دولت کے پجاری کی پہچان

393۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نبیﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

((تَعِسَ عَبْدُ الدِّينَارِ، وَعَبْدُ الدِّرْهَمِ، وَعَبْدُ الخَمِيصَةِ، إِنْ أُعْطِيَ رَضِيَ، وَإِنْ لَمْ يُعْطَ سَخِطَ، تَعِسَ وَانْتَكَسَ، وَإِذَا شِيكَ فَلاَ انْتَقَشَ، طُوبَى لِعَبْدٍ آخِذٍ بِعِنَانِ فَرَسِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَشْعَثَ رَأْسُهُ، مُغْبَرَّةٍ قَدَمَاهُ، إِنْ كَانَ فِي الحِرَاسَةِ، كَانَ فِي الحِرَاسَةِ، وَإِنْ كَانَ فِي السَّاقَةِ كَانَ فِي السَّاقَةِ، إِنِ اسْتَأْذَنَ لَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، وَإِنْ شَفَعَ لَمْ يُشَفَّعْ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي: 2887)

’’دینار و درہم اور منقش چادر کا بندہ ہلاک ہو گیا، اگر اسے یہ چیزیں مل جائیں تو راضی نہ ملیں تو ناراض۔ اللہ کرے یہ ہلاک ہو جائے۔ سرنگوں ہو کر گر پڑے۔ اگر اسے کاٹنا چبھے تو کوئی نہ نکالے۔ اور اس شخص کے لیے خوشخبری ہے جس نے جہاد کے لیے گھوڑے کی باگ پکڑی ہے۔ اس کا سر پراگندہ اور پاؤں خاک آلود ہیں۔ اگر وہ پاسبان ہے تو پاسبانی کرے اور اگر وہ شکر کے پیچھے حفاظت پر مامور ہو تو لشکر کے پیچھے رہے۔ اگر وہ (جانے کی) اجازت مانگے تو اجازت نہ ملے اور اگر وہ کسی کی سفارش کرے تو قبول نہ کی جائے۔‘‘

توضیح و فوائد:  مطلب یہ ہے کہ دین سے وابستگی اور وفاداری کا معیار مال و دولت اور پروٹوکول نہیں ہونا چاہیے بلکہ اللہ کی رضا ہی مقصود ہونی چاہیے۔ جو شخص مال و دولت اور دنیادی شان و شوکت کی طمع میں دین سے وابستگی رکھے گا وہ دنیا و آخرت میں ذلیل ورسوا ہو گا۔

394۔سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ((مَنْ كَانَتِ الدُّنْيَا هَمَّهُ، فَرَقَ الله عَلَيْهِ أَمْرَهُ، وَجَعَلَ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، وَلَمْ يَأْتِهِ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا مَا كُتِبَ لَهُ، وَمَنْ كَالَتِ الْآخِرَةُ نِيَّتَهُ، جَمَعَ الله لَهُ أَمْرَهُ، وَجَعَلَ غِنَاهُ في قَلْبِهِ، وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ)) (أَخْرَجَهُ ابن ماجه: 4105)

’’جس شخص کا مقصود حصول دنیا ہو، اللہ تعالی اس کے کام بکھیر دیتا ہے اور اس کا فقر اس کی آنکھوں کے سامنے کر دیتا ہے اور اسے دنیا اتنی ہی ملتی ہے جتنی اس کے لیے لکھی گئی ہے۔ اور جس کی نیت آخرت کا حصول ہو، اللہ تعالیٰ اس کے کام مرتب کر دیتا ہے اور اس کے دل میں استغنا پیدا فرما دیتا ہے اور دنیا ذلیل ہو کر اس کے پاس آتی ہے۔“

395۔ سیدنا کعب بن مالک انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ((مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِي غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَى الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِينِهِ)) (أَخْرَجَة أحمد: 15784، 15794، والترمذي: 2376، وابن أبي شيبة:241/3، وابن حبان:3228، والطبراني في الكبير:189/19،والدارمي:304/2، والبغوي في شرح السنة:4054)

’’دو بھوکے بھیڑیے جنھیں بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جائے، وہ (بکریوں کو) اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا نقصان آدمی کے مال اور عزت و شرف کی حرص و ہوس اس کے دین کو پہنچاتی ہے۔‘‘

توضیح و فوائد: مال و دولت کا حصول اور اس کے لیے محنت و کوشش نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے لیکن زندگی کا مقصد ہی محض مال و دولت بٹورنا بنا لیا جائے تو یہ عمل مذموم ہے۔ جس آدمی کو یہ ہوس لگ جائے وہ زندگی بھر بھوکا اور فقیر ہی رہتا ہے اور دولت کی ہوس اس کا دین بھی برباد کر دیتی ہے۔

396۔سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ، وَرُزِقَ كَفَافًا، وَقَنَّعَهُ الله بِمَا آتَاهُ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ: 1054)

’’وہ انسان کامیاب ہو گیا جس نے اسلام قبول کیا اور اسے اتنی روزی ملی جو اس کے گزارے کے لیے کافی ہو اور اللہ تعالیٰ نے اسے جو کچھ دیا اس پر راضی رہنے کی توفیق بخشی۔“

397۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے اس آیت: ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللهَ عَلٰى حَرْفٍ) (الحج (11: 22)

’’بعض لوگ ایسے ہیں جو کنارے (شک) پر عبادت کرتے ہیں۔‘‘ متعلق فرمایا: کوئی آدمی مدینہ طیبہ آتا، اپنے اسلام کا اظہار بھی کرتا، اگر اس کی بیوی بچہ جنم دیتی یا اس کی گھوڑی کا بچہ پیدا ہوتا تو کہتا:

(هُذَا دِین صالحٌ) ’’یہ دین ٹھیک ہے۔‘‘

اور اگر اس کی بیوی بچہ نہ جنتی اور نہ گھوڑی ہی کچھ پیدا کرتی تو کہتا:

((هذَا دِينُ سُوءٍ)) ’’یہ دین برا ہے۔‘‘  (أَخْرَجَةُ البُخَارِي:4742)

توضیح و فوائد:  مالی مفاد کے لیے دین سے وابستگی بہت کمزور نوعیت کا تعلق ہے۔ نو مسلموں کے بارے میں تو یہ تعلق ن شریعت نے گوارا کیا ہے اور اسے دین پر پکا کرنے کے لیے اس پر خرچ کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ  وہ جہنم سے بچ جائیں لیکن زندگی بھر محض دولت اندوزی کی بنیاد پر دین سے تعلق رکھنے والے کے لیے بربادی لازم ہے۔ راحت اور آسانی کی حالت میں دینی احکام مانا اور مشکل وقت میں طرح طرح کی باتیں بنانا اور شکوک و شبہات کا شکار ہونا اہل ایمان کا نہیں منافقین کا شیوہ ہے۔

398۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ فِتَنَّا لَقِطْعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:118 )

’’ان فتنوں سے پہلے پہلے جو تاریک رات کے حصوں کی طرح چھا جانے والے) ہوں گے، (نیک) اعمال کرنے میں جلدی کرو۔ ان فتنوں میں آدمی صبح کو مومن ہو گا تو شام کو کافر ہو جائے گا یا شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کافر ہو جائے گا، دنیا کے حقیر سامان کے بدلے دین کو بیچ دے گا۔‘‘

399۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ رِجَالٌ يَّخْتِلُونَ الدُّنْيَا بِالدِينِ، يَلْبَسُونَ لِلنَّاسِ جُلُودَ الضَّأْنِ مِنَ اللِّينِ، أَلْسِنَتُهُمْ أَحْلٰى مِنَ السُّكَرِ وَقُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الذِّئَابِ، يَقُولُ الله عَزَّ وَجَلَّ: أبِیَ تَغْتَرُّونَ أَمْ عَلَىَّ تَجْتَرِئُونَ؟ فَبِي حَلَقْتُ لَأَبْعَثَنَّ عَلٰى أُولَئِكَ مِنْهُمْ فِتْنَةً تَدَعُ الْحَلِيمَ مِنْهُمْ حَيْرَانًا)) (أَخْرَجَهُ الترمذي: 2404، بإسناد ضعيف.)

’’آخری دور میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دین کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنائیں گے۔ لوگوں کے لیے بھیٹروں کا چڑا پہنیں گے، بظاہر بڑے نرم خو ہوں گے، ان کی زبانیں، شکر سے زیادہ شیریں اور دل بھیڑیوں کے سے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:  کیا تم میری ڈھیل اور مہلت سے بے پروا اور بے خوف ہوتے ہو یا میرے سامنے جسارت کرتے ہو؟ مجھے اپنی قسم، میں ان پر انھی میں سے ایک فتنہ مسلط کروں گا جو ان کے بردباروں اور دانشمندوں کو بھی حیران کر دے گا۔‘‘

400۔سیدنا بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ أَحْسَابَ أَهْلِ الدُّنْيَا الَّذِي يَذْهَبُونَ إِلَيْهِ الْمَالَ)) (أخرجه أحمد: 22990، 23059، والنسائي: 3227، وفي الكبرى: 5335، وابن حبان:699، 700، والحاكم 163/2، والبيهقي في السنن:135/7، وفي الشعب:10310)

’’دنیا والوں کے نزدیک حسب صرف مال و دولت کا نام ہے جس کا وہ (رشتہ داری وغیرہ کے وقت) خیال رکھتے ہیں۔ ‘‘

توضیح و فوائد:  مطلب یہ ہے کہ دنیا مال و دولت کی پجاری ہے۔ ان کے ہاں عزت و شرف کا معیار دولت ہے، جس کے پاس چند ٹکے ہوں لوگ اسے سلام کرتے ہیں، خواہ اخلاق و کردار سے گرا ہوا ہی ہو۔

401۔ سیدنا عقبہ بن عامررضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺباہر تشریف لائے اور شہدائے احد کے لیے اس طرح دعا کی جس طرح میت کے لیے جنازے میں دعا کی جاتی ہے۔ پھر آپﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا:

((إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ وَإِنِّي، وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلٰى حَوْضِي الْآنَ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ، وَإِنِّي وَاللهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلٰكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا)) (أَخْرَجَهُ الْبُخَارِي: 6590، وَمُسْلِمِ:2296)

’’میں میرِ کارواں کے طور پر تم سے آگے جاؤں گا اور تم پر گواہ ہوں گا۔ اللہ کی قسم! میں اپنے حوض کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں۔ اور مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں یا زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں تمھارے متعلق اس بات سے خوف زدہ نہیں ہوں کہ تم میرے بعد شرک کرو گے، البتہ مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ تم دنیا کے لالچ میں مبتلا ہو کر ایک دوسرے سے حسد کرنے لگو گے۔“

402۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((ثَلَاثَةٌ لَّا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ:  رَجُلٌ عَلٰى فَضْلِ مَاءٍ بِالْفَلَاةِ يَمْنَعُهُ مِنَ ابْنِ السَّبِيلِ، وَرَجُلٌ بَايَعَ رَجُلًا بِسِلْعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ فَحَلَفَ لَهُ بِاللهِ لَأَخَذَهَا بِكَذَا وَكَذَا فَصَدَّقَهُ وَهُوَ عَلٰى غَيْرِ ذٰلِكَ، وَرَجُلٌ بَايَعَ إِمَامًا لَا يُبَايِعُهُ إِلَّا لِدُنْيَا فَإِنْ أَعْطَاهُ مِنْهَا وَفٰي وَإِنْ لَمْ يُعْطِهِ مِنْهَا لَمْ يَفِ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي: 2358، 2369،  2672، 7212، 7446، ومسلم:108)

’’تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا، نہ ان کی طرف (نظر رحمت سے) دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔ ایک وہ شخص جس کے پاس جنگل میں زیادہ پانی ہو، اس سے مسافروں کو منع کرتا ہے۔ دوسرا وہ شخص جو عصر کے بعد سامان فروخت کرتا ہے اور اللہ کی قسم اٹھا کر کہتا ہے کہ اسے اس سامان کی اتنی اتنی رقم مل رہی تھی، خریدار اسے سچا سمجھ کر اس سے مال خرید لیتا ہے، حالانکہ اسے اس کی اتنی رقم نہیں مل رہی تھی۔ تیسرا وہ جو امام سے صرف دنیا کے لیے بیعت کرتا ہے، اگر وہ اسے کچھ دے تو وفاداری کرتا ہے اگر نہ دے تو بیعت توڑ دیتا ہے۔“

توضیح و فوائد:  مسلمان حکمرانوں کی اطاعت فرماں برداری اور وفاداری دین کا حصہ ہے لیکن اگر کوئی شخص محض اپنے دنیاوی مفادات کی تکمیل کے لیے وفا داری کرتا ہے اور مفادات پورے نہ ہونے پر غداری کی راہ اختیار کرتا ہے تو ایسا شخص درج بالا چار سزاؤں کا مستحق ہے۔

403۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((يَقُولُ الله سُبْحَانَهُ يَا ابْنَ آدَمَ تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِي، أَمْلَأُ صَدْرَكَ غِنًى، وَأَسُدَّ فَقْرَكَ. وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ، مَلَاْتُ صَدْرَكَ شُغْلًا، وَلَمْ أَسُدَّ فَقَرَكَ)) ( أَخْرَجَهُ ابن ماجه:4107)

’’اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے:  آدم کے بیٹے! میری عبادت کے لیے فارغ ہو جا، میں تیرا سینہ مال داری سے بھر دوں گا اور تیرا فقر دور کر دوں گا۔ اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرے سینے کو مصروفیات سے بھر دوں گا اور تیرا فقر دور نہیں کروں گا۔‘‘