دعا کی اہمیت و فضیلت

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ﴿ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَ یَكْشِفُ السُّوْٓءَ وَ یَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ ؕ قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَؕ۝۶۲ ﴾ (النمل: (62)
اللہ تعالی نے فرمایا: ’’بے کس کی پکار کو جبکہ وہ پکارے کون قبول کر کے سختی کو دور کرتا ہے؟ اور تمہیں زمین کا نائب بناتا ہے کیا اللہ کے ساتھ اور معبود ہیں؟ تم بہت کم عبرت و نصیحت حاصل کرتے ہو۔‘‘
سختیوں اور مصیبتوں کے وقت پکارے جانے کے قابل اسی کی ذات ہے۔ بے کس بے بس لوگوں کا سہارا وہی ہے۔ گرے پڑے، بھولے بھٹکے، مصیبت زدہ اسی کو پکارتے ہیں۔ اسی کی طرف لو لگاتے ہیں۔ جیسے
﴿ وَ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّاۤ اِیَّاهُ ۚ﴾ (بني اسرائيل: 67)
’’کہ جب تمہیں سمندر کے طوفان زندگی سے مایوس کر دیتے ہیں تو تم اس کو پکارتے ہو۔ اس کی طرف گریہ وزاری کرتے ہو، اور سب کو بھول جاتے ہو۔‘‘
اسی کی ذات ایسی ہے کہ ہر ایک بیقرار وہاں پناہ پا سکتا ہے۔ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت فرمایا کہ حضور ﷺ آپ ہمیں کسی چیز کی طرف بلا رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی طرف جو اکیلا ہے جس کا کوئی شریک نہیں، جو اس وقت تیرے کام آتا ہے جب تو کسی پھنساوڑے میں پھنسا ہوا ہو۔ وہی ہے کہ جب تو جنگلوں میں راہ بھول کر اسے پکارے تو وہ تیری رہنمائی کر دے۔ تیرا کچھ کھو گیا ہو اور تو اس سے التجا کرے تو وہ اسے تجھ کو ملا دے۔ قحط سالی ہوگئی ہو۔ اور تو اس سے دعائیں کرے تو وہ موسلا دھار مینہ تجھ پر برسا دے۔ اس شخص نے کہا: یارسول اللہ ﷺ مجھے کچھ نصیحت کیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کسی کو برا نہ کہہ۔ نیکی کے کسی کام کو ہلکا اور بے وقعت نہ سمجھ ، گو اپنے مسلمان بھائی سے یہ کشادہ پیشانی سے ملنا ہی ہو۔ گو اپنے ڈول سے کی پیاسے کو ایک گھونٹ پانی کا دینا ہی ہو۔ اور اپنے جبہ کو آدھی پنڈلی تک رکھ، نہ مانے تو زیادہ سے زیادہ ٹخنے تک۔ اسے نیچے لاڑکانے سے بچتا رہو۔ اس لئے کہ یہ فخر و غرور ہے جسے خدا ناپسند کرتا ہے۔[1]
حضرت طاؤس رحمۃ اللہ علیہ کسی بیمار کی بیمار پرسی کو گئے۔ بیمار نے کہا میرے لئے خدا سے دعا کیجئے۔ آپ نے فرمایا: تم خود اپنے لئے دعا کرو۔ بے قرار کی بے قراری کے وقت دعا کو خدا قبول فرماتا ہے۔ حضرت وہب فرماتے ہیں میں نے اگلی آسمانی کتاب میں پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ مجھے میری عزت کی قسم! جو مجھ پر اعتماد کرے اور مجھے تھام لے تو میں اسے اس کے مخالفین سے بچا لوں گا۔ اور ضرور بچا لوں گا۔ گو آسمان و زمین اور کل مخلوق اسکی مخالفت پر اور ایذا دہی پر تل جائیں۔ اور جو مجھ پر اعتماد نہ کرے میری پناہ میں نہ آئے تو میں اسے امن وامان سے چلتا پھرتا ہی اگر چاہوں گا تو زمین میں دھنسا دوں گا اور اس کی کوئی مدد نہ کروں گا۔
اسی طرح کا واقعہ حضرت عبداللہ بن تامر کا ہے رسول اللہﷺ نے ان کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ جب ان کو پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے گئے۔ اور بادشاہ نے ان سے دین اسلام چھوڑنے کو کہا تو انہوں نے اس سے انکار کیا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ ہمارے سپاہی اس کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جائیں۔ پھر اس سے اس کے دین چھوڑنے کو کہیں اگر یہ مان لے تو اچھا ہے ورنہ اس پہاڑ سے اسے لڑھکا دیں۔ چنانچہ اس کے سپاہی پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے۔ جب وہاں سے دھکا دینا چاہا تو انہوں نے اللہ تعالی سے یہ دعا کی:
(اللَّهُمَّ اكْفِنِيهِمْ بِمَا شِئْتَ)
’’خدا جس طرح چاہے مجھے ان سے نجات دے۔‘‘
اس دعا کے ساتھ ہی پہاڑ ہلا اور وہ سب سپاہی لڑھک کر گر گئے۔ صرف یہی حضرت عبداللہ بن تامر بچے رہے۔ جب وہاں سے اترے تو ہنسی خوشی اس ظالم بادشاہ کے پاس گئے تو بادشاہ نے کہا: کیا ہوا میرے سپاہی کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میرے خدا نے مجھے بچا لیا ہے اور ان سب کو گرا دیا۔ اور وہ سب مر گئے۔ پھر اس نے اور سپاہیوں کو بلوایا اور ان سے یہ کہا کہ اسے کشتی میں بٹھا کر لے جاؤ۔ اور بیچو بیچ سمندر میں ڈبو کر چلے آؤ۔ یہ اسے لے کر چلے اور بیچو بیچ سمندر میں پھینکنا چاہا تو انہوں نے وہی دعا پڑھی:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: (64/5 (20113))
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(اللَّهُمَّ اكْفِنِيْهِمْ بِمَا شِئْتَ)
’’خدایا جس طرح تو چاہے مجھے ان سے بچالے۔‘‘
وہ سب کے سب سمندر میں ڈوب گئے۔ صرف تنہا یہی زندہ سلامت باقی رہے۔ [1]
سچ ہے اللہ تعالی اپنے مضطر بندوں کی دعا یقینًا قبول فرماتا ہے جیسا کہ اس نے فرمایا:
﴿أُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ﴾ دنیا میں ہر قسم کے لوگوں کو حتی کہ نبیوں اور ولیوں کو بھی تکلیفیں اور مصیبتیں پہنچی ہیں۔ ان نیک بندوں نے دعاؤں سے اپنی مشکل کشائی کرائی ہے۔ حاجت روائی کے لئے دعا سلاح اور ہتھیار ہے۔
خالص دعاؤں میں یہ اثر ہے کہ تقدیر کو بھی پھیر سکتی ہیں۔ فرمایا:
(لَا يَرُدُ الْقَضَاءَ إِلَّا الدُّعَاءُ) [2]
’’یعنی تقدیر کو دعا ہی پھیر سکتی ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً﴾ (اعراف: 55)
’’لوگو! اپنے پروردگار کو گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے پکارو۔‘‘
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:
(الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ)[3]
’’دعا ہی عبادت ہے۔‘‘
اور فرمایا جو اللہ سے نہیں مانگتا ہے اللہ اس سے نا خوش ہوتا ہے۔[4]
یعنی دنیا کے لوگ مانگنے سے ناخوش ہوتے ہیں مگر اللہ تعالی مانگلنے سے خوش اور نہ مانگنے سے ناراض ہوتا ہے۔ کیا ہی خوب کہا ہے:
لا تَسْئَلْ بَنِي اٰدَمَ حَاجَتَهُ وَاسْئَلِ الَّذِي أَبْوَابُهُ لَا تُحْجَبٗ
اللهُ يَعْضَبُ إِنْ تَرَكْتَ سُوَالَهُ وَابْنُ آدَمَ حِينَ يُسْئَلُ يَغْضَبٗ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الزهد، باب قصة اصحاب الاخدود و الساحر و الراهب و الغلام (415/2)
[2] ترمذي: كتاب القدر، باب ما جاء لا يرد القدر الا الدعا (198/3)
[3] مسند احمد: (276/6) ابو داود: كتاب الصلوة، باب الدعاء (551/1)
[4] ترمذي: باب فضل الدعاء (224/4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’یعنی کسی انسان سے اپنی حاجت مت مانگو اس سے مانگو جس کے کرم و سخاوت کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے ہے۔ بند نہیں ہوتے۔ انسان اور اللہ تعالی کے درمیان یہی تو فرق ہے اگر اللہ سے مانگنا چھوڑ دو گے تو اللہ ناخوش ہو جائے گا ۔‘‘
اور فرمایا تمہارا رب بڑا ہی حیا و کرم والا ہے۔ جب کوئی بندہ دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے اور مانگتا ہے تو اس کو خالی ہاتھ واپس کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔[1]
اور فرماتے ہیں جو اللہ سے سوال کرتا ہے تو اس کو اللہ تعالی ان تین چیزوں میں سے ایک ضرور دیتا ہے۔ (1) یا تو اس چیز کو عطا فرماتا ہے جس کو وہ مانگتا ہے (2) مزید اس کے لئے آخرت میں ذخیرہ کر لیتا ہے۔ (3) یا اس کے ذریعہ سے کوئی آنے والی مصیبت دور کر دیتا ہے۔[2]
دعاء کے آداب و شرائط
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ دعاء کرنے سے اللہ تعالی بہت خوش ہوتا ہے اور جو مانگتا ہے اس کو دیتا ہے مگر یہ سب اسی وقت ہو گا جبکہ وہ دعاء کے آداب وشرائط کو مد نظر رکھ کر اس کی پوری پوری پابندی کرے ورنہ قبولیت کی امید نہیں رکھنی چاہئے۔ دعا کرنے والا بیمار کی طرح ہوتا ہے بیمار اگر تندرستی چاہتا ہے تو اُس کے لیے دواؤں کے ساتھ پرہیز کرنا اور نقصان دینے والی چیزوں سے بچنا ضروری ہے۔ اور دوا کرتا رہا اور پرہیز نہ کیا تو صحت یابی مشکل ہو جائے گی۔ اور بقول شخصے:
’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘
کا مصداق ٹھہرے گا اسی طرح دعاء کرنے والا اگر چاہتا ہے کہ میری دُعاء مقبول ہو تو اس کے لئے دعاؤں کی شرائط کی پابندی ضروری ہے۔
علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ سے ایک بیمار مصیبت زدہ کے متعلق دریافت کیا گیا کہ اس نے بہتیرا علاج کیا اور بہت سی دعائیں کیں مگر کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ اس کی دنیا و آخرت تباہ ہو رہی ہے۔ کوئی ایسا نسخہ تجویز فرمائیے جس سے اس کو شفا کلی حاصل ہو تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کے لئے شفاء نازل فرمائی ہے۔ قرآن مجید وحدیث شریف سے یہ بخوبی واضح ہو چکا ہے کہ قرآن مجید تمام جسمانی وروحانی بیماریوں کے لئے باعث شفاء ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابو داود: كتاب الصلوة، باب الدعاء (1484)
[2] مسند احمد: (18/3) مستدرك حاكم: كتاب الدعاء، باب الدعاء ينفع مما نزل ولما لم ينزل(493/1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ﴾ (بنی اسرائیل:82)
’’قرآن مجید کو مومنوں کے لئے رحمت و شفاء بنا کر اتارا ہے۔‘‘
اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سانپ بچھو کے کاٹے ہوئے آدمی پر بھی قرآن مجید پڑھ کر دم کرتے تو اسکو شفاء کلی ہو جاتی۔ اس دوا یعنی (دعاء سورہ فاتحہ) کی شفا دینے میں عجیب و غریب تاثیر ہے۔ اگر بندہ اس سورہ فاتحہ سے دوا کرے تو اس کی نہایت ہی عجیب تاثیر دیکھے گا۔ میں مکہ معظمہ میں ایک عرصہ مقیم تھا اور بہت سی بیماریوں میں مبتلا ہو گیا نہ کوئی دوا ہی پاتا تھا نہ کوئی حکیم ہی تھا۔ خود ہی سورہ فاتحہ پڑھ پڑھ کر اپنا علاج کرنے لگا تو اس کی عجیب تاثیر دیکھی۔ جو شخص بھی بیماری کی شکایت کرتا اس کو صرف یہی سورہ فاتحہ بتا دیتا۔ بہت سے لوگ بہت جلد شفایاب ہو گئے۔ بہر کیف قرآن وحدیث کی دعائیں شفاء دینے والی ہیں لیکن یہ اسی وقت ہو گا جب کہ محل قبولیت کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اور فاعل میں اثر قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہو۔ کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی قوی مانع اور عدم صلاحیت کی وجہ سے اس کا پورا پورا اثر ظاہر نہیں ہوتا جیسے دواؤں کے استعمال میں عدم احتیاطی یا اور کسی مانع قوی کی وجہ سے اثر اچھی طرح ظاہر نہیں ہوتا۔ اور جب طبیعت کے موافق دوا ہوتی ہے تو وہ فورًا فائدہ پہنچا دیتی ہے۔ اسی طرح دل ہے کہ جب اس کے موافق دعائیں ہوں تو ان دعاؤں کا اثر ضرور پڑے گا۔
لیکن اگر دعاؤں کا اثر بعض اوقات نہیں ظاہر ہوتا تو اس کے لئے دُعاء کرنے والا دعا کے وقت اللہ تعالی کی طرف پورے طریق پر متوجہ نہیں ہوتا۔ اور حرام چیزوں کے کھانے پینے سے پرہیز نہیں کرتا، گناہ اور ظلم کے کاموں سے کنارہ کشی نہیں کرتا۔ اس لئے اس کی دعاؤں کا اثر نہیں ہوتا۔ اس کی مثال کمان کی طرح ہے۔ اگر نرم و کمزور ہے تو تیر بھی کمزوری ہی سے لگے گا۔ اور اگر کمان مضبوط ہے تو تیر تیزی سے نکل کر پوری طاقت سے جاگے گا۔ اسی طرح دعاء کرنے والا جیسا ہو گا ویسا ہی اس کی دعا کا اثر ہوگا اگر مومن مخلص ہے اور تمام شرائط کی پابندی کرتا ہے تو اس کی دعاء قبول ہوگی۔ حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ غافل دل کی دعا میں قبول نہیں ہوتیں۔ اور نہ حرام خور کی دعا قبول ہوتی ہے۔
مزید تفصیل علامه ابن القیم کی کتاب ’’الجواب الکافی لمن سأل عن دواء الشافی‘‘ سے معلوم ہو سکتی ہے۔ ہمیں صرف یہاں یہ بتاتا ہے کہ دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں۔ جب کہ ان تمام شرطوں کی پوری پابندی کی جائے۔ اس جگہ دعاء کے چند آداب وشرائط کو بیان کیا جاتا ہے۔ دُعاء کرنیوالا پہلے اُن پر ضرور عمل کرے تاکہ اس کی کوششیں کامیاب ہوں:
1۔ پہلی شرط یہ ہے کہ ایمان کامل کے ساتھ ہی ساتھ اخلاص بھی ضروری ہے۔ یعنی صرف اللہ تعالی ہی کا خیال دل و دماغ اور زبان پر ہو۔ غیر کا خیال بالکل نہ ہو۔ کیونکہ بلا اخلاص کے کوئی عمل قبول نہیں ہوتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿ لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْكُمْ ﴾(حج :37)
’’یعنی اللہ تعالیٰ کو اس قربانی کا گوشت و خون نہیں پہنچتا لیکن تمھارا نقوی و اخلاص اس کو پہنچتا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَمَا أُمِرُوْا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ﴾ (البينة: 5)
’’اطاعت الہی میں اخلاص کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘
اور فرمایا: ﴿فَادْعُوْهُ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ﴾ ’’اللہ تعالی کو اخلاص سے پکارو اور دعا کرو‘‘
(وَإِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ)[1]
’’سب کاموں کا دارو مدار نیت پر ہے۔‘‘
2۔ دوسری شرط یہ ہے کہ کھانا پہنا وغیرہ حلال و پاکیزہ کمائی کا ہوا اگر حرام کی آمیزش ہوئی تو دعا قبول نہیں ہوگی۔ حدیث میں رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:
(يُطِيْلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ يَا رَبِّ يَا رَبِّ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَ مَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَ مَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَ غُذِیَ بِالْحَرَامِ فَأَنّٰى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ)[2]
’’پراگندہ سر اور گرد آلود آدمی لمبا سفر کرتا ہے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر اے میرے رب! اے میرے رب! کہہ کر دعا کرتا ہے حالانکہ اس کا کھانا پینا پہننا حرام طریقوں سے ہے اور حرام ہی سے اس کی پرورش ہوئی ہے تو اس کی دعا کس طرح قبول ہوگی۔‘‘
یعنی اس کی دعاء قبول نہیں ہوتی۔
اس لئے اللہ تعالی نے نبیوں کو کسب حلال کا حکم دیا ہے:
﴿يَأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا﴾ (المؤمنون:51)
’’اے رسولو! حلال روزی کھاؤ اور نیک عمل کرو۔‘‘
اور امتیوں کو بھی یہی حکم دیا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الوحي، باب كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله ﷺ.
[2] مسلم: كتاب الزكاة، باب بيان ان اسم الصدقة يقع على كل نوع من المعروف(326/1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
﴿يَايُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ﴾ (البقرة:172)
’’اے مومنو! ہماری پاکیزہ دی ہوئی روزی میں سے کھاؤ۔‘‘
3۔ تیسری شرط یہ ہے کہ دعاء کرنے والا جھوٹ بولنے، مکر و فریب دینے، قمار بازی، شراب نوشی، حسد و تکبر، کینہ، غیبت و چغلی وغیرہ گناہ کرنے سے بچے۔ کیونکہ یہ سب گناہ کبیرہ ہیں۔ قرآن وحدیث میں اُن کی بڑی برائی بیان کی گئی ہے۔
آداب دعا
آداب دعا میں سے یہ ہے کہ:
1۔ تضرع وانکساری، خشوع و خضوع سے دعاء کرے۔ اللہ تعالی ان آداب کو خود سکھاتا ہے کہ ﴿اُدْعُوا رَبَّكُمُ تَضَرُّعاً﴾ اپنے رب کو گڑ گڑا کر پکارو۔ اور یہ سمجھو کہ میرا رب میری بات کو سنتا اور میری تمام حرکات وسکنات کو دیکھتا ہے۔ وہ میرے سامنے موجود ہے۔ وہ اپنے بھکاریوں کو ضرور دیتا ہے محروم نہیں کرتا اور اپنی حاجت کو رغبت سے طلب کرے ایسے لوگوں کی اللہ تعریف کرتا ہے۔
﴿إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَّرَهَبًا﴾ (الانبياء: 90)
’’وہ لوگ بھلائیوں کی طرف دوڑتے تھے۔ اور ہم کو شوق سے اور ڈر سے پکارتے تھے۔‘‘
دعاؤں میں اپنے گناہوں کا اقرار اور اس بات سے توبہ کیجئے کہ آئندہ ہرگز ایسا کام نہیں کریں گئے آگے چل کر دعاؤں میں پڑھو گے:
(ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي)[1]
’’میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور اپنے گناہوں کا اقرار کیا۔‘‘
اپنے نیک کاموں کا واسطہ دے کر سوال کرو جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے تین آدمیوں کا ایک واقعہ بیان فرمایا کہ تین آدمی دوران سفر میں بارش کی وجہ سے پہاڑ کے ایک غار میں پناہ کے لئے گئے۔ ایک چٹان گرنے کی وجہ سے غار کا منہ بند ہو گیا۔ ہر ایک نے اپنے نیک اعمال کا واسطہ دے کر اللہ تعالی سے دعا کی۔ پروردگار نے اُن کو اس مصیبت سے نجات دی۔[2]
4۔ دعاء سے پہلے وضو کر لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: کتاب صلوة المسافرين، باب صلوة النبي ﷺ و دعائه بالليل (263/1)
[2] بخاري: کتاب احادیث الانبياء، باب حديث الغار (3465)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آپ ﷺ نے ابی عامر کے لئے وضو کر کے دعاء کی تھی۔[1]
5۔ دعاء کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ کیجئے۔ کیونکہ شریعت نے نماز کا رُخ اس کو بتایا ہے اور رسول اللہ ﷺ دعاء کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ کرتے تھے جیسا کہ جنگ بدر اور استسقاء میں کیا تھا۔[2]
دعاء کرنے سے پہلے اللہ تعالی کی تعریف کیجئے۔ پھر رسول اللہﷺ پر ڈرود بھیجئے۔ پھر دعاء کر کے اللہ تعالی کی تعریف اور نبیﷺ پر درود بھیج کر ختم کیجئے۔ یعنی دعاء سے پہلے اور دُعاء کے بعد حمد و صلوۃ ہونا چاہئے۔ رسول اکرمﷺ فرماتے ہیں:
(إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيَبْدَأْ بِتَحْمِيدِ رَبِّهِ وَالثَّنَاءِ عَلَيْهِ ثُمَّ يُصَلِّى عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ يَدْعُوْ بَعْدُ بِمَا شَاءَ)
’’جب کوئی نماز پڑھے تو دعا کرتے وقت پہلے اللہ کی حمد و ثنا کرے پھر نبی ﷺ پر درود پڑھے پھر جو چاہے دعا مانگے۔‘‘
7۔ دونوں ہاتھ کشادہ کر کے چہرے اور دونوں کندھوں کے برابر اٹھائے۔ رسول اللہ ﷺ اسی طرح اٹھاتے اور فرماتے تھے: (إِنَّ اللَّهَ حَیٌّى كَرِيْمٌ يَسْتَحْيِ إِذَا رَفَعَ الرَّجُلُ إِلَيْهِ يَدَيْهِ إِنْ يَّرُدَّ هُمَا صِفْرًا خَائِبَتيْنِ)[3]
’’اللہ تعالی کے سامنے جب کوئی دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے تو خالی ہاتھ واپس کرتے ہوئے اس کو شرم آتی ہے۔‘‘
لہذا مسنون طریقہ یہی ہے کہ دونوں ہاتھ اٹھا کر دعاء مانگے۔ چاہے فرض کے بعد ہو یا سنت کے بعد۔
8۔ دونوں ہاتھوں کی ہتھیلی چہرے کے سامنے کر کے دعاء مانگے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
(إِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَاسْئَلُوهُ بِبُطُونِ أَكُفِّكُمْ وَلَا تَسْئَلُوهُ بِظُهُورِهَا)[4]
’’جب اللہ سے سوال کرو تو اپنی باطنی تھیلیوں سے مانگو اور تھیلی کی پشت سے مت مانگو۔‘‘
9۔ اللہ تعالی کے اسمائے اعلی کے ساتھ دعاء کرنی چاہئے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿وَاللهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا﴾
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب الدعوات، باب الدعاء عند الوضوء۔
[2] بخاري: كتاب الدعوات، باب الدعاء مستقبل القبلة (6343)
[3] ابو داود: كتاب الصلٰوة، باب الدعاء (1484)
[4] ابو داود: كتاب الصلٰوة، باب الدعاء (1482)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
10۔ دعا کے الفاظ کو دو دو تین تین بار پڑھیں۔ رسول اللہﷺ تین بار دعا فرماتے تھے۔
11۔ دعاء میں جلدی نہیں کرنی چاہئے جب تک قبول نہ ہو دعا کرتے جاؤ۔ اور یہ نہ کہو کہ اتنے دنوں سے دعاء کر رہا ہوں قبول نہیں ہوتی۔ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:
(يُسْتَجَابُ لَأَحَدِكُمْ مَا لَمْ يُعَجِّلْ يَقُوْلُ دَعَوْتُ فَلَمْ يُسْتَجَبْ لِي)[1]
’’تمہاری دعا قبول کی جاتی ہے جب تک کہ جلدی نہ کرو اور جلدی یہ ہے کہ کہیے میں دعا کرتا ہوں قبول نہیں ہوتی۔‘‘
12۔ کسی گناہ اور قطع رحم کے لئے دعاء نہ کیجئے کیونکہ ایسی دعاء قبول نہیں ہوتی۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
(يُسْتَجَابُ لِلْعَبْدِ مَا لَمْ يَدْعُ بِإِثْمِ أَوْ قَطِيعَةِ رَحْم)[2]
’’بندے کی دعا قبول کی جاتی ہے جب تک کہ کسی گناہ یا قطع رحم کی دعا نہ کرے۔‘‘
13۔ دعاء میں شرط نہ استعمال کی جائے یعنی یہ نہ کہے کہ اللہ اگر تو چاہے تو یہ کام کر دے۔ حدیث میں رسول اللہﷺ اس قسم کے کلمات کے استعمال سے منع فرماتے ہیں:
(إِذَا دَعَا أَحَدُكُمْ فَلَا يَقْلِ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي إِنْ شِئْتَ وَارْحَمْنِي إِنْ شِئْتَ وَارْزُقْنِي إِنْ شِئْتَ وَلْيُعْزِمْ مَسْئَلَتَهُ إِنَّهُ لَيَفْعَلُ مَا يَشَاءُ وَلَا مُكْرَہَ لَهُ)[3]
’’جب دعا کرو تو یہ نہ کہو اے اللہ تو چاہے تو بخش دے اور اگر تو چاہے تو روزی دے بلکہ نہایت عزم و پختگی سے سوال کرے کیونکہ اللہ تعالی جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے کوئی اس کو مجبور نہیں کر سکتا۔‘‘
14۔ اگر امام ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنے لئے اور تمام مقتدیوں کے لیے دعا کرے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
(لَا يَوْمُ الرَّجُلُ فَيَخُصُّ نَفْسَهُ بِالدُّعَاءِ دُوْنَهُمْ فَإِنْ فَعَلَ فَقَدْ خَانَهُمْ)[4]
’’مقتدیوں کو چھوڑ کر صرف اپنے لئے دعا نہ کرے اگر ایسا کرے گا تو خیانت کرے گا۔‘‘
15۔ اور ہر دعاء کرنے والے کو چاہئے کہ اپنے لئے دعاء کرے تو مخصوص نہ کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک گنوار کو یہ دعاء پڑھتے سنا
(اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِي وَمُحَمَّدًا . وَلَا تَرْحَمْ مَعَنَا أَحَدًا)[5]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]بخاري: كتاب الدعوات، باب يستجاب للعبد مالم يعجل (6340)
[2] مسلم: كتاب الذكر و الدعاء، باب بيان انه يستجاب للداعي مالم یعجل۔
[3] بخاري: كتاب التوحيد، باب في المشيئة والإرادة (7477)
[4] ترمذي: كتاب الصلوة، باب كراهية أن يخص الامام نفسه بالدعاء (285/1)
[5] بخاري: كتاب الوضوء، باب صب الماء على البول في المسجد (220)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’یعنی اسے اللہ مجھ پر اور محمدﷺ پر رحم کر اور ہمارے کسی ساتھی پر رحم نہ کر۔‘‘
تو فرمایا: (لقَدْ تَحجَّرْتَ وَاسِعًا﴿ (صحیح بخاری)
’’یعنی تو نے خدا کی کشادہ رحمت کو محدود کر دیا۔‘‘
16۔ تمام حاجتوں کو اللہ ہی سے مانگئے۔ حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(يَسْئَلُ أَحَدُكُمْ رَبَّهُ حَاجَتَهُ كُلَّهَا حَتَّى يَسْئَلَ شِسْعَ نَعْلِهِ إِذَا انْقَطَعَ)[1]
’’اپنے رب سے ہر چیز مانگو حتی کہ جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اللہ ہی سے مانگو۔‘‘
17۔ امر محال کو نہ مانگئے کیونکہ یہ تعدی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿إنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ﴾ (البقرة: 190)
’’یعنی اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
اور حدیث شریف میں فرمایا:
(سَيَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ قَوْمٌ يَعْتَدُونَ فِي الطُّهُورِ وَالدُّعَاءِ)[2]
’’میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو پاکی اور دعا میں حد سے تجاوز کر جایا کریں گئے۔‘‘
18۔ دعاء میں بے جا تکلفات سے بچنا چاہئے اور حاصل شدہ کام کے لئے دعا کرنا بے سود ہے ہاں استقامت اور استمرار کے طور پر جائز ہے۔
19۔ دعاء کو ’’آمین‘‘ اور حمد درود پرختم کرنا چاہیئے۔
دعاء کی قبولیت کا وقت اور مقامات کا مفصل بیان اور کن کن لوگوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور کس کس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں ہیں۔ ان سب کی پوری تفصیل قرآن و حدیث کی تقریبًا 600 دعاؤں کے ساتھ مدل طریقے سے ہم نے اپنی کتاب ’’اسلامی وظائف‘‘ میں بیان کر دی ہے۔ ان کے پڑھنے سے آپ کو بہت فائدہ ہوگا۔
اللہ تعالی ہم سب کی مصیبتیں دور فرمائے۔ آمین۔ اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔
(بَارَكَ اللهُ لَنَا وَلَكُمْ فِي الْقُرْآنِ الْعَظِيمِ وَنَفَعَنَا وَإِيَّاكُمْ بِالْآيَتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيمِ إِنَّهُ تعَالَى جَوَّادٌ كَرِيْمٌ مَّلِكُ بَرٌّ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٍ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذي: كتاب الدعوات، باب في فضل النبي ﷺ (292/4)
[2] ابو داود: كتاب الصلوة، باب الدعاء (1476) (551/1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔