عید الفطر

﴿ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰی مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝﴾ (البقرة:185)
’’اور تاکہ تم گنتی پوری کرو اور تاکہ تم اس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اس نے تمھیں ہدایت دی اور تا کہ تم شکر کرو۔‘‘
الله أكبر، الله أكبر، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ وَلِلهِ الْحَمْدُ اللهُ أَكْبَر، الله أكْبَر، اللهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، وَالْحَمْدُ لِلهِ كَثِيْرًا، وَسُبْحَانَ اللهِ بُكْرَةً وَّأَصِيْلًا
إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ، نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا، وَمِنْ سَيَأْتِ أَعْمَالِنَا ، مَنْ يَهْدِهِ اللهِ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِي لَهُ ..
آج عید الفطر کا دن ہے، اہل ایمان کے لیے خوشی اور مسرت کا دن ہے، خوشی اور مسرت ایک جذباتی اور نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے، جس میں انسان کا دل کھل اٹھتا ہے، دماغ میں خلیے آپس میں ایک دوسرے کو خوشی کے پیغامات بھیجتے ہیں، جن سے دماغ اور مزاج میں تناؤ ختم ہوتا جاتا ہے اور تفریح کی لہریں دوڑ نے لگتی ہیں، جسم ایک لذت محسوس کرتا ہے اور وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اور وہ کیفیت آدمی پر اس وقت طاری ہوتی ہے جب اس کی کوئی خواہش اور مراد پوری ہو، جب اس کی محنت رنگ لے آئے، جب اسے اس کی کوششوں کا سلیل جائے، جب اسے اپنی منزل حاصل ہو جائے ، جب اس کی تمنا و آرزو کی راہ سے کوئی رکاوٹ دور ہو جائے، اور جب اسے کوئی بہت بڑا سر پرائز مل جائے تو اس کی یہ معمول کی اطمینانی کیفیت میں اضافہ ہو جاتا ہے تو وہ اپنی خوشی کی کیفیت کو ان الفاظ سے تعبیر کرتا ہے کہ آج میں بہت خوش ہوں۔
وہ جب کہتا ہے کہ آج میں بہت خوش ہوں تو وہ اس سے کیا مراد لیتا ہے اس کے نزد یک خوشی کا پیمانہ کیا ہوتا ہے، بیان نہیں کر سکتا، وہ اپنی بہت زیادہ خوشی کا صرف انہی الفاظ میں اظہار کر سکتا ہے کہ آج میں بہت خوش ہوں، تو گویا انسان خوشی محسوس کر سکتا ہے، بیان نہیں کر سکتا۔
البتہ اس کی خوشی اور غمی کے اثرات اس کے دل اور دماغ، اس کے جسم، اس کے رویے اور اس کے اخلاق پر فی الفور ظاہر ہونے لگتے ہیں۔
اس کی تفصیل میں جانا مقصود نہیں اور نہ ہی یہ اس کا موقع ہے، عرض کرنا مقصود یہ ہے کہ خوشی اور غمی انسان کی نفسیاتی اور فطری کیفیتیں ہیں جن کے اسباب و عوامل اور محرکات اگرچہ انسان کا اپنا ہی طرز عمل ہوتا ہے مگر اس کے نتیجے میں دل میں خوشی اور غمی پیدا کرنے والا حقیقت میں اللہ تعالی ہی ہے کہ
﴿ وَ اَنَّهٗ هُوَ اَضْحَكَ وَ اَبْكٰیۙ۝۴۳﴾(النجم:43)
’’بے شک وہی ہنساتا ہے وہی رلاتا ہے۔‘‘
تمہید کو سمیٹتے ہوئے آج کی خوشی کے حوالے سے کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ خوشی کے حوالے سے سب سے پہلی بات یہ ذہن میں رہے کہ خوشی اصل میں آدمی کی سوچ، اس کی پسند ناپسند اور اس کی نفسیات کے تابع ہوتی ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ خوشی کی متعدد انواع و اقسام ہیں۔
قرآن پاک نے سات قسم کی خوشیوں کا ذکر کیا ہے، ان میں سے ایک عام خوشی ہے جو تمام انسانوں سے متعلق ہے، وہ انسان کی فطری اور جبلی خوشی ہے، جیسے صحت، مال، اولاد اور دیگر دنیوی نعمتیں پا کر خوش ہونا، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ وَ اِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوْا بِهَا ؕ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ اِذَا هُمْ یَقْنَطُوْنَ۝﴾ (الروم:36)
’’جب ہم لوگوں کو رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ اس پر خوب شاداں و فرحاں ہوتے ہیں، اور جب ان کے اپنے کرتوتوں سے ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یکایک وہ مایوس ہونے لگتے ہیں ۔‘‘
تو یہ انسان کی فطری اور جبلی خوشی ہے جو اسے کسی نعمت کے حاصل ہونے پر ہوتی ہے۔ اگر چہ یہ انسان کی فطری اور جبلی خوشی ہے مگر اسلام نے اسے بھی آزاد اور بے لگام نہیں چھوڑا کہ جتنا چاہے، جس طرح چاہے خوش ہو، کیونکہ جب خوشی یا غمی مکمل طور پر آزاد ہوتی ہے، حدود سے تجاوز کرتی ہے تو پھر انسان ھلا گلا، شور و ھونا اور غل غپاڑہ بر پا کرتا ہے۔ غرور اور گھمنڈ میں مبتلا ہو جاتا ہے، اور غمی جب حد سے تجاوز کرتی ہے تو انسان مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے، جو خود اس کے لیے اور دوسروں کے لیے بھی نقصان اور تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے یہ کہہ کر خوشی اورغمی کو محدود کر دیا اور ایک دائرے میں رہنے کا پابند کردیا۔ فرمایا:
﴿ مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَا ؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَی اللّٰهِ یَسِیْرٌۚۖ۝﴾ (الحديد:22)
’’ کوئی بھی مصیبت جو زمین پر یا تمہارے نفسوں پر نازل ہوتی ہے ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب میں لکھ رکھا ہے۔ ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان کام ہے ۔‘‘
اور یہ سب کچھ اس لیے ہے:
﴿ لِّكَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَكُمْ وَ لَا تَفْرَحُوْا بِمَاۤ اٰتٰىكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِۙ۝﴾ (الحديد:23)
’’تا کہ جو کچھ بھی نقصان تمہیں ہو، تم اس پر دل شکستہ نہ ہو، اور جو کچھ اللہ تعالی تمہیں عطا فرمائے ، اس پر پھول نہ جاؤ اللہ تعالی ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اکڑتے اور اتراتے ہیں ۔‘‘
خوشی کی ایک قسم کفار و مشرکین کا اپنے عقائد و نظریات پر خوش ہوتا ہے۔
﴿ فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۝﴾ (المومن:83)
’’پس جب بھی ان کے رسول ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تو یہ اپنے پاس کے علم پر خوش ہوئے اور اترانے لگے۔‘‘
اور دوسری جگہ فرمایا:
﴿ كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ۝﴾ (المومنون:53)
’’ہر گروہ کے لوگ اس پر جو ان کے پاس ہے بہت خوش ہیں۔‘‘
اسی طرح منافقوں کا اپنی گناہ اور معصیت کی روش پر خوش ہوتا۔
﴿ فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللّٰهِ﴾ (التوبة:81)
’’جن لوگوں کو پیچھے رہنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ وہ اللہ کے رسول اللہ ﷺکا ساتھ نہ دینے اور گھر میں بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے ۔‘‘
اور ایک قسم کا فروں اور منافقوں کا مسلمانوں کو پہنچنے والی تکلیفوں پر خوش ہوتا۔
﴿ اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ ؗ وَ اِنْ تُصِبْكُمْ سَیِّئَةٌ یَّفْرَحُوْا بِهَا ؕ ﴾(آل عمران:120)
’’اگر تمھیں کوئی بھلائی چھوئے تو وہ انھیں بری لگتی ہے اور اگر تم پر کوئی برائی آپہنچے تو اس پر خوش ہوتے ہیں ۔‘‘
اور ایک قسم اہل ایمان کا اللہ تعالی کی مدد و نصرت پر خوش ہونا۔
﴿ وَ یَوْمَىِٕذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَۙ۝﴾ (الروم:4)
’’اور وہ دن وہ ہوگا جب اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے۔‘‘
اور اہل ایمان کا ہدایت اور معرفت حق پر خوش ہونا ۔
﴿ وَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ ﴾(الرعد:36)
’’ اور جن لوگوں کو ہم نے پہلے کتاب دی تھی وہ اس کتاب سے جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے خوش ہیں۔‘‘
اہل ایمان کا جنت میں خوش ہونا۔
﴿ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصَّلِحٰتِ فَهُمْ فِیْ رَوْضَةٍ یُّحْبَرُوْنَ۝﴾(الروم:15)
’’جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیسے ہیں وہ ایک باغ میں شاداں و فرحاں رکھے جائیں گے۔‘‘
تو خوشی کی تمام تر اقسام میں سے اصلی ، پائیدار اور حقیقی خوشی وہ ہے جو دین کے حوالے سے ہو، ایمان کی خوشی، قرآن کی خوشی، ہدایت کی خوشی، نیک اعمال کی توفیق کی خوشی اور یہ ایمان کی علامت ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((إِذَا سَرَّتَكَ حَسَنَتُكَ، وَسَاءَ تَكَ سَيئَتُكَ فَأَنْتَ مُؤْمِنٌ)) (مسند احمد، ج:5، ص:252، رقم: 22220)
’’جب تمہیں نیکی کر کے خوشی ہو اور تمہارا گناہ تمہیں برا لگے تو تم مومن ہو۔‘‘
تو ایک مؤمن کی حقیقی خوشی وہ ہے جو ایمان کے حوالے سے ہو، اور اس پر خوش ہونے کا حکم اور ترغیب ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا ؕ هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ۝﴾(یونس:58)
’’اے نبی! ان سے کہہ دو کہ یہ جو قرآن کی صورت میں تمہارے پاس نصیحت آئی ہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ لازم ہے کہ وہ خوش ہوں وہ اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کر رہے ہیں۔‘‘
جو دلوں کے امراض کی شفا ہے، اور اہل ایمان کے لیے ہدایت و رہنمائی ہے اور یہ محض اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے ، پس اس پر خوش ہونا چاہیے، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔
آج ہم نیکی کی تکمیل اور اتمام کے موقع پر اللہ تعالی کے حکم اور اس کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق عید الفطر کی صورت میں خوشی منا بھی رہے ہیں اور محسوس بھی کر رہے ہیں۔ اور خوشی شی منانے کا یہ طریقہ اقوام عالم میں سب سے انوکھا، نرالا اور حقیقت پسندانہ ہے۔
﴿وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰی مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝﴾(البقرة:185)
’’جس ہدایت سے اللہ تعالی نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔‘‘
((اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ وَلِلهِ الْحَمْدُ))
اللہ تعالی نے رمضان المبارک کے روزوں کا مقصد تقومی قرار دینے کے ساتھ ساتھ یہ جو مزید حکمتیں اور مقاصد بھی بیان فرمائے ہیں کہ اللہ تعالی کی کبریائی کا اظہار داعتراف کرو اور اس کے شکر گزار ہو۔ اور اس سے پہلے فرمایا:﴿ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ﴾ اور تاکہ تم روزوں کی گنتی پوری کرو۔
روزوں کی گنتی تو ہم نے الحمد للہ پوری کر لی کہ پورے مہینے کے روزے رکھے۔ مگر کیا ہم اللہ تعالی کی کبریائی کے حقیقت میں مقرود معترف ہیں اور کیا ہم واقعی اس کی اس نعمت پر اس کے تہہ دل سے اور حقیقت میں شکر گزار ہیں؟ یہ جانتا اور ثابت کرنا ابھی باقی ہے، اس پر پھر کبھی ان شاء اللہ گفتگو ہوگی۔ اللہ تعالی ہم سب کے روزے اور اس مبارک مہینے میں کی گئی ٹوٹی پھوٹی نیکیاں قبول فرمائے اور یوں ہی اپنی رحمتیں ہم پر نازل فرماتا رہے۔ آمین اقول قولي هذا واستغفر الله العظيم لي ولكم ولسائر
المسلمين من كل ذنب انه هو الغفور الرحيم ..
. آخر میں جمعے سے متعلق ایک اہم مسئلے کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ عید اور جمعہ اگر ایک دن میں اکٹھے ہو جائیں تو پھر جمعہ کی رخصت ہے جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: ((قَدْ اجْتَمَعَ فِي يَوْمِكُمْ هَذَا عِیْدَان ، فَمَنْ شَاءَ أجزأَهَ مِنَ الجُمُعَةِ، وَإِنَّا مُجْمَعُونَ))(أبوداؤد: رقم:1073)
’’آپﷺ نے فرمایا: تمہارے آج کے اس دن میں دو عیدیں اکٹھی ہوگئی ہیں، پس جو چاہے، اس کے لیے عید ہی کافی ہوگی۔ البتہ ہم جمعہ ادا کریں گے۔‘‘
اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ ذکوان بن صالح رضی اللہ تعالی عنہ کرتے ہیں۔
اِجْتمَعَ عِيدَانِ عَلٰى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ يَوْمَ جُمُعَة وَ يَوْمَ عِيدٍ، فَصَلَّى ثُمَّ قَامَ ، فَخَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ: قَدْ أَصَبْتُمْ ذِكْرًا وخَيْرًا، وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ فَمَنْ أَحَبُّ أن يَّجْلِسْ فَلْيَجْلِسْ، أي فِيْ بَيْتِهِ، وَمَنْ أَحَبَّ أَن يُجَمِّعَ فَلْيُجَمِّعَ))(البيهقي، ج:3، ص:318، رقم:6083)
’’رسول اللہﷺ کے زمانے میں جمعہ کے دن دو عیدیں اکٹھی ہو گئیں، ایک جمعہ اور دوسرا عید، آپ نے نماز (عید) پڑھائی، پھر کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا، اور فرمایا: تم نصیحت اور بھلائی کو پہنچے ہو اور بے شک ہم جمعہ ادا کریں گے، جو بیٹھنا پسند کرتا ہے وہ بیٹے یعنی اپنے گھر میں (نماز جمعہ کے لیے نہ آئے ) اور جو جمعہ پڑھنا چاہتا ہے وہ جمعہ پڑھ لے۔‘‘
((وَعَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ قَالَ: صَلَّى بِنَا ابْنُ الزُّبَيْرِ فِي يَوْمِ عِيدِ فِي يَوْمِ جُمُعَةِ أَوَّلَ النَّهَارِ ، ثُمَّ رُحْنَا إِلَى الْجُمُعَةِ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْنَا فَصَلَّيْنَا وُحْدَانًا ، وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسِ بِالطَّائِفِ فَلَمَّا قَدِمَ ذكَرْنَا ذٰلِكَ لَهُ، فَقَالَ: أَصَابَ السُّنَّةَ)) (ابوداؤد:1071)
’’عطاء بن ابی رباح رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے ہمیں جمعہ کے دن عید کے دن کے شروع میں نماز پڑھائی پھر ہم جمعہ کے لیے آئے، مگر وہ نہ آئے تو ہم نے اکیلے ہی نماز پڑھی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کہا طائف گئے ہوئے تھے وہ جب آئے تو ہم نے ان سے یہ بات ذکر کی تو انھوں نے کہا۔ انھوں نے سنت پرعمل کیا۔‘‘
اور ایک اور روایت میں ہے۔
((قال ابن الزبير: رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ إِذَا اجْتَمَعَ عِیْدَانِ صَنَعَ مِثْلَ هٰذا)) (مستدرك حاكم ، ج:1 ص:435، رقم:1097)
’’ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا جب دو عیدیں جمع ہو جاتیں تو وہ ایسا کرتے تھے۔
اس لیے اس سنت پر بھی عمل ہونا چاہیے، آپ کو رخصت ہے کہ جمعہ نہ پڑھیں اور صرف ظہر کی نماز پڑھ لیں، لیکن اگر پھر بھی آپ لوگ تشریف لانا چاہیں گے تو ان شاء اللہ چند منٹس کے مختصر سے خطبے کے ساتھ ہم جمعہ پڑھ لیں گے۔
اقول قولي هذا واستغفر الله العظيم لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب إنه هو الغفور الرحيم.
……………