دنیا اک متاع قلیل

﴿یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِۙ۝﴾ (الانفطار:6)
دنیا کی حقیقت کا ذکر ہو رہا تھا ، دنیا کی حقیقت کو جاننا اور سمجھنا انسان کی نہایت اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ لوگوں کی غالب اکثریت دنیا کو اس کی حقیقت کے برعکس جانتی اور بھتی ہے اور جب تک کوئی شخص حقائق کو ان کے مطابق نہیں جان لیتا، اپنے مقصد اور ہدف میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔
دنیا کی حقیقت کیا ہے، اس کو جاننے کے گذشتہ جمعہ ہم نے تین طریقے اور معیار ذکر کیے تھے۔
کہ یا تو عقل کے ذریعے دنیا کی حقیقت معلوم کی جاسکتی ہے، یا دین کی روشنی میں دنیا کی حقیقت کو جانا جا سکتا ہے، یا پھر اپنے مشاہدات کے ساتھ دنیا کی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں۔ اگر چہ ان تینوں ذرائع سے دنیا کی حقیقت کو سمجھا جاسکتا ہے، مگر دین جس طرح دنیا کی حقیقت کو درستی اور صحت کے ساتھ اور مکمل تعریف کے ساتھ بتا سکتا ہے، عقل اور مشاہدات اس طرح دنیا کی حقیقت بیان نہیں کر سکتے ، عقل کو سمجھنے میں غلطی لگ سکتی ہے، مشاہدے میں غلطی کا امکان ہے مگر شریعت نے جس طرح دنیا کی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کسی اور طریقے سے وہاں تک پہنچا نہیں جا سکتا۔ دنیا کی حقیقت کے بارے میں ان تینوں ذرائع سے کم از کم جس متفقہ نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا فانی اور عارضی ہے۔ مشاہدے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہاں کسی بھی چیز کو بشمول انسان دوام اور بقا نہیں ہے۔ حواس خمسہ کے ذریعے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں انہیں عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر انسان vاس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ یہاں کی ہر چیز زوال پذیر اور عارضی ہے۔ وہ غور کرتا ہے کہ درخت سے اتارا گیا تازہ پھل کسی طرح خوش رنگ اور خوبصورت دکھائی دیتا ہے، گردو پیش اور ماحول کو معطر کرتا اور دل کو لبھاتا ہے، مگر تھوڑے ہی عرصے میں اس کی وہ رونق ختم ہو جاتی ہے۔
اس کی تروتازگی ماند پڑ جاتی ہے اور اس کی خوشبو تعفن میں بدل جاتی ہے۔ اسی طرح پھول، کہ جس کی خوبصورتی نظروں کو بھاتی ، اور اس کی خوشبو دماغ کو معطر کر دیتی ہے چند ہی روز میں اس کی رونق ماند پڑ جاتی ہے اور وہ مرجھا جاتا ہے۔ اسی طرح مکان، گاڑی اور دیگر اشیاء ہیں جو آہستہ آہستہ پرانی اور بوسیدہ ہو جاتی ہیں حتی کہ خود انسان، کہ جوانی میں جس کے چہرے کی رونق اور تروتازگی اور چمک دمک بڑی پرکشش ہوتی ہے، چہرہ کھلا کھلا ہوتا ہے، مگر ساٹھ سال کے بعد اس کا وہ پر رونق چیرو یکسر بدل چکا ہوتا ہے، اب بال سفید ہو چکے ہوتے ہیں، چہرے پر شکن پڑ چکے ہوتے ہیں اور ڈھل چکا ہوتا ہے، جاذ بیت ختم ہو چکی ہوتی ہے ، بوسیدگی کے آثار نمایاں نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ تو یہ سب دنیا کی بے ثباتی اور اس کے عارضی پن کی علامتیں ہیں اور ہر قلمند انسان اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے۔ تو عقل اور مشاہدہ دنیا کے فانی اور عارضی ہونے کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن آگے کرنا کیا ہے، اس کی رہنمائی نہیں دیتے ۔
البتہ دین، دنیا کی حقیقت کی حقیقی اور مکمل پہچان کراتا ہے اور پھر اس کا حل بتاتا ہے کہ دنیا کی زندگی کیسے گزارنی ہے۔ تو اسلام دنیا کی حقیقت کو تفصیل بیان کرتا ہے، عقلی اور مشاہداتی دلائل کے ساتھ اس کی وضاحت کرتا ہے اور پھر شرعی احکام کے ذریعے زندگی کے معاملات کو نباہنے اور پر تنے اور ان سے نمٹنے کے طریقے بتاتا اور اُصول سکھاتا ہے۔ اسلام پہلے دنیا کی بے ثباتی کو ثابت کرتا ہے، پھر آخرت کی دائمی زندگی کے ساتھ اس کا موازنہ کرتا ہے اور پھر اس سے متعلق اپنا حکم جاری کرتا ہے۔ اسلام رہبانیت کا سبق نہیں دیتا، دنیا سے قطع تعلقی کا حکم نہیں دیتا، بلکہ دنیا سے اپنا حصہ وصول کرنے کی ترغیب دیتا ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا﴾ (القصص:77)
’’دنیا میں اللہ تعالی نے جو تمہارا حصہ مقرر کر رکھا ہے، اسے مت بھولو۔‘‘
یعنی اسے حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ اسلام کا مدعا انسان کو یہ سمجھاتا ہے کہ ان حقائق کو جان لینے کے بعد عقل سے کام لو اور ان دونوں زندگیوں میں ترجیح دینے کا فیصلہ کرو، کہ ترجیح کس کو دینی ہے، اس دنیا کی عارضی اور فانی زندگی کو یا آخرت کی دائمی اور بہتر زندگی کو!
اسلام نے اس دنیا کی زندگی کو عارضی اور فانی بتلایا ہے، لہو ولعب، دنیا کی رونق اور زینت قرار دیا ہے، متاع قلیل کہا ہے، آخرت کی کھیتی اور فریب اور دھوکے کا سامان بتلایا ہے۔ دنیا کی زندگی انسان کے لیے کس طرح دھوکہ ہے، اگر اس پر غور کیا جائے تو شاید اس کے چنگل سے نکلنا آسان ہو جائے ، دنیا کی زندگی کئی لحاظ سے انسان کے لیے دھوکہ ہے، دنیا کے معاملے میں انسان کسی طرح خود فریبی میں مبتلا ہے اس کی ایک مثال ذکر کرتے ہیں: یہ جاننے کے باوجود کہ یہ دنیا عارضی اور فانی ہے، انسان اس میں ہمیشہ زندہ رہنے کی یا کم از کم لمبی عمر پانے کی خواہش دل میں رکھتا ہے اور جس چیز کو وہ زندگی بخش سمجھتا ہے پھر اس کے پیچھے لگ جاتا اور ساری زندگی اس کے حصول میں صرف کر دیتا ہے۔ قرآن پاک ایسے لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے کہ جن کے لیے تباہی لکھ دی گئی ہے، ان کی ایک صفت یہ بیان کرتا ہے کہ:
﴿جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَهُ﴾ (الهمزه:2)
’’کہ وہ مال جمع کرتا اور اسے گن گن کے رکھتا ہے ۔‘‘
﴿ يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ اَخْلَدَه) (الهمزة:3)
’’وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے حیات جاوداں بخش دے گا۔‘‘
یعنی مال ہے تو زندگی کا مزہ ہے، مال نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
اس دار فانی میں لمبی عمر کی خواہش اور پھر اس کے لیے عملی کوششوں میں مال و دولت کے حصول کی حرص اور تڑپ اس قدر شدید کہ آدمی دولت کا پجاری اور غلام بن جاتا ہے اور پھر دنیا کے سارے تعلقات اس کی روشنی میں طے کرتا ہے، اب ایسے شخص کے لیے یہ دنیا دھو کہ نہیں تو اور کیا ہے، جب بتا دیا گیا ہے کہ یہ دنیا حقیر اور بے حیثیت تو یوں بھی ہے، مگر آخرت کے مقابلے میں تو یہ اک متاع قلیل ہے۔
دنیا ایسی حقیر ہے کہ:
((لَوْ كَانَتْ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَا سَقَى كَافِرًا مِّنْهَا شًرْبَةَ مَاءٍ)) (ترمذي ، كتاب الزهد: 2320)
آپ ﷺنے فرمایا: اس دنیا کی حیثیت اللہ تعالی کے ہاں اگر ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو اس میں سے پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پینے دیتا۔
اور پھر بھی اس حقیری دنیا کے لیے لمبی عمر پانے کی ایسی خواہش کہ:
﴿یَوَدُّ اَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَةٍ ۚ وَ مَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ یُّعَمَّرَ ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ۠۝۹۶﴾(البقرة:96)
’’ان میں سے ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ہزار برس جیئے ، حالانکہ لمبی عمر اسے عذاب سے تو بہر حال نہیں بچا سکتی ۔‘‘
یعنی لمبی عمر اگر اسے مل بھی جائے، مگر چونکہ عذاب سے اس وجہ سے تو نہیں بچ سکتا کہ اب بات پرانی ہو گئی ہے، چلو رفع دفع کرو، تو لمبی عمر کا کیا فائدہ؟ اسی بات کو ایک دوسرے مقام پر ایک دوسرے پیرائے میں یوں بیان فرمایا:
﴿اَفَرَءَیْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ سِنِیْنَۙ۝﴾ (الشعراء: 205)
’’تم نے کچھ غور کیا اگر ہم انہیں برسوں تک پیش کرنے کی مہلت دے بھی دیں۔‘‘
﴿ثُمَّ جَآءَهُمْ مَّا كَانُوْا یُوْعَدُوْنَۙ۝۲۰۶﴾ (الشعراء:206)
’’اور پھر وہی چیز ان پر آجائے کہ جس سے انہیں ڈرایا جا رہا ہے۔‘‘
﴿مَاۤ اَغْنٰی عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یُمَتَّعُوْنَؕ۝۲۰۷﴾ (الشعراء:207)
’’تووہ سامان میش و عشرت تو ان کے کسی کام نہ آئے گا ۔‘‘
تو لمبی عمر کی خواہش اور وہ بھی اس نیت سے کہ دنیا کے مزے لیں اور عیش کریں ، سراسر نادانی ہے اور تباہی و بر بادی ہے۔
حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا:((أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ))
’’اے اللہ کے رسول سلام سب سے بہتر شخص کون ہے؟‘‘
((قَالَ مَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَحَسُنَ عَمَلُه))
’’فرمایا: جس کی عمر لمبی ہو اور عمل اچھے ہوں۔‘‘
((قَالَ فَأَيُّ النَّاسِ شَرٌّ))
’’عرض کیا: برا شخص کون ہے؟‘‘
((قَالَ مَنْ طَالَ عُمْرُهُ وَسَاءَ عَمَلهُ)) (ترمذي ، كتاب الزهد:2330)
’’فرمایا: جس کی عمر لمبی ہو مگر عمل برے ہوں۔‘‘
تو محض لمبی عمر کی خواہش، نیکی کی توفیق کے بغیر ، تباہی ہے حتی کہ یہی عمر کی دعا کرنا یا کسی کو دعا دینا بھی اصل میں تو اک بے معنی سی بات معلوم ہوتی ہے، الا یہ کہ نیکی کی توفیق کی شرط کے ساتھ مانگی جائے تو ایک لحاظ سے با مقصد دعا بن جاتی ہے۔
لمبی عمر کی دعا مانگنے کے بارے میں علماء کرام کے ہاں اختلاف ہے کہ مانگنی جائز ہے کہ نہیں، کیونکہ کسی کی عمر میں تقدیم و تاخیر تو نہیں ہو سکتی جیسا کہ قرآن وحدیث کے واضح دلائل کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے۔ اور جن ولائل سے معلوم ہوتا ہے کہ مانگ سکتے ہیں پھر اس کا مفہوم کیا ہوگا ؟
تو جواز کی صورت میں لمبی عمر کا مفہوم ہوگا نیکی کی توفیق والی اور برکت والی عمر ۔ ورنہ تو انسان کی عمر وہی ہے جو لوح محفوظ میں لکھی جا چکی ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔
حدیث میں ہے، ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا بار فرمانے لگیں:
((اللّٰهُمَّ امْتِعْنِي بِزَوْجِي رَسُولِ اللهِ وَبِأَبِي أَبِي سُفْيَانَ وَبِأَخِي مُعَاوِيَةَ))
’’اے اللہ ! مجھے میرے خاوند رسول اللہ سلام ، میرے باپ ابو سفیان اور میرے بھائی معاویہ کے ساتھ خوش و خرم زندگی عطا فرما۔‘‘
((قَالَ فَقَالَ النَّبِيُّﷺ قَدْ سَأَلَتِ اللهَ لَاٰجَالِ مَضْرُوبَةٍ وَأَيَّامٍ مَعْدُودَةٍ وَأَرْزَاقِ مَقْسُومَةٍ))
’’تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے اللہ تعالی سے مقررہ عمروں کی، شمار شدہ دنوں کی اور تقسیم شدہ رزقوں کی دعا مانگی ہے۔‘‘
یعنی تم نے جن کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزارنے کی دعا مانگی ہے تو کوئی بہت بڑی چیز نہیں مانگی، کیونکہ ان کی عمریں تو محدود اور مقرر ہیں، وہ آگے پیچھے نہیں ہو سکتیں اور دن بھی گنتی کے ہیں اور رزق کہ جو دنیوی لحاظ سے خوشگوار زندگی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے، وہ بھی تقسیم شدہ ہے، اس میں بھی کوئی کمی بیشی نہیں ہونے والی۔
((لَنْ يُّعْجِل شَيْئًا قَبْلَ حِلِّهِ أَوْ يُؤَخِّرَ شَيْئًا عَنْ حِلِّه))
’’اللہ تعالی کوئی چیز مقررہ وقت سے پہلے نہیں کرتا اور کوئی چیز مقررہ وقت سے مؤخر نہیں کرتا ۔‘‘
((وَلَوْ كُنْتِ سَأَلَتِ اللهَ أَنْ يُّعِيذَكِ مِنْ عَذَابٍ فِي النَّارِ أَوْ عَذَابِ فِي الْقَبْرِ كَانَ خَيْرًا وَأَفْضَلَ))(مسلم ، كتاب القدر: 2663)
’’اور اگر تو نے اللہ تعالی سے سوال کیا ہوتا کہ وہ تمہیں عذاب النار اور عذاب قبر سے محفوظ فرمائے تو زیادہ بہتر ہوتا ۔‘‘
لمبی عمر کی نیکی کی توفیق کے ساتھ دعاء مانگتا اگر جائز ٹھہرتا ہو تو اس طرح لمبی عمر کا مفہوم برکت والی عمر سمجھا جائے گا نہ کہ اصل عمر میں اضافہ۔
مگر دوسری طرف لمبی عمر کے حوالے سے ایک اور حقیقت بھی ہے اور وہ یہ کہ لمبی عمر ا پانے کی صورت میں کچھ پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور ان کے سرفہرست وہ پریشانی کہ جسے اللہ تعالی نے مصیبت قرار دیا ہے اور وہ ہے موت۔ یعنی اپنے پیاروں اور اپنے عزیزوں کی موت کا صدمہ اور مصیبت اپنی زندگی میں سہنا۔
اور اگر لمبی عمر ہوگی تو اپنی زندگی میں ایک ایک کر کے اپنے عزیزوں کے جنازے اٹھانے پڑیں گے، انہیں دفنانا پڑے گا، اور کسی عزیز کی موت کا صدمہ کس قدر شدید ہوتا ہے، بیان نہیں کیا جاسکتا، صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے استاذ عبد اللہ بن عبد الرحمن الدارمی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کی خبر ملی تو اس پر انہوں نے ایک شعر کہا جس میں یہ حقیقت بھی بیان کی، فرمایا:
إن عِشْتَ تُفْجَعُ بِالأحِبَّةِ كُلِّهِمْ
وَفَنَاءُ نَفْسِكَ لَا أَبَالَكَ أَفْجَعُ
(تعليق التعليق: ج :5، ص:400)
’’اگر تو زندہ رہا تو ایک ایک کر کے تجھے اپنے تمام عزیزوں کی وفات کا صدمہ سہنا ہوگا۔ اور تیری اپنی موت اس سے بھی کہیں بڑا المناک صدمہ ہوگا۔‘‘
آپ نے اپنی زندگی میں ایسے کئی واقعے دیکھے اور سنے ہوں گے کہ بسا اوقات آدمی اپنے کسی عزیز کی وفات پر اس قدر شدید صدمے سے دوچار ہوتا ہے کہ وہ اس کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کر سکتا ، اس سے وہ غم برداشت نہیں ہوتا، وہ ساتھ ہی مر جانا چاہتا ہے۔
اسی طرح کا ایک واقعہ ہم تاریخ میں سے سنتے ہیں۔ غزوۂ بنو قریظہ کے موقع پر پیش آنے والا واقعہ ہے۔
مسلمانوں کا بنو قریظہ کے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ امن تھا، مگر انہوں نے غزوہ احزاب، جسے غزوہ خندق بھی کہتے ہیں، کے موقع پر عہد شکنی کر کے مشرکین مکہ اور دیگر گروہ، احزاب جو کہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے آئے تھے ان کے ساتھ مل گئے۔
غزوۂ احزاب اک نہایت ہی اعصاب شکن غزوہ تھا اگر چہ لشکر اسلام اور لشکر کفر کے در میان با قاعدہ جنگ تو نہ ہوئی مگر مشرکین نے تقریبا ایک ماہ تک مسلمانوں کا محاصرہ کیسے رکھا۔ مسلمانوں نے جو خندق کھود رکھی تھی اس کی وجہ سے مشرکین حملہ آور نہ ہو سکے۔ مختصر یہ کہ جب غزوہ احزاب سے فارغ ہوئے تو جبریل علیہ السلام پیغام لے کر آئے کہ آپ ﷺنے ہتھیارا تار دیئے مگر ابھی تو ان غداروں سے نمٹنا ہے۔
مسلمان بنو قریظہ پہنچے، یہود بنی قریظہ قلعہ بند ہوگئے، بالآخر انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنے آپ کو آپ ﷺکے حوالے کر دیا، انہیں قید کر کے مدینہ لایا گیا، ان میں سے کچھ لوگ مسلمان ہو گئے اور ایک شخص کو حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ نے مانگ لیا کہ زبیر بن باطا اور اس کے اہل و عیال کو ان کے لیے ہبہ کر دیا جائے۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ زبیر بن باطا کے حضرت ثابت رضی اللہ تعالی عنہ پر کچھ احسانات تھے، وہ اس بدلے میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے ان کی جان بچانا چاہتے تھے۔ تو حضرت ثابت نے زبیر بن باطا سے کہا کہ یہ لواب تم اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آزاد ہو۔ مگر جب زبیر بن باطا کو معلوم ہوا کہ اس کی قوم کو قتل کر دیا گیا ہے، تو اس نے حضرت ثابت سے کہا کہ میں نے تم پر جو احسان کیا تھا اس کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ مجھے میرے ساتھیوں تک پہنچا دو۔ حضرت ثابت نے بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر اس نے اصرار کیا۔ چنانچہ اسے بھی قتل کر دیا گیا۔
تو بات یہ ہو رہی تھی کہ ساتھیوں ، عزیزوں اور دوستوں کی وفات کا غم بہت بڑا غم اور صدمہ ہوتا ہے، بسا اوقات برداشت نہیں ہوتا ، اور یہ لمبی عمر کے منفی پہلوؤں میں سے ایک ہے جب کہ دوسری طرف نیکیوں کی توفیق کے ساتھ لمبی عمر یقینا بہتر ہے۔
جہاں تک لمبی عمر کی دعا دینے کا تعلق ہے تو وہ جیسا کہ ہم نے جانا کہ حدیث کی رو سے وہ ایک بے معنی دعا ہے چنانچہ سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہ اسے نا پسند کیا کرتے تھے ، جیسا کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ہے کہ:
٭((وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّورِي أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ رضي الله تعالي عنه أَبْقَاكَ اللهُ قَالَ: قَدْ فُرِغَ مِنْ هٰذَا ، فَادْعُ لِي بِالصَّلَاحِ)) (جزء الغضائري ، رقم:21 ، ص:28، تاريخ دمشق، ج:45 ، ص:224)
’’امام الثوری رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ کسی شخص نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ سے کہا: اللہ تعالی آپ کو باقی رکھے (سلامت رکھے) تو فرمایا: اس سے تو فارغ ہوا جا چکا ہے ، بس میرے لیے نیکی اور بھلائی کی دعا کریں ۔ یعنی عمر کی مدت کا فیصلہ تو ہو چکا اب اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا ۔‘‘
کچھ ایسا ہی امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں بھی آتا ہے:
٭((أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الإِمَامِ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، قَالَ: رَأَيْتُ أبي ، إِذَا دُعِي لَهُ بِالْبَقَاءِ يَكْرَهُهُ ، وَيَقُولُ هٰذَا شَيْءٌ قَدْ فُرِغَ منه)) (غذاء الألباب في شرح منظومة الآداب ، ج:1 ، ص:296)
’’عبد الله بن امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو دیکھا کہ جب انھیں دعا دی جاتی کہ اللہ تعالی انھیں لمبی عمر عطا فرمائے ، تو آپ اسے نا پسند کرتے اور فرماتے کہ یہ ایسی چیز ہے جس سے فارغ ہوا جا چکا ہے ۔‘‘
بہر حال اس فانی دنیا میں کسی کو بقا نہیں ہے اور دنیا کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہ ایک بہت بنیادی اور اہم بات ہے۔ اللہ تعالی ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
…………….