عید الفطر

ان الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور انفسنا ومن سيئات اعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، واشهدان لا اله الا الله وحده لا شريك له، واشهدان محمداً عبده ورسوله . اما بعد فان خير الحديث كتاب الله، وخير الهدي هدى محمد وشر الأمور محدثاتها، وكل محدثة بدعة، وكل بدعة ضلالة وكل ضلالة في النار . اما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم …
﴿وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰی مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝﴾ (البقره:185)
’’اور تا کہ تم گنتی پوری کرو اور تاکہ تم اس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اس نے تمھیں ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو۔‘‘
آج کا دن عید کا دن ہے، خوشی اور مسرت کا دن ہے، شکر گزاری، احسان مندی اور ممنونیت کا دن ہے۔
یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ہر قوم کے ہاں کوئی نہ کوئی خوشی اور مسرت کا دن اور تہوار ضرور ہوتا ہے البتہ ان کے تہواروں کی مناسبت اور ان کے منانے کا طریقہ مسلمانوں کےطریقے سے مختلف ہوتا ہے، بلکہ شاید یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہم مسلمانوں کے خوشی کے دن منانے کا طریقہ دیگر تمام اقوام عالم سے مختلف اور منفرد ہے۔
دوسری قوموں کے خوشی کے تہوار منانے کی مناسبت محض مادہ پرستی اور شخصیت پرستی کی بنیاد پر ہوتی ہے اور منانے کا طریقہ بھی یکسر دنیا دارانہ تھی اور اکثر اخلاق سے عاری ہوتا ہے، اُس میں ہلا گلا ، ہلڑ بازی ، شور شرابہ، ناچ گانا اور بیہودہ پین ہوتا ہے۔ مگر اسلام نے اپنے ماننے والوں کو خوشی کے جو دو مواقع اور تہوار دیئے ہیں اور ان کے منانے کے جو طریقے بتلائے ہیں، وہ نہایت مہذب اور شائستہ اور ہمدردی اور خیر خواہی پر مبنی اور نیکی اور عبادات سے وابستہ ہیں۔
عید الفطر رمضان المبارک کی مناسبت سے ہے اور عیدالاضحی فريضہ حج کی ادائیگی اور حضرت ابراہیم عالیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کے ایک نادر اور منفرد جذبہ ایثار و قربانی اور اطاعت و فرمانبرداری کی یاد تازہ کرنے کی مناسبت سے ہے۔
آج عید الفطر کا دن ہے، اور عید الفطر رمضان المبارک کی عبادت کی تعمیل کی خوشی اور شکر گزاری کے اظہار کا دن ہے، چنانچہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰی مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۱۸۵﴾ (البقرة:185)
’’اللہ تعالی چاہتا ہے کہ تم رمضان المبارک کے روزوں کی تعداد پوری کرو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اُس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکرگزاری کرو۔‘‘
((الله أكبر، الله أكبر، الله اكبر لا إله إِلَّا الله والله اكبر ، الله اكبر ولله الحمد))
ہم اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرتے ہیں اور اس کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اُس نے ہمیں اس ماہ مبارک کے روزوں کی تعداد پوری کرنے کی توفیق اور مہات عطا فرمائی، ورنہ آپ جانتے ہیں کہ کتنے ہی مسلمان اس سال اس ماہ مبارک کی سعادت حاصل کرنے سے محروم رہے، وہ رمضان المبارک کو پانہ سکے کہ پہلے ہی فوت ہو گئے اور کتنے ہی ایسے بھی تھے کہ انہوں نے رمضان المبارک تو پایا مگر روزوں کی تعداد پوری نہ کر سکے کہ درمیان میں ہی فوت ہو گئے۔ مگر اللہ تعالی کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس کی سعادت بخشی اور اتنی مہلت عطا فرمائی کہ ہم روزوں کی تعداد پوری کر سکیں۔
﴿ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ هَدٰىنَا لِهٰذَا ۫ وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْ لَاۤ اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُ ۚ﴾ (الاعراف:43)
عيد الفطر اللہ تعالی کی کبریائی بیان کرنے اور اس کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ خوشی منانے کا بھی دن ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((للصائم فرحتان))
’’روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ۔‘‘
((فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ))
’’ایک خوشی اس کے افطار کے وقت ۔‘‘
((وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ)) (صحیح مسلم: 1151)
’’اور ایک خوشی اس کے اپنے رب سے ملاقات کے وقت ۔‘‘
افطار کے وقت کھانے پینے سے جو بھوک پیاس مفتی ہے اور لذت حاصل ہوتی ہے اُس سے انسان کو ایک خوشی اور مسرت حاصل ہوتی ہے اور وہ ایک فطری خوشی ہے جو ہر ایک محسوس کرتا ہے، اور وہ خوشی اس وقت دوبالا ہو جاتی ہے جب انسان اس کے ساتھ روزے کی تکمیل حمید کی خوشی بھی شامل کر لیتا ہے۔
اور دوسری خوشی اسے اپنے رب سے ملاقات کے وقت ہوگی جب وہ اس کا اجر و انعام دیکھے گا۔ ان شاء اللہ
تو اکل و شرب خوشی کے انواع و اقسام میں سے ایک ہے، یعنی جن چیزوں سے انسان کو خوشی حاصل ہوتی ہے، ان میں سے ایک کھانا پینا بھی ہے۔ جس طرح رمضان المبارک میں افطار کے وقت کھانے پینے سے خوشی حاصل ہونے کا ذکر فرمایا، اسی طرح عیدالاضحی کےموقعے پر بھی کہ عید لانی کے بعد اگلے تین روز کہ جنہیں ایام التشریق کہا جاتا ہے اور جو عید کے دن ہی شمار کئے جاتے ہیں، کیونکہ حدیث میں ہے ، آپﷺ نے فرمایا: ((يَوْمُ الْفِطْرِ وَيَوْمُ النَّحْرِ وَأَيَّامُ التَّشْرِيقِ عِيْدُنَا أَهْلَ الإسلام)) (جامع ترمذی:773، صحيح الجامع:8192)
’’عید الفطر کا دن اور عیدالانی یعنی قربانی کا دن اور اس کے بعد والے تین دن جو ایام التشریق ہیں، ہم اہل اسلام کے عید کے دن ہیں۔‘‘
تو ان عید کے دنوں کے بارے میں بھی آپﷺ نے فرمایا:
((وَإِنَّ هٰذِهِ الْأَيَّامَ أَيَّامُ أَكْلِ وَ شُرْبٍ وَذِكْرِ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ)) (سنن ابی داود:2813)
’’اور یہ ایام کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے دن ہیں ۔‘‘
اسی طرح عید کے موقعے پر خوشی کے اظہار کے لیے کھیل کود کرنا بھی عید منانے کا ایک انداز اور طریقہ ہے اور یہ بھی اسلام میں جائز و ثابت ہے۔
عید کی خوشی کا ایک سب سے بنیادی اور اہم پہلو کہ جسے شاید خوشی کے طور پر کبھی جانا ہی نہیں جاتا، وہ ہے لوگوں کا آپس میں ایک ساتھ جمع ہوتا ۔ لوگوں کے آپس میں ایک دوسرے کے قریب ہونے اور مل بیٹھنے سے جو خوشی حاصل ہوتی ہے، وہ ایک بہت بڑی فطری اور بنیادی خوشی ہے۔ یہ تو آپ نے سنا ہوگا کہ انسان فطرتا معاشرت پسند ہے، یعنی لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنا انسان کی ضرورت بھی ہے اور وہ اس طرف میلان طبع بھی رکھتا ہے۔ معاشرے سے الگ تھلگ ہو کر زندگی گزارنا نہایت مشکل ہے کہ ضروریات زندگی پوری نہیں ہوتیں، بلکہ اس پر تجربات کیے گئے ہیں کہ اگر بچپن ہی سے کسی کو انسانوں سے بالکل الگ کر دیا جائے تو اس کی دماغی نشو و نما ہی نہیں ہوتی حتی کہ بات کرنے کے قابل بھی نہیں ہوتا اور اسلام اس نظریے کی تائید و تصدیق کرتا ہے، بلکہ ترغیب دیتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ مل جل کر ر ہیں۔ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((الْمُؤْمِنُ الَّذِي يُخَالِطُ النَّاسِ وَ يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ أَعْظَمُ أَجْراً مِنَ الَّذِي لَا يُخَالِطُ النَّاسُ وَلَا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ)) (سنن ابن ماجه:4032)
’’فرمایا: وہ مسلمان جو لوگوں کے ساتھ مل جل کر اور گھل مل کر رہتا ہے اور ان کی اذیتیں سہتا ہے، زیادہ اجر پاتا ہے، اس شخص کی نسبت جو لوگوں کے ساتھ گھل مل کر نہیں رہتا اور اُن کی تکلیفیں نہیں رہتا ۔‘‘
لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے کی انسان کو کتنی خوشی ہوتی ہے، آپ نے اندازہ کیا ہوگا کہ انسان دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ لگانے میں کتنی خوشی اور لذت محسوس کرتا ہے۔ آپ نے اس کا بھی انداز و لگایا ہوگا کہ آپ کسی کے ہاں مہمان بن کر جاتے ہیں تو کتنی خوشی ہوتی ہے اور کوئی آپ کے ہاں مہمان بن کر آئے تو خوشی ہوتی ہے۔ لہذا آپ نے شاید غور کیا ہو کہ تمام خوشی کے تہوار اجتماعی شکل میں ہوتے ہیں، انفرادی شکل میں نہیں ہوتے، لوگ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر خوشی نہیں مناتے، بلکہ کسی جگہ جمع ہو کر تہوار مناتے ہیں۔ اور اسلام بھی اس کی بہت تاکید کرتا ہے، حدیث میں ہے، حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتیں ہیں:
((قَالَتْ كُنَّا نُؤْمَرُ أَنْ تَخْرُجَ يَوْمَ الْعِيدِ حَتَّى تُخْرِجَ الْبِكْرَ مِنْ خِدْرَهَا ، حَتّٰى نُخْرِجُ الحيض))
’’ہمیں حکم ہوتا کہ ہم عید کے دن نکلیں، حتی کہ غیر شادی شدہ عورتوں کو بھی نکالیں، حتی کہ عذر والیوں کو بھی نکالیں ۔‘‘
((فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ فَيُكَبِّرْنَ بِتَكْبِيرِهِمْ، وَيَدْعُونَ بدعاتهم ، يَرْجُونَ بَرَكَهُ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَطُهْرَته)) (صحيح البخاري:971)
’’اور عذر والی عورتیں لوگوں کے پیچھے ہوتیں، یعنی صف میں شامل نہ ہوتیں، مگر لوگوں کے ساتھ تکبیرات کہتیں ، ان کی دعا کے ساتھ دعا کرتیں ، یعنی آمین کہتیں اور اُس دن کی برکت اور گناہوں سے پاک ہونے کی امید لیے حاضر ہوتیں۔‘‘
آج کل زیادہ تر عید چونکہ مساجد میں ہوتی ہے لہذا وہ عورتیں مسجد میں بھی آسکتی ہیں مگر نماز میں شریک نہیں ہوسکتیں۔
تو آپ نے دیکھا کہ عید کے تہوار کے اجتماع میں شریک ہونے کی کس قدر ترغیب اور تاکید کی گئی ہے، جس کے دنیوی فوائد بھی ہیں اور اخروی فوائد بھی۔
عید کی خوشیوں کے حوالے سے صرف ایک آخری بات عرض کرتا ہوں کہ عید کے موقعے پر خوش ہونا اور خوشیاں منانا تو سب کو معلوم ہے مگر شاید یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ دوسروں کو خوشیوں میں شریک کرتا بھی خوشیاں منانا ہے۔ چنانچہ اسلام نے اس حوالے سے ہم پر زکوۃ الفطر لازم کی ہے اور جس کے بارے میں حدیث میں ہے: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ
((فَرَضَ رَسُولُ اللهِ ﷺ زَكَوٰةَ الْفِطْرِ طُهْرَةَ لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ، وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ)) (سنن ابی داود:1609)
’’رسول اللہ ﷺنے صدقہ فطر، روزے دار کو بیہودگی اور خش باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور محتاجوں کے کھانے کا انتظام کرنے کے لیے فرض کیا ہے۔‘‘
گویا کہ عید کی خوشی اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک غریبوں اور مسکینوں کو اس میں شریک نہ کیا جائے، اور عید کے تہواروں میں اس خوشی کا اضافہ صرف اسلام ہی کا خاصہ ہے۔
اور حقیقت یہ ہے کہ ایک سچا مسلمان صرف عید کے روز ہی اس خوشی اور اس اخلاق کا مظاہرہ نہیں کرتا بلکہ ہمہ وقت اس کا یہی طرز عمل رہتا ہے، افسوس کہ خوشی کی وہ صورت اور اخلاق و آداب کا وہ عالم آج مسلم معاشرے میں مفقود ہے، امت مسلمہ میں وہ نا پید ہے، اس کی جگہ تنگ دلی اور خود غرضی نے لے لی ہے۔
ہمارے اسلاف میں موجود ان صفات کی ایک جھلک ملاحظہ کیجئے:
((عن ابن بريدة رحمه الله قَالَ: شتم رجل ابن عباس ، فقال ابنُ عَبَّاسٍ: إِنَّكَ لَتَسْتُمُنِي وَفِي ثَلاثُ خِصَالٍ)) ابن بریدہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کو گالی دی، تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے اُس شخص سے کہا کہ تم مجھے گالی دیتے ہو جب کہ مجھ میں تین صفات ہیں ۔ ((إِنِّي لَاتِي عَلَى الْآيَةِ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى فَلَوَدِدْتُ أَنَّ جَمِيعَ النَّاسِ يَعْلَمُونَ مِنْهَا مَا أَعْلَمُ))
’’ایک تو یہ کہ مجھے جب قرآن پاک کی کسی آیت کا کوئی مفہوم سمجھ میں آتا ہے تو میں خواہش کرتا ہوں کہ جو مجھے معلوم ہے سب لوگوں کو معلوم ہو جائے ۔ ‘‘
((وَإِنِّي لَأَسْمَعُ بِالْحَاكِمِ مِنْ حُكَامِ الْمُسْلِمِينَ يَعْدِلُ فِي حُكْمِهِ فَأَفْرَحُ بِهِ، وَلَعَلِّي لَا أَقَاضِي إِلَيْهِ أَبَدًا))
’’اور دوسری یہ کہ جب میں سنتا ہوں کہ مسلمان حکمرانوں میں سے کوئی حکمران فیصلے کے وقت عدل و انصاف سے کام لیتا ہے، تو میں بہت خوش ہوتا ہوں، حالانکہ مجھے شاید زندگی میں کبھی اس کے پاس فیصلے کے لیے جانے کی ضرورت نہ پڑے۔‘‘
((وَ إِنِّي لَأَسْمَعُ بِالْغَيْثِ قَدْ أَصَابَ الْبَلَدَ مِنْ بِلَادِ الْمُسْلِمِينَ فَأَفْرَحُ بِهِ وَمَالِي بِهِ مِنْ سَائِمَةِ)) (المعجم الكبير للطبراني:10621)
’’اور تیسرے یہ کہ جب میں سنتا ہوں کہ مسلمانوں کے کسی علاقے میں بارش ہوئی ہے، (کہ جس سے کھیتوں میں ہریالی اور ہر طرف سبزہ آتا ہے) تو میں خوش ہوتا ہوں حالانکہ میرے پاس باہر چھ نے والا کوئی جانور بھی نہیں ہے۔‘‘
تو یہ ہمارے اسلاف کی وسعت ظرفی اور کشادہ دلی کی ایک جھلک ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ اپنے اسلاف کے حالات زندگی کا مطالعہ کریں تو اس سے بھی حیران کن باتیں سامنے آتی ہیں۔
مثلا: امام تاج الدین سبکی ہے جو ایک بہت بڑے عالم تھے اور اپنے دور میں قاضی القضاة بھی رہے ہیں (771ھ) ان کے والد بھی بہت بڑے عالم تھے ۔ (تقی الدین السبکی)
امام تاج الدین السبکی ہے بیان کرتے ہیں کہ:
(( كُنْتُ يَوْمًا فِي دِهْلِيرِ دَارِنَا فِي جَمَاعَةِ ، فَمَرَّ بِنَا كَلْبٌ يَقْطُرُ مَاءً ، يَكَادُ يَمَسُّ ثِيَابَنَا، فَنَهَرْتُهُ وَقُلْتُ: يَا كَلْبُ يَا ابْنَ الْكَلْبِ))
’’ کہتے ہیں ایک بار میں اپنے گھر کی دہلیز پر کچھ لوگوں کے ساتھ کھڑا تھا، کہ ہمارے پاس سے ایک کتا گزرا جو پانی میں بھیگا ہوا تھا، اس سے پانی ٹپک رہا تھا اور قریب تھا کہ ہمارے کپڑوں کو چھو جاتا، تو میں نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا: اوکتے ، او کتے کے بچے!‘‘
((وَإِذَا بِالشيخ الإمامِ ، يَعْنِي وَالِدُهُ الشَّيْخُ تَفِيُّ الدِّين السبكي يسمعنا من داخل))
’’اور امام صاحب یعنی ان کے والد الشیخ تقی الدین السبکی رحمہ اللہ اندر یہ بات سن رہے تھے۔‘‘
((فَلَمَّا خَرَجَ ، قَالَ: لِمَ شَتَمْتَهُ ))
’’جب باہر تشریف لائے تو مجھ سے فرمایا: تم نے اسے گالی کیوں وی ہے؟‘‘
((فَقُلْتُ: مَا قُلْتُ إِلَّا حَقًّا، أَلَيْسَ هُوَ بِكَلِّبٍ ابْنِ كَلب؟))
’’تو میں نے کہا کہ میں نے صحیح بات ہی کی ہے، کیا وہ کتے کا بچہ نہیں ہے؟‘‘
((فَقَالَ: هُوَ كَذَلِكَ ، إِلَّا أَنَّكَ أَخْرَجْتَ الكَلَامَ فِي مَخْرَج الشتم والإهانَةِ وَلا يَنبَغِي ذَلِكَ))
’’ تو انہوں نے فرمایا: بے شک بات ایسے ہی ہے مگر تم نے بات گالی اور توہین کے پیرائے میں کی ہے، جو کہ ایسے نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ ((فَقُلْتُ: هَذِهِ فَائِدَةٌ لا يُنَادَى مَخْلُوقَ بِصِفَتِهِ إِلَّا إِذَا لَمْ يَخْرُجُ مخرج الإهانة)) (الحاوي للفتاوى:1283)
’’تو میں نے دل میں کہا کہ یہ ایک علمی فائدہ حاصل ہو گیا کہ کسی مخلوق کو اس کی کسی ایسی صفت سے نہیں پکارنا چاہیے جو کہ عرف عام میں ایک عیب سمجھا جاتا ہو الا یہ کہ تو دین کے پہلو سے نہ ہو۔‘‘
بات لمبی ہوگئی ، اصل میں جتلانا مقصود یہ تھا کہ مسلمانوں کے صرف خوشی کے تہوار ہی دوسروں سے نرالے منفرد اور مہذب نہیں ہیں بلکہ روز مرہ کے معاملات اور طرز زندگی بھی ایسا ہی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے خاص فضل و کرم سے ہماری یہ ٹوٹی پھوٹی عبادتیں قبول فرمائے۔ آمین
اقول قولى هذا، واستغفر الله العظيم لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب انه هو الغفور الرحيم

………………