درود و سلام پڑھیں

 

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اس پر صلوٰۃ بھیجو اور سلام بھیجو، خوب سلام بھیجنا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِي السَّلَامَ (نسائی 1283وصححہ الشیخ زبیر)

اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہیں جو زمین میں گھومتے رہتے ہیں، وہ مجھ تک میرے امتیوں کا سلام پہنچاتے ہیں

دیگر انبیاء کرام پر درود و سلام

دیگر انبیاے کرام کے اسماے گرامی کے ساتھ بھی درود و سلام پڑھنا ثابت ھے

جیسا کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

فينزل عيسى ابن مريم صلى الله عليه وسلم.

”چنانچہ عیسیٰ بن مریم صلی اللہ علیہ وسلم (آسمان سے) اتریں گے۔“

(صحیح مسلم : 392/2، ح : 2897)

انبیاء علیھم السلام پر اللہ تعالیٰ کے سلام کا ذکر قرآن میں الگ الگ بھی آیا ہے،

جیسے :

« سَلٰمٌ عَلٰى نُوْحٍ فِي الْعٰلَمِيْنَ »

« وَ سَلٰمٌ عَلٰۤى اِبْرٰهِيْمَ »

(سَلَامٌ عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُونَ)

(سَلَامٌ عَلَىٰ إِلْ يَاسِينَ) وغیرہ

اور اکٹھا بھی آیا ہے، جیسے :

« وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِيْنَ »

درود پڑھنے کے فوائد

ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے پر اللہ تعالیٰ کی دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا)

’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔‘‘ [ مسلم : ۴۰۸]

دس نیکیاں

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

من صلى على مرة واحدة؛ كتب الله عزوجل له بها عشر حسنات .

”جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دیتے ہیں۔“

(مسند الامام أحمد : 262/2، وسنده حسن، و صححه ابن حبان : 905)

ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے پر دس گناہ معاف ہوتے ہیں اور دس درجات بلند کردیے جاتے ہیں

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ عَشْرَصَلَوَاتٍ ، وَحَطَّ عَنْہُ عَشْرَ خَطِیْئَاتٍ ، وَرَفَعَ عَشْرَ دَرَجَاتٍ)

[ صحیح الجامع : ۶۳۵۹ ]

’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کردیتا ہے۔‘‘

روزِ قیامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب وہی ہو گا جو سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجتا تھا ۔

حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(أَوْلَی النَّاسِ بِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَکْثَرُہُمْ عَلَیَّ صَلاَۃً) [رواہ الترمذی وابن حبان وابو یعلی وغیرہم]

’’ قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے قریب وہ ہو گا جو سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجے گا۔‘‘

طاعون اور دیگر بڑی مصیبتوں کے خاتمے کے سب سے بڑے وسائل میں سے : نبی کریم ﷺ پر کثرت سے درود بھیجنا!

حافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ

‏ مِن أعظم الأشياء الدافعة للطّاعون وغيره من البلايا العظام كثرةُ الصَّلاة على النبيﷺ [بذل الماعون صـ ٣٣٣]

درود و سلام نہ پڑھنے کے نقصانات

جس مجلس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر درود نہ پڑھا جائے وہ باعث حسرت ہوگی

سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:

((مَا قَعَدَ قَوْمٌ مَقْعَدًا لَا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ، وَیُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِلَّا کَانَ عَلَیْھِمْ حَسْرَۃًیَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَاِنْ دَخَلُوْا الْجَنَّۃَ لِلثَّوَابِ۔)) (مسند احمد 9494)

جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں اور اس میں نہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں اور نہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر درود بھیجتے ہیں تو وہ مجلس قیامت کے دن ان کے لیے باعث ِ حسرت ہو گی، اگرچہ وہ دوسرے اعمال کی وجہ سے جنت میں داخل ہو جائیں۔

مستری کی حسرت والی مثال

درود نہ پڑھنے والا بخیل ھے

بہت سی احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آنے پر صلاۃ بھیجنے کی تاکید آئی ہے۔

علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ اَلْبَخِيْلُ الَّذِيْ مَنْ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ ] [ ترمذي، الدعوات، باب رغم أنف رجل ذکرت عندہ… : ۳۵۴۶ ]

’’بخیل وہ ہے جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے تو وہ مجھ پر صلاۃ نہ پڑھے۔‘‘

درود نہ پڑھنے والے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بددعا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [ رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ

وَ رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَيْهِ رَمَضَانُ ثُمَّ انْسَلَخَ قَبْلَ أَنْ يُغْفَرَ لَهُ

وَ رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ أَدْرَكَ عِنْدَهُ أَبَوَاهُ الْكِبَرَ فَلَمْ يُدْخِلاَهُ الْجَنَّةَ ] [ ترمذي، الدعوات، باب رغم أنف رجل ذکرت عندہ… : ۳۵۴۵، و قال الألباني حسن صحیح ]

’’اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے تو وہ مجھ پر صلاۃ نہ بھیجے

اور اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس پر ماہ رمضان آئے، پھر وہ اس کی بخشش ہونے سے پہلے گزر جائے

اور اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے والدین اس کے پاس بڑھاپے کو پائیں پھر وہ اسے جنت میں داخل نہ کروائیں۔‘‘

درود نہ پڑھنے والا جنت کے راستے سے ہٹ جائے گا

ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(مَنْ نَسِیَ الصَّلاَۃَ عَلَیَّ خَطِیَٔ طَرِیْقَ الْجَنَّۃِ) [ ابن ماجہ، صحیح الجامع للألبانی : ۶۵۶۸،سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 2953]

’’ جو شخص مجھ پر درود بھیجنا بھول جائے وہ جنت کے راستے سے ہٹ گیا۔‘‘

جس مجلس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف نہ بھیجائے وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سامنا کر سکتی ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

أَیُّمَا قَوْمٍ جَلَسُوْا مَجْلِسًا ثُمَّ تَفَرَّقُوْا قَبْلَ أَنْ یَّذْکُرُوا اﷲَ وَیُصَلُّوا عَلَی النَّبِیِّﷺکَانَ عَلَیْہِمْ مِنَ اﷲِ تِرَۃً ، إِنْ شَائَ عَذَّبَہُمْ وَإِنْ شَائَ غَفَرَ لَہُمْ) [ ابو داؤد والترمذی ۔ وصححہ الالبانی ]

’’ جو لوگ کسی مجلس میں اکٹھے ہوں ، پھر وہ اللہ کا ذکر اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے بغیر جدا جدا ہوجائیں تویہ مجلس ان کے لیے عیب اور نقص کا باعث ہو گی۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو انھیں عذاب دے گا اور اگر چاہے گا تو انھیں معاف کردے گا۔‘‘

درود پڑھنے کے اوقات

صبح وشام

حضرت ابودردائ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(مََنْ صَلّٰی عَلَیَّ حِیْنَ یُصْبِحُ عَشْرًا ، وَحِیْنَ یُمْسِیْ عَشْرًا ، أَدْرَکَتْہُ شَفَاعَتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) [ صحیح الجامع : ۶۳۵۷ ]

’’جو آدمی صبح کے وقت دس مرتبہ اور شام کے وقت دس مرتبہ مجھ پر درود بھیجتا ہے ، اسے قیامت کے دن میری شفاعت نصیب ہو گی۔‘‘

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جائے تو ذکرکرنے اور سننے والے دونوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا چاہیے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

(رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُکِرْتُ عِنْدَہُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ) [ترمذی : ۳۵۴۵۔ وصححہ الالبانی ]

’’اس آدمی کی ناک خاک میں ملے جس کے پاس میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا۔”

نیز ارشاد فرمایا :

(اَلْبَخِیْلُ الَّذِیْ مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَہُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ) [ ترمذی : ۳۵۴۶۔ وصححہ الابانی ]

’’ بخیل وہ ہے جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔‘‘

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزرے ہوئے کسی وقت کو یاد کرتے تو آپ پر درود پڑھتے تھے۔ چنانچہ بخاری میں ہے کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھما کے مولیٰ عبداللہ نے بیان کیا :

[ أَنَّهُ كَانَ يَسْمَعُ أَسْمَاءَ تَقُوْلُ كُلَّمَا مَرَّتْ بِالْحَجُوْنِ : صَلَّی اللّٰهُ عَلٰی رَسُوْلِهِ مُحَمَّدٍ لَقَدْ نَزَلْنَا مَعَهُ هَاهُنَا، وَ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ خِفَافٌ ] [بخاري، العمرۃ، باب متی یحل المعتمر؟ : ۱۷۹۶ ]

’’اسماء رضی اللہ عنھا جب بھی حجون کے پاس سے گزرتیں تو یہ کہتیں {’’صَلَّي اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهِ مُحَمَّدٍ‘‘} ہم آپ کے ساتھ یہاں اترے تھے، ان دنوں ہم ہلکی پھلکی تھیں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر خیر کے وقت {’’صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ‘‘} کے الفاظ پر صحابہ کرام کا اجماع ہے

کسی مجلس میں بار بار آپ کا نام آنے پر ایک مرتبہ درود پڑھنا

تاہم کسی مجلس میں آپ کا نام آنے پر اگر ایک مرتبہ صلاۃ پڑھ لے تو امید ہے کہ صلاۃ نہ پڑھنے کی وعید سے بچ جائے گا۔ جیسا کہ امام ترمذی نے بعض اہلِ علم سے نقل فرمایا ہے،

إِذَا صَلَّى الرَّجُلُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّةً فِي الْمَجْلِسِ أَجْزَأَ عَنْهُ مَا كَانَ فِي ذَلِكَ الْمَجْلِسِ

جب مجلس میں آدمی ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو درود بھیج دے تو اس مجلس میں چاہے جتنی بار آپ کا نام آئے ایک بار درود بھیج دینا ہر بار کے لیے کافی ہو گا ( یعنی ہر بار درود بھیجنا ضروری نہ ہو گا )

کیونکہ حدیث کے الفاظ میں اس کی گنجائش موجود ہے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [ مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا لَمْ يَذْكُرُوا اللّٰهَ فِيْهِ وَ لَمْ يُصَلُّوْا عَلٰی نَبِيِّهِمْ إِلاَّ كَانَ عَلَيْهِمْ تِرَةً فَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُمْ وَ إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُمْ ] [ ترمذي، الدعوات، باب ما جاء في القوم یجلسون… : ۳۳۸۰، و قال الألباني صحیح ]

’’کوئی قوم کسی مجلس میں نہیں بیٹھی جس میں انھوں نے نہ اللہ کا ذکر کیا اور نہ اپنے نبی پر صلاۃ بھیجی، مگر وہ (مجلس) قیامت کے دن ان کے لیے باعث حسرت ہو گی، پھر اگر اس نے چاہا تو انھیں سزا دے گا اور اگر چاہا تو انھیں بخش دے گا۔‘‘

مسجد میں داخل ہوتے اور اس سے نکلتے ہوئے

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ صَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ وَقَالَ:‏‏‏‏ رَبِّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ وَإِذَا خَرَجَ صَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ رَبِّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ فَضْلِكَ (ترمذی 314)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد میں داخل ہوتے تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر درود و سلام بھیجتے اور یہ دعا پڑھتے: «رب اغفر لي ذنوبي وافتح لي أبواب رحمتك» ”اے میرے رب! میرے گناہ بخش دے اور اپنی رحمت کے دروازے میرے لیے کھول دے“ اور جب نکلتے تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر صلاۃ ( درود ) و سلام بھیجتے اور یہ کہتے: «رب اغفر لي ذنوبي وافتح لي أبواب فضلك» ”اے میرے رب! میرے گناہ بخش دے اور اپنے فضل کے دروازے میرے لیے کھول دے“۔

ابو اسید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلْيُسَلِّمْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لِيَقُلْ اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ فَإِذَا خَرَجَ فَلْيَقُلْ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ

جب تم میں سے کوئی ایک مسجد میں داخل ہو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر سلام پڑھے پھر یہ دعا کرے

اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ

اور جب مسجد سے باہر نکلے تو یہ دعا پڑھے

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ (أبو داؤد 465 وصححہ الشیخ زبیر)

آذان کے بعد

عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

«إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى الله عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا اللهَ لِيَ الْوَسِيلَةَ، فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ، لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللهِ، وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ، فَمَنْ سَأَلَ لِي الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ لَهُ الشَّفَاعَةُ» (مسلم 849)

جب تم مؤذن کو سنو تو اسی طرح کہو جیسے وہ کہتا ہے ، پھر مجھ پر درود بھیجو کیونکہ جو مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، پھر اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ مانگو کیونکہ وہ جنت میں ایک مقام ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا اور مجھے امید ہے وہ میں ہوں گا ، چنانچہ جس نے میرے لیے وسیلہ طلب کیا اس کے لیے ( میری ) شفاعت واجب ہو گئی

وضاحت

آذان سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پڑھنا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ھے

دعا سے پہلے حمد و ثناء اور درود پڑھیں

حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں

بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدًا إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّى، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ عَجِلْتَ أَيُّهَا الْمُصَلِّي، ‏‏‏‏‏‏إِذَا صَلَّيْتَ فَقَعَدْتَ فَاحْمَدِ اللَّهَ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلِّ عَلَيَّ ثُمَّ ادْعُهُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ صَلَّى رَجُلٌ آخَرُ بَعْدَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَحَمِدَ اللَّهَ وَصَلَّى عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَيُّهَا الْمُصَلِّي ادْعُ تُجَبْ (ترمذی 3476) [ ابو داؤد : ۱۴۸۱ ، ترمذی : ۳۴۷۷ ۔ وصححہ الالبانی ]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں کے ساتھ ( مسجد میں ) تشریف فرما تھے، اس وقت ایک شخص مسجد میں آیا، اس نے نماز پڑھی، اور یہ دعا کی: اے اللہ! میری مغفرت کر دے اور مجھ پر رحم فرما، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے نمازی! تو نے جلدی کی، جب تو نماز پڑھ کر بیٹھے تو اللہ کے شایان شان اس کی حمد بیان کر اور پھر مجھ پر صلاۃ ( درود ) بھیج، پھر اللہ سے دعا کر“، کہتے ہیں: اس کے بعد پھر ایک اور شخص نے نماز پڑھی، اس نے اللہ کی حمد بیان کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے نمازی! دعا کر، تیری دعا قبول کی جائے گی“۔

عبداللہ بن مسعود‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ:

إِذَا أَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يَّسْأَلَ، فَلْيَبْدَأْ بِالْمِدْحَةِ، وَالثَّنَاءِ عَلَى اللهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ لْيُصَلِّ عَلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم ، ثُمَّ لِيَسْأَلْ بَعْدُ فَإِنَّهُ أَجْدَرُ أَنْ يََّْجَحَ (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 222)

جب تم میں سے کوئی شخص مانگنا چاہے تو اللہ کی حمدوثنا سے ابتداء کرے ،پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے پھر اس کے بعد مانگے ،یہ کامیابی کے لئے زیادہ مناسب ہے

جمعہ کے روز

حضرت اوس بن اوس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی بعض خصوصیات ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا :

(۔۔۔فَأَکْثِرُوْا عَلَیَّ مِنَ الصَّلاَۃِ فِیْہِ ، فَإِنَّ صَلاَتَکُمْ مَعْرُوْضَۃٌ عَلَیَّ قَالَ : قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اﷲﷺِ ! وَکَیْفَ تُعْرَضُ صَلاَتُنَا عَلَیْکَ وَقَدْ أَرِمْتَ ؟ قَالَ : یَقُوْلُوْنَ : بَلَیْتَ ، فَقَالَ : إِنَّ اﷲَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَی الْأرْضِ أَجْسَادَ الْأنْبِیَائِ) [ ابو داؤد :۱۰۴۷ ۔ وصححہ الالبانی ،سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 2779]

’’ لہذا تم اس دن مجھ پر زیادہ درود بھیجا کرو ، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جبکہ ( قبر میںآپ کا جسدِ اطہر ) تو بوسیدہ ہو جائے گا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین پر یہ بات حرام کردی ہے کہ وہ انبیا کے جسموں کو کھائے۔‘‘

انس‌رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ

أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةِ الْجُمُعَةِ فَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلاةً صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ عَشْرًا (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 2777)

جمعے کے دن اور جمعہ کی رات مجھ پر کثرت سے درود پڑھو، کیوں کہ جس شخص نے مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجے گا

درود و سلام کے الفاظ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ پر صلاۃ کے لیے کئی الفاظ مروی ہیں، جو سبھی اس مقصد کے لیے پڑھے جا سکتے ہیں۔

01.درود ابراہیمی

کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں :

’’ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا : ’’ہم نے کہا : ’’آپ کے اہلِ بیت (گھر والوں) پر صلاۃ کس طرح ہے؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ تو سکھا دیا ہے کہ ہم آپ پر سلام کیسے بھیجیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم یوں کہو

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی إِبْرَاهِيْمَ وَ عَلٰی آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ، اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب : ۳۳۷۰ ]

اے اللہ! محمد اور آل محمد پر صلاۃ بھیج، جیسے تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر صلاۃ بھیجی، بے شک تو تعریف کیا ہوا بزرگی والا ہے اور اے اللہ! محمد اور آل محمد پر برکتیں نازل فرما، جس طرح تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر برکتیں نازل فرمائیں، بے شک تو تعریف کیا ہوا ہے، بزرگی والا ہے۔‘‘

اس حدیث اور دوسری احادیث میں صحابہ کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سکھا دیا ہے کہ ہم آپ پر سلام کیسے بھیجیں، اس سلام سے مراد نماز کے تشہد میں سلام کی تعلیم ہے۔

02. ابو مسعود عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

’’ایک آدمی آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، اس نے کہا : ’’یا رسول اللہ! آپ پر سلام کو تو ہم جان چکے، اب ہم آپ پر صلاۃ کیسے بھیجیں، جب ہم اپنی نماز میں صلاۃ بھیجیں، اللہ تعالیٰ آپ پر صلاۃ نازل فرمائے؟‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے، حتیٰ کہ ہم نے چاہا کہ یہ شخص یہ سوال نہ کرتا کہ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

: ’’جب تم مجھ پر صلاۃ بھیجو تو اس طرح کہو۔‘‘

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی إِبْرَاهِيْمَ وَ آلِ إِبْرَاهِيْمَ وَ بَارِكْ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ كَمَا بَارَكْتَ عَلیٰ إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ ]

[مسند أحمد : 119/4، ح : ۱۷۰۷۶، مسند احمد کے محقق نے بارہ کتب حدیث سے اس حدیث کا حوالہ نقل کر کے اس کی صحت بیان فرمائی ہے ]

03. سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول! آپ پر درود کیسے پڑھا جائے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ سکھائے :

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ .(مسند الإمام أحمد : 162/2؛ سنن النسائي : 1290، وسنده حسن)

”اے اللہ! محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر رحمت نازل کر، جیسا کہ تو نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر رحمت نازل کی، یقیناً تو قابل تعریف، بڑی شان والا ہے۔ اے اللہ محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر برکت نازل کر، جیسا کہ تو نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام برکت نازل کی، یقینا تو قابل تعریف، بڑی شان والا ہے۔“

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو ’’حسن“ قرار دیا ہے۔ (التلخيص الحبير :268/1)

04. سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

سیدنا بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم آپ پر کیسے درود پڑھیں؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یوں کہا کرو :

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ (الموطا للامام مالك : 179/1؛ صحيح مسلم : 405)

05. سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

”صحابہ کرام نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم آپ پر درود کیسے پڑھیں؟ اس پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : یوں کہو:

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ (الموطأ للامام مالك:165/1؛ صحيح البخاري: 3369؛ صحيح مسلم : 407)

06. سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

”ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول! ہم آپ پر درود کس طرح پڑھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوں کہو:

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ (صحیح البخاري: 4798، 6358)

07. سیدنا ز ید بن خارجہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ آپ پر درود کیسے پڑھا جائے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نماز پڑھو اور (ذکر الہٰی میں) خوب کوشش کرو، پھر کہو:

اللهم بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ (مسند الإمام أحمد : 1 /199؛ سنن النسائي : 1292، وسنده صحيح)

08. جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا جبرائیل علیہ السلام کے ہمراہ تیسرے آسمان پر گئے تو ان سے پوچھا گیا:

ومن معك؟

”آپ کے ساتھ کون ہیں؟“

اس پر جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا:

محمد صلى الله عليه وسلّم.

”میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔“

(صحیح مسلم :162)

تمام صحابہ کرام جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرتے یا آپ کا نام لیتے تھے تو {’’صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ‘‘} کے الفاظ ادا کرتے تھے

ایک ضروری وضاحت

صلی اللہ علیہ و سلم کی بجائے صرف (ص) یا (صلعم) لکھنا درست نہیں ہے

بدعی درود

یاد رہے کہ اہل بدعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ذات گرامی پر اکتفا نہیں کرتے۔ نت نئے شرکیہ اور مبالغہ آمیزی پر مبنی درود بنا کر ان کے فضائل گھڑتے رہتے ہیں۔ اب لوگوں کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ مارکیٹ میں جا کر پوچھتے ہیں کہ نیا درود کونسا آیا ہے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کے صیغے کے ساتھ {’’الصلاة‘‘} کا لفظ، مثلاً {’’اَلصَّلَاةُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ!‘‘} رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یا کسی صحابی سے ثابت نہیں

اسی طرح الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ جیسے الفاظ بھی غیر ثابت شدہ ہیں

درود تنجینا، درود مقدس، درود تاج، دروج لکھی، درود اکبر، درود خضریہ، نقشبندیہ،مجددیہ اور درود ماہی وغیرہ کا کوئی ثبوت نہیں ہے

کیا پوری زندگی میں صرف ایک مرتبہ درود پڑھنا کافی ہے

بعض حضرات کی اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ صلاۃ و سلام زندگی میں صرف ایک دفعہ فرض ہے۔ بلکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ کلمۂ شہادت بھی زندگی میں صرف ایک دفعہ قبولِ اسلام کے وقت پڑھنا فرض ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے حکم

{’’صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا ‘‘}

سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پر عمل کے لیے تشہد میں سلام اور صلاۃ کے الفاظ کی بہ نفس نفیس تعلیم سے ظاہر ہے کہ کم از کم نماز میں یہ صلاۃ و سلام پڑھنا ضروری ہے۔ حالانکہ صلاۃ کے علاوہ کلمہ شہادت پڑھنے کا حکم بھی ہر تشہد میں، اذان کا جواب دینے میں اور دوسرے کئی مقامات پر آیا ہے۔ اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ یہ لوگ زندگی میں صرف ایک دفعہ کلمہ اور درود پڑھنا فرض ہونے پر امت کے اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں، حالانکہ انھیں خوب معلوم ہے کہ کتنے جلیل القدر ائمہ نے نماز میں درود و سلام کو فرض تسلیم کیا ہے، پھر بھی اپنے غلط دعویٔ اجماع پر اصرار کرتے چلے جاتے ہیں۔

(ماخوذ از تفسیر القرآن الکریم للشيخ عبد السلام بن محمد حفظہ اللہ)

کیا نماز کے علاوہ درود ابراہیمی پڑھنا گناہ ہے

صاحبزادہ مفتی اقتدار احمد خان نعیمی بریلوی لکھتے ہیں:

”اور یہ مسئلہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ نماز والا اور درود ابراہیمی صرف نماز میں پڑھ سکتے ہیں، نماز کے علاوہ پڑھنا گناہ اور ناجائز ہے، اس لئے کہ اس میں سلام نہیں ہے، حالانکہ بحکم قرآنی سلام پڑھنا بھی درود شریف کے ساتھ اسی طرح واجب ہے جس طرح درود شریف، وہ درود ناقص ہے جس میں سلام نہ ہو۔ درود ابراہیمی نماز میں اس لئے جائز ہے کہ تشہد میں سلام پڑھ لیا گیا وہاں آیتِ صلوۃ پر مکمل عمل ہو گیا، وہابی دیوبندی حضرات چونکہ سلام کے منکر اور دشمن ہیں، اس لئے وہ درود ابراہیمی پڑھنے پر زور دیتے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی بعض جاہل پیر اپنی حماقت سے درود ابراہیمی پڑھنے کا حکم دیتے ہیں مگر قرآن مجید کی آیت پر غور نہیں کرتے، ہر وظیفہ کے لئے سب سے مکمل اور مختصر درود شریف خضری ہے وہ پڑھنا چاہئے۔“

(تفسیر نعیمی، جلد : 16، ص 110 مطبوعہ نعیمی کتب خانہ، گجرات)

مذکورہ عبارت سے درج ذیل باتیں عیاں ہوتی ہیں:

01. درود ابراہیمی نماز کے علاوہ کسی بھی دوسرے موقع پر پڑھنا گناہ اور ناجائز ہے اور وہاں بھی صرف اس لئے جائز ہے کہ تشہد میں درود سے پہلے سلام پڑھ لیا ہوتا ہے، ورنہ وہاں بھی اس درود کی کوئی جگہ نہیں بنتی۔

02. سلام کے بغیر درود ثواب کی بجائے ناجائز اور گناہ کا سبب ہے گا۔

03. اکیلے درود ابراہیمی سے سلام کا انکار لازم آئے گا، جو لوگ اکیلا درود پڑھتے ہیں، وہ سلام کے منکر اور دشمن ہیں۔

04. اکیلے درود ابراہیمی کی تلقین کرنے والے لوگ احمق ہیں۔

05. درود ابراہیمی کی بجائے درود خضری پڑھنا چاہئے