عبادات کے فوائد
إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
﴿ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن﴾ [الذاريات: 56]
اللہ رب العزت نے بنی نوع انسان کے لیے بے شمار ان گنت نعمتیں پیدا فرمائی ہیں کہ ساری دنیا کے انسان مل کر ان نعمتوں کو احاطہ شمار میں نہیں لا سکتے۔ اس مضمون کو اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں دو دفعہ بیان فرمایا ہے:
اللہ تعالی سورہ ابراہیم آیت نمبر 3۴ میں فرماتے ہیں:
﴿ وَ اٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ ؕ وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ؕ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ۠۳۴﴾ [ابراهيم: 34]
’’اس نے تمہیں تمہاری منہ مانگی کل چیزوں میں سے دے رکھا ہے۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو انہیں پورا گن بھی نہیں سکتے۔ یقینًا انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے۔‘‘
اور سورۃ النحل آیت نمبر 18 میں ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ [النحل: 18)
’’اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو تم اسے نہیں کر سکتے۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
یہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر، یہ بہتے ہوئے دریا، یہ رخ بدلتی ہوائیں، یہ گردش کرتے ہوئے سورج چاند اور ستارے، یہ بدلتے ہوئے موسم، یہ برستی ہوئی بارشیں، یہ زمین سے نکلتی ہوئی طرح طرح کی پیداوار، یہ زمین پر پھیلائے گئے قسم قسم کے جانور، یہ قیمتی معدنیات سے بھرے پہاڑ، یہ فضاؤں میں اڑتی ہوئی پرندوں کی ڈاریں، یہ لہلہاتے کھیت، یہ سرسبز شاداب باغات، یہ پھوٹتے ہوئے چشمے اور گرتی ہوئی آبشاریں، یہ سب کچھ انسان کے لیے ہے اور انسان رب کائنات کی عبادت کے لیے ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ﴾ [الذاريات: 56]
’’میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘
لمحہ فکریہ:
حقیقت تو یہ ہے کہ انسان ساری زندگی محو عبادت رہے فرضی و نفلی عبادات بجا لاتا رہے پھر بھی اللہ کی بے شمار نعمتوں میں سے کسی ایک نعمت کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ لیکن اللہ ارحم الراحمین کی رحمت دیکھئے! وہ اپنے بندوں کی عبادات کی اتنی زیادہ قدر کرتا ہے کہ مزید نعمتوں، رحمتوں، برکتوں اور بخششوں کی بوچھاڑ کرتا ہے۔
آئیے ذرا جائزہ لیں کہ ہمیں عبادت کے صلے میں کیا کچھ ملنے والا ہے۔
1۔ عبادت اللہ کی محبت اور قرب کا ذریعہ ہے:
حدیث قدسی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ’’میرا بندہ کسی طریقے سے میرا اتنا قرب حاصل نہیں کر سکتا جتنا میرے مقرر کردہ فرائض کی ادائیگی سے حاصل کر سکتا ہے، اور اگر وہ (فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ) نوافل کے ذریعے بھی میرا قرب حاصل کرنے لگے تو میں اس سے محبت کرتا ہوں۔‘‘[صحيح البخاري، كتاب الرقاق، باب التواضع، رقم: 6502]
معلوم ہوا، فرائض سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور نوافل سے اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے۔
2۔ عبادت جنت میں پیغمبر ﷺ کی رفاقت کا ذریعہ ہے:
حضرت ربیع بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت کے لیے رات بھر مستعد رہتا تھا۔ میں آپ ﷺ کے پاس آپ کے وضو کا پانی اور دوسری ضرورت کی اشیاء (مسواک وغیرہ) لاتا۔ آپﷺ نے مجھ سے فرمایا:
’’سوال کرو۔‘‘ میں نے عرض کیا: میں آپ (ﷺ) سے جنت میں آپ کی رفاقت کا سوال کرتا ہوں۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
’’کیا اس کے علاوہ (بھی تیرا کوئی سوال) ہے؟“
میں نے کہا، بس یہی سوال ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
(فَاَعِنِّى عَلٰى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ﴾[صحیح مسلم، كتاب الصلاة، باب فضل السجود والحث عليه (189) و ابوداود (1320) والبيهقي (182/2)]
’’تو تجھے اپنے نفس کے مقابلہ میں زیادہ نوافل ادا کر کے میری مدد کرنا ہو گی۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ زیادہ سجدے کر کے اور زیادہ نوافل ادا کر کے اپنے آپ کو اس اہل بناؤ کہ میں آپ کے حق میں اپنی رفاقت کی سفارش کر سکوں۔
3۔ عبادت سے گناہ معاف ہوتے ہیں:
رب ارض و سماء سورہ ہود آیت نمبر 114 میں فرماتے ہیں:
﴿ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ ؕ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِ ؕ ذٰلِكَ ذِكْرٰی لِلذّٰكِرِیْنَ﴾ [هود: 114)
’’دن کے دونوں سروں میں نماز بر پارکھ اور رات کی کئی ساعتوں میں بھی یقینًا نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لیے۔‘‘
معلوم ہوا نیکیاں (عبادتیں) گناہوں کو مٹا دیتی ہیں۔
اور صیح مسلم میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’پانچ نمازیں اور جمعہ کی نماز اگلے جمعہ تک اور رمضان کے روزے اگلے رمضان کے روزوں تک ان گناہوں کو مٹا دیں گے جو ان کے درمیانی عرصہ میں ہوئے۔ بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے۔ العلم نے فرمایا:[صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب الصلوات الخمس (233) و الترمذی (219)]
اس حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے کہ عبادات سے تمام صغیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
4۔ عبادت سے درجات بلند ہوتے ہیں:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں ایسی چیز سے خبردار نہ کروں جس سے اللہ تعالی گناہوں کو محو کر دے گا اور درجات کو بلند کر دے گا۔‘‘
انہوں نے جواب دیا، اے اللہ کے رسول ﷺ ضرور بتائیں:
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مشقت کے اوقات میں مبالغہ آرائی سے وضو کرنا۔ مساجد کی جانب قدموں کا زیادہ اٹھنا اور نماز کے بعد (دوسری) نماز کا انتظار کرنا۔‘‘
پھر آپ ﷺ نے ان تینوں عبادتوں کا ایک مزید فائدہ بتلایا: ’’کہ یہ شیطان کے خلاف مورچہ بندی ہے، یہ شیطان کے خلاف مورچہ بندی ہے۔[صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب فضل إسباغ الوضوء على المكاره، رقم: (587)]
یعنی ان اعمال سے شیطان بھاگ جاتا ہے اور انسان شیطان کے حملے سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
5۔ عبادت کے لیے فراغت نکالنے سے فقر وفاقہ دور ہوتا ہے:
ابن ماجہ کی روایت ہے، حدیث قدسی ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ
بے شک اللہ تعالی فرماتے ہیں:
(يا ابن آدم) ’’اے آدم کے بیٹے‘‘
(تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِي) ’’میری عبادت کے لیے فراغت اختیار کر۔‘‘
(أَمْلَأُ صَدْرَكَ غِنًى وَاَسُدَّ فَقْرَكَ)
’’میں تیرے دل کو غنا سے بھر دوں گا۔ اور تیرے فقر کو ختم کر دوں گا۔‘‘
(وَإِنْ لا تَفْعَلُ مَلَاْتُ يَدَكَ شُغُلًا وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَكَ) [جامع الترمذي، كتاب صفة القيامة والرقائق، باب، رقم: 2466 و سنن ابن ماجه، رقم: 4107]
’’اور اگر تو ایسا نہیں کرے گا تو میں تجھے مشاغل میں ڈال دوں گا اور تیری ضرورتوں کو پورا نہیں کروں گا۔‘‘
اللہ اکبر! آج لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نماز و جمعہ اور دیگر عبادات کے لیے دکان، کارخانہ اور مزدوری بند کریں گے تو ہمارا رزق تنگ ہو جائے گا نفع کم ہو جائے گا، ہم فقیر ہو جائیں گے لیکن کائنات کا رب اعلان کر رہا ہے کہ اگر تم ایسا کرو گے تو میں تمہاری محتاجی دور کر دوں گا اور رزق میں برکت ڈالوں گا۔
6۔ عبادت جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ذریعہ ہے:
﴿یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ [البقرة:21]
’’اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا، یہی تمہارا بچاؤ ہے۔ (یعنی اسی طریقے سے تم عذاب جہنم سے بچ سکتے ہو)‘‘
7۔ عبادت سے فرشتوں کی دُعا حاصل ہوتی ہے:
بخاری و مسلم کی روایت ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب آدمی فرض نماز ادا کر کے اپنی جگہ پر ہی بیٹھا رہتا ہے اور ذکر اذکار میں مشغول و مصروف رہتا ہے۔ جب تک وہ جگہ تبدیل نہیں کرتا۔ فرشتے اس کے لیے (یوں) مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں:
(اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ) [صحيح مسلم، كتاب المساجد، باب فضل الصلاة المكتوبة في جماعة الخ، رقم: 1506 و صحيح البخاري، رقم: 647]
’’اے اللہ! اس کی مغفرت فرما۔ اے اللہ! اس پر رحمت نازل فرما۔‘‘
اور سورۃ المؤمن آیت نمبر (7) میں ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَ مَنْ حَوْلَهٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَ یَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَةً وَّ عِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اتَّبَعُوْا سَبِیْلَكَ وَ قِهِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ۷﴾ [المؤمن: 7]
’’عرش کے اٹھانے والے اور اس کے آس پاس (کے فرشتے) اپنے رب کی تسبیح حمد کے ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لیے استغفار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہر چیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے، پس تو انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راہ کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچالے۔‘‘
معلوم ہوا اللہ کے وہ مومن جو فرائض و واجبات میں استقامت اختیار کرتے اور عبادات کے ساتھ تو بہ واستغفار کرتے ہیں ان کے حق میں مقرب فرشتے دعائیں کرتے ہیں۔
8۔ عبادت سے دل کو قرار اور سکون حاصل ہوتا ہے:
سنن ابی داؤد میں حدیث ہے کئی دفعہ نماز کا وقت، ہوتا تو امام الانبیاء جناب محمد رسول الله ﷺ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیتے:
’’اے بلال (رضی اللہ تعالی عنہ)! اٹھو اذان کہو اور ہمیں راحت پہنچاؤ۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ اذان کہوتا کہ ہم نماز ادا کر کے راحت اور سکون حاصل کریں۔ لیکن آج اذان سن کر بعض لوگوں کو سر درد شروع ہو جاتا ہے اور انہیں نماز بوجھ محسوس ہوتی ہے۔
9۔ عبادت پریشانیوں کا حل ہے:
جامع الترمذی میں حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب بھی کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو نماز میں مشغول ہو جاتے۔[سنن أبي داود، كتاب الصلاة (319) و صحیح فی داود (261/1)]
اس سے معلوم ہوا کہ نماز اور عبادت پریشانیوں کا علاج ہے۔
10۔ عبادت سے آخرت میں حسن و جمال اور زیور حاصل ہوگا:
بخاری و مسلم کی روایت ہے، حضرت ابو ہریرہ ہی دار کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’میری امت کو قیامت کے دن بلایا جائے گا تو ان کے چہر ہے اور ہاتھ پاؤں وضو کے نشانات کی برکت سے چمکتے ہوں گے پس تم میں جو شخص استطاعت رکھتا ہے کہ وہ اپنی سفیدی کو بڑھائے تو وہ ایسا کرے۔[صحيح البخاري، كتاب الوضوء، باب فضل الوضوء والغر المحجلون من آثار الوضوء (136) و مسلم (246)]
اور صحیح مسلم میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(تبْلُعُ الْحِلْيَةُ مِنَ الْمُؤْمِنِ حَيْثُ يَبْلُغُ الْوُضُوءُ) [صحیح مسلم، كتاب الطهارة، باب تبلغ الحلية حيث يبلغ الوضوء (250)]
’’مؤمن جنت میں وہاں تک زیور پہنے ہو گا جہاں تک وضوء کا پانی پہنچتا رہا۔‘‘
سبحان اللہ! عبادت سے یہ کتنی بڑی سعادت حاصل ہو رہی ہے کہ عبادت کی وجہ سے جنت میں زیور پہنایا جائے گا۔
حقیقت ہے عبادت کے صلے میں ملنے والے اتنے سارے انعامات کے باوجود اگر ہم عبادت نہ کریں تو سوائے محرومی کے کچھ نہیں۔
لیکن یاد رکھیے! عبادت کے یہ تمام فوائد تب حاصل ہوں گے جب عبادت قرآن و سنت کے مطابق ہوگی۔ شریعت اسلامیہ میں سب سے اہم ترین عبادت نماز ہے۔ جس کے بارے میں سرور کونین جناب حضرت محمد رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أَصَلَّى) [صحيح البخاري، كتاب الأدب، باب رحمة الناس والبهائم (2008) و مسلم (391) و ابوداؤد (589)]
’’نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘
یعنی میری سنت اور میرے طریقے کے مطابق نماز پڑھو۔ اور دین اسلام کا ایک اہم ترین رکن فریضہ حج ہے۔ جس کے متعلق نبی ﷺ نے فرمایا:
(خُذُوا عَلَى مَنَاسِكَكُمْ)
’’مجھے سے حج کے طریقے سیکھ لو۔‘‘
معلوم ہو حج بھی تبھی قبول ہو گا جب قرآن وسنت کے مطابق ہوگا۔ اور ہر عمل صالح اور عبادت کی قبولیت کے لیے یہ شرط ہے کہ عمل قرآن وسنت کے مطابق ہو۔ ورنہ ﴿عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ﴾ کئی بدنصیب لوگ عمل کر کر کے عبادت کر کر کے کھلے ہوں گے مگر (تَصْلٰی نَارًا حَامِیَةً) بھڑکتی آگ میں داخل ہوں گے۔ (سورۃ الغاشیہ) کیونکہ ان کی عبادتیں، ان کے اعمال قرآن وسنت کے مطابق نہیں ہوں گے، بلکہ من گھڑت، خود ساختہ اور نئے ایجاد کردہ ہوں گے۔
اور سورۃ الکہف میں مزید وضاحت موجود ہے، ارشاد باری تعالی ہے:
﴿قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَحْسَرِينَ أَعْمَالًا﴾ [الكهف: 103]
’’کہہ دو کیا ہم تمہیں بتلائیں کہ عملوں کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارہ پانے والے کون ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کی محنت (عبادات وحسنات) قرآن و سنت کے مطابق نہیں بلکہ ضلالت و گمراہی کے مطابق ہے لیکن وہ اپنی جگہ اس خوش فہی میں ہیں کہ ہم اچھے عمل کر رہے ہیں (ایسے لوگ بہت بڑے خسارے میں ہیں۔)‘‘
سورۃ الفرقان میں مزید فرمایا:
﴿وَقَدِمْنَا إِلٰى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ ھَبَاءً مَّنثُورًا﴾ [الفرقان: 23]
’’ہم ان کے تمام عملوں کو اڑائی ہوئی گردو غبار بنادیں گئے۔‘‘
اس لیے ہر عبادت اور عمل صالح کا قرآن وسنت کے مطابق ہونا ضروری ہے ورنہ ساری محنت رائیگاں جائے گی۔
اور آخر میں عبادت کا سادہ مفہوم بھی سمجھ لیں:
عبادت کا مفہوم:
اللہ تعالی کو قادر مطلق اور خالق و مالک مانتے ہوئے، کائنات کی ہر چیز میں تصرف کرنے والا تسلیم کرتے ہوئے اس کی بارگاہ میں عاجزی وانکساری کرتا اور اس کی تعظیم بجالا نا عبادت ہے، عبادت کے وسیع مفہوم کے اعتبار سے تو پورا دین اللہ کی عبادت ہے۔ لیکن پورے دین میں سے اہم ترین وہ عبادات ہیں جو ارکان اسلام میں سے ہیں (یعنی نماز، روزہ، حج اور زکوۃ وغیرہ) اور ان تمام عبادات میں سے اہم ترین عبادت نماز پنجگانہ ہے جو مسلمان ہونے کی علامت اور پہچان ہے۔ اللہ تعالی ہمیں تمام عبادات صحیح طور پر بجالانے کی توفیق عطاء فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔