عید الاضحیٰ

الله أكبر، الله أكبر، اللهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أكبر، الله أكبر.
﴿ وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰی مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ ؕ فَاِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗۤ اَسْلِمُوْا ؕ وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَۙ۝﴾(الحج:34)
یہ عید الاضحی کا دن ہے، خوشی اور مسرت کا دن ہے، خوشی اور مسرت انسان کی فطری ضرورت و احتیاج ہے، اور زندگی کا لازمہ ہے۔ خوشی انسان کو اگر زندگی میں میسر نہ آئے تو اس کے دسیوں نقصانات ہیں خوشی انسان کے دل میں گزرنے والے ایک نفسیاتی اور طبعی شعور کا نام ہے، جو کہ ہر شخص کے دل میں مختلف حالات و واقعات کے تحت پیدا ہوتا ہے، اس کے مختلف اسباب ہوتے ہیں، اس کی مختلف قوت اور شدت ہوتی ہے، اس کے اظہار کے مختلف طریقے اور مختلف اصول وضوابط ہوتے ہیں۔
دین اسلام دین فطرت ہے، دین اخلاق و آداب ہے، اور دین غیرت وحیا ہے، لہٰذا اسلام کے ہاں خوشی کے اسباب، اس کے اظہار کے طریقے اور اس کے منانے کے اصول و ضوابط دیگر تمام ادیان و مذاہب سے مختلف ہیں۔
یہ تو سب جانتے ہیں کہ جسم کی کچھ فطری ضرورتیں اور خواہشیں ہیں جیسے جسم کو غذا کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح اور بہت ساری فطری ضرورتیں ہوتی ہیں، اور جب تک انسان کی وہ قطری ضرورت پوری نہ ہو انسان بے چین و بے قرار رہتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان کی روح کی بھی کچھ فطری ضرورتیں اور خواہشیں ہیں، اور ان میں سے ایک یہی ہے کہ اسے بھی غذا کی ضرورت ہوتی ہے، اور اگر اسے اس کی غذا میسر نہ آئے تو وہ بے چین و بے قرار رہتی ہے۔
تو جس طرح جسم کو غذا کی ضرورت ہے، اسی طرح روح کو بھی غذا کی ضرورت ہے، اور اگر انہیں ان کی غذا میسر نہ آئے تو خوشی حاصل نہیں ہو سکتی یعنی خوش نہیں رہا جا سکتا ۔ جسم کی غذا میسر نہ آنے پر انسان کی بے چینی و بے قراری، اور افسردگی و پژمردگی تو سب کو معلوم ہے، مگر روح کی غذا میسر نہ آنے پر روح پر کیا گزرتی ہے، اس کا شاید اکثر لوگوں کو ادراک نہیں ہے۔ وہ اس کمی اور نفس کی اس پژمردگی کو محسوس کریں یا نہ کریں مگر نہاں خانہ دل میں اس کمی کا احساس موجود رہتا ہے اور شدت سے محسوس کیا جاتا ہے۔
اس کی بیسیوں مثالیں ہیں کہ انسان کی ظاہری شکل وصورت اور شان و شوکت سے لگاتا ہے کہ وہ بہت خوش مطمئن اور پر سکون ہے، مگر حقیقت میں اندر سے دو نوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے، رنجیدہ، مایوس اور دل شکستہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو جھوٹی تسلیوں اور مصنوعی اور خود ساختہ حکمتوں اور فلسفوں کے ذریعے مطمئن کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے جو کہ انتہائی سطحی اور ا علمی اور نادانی پر مبنی خیالات اور وسوسے ہوتے ہیں حقیقت میں اسے خوب معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔
﴿ بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰى نَفْسِهٖ بَصِیْرَةٌۙ۝۱۴
وَّ لَوْ اَلْقٰى مَعَاذِیْرَهٗؕ۝﴾(القيامة:14۔ 15)
’’انسان خود اپنے آپ کو خوب جانتا ہے چاہے وہ کتنے ہی حیلے بہانے بنائے اور معذرتیں پیش کرے۔‘‘
بالآخر اس کی اس مصنوعی شان و شوکت اور سکون واطمینان کی ہنڈیا بیچ چوراہے کے پھوٹتی ہے، جب وہ خودکشی کر کے اپنی مصنوعی خوشیوں کا پول کھول دیتا ہے۔ اور ایسے بیسیوں واقعات ہیں کہ لوگ جنہیں ان کی ظاہری شان و شوکت دیکھ کر دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھتے تھے، مگر جب ان کی ذاتی زندگیوں کا مطالعہ کیا گیا تو حقیقت منکشف ہوئی کہ وہ اندر سے کھو کھلے اور شدید رنجیدگی اور مایوسی کا شکار تھے، اور یوں وہ بد قسمت ترین انسان ظاہر ہوئے۔
غیر مسلم اقوام کے خوشی کے تہواروں میں روح کی غذا کا اہتمام نہیں ہوتا، اور نہ ہی اخلاق و آداب کی پابندی ہوتی ہے، اور نہ غیرت و حیا کا کہیں نام ونشان ہوتا ہے۔ و مگر اسلام میں مسلمانوں کے لیے خوشی کے جو دو تہوار مقرر فرمائے گئے ہیں ان کی تو بنیاد ہی دین ہے جو کہ روح کی غذا کا ساماں ہے، جبکہ اس کے علاوہ روز مرہ کے معاملات میں بھی روح کی غذا کا ایسا اہتمام کیا گیا ہے کہ اہل ایمان کو خوب متنبہ کر دیا گیا ہے کہ جان لوا کوئی ایسی محفل اور کوئی ایسی مجلس کہ جس میں اللہ تعالی کا ذکر نہ ہو آدمی کے لیے قیامت کے دن حسرت و افسوس بن جائے گی۔
چنانچہ حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا لَمْ يَذْكُرُوا اللهَ فِيهِ، وَلَمْ يُصَلُّوا عَلَى نَبِيِّهِمْ إِلَّا كَانَ عَلَيْهِمْ تَرَةً، فَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُمْ وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُمْ))(ترمذي:3380)
’’جو لوگ کسی محفل میں بیٹھتے ہیں، اور پھر اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کرتے اور اپنے نبی ﷺ پر درود نہیں پڑھتے تو انہیں قیامت کے دن اس پر حسرت و ندامت ہوگی ۔ اللہ تعالی چاہیں گے تو سزا دیں گے اور چاہیں گے تو معاف کر دیں گے۔‘‘
تو اسلام میں جب معمول کے کاموں میں، روز مرہ کے معمولات میں کوئی غفلت قبول نہیں ہے، تو اتنے بڑے تہوار میں کوئی کوتاہی کیسے قبول ہو سکتی ہے۔ اور ویسے بھی خوشی کا موقع تو ایسا موقع ہے کہ جس میں خصوصی طور پر ذکر کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اکثر و بیشتر لوگ ایسے موقعوں پر حد سے تجاوز کر جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور یاد کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
یہ انسان کی فطری کمزوری ہے کہ اس کے جذبات بہت جلد بے قابو ہو جاتے ہیں، اس سے پابندی برداشت نہیں ہوتی ، وہ اس سے تحفن اور انقباض محسوس کرتا ہے، رسیاں تڑواتا ہے اور چھوٹ چھوٹ جاتا ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((أَنَا أٰخَذٌ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ، وَأَنتُمْ تَفَلَّتُونَ مِنْ يَدِي))
’’ میں تمہیں کمر بند سے پکڑ پکڑ کر آگ سے بچانے کی کوشش کرتا ہوں ، مگر تم میرے ہاتھ سے چھوٹ چھوٹ جاتے ہو۔‘‘
تو خوشی کے موقع پر آپے سے باہر ہو جانا ، اخلاق و آداب سے بے نیاز ہو جانا، اصول و ضوابط کو پس پشت ڈال دینا اور جو جی میں آئے کر گزرنا، اور ہر نا جائزہ اور منع کردہ کام کو یہ کہہ کر جائز قرار دے لینا کہ کوئی بات نہیں ، خوشی کا موقع ہے، یہ آدمی کی کمزور شخصیت کو بے نقاب کرتا ہے اور اس کے ہلکا پن کو آشکار کرتا ہے۔
جیسا کہ شاعر کہتا ہے۔
مظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا
ہو وہ کتنا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی
جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
خوشی کے موقعوں پر اپنے آپ کو اصول وضوابط کا پابند نہ سمجھنا، احکام و اوامر کی پابندی یا سے آزاد ہو جانا، اور اطاعت و فرمانبرداری سے نکل جانا آدمی کی شخصیت کو مجروح اور داغ دار کر دیتا ہے۔
احکامِ الہی کو نظر انداز کرنے کو فسق کہتے ہیں، اللہ تعالی کے احکامات و فرامین کی حکم عد ولی کرنے والے کو فاسق کہتے ہیں، جیسا کہ شیطان ابلیس کے بارے میں ہے کہ جب اللہ تعالی نے اسے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو اس نے حکم عدولی کی ، اس پر اللہ
فرماتے ہیں:
﴿فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ﴾ (الكهف:50)
’’پس وہ اپنے رب کے حکم کی اطاعت سے نکل گیا، فاسق ہو گیا ۔‘‘
آج ہم مجموعی طور پر امت مسلمہ کی حالت پر نظر ڈالیں تو اس صورت حال سے چنداں مختلف نظر نہیں آتی آج ہم حد سے گزری ہوئی پستی کا شکار ہیں اور ہماری آج کی حالت بقول مولانا حالی کچھ یوں ہے کہ:
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ ابھرتا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
اب اس سے زیادہ پستی کیا ہوگی کہ قربانی کے جانور کو نقلی دانت لگا کر بیچا جارہا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم نے اسلام کی قدر ہی نہیں جانی، ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ اسلام کتنی بڑی نعمت ہے، ہم نے اللہ تعالی کے اس فرمان کو بھی غور سے پڑھا ہی نہیں ہے کہ ﴿ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ؕ﴾ (المائدة:3)
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے، اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے، اور اسلام کو بطور دین تمہارے لیے پسند کر لیا ہے۔‘‘
یہ اعلان اہل ایمان کے لیے کتنی بڑی خوش خبری، کتنی بڑی سعادت اور کسی قدر عزت و افتخار کا ساماں ہے، ہم نے اس پر کبھی توجہ ہی نہیں دی، جبکہ اغیار ہم سے اس بات پر حسد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
حدیث میں ہے، امام بخاری رحمہ ا للہ اس روایت کو نقل کرتے ہیں کہ ایک یہودی شخص نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا:
((يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ آيَةٌ فِي كِتَابِكُمْ تَقْرُؤُوْنَهَا ، لَوْ عَلَيْنَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ نَزَلَتْ لَا تَّخَذْنَا ذٰلِكَ الْيَوْمَ عِیْدًا))
’’اے امیر المومنین ! تمہاری کتاب میں ایک آیت ہے، جس کو تم پڑھتے ہو، اگر ہم یہودیوں پر وہ نازل ہوتی تو ہم اس کے یوم نزول کو عید بنا لیتے ۔‘‘
انہوں نے دریافت کیا: ((أي آية)) کونسی آیت؟
اس نے کہا۔
﴿ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ؕ﴾(المائدہ:3)
تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
((قَدْ عَرَفْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ وَالْمَكَانَ الَّذِي نَزَلَتْ فِيهِ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ قَائِمٌ بِعَرفَةِ يَومَ جُمُعة .)) .(بخاري:45)
ہمیں معلوم ہے وہ دن بھی اور وہ جگہ بھی جہاں آپ سے کام پر یہ آیت نازل
ہوئی تھی ، وہ جمعہ کا دن تھا اور آپ عرفات میں کھڑے تھے ۔“
یعنی اس آیت کا یوم نزول تو اللہ تعالی نے خود ہی ہمارے لیے عید کا دن بنا دیا ہے۔ وہ
جمعہ کا دن تھا، جو کہ عید ہی کہلاتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ سے عوام نے فرمایا:
((إِنَّ هٰذَا يَوْمٌ عِيدِ جَعَلَهُ اللهُ لِلْمُسْلِمِينَ))
’’یہ عید کا دن ہے، جسے اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لیے عید بنایا ہے۔‘‘
((فَمَنْ جَاءَ إِلى الْجُمُعَةِ فَلْيَغْتَسِلْ))
’’پس جو جمعے کے لیے آئے وہ غسل کر کے آئے ۔‘‘
((وَإِنْ كَانَ طِيْبٌ فَلْيَمَسَّ مِنْهُ))
’’اگر خوشبو دستیاب ہو تو خوشبو لگائے ۔‘‘
((وَعَلَيْكُم بالسواك))(ابن ماجه:1098)
’’اور مسواک بھی کرو۔‘‘
اسی طرح عرفہ کا دن بھی حجاج کرام کے لیے عید کا دن ہے۔ اور اس سے اگلے چار روز پھر عید کے دن ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے آپ ﷺنے فرمایا: ((يَوْمُ عَرَفَةَ وَيَوْمُ النَّحْرِ وَأَيَّامُ التَّشْرِيقِ عِيدُ نَا أَهْلَ الإِسلام، وَهِيَ أَيَّامُ أَكُلٍ وَشُرْبٍ)) (ابوداؤد:2419)
’’عرفہ کا دن ، قربانی کا دن اور ایام تشریق یعنی گیارہ، بارہ اور تیرہ ذوالحجہ کے دن ہم اہل اسلام کے عید کے دن ہیں اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں ۔‘‘
تو اسلام ایک بہت بڑی نعمت بہت بڑا اعزاز اور اللہ تعالی کا بہت بڑا احسان ہے، افسوس کہ ہم نے اس کی قدر نہیں جاتی، ہم نے اسے پس پشت ڈال رکھا ہے، ہم نے اپنے اسلاف کی بھی لاج نہیں رکھی، ہم ان کے ناخلف اور کپوت ثابت ہوئے ہیں، ہم میں وہ اوصاف، وہ خوبیاں، وہ گن اور وہ جو ہر نہیں ہیں جو ہمارے اسلاف میں پائے جاتے تھے، کہ جن کے اختیار بھی معترف تھے۔
آج ہم ایسی پستی اور انحطاط کا شکار ہیں کہ الامان والحفیظ ، وہ خوبیاں اور صفات جو ایک مسلمان کی شان ہوا کرتی تھیں جو کہ ایمان کا حصہ ہیں، آج وہ اختیار میں نظر آتی ہیں اور مسلمان ان سے محروم ہیں۔
اور یہ بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے، حدیث میں ہے، حضرت المستورد رضی اللہ تعالی عنہ ایک حدیث بیان کر رہے تھے کہ ((سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: تَقُومُ السَّاعَةُ وَالرُّوْمَ أَكْثَرُ الناس))
’’فرمایا: میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت قائم ہوگی اور رومیوں کی کثرت ہو گی یعنی عیسائیوں کی تعداد زیادہ ہوگی ۔‘‘
((فَقَالَ لَهُ عَمْرُو بنُ العَاصِ أَبْصِرْ مَا تَقُوْلُ))
’’یہ سن کر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے: ذرا دیکھو تم کیا کہہ رہے ہو۔ یعنی اپنی بات پر ذرا غور کر لو، کیا تم واقعی یہی کچھ کہنا چاہتے ہو جو کہہ رہے ہو؟‘‘
((قَالَ أَقُولُ مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ))
’’حضرت مستورود رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں تو وہی کچھ کہہ رہا ہوں جو میں نے آپ ﷺ سے سنا ہے۔‘‘
((قَالَ: لَئِنْ قُلْتَ ذَلِكَ ، إِنَّ فِيهِمْ لَخِصَالًا أَرْبَعًا))
’’تو حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اگر تمہارا یہی کہنا ہے تو پھر حقیقت یہ ہے کہ ان میں چار خوبیاں ہیں۔‘‘
((أنَّهُمْ لَأَحْلَمُ النَّاسِ عِنْدَ فِتْنَةِ))
’’فتنے اور آزمائش کے وقت وہ نہایت برد بار ہوتے ہیں ۔‘‘
یعنی وہ جزع فزع، رونا پیٹنا، سینہ کوبی اور مار دھاڑ نہیں کرتے اور مشتعل نہیں ہوتے،توڑ پھوڑ نہیں کرتے۔
((وَأَسْرَعُهُمْ إِفَاقَةً بَعْدَ مُصيبة))
’’مصیبت کے بعد سب سے جلدی سنبھلنے والے ہوتے ہیں۔‘‘
یعنی یہ نہیں کہ کسی مصیبت کے آجانے کے بعد سر پکڑ کر، مایوس و بد دل ہو کر بیٹھے رہیں اور اٹھنے کا نام ہی نہ لیں۔
((وَأَوْشَكُهُمْ كَرَّةً بَعْدَ فَرَّةٍ))
’’میدان جنگ سے بھاگ نکلنے کے بعد بہت جلد جوابی حملہ کرنے والے ہوتے ہیں۔‘‘
یعنی یہ نہیں کہ ایک بار شکست ہوگئی تو بس اب ہمت ہار بیٹے، بلکہ فورا جوابی کارروائی کرتے ہیں۔
((وَخَيْرُهُمُ المِسْكِيْنُ وَيَتِيْمٌ وَضَعِيْفٌ))
’’وہ لوگوں میں سب سے بہتر میں مسکینوں، یتیموں اور کمزوروں کے لیے۔‘‘
یعنی وہ انسانیت کے بڑے ہمدرد اور خیر خواہ ہیں، وہ ان کمتر در طبقات کا بہت خیال رکھتے ہیں، انہیں سہولتیں اور آسانیاں پہنچانے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔
((وَخَامِسَةٌ حَسَنَةٌ جَمِيْلَةٌ: وَاَمْنَعُهُم مِنْ ظُلْمِ الْمُلُوكِ)) (مسلم:2898)
’’اور ایک پانچویں خصلت بھی ہے جو کہ بہت اچھی اور خوبصورت ہے۔ اور وہیہ ہے کہ وہ سب سے بڑھ کر بادشاہوں اور حکمرانوں کے ظلم کو روکنے والے ہیں ۔‘‘
یعنی وہ انسانی حقوق کے سب سے بڑے علمبردار ہیں، حکمرانوں کے ظلم کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں۔ ان کی ان خوبیوں کی تفصیل میں اس وقت نہیں جانا چاہتا، حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کا تجزیہ ان کے بارے میں بالکل بجا ہے، حالات و واقعات کے لحاظ سے ان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، مگر مجموعی طور پر یہ خوبیاں ان میں موجود رہتی ہیں۔
مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ خوبیاں صرف انہی میں ہوتی ہیں کسی اور میں، بالخصوص مسلمانوں میں ہوتی ہی نہیں، بلکہ اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ان خوبیوں پر اکثر و بیشتر قائم رہتے ہیں۔ جبکہ مسلمان ان کے ایمان میں کمی آئے، تو یہ خوبیاں بھی متاثر ہوتی ہیں۔ آج امت مسلمہ کی مجموعی حالت کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ خوبیاں کہیں نظر نہیں آتیں۔
ہاں انفرادی طور پر بہت سے لوگوں میں یہ صفات موجود ہیں۔ ان صفات کی اسلام میں بہت زیادہ ترغیب دی گئی ہے، بہت تاکید کی گئی ہے اور یہ صفات ایمان کا جزولا ینفک ہیں۔ مگر عمومی طور پر آج کے مسلمان عوام اور حکمران ان صفات کے حوالے سے بے مائیگی کا شکار ہیں، مفلس و کنگال ہیں۔
اسلام میں غریبوں، مسکینوں اور قیموں کے حقوق کو کس قدر اہمیت دی گئی ہے یہ تو ایک بہت طویل موضوع ہے، مگر اس جانب ایک ہلکا سا اشارہ کرتا چلوں، اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ اَمَّاۤ اِذَا مَا ابْتَلٰىهُ فَقَدَرَ عَلَیْهِ رِزْقَهٗ ۙ۬ فَیَقُوْلُ رَبِّیْۤ اَهَانَنِۚ۝۱۶﴾(الفجر:16)
’’اللہ تعالی جب بندے کو آزمائش میں ڈالتا ہے، اور اس کا رزق اس پر تنگ کر دیتا ہے، تو بندہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا۔‘‘
تو اللہ تعالی فرماتے ہیں: ’’کَلَّا‘‘ ہرگز نہیں ۔ یعنی عزت وذلت کا معیار دولت و ثروت اور رزق کی فراوانی یا تنگی نہیں بلکہ اصلی بات یہ ہے کہ
﴿كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَۙ۝۱۷وَ لَا تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْكِیْنِۙ۝﴾(الفجر:17،18)
’’ایک بلکہ تم یتیم سے عزت کا سلوک نہیں کرتے ، اور مسکینوں کو کھانا کھلانے پر دوسرے کو ترغیب نہیں دیتے ، اکساتے نہیں ہو۔‘‘
تو مسکینوں، یتیموں اور کمزوروں کا خیال کرنا اسلام کی ایک نمایاں بلکہ منفر د خصوصیت اور امتیاز ہے، اس وقت اس کی تفصیل اور تشریح میں نہیں جا سکتے۔ تا ہم مسلمانوں نے چونکہ آج ان صفات اور اخلاق کو پس پشت ڈال دیا ہے، نظر انداز کر رکھا ہے، اس لیے مسلمانوں کو ذلت و رسوائی کا سامنا ہے، اور زوال و انحطاط کا شکار ہیں۔
اور یہ ایک مسلمہ قاعدہ اور قانون ہے کہ
﴿فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَآءً ۚ ﴾(الرعد:17)
’’ جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے۔‘‘
﴿اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْكُثُ فِی الْاَرْضِ ؕ ﴾ (الرعد:17)
’’ اور جو لوگوں کے فائدے کی چیز ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔‘‘
اسی قاعدے کی تائید میں ایک واقعہ ذکر کر کے بات ختم کرتا ہوں۔
آپﷺ پر وحی کا آغاز ہوا تو آپ سے کلام غار حراء میں تشریف فرما تھے۔ اگر چہ اس سے پہلے سچے خوابوں کی شکل میں دلی کا آغاز ہو چکا تھا۔ تو جبریل علیہ السلام تشریف لائے، انہوں نے کہا ﴿اِقْرَاْ﴾ ’’پڑھو‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ((ما آنا بِقَارِی)) ’’میں پڑھا ہوانہیں ہوں ۔‘‘
انہوں نے آپ ﷺکو پکڑ کر زور سے بھینچا، پھر چھوڑ کر کہا: ﴿اِقْرَاْ﴾ ’’ پڑھئے ،‘‘تو آپ ﷺ نے فرمایا: ((ما آنا بِقَارِی)) میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔
اس طرح تین بار کیا، اور پھر یہ آیات پڑھیں:
﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ۝۱
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍۚ۝۲
اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُۙ۝۳
الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِۙ۝۴
عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْؕ۝۵﴾(العلق:1۔5)
پھر اس کے بعد آپ ﷺ کا نپتے ہوئے گھر تشریف لے گئے، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا: مجھے چادر اڑھاؤ، پھر چادر اڑھادی گئی، پھر جب خوف کی کیفیت دور ہوگئی تو فرمایا: مجھے کیا ہو گیا ہے مجھے تو اپنی جان کا ڈر لگتا ہے اور سارا قصہ سنایا۔
تو اس پر ام المومنین حضرت خدیجہ رض اللہ تعالی عنہ نے تسلی دیتے ہوئے جو کلمات کہے، وہ ہماری اس گفتگو سے متعلق ہیں۔ فرماتی ہیں: (کَلَّا)’’ ہرگز نہیں!‘‘ (أبشر) ’’خوش ہو جائے۔‘‘
((فَوَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللهُ أَبَدًا))
’’اللہ کی قسم ! اللہ تعالی آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا۔‘‘
((إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ))
’’آپ رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں ۔‘‘
((وَتَصْدِّقُ الْحَدِيثَ))
’’آپ سچ بولتے ہیں‘‘
((وَتَحْمِلُ الْكَلَّ))
’’بے سہارا لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔‘‘
((وَتَكْسِبُ الْمَعْدُوْمَ))
’’تہی دستوں اور نادار لوگوں کا بندو بست کرتے ہیں۔‘‘
((وَتَقْرِى الضَّيْفَ))
’’مہمان نوازی کرتے ہیں ۔‘‘
((وَتُعِيْنُ عَلٰى نَوَائِبِ الْحَقِّ)) بخاری:1982، مسلم:190)
’’اور حق کے مصائب پر اعانت کرتے ہیں ۔‘‘
ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا دور اندیش مخلص و وفادار، اور سلیقہ شعار خاتون نے ایسے الفاظ کے ساتھ آپﷺ کو تسلی دی، جو آپ ﷺکے اخلاق عالیہ کی ٹھیک ٹھیک ترجمانی کرتے تھے۔ جسے بعد میں قرآن پاک نے ایک قانون فطرت کے طور پر بھی بیان کر دیا۔
﴿اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْكُثُ فِی الْاَرْضِ ؕ ﴾ (الرعد:17)
’’جو لوگوں کے فائدے کی چیز ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے، وہ ضائع نہیں ہوتی ۔‘‘
تو یہ قانون قدرت ہے، مسلمان کہ جنہیں لوگوں کی خیر خواہی کے لیے بھیجا گیا اور اس اعزاز سے نوازا گیا کہ
﴿كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ﴾ (آل عمران: 110)
’’تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے میدان میں لایا گیا۔‘‘
تو جب مسلمانوں نے اپنے اس منصب اور مشن کو چھوڑ دیا، اس ذمہ داری سے کنارہ کشی اختیار کر لی ، بلکہ اس کے برعکس لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا تو پھر اس پر مسلمان جس سلوک اور برتاؤ کے حق دار ٹھہرتے تھے آج ہم اس سے گزر رہے ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے اور توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنا بھولا ہوا سبق یاد کر لیں ۔ آمین
اقول قولي هذا واستغفر الله العظيم لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب انه هو الغفور الرحيم
……………………..