عید میلادالنبی ﷺ کی شرعی حیثیت

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
فَأَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
﴿ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ [آل عمران:31]
’’کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تعالی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا۔ اور اللہ تعالی بڑا بخشنے والا بہت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
امام الانبیاء سید ولد آدم خاتم المین جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت دین اسلام کی روح ہے آپ کی محبت کے بغیر کوئی شخص مسلمان اور مؤمن نہیں ہو سکتا اور صرف محبت نہیں بلکہ ایسی محبت جو اپنی جان ماں باپ آل اولاد اور دنیا جہان کے سارے انسانوں کی محبت سے زیادہ ہو۔ صحیح البخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
(لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ اجْمَعِينَ) [صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب حب الرسول منك من الإيمان (14) و ابن ماجه (67) و مسلم (69) والنسائي (5013)]
’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ آل اولاد اور ساری دنیا کے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
دوسری حدیث یہ بھی صحیح البخاری میں موجود ہے۔ اس کے راوی بھی حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ ﷺ نے فرمایا:
(ثَلَاثَ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيْمَانِ مَنْ كَانَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا)
’’جس شخص میں تین خصلتیں پیدا ہو جائیں وہ ایمان کی حلاوت مٹھاس اور شیرینی محسوس کرے گا۔‘‘
پھر ان تین خصلتوں میں سب سے پہلی خصلت یہ بتائی:
(مَنْ كَانَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا) [صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب حلاوة الإيمان (16) ومسلم (17) والترمذى (2644) و ابن ماجه (4033)]
’’جس شخص کے نزدیک اللہ اور اس کا رسول کا ئنات کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں۔‘‘
تیسری حدیث:
یہ بھی صحیح البخاری میں موجود ہے۔ حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں۔ ہم نبیﷺ کے ساتھ تھے اور آپﷺ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! آپ مجھے میری اپنی جان کے سوا دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔
تو نبی ﷺ نے فرمایا:
(لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ حَتّٰى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ)
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں جب تک تیری جان سے بھی زیادہ تجھے محبوب نہ ہو جاؤں۔ بات نہیں بنے گی۔‘‘
(حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو جب اس مسئلے کا علم ہوا) تو فورًا عرض کیا: اللہ کے رسول اللہﷺ اب آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب اور پیارے ہیں۔
تو نبیﷺ نے فرمایا:
(الآنَ يَا عُمَرُ) [صحيح البخاري، كتاب الإيمان والنذور، باب كيف كانت يمين النبيﷺ (6632)]
’’ہاں اے عمر! اب ٹھیک ہے۔ (اب آپ کا ایمان مکمل ہوا ہے)۔‘‘
مذکورہ تین احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ جب تک رسول اللہﷺ کی محبت کسی شخص کے دل میں اپنی جان ماں باپ آل اولاد اور تمام لوگوں کی محبت سے زیادہ نہ ہو جائے تب تک وہ کامل مؤمن اور مسلمان نہیں ہو سکتا۔
یہ محبت رسول ﷺ ایمان اور اسلام کی روح ہے۔ لیکن آج ہم نے اس بات پر غور و فکر کرنا ہے کہ رسول اللہﷺ کی سچی محبت کیا ہے۔ اور اس کی علامتیں کیا ہیں۔ کیونکہ آج لوگوں نے من گھڑت بدعات وخرافات کو رسول اللہﷺ کی محبت کا نام دے دیا ہے۔ بلکہ سال بھر رسول اللہ ﷺ کی مخالفت اور نافرمانی کی جاتی ہے اور 12ربیع الاول کو آپ ﷺ کی پیدائش کا جشن منا کے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے محبت کا حق ادا کر دیا ہے۔ اب سوچنا یہ ہے کیا محبت رسول کا یہ انداز قرآن وحدیث اور صحابہ و تابعین سے ثابت ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ قرآن وحدیث میں اس تیسری عید اور جشن کا ثبوت تو کجا یہ بھی کہیں نہیں ملتا کہ رسول اللہﷺ کی پیدائش 12 ربیع الاول کو ہوئی ہے پورا ذخیرہ احادیث اس سلسلے میں خاموش ہے۔ ہاں سیرت کی کتابوں میں آپﷺ کی تاریخ ولادت کا تذکرہ ملتا ہے لیکن ان کتابوں میں آپ ﷺ کی تاریخ ولادت کے متعلق لمبا چوڑا اختلاف ہے۔
بعض نے 13 ربیع الاول لکھا۔ بعض نے 9 ربیع الاول لکھا۔ اور دنیاوی تحقیق کے مطابق اکثر محققین 9 ربیع الاول کے ہی قائل ہیں۔ تفصیل کے لیے کتب سیرت کا مطالعہ فرمائیں۔
جبکہ پیر عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں آپ کی تاریخ ولادت 1 محرم لکھی ہے سبحان اللہ گیارھویں شریف پیر عبد القادر جیلانی کے نام کی اور عید میلادالنبی 12 ربیع الاول کو۔
بہرحال قرآن وسنت میں رسول اللہ ﷺ کی تاریخ پیدائش کہیں بھی مذکور نہیں۔ اگر یہ عید قرآن وسنت سے ثابت ہوتی اور یہ حب رسولﷺ کا معیار ہوتی تو اس کی تاریخ خود رسول اللہ ﷺ ضرور مقرر فرماتے۔
دیکھو عید الفطر کی تاریخ موجود ہے۔ آج اتنے اختلافات کے باوجود سارے مسلمانان عالم اس بات پر متفق ہیں کہ یکم شوال عید الفطر کا دن ہے۔
اسی طرح عیدالاضحی کی تاریخ بھی موجود ہے پوری دنیا کے مسلمان 10 ذوالحجہ کو عید الاضحیٰ (بڑی عید) مناتے ہیں لیکن اس طرح تیسری عید کی تاریخ نہ قرآن میں ملتی ہے نہ حدیث میں ملتی ہے۔
حدیث اور فقہ کی تمام کتابوں میں کتاب العیدین کا عنوان موجود ہے لیکن کسی کتاب میں اس تیسری عید کا عنوان کہیں موجود نہیں حتی کہ وہ فقہاء جنہوں نے اپنی کتابوں ہدایہ، قدوری، شرح وقایہ اور کنز الدقائق وغیرہ) میں ایسے فرضی مسائل کے انبار لگا دیئے ہیں جن کا وقوع مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آتا ہے ان بال کی کھال اتارنے والے فقہاء نے بھی اس تیسری عید کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔
پھر رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں 63 مرتبہ یہ دن گزرا، نہ بازار سجائے گئے نہ جھنڈیاں لگائی گئیں نہ جلوس نکالا گیا بلکہ تمام دنوں کی طرح یہ دن گزرتا رہا۔
خلافت صدیقی رضی اللہ تعالی عنہ میں 2 مرتبہ، خلافت فاروقی منہ میں 11 مرتبہ، خلافت عثمانی رضی اللہ تعالی عنہ میں 10 مرتبہ، خلافت علی رضی اللہ تعالی عنہ میں 5 مرتبہ، خلافت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ میں 20 مرتبہ یہ دن گزرا، نہ بازار سجائے گئے نہ جھنڈیاں لگائی گئیں نہ جلوس نکالے مجھے نہ محفل میلاد منعقد کی گئی۔
آخری صحابی ابو کفیل عامر بن واثلہ لیثی رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات تک 123 مرتبہ، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی وفات تک 303 مرتبہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی وفات تک 232 مرتبہ، امام شافعیرحمۃ اللہ علیہ کی وفات تک 257 مرتبہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی وفات تک 294 مرتبہ، یہ دن گزرا نہ بازار سجائے گئے نہ جھنڈیاں لگائی گئیں نہ شیرینی بانٹی گئی کیا وہ تمام لوگ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم، تابعین عظام، ائمه دین، فقهائ ملت محبت رسول سے تہی دامن تھے۔
اور یہ ساری باتیں ایک طرف۔ جشن کا طریقہ دیکھو ہر کام نبی ﷺ کی مخالفت والا۔ دن پیغمبر ﷺ کی پیدائش کا اور کام سارے آپ کی بغاوت اور نافرمانی والے۔
1۔مانگنا:
راستہ روک کر بھیک مانگی جاتی ہے رسہ باندھ کر جگا لیا جاتا ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے بلا ضرورت سوال کرنے کی زبر دست مذمت فرمائی۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے بلا ضرورت سوال کیا قیامت والے دن اس کے چہرے پہ گوشت کا ایک لوتھڑا بھی نہیں ہوگا۔‘‘[صحیح مسلم، كتاب الزكوة، باب كراهة المسألة المناس، رقم: 2399]
دوسری حدیث میں ہے: مانگ کر کھانے والا اپنے پیٹ میں جہنم کے انگارے بھر رہا ہے خواہ تھوڑے بھر لے یا زیادہ بھرلے[ صحیح مسلم، كتاب الزكوة، باب كراهة المسألة للناس، رقم: 2399]
2۔ بازاروں میں شور:
(وَلَا صَحَّابٌ فِي الْأَسْوَاقِ) [صحيح البخاري، كتاب البيوع باب كراهية السحب في السوق، رقم: 2125.]
رسول اللہ ﷺ کی یہ سیرت گزشتہ آسمانی کتابوں میں بیان کی گئی ہے کہ آپ بازاروں میں شور و غل کرنے والے نہیں، لیکن آج آمد رسول کا جشن اور بازاروں میں ہلڑ بازی آتش بازی تاریخ اور گانا گھوڑوں گدھوں اور ٹرالیوں پہ جلوس، ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑا (إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ)
یہ محبت و رسول ﷺ ہے؟ یہ خیر الانام کی آمد کی خوشی ہے؟ یہ
3۔ سجاوٹ:
آپ تو بیٹی کے گھر سے پلٹ گئے وہ کس طرح ؟ صبح البخاری میں حدیث موجود ہے۔ ایک دن آپ ﷺداماد رسول، ابن عم النبی، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر تشریف لائے اور دروازے سے ہی پلٹ گئے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ گھر میں نہیں تھے جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ گھر پہنچنے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس بات کا ذکر کیا (کہ ابا جان آئے تھے اور دروازے سے ہی واپس تشریف لے گئے ہیں) حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فوراً دربار نبوت میں پہنچتے ہیں اور واپسی کا سبب پوچھتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے دروازے پر (قیمتی) ریشمی پردہ دیکھا تو میں نے کہا:
(مَالِي وَلِلدُّنْيَا) [ابوداود. الاطعمة، باب اجابة الدعوة اذا حضرها مكروه (3755)]
’’میرا دنیا کی (سجاوٹوں اور آرائشوں) سے کیا تعلق ہے۔‘‘
اس لیے میں پلٹ آیا۔ جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو رسول ﷺ کے واپس جانے کا یہ سبب ہلاتے ہیں تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا فورًا اپنے والد گرامی کی خدمت میں پہنچ کر عرض کرتی ہیں: آپ اس پردے کے متعلق کیا حکم دیتے ہیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ قیمتی ریشمی پردہ مدینے کے فلاں گھر والوں کو دے آؤ (تاکہ وہ اسے بیچ کر اپنی ضرورت پوری کریں) [صحيح البخاري، كتاب الهبة، باب هدية ما يكره لبها، رقم: 2613.]
غور فرمائیے! پیغمبر جو ایک قیمتی کپڑا ریشمی پردہ دیکھ کر اپنے پیارے داماد اور اپنی پیاری لخت جگر کے دروازے سے پلٹ گیا وہ تیرے سجائے ہوئے بازار میں کیسے آئے گا؟ لہٰذا پیغمبرﷺ استقبال میں بازار سجانے والو بیسیوں تھان قیمتی کپڑا لٹکانے والو! لمبی چوڑی لائٹنگ کرنے والو! جس کی آمد کا بہانہ کر کے یہ اسراف و تبذیر اور فضول خرچی کرتے ہو اسے تو ان سجاوٹوں سے شدید نفرت تھی بیان کردہ واقعہ سے عبرت پکڑو اور سچی تو ب کرو…….
4۔ میوزک موسیقی بے پردگی اور مردوزن کا آزادانہ اختلاط:
یہ پیغمبر کی آمد کا جشن ہے؟ کہ سارا دن ڈیک بجتے ہیں۔ گانے گائے جاتے ہیں اور میوزک موسیقی کی گندی آواز کے ساتھ ساتھ کئی جبوں قبوں والے ناچتے ہیں، مصنوعی پہاڑیاں سجائی جاتی ہیں اور وہاں رات گئے تک بے پردہ عورتوں اور بے غیرت نوجوانوں کا ہجوم رہتا ہے چھیڑ چھاڑ ہوتی ہے اور یہ تمام شرمناک کام اس پیغمبر کی آمد کی خوشی میں کیے جاتے ہیں جو اس کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیاء دار تھا جس کے چہرے کو کبھی آسمان نے بھی نہ دیکھا ہو۔
5۔ مشعل بردار جلوس:
یہ آتش پرستوں کی مشابہت ہے۔ آتش پرست (مجوسی) وہ بدترین کافر ہیں جنہوں نے ہمارے پیارے پیغمبر کا خط مبارک شہید کر دیا تھا۔ آج پیغمبر کی آمد کی خوشی میں ان گستاخان رسالت کی مشابہت کی جاتی ہے اور مشعل بردار جلوس نکالا جاتا ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے کفار کی مشابہت سے تاکیدًا منع فرمایا ہے اور یہ وعید سنائی ہے:
(مَنْ تَشَبَّهُ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ) [سنن ابی داود، كتاب اللباس، باب في لبس الشهرة (4031) واحمد (50/2)]
’’جو کسی قوم کی مشابہت کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا۔‘‘
آخری بات
اگر 12 ربیع الاول آپ ﷺکی پیدائش کا دن ہو بھی تو یہی وفات کا بھی ہے۔ اور جب خوشی اور غمی جمع ہو جائیں۔ تو غلبہ غمی کا ہوتا ہے۔ جس دن نبیﷺ نے وفات پائی۔ خادم رسول حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: سارا مدینہ تاریک ہو گیا۔ اندھیرے کے بادل چھا گئے۔ لوگوں کے دل زخموں سے چور ہو گئے۔ ہر آنکھ اشکبار اور ہر چہرہ مرجھایا ہوا۔ اور جس دن مدینہ میں صحابہ کی شام کی یہ کیفیت تھی۔ اس دن آج محبت رسول ﷺ کے دعویداروں کو یہ کیسے اچھا لگتا ہے۔ حلوہ منڈا اڑائیں، بازار سجائیں، جشن منائیں، شیرینی بانٹیں آپس میں تحفے تحائف کا تبادلہ کریں۔ ورنہ یہ پیغمبر کی وفات کی خوشی منانے کے مترادف ہے اور گزشتہ سالوں میں تو لکھا بھی یہی جاتا تھا۔ 12 وفات النبی، پرانی ڈائریاں اشتہار اور کیلنڈر گواہ ہیں؟؟؟؟
اور یاد رکھیے خود نبی ﷺ نے اپنی پیدائش کا دن سوموار بتایا ہے اور ہر سوموار کے دن روزہ رکھا ہے۔
جس طرح کہ صیح مسلم میں موجود ہے آپﷺ نے سوموار کا روزہ رکھ کے یہ بات ثابت کر دی کہ آپ کی پیدائش کا دن روزے کا دن ہے۔ عید اور جشن کا دن نہیں۔[صحيح مسلم، كتاب الصيام، باب استحباب صيام ثلاثة أيام من كل …. (2747)]
آو! پیغمبر ﷺ کی سچی محبت یہ ہے کہ آپ کے نقش قدم پر چلا جائے آپ کی اطاعت و پیروی کی جائے۔ آپ کا دین دنیا میں غالب کیا جائے اور آپ کی سیرت طیبہ کے مطابق زندگی گزاری جائے۔ یہی سچی محبت ہے اور یہی حقیقی خوشی بھی ہے اور یہ خوشی سال بھر میں صرف ایک دن نہیں بلکہ ہر وقت ہر لمحہ ہر گھڑی اور ہر لحظہ یہ خوشی موجود ہے۔
ایک اہم نکتہ:
لفظ ’’عید میلادالنبی‘‘ میلاد منانے والوں کے اپنے چند عقائد کے بر خلاف ہے وہ ایک طرفﷺ کو نور من نور اللہ کہتے ہیں اور دوسری طرف آپ کے لیے ولادت و میلاد کا لفظ بولتے ہیں ایک طرف تو یہ کہتے ہیں:
وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر
اتر پڑا مدینے میں مصطفیٰ ہو کر

اور دوسری طرف آپ کی پیدائش تسلیم کرتے ہیں ایک طرف نور بشر کے مسئلے پر جھگڑے اور مناظرے کرتے ہیں اور دوسری طرف آپ کی ولادت کے دن جشن مناتے ہیں یہ تو کھلا تضاد ہے۔
یہ تو نصرانیوں والا حال ہو گیا وہ بھی ایک طرف حضرت عیسی علیہ السلام کو الہ، ابن اللہ اور عین ’’اللہ‘‘ قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف میلاد مسیح کا جشن مناتے ہیں۔
چند کھو کھلے دلائل کا مختصر جائزہ:
1۔ ﴿قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا ؕ هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ۝۵۸﴾ [يونس: 58]
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ میں آپ کی پیدائش کا کوئی تذکرہ نہیں اس میں تو نزول قرآن اور نزول ہدایت کا ذکر ہے دوسرا اس میں فرحت و خوشی کا ذکر ہے جشن اور عید کا ذکر نہیں فرحت و مسرت اور جشن و عید دو مختلف چیزیں ہیں عربی زبان سے معمولی سی واقفیت رکھنے والا ہر شخص اس سے آشنا ہے۔ تیسرا اگر یہ آیت واقعتہ عید میلاد النبی کی دلیل ہے تو رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم ، تابعین عظام اور ائمہ دین نے اس پر عمل کیوں نہیں کیا؟؟؟
2۔ ابولہب نے آپ کی خوشی میں لونڈی آزاد کر دی تو اس کا عذاب ہلکا ہر سوموار کے دن کیا جاتا ہے۔
یہ خواب کا واقعہ ہے اور خواب حجت نہیں ہوتا پھر روایت میں خواب دیکھنے والے کا تذکرہ موجود نہیں کہ وہ کون ہے؟ دوسرا یہ تو گستاخ رسول کا عمل ہے۔ حدیث اور سنت نہیں، اگر یہ واقعہ بیان کیا جائے گا تو عید میلادالنبی سنت ابو لہبی تو ہو سکتی ہے سنت نبوی نہیں ہو سکتی، نیز اس واقعہ میں لونڈی آزاد کرنے کا ذکر ہے وہ بھی ایک بار اس سے ہر سال جشن منانے، جلوس نکالنے، جھنڈیاں لگانے، بازار سجانے، حلوہ منڈہ اڑانے اور بھنگڑا ڈالنے کا ثبوت کہاں سے آگیا؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔