دعا کیسے کریں۔۔۔؟

اہم عناصر :
❄ دعا کی قبولیت کی صورتیں ❄ دعا کی قبولیت کی چند شرائط
❄ دعا کیسے کریں۔۔۔۔؟
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [البقرہ: 186]
ذی وقار سامعین!
یہ دنیا کی عارضی زندگی گزارتے ہوئے ہر انسان کی کچھ خواہشات ہوتی ہیں اور کچھ مشکلات ہوتی ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ میری یہ یہ خواہش پوری ہو جائے اور یہ یہ آرزو پایہ تکمیل تک پہنچ جائے ، اس کے لئے وہ بہت زیادہ کوشش کرتا ہے حتیٰ کہ وہ اس کوشش میں کبھی کبھی حلال و حرام کا خیال بھی نہیں رکھتا۔ اسی طرح وہ اپنی زندگی کی مشکلات کو دور کرنے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے ، وہ چاہتا ہے میری زندگی جو مشکلات آرہی ہیں وہ نہ آئیں یا جلد ختم ہو جائیں۔
جو دنیادار بندہ ہوتا ہے وہ خواہشات کو پورا کرنے کے لئے حلال و حرام کی تمیز بھول جاتا ہے اور جب اس کی زندگی میں مشکلات آجاتی ہیں تو وہ صبر اور استقامت اختیار کرنے کے بجائے اللّٰہ کا شکوہ کرتا ہے ، ناشکری کرتا ہے۔ جو حقیقی مومن اور مسلمان بندہ ہوتا ہے وہ خواہشات کو پورا کروانے کے لئے اور مشکلات کو دور کروانے کے لئے شریعت کا بتایا ہوا راستہ اختیار کرتا ہے۔ شریعت کا بتایا ہوا راستہ "دعا” والا راستہ ہے ، کہ حقیقی مومن اور مسلمان بندہ خواہشات کو پورا کرنے کے لیے اور مشکلات کو دور کرنے کے لئے اللہ سے دعا کرتا ہے کہ اللّٰہ میری یہ خواہش ہے ، یہ آرزو ہے اس کو اپنی رحمت سے پورا کردے اور اللّٰہ میری زندگی کی یہ یہ مشکلات ہیں ان کو اپنی رحمت سے دور کر کے مجھے سرخرو فرمادے۔ دعا ایک مومن اور مسلمان کا ہتھیار ہے ، حالات جیسے بھی ہوں اللہ سے دعا کرتے رہنا چاہئے۔کیونکہ دعا کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اس بات کا اندازہ درج ذیل احادیث سے لگایا جا سکتا ہے؛
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ شَيْءٌ أَكْرَمَ عَلَى اللَّهِ سُبْحَانَهُ مِنْ الدُّعَاءِ [ابن ماجہ: 3829 حسنہ الالبانی]
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے ، نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہاں دعا سے بڑھ کر کوئی چیز عزت والی نہیں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَسْأَلْ اللَّهَ يَغْضَبْ عَلَيْهِ [ترمذی: 3373 حسنہ الالبانی]
ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’ جو اللہ سے سوال نہیں کرتا ، اللہ اس سے ناراض اورناخوش ہوتاہے’۔
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم سب سے پہلے یہ سمجھیں گے کہ دعا کی قبولیت کی صورتیں اور اوقات کیا کیا ہیں اور دعا کرنی کیسے ہے؟
دعا کی قبولیت کی صورتیں
سب سے پہلے ہم یہ سمجھیں گے کہ دعا کی قبولیت کی صورتیں اور شکلیں کون کون سی ہیں۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَيْسَ فِيهَا إِثْمٌ وَلَا قَطِيعَةُ رَحِمٍ، إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ بِهَا إِحْدَى ثَلَاثٍ إِمَّا أَنْ تُعَجَّلَ لَهُ دَعْوَتُهُ، وَإِمَّا أَنْ يَدَّخِرَهَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ، وَإِمَّا أَنْ يَصْرِفَ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهَا”، قَالُوا: إِذًا نُكْثِرُ؟، قَالَ: اللَّهُ أَكْثَرُ. [مسند احمد: 11133إسناده جيد]
"حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جو مسلمان کوئی ایسی دعاء کرے جس میں گناہ یا قطع رحمی کا کوئی پہلو نہ ہو، اللہ اسے تین میں سے کوئی ایک چیز ضرور عطاء فرماتے ہیں، یا تو فوراً ہی اس کی دعاء قبول کرلی جاتی ہے، یا آخرت کے لئے ذخیرہ کرلی جاتی ہے، یا اس سے اس جیسی کوئی تکلیف دور کردی جاتی ہے، صحابہ نے عرض کیا اس طرح تو پھر ہم بہت کثرت کریں گے؟ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ اس سے بھی زیادہ کثرت والا ہے۔”
دُعا کی قبولیت کی چند شرائط
دعا کی قبولیت کی کئی شرائط ہیں، ان میں سے تین اہم شرائط پیشِ خدمت ہیں؛
1۔اخلاص: دعا کی قبولیت کے لئے سب سے اہم اور ضروری شرط یہ ہے کہ دعا کرنے والا اللہ تعالیٰ کو اپنا حقیقی معبود سمجھتے ہوئے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، غیر اللہ سے دعا نہ کرے۔ اللہ کے دَر کے علاوہ اور کے دَر پر اپنی جھولی نہ پھیلائے۔ خالق ِحقیقی کو چھوڑ کر مخلوق کے سامنے دست ِسوال دراز نہ کرے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے؛
فَادعُوا اللَّهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ [غافر: 14]
”تم خالص اسی کی عبادت کرتے ہوئے اسے پکارو۔”
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ”اس آیت سے ثابت ہوا کہ اخلاص قبولیت ِدعا کی لازمی شرط ہے۔” [فتح الباری:۱۱؍۹۵]
2۔ حرام سے اجتناب:
کسی شخص کا کوئی نیک عمل اس وقت تک قابل قبول نہیں جب تک کہ وہ حرام کاری اور حرام خوری سے مکمل اجتناب نہ کرے۔ لیکن اگر وہ حرام کا کھائے، حرام کا پئے، حرام کا پہنے تو اس شخص کے نیک اعمال ہرگز شرفِ قبولیت حاصل نہیں کرسکتے اور چونکہ دعا بھی ایک نیک عمل ہے،اس لئے یہ بھی اسی صورت میں قبول ہوگی جب دعا کرنے والا ہر حرام کام سے اجتناب کرے۔ بصورتِ دیگر اس کی دعا ہرگز قبولیت کے لائق نہیں جیساکہ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا؛
”ایک آدمی لمبا سفر طے کرتا ہے، اس کی حالت یہ ہے کہ اس کے بال بکھرے ہوئے ہیں، چہرہ خاک آلود ہے اور وہ (بیت اللہ پہنچ کر) ہاتھ پھیلا کر کہتا ہے: یاربّ! یاربّ! حالانکہ اس کا کھانا حرام کا ہے، اس کا پینا حرام کا ہے، اس کا لباس حرام کا ہے او رحرام سے اس کی پرورش ہوئی تو پھر اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو کیسے قبول کرے۔” [مسلم:1015]
3۔ عاجزی و انکساری:
دعا میں عاجزی و انکساری اختیار کرنے کا حکم قرآن مجید میں اس طرح دیا گیا کہ
ادعوا رَ‌بَّكُم تَضَرُّ‌عًا وَخُفيَةً [ الأعراف: 55]
”تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے بھی …”
اس آیت سے ثابت ہوا کہ دعا کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور خوب عاجزی کا اظہار کرنا چاہئے۔
دعا کیسے کریں۔۔۔۔؟
آج کل معاشرے میں اکثر لوگوں کا یہ شکوہ ہوتا ہے کہ ہماری دعا قبول نہیں ہوتی ، ہم دعائیں کرتے ہیں لیکن سنی نہیں جاتیں۔ آج کے خطبہ جمعہ میں یہ بات سمجھ لیں کہ قران مجید میں اللہ تعالی کا یہ وعدہ ہے کہ جو بھی بندہ مجھ سے دعا کرتا ہے میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں۔
❄ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [البقرہ: 186]
"اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بے شک میں قریب ہوں، میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، تو لازم ہے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ ہدایت پائیں۔”
❄ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ [غافر: 60]
"اور تمھارے رب نے فرمایا مجھے پکارو، میں تمھاری دعا قبول کروں گا۔ بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔”
❄ عَنْ سَلْمَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِنَّ رَبَّكُمْ تَبَارَكَ وَتَعَالَى حَيِيٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِي مِنْ عَبْدِهِ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا [ابوداؤد: 1488 صححہ الالبانی]
ترجمہ: سیدنا سلمان فارسی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ؛
” بلاشبہ تمہارا رب بہت حیا والا اور سخی ہے ۔ بندہ جب اس کی طرف اپنے ہاتھ اٹھاتا ہے تو اسے حیا آتی ہے کہ انہیں خالی لوٹا دے ۔ “
ان آیات اور حدیث سے پتہ چلا کہ اللہ تعالی سے جو بھی دعا کی جائے اللہ تعالی دعا کو قبول کرتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟ سب سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم دعا کرتے ہی نہیں، اللہ کے سامنے ہاتھ اٹھاتے ہی نہیں اور اگر ہم دعا کریں، اللہ کے سامنے ہاتھ اٹھائیں تو ہمیں دعا کرنا نہیں آتی۔ ہمیں یہ نہیں پتہ کہ دعا کرنی کیسے ہے۔ دعا کے آداب کیا ہیں۔ آج کے خطبہ جمعہ میں ہم یہ بات سمجھیں گے کہ دعا کرنی کیسے ہے؟ دعا مانگنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ اس حوالے سے چند باتیں پیشِ خدمت ہیں؛
اللّٰہ کی حمدوثنا اور آقا علیہ السلام پر درود:
دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے کے بعد سب سے پہلے اللہ تعالٰی کی حمد و ثناء بیان کریں ، اللہ تعالیٰ کی تعریف کریں۔ چاہے عربی زبان میں کریں ، یا اردو پنجابی میں۔پھر آقا علیہ السلام پر درود شریف پڑھیں اور درود شریف کثرت سے پڑھیں ، کیونکہ درود شریف کی برکت سے اللہ تعالیٰ دعا قبول فرماتے ہیں اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے کے بعد دعا میں اللہ کی حمد و ثنا اور آقا علیہ السلام پر درود پڑھنا بہت ضروری ہے۔صحابی رسول ، سیدنا فضالہ بن عبید بیان کرتے ہیں ؛
سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺرَجُلًا يَدْعُو فِي صَلَاتِهِ لَمْ يُمَجِّدْ اللَّهَ تَعَالَى وَلَمْ يُصَلِّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَجِلَ هَذَا ثُمَّ دَعَاهُ فَقَالَ لَهُ أَوْ لِغَيْرِهِ إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيَبْدَأْ بِتَمْجِيدِ رَبِّهِ جَلَّ وَعَزَّ وَالثَّنَاءِ عَلَيْهِ ثُمَّ يُصَلِّي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ يَدْعُو بَعْدُ بِمَا شَاءَ [أبوداؤد: 1481 صححہ الالبانی]
رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو نماز میں دعا کرتے ہوئے سنا کہ اس نے اللہ کی حمد و ثنا نہ کی تھی اور نہ نبی کریم ﷺ کے لیے درود پڑھا تھا ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اس نے جلدی کی ۔ “ پھر اس کو بلایا اور اسے یا کسی دوسرے سے فرمایا ” جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو پہلے اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرے ، پھر نبی کریم ﷺ کے لیے درود پڑھے ، اس کے بعد جو چاہے دعا کرے ۔ “
کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ کی تعریف میں وہ کلمات پڑھیں جو آقا علیہ السلام نے سکھائے ہیں اور جن کے بارے میں آقا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ یہ کلمات پڑھنے سے اللہ تعالیٰ دعا قبول فرمالیتے ہیں۔ چند کلمات ملاحظہ فرمائیں۔
❄عَنْ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعْوَةُ ذِي النُّونِ إِذْ دَعَا وَهُوَ فِي بَطْنِ الْحُوتِ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنْ الظَّالِمِينَ فَإِنَّهُ لَمْ يَدْعُ بِهَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَابَ اللَّهُ لَهُ [ترمذی: 3505 صححہ الالبانی] ترجمہ: سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’ ذوالنون (یونس علیہ السلام ) کی دعا جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے دوران کی تھی وہ یہ تھی : لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنْ الظَّالِمِينَ کیوں کہ یہ ایسی دعا ہے کہ جب بھی کوئی مسلمان شخص اسے پڑھ کر دعاکرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے گا۔
❄عبداللہ بن بریدہ سے روایت ہے کہ ان کے والد کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دعا کرتے سنا وہ کہہ رہا تھا؛
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ أَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، الْأَحَدُ الصَّمَدُ, الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ
” اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس بنا پر کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو ہی اللہ ہے ۔ تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں ۔ تو اکیلا ہے ، بے نیاز ہے جس نے نہ جنا اور نہ جنا ہی گیا اور کوئی بھی اس کی برابری کرنے والا نہیں ۔ “
تو آپ ﷺ نے فرمایا ؛لَقَدْ سَأَلْتَ اللَّهَ بِالِاسْمِ الَّذِي إِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى، وَإِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ [أبوداؤد: 1493 صححہ الالبانی]
” تو نے اللہ سے اس کے نام سے سوال کیا ہے کہ جب اس سے اس نام سے مانگا جائے تو عنایت فرماتا ہے ، دعا کی جائے تو قبول کرتا ہے ۔ “
کم از کم دو رکعات نماز ادا کرکے دعا کریں:
❄سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، ابراہیم علیہ السلام نے سارہ علیہا السلام کے ساتھ ( نمرود کے ملک سے ) ہجرت کی تو ایک ایسے شہر میں پہنچے جہاں ایک بادشاہ رہتا تھا یا ( یہ فرمایا کہ ) ایک ظالم بادشاہ رہتا تھا۔ اس سے ابراہیم علیہ السلام کے متعلق کسی نے کہہ دیا کہ وہ ایک نہایت ہی خوبصورت عورت لے کر یہاں آئے ہیں۔ بادشاہ نے آپ علیہ السلام سے پچھوا بھیجا کہ ابراہیم ! یہ عورت جو تمہارے ساتھ ہے تمہاری کیا ہوتی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہے۔ پھر جب ابراہیم علیہ السلام سارہ علیہا السلام کے یہاں آئے تو ان سے کہا کہ میری بات نہ جھٹلانا، میں تمہیں اپنی بہن کہہ آیا ہوں۔ خدا کی قسم ! آج روئے زمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن نہیں ہے۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے سارہ علیہا السلام کو بادشاہ کے یہاں بھیجا، یا بادشاہ حضرت سارہ علیہا السلام کے پاس گیا۔ اس وقت حضرت سارہ علیہا السلام وضو کرکے نماز پڑھنے کھڑی ہوگئی تھیں۔ انہوں نے اللہ کے حضور میں یہ دعا کی کہ؛اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ آمَنْتُ بِكَ وَبِرَسُولِكَ وَأَحْصَنْتُ فَرْجِي إِلَّا عَلَى زَوْجِي فَلَا تُسَلِّطْ عَلَيَّ هَذَا الْكَافِرَ
” اے اللہ ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول ( ابراہیم علیہ السلام ) پر ایمان رکھتی ہوں اور اگر میں نے اپنے شوہر کے سوا اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے، تو تو مجھ پر ایک کافر کو مسلط نہ کر۔ “ اتنے میں بادشاہ تھرایا اور اس کا پاؤں زمین میں دھنس گیا۔ اعرج نے کہا کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ نے بیان کیا، کہ حضرت سارہ علیہا السلام نے اللہ کے حضور میں دعا کی کہ اے اللہ ! اگر یہ مرگیا تو لوگ کہیں گے کہ اسی نے مارا ہے۔ چنانچہ وہ پھر چھوٹ گیا اور حضرت سارہ علیہا السلام کی طرف بڑھا۔ حضرت سارہ علیہا السلام وضو کرکے پھر نماز پڑھنے لگی تھیں اور یہ دعا کرتی جاتی تھیں؛
اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ آمَنْتُ بِكَ وَبِرَسُولِكَ وَأَحْصَنْتُ فَرْجِي إِلَّا عَلَى زَوْجِي فَلَا تُسَلِّطْ عَلَيَّ هَذَا الْكَافِرَ
” اے اللہ ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان رکھتی ہوں اور اپنے شوہر ( حضرت ابراہیم علیہ السلام) کے سوا اور ہر موقع پر میں نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے تو تو مجھ پر اس کافر کو مسلط نہ کر۔ “
چنانچہ وہ پھر تھرتھرایا، کانپا اور اس کے پاؤس زمین میں دھنس گئے۔ عبدالرحمن نے بیان کیا کہ ابوسلمہ نے بیان کیا ابوہریرہ سے کہ حضرت سارہ علیہا السلام نے پھر وہی دعا کی کہ اے اللہ ! اگر یہ مر گیا تو لوگ کہیں گے کہ اسی نے مارا ہے۔ “ اب دوسری مرتبہ یا تیسری مرتبہ بھی وہ بادشاہ چھوڑ دیا گیا۔ آخر وہ کہنے لگا کہ تم لوگوں نے میرے یہاں ایک شیطان بھیج دیا۔ اسے ابراہیم ( علیہ السلام ) کے پاس لے جاؤ اور انہیں آجر ( حضرت ہاجرہ ) کو بھی دے دو۔ پھر حضرت سارہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں اور ان سے کہا کہ؛
أَشَعَرْتَ أَنَّ اللَّهَ كَبَتَ الْكَافِرَ وَأَخْدَمَ وَلِيدَةً [بخاری: 2217]
” دیکھتے نہیں اللہ نے کافر کو کس طرح ذلیل کیا اور ساتھ میں ایک لڑکی بھی دلوا دی۔”
❄ خادمِ رسول حضرت انس سے ہر مسلمان اچھی طرح واقف ہے ، بصرہ میں آپ کی زمین تھی اور وہاں عرصہ دراز سے بارش نہیں ہو رہی تھی، جس وجہ سے زمین قحط سالی کا شکار ہو گئی ۔ زمین کے نگران نے آپ کو بتایا تو آپ سن کر کافی فکرمند ہوئے اور بعد میں اپنی زمین سے تھوڑا سا دور جا کر وضو کیا، دو رکعت نماز ادا کی اور اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی تو
فَثَارَتْ سَحَابَةٌ وَغَشِيَتْ أَرْضَهُ وَأَمْطَرَتْ
ابھی دعا مکمل ہی ہوئی تھی کہ بادل امنڈ آئے اور جہاں تک آپ کی زمین تھی وہاں وہاں پر اللہ تعالی نے رحمت کی بارش نازل فرمادی اور وہ بارش صرف اور صرف آپ کی زمین تک محدود رہی۔مورخ اسلام امام ذہبی رحمہ اللہ یہ فرماتے ہیں ؛
هُذِهِ كَرَامَةٌ بَيِّنَةٌ ثَبَتَتْ بِإِسْنَادَيْنِ
یہ واضح کرامت دو سندوں کے ساتھ ثابت ہے۔“
]تاریخ دمشق : 3/85، سیر اعلام النبلاء: 3/401 [
بار بار دعا کریں:
❄عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ‌ قَالَ: كَانَ النَّبِیُّ‌ ﷺیُعْجِبُهٗ اَنْ یَّدْعُوْ ثَلَاثًا وَیَسْتَغْفِرَ ثَلَاثًا
سیدنا عبدا للہ بن مسعود سے مروی ہے کہ یہ بات نبی کریم ﷺکو پسند تھی کہ آپ ﷺ تین بار دعا کریں اور تین بار استغفار کریں [مسند أحمد: 3744 صحیح عند شعیب الارنؤوط]
❄حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں
قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا أَصْبَحَ بِآيَةٍ وَالْآيَةُ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ(المائدۃ:118) [نسائی: 1011 حسنہ الالبانی]
(ایک دفعہ) نبی ﷺ نے ساری رات ایک آیت بار بار پڑھتے گزار دی حتی کہ صبح ہوگئی۔ اور وہ آیت یہ تھی: (إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ) ’’(اے میرے مولا!) اگر تو ان (بندوں) کو عذاب دے تو بے شک وہ تیرے غلام ہیں (چوں نہیں کرسکتے۔) اور اگر تو انھیں بخش دے تو بلاشبہ تو ہی غالب حکمت والا ہے۔‘‘
یقین کے ساتھ دعا کریں:
❄عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺادْعُوا اللَّهَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالْإِجَابَةِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَجِيبُ دُعَاءً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاهٍ [ترمذی: 3479 حسنہ الالبانی]
ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’ تم اللہ سے دعا مانگو اور اس یقین کے ساتھ مانگو کہ تمہاری دعا ضرور قبول ہوگی، اور (اچھی طرح) جان لو کہ اللہ تعالیٰ بے پرواہی اور بے توجہی سے مانگی ہوئی غفلت اور لہو لعب میں مبتلا دل کی دعا قبول نہیں کرتا’۔
❄عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺقَالَ: لاَ يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي إِنْ شِئْتَ، اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي إِنْ شِئْتَ، لِيَعْزِمِ المَسْأَلَةَ، فَإِنَّهُ لاَ مُكْرِهَ لَهُ [بخاری: 6339]
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اس طرح نہ کہے کہ ” یا اللہ ! اگر توچاہے تو مجھے معا ف کردے ۔ میرے مغفرت کردے “ بلکہ یقین کے ساتھ دعا کرے کیونکہ اللہ پر کوئی زبردستی کرنے والا نہیں ہے۔
دوسروں کے لئے دعا کریں:
عَنْ صَفْوَانَ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ وَكَانَتْ تَحْتَهُ الدَّرْدَاءُ قَالَ قَدِمْتُ الشَّامَ فَأَتَيْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ فِي مَنْزِلِهِ فَلَمْ أَجِدْهُ وَوَجَدْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ فَقَالَتْ أَتُرِيدُ الْحَجَّ الْعَامَ فَقُلْتُ نَعَمْ قَالَتْ فَادْعُ اللَّهَ لَنَا بِخَيْرٍ فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ دَعْوَةُ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ مُسْتَجَابَةٌ عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ كُلَّمَا دَعَا لِأَخِيهِ بِخَيْرٍ قَالَ الْمَلَكُ الْمُوَكَّلُ بِهِ آمِينَ وَلَكَ بِمِثْلٍ [مسلم: 6929]
ترجمہ: صفوان سے روایت ہے، (حضرت ابودرداء کی بیٹی) درداء، ان (صفوان) کی زوجیت میں تھی، وہ کہتے ہیں: اور میں شام آیا تو حضرت ابودرداء کے ہاں ان کے گھر گیا، وہ نہیں ملے، میں حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا سے ملا تو انہوں نے کہا: کیا تم اس سال حج کا ارادہ رکھتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ انہوں نے کہا: ہمارے لیے خیر کی دعا کرنا کیونکہ نبی ﷺ فرمایا کرتے تھے: "مسلمان کی اپنے بھائی کے لیے اس کی پیٹھ پیچھے کی گئی دعا مستجاب ہوتی ہے، اس کے سر کے قریب ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے، وہ جب بھی اپنے بھائی کے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو مقرر کیا ہوا فرشتہ اس پر کہتا ہے: آمین، اور تمہیں بھی اسی کے مانند عطا ہو۔”
دعا میں نیک اعمال کو بطورِ وسیلہ پیش کریں:
دعا کرتے وقت اپنے نیک اعمال ، جو آپ نے خالصتاً اللہ تعالٰی کے لئےکیے ہوں ، ان کو اللہ کے حضور بطورِ وسیلہ پیش کریں کہ "اے اللہ میں نے یہ اعمال تیرے لئے کئے تھے ،میری دعا میری التجا قبول فرما۔”جیسا کہ صحیح بخاری میں موجود ہے؛
حضرت ابن عمر سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’تین آدمی کہیں جانے کے لیے نکلے تو راستے میں انھیں بارش نے آلیا چنانچہ (بارش سے بچنے کے لیے) وہ تینوں ایک پہاڑ کی غار میں داخل ہوگئے۔ اوپر سے ایک چٹان گری (جس سے غار کامنہ بند ہوگیا) انھوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اپنے بہترین عمل کا وسیلہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو جو تم نے کیاہے، تو ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ!میرے والدین بہت بوڑھے تھے، میں گھر سے نکلتا اور اپنے مویشیوں کو چراتا پھر شام کو واپس آتا، دودھ نکالتا، اسے لے کر پہلے والدین کو پیش کرتا۔ جب وہ نوش جاں کرلیتے تو پھر بچوں بیوی اور دیگر اہل خانہ کو پلایا کرتا تھا۔ ایک شام مجھے دیر ہوگئی۔ جب میں واپس گھر آیا تو والدین سو گئے تھے۔ میں نے انھیں بیدار کرنا اچھا خیال نہ کیا۔ دریں حالت میرے بچے پاؤں کے پاس بھوک سے بلبلارہے تھے۔ میری اور میرے والدین کی کیفیت رات بھر یہی رہی تاآنکہ فجر ہوگئی۔ اے اللہ!اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ عمل صرف تیری رضا جوئی کے لیے کیا ہے تو ہم سے یہ پتھر اتنا ہٹادے کہ کم از کم آسمان تو ہمیں نظر آنے لگے چنانچہ پتھر کو ہٹا دیاگیا۔
دوسرے نے دعا کی: اے اللہ! تو جانتاہے کہ میں اپنی چچا زاد لڑکی سے بہت محبت کرتا تھا۔ ایسی شدید محبت جو ایک مرد کو عورتوں سے ہوسکتی ہے۔ اس نے مجھ سے کہا: تو وہ مقصد حاصل نہیں کرسکتا جب تک مجھے سو دینار نہ دے دے۔ چنانچہ میں نے کوشش کرکے سو دینار جمع کرلیے، جب میں اس سے صحبت کے لیے بیٹھا تو اس نے کہا: اللہ سے ڈر اور اس مہر کو اس کے حق کے بغیر نہ توڑ۔ تب میں اٹھ کھڑا ہوا اور اسے چھوڑ دیا۔ اے اللہ!اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیری رضا طلبی کے لیے کیا ہے تو ہم سے چٹان کی رکاوٹ دورکردے، چنانچہ دوتہائی پتھر ہٹ گیا۔
تیسرے آدمی نے کہا: اے اللہ!تو جانتا ہے کہ میں نے ایک مزدورکو ایک "فرق” جوار کے عوض اجرت پر رکھا تھا۔ جب میں نے اسے غلہ دیا تو اس نے لینے سے انکار کردیا۔ میں نے یہ کیاکہ اس غلے کو زمین میں کاشت کردیا۔ پھر اس کی پیداوار سے گائیں خریدیں اور ایک چرواہا بھی رکھ لیا۔ پھر ایک دن وہ مزدور آیا اور کہنے لگا: اےاللہ کے بندے!میرا حق مجھے دے دے۔ میں نے کہا وہ گائیں اور چرواہا تمہارے ہیں۔ اس نے کہا: تم میرا مذاق اڑارہے ہو؟ میں نے کہا: میں تمہارے ساتھ مذاق نہیں کررہا ہوں۔ وہ واقعی تمہارے ہیں۔ اے اللہ!اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیری رضا کوطلب کرتے ہوئے کیاتھا تو ہم سے اس چٹان کو ہٹادے، چنانچہ اس چٹان کو ان سے ہٹا دیا گیا۔ [بخاری: 2215]