دین کے علماء اور طلباء کی شان

طلبِ علم کا راہی جنت کی راہ پر چلتا ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ.
مسلم : 2699
جو شخص علم حاصل کرنے والے راستے پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے

دینی علم کا حصول اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا ثبوت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ.
صحيح بخاری: 71
اللہ تعالیٰ جس انسان کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین کا علم اور سمجھ عطا فرماتا ہے

عالم کی عابد پر فضیلت

ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا کہ جن میں سے ایک عابد اور دوسرا عالم تھا تو آپ نے فرمایا :
فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ .
عالم کی عابد پر ایسے ہی فضیلت ہے جیسے میری تم میں سے کسی ایک پر ہے
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ اللَّهَ، وَمَلَائِكَتَهُ، وَأَهْلَ السَّمَاوَاتِ، وَالْأَرَضِينَ، حَتَّى النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا، وَحَتَّى الْحُوتَ ؛ لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَيْرَ
ترمذی: 2685 ،صحيح
اللہ اور اس کے فرشتے اور آسمان اوزمین والے یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنی سوراخ میں اور مچھلیاں اس شخص کے لیے جو نیکی وبھلائی کی تعلیم دیتاہے خیر وبرکت کی دعائیں کرتی ہیں۔

دنیا ملعون ہے سوائے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا مَلْعُونَةٌ،مَلْعُونٌ مَا فِيهَا، إِلَّا ذِكْرُ اللَّهِ، وَمَا وَالَاهُ، وَعَالِمٌ أَوْ مُتَعَلِّمٌ. ترمذی : 2322
دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس پر لعنت کی گئی ہے، سوائے اللہ کے ذکر کے اور جو کچھ اس کے ساتھ ملا ہوا ہو، اور دینی علم سکھانے والے (عالم) اور علم سیکھنے والے (طالب علم) کے.

علم صدقہ جاریہ ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ : إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ
مسلم : 1631
جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے، مگر تین چیزوں کا اجر اسے ملتا رہتا ہے، ایک صدقہ جاریہ، یا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے ۔ یا نیک اولاد جو اس کے لئے دعائے خیر کرتی رہے۔

عالم فوت ہو کر بھی زندہ رہتا ہے

‏ابن المعتز نے کہا :
مات خزنة الأموال وهم أحياء ،
وعاش خزان العلم وهم أموات .
زهر الآداب القيرواني(٢١٧/١)
مال جمع کرنے والے اگرچہ زندہ ہوں لیکن حقیقت میں فوت ہو چکے ہیں
اور
علم والے اگرچہ فوت ہو چکے ہوں لیکن وہ زندہ ہوتے ہیں

اللہ تعالیٰ علماء کرام کے درجات بلند کرتے ہیں

فرمایا :
يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
اللہ ان لوگوں کو درجوں میں بلند کرے گاجو تم میں سے ایمان لائے اور جنھیں علم دیا گیا اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، پوری طرح باخبر ہے۔
المجادلۃ : 11

امام سیبویہ کو علم کی نشر و اشاعت کا فائدہ

لفظ «الله» اللہ جل شانہ کا نام ہے اس کے متعلق امام سیبویہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے :
وهذا اللفظ هو أعرف المعارفِ على الإطلاق
یہ لفظ مطلق طور پر سب سے زیادہ معرفہ ہے اور اس پر اجماع ہے

پھر وفات کے بعد سیبویہ سے خواب میں کسی نے دیکھا تو پوچھا :
ماذا فعَلَ الله بك؟
اللہ تعالیٰ نے آپ سے کیا معاملہ کیا ہے
تو فرمانے لگے :
غفَرَ لي .
پوچھا : کس وجہ سے
تو فرمایا :
لأني قلت : والله أعرف المعارف»
اس وجہ سے کہ میں نے کہا تھا کہ لفظ اللہ سب سے زیادہ معرفہ ہے

علماء ستاروں کی مانند ہیں

سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ
علماء کی مثال لوگوں میں علماء کی مثال ایسے ہے جیسے آسمان میں ستارے ہوتے ہیں کہ جن کے ذریعے سے راستہ معلوم کیا جاتا ہے۔”
اخلاق العلماء للأجرى: (19)

علم کی وجہ سے شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی عزت

عالم اسلام کے عظیم مفتی اور استاد شیخ ابن باز رحمہ اللہ اپنے متعلق لکھتے ہیں :
لما فقدت بصري وانا صغير ، سمعت خالتي تقول لأمي وهي تظن أني نائم ،، مسكين عبد العزيز كيف سيحصل على وظيفة يعيش منها
بچپن میں ہی میری آنکھیں نابینا ہو گئی تھیں میں نے ایک دن سنا کہ میری خالی میری والدہ سے کہہ رہی تھی کہ یہ عبدالعزیز بے چارہ مسکین آدمی(نابینا ہونے کی وجہ سے) کیسے زندگی بسر کرے گا
سبحان اللہ
تو پھر ایک وقت آیا کہ بڑے بڑے سعودی حکام شیخ کے سامنے شاگردوں کی طرح بیٹھا کرتے تھے
من عاش لله أغناه الله
سچی بات ہے کہ جو اللہ کے لیے جیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اسے غنی کر دیتا ہے

علم کی وجہ سے غلام عکرمہ سردار بن گئے

صحيح بخاری میں معلق روایت ہے اسے ابن سعد نے الطبقات، اور دارمي نے اپنی مسند میں بھی ذکر کیا ہے
عكرمة رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
ابن عباس رضی اللہ عنہ مجھے قرآن و حدیث کی تعلیم دینے کے لیے میرے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیتے تھے
ایسے لگتا ہے جیسے ابن عباس رضی اللہ عنہ اپنے غلام پر بہت سختی کرتے تھے
لیکن جب اس کا نتیجہ دیکھتے ہیں تو پھر یہ سختی نہیں بلکہ شفقت محسوس ہوتی ہے

عکرمہ عربی نسل نہیں تھے بلکہ بربری تھے اور آزاد نہیں تھے غلام تھے لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ انہیں لوگوں کا سردار بنانا چاہتے تھے

پھر ایک وقت آیا کہ وہ واقعی سردار بنے ان کے علم کا یہ عالم تھا کہ
يعقوب بن سفيان المعرفة والتاريخ (2/9) میں سلمة از عبدالرزاق از معمر از ایوب کی صحیح سند کے ساتھ لکھتے ہیں :
ایوب سختیانی فرماتے ہیں کہ عکرمہ اگر دور کسی افق میں ہوں تو میں ان سے علم حاصل کرنے کے لیے وہاں تک پہنچوں
کہتے ہیں ایک دفعہ بصرہ میں لوگ عکرمہ کے ارد گرد جمع تھے رش اتنا زیادہ تھا کہ میں ان تک پہنچ کر سوال نہ کر سکا میں دور کھڑا ہو گیا لوگ سوال کررہے تھے عکرمہ جواب دے رہے تھے اور میں فاصلے پر کھڑا ہو کر یاد کرتا رہا

یہ ہے قرآن و حدیث کے علم کی وجہ سے ایک غلام کو ملنے والا مقام اور عزت جو کہ کل تک غلام تھا

علم کی وجہ سے محمد بن عبد الرحمن کی شان بلند

محمد بن عبد الرحمن الأوقص ایسے تھے کہ ان کی گردن ان کے جسم کے اندر تھی اور گردن کے دونوں طرف والے کندھے گردن سے اوپر نکلے ہوئے تھے
ان کی اس قبیح صورت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دن کوئی عورت ان کے پاس سے گزری اور وہ دعا کررہے تھے کہ اے اللہ ! میری گردن جہنم سے آزاد کردے تو اس عورت نے ازروئے مزاح کہا :
اے بھتیجے تیری گردن ہے کہاں؟

خیر ایک دن ان کی والدہ نے کہا کہ اے بیٹے علم حاصل کر لے ورنہ تو جس مجلس میں بھی بیٹھے گا لوگ تیرے ساتھ مذاق کریں گے لھذا تو علم حاصل کر لے اس سے تیرا مقام بلند ہو جائے گا
فولي قضاء مكة عشرين سنة. وكان الخصم إذا جلس إليه بين يديه يَرْعُد حتى يقوم
پھر ایسا ہی ہوا کہ وہ مکہ میں بیس سال تک قاضی کے عہدے پر فائز رہے
اور حالت یہ تھی کہ جب عدالت میں مجرم ان کے سامنے بیٹھتا تو کانپ رہا ہوتا تھا

قرآن و حدیث کا علم انبیاء کرام علیہم السلام کی وراثت ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا، وَلَا دِرْهَمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ
ابی داود: 3641،صحيح
علماء، انبیائے کرام کے وارث ہیں نبیوں نے وراثت میں درہم و دینار نہیں چھوڑے ، انہوں نے تو علم کا ترکہ چھوڑا ہے، جس نے اسے حاصل کیا ، اس نے ( نبیوں کی وراثت میں سے ) وافر حصہ پالیا۔

علم کی طلب میں سفر کرنا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے

موسیٰ علیہ السلام کو جب خضر علیہ السلام کی خبر ہوئی کہ اس دنیا میں ان سے بھی بڑھ کر کوئی علم والا موجود ہے تو کہنے لگے:
أَيْ رَبِّ! كَيْفَ السَّبِيلُ إِلَيْهِ؟
بخاری: 4727
اے میرے رب! میں ان تک کیسے پہنچوں؟

پھر صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ نکل پڑے اور ایسا عزم لے کر نکلے کہ کہنے لگے اگر مجھے صدیوں چلنا پڑا تو بھی چلوں گا
وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ لَا أَبْرَحُ حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا
اور جب موسیٰ نے اپنے جوان سے کہا میں نہیں ہٹوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں کے ملنے کے مقام پر پہنچ جاؤں، یا مدتوں چلتا رہوں۔
الكهف : 60

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم علم حاصل کرنے کی دعا کیا کرتے تھے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فجر کی نماز کے بعد یہ دعا کیا کرتے تھے :
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا.
ابن ماجہ: 925
اے اللہ! میں تجھ سے فائدے والے علم کا سوال کرتا ہوں

بلکہ آپ کو علم کی دعا کرنے کا حکم خود اللہ تعالیٰ نے دیا تھا، فرمایا :
وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا
اور کہہ اے میرے رب! مجھے علم میں زیادہ کر۔
طہ : 114

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بھی علم حاصل کرنے کی دعا کرنے کا حکم دیا کرتے تھے فرمایا:
سَلُوا اللَّهَ عِلْمًا نَافِعًا
سنن ابن ماجہ: 3843
اللہ سے علم نافع کا سوال کرو

مدرسین کی فضیلت

قرآن کی تعلیم دینے والوں کی فضیلت میں ایک مشہور روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ ”
بخاری : 5027 ”
تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے
اور
بخاری میں ہی 5028 نمبر روایت میں ہے :
” إِنَّ أَفْضَلَكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ، وَعَلَّمَهُ ”
تم میں سب سے افضل وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی معلم تھے

آپ نے خود اپنے متعلق فرمایا :
إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَالِدِ أُعَلِّمُكُمْ
سنن ابی داؤد : 8
میں تمہارے لیے والد کی طرح ہوں تمہیں علم سکھاتا ہوں

زندگی کا ایک دن رہ گیا تو اس میں بھی لوگوں کو علم سکھاؤں گا

امام ابن المبارک رحمہ اللّٰہ سے پوچھا گیا:اگر آپ کی زندگی کاایک ہی دن رہ گیا ہو تو اس میں کیا کریں گے؟فرمایا:
كنت أُعلّم الناس
(رواه البيهقي في المدخل، ٢ /٤٥)
لوگوں کوتعلیم دوں گا!

دین کا کام کرنے والوں کو گالی مت دو

مرغ ایک پرندہ ہے، سحری کے وقت بانگ دینا اس کی فطرت ہے، اس کی بانگ سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عبادت گزاروں کو تہجد کے وقت کا اندازہ ہوجاتا ہے اور وہ تہجد اور فجر کی نماز کے لیے اٹھ جاتے ہیں
اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت میں ایک قانون بنا دیا اپنے نبی کی زبانی کہلوایا :
"لَا تَسُبُّوا الدِّيكَ ؛ فَإِنَّهُ يُوقِظُ لِلصَّلَاةِ ”
سنن أبي داود|5101 ،حكم الحديث: صحيح
مرغ کو گالی نہ دیا کرو اس لیے کہ وہ نماز کے لیے اٹھاتا ہے

سبحان اللہ یہاں ہمارے لیے سوچنے اور غور و فکر کرنے کی بات یہ ہے کہ جو رب ایک مرغ کی ایک نماز کے لیے اٹھانے والی کوشش کی وجہ سے اسے گالی دینا پسند نہیں کرتا وہ پانچ نمازوں کے لیے آذان دینے والے مؤذن، جماعت کروانے والے امام اور دین کی باتیں بتانے والے خطیب بندے کو برا کہنے کی اجازت کیسے دے گا

علماء کرام کو شہید کرنے والوں کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رد عمل

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا:
کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: ہمارے ساتھ کچھ آدمی بھیج دیں جو (ہمیں) قرآن اور سنت کی تعلیم دیں۔ آپ نے ان کے ساتھ ستر انصاری بھیج دیے جنہیں قراء کہا جاتا تھا، ان میں میرے ماموں حضرت حرام (بن ملحان رضی اللہ عنہ) بھی تھے، یہ لوگ رات کے وقت قرآن پڑھتے تھے، ایک دوسرے کو سناتے تھے، قرآن کی تعلیم حاصل کرتے تھے، اور دن کو مسجد میں پانی لا کر رکھتے تھے اور جنگل سے لکڑیاں لا کر فروخت کرتے اور اس سے اصحاب صفہ اور فقراء کے لیے کھانا خریدتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان (آنے والے کافروں) کی طرف بھیجا اور انہوں نے منزل پر پہنچنے سے پہلے (راستے ہی میں دھوکے سے) ان پر حملہ کر دیا اور انہیں شہید کر دیا
(مسلم، كِتَابُ الْإِمَارَةِ
بَابُ ثُبُوتِ الْجَنَّةِ لِلشَّهِيدِ4917)

صحيح بخاری میں ہے
فَدَعَا عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ صَبَاحًا عَلَى رِعْلٍ وَذَكْوَانَ وَبَنِي لَحْيَانَ وَبَنِي عُصَيَّةَ الَّذِينَ عَصَوُا اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
(بخاری، كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَابُ مَنْ يُنْكَبُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ 2801)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس دن تک صبح کی نماز میں قبیلہ رعل‘ ذکوان‘ نبی لحیان اور بنی عصیہ کے لئے بد دعاکی تھی جنہوں نے اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی تھی ۔

سوچیں کہ
میرے نبی نے تمام تکلیفوں پر صبر کیا
لوگوں نے آپ کو برے القابات دیے آپ خاموش رہے
لوگوں نے پتھر مارے آپ خاموش رہے
لوگوں نے وطن سے نکالا آپ خاموش رہے
لوگوں نے زخمی کیا آپ خاموش رہے
لوگوں نے حالت سجدہ میں جانوروں کا گند اوپر ڈال دیا آپ خاموش رہے
لوگوں نے آپ کی بیٹی کو تکلیف پہنچائی آپ خاموش رہے
لوگوں نے چچا کو شہید کیا آپ خاموش رہے
مگر
قربان جاؤں
جب لوگوں نے آپ کے ستر عالموں، فاضلوں، قاریوں اور طالب علموں کو شہید کیا تو میرا نبی تڑپ اٹھا، بے چین و بے قرار ہوگیا، غم و کرب میں مبتلا ہو گیا
فَدَعَا عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ صَبَاحًا
جی ہاں
ایک نہیں، دو نہیں ،تین نہیں چالیس دن تک ان طالب علموں کے قاتلوں کے خلاف بددعا کرتے رہے

دعوتِ دین کا کام کرنے والے تروتازہ رہتے ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ غَيْرَهُ
ترمذی 2656
اللہ تعالیٰ اس آدمی کو تر و تازہ رکھے جو ہم سے ایک حدیث سنتا ہے اسے یاد کرتا ہے اور پھر اسے دوسروں تک پہنچاتا ہے

اگر لوگوں کو علم کی لذت معلوم ہو جائے تو

حافظ ابن قیم رحمہ اللّٰهُ فرماتے ہیں :
حقیقی سعادت علم نافع کی سعادت ہے اور اگر اکثر لوگ اس کی لذت سے بے خبر نہ ہوتے تو اس کی خاطر تلواروں سے جنگ کرتے!
(مفتاح دار السعادة ١ /٣٠٣)

قبر میں اتارتے وقت زیادہ علم والے کو تھوڑے علم والے پر فوقیت دی جاتی

میری آنکھوں کے سامنے تاریخ کا وہ منظر گردش کر رہا ہے میرے نبی نے احد کی جنگ لڑی ستر جانثار جام شہادت نوش کر گئے شہداء کی تدفین کا مرحلہ آتا ہے ایک ایک قبر میں دو دو دفن کرنے کا منصوبہ بنتا ہے جب بھی نئی قبر میں دو شہداء کو اتارنے کی باری آتی ہے میرا نبی سوال کرتا ہے
أَيُّهُمْ أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ
ان دونوں میں سے قرآن کا بڑا عالم کون ہے
فَإِذَا أُشِيرَ لَهُ إِلَى أَحَدِهِمَا قَدَّمَهُ فِي اللَّحْدِ
(بخاری : 1343)
آسمان کی نیلی چھت نے اپنی آنکھوں سے علم کا پروٹوکول دیکھا جب دونوں میں سے زیادہ عالم کی طرف اشارہ کیا جاتا تو میرے نبی اسے لحد میں مقدم کرتے

سچ فرمایا ہے اللہ رب العزت نے
قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ
کہہ دے کیا برابر ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ جو نہیں جانتے؟ نصیحت تو بس عقلوں والے ہی قبول کرتے ہیں۔
الزمر : 9

علماء کرام کی محنتیں

”ہم نے اس علم کی خاطر اونٹوں کو دوڑایا ہے، شہروں کی خاک چھانی ہے، علماء کے ہاں حاضری دی ہے؛ جبکہ دوسرے لوگ اپنے باپ کے تندور اور ماں کی اٹیرَن (سلائی مشین) کے ساتھ چِپک کر علم حاصل کر کے ہماری برابری کرنا چاہتے ہیں!!“

(الإمام الفقيه المجاهد أسد بن الفرات رحمه الله تــ ٢١٣ھ)

ایک مسئلے کو درست کروانے کے لیے 28 کلومیٹر سفر کیا

علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ایک شخص چار فرسخ (28 کلو میٹر سے کچھ زائد فاصلہ) طے کر کے مسئلہ پوچھنے کی غرض سے ہمارے ایک استاد کے پاس آیا اور مسئلہ دریافت کیا۔
ہمارے شیخ نے مسئلہ بتا دیا اور جب وہ شخص واپس پلٹ گیا تو استاد محترم نے اس مسئلہ پر غور و خوض کیا تو معلوم ہوا کہ اس شخص کو مسئلہ بتانے میں غلطی لگی ہے۔
علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ہمارے استاد محترم غلطی واضح ہونے کے بعد پیدل چل کر اس شخص تک پہنچے اور اسے اس غلطی سے آگاہ کیا۔اس کے بعد جب بھی ان سے مسئلہ پوچھا جاتا تو وہ جواب دینے میں توقّف کرتے اور فرماتے:
مجھ میں چار فرسخ پیدل چلنے کی قوت نہیں ہے۔
تعظيم الفتيا لابن الجوزي ص ٩١

ناظرہ قرآن کی کلاسیں اور مقامی مسجدوں کے امام

لمحہ فکریہ ،،سکول کی تعلیم کیلئے 6گھنٹے سکول3گھنٹے ٹیوشن پھر ہوم ورک والدین بہن بھائی،چچا،ماموں کی ہلیپ پھر بھی 15,20سال پڑھنے کے باوجود اردو تک پڑ ھنی نہیں آ تی قرآن کیلئے آدھا گھنٹہ آیک استاد 60,70بچےاستاد فی بچہ آدھا منٹ دے کر پھر بھی قرآن پڑھنے کے قابل بناتا ہے ساتھ کلمے نماز،دعائیں بھی یاد کراتا ہے، اگر بچہ فل ٹائم دے تو حافظ قاری بناتا ہے کمال ہے شکوہ پھر بھی ملا پر،،،
(کوئی اللہ کا بندہ)

علماء کرام فتنوں کے سامنے سیسہ پلائئ دیوار

علماء ہر قسم کے اور ہر سائز کے فتنوں کے سامنے سیسہ پلائئ دیوار بن جاتے ہیں ۔ قادیانیت مرزائیت جیسی لعنت ، انکار حدیث کا پرویزی فتنہ ۔تحقیر حدیث رسول کا فتنہ اسی طرح سیاسی فتنوں جیسا کہ سوشلزم کا فتنہ ۔ جمہوریت کا فتنہ اور آج کل لبرلزم کا فتنہ ۔ کھسرے پن کا فتنہ ( ٹرانسجینڈر ) کے پھیلاؤ اور اس قسم کے بے شمار فتنوں کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑے ہونے والے علماء ربانی ہی ہیں ۔

مرزا قادیانی کا اعتراف

دیکھیے مرزا قادیانی کیسے اقرار و اعتراف کرتا ہے
وہ لکھتا ہے :
"اگر یہ علماء موجود نہ ہوتے تو اب تک اس ملک کے تمام باشندے جو مسلمان کہلاتے ہیں، مجھے قبول کر لیتے۔”
(مرزا غلام احمد قادیانی/ روحانی خزائن: 20۔66)

مرزا جہلمی کا فتنہ اور علماء کرام

مرزا جہلمی کے فتنے کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں شروع میں مرزا کی چتر زبانی اور تلبیس نے بہت سے نوجوانوں کو اپنی جہالت کی لپیٹ میں لے لیا تھا
مگر جب علماء کرام نے اس فتنے کو بھانپتے ہوئے اس کا تعاقب کیا تو اب صورتحال یہ ہے کہ مرزا کے دجل اور فریب کو بچہ بچہ جان چکا ہے
گویا کل کی طرح آج بھی حقیقت یہی ہے کہ "اگر یہ علماء موجود نہ ہوتے تو اب تک تمام لوگ جہلمی فتنے کا شکار ہو چکے ہوتے”

شہر میں کسی عالم کا وجود میٹھے پانی کے چشمے کی طرح ہے

امام میمون بن مہران رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«إن مثلَ العالِم في البلد كمثلِ عينٍ عذبةٍ في البلد»
[جامع بيان العلم وفضله 237/1]
شہر میں عالم دین کی مثال شہر میں میٹھے چشمے کی طرح ہے

وہ شہر نقصان سے محفوظ رہتا ہے جس میں کوئی ھدائت یافتہ عالم رہتا ہے

قرطبي رحمہ الله فرماتے ہیں :
ہر وہ شہر مصیبتوں سے محفوظ رہتا ہے جس میں یہ چار قسم کے افراد رہتے ہیں

1 عدل کرنے والا حکمران جو ظلم نہ کرتا ہو
2 ھدائت یافتہ عالم
3 نیکی کا حکم اور برائی سے روکنے والے اور علم اور قرآن کی طلب رکھنے والے لوگ
4 اور ان کی باپردہ بیویاں جو جاہلیت کی طرز پر بناؤ سنگھار نہ کرتی ہوں
الجامع لأحكام القـران (٤٩/٤)

علماء کی قدر کریں

ایک شخص نے ابن عجلان رحمہ اللّٰہ کو ایک مسئلہ سمجھایا تو انھوں نے اس کے سر پر بوسہ دیا
سير أعلام النبلاء، ٦/٣٧٩

علماء کرام کی خدمت کرنے کا صلہ

یحییٰ بن خالد برمکی، ہارون الرشید کے وزیر تھے اور آپ ہر مہینے محدث سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کو ایک ہزار دینار دیا کرتے تھے تاکہ ان کی غربت ان کو کتاب و سنت کی ترویج و تعلیم سے روک نہ دے
اور اس کے بدلے میں سفیان بن عیینہ اپنے سجدوں میں یحییٰ کے لیے دعا کیا کرتے تھے
اللهم إنَّ يحيى كفاني أَمرَ دُنياي، فاكفِهِ أمر آخِرتِهِ
کہ اے اللہ یحییٰ نے مجھے دنیاوی معاملات میں کافی مدد کی ہے تو تو اس کے اخروی معاملات میں اس کے لیے کافی ہو جا

فلما مات يحيى رآهُ بعضُ أصحابه في المنام، فقال له: *
فقال له يحيى:
پھر جب یحییٰ فوت ہو گئے تو انہیں ان کے دوستوں میں سے کسی نے خواب میں دیکھا اور پوچھا
ما فعل اللهُ بك؟
اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا کیا ہے؟
تو یحییٰ کہنے لگے :
غَفرَ لي بِدُعاءِ سُفيانَ
وَفياتُ الأعيان 6/228.
اللہ تعالیٰ نے مجھے سفیان کی دعا کی وجہ سے معاف کر دیا ہے

علماءکرام پر مال خرچ کرنا

امام عبداللہ بن مبارک مروزی رحمہ اللہ (م181ھ) علماء پہ بہت زیادہ خرچ کرتے تھے،
اس بارے میں بعض لوگوں نے آپ کو روکنے کی کوشش کی تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا:
” إِنْ تَرَكْنَاهُمْ ضَاعَ عَلْمُهُمْ، وَإِنْ أَغْنَيْنَاهُمْ بَثُّوا الْعِلْمَ لَأُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَا أَعْلَمُ بَعْدَ النُّبُوَّةِ دَرَجَةً أَفْضَلَ مِنْ بَثِّ الْعِلْمِ ”
[ شعب الإيمان للبيهقي، 263/3]
اگر ہم انہیں چھوڑدیں تو ان کا علم ضائع ہوجائے گا، اور اگر ہم ان کو (روزگار) سے بے پروا کردیں تو یہ امت محمدی کے لیے علم پھیلائیں گے، میرے نزدیک نبوت کے بعد علم پھیلانے سے زیادہ کوئی افضل درجہ نہیں.
بلکہ
علماء عاملین پہ خرچ کرنے کی وجہ سے ہی آپ تجارت کرتے تھے، چنانچہ فرماتے ہیں:
لَوْلاَ خَمْسَةٌ مَا تَجِرْتُ: السُّفْيَانَانِ، وَفُضَيْلُ بنُ عِيَاضٍ، وَابْنُ السَّمَّاكِ، وَابْنُ عُلَيَّةَ.
[سير أعلام النبلاء للذهبي ،116/9]
اگر یہ پانچ لوگ نہ ہوتے تو میں تجارت ہی نہ کرتا
سفیان ثوری(م161ھ)
سفیان بن عیینہ(م198ھ)
فضیل بن عیاض (م187ھ)
ابن سماک (م183ھ)
ابن علیہ(م193ھ)

دنیا سے علماء کرام کی کمی جہالت میں اضافے کا سبب بنتی ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»
بخاری : 100
اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔

عمار بن ابی عمار بیان کرتے ہیں کہ جب سیدنا زید بن ثابت رضی اللّٰه عنہ فوت ہوئے تو سیدنا عبد اللّٰه بن عباس رضی اللّٰه عنہما نے فرمایا:
علم کا اٹھنا اس طرح ہے۔ آج (زید رضی اللّٰه عنہ کے ساتھ) بہت زیادہ علم دفن کر دیا گیا۔
(المعرفہ والتاریخ للفسوی 1/ 261 وسندہ حسن)
معلوم ہوا کہ علم اٹھنے سے مراد علماء کا فوت ہونا ہے

علم کا کم ہو جانا، قیامت کی نشانیوں میں سے ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يَقِلَّ الْعِلْمُ، وَيَظْهَرَ الْجَهْلُ”
بخاری : 80
قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ علم کم ہو جائے گا اور جہالت بڑھ جائے گی

ابو العلاء ہلال بن خباب بیان کرتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر رحمہ اللّٰه سے دریافت کیا:
اے ابو عبداللّٰه! لوگوں کی ہلاکت و بربادی کی نشانی کیا ہے؟
انھوں نے فرمایا:
جب ان کے علماء فوت ہوجائیں۔
(مصنف ابن ابی شیبہ 14/ 38 وسندہ صحیح)

ایک عربی شاعر کہتا ہے :

الارضُ تَحْیَا اِذَا مَا عَاشَ عَالِمُھَا
حَتَّی یَمُتْ عَالِمٌ مِنْھَا یَمُتْ طَرْفٌ
زمین اس وقت زندہ وشاداب رہتی ہے جب تک اس کا عالم زندہ رہے،جب عالم کا انتقال ہوجائے تو زمین کا ایک حصہ بھی ساتھ ہی مرجاتا ہے اور مرجھاجاتاہے۔