عید الفطر ، يوم الشكر

الله اكبر، الله اكبر ، الله اكبر ، لا اله الا الله والله اكبر الله أكبر، ولله الحمد، ان الحمد لله
﴿وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰی مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ﴾ (البقره:185)
جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ ہر قوم کے ہاں کوئی نہ کوئی خوشی کا تہوار ضرور ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو اللہ تعالی نے خوشی کے دو دن عطا فرما رکھے ہیں، عید الفطر اور عید الاضحی ۔ آج عید الفطر کا دن ہے، جو کہ یقینًا خوشی اور مسرت کا دن ہے، یہ خوشی کیوں ہے؟ یہ خوشی رمضان المبارک کے اختتام پر تکمیل عبادت مقررہ کی سعادت حاصل کرنے کی خوشی ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ))روزے دار کو دو خوشیاں حاصل ہوتی ہیں ۔
((فَرْحَةٌ حِينَ يُفْطِرُ))
’’ایک خوشی اس کے افطار کے وقت ۔‘‘
((وَفَرْحَةٌ حِينَ يَلْقَى رَبَّهُ)) (بخاري:8492)
’’اور ایک خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت ۔‘‘
افطار کے وقت جو خوشی ہوتی ہے، وہ ایک جبلی اور فطری خوشی ہے، کہ فطری طور پر انسان کھانے پینے کی طرف میلان اور رجحان رکھتا ہے، لیکن جب کھانا بھوک کے وقت اور ایک پابندی کے بعد میسر آئے تو اس کی ایک الگ ہی خوشی ہوتی ہے، لہٰذا افطاری کے وقت انسان کو یقینًا ایک خوشی ہوتی ہے، اس کی طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے۔ تو ایک طرف یہ انسان کی جبلی خوشی ہے اور دوسری طرف یہ اس کی شرعی خوشی بھی ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے اس خوشی کا موقع عطا فرمایا ہے، یہ خوشی اللہ تعالی کو محبوب ہے اور اللہ تعالی چاہتے ہیں کہ اس کے بندے اس خوشی سے خوش ہوں، چنانچہ حدیث میں ہے، حدیث قدسی ہے، اللہ فرماتے ہیں:
((أَحَبُّ عِبَادِي إِلَىَّ أَعْجَلُهُمْ فِطْرًا)) (ابن حبان:3423)
’’میرے بندوں میں سے وہ بندے مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں جو افطار میں جلدی کرتے ہیں ۔‘‘
اس حدیث میں اگر چہ کچھ ضعف ہے، مگر تعجیل افطار کے حوالے سے ایک صحیح حدیث بھی ہے۔
((لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجِلُوا الْفِطْرَ)) (بخاري:1957)
’’لوگوں میں اس وقت تک خیر باقی رہے گی جب تک وہ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔‘‘
افطار میں جلدی کرنے کا مطلب ، وقت سے پہلے افطار کرنا نہیں، بلکہ افطار کا وقت ہوتے ہی فورا افطار کرتا ہے۔
اللہ تعالی کو اپنے بندوں کا افطار میں جلدی کرنا کیوں پسند ہے، اس میں یقینًا حکمتیں ہیں، جن میں سے ایک یہ سمجھ میں آتی ہے، کہ بندہ جب رنگا رنگ کے ماکولات و مشروبات سامنے رکھے بار بار گھڑی کو دیکھ رہا ہوتا ہے یا مؤذن کی اذان کا منتظر ہوتا ہے تو اس کی اس کیفیت پر ترس اور پیار آتا ہے اور اس کی یہ حالت فرمانبرداری کی بہترین مثال اور خوبصورت منظر پیش کر رہی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اگر افطاری کا وقت ہو چکا ہو اور آدمی اپنے کسی کام میں مصروف رہے اور کہے کہ مجھے کوئی اتنی جلدی نہیں ہے، میں گھنٹے دو گھنٹے اب اور برداشت کر سکتا ہوں تو اس کا یہ رویہ، یہ انداز، ایک قسم کی لاپرواہی ، بے نیازی اور استغنا ظاہر کرتا ہے اور یہ اللہ تعالی کی نعمت کی ناقدری ہے، اس کی ہدایتوں اور اس کے احکامات سے اعراض ہے، ان سے بے نیازی ہے جبکہ ایک مخلوق کو اور وہ بھی کمزوری مخلوق کو بے نیازی زیب نہیں دیتی۔ تو افطار کے وقت انسان کو اک فطری خوشی حاصل ہوتی ہے، مگر اک بڑی اور سب سے بڑی خوشی اسے اپنے رب سے ملاقات کے وقت ہوگی جب اسے اس اجر اور برداشت کا اور اس فرمانبرداری کا اجر و ثواب ملے گا۔
اسی طرح رمضان المبارک کے اختتام پر یوم تشکر کے طور پر خوشی کا دن منانے کا موقع عطا کیا گیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
﴿وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰی مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ﴾ (البقرة:185)
’’تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ تعالی نے تمہیں سرفراز کیا ہے اس پر اللہ کی کبریائی بیان کرو اور اس کا شکر بجالاؤ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ہمیں روزوں کی جو توفیق بخشی اور جو ہدایت نصیب فرمائی ، اس پر ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں اور اس کی بڑائی بیان کرتے ہیں،
الله اكبر، الله أكبر، الله أكبر، لا اله الا الله والله اكبر الله أكبر، ولله الحمد.
آج ایک طرف اگر چہ ہم عید الفطر کی شرعی خوشیاں منا رہے ہیں، مگر دوسری طرف ہمارے دل غم و خزن سے معمور ہیں ، خون کے آنسو رو رہے ہیں، ہم اپنے بے گناہ مسلمان بھائیوں کی ماؤں اور بہنوں کی لاشیں گرتی ہوئی دیکھتے ہیں، ان پر ظلم و زیادتی کے مناظر دیکھتے ہیں تو تکلیف ہوتی ہے، دل کڑھتا ہے۔
آج امت مسلمہ جس دور سے گزر رہی ہے، یقینًا انتہائی کٹھن دور ہے مگر یہ تکلیفیں، یہ سزائیں، یہ ظلم وستم مسلمانوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے، ہماری تاریخ اس سے بھری پڑی ہے لیکن ہم اگر مسلمانوں کی آج کی اس حالت زار کا، اس بے بسی اور بے کسی کا جائزہ لیں تو حقیقت یہ ہے کہ جہاں ہم اغیار کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، وہاں اس سے زیادہ ہم خود اس کے ذمہ دار اور قصور وار ہیں، ہم اگر اپنے طرز عمل پر غور کریں تو صاف نظر آئے گا کہ ہمارے قول اور فعل میں تضادات ہیں، ہمارا دعوئی ایمانی کھوکھلا ہے، ہمارے گھروں کا ماحول اسلامی نہیں، ہمارے کاروبار اسلامی نہیں، ہمارے شادی بیاہ کے معاملات اسلامی نہیں، ہمارا میڈیا اسلامی اخلاقیات کے سراسر مخالف سمت پر ہے، ہمارا رہن سہن، کھانا پینا غرضیکہ کوئی بھی معاملہ اسلامی نہیں، ہاں اسلام کی اک چھاپ ضرور ہے یا کچھ لوگ اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں، باقی صرف دعوٰی ہی ہے۔
یہ موضوع بہت طویل ہے، اس کی تفصیلات تھوڑے سے وقت میں بیان نہیں کی جا سکتیں، مگر خلاصہ یہ ہے کہ:
﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ؕ﴾ (الرعد:11)
’’اللہ تعالی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت نہ بدل لیں۔‘‘
تو اگر چہ حقیقت حال یہ ہے کہ آج ہماری یہ حالت زار ہماری بداعمالیوں کا نتیجہ ہے اور اس بد حالی کو بدلنے کے لیے اللہ تعالی کا قانون اٹل ہے کہ جب لوگ اپنی حالت بدل لیں گے کہ جس کی وجہ سے ان پر یہ سزائیں مسلط کی گئی ہیں، تو اللہ تعالی بھی ان کی حالت بدل دیں گے، یعنی انہیں فتح و کامرانی نصیب ہوگی، عزت و افتخار حاصل ہوگا اور دنیا میں اقتدار عطا ہوگا، جیسا کہ متعدد آیات واحادیث سے واضح ہے۔
تاہم مایوس نہیں، حالات بدلنے کے آثار نمایاں ہیں اور دن بدن مزید واضح ہوتے جا رہے ہیں ، احادیث میں اس کی جو پیش گوئیاں کی گئی ہیں وہ اپنی جگہ ان کا تذکرہ ان شاء اللہ کسی دوسرے وقت میں کریں گے۔ سردست اعداد و شمار کے لحاظ سے اگر اس کا جائزہ لیں تو صورت حال ان شاء اللہ اطمینان بخش ہے۔ لوگوں کا اسلام کی طرف بڑھتا ہوا رجحان اور تیزی سے اسلام میں داخل ہونے کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی سربلندی کا دور دور نہیں۔
2005ء میں مسلمانوں کی تعداد دنیا کی آبادی کا حصہ 23 فیصد سے زیادہ تھا۔ ڈیڑھ بلین سے کچھ زیادہ، اور اعداد و شمار کی روشنی میں اندازہ کیا جاتا ہے کہ 2025ء میں مسلمانوں کی آبادی دنیا میں پہلے نمبر پر ہوگی۔
ماسکو کے ایک اخبار کے مطابق کچھ عرصے میں تین لاکھ رشینز نے اسلام قبول کیا۔ انگلینڈ میں ہر سال 25ہزار سے زائد لوگ مسلمان ہوتے ہیں خلیجی ممالک میں جو لوگ کام کرنے جاتے ہیں، ان کی اک بڑی تعداد مسلمان ہو جاتی ہے۔ ہر سال مسجدوں میں اضافہ ہوتا ہے اور نمازیوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
امریکہ میں2000 کے قریب مسجدیں ہیں ، انگلینڈ میں1000 کے قریب، فرانس میں 3500 اور ان میں صرف پیرس میں110 مسجدیں ہیں، جرمنی میں2200 اور اسی طرح دیگر یورپی ممالک میں۔ تمیں سال پہلے کسی اسلامی بنک کا وجود نہ تھا اور اخبار ایسی سوچ کا مذاق اڑایا کرتے تھے کہ کوئی اسلامی بنک بھی معرض وجود میں آسکے گا اس دور میں مگر آج تقریبًا 500کے قریب دنیا میں اسلامی بنک موجود ہیں اور تین سو غیر اسلامی بنکوں نے اپنے بنکوں کی اسلامی بنکنگ پر مبنی برانچز کھول رکھی ہیں، اور خبر یہ بھی ہے کہ بحرین میں دنیا کا سب سے بڑا اسلامی بنک کھلنے والا ہے۔ (100 بلین کی مالیت کے ساتھ ) اور اسی طرح اور بہت سی خوشخبریاں ہیں جو ان شاء اللہ کسی دوسری نشست میں بیان کریں گے۔ اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
……………