عید کی نماز

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيِّ ﷺ صَلَّى يَومَ العِيدِ رَكْعَتَيْنِ، لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا. (متفق عليه).
(صحيح بخاري كتاب العيدين باب الخطبة بعد العيد، صحيح مسلم كتاب صلاة العيدين، باب ترك الصلاة قبل العيد وبعدها في المصلي.)
ابن عَبَّاس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم اے عید الفطر کے دن نکلے اور (عید گاہ) میں دو رکعت نماز عید پڑھی۔ آپ ﷺ نے نہ اس سے پہلے نفل نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يُكَبِّرُ فِي الفِطْرِ وَالْأَضْحٰى فِي الْأُوْلٰى سَبْعَ تَكْبِيْرَاتٍ وَفِي الثَّانِيَةِ خَمْسًا (اخرجه أبو داود)
(سنن ابو داود كتاب الصلاة باب التكبير في العيدين، وصححه الألباني في صحيح سنن أبي داود (1149)
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی نماز میں پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہتے تھے۔
عَنْ أَبِي وَاقِدِ اللَّيْتِي رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَقْرَأُ فِي الْأَضْحٰى وَالْفِطْرِ ب﴿ق والقرآن المَجِيدِ﴾ و﴿اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ القَمَرُ﴾ (أخرجه مسلم).
(صحيح مسلم كتاب صلاة العيدين باب ما يقرأ في صلاة العيدين)
ابو و اقعد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ اللہ عید الفطر اور عید الاضحیمیں سورۂ ق اور سورہ قمر پڑھتے تھے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يُصَلِّي فِي الأضحى والفطر ثم يخطب بعد الصلاة، (أخرجه البخاري).
(صحیح بخاری: کتاب العيدين، باب المشي والركوب إلى العيد والصلاة قبل الخطبة.)
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز پہلے پڑھتے پھر بعد میں خطبہ دیتے تھے۔
عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا كَانَ يَوْمُ عِيدٍ خالَفَ الطَّرِيق. (أخرجه البخاري).
(صحیح بخاری: کتاب العيدين، باب من خالف الطريق إذا رجع يوم العيد)
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم سے عید کے دن ایک راستہ سے جاتے پھر دوسرے راستے سے واپس آتے۔
عنْ أُمِّ عَطِيةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُا قَالَتْ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ نُّخْرِجَهنَّ فِي الْفِطْرِ وَالْأَضْحٰى اَلْعَوَاتِقَ وَالحُيَّضَ وَذَوَاتِ الخُدُورِ فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلَنَّ الصَّلَاةَ وَيَشْهُدْنَ الْخَيْرَ ودَعْوَةَ المُسْلِمِينَ، قُلْتُ: يَا رسول الله! إِحْدَانَا لَا يَكُوْنُ لَهَا جِلْبَابٌ؟ قَالَ : تُلْبِسُهَا اخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا.(متفق عليه).
(صحیح بخاری: کتاب الصلاة، باب وجوب الصلاة في الثياب، صحيح مسلم كتاب صلاة العيدين، باب ذكر إباحة خروج النساء في العيدين إلى المصلى وشهود.)
ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم آزاد، جوان لڑکیوں اور حائضہ عورتوں کو بھی عیدین میں ساتھ لے کر نكلیں لیکن حائضہ عورتیں نماز سے الگ رہیں مگر خیر اور دعا میں شریک رہیں، انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ و ہم میں سے اگر کسی کے پاس چادر نہ ہو تو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی پہلی اپنی چادر کا ایک حصہ اسے اڑھادے۔
تشریح:
اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لئے خوشی کے دودن متعین کر رکھے ہیں جسے عید الفطر اور عیدالاضحی کا نام دیا گیا ہے۔ اس دن مسلمانوں کے لئے غسل کرتا، بہترین لباس زیب تن کرنا، خوشبو لگانا، مسواک کرنا عید گاہ کے لئے ایک راستے سے جانا اور دوسرے سے واپس آنا مستحب ہے۔ حائضہ عورتوں کو بھی عید گاہ جانے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ذکر واذکار میں برابر کی شریک ہو سکیں۔
عیدین کی نماز اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نعمتوں کی تكمیل کے شکرانے کے طور پر مشروع ہے۔ جو سورج طلوع ہونے کے بعد دو رکعت ہے پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے بعد سات زائد تکبیریں اور دوسری رکعت میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت سے قبل پانچ زائد تکبیریں مسنون ہیں نیز پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورۂ ق یا سورہ اعلیٰ اور دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورة قمر یا سورہ غاشیہ کا پڑھنا مستحب ہے اور نماز کے بعد خطبہ دینا مشروع ہے۔ اللہ تعالی ہمیں عیدین کے احکام کو اچھے طریقے سے بجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فوائد:
٭ عیدین کی نماز مشروع ہے۔
٭ عیدین کی نماز اور کعت ہے پہلی رکعت میں سات تکبیر اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیر ہوتی ہے۔
٭ پہلی رکعت میں سورہ ق اور دوسری رکعت میں سورہ قمر کا پڑھنا مستحب ہے۔
٭ عیدین کی نماز کے بعد خطبہ دینا مشروع ہے۔
٭ عیدین کی نماز کے لئے ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا مستحب ہے۔
٭ عیدین کی نماز کے لئے عورتوں کا پردے میں ہو کر عید گاہ جانا مستحب ہے۔
٭٭٭٭