دین میں غلو اور شدت پسندی ممنوع و مذموم ہے
276۔سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:2670)
’’مبالغے اور تکلیف سے کام لینے والے ہلاک ہو گئے۔‘‘
آپﷺ نے یہ بات تین بار ارشاد فرمائی۔
277۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے:
((لَا تُشَدِّدُوا عَلٰى أَنفُسِكُمْ فَيُشَدَّدَ عَلَيْكُمْ، فَإِنَّ قَوْمًا شَدَّدُوا عَلٰى أَنفُسِهِمْ فَشَدَّدَ اللهُ عَلَيْهِمْ، فَتِلْكَ بَقَايَاهُمْ فِي الصَّوَامِعِ وَالدِّيَارِ، رَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ)) (أَخْرَجَهُ أبو داود: 4904)
’’اپنی جانوں پر سختی مت کرو، ورنہ تم پر سختی کی جائے گی۔ بلاشبہ (تم سے پہلے) کئی قوموں نے اپنی جانوں پر سختیاں کیں تو اللہ تعالی نے بھی ان پر سختی کی۔ جنگلوں میں معبدوں کے اندر اور گرجا گھروں میں ابھی لوگوں کے بقایا لوگ ہیں (جن کا قرآن مجید میں ذکر ہے۔) ان لوگوں نے رہبانیت اختیار کر لی۔ انھوں نے یہ بدعت خود نکالی، ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا۔‘‘
278۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے مزدلفہ کی صبح فرمایا: ((هَلُمَّ الْقُطْ لِي)) ’’آؤ، میرے لیے کنکریاں جمع کرو۔“
میں نے آپ کے لیے انگلی سے مارے جانے والی کنکریوں جتنی کنکریاں جمع کر لیں۔ جب آپﷺ نےاپنے ہاتھ میں رکھیں تو فرمایا: ((نَعَمْ بِأَمْثَالِ هَؤُلَاءِ وَإِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ، فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِالْغُلُوِّ فِي الدِيْنِ)) (أخرجه أحمد:1851،والنسائي: 3059، وابن ماجه:3029)
’’ہاں، (کنکریاں) اس جیسی ہونی چاہئیں اور تم دین میں غلو اور مبالغے سے اپنے آپ کو بچاؤ، اس لیے کہ تم سے پہلے لوگ دین میں غلو کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔‘‘
279۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ایک دفعہ (مسجد میں) داخل ہوئے تو دیکھا کہ دوستونوں کے درمیان ایک رہی لٹک رہی ہے۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا:
((مَا هٰذَا الْحَبْلُ؟)) ’’یہ رسی کیسی ہے؟‘‘
لوگوں نے عرض کی: یہ رہی سیدہ زینب رضی اللہ تتعالی عنہا نے لٹکا رکھی ہے کیونکہ جب وہ نماز میں کھڑے کھڑے
تھک جاتی ہیں تو اس سے لٹک جاتی ہیں۔ نبیﷺ نے فرمایا: ((لَا، حُلُّوهُ لِيُصَلِّ أَحَدُكُمْ نَشَاطَهُ، فَإِذَا فَتَرَ فَلْيَقْعُدُ)) ((أَخْرَجَةُ الْبُخَارِيِّ: 1150، وَمُسْلِمٍ:784)
’’نہیں! اسے کھول دو۔ تم میں سے ہر شخص ہشاش بشاش حالت میں نماز پڑھے، جب تھک جائے تو بیٹھ جائے۔‘‘
280۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ حولاء بنت تویت بن حبیب بن اسد بن عبدالعزی ان کے قریب سے اس وقت گزری جب رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف فرما تھے۔ میں نے عرض کی: (اللہ کے رسول !) یہ حولاء بنت تویت ہیں اور ان کے متعلق لوگوں کا خیال ہے کہ یہ رات بھر نہیں سوتیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((لا تَنَامُ اللَّيْلَ! خُذُوا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِيقُونَ، فَوَالل لَا يَسْأَمُ اللهُ حَتّٰى تَسْأَمُوا)) (أَخْرَجَةُ البُخَارِي: 1970، ومُسْلِمٍ:485)
’’(کیا) وہ رات بھر نہیں سوتی! (پھر فرمایا) اتنا عمل کرو جتنے کی تم طاقت رکھتے ہو۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالی (ثواب دیتے ہوئے) نہیں اکتائے گا جبکہ تم (عبادت کرنے سے) اکتا جاؤ گے۔“
توضیح و فوائد: دین پر عمل کرنے کا معتدل اور پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ فرض کو فرض سمجھا جائے اور منتحب کو مستحب کے درجے میں رکھا جائے۔ حرام سے سختی سے بچا جائے اور مباح کے بارے میں شدت پسندی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ جس طرح احکام الہی کے بارے میں تساہل ناجائز ہے، اسی طرح مستحبات کے بارے میں حد سے زیادہ سختی بھی درست نہیں جو چیز اللہ تعالیٰ نے ضروری قرار نہیں دی اسے لازم کر کے اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنا کار بے خیر ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب نہیں ہوتا۔
281۔سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((يَا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمْ مِنَ الْأَعْمَالِ مَا تُطِيقُونَ فَإِنَّ اللهَ لَا يَمَلُ حَتّٰى تَمَلُوا، وَإِنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللهِ مَا دُووِمَ عَلَيْهِ وَإِنْ قَلَّ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِيَّ: 5861، وَمُسْلِمٍ:782)
’’لوگو! عمل اتنے ہی کیا کرو جس قدر تم میں طاقت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں اکتا تا جب تک تم نہ تھک جاؤ۔ اللہ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جسے پابندی سے ہمیشہ کیا جائے، خواہ وہ کم ہی ہو۔ ‘‘
282۔سیدنا بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((عَلَيْكُمْ هَدْيًا قَاصِدًا، عَلَيْكُمْ هَدْيًا قَاصِدًا، عَلَيْكُمْ هَدْيًا قَاصِدًا، فَإِنَّهُ مَنْ يُشَادَّ هٰذَا الدِينَ يَغْلِبُهُ)) (أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ: 22963، وابن خزيمة: 1179، والحاكم314/1)
’’اعتدال کا راستہ لازم پکڑو۔ اعتدال اور میانہ روی کو اختیار کرو۔ اعتدال کا راستہ اختیار کرو، چنانچہ جو شخص دین کے ساتھ زور آزمائی کرتا ہے تو دین اسے بے بس کر دیتا ہے۔‘‘
283۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کے صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے نبی اکرمﷺ کی ازواج مطہرات سے آپ کی تنہائی کے معمولات کے بارے میں سوال کیا، پھر ان میں سے کسی نے کہا: میں عورتوں سے شادی نہیں کروں گا کسی نے کہا: میں گوشت نہیں کھاؤں گا، اور کسی نے کہا: میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ (آپ کو ان باتوں کا علم ہوا تو آپ نے لوگوں کو جمع کیا) اور اللہ رب العزت کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا:
((مَا بَالُ أَقْوَامٍ قَالُوا كَذَا وَكَذَا لٰكِنِّي أُصَلِّي وَأَنَامُ، وَأَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأَتَزَزَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنى.))
(أَخْرَجَهُ البُخَارِي: 5063، ومسلم: 1401 واللفظ له)
’’لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ انھوں نے اس اس طرح باتیں کی ہیں، حالانکہ میں تو نماز پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں، روزے رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی وہ مجھ سے نہیں۔‘‘
284۔ سیدنا عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو حکم دیتے تو انھی کاموں کا حکم دیتے جنھیں وہ بآسانی کر سکتے تھے۔ انھوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارا معاملہ آپ جیسا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کی اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمایا ہے۔ یہ سن کر آپ ﷺ اس قدر ناراض ہوئے کہ غصے کا اثر آپ کے چہرہ مبارک پر نمایاں تھا، پھر آپﷺ نے فرمایا: ((إِنَّ أَتْقَاكُمْ وَأَعْلَمُكُمْ بِاللهِ أَنَا)) (أخرجه البخاري:285)
’’میں تم سب سے زیادہ پرہیز گار اور تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو جاننے والا ہوں۔“
285۔سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:
((يَا عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرِوا بَلَغَنِي أَنَّكَ تَصُومُ النَّهَارَ، وَتَقُومُ اللَّيْلَ، فَلَا تَفْعَلْ، فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَظًّا وَلِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَظًّا، وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَظًّا، صُمْ، وَأَفْطِرُ. صُمْ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَذٰلِكَ صَوْمُ الدَّهْرِ))
’’عبدالله بن عمرو! مجھے خبر ملی ہے کہ تم روزانہ دن کا روزہ رکھتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو، ایسا مت کرو کیونکہ تم پر تمھارے جسم کا حصہ (ادا کرنا ضروری) ہے، تم پر تمھاری آنکھ کا حصہ (ادا کرنا ضروری) ہے اور تم پر تمھاری بیوی کا حصہ (ادا کرنا ضروری) ہے۔ تم روزے رکھو اور ترک بھی کرو۔ ہر مہینے میں سے تین دن کے روزے رکھ لیا کرو۔ یہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہیں۔“
میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں اس سے زیادہ روزے رکھنے) کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ((قَصُمْ صَوْمَ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ صُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرُ يَوْمًا)) (أخرجه البخاري:1978، ومسلم: 1959 واللفظ له)
’’پھر تم داور لیام کے روزوں کی طرح روزے رکھو، ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن چھوڑ دو۔))
286۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
((رَدَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَلٰى عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونِ التَّبَتُّلَ، وَلَوْ أَذِنَ لَهُ لَاخَتَصَيْنَا)) (أخرجه الرخاري: 5073، 5074، و مسلم: 1402)
’’رسول اللہ ﷺ نے سیدنا عثمان بن مظعون بھی اللہ کی طرف سے نکاح کو ترک کر کے عبادت میں مشغولیت (کے ارادے) کو مسترد کر دیا۔ اگر آپ انھیں اجازت دے دیتے تو ہم خصی ہو جاتے۔‘‘
287۔ سیدنا عروہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالی عنہ کی بیوی جن کا نام میرے خیال میں خولہ بنت حکیم تھا۔ وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس پراگندہ حالت میں آئیں۔ سیدہ عائشہ نے ان سے پوچھا: تم نے یہ اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے؟ انھوں نے کہا: میرا خاوند رات بھر قیام کرتا ہے اور دن کو روزے رکھتا ہے، اسی اثنا میں نبی اکرم ﷺ تشریف لائے، سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے یہ بات آپ سے ذکر کی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے عثمان بن مظعون سے ملاقات کی اور کہا:
((يَا عُثْمَانُ ! إِنَّ الرَّهْبَانِيَةً لَمْ تُكْتَبْ عَلَيْنَا، أَفَمَا لَكَ فِيَّ أَسْوَةٌ؟ فَوَاللَّهِ إِنِّي أخْشَاكُمْ لِلهِ وَأَحْفَظُكُمْ لِحْدُودِهِ)) (أخرجه أحمد:25893)
’’عثمان! دنیا کی نعمتوں سے کنارہ کشی اور اہل و عیال سے علیحد گی ہم پر فرض نہیں ہے۔ کیا تمھارے لیے میری بہترین زندگی نمونہ نہیں ہے؟ اللہ کی قسم! یقینًا میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کی حدود کی حفاظت کرنے والا ہوں۔‘‘
توضیح و فوائد: طاقت سے بڑھ کر چند دن عبادت کرنا اور پھر اکتا کر فرائض بھی چھوڑ بیٹھنا اللہ تعالی کو قطعا پسند نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اعتدال پسندی کا حکم دیا ہے، غلو سے بچنے اور سیرت نبوی سے ہٹ کر نیکی کرنے سے منع کیا ہے۔ مذکورہ بالا احادیث کا خلاصہ یہی ہے کہ عمل بے شک تھوڑا ہو لیکن اگر اس پر پیشگی ہے اور وہ سنت کے مطابق ہے تو اس کی بڑی قدر و قیمت ہے۔ نبی ﷺ کے طریقے اور سیرت سے ہٹ کر نیکی کی راہ تلاش کرنا اور رسول اللہﷺ سے زیادہ نیک بننے کی کوشش کرنا نیکی نہیں گمراہی ہے۔ شیطان یہ دھوکا دینے کی کوشش کرتا ہے کہ تم تو بڑے گناہ گار ہوں تمھیں زیادہ سے زیادہ نیکی کرنی چاہیے۔ رسول اکرم ﷺنے خبردار کر دیا کہ میرا اسوہ حسنہ ہی کافی ہے۔ اس سے آگے بڑھنے کی کوشش چاہے نیکی کی نیت سے ہو، صریحا گمراہی ہے۔
………………