کر آئے۔ اور آج کل تو اپنے آنے کی اطلاع دینا بہت آسان ہے، وسائل دستیاب ہیں اور اگر پہلے سے گھر والوں کو معلوم ہو کہ فلاں وقت واپسی ہے تب بھی رات کو آنے میں کوئی حرج نہیں منع نہیں ہے، لیکن جاسوسی کرنا منع ہے، کیونکہ یہاں غیرت اپنی حد سے تجاوز کر کے بدلنی کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔ یہ تو تھا غیرت کا وہ پہلو جو منع ہے اور اللہ تعالیٰ کو نا پسند ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے
آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ مِنَ الْغَيْرَةِ مَا يُحِبُّ اللَّهُ، وَمِنْهَا مَا يُبْغِضُ اللَّهُ))
’’ کچھ غیرت ایسی ہے جسے اللہ تعالی پسند کرتا ہے اور کچھ ایسی ہے جسے اللہ تعالی ناپسند کرتا ہے۔
((فَأَمَّا الْغَيْرَةُ الَّتِي يُحِبُّ الله فالغيرة في الربية ))
’’جو غیرت اللہ تعالی پسند کرتا ہے وہ، وہ غیرت ہے جہاں معاملہ مشکوک ہو۔‘‘
((وَ أَمَّا الْغَيْرَةُ الَّتِي يُبْغِضُ اللهُ فَالْغَيْرَةُ فِي غَيْرِ الريبة))(مسند احمد:23752 ، نسائی ، كتاب الزكاة:2558)
’’ البتہ وہ غیرت جسے اللہ تعالی ناپسند کرتا ہے، ایسی غیرت کہ جہاں شک کی کوئی بات ہی نہ ہو ۔ بس صرف آدمی شکی مزاج ہو۔‘‘
تو ایسی غیرت ہرگز نہیں ہونی چاہیے جو محض شک ، تہمت اور بدظنی پر مبنی ہو۔ البتہ غیرت کا وجود عزت کی حفاظت نسل انسانی اور سلسلہ نسب کی درستی اور حفاظت کے لیے لازمی اور ضروری ہے۔
تو اب آئیے ملاحظہ کرتے ہیں کہ اسلام میں غیرت کو کس قدر اہمیت دی گئی ہے اور کتنی ترغیب دی گئی ہے، بلکہ فطری طور پر تمام انسانی معاشروں میں اسے کسی طرح دیکھا جاتا ہے۔ اسلام میں غیرت کی ضرورت واہمیت کا اندازہ کرنے کے لیے یہ چند باتیں جان لیں تو
اس کی اہمیت خوب واضح ہو جاتی ہے۔
حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ اللهَ يَغَارُ وَإِنَّ الْمُؤْمِنَ يَغَارُ))
’’ اللہ تعالی غیرت کرتا ہے اور بندہ مؤمن بھی غیرت کرتا ہے۔‘‘
((وَغَيْرَةُ اللهِ أَنْ يَأْتِيَ الْمُؤْمِنُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ))(مسلم:2761)
’’اور اللہ تعالیٰ کا غیرت کرنا اس بات پر اور اس وقت ہوتا ہے جب کوئی بندہ وہ کام کرتا ہے جو اللہ تعالی نے حرام کر رکھا ہو ۔‘‘
اور غیرت کی اہمیت کو نہایت ہی تاکیدی الفاظ میں بیان کرتے ہوئے فرمایا:
((ثلاثة لا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ أبداً))
’’فرمایا: تین قسم کے لوگ ہرگز جنت میں نہیں جائیں گے۔‘‘
((الديوتُ ، وَالرَّجُلَة مِنَ النِّسَاءِ، وَمُدْمِنُ الْخَمْرِ )
’’ایک دیوث ایک زنانہ مرد اور تیسرا شراب کارسیا‘‘
فَقَالُو: ((يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمَّا مُدْمِنُ الْخَمْرِ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ))
’’صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ: شراب کا رسیا تو ہمیں معلوم ہے، کیا ہوتا ہے۔‘‘
((فَمَا الديوث))
’’مگر دیوث کو ن ہوتا ہے؟‘‘
قَالَ: ((الَّذِي لَا يُبَالِي مَنْ دَخَلَ عَلَى أَهْلِهِ))
’’فرمایا: دیوث وہ ہوتا ہے جو پرواہ نہ کرے کہ اس کے اہل خانہ کے پاس کون آتا جاتا ہے۔‘‘
اور دیوث کا اردو میں مترادف: بے غیرت اور بھڑوا ہے۔
قُلْنَا: ((فَالرَّجُلَةُ مِنَ النِّسَاءِ؟))
’’ہم نے عرض کیا: ” اور عورتوں میں زنانہ مردکون ہوتے ہیں ؟‘‘
قالَ: ((الَّتِي تَشَبَهُ بِالرِّجَالِ)) (شعب الایمان:10800،صحيح الترغيب والترهيب:2071)
’’فرمایا: عورتوں میں زنانہ مرد وہ عورتیں ہوتی ہیں جو وضع قطع چال ڈھال اور لباس میں مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں ۔‘‘
تو اللہ تعالی غیرت کرتا ہے اور اللہ تعالی سے بڑھ کر کوئی غیرت کرنے والا نہیں ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((لا أحَدَ أَغْيَرُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ))
’’اللہ تعالی سے بڑھ کر غیرت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔‘‘
((وَلِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ)) (صحيح البخاري:4634)
’’چنانچہ اس لیے اللہ تعالی نے ہر قسم کی ظاہری و باطنی فحاشی کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘
اب آئیے صحابہ کرام کی غیرت کے چند نمونے ملاحظہ کرتے ہیں، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں:
((لَوْ رَأَيْتُ رَجُلًا مَعَ امْرَأَتِي لَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ غَيْرَ مُصْفِح))
’’اگر میں کسی کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھوں تو میں تلوار کی ہموار اور چپنی طرف سے نہیں بلکہ تلوار کی دھار کی طرف سے اُس کو ضرب لگاؤں گا۔ یعنی کاٹ کے رکھ دوں گا۔‘‘
تو آپ ﷺ نے فرمایا
((اتعجبون من غيرة سعد؟))
’’کیا تمہیں سعد کی غیرت پر تعجب ہو رہا ہے؟‘‘
((فَوَ اللَّهِ لَأَنَا أَغَيْرُ مِنْهُ))
’’اللہ تعالی کی قسم میں سعد سے بھی زیادہ غیرت مند ہوں ۔‘‘
((والله اغير مني)) (صحيح البخاري:7416)
’’اور اللہ تعالی مجھ سے بھی زیادہ غیرت مند ہے۔‘‘
اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کا واقعہ تو آپ نے سنا ہوگا، باقی جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر میں حملہ کرنے کے لیے داخل ہوئے تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت نائلہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اپنے سر کے بال حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ پر پھیلا دیئے تا کہ وہ قتل نہ کریں اور وہ محض ڈوبتے کو تنکے کا سہارا تھا، جو ایک طرح اُن کی مروت کے ذریعے بچاؤ کی ایک ہلکی سی امید تھی۔
تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی غیرت کا عالم ملاحظہ کیجئے کہ میں اس وقت کہ جب قاتل قتل کرنے کے لیے سر پر کھڑے تھے، فرماتے ہیں۔
((خُذِي خِمَارَكِ، فَلَعَمْرِي لَدُخُولُهُمْ عَلَىَّ أَهْوَنُ مِنْ حُرمَةِ شَعْرِكِ)) (تاريخ المدينه لابن شيبه: 4/1300) ’’اپنے چادر لو مجھے اُس عمر دینے والے کی قسم ان کا مجھ پر حملہ آور ہوتا تمہارے بالوں کی عزت و حرمت کے مقابلے میں بہت حقیر اور ہیچ ہے۔‘‘
یعنی اپنی موت سے بڑھ کر حضرت نائلہ بھی بجھا کے بالوں کی حرمت کی غیرت اور فکر تھی۔ اسی طرح دیگر متعدد صحابہ کرام کی غیرت کے واقعات احادیث میں مذکور ہیں، اگرچہ تمام کے تمام صحابہ کرام ہی شدید غیرت والے تھے، بلکہ اسلام سے پہلے بھی تمام عرب انتہائی سخت غیرت رکھتے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی غیرت کی آپ ﷺنے خود گواہی دی، حدیث میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
((قَالَ بَيْنَا نَحْنُ عِندَ رَسُولِ الله جلوس))
’’ایک بار ہم آپ ﷺکی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔‘‘
((فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: ((بَيْنَا أَنَا نَائِم رَأَيْتَنِي فِي الْجَنَّةِ))
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: میں سو رہا تھا کہ میں نے اپنے آپ کو جنت میں پایا۔ (انبیاء اسلام کے خواب بھی وہی ہوتے ہیں )‘‘
((فَإِذَا امْرَأَةً تَتَوَضَّأُ إِلَى جَانِبِ قَصْرٍ))
’’دیکھا کہ ایک عورت محل کے ایک طرف وضو کر رہی ہے۔‘‘
((فَقُلْتُ لِمَنْ هٰذَا؟))
’’میں نے پوچھا یہ کس کا ہے؟‘‘
((قَالَ: هٰذَا لِعُمَرَ))
’’انہوں نے کہا کہ یہ محل عمر کا ہے۔‘‘
((فَذَكَرْتُ غَيْرَتَهُ فَوَلَّيْتُ مُدْبِرًا))
’’ تو مجھے عمر کی غیرت یاد آئی اور میں وہاں سے واپس لوٹ آیا۔‘‘
((فَبَكَى عُمَرُ ، وَهُوَ فِي الْمَجْلِسِ ، ثُمَّ قَالَ: أَوْ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ آغَارُ)) (صحیح البخاری: (5227)
’’تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جو کہ مجلس میں موجود تھے، رو پڑے اور کہا: اے اللہ کے رسولﷺ میں آپ پر غیرت کروں گا ؟ ‘‘
یعنی جہاں سے غیرت کا ڈر اور خوف نہ ہو وہاں آدمی غیرت کیسے کر سکتا ہے، جیسا کہ کسی عورت کے پاس اس کا باپ یا بھائی بیٹھا ہو، تو غیرت کا کیا تک بنتا ہے۔
صحابہ کرام کی غیرت کے عجیب و غریب اور حیران کن واقعات ہیں اور پھر تاریخ اسلامی میں مسلمانوں کے خون کو گرما دینے والے واقعات بھی موجود ہیں۔ اور اسلام سے پہلے عرب میں غیرت انتہائی سخت تھی بلکہ بعض اوقات تو حد سے تجاوز کر جاتی تھی۔ جیسا کہ ایک جاہلی شاعر، یعنی زمانہ جاہلیت کا مشہور شاعر تھا اور شدت غیرت میں بہت مشہور تھا۔
ایک روز اپنی بیوی کے ساتھ جا رہا تھا، اُس نے دیکھا کہ کوئی آدمی اس کی بیوی کی طرف دیکھ رہا ہے تو اس نے وہیں اپنی بیوی کو طلاق دے دی، اور پھر کچھ شعر کہے، جن میں سے دو ایک یہ ہیں کہ:
إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ عَلَى طَعَامٍ
رَفَعْتُ يَدِي وَنَفْسِي تَشْتَهِيهِ
’’جب مکھیاں کھانے پر بیٹھ جائیں تو میں کھانے سے ہاتھ اٹھا لیتا ہوں اگر چہ جی چاہ بھی رہا ہوتا ہے۔‘‘
وتَجْتَنِبُ الْأَسودُ وَرُوْدَ مَاءٍ
إِذَا كَانَ الْكِلَابُ وَلَغْنَ فِيهِ
’’اور شیر اُس پانی سے دور رہتے ہیں، کہ جس میں کتے منہ مارتے ہوں ۔‘‘
تو یہ ایک احمقانہ غیرت تھی، اس کا حقیقی غیرت سے کوئی تعلق نہیں ہے، صرف شدت غیرت کا ذکر کرنا مقصود تھا۔
مگر جو غیرت ہمیں عزت، شرافت، شرم و حیا، پاکدامنی اور پاکیزہ زندگی گزارنے کا سبق دیتی ہے آئیے اس کا ایک اور واقعہ بھی سنتے چلیں۔
حضرت خنساء رضی اللہ تعالی عنہا ایک بہت بہادر اور مضبوط شخصیت کی مالک صحابیہ تھیں اور بہت بڑی شاعرہ تھیں، جنگ قادسیہ کے موقعے پر اپنے چار بیٹوں کو میدان جنگ میں اتارنے سے پہلے چند نصیحتیں کرتی ہوئی کہتی ہیں۔
((يَا بَنِيَّ إِنَّكُمْ أَسْلَمْتُم وَهَاجَرْتُمْ مُخْتَارِينَ))
’’اے میرے بیٹو! تم اسلام لائے ہو اور تم نے اپنی مرضی اور اختیار سے ہجرت کی ہے۔‘‘
((وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ))
’’اس اللہ کی قسم کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔‘‘
((إِنَّكُمْ بِنُو رَجُلٍ وَاحِدٍ))
’’تم ایک ہی مرد کے بیٹے ہو۔‘‘
((كَمَا أَنَّكُمْ بَنُو إِمْرَأَةِ وَاحِدَةٍ))
’’جس طرح تم ایک ہی عورت کے بیٹے ہو ۔‘‘
((مَا خُنْتُ اَبَاكُمْ))
’’میں نے تمہارے باپ سے خیانت نہیں کی ۔‘‘
((وَلَا فَضَحْتُ خَالَكُمْ))
’’اور نہ تمہارے ماموں کو شرمندہ کیا ۔‘‘
((وَلا هَجَنْتُ حَسَبكُمْ))
’’اور میں نے تمہاری نسل کو دوغلا اور دو نسلا نہیں بنایا ۔‘‘
((وَلَا غَيَّرَتُ نَسَبكُمْ))
’’اور نہ تمہارے نسب کو بدلا ہے۔‘‘
((وَاعْلَمُوا أَنْ الدَّارَ الْبَاقِيَةَ خَيْرٌ مِنَ الدَّارِ الفانية)) (نهاية الأرب في فنون الأدب ، ج:19 ، ص:216)
’’جان لو کہ دار باقی اس دار فانی سے بہتر ہے۔‘‘
تو جس معاشرے کی عورتیں اس طرح کی پاک باز، پاکدامن اور بلند اخلاق کی مالک ہوں ، اس معاشرے جیسا دنیا میں کوئی معاشرہ نہیں ہو سکتا اور اسے دنیا کی کوئی طاقت مغلوب نہیں کر سکتی۔
…………………….