دین سے عدم التفات اور دنیاوی میلانات
﴿یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِۙ﴾ (الانفطار:6)
دنیا کی حقیقت سے متعلق بات ہو رہی تھی کہ دنیا کی حقیقت سے ہر باشعور انسان آگاہ ہے، شرقی اور منقلی دلائل سے نہ سہی، مگر اپنے مشاہدے کے ذریعے ضرور جانتا ہے کہ دنیا عارضی اور فانی ہے۔
اور عینی مشاہدہ کسی چیز کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے اک بہت بڑی دلیل ہوتا ہے، جتی کہ عقلی دلیل سے بھی بڑی دلیل ہوتا ہے، کیونکہ عینی مشاہدہ حاصل ہونے کے بعد انسان عموماً عقلی دلیل کو جھٹلا دیتا ہے، مگر عینی مشاہدے کو نہیں جھٹلاتا اگر چہ سب سے بڑی دلیل کہ جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا وہ شرعی دلیل ہوتی ہے جو کہ وحی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔
تو تعجب اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ انسان دنیا کی بے ثباتی اور اس کے عارضی اور فانی ہونے کو اپنے معنی مشاہدے کے ذریعے جان لینے کے باوجود اس کی طرف اس طرح کھچا چلا جاتا ہے، جیسے لوہا مقناطیس کی طرف۔
اور پھر تعجب در تعجب مسلمان پر کہ جسے عینی مشاہدے کے ساتھ ساتھ شرعی دلائل کے ذریعے بھی یہ بات معلوم ہے بلکہ اس کے ایمان کا حصہ ہے، مگر وہ پھر بھی دنیا کی رنگینیوں میں کھویا ہوا ہے۔
تو اس کا ایک بہت بڑا سبب وہی ہے کہ جس کا گذشتہ جمعے ذکر ہوا اور وہ ہے دنیا کی کشش، دنیا کا پر رونق اور مزین ہونا۔ دنیا جو انسان کے لیے بطور امتحان مزین بنائی گئی ہے،
اگر مزین نہ بنائی گئی ہوتی تو انسان بہت حد تک اس سے اجتناب کر سکتا تھا۔ کیونکہ انسان کی فطری کمزوری ہے کہ وہ پر کشش چیزوں کی طرف لپکتا ہے اور اگر کشش نہ ہو تو آدمی زیادہ توجہ نہیں کرتا ، جیسا کہ حدیث میں ہے ایک عورت نے عرض کیا:
((يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا لَمْ تَتَزَيَّنَ لِزَوْجِهَا صَلِفَتْ عِنْدَهُ)) (النسائي ، كتاب الزينة من السنن: 5142)
’’ایک عورت نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسولﷺ! عورت اگر زینت اختیار نہ کرے، بناؤ سنگھار نہ کرے تو خاوند پر گراں گزرتی ہے یعنی وہ اس کی طرف التفات نہیں کرتا ۔‘‘
اس حدیث میں اگر چہ کچھ ضعف ہے مگر بات حقیقت کے قریب تر ہے۔ تو ایسے ہی دنیا ہے، دنیا میں جب تک کشش ہے انسان اس کی طرف لپکتا رہے گا۔ اسی طرح انسان کے بھٹکنے، بہکنے اور دنیا کی دلدل میں پھنستے چلے جانے کے دیگر بہت سے اسباب ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر کریں گے، وہ اسباب کوئی پوشیدہ اور چھپے ہوئے نہیں کہ کسی کو معلوم ہوں یا صرف چند لوگوں کو معلوم ہوں، بلکہ وہ سب کو معلوم ہیں مگر پھر وہی بات کہ ان میں مبتلا ہو جانا بھی انسان کی اک فطری کمزوری ہے۔
مثلاً: ایک ہے مال و دولت اور عہدہ و منصب اور مقام و مرتبے کا حرص اور لائی۔ انسان مال و دولت کے حصول کی دوڑ میں کسی طرح سرتا پا مصروف ہے، آپ اس کے مناظر صبح و شام دیکھتے ہیں، کس طرح لوگ اس کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے ہیں، ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، ہر طرف گہما کبھی ہوتی ہے۔
جدھر دیکھیں لوگوں کا ہجوم ہی ہجوم ہوتا ہے۔ اس میں یقینا ایک غرض گزر بسر کے لیے رزق کی تلاش کی بھی ہوتی ہے۔ مگر کوئی شخص محض اپنی ضرورت کی حد تک سعی و جہد کرنے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ مال جمع کرنے کی کوشش میں پریشان رہتا ہے اور جان جوکھوں میں ڈال کر اس کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔
اسی طرح معاشرے میں کوئی مقام حاصل کرنے کے لیے بھی وہ اسی طرح بھاگ دوڑ کرتا ہے، جیسے کوئی وزیر اور مشیر بننے کے لیے، چوہدری بننے اور پھر اپنی چودھراہٹ کو ثابت کرنے اور قائم رکھنے کے لیے اسے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، کیا کیا ہیرا پھیریاں ، ظلم و زیادتیاں، سازشیں اور اکھاڑ پچھاڑ کرنی پڑتی ہے، ہم معاشرے میں ہر روز اس کے مناظر دیکھتے ہیں۔
اور انسان کی یہ خواہش اور کوشش اس کے لیے کس قدر تباہ کن ہوتی ہے، شاید لوگوں کو اس کا اندازہ نہیں ہے، حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِي غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَى الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِيْنِهِ)) (ترمذي ، كتاب الزهد:2386)
’’ دو بھوکے بھیڑیئے بکریوں کے ریوڑ میں اگر چھوڑے گئے ہوں تو وہ اتنی تباہی نہیں مچاتے جتنی آدمی کی مال و جاہ اور چودھراہٹ کی حرص و لالچ اس کے دین کو تباہ کرتی ہے۔‘‘
اب اندازہ کریں مال و دولت اور عہدہ و منصب اور چودھراہٹ کے حرص و لالچ اور کوشش سے آدمی کے دین کو کس قدر شدید نقصان پہنچتا ہے، وہ سمجھانے کے لیے آپ ﷺنے ایک نہیں دو بھیڑیوں کا ذکر فرمایا اور وہ بھی بھوکے۔ اور یہ ابھی صرف خواہش اور کوشش کے نتیجے میں ہے، جبکہ اگر یہ دونوں چیزیں واقعہ حاصل ہو جا ئیں تو پھر کتنا نقصان ہوگا، اندازہ کرنا مشکل نہیں رہا۔
مال کی حرص آدمی کو حرام کھانے پر مجبوری کر دیتی ہے اور چودھراہٹ کی حرص ، حکمرانی کا شوق، وزارت عظمی کی خواہش آدمی کو کسی حد تک گرا دیتی ہے، آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں، پھر لڑائی جھگڑے ہوں، توڑ پھوڑ ہو قتل و غارت ہو، کاروبار تباہ و برباد ہوں، جانے آنے والوں کو دقت و دشواری ہو، کسی چیز کی پرواہ نہیں رہتی ، صرف چند لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کی خواہش کی تکمیل کے لیے قربانی کے بکرے بننے کے لیے تیار ہوں۔
اور یہ کسی ایک آدمی کی بات نہیں بلکہ ہمارے مسلم معاشرے کا عمومی رجحان ہے۔ مگر افسوس کہ یہ باتیں ہمیں سمجھ میں نہیں آتیں، کیونکہ ہم انہیں اپنے جذبات اور اپنی پسند ناپسند کی عینک سے دیکھتے ہیں جبکہ ان کا تعلق عقیدہ و ایمان سے ہے۔ کوئی مانے نہ مانے، پسند کرے نہ کرے، مگر حقیقت یہی ہے، اس طرز عمل سے دین کی تباہی وبر بادی لازمی اور یقینی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ دین کی سلامتی کی فکر کس کو ہے؟ اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں تو صاف صاف دکھائی دے گا کہ ہم اپنے دین کے لیے فکر مند ہیں یا دنیا کے پیچھے بھاگے جا رہے ہیں دنیا کی محبت اور اس کے لالچ نے انسان کے دل و دماغ پر غفلت کا ایسا دبیز پردہ ڈال رکھا ہے کہ ہوش میں آنے کے کوئی آثار ہی دکھائی نہیں دیتے ۔ قرآن پاک نے اس حقیقت کو ایک ایسے پیرائے میں بیان کیا ہے کہ اگر آدمی کو اپنی آخرت کی فکر ہو تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، فرمایا: ﴿اَلهٰكُمُ التَّكَاثُرُ حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِر) (التكاثر:2)
’’تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے، حتی کہ اس فکر میں تم لب گور تک پہنچ جاتے ہو۔
کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ اس آیت کریمہ میں جن بد نصیب اور بد بخت لوگوں کی بات ہو رہی ہے، کیا ہمارا نام بھی تو کہیں ان کی فہرست میں شامل نہیں؟ آپ اس بدبختی کی شدت کو شاید سمجھے نہیں ، مطلب یہ ہے کہ دنیا کے حصول میں تم لوگ اس قدر مگن ہو کہ موت آنے تک تمہیں ہوش نہیں آسکتی، یعنی اس بدبختی کی حالت میں تمہیں موت آئے گی کہ تم دنیا کے پیچھے بھاگ رہے ہو گے اور موت آئے تمہیں دبوچ لے گی۔
اللہ تعالی ہم سب کو ایسی بدبختی سے محفوظ فرمائے ، آمین کثرت مال کی ہوس انسان کے دین کے لیے تباہی کا باعث ہے، اس پر قرآن وحدیث میں بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، مگر دولت میں کشش ہی اتنی ہے کہ آدمی بات سنی ان سنی کر دیتا ہے، یا بات مانتا تو ہے مگر اس سے بچنے کے لیے عملی قدم کوئی نہیں اٹھاتا۔ اسلام میں دولت کمانے کے آداب اور حدود کیا ہیں اور زیادہ سے زیادہ دنیا حاصل کرنے کی کوشش انسان کے لیے کسی طرح نقصان دہ ہے، یہ ایک الگ موضوع ہے۔ تاہم اگر چہ انسان شرعی آداب اور حدود کے اندر رہتے ہوئے بھی دولت کماتا ہو، پھر بھی احتیاط کا راستہ یہی ہے کہ بقدر ضرورت دنیا کمائے۔ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺکو یہی پسند ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ اللهَ لَيَحْمِي عَبْدَهُ الْمُؤْمِنَ مِنَ الدُّنْيَا وَهُوَ يُحِبُّهُ، كَمَا تَحْمُونَ مَرِيضَكُمُ الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ تَخَافُونَ عَلَيْهِ))(صحيح الجامع: 1814)
’’اللہ تعالی اپنے مؤمن بندے کو دنیا سے بچاتا ہے جبکہ وہ دنیا کو پسند کرتا ہے، جیسا کہ تم اپنے بیماروں کو کھانے پینے سے بچاتے ہو اس کی بیماری کے بڑھنے کے ڈرے۔‘‘
اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو دنیا سے کس طرح بچاتے ہیں؟ اسے دنیا کی رونق، زینت اور کشش سے بچا کر، اس کی نظروں میں دنیا کی حیثیت کم کر دیتے ہیں، آخرت کی فکر اس کے نزدیک اس کا سب سے بڑا مسئلہ بنا دیتے ہیں، پھر دنیا داروں کو دیکھ کر اس کا دل بیمار نہیں ہوتا ، اس کی رائیں نہیں چلتیں، وہ دنیا کے پیچھے بھاگئے والوں کے ساتھ بھاگ کھڑا نہیں ہوتا ، بلکہ سکون ، اطمینان اور وقار کے ساتھ اپنی آخرت کی فکر میں لگا رہتا ہے۔
اسی طرح آپ ﷺ نے اپنے لیے اور اپنی آل کے لیے اللہ تعالی سے اتنا ہی رزق مانگا جو بقدر کفایت ہو، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے دعا فرمائی کہ: ((اللّٰهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوتًا)) (مسلم ، کتاب الزهد: 1055)
’’اے اللہ ! آل محمد کو اتنا ہی رزق عطا فرما جو بقدر حاجت و ضرورت ہو۔‘‘
یعنی زیادہ نہ ہو، مگر ضرورت سے کم بھی نہ ہو۔
اسی طرح ہر مسلمان کے لیے بھی یہی دعاء فرمائی، فرمایا:
((اَللّٰهُم مَنْ آمَنَ بِكَ وَشَهِدَ أَنِّي رَسُولُكَ ، فَحَبِّبْ إِلَيْهِ لِقَاءَكَ، وَسَهِّلْ عَلَيْهِ قَضَاءَ كَ ، وَأَقْلِلْ لَهُ مِنَ الدُّنْيَا)) (ابن حبان:208)
’’اے اللہ ! جو شخص مجھ پر ایمان لایا، اور گواہی دی کہ میں تیرا رسول ہوں، اپنی ملاقات اس کے لیے محبوب بنا دے، اپنا فیصلہ اس کے لیے آسان فرما دے اور اس کی دنیا میں کی فرمادے۔‘‘
دنیا کی محبت اور اللہ تعالی سے ملاقات کی محبت، یہ دو متضاد چیزیں ہیں، یکجا نہیں ہو سکتیں، ہاں اگر کوئی شخص دنیا کو اللہ تعالی کے قرب اور اس کی رضا بنانے کے لیے حاصل کرتا ہے تو تب اور بات ہے، مگر ایسی صورت میں پھر دنیا بنکوں میں جمع نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالی کی راہ میں خرچ ہوتی ہے۔
کثرت دولت کی ہوس کے بہت سے نقصانات میں سے ایک یہ ہے کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ آدمی بہت زیادہ مال و دولت جمع کرنے کی کوشش بھی کرتا ہوا اور فرائض کی ادائیگی کا خیال بھی رکھتا ہو، بالخصوص نماز با جماعت کی ادائیگی کا خیال بھی رکھتا ہو۔ ہم اپنی جاب اور اپنے کاروبار میں نماز با جماعت کا اہتمام نہ کر سکیں اور پھر سمجھیں کہ وہ کاروبار ہمارے لیے خیر و برکت کا باعث ہوگا؟ یہ بہت بڑا دھوکہ ہے۔ اور پھر اس دولت پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا اور قیامت کے دن اس نعمت کے بارے میں کیے گئے سوال کے لیے تیار رہنا اور بھی مشکل ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں۔
((خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ذَاتَ يَوْمٍ أَوْ لَيْلَةٍ فَإِذَا هُوَ بِأَبِي بَكْرٍ وَعُمَر))
’’ایک روز آپ ﷺ با ہر نکلے تو ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی کو دیکھا‘‘
((فَقَالَ مَا أَخْرَجَكُمَا مِنْ بُيُوتِكُمَا هَذِهِ السَّاعَةَ))
’’اور دریافت فرمایا کہ اس وقت تم دونوں کو گھر سے باہر کیا چیز لے آئی ہے؟‘‘
((قَالَا الْجُوعُ))
’’تو انھوں نے کہا کہ بھوک گھر سے باہر لے آئی ہے۔‘‘
((قَالَ وَأَنَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَاَخْرَجَنِي الَّذِي أَخْرَجَكُمَا قُومُوا))
’’تو آپ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے بھی وہی چیز گھر سے باہر لائی ہے جو تم دونوں کو باہر لائی ہے، چلو ا ٹھو!‘‘
((فَقَامُوا مَعَهُ فَأَتَى رَجُلًا مِّنَ الْأَنْصَارِ فَإِذَا هُوَ لَيْسَ فِي بَيْتِهِ))
’’پس وہ آپﷺ کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوئے ، آپ کا ہم ایک انصاری کے گھر پر تشریف لائے ، اس وقت وہ اپنے گھر میں نہیں تھا۔‘‘
((فَلَمَّا رَأَتْهُ الْمَرْأَةُ قَالَتْ مَرْحَبًا وَأَهْلا))
’’جب اس انصاری صحابی کی عورت نے آپ سر قیام کو دیکھا تو کہا: خوش آمدید‘‘
((فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ أَيْنَ فُلَانٌ؟))
’’تو آپ ﷺنے اس سے فرمایا: فلاں کہاں ہے؟ (یعنی اس کا خاوند)‘‘
((قَالَتْ ذَهَبَ يَسْتَعْذِبُ لَنَا مِنَ الْمَاءِ))
’’تو اس کی بیوی نے کہا کہ وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گیا ہے ۔‘‘
((إِذْ جَاءَ الْأَنْصَارِيُّ))
’’اتنے میں وہ انصاری آگیا۔‘‘
((فَنَظَرَ إِلٰى رَسُولِ اللهِ وَصَاحِبَيْهِ ثُمَّ قَالَ الْحَمْدُ لِلهِ مَا أَحَدٌ اليوم أكْرَمَ أَضْيَافًا مِّنِّى))
’’اس نے آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے دونوں ساتھیوں کو دیکھا تو کہا: الحمد لله آج تو میرے پاس ایسے معزز مہمان ہیں جو کسی اور کے پاس نہیں ہیں۔‘‘
((قَالَ فَانْطَلَقَ فَجَاءَهُمْ بِعِذْقٍ فِيهِ بُسْرٌ وَتَمْرٌ وَرُطَبٌ فَقَالَ كُلُوا مِنْ هٰذِهِ))
’’پھر گیا اور کھجور کا خوشہ لے کر آیا جس میں نیم پختہ ، سوکھی اور تازہ کھجور میں تھیں، اور کہا: اس میں سے کھائیے !‘‘
((وَأَخَذَ الْمَدِيَةَ))
’’پھر اس نے چھری لی ۔‘‘
((فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ إِيَّاكَ وَالْحَلُوبَ))
’’تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا: دیکھنا ، دودھ والی بکری نہ ہو!‘‘
((فَذَبَحَ لَهُمْ فَأَكَلُوا مِنَ الشَّاةِ وَمِنْ ذٰلِكَ الْعِذْقِ وَشَرِبُوا))
’’پس اُس نے ان کے لیے ایک بکری ذبح کی ، تو انھوں نے اس کا گوشت کھایا اور کھجور میں بھی کھائیں اور پانی پیا۔‘‘
((فَلَمَّا أَنْ شَبِعُوا وَرَوُوا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ لَا بِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتُسْأَلُنَّ عَنْ هٰذَا النَّعِيمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُيُوتِكُمُ الْجُوعُ ثُمَّ لَمْ تَرْجِعُوا حَتَّى أَصَابَكُمْ هَذَا النَّعِيْمُ)) (مسلم: ، كتاب الاشربة: 2038)
’’جب کھا پی کر سیر ہو گئے تو آپ ﷺ نے ابوبکر و عمر سے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قیامت کے دن تم سے اس نعمت کا سوال ہوگا، تم اپنے گھروں سے بھوک کے مارے نکلے ، پھر نہیں لوٹے یہاں تک کہ تم کو یہ نعمت ملی ۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے کہ جب آیت
﴿ثُمَّ لَتُسْـَٔلُنَّ یَوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ۠۸﴾ (التکاثر:8) نازل ہوئی، تو حضرت زبیر بن عوام بھی ان نے کہا:((قَالَ الزبير: وَأَيُّ نَعِيمٍ ُسْأَلُ عَنْهُ، وَإِنَّمَا هُوَ الْأَسْوَدَانِ التَّمْرُ وَالْمَاءُ))
’’تو حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ کونسی نعمتوں کا ہم سے سوال ہوگا وہ تو محض دو سیاہ چیزیں ہیں: کھجور اور پانی ۔‘‘
((قَالَ: أَمَا إِنَّهُ سَيَكُونُ)) (ابن ماجة ، كتاب الزهد:59)
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: وہ تو بہر حال ہو کر رہے گا ۔‘‘
نعمتوں کے متعلق سوال کے حوالے سے حتی کہ چھوٹی سے چھوٹی نعمت کے بارے میں بھی سوال کی حمیت و قطعیت کا انداز و ایک دوسری حدیث سے بھی لگائیے ، حدیث میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
((قَالَ رَسُولُ اللَّهِ إِنَّ أَوَّلَ مَا يُسْأَلُ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَعْنِي الْعَبْدَ مِنَ النَّعِيمِ أَنْ يُقَالَ لَهُ أَلَمْ نُصِحَّ لَكَ جِسْمَكَ وَنُرْوِيَكَ مِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ)) (ترمذي ، كتاب تفسير القرآن:3358)
’’آپ ﷺنے فرمایا: سب سے پہلے کسی بندے سے نعمتوں کے بارے میں جو سوال ہوگا وہ یہ کہ اس سے کہا جائے گا کہ ہم نے تمھارے لیے تمھارے جسم کو تندرست نہیں بنایا تھا ، اور تمھیں ٹھنڈے پانی سے سیراب نہیں کیا تھا ؟‘‘
تو جب ایک سادہ پانی کے بارے میں سوال ہوگا اور یہ جو رنگا رنگ کی نعمتوں سے ہم محفوظ ہوتے ہیں، فرجیں، انواع و اقسام کے ماکولات و مشروبات سے بھری پڑی ہوتی ہیں، اس طرح کی جائز اور حلال نعمتوں کا جواب دینا مشکل ہوگا، چہ جائیکہ سود پر لی گئی گاڑیوں اور مکانات کے معاملات کو نظر انداز کر دیا جائے ، ان کا تو معاملہ ہی الگ ہوگا۔ اور پھر دولت کی فراوانی سے ایک ڈر اور خطرہ یہ بھی موجود رہتا ہے کہ امتحان سے بڑھ کر کہیں استدراج کا معاملہ نہ ہو۔
امتحان تو یہ ہے جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا:
﴿ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ ۖ۫ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُ﴾(النمل:40)
’’ یہ میرے رب کا فضل ہے تا کہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکرگزاری کرتا ہوں یا ناشکری !‘‘
مگر استدراج یہ ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
((إِذَا رَأَيْتَ اللهَ تَعَالَى يُعْطِي الْعَبْدَ مِنَ الدُّنْيَا مَا يُحِبُّ وَهُوَ مُقِيمٌ عَلٰى مَعَاصِيْهِ، فَإِنَّمَا ذَلِكَ مِنْهُ إِسْتِدْرَاجٌ)) (صحيح الجامع:561)
’’جب دیکھو کہ اللہ تعالی کسی بندے کو دنیا میں سے اس کی پسند کی چیزیں دے رہا ہے اُس کے گناہوں پر جمے رہنے کے باوجود ، تو جان لو کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے استدراج اور ڈھیل ہے ۔‘‘
تو دنیا کی بھول بھلیوں میں گم ہونے اور اس کی دلدل میں پھنسے چلے جانے کے اسباب میں سے ایک دنیا کی محبت بھی ہے۔
اسی طرح ایک سبب اللہ تعالی کی رحمت کا غلط مفہوم سمجھ لینا بھی ہے۔
جو لوگ اللہ تعالی کی رحمت کو بے عملی کی دلیل بنا لیتے ہیں وہ دراصل اللہ تعالی کی بہت سی صفات کا انکار کرتے ہیں، اگر اللہ تعالی کے غفور و رحیم ہونے کا یہ مطلب ہے کہ فرائض ادا نہ کرو اور حرام سے اجتناب نہ کرو، تو پھر اللہ تعالی کے رزاق ہونے کا کیا مطلب ہوگا ؟
یہی نا کہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے اور محنت نہ کرے۔ اللہ تعالی ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور اس پر عمل کی توفیق بخشے ۔ آمین وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
………………………