فروعات و عقائد میں خبر واحد حجت ہے
244۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے سیدنا معاذ کو یمن روانہ کیا تو فرمایا:
((ادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ)) (أخرجه البخاري:1395، 1458، 2448، 7372، ومسلم:19)
’’سب سے پہلے اہل یمن کو اس بات کی دعوت دینا کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ یہ بات مان لیں تو ان سے کہنا کہ اللہ تعالی نے شب و روز میں ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ اس بات کو بھی تسلیم کر لیں تو انھیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے اموال میں صدقہ بھی فرض کیا ہے جو ان کے مال داروں سے وصول کر کے ان کے محتاجوں پر خرچ کیا جائے گا۔‘‘
245۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے کسری (شاہ ایران) کو اپنا خط بھیجا اور قاصد کو حکم دیا کہ وہ یہ خط بحرین کے گورنر کو دے، بحرین کا گورنر اسے کسری تک پہنچائے گا۔ جب کسری نے وہ خط پڑھا تو اس نے (غصے میں آکر) اسے پھاڑ ڈالا۔ ( أَخْرَجَة البخاري:2939)
246۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے اہل نجران سے فرمایا:
((لَأَبْعَثَنَّ إِلَيْكُمْ رَجُلًا أَمِينًا حَقَّ أَمِينٌ)) (أخرجه البخاري: 3745، 4381، 7254، ومُسْلِمٌ:2420(
’’میں تمھارے پاس ایسا امانت دار شخص ضرور بھیجوں گا جو کامل امین ہے۔‘‘
لوگوں نے آپ کی طرف گردنیں اونچی کیں تو آپﷺ نے سیدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ کو روانہ کیا۔ 247۔ سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ اسلم کے ایک شخص سے فرمایا:
((أَذِنَ فِي قَوْمِكَ أَوْ فِي النَّاسِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ: أَنَّ مَنْ أَكُلَ فَلْيُتِمَّ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ أَكَلَ فَلْيَصُمْ)) (أخرجه البخاري: 2007،7257، ومسلم: 135 (248)
’’عاشوراء کے دن اپنی قوم یا لوگوں میں یہ اعلان کر دے کہ جس نے کچھ کھا پی لیا ہے وہ باقی دن پورا کرے (کچھ نہ کھائے ہے) اور جس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا پیا وہ روزہ رکھ لے۔‘‘
248۔سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک ان کے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے کہا:
((إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَدْ أُنزِلَ عَلَيْهِ اللَّيْلَةَ قُرْآنٌ، وَقَدْ أُمِرَ أَن يَّسْتَقْبِلَ الكَعْبَةَ فَاسْتَقْبِلُوهَا)) (أَخْرَجَهُ البخاري:7251، ومُسْلِمٌ: 526)
’’بے شک رسول اللہ ﷺ پر رات کو قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ نماز میں کھعے کی طرف منہ کر لیں، لہٰذا تم لوگ بھی کھبے کی طرف منہ کر لو۔‘‘
ان کے منہ شام کی جانب تھے، پھر (اعلان سننے کے بعد) وہ لوگ کھعے کی طرف پھر گئے۔
توضیح وفوائد: خبر واحد کا مطلب یہ ہے کہ وہ حدیث جسے نقل کرنے والے افراد ہر طبقے میں کم سے کم ایک اور ایک قول کے مطابق زیادہ سے زیادہ دس آدمی ہوں۔ احناف وغیرہ کا یہ موقف ہے کہ عقائد میں خبر واحد حجت نہیں ہے۔ اس خود ساختہ قاعدے کی ضرورت انھیں اپنے ائمہ کے اقوال اور فقہی مذہب کو بچانے کے لیے پیش آئی۔ اس فضول قاعدے کی آڑ میں انھوں نے ہر اس حدیث کو خیر واحد کہہ کر نظر انداز کر دیا جو ان کے فقہی مذہب کے خلاف تھی اور جہاں فقہی مذہب کو بچانا مقصود تھا وہاں ضعیف اور من گھڑت احادیث کو بھی قبول کر لیا۔ حافظ ابن قیم رشتے نے اعلام الموقعین میں ان کی خوب خبر لی ہے۔ باب میں مذکور احادیث سے بھی ان کے موقف کی تردید ہوتی ہے۔ آپ نے مختلف اوقات میں مختلف علاقوں کی طرف اکیلے شخص کو اسلام کی تبلیغ کے لیے بھیجا اور اس میں عقائد کی تبلیغ بھی شامل تھی۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ خبر واحد ہے۔ یاد رہے کہ مواتر احادیث کی کل تعداد تقریباً تین سو ہے۔ باقی سارا ذخیرۂ احادیث خبر آحاد پر مشتمل ہے۔
………………..