فضائلِ صحابہ رضی اللہ عنہم
اہم عناصرِ خطبہ :
1۔ صحابی کی تعریف 2۔صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل قرآن مجید میں
3۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل احادیث ِ نبویہ میں
4۔ انصارِ مدینہ رضی اللہ عنہم کے فضائل
5۔ اہلِ بدر رضی اللہ عنہم کے فضائل 6۔ اہلِ اُحد رضی اللہ عنہم کے فضائل
7۔ بیعتِ رضواں میں شریک ہونے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل
8۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ
پہلا خطبہ
برادران اسلام !آج کے خطبہ میں ہم رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل ومناقب بیان کریں گے ۔
٭ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہ جن کی تعریف خود ﷲ رب العزت نے اپنی سب سے مقدس کتاب قرآن مجید میں کی ۔ اس کے علاوہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی متعدد احادیث مبارکہ میں اپنے ان ساتھیوں کی ستائش کی ۔
٭ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہ جو وحیِ الٰہی کے سب سے پہلے مخاطب تھے ۔
٭ جنہوں نے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے ان کے فرامین سنے ۔
٭ جنہوں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت کو یاد کیا اور اسے امت تک پہنچایا ۔
٭ جنہوں نے دین ِ اسلام کی خاطر اپنا سب کچھ حتی کہ اپنی جانوں تک کو قربان کردیا اور شیوۂ فرمانبرداری کی ایسی مثالیں قائم کیں جو رہتی دنیا تک پڑھی اور سنی جاتی رہیں گی ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل ومناقب ذکر کرنے سے پہلے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ’’ صحابی ‘‘ کسے کہتے ہیں ؟
حافظ ابن حجر رحمہ ﷲ نے ’’ صحابی ‘‘ کی تعریف یوں کی ہے :
’’الصحابی من لقی النبی صلي الله عليه وسلم مؤمنا بہ ومات علی الإسلام ‘‘
یعنی ’’ صحابی اسے کہتے ہیں جس نے حالتِ ایمان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور اسلام پر ہی فوت ہوا ۔‘‘
پھر اس کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اِس تعریف کے مطابق ہر وہ شخص صحابی شمار ہوگا جو رسول  ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حال میں ملا کہ وہ آپ کی رسالت کو مانتا تھا ۔ پھر وہ اسلام پر ہی قائم رہا یہاں تک کہ اس کی موت آگئی ، خواہ وہ زیادہ عرصے تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہا یا کچھ عرصے کے لئے اور خواہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو روایت کیا ہو یا نہ کیا ہو اور خواہ وہ آپ کے ساتھ کسی جنگ میں شریک ہوا ہو یا نہ ہوا ہو اور خواہ اس نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا یا بصارت نہ ہونے کے سبب وہ آپ کا دیدار نہ کرسکا ۔ ہر دو صورت میں وہ ’ صحابیٔ رسول‘ شمار کیا جائے گا ۔البتہ ایسا شخص ’ صحابی‘ متصور نہیں ہوگا جو آپ پر ایمان لانے کے بعد مرتد ہوگیا۔
جب ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ ’’ صحابی ‘‘ کسے کہتے ہیں توآئیے دیکھتے ہیں کہ ﷲ رب العزت نے قرآن مجید میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تذکرہ کس انداز میں کیا ہے ؟اور کس طرح ان کی تعریف فرمائی ہے۔
1۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ‎١٠٠﴾
’’اور مہاجرین وانصار میں سے وہ اوّلیں لوگ جو کہ ( ہجرت کرنے اور ایمان لانے میں ) دوسروں پر سبقت لے گئے اور وہ دوسرے لوگ جنہوں نے ان سابقین کی اخلاص کے ساتھ پیروی کی،ﷲ ان سب سے راضی ہوگیا اور وہ سب ﷲ سے راضی ہوگئے اور ﷲ نے ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی ، ان میں وہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے۔ ( اور ) یہی عظیم کامیابی ہے ۔‘‘
اس آیت کریمہ میں ﷲ تعالیٰ نے تین قسم کے لوگوں کا ذکر فرمایا ہے :
1۔ مہاجرین، جنہوں نے رب العزت کے دین کی خاطر اپنے آبائی وطن اور مال ومتاع کو چھوڑا اور مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔
2۔ انصارِ مدینہ ، جنہوں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نصرت ومدد کی اور ان کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیا ۔
ﷲ تعالیٰ نے ان دونوں ( مہاجرین وانصار ) میں سے ان حضرات کا تذکرہ فرمایا ہے جو ہجرت کرنے اور ایمان لانے میں سبقت لے گئے ، یعنی سب سے پہلے ہجرت کرکے اور سب سے پہلے ایمان قبول کرکے وہ دوسروں کے لئے نمونہ بنے ۔
3۔ وہ حضرات جنہوں نے ان سابقین اولین کی اخلاص ومحبت سے پیروی کی اور ان کے نقشِ قدم پہ چلے ۔ ان میں متأخرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین اور قیامت تک آنے والے وہ تمام لوگ شامل ہیں جو انہیں معیارِ حق تصور کرتے ہوئے ان کے پیروکار رہیں گے ۔
تینوں قسم کے لوگوں کا تذکرہ کرنے کے بعد اﷲ تعالیٰ نے انہیں دو خوشخبریاں سنائی ہیں ، ایک یہ کہ اﷲ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا ہے ، یعنی ان کی لغزشیں معاف کردی ہیں اور ان کی نیکیوں کو شرفِ قبولیت سے نوازا ہے ۔ اور دوسری یہ کہ ﷲ تعالیٰ نے ان کے لئے جنات تیار کردی ہیں جن میں یہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے ۔
محمد بن کعب القرظی کہتے ہیں کہ ﷲ تعالیٰ نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مغفرت کردی ہے اور اپنی کتاب میں ان کے لئے جنت کو واجب قرار دیا ہے ۔ ان میں سے جو نیک تھا اس کے لئے بھی اور جو خطا کار تھا اس کے لئے بھی ۔ پھر انھوں نے قرآن مجید کی یہی آیت تلاوت کی اور کہا : ’’ اس میں ﷲ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے رضامندی اور ان کے لئے جنت کا اعلان کیا ہے ۔ اسی طرح ان کے پیروکاروں کے لئے بھی یہی انعام ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ان کی اخلاص ومحبت سے پیروی کریں ۔‘‘
2۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ لَّقَد تَّابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ‎﴾‏
’’ ﷲ تعالیٰ نے پیغمبر کے حال پر توجہ فرمائی اور مہاجرین و انصار کے حال پر بھی ، جنہوں نے تنگی کے وقت پیغمبر کا ساتھ دیا ، اس کے بعد کہ ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کچھ تزلزل ہوچلا تھا ، پھر ﷲ نے ان کے حال پر توجہ فرمائی ،بلا شبہ ﷲ تعالیٰ ان سب پر بہت شفیق ومہربان ہے ۔‘‘
اس آیت میں ﷲ تعالیٰ نے خاص طور پر ان مہاجرین وانصار کی تعریف فرمائی ہے جنہوں نے ’’ تنگی کے وقت ‘‘ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا۔ ’’ تنگی کے وقت ‘‘ سے مراد جنگِ تبوک ہے جس میں تنگی کا عالم یہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نہ کھانے کو کوئی چیز ملتی تھی اورنہ پینے کو پانی میسر تھا ، شدید گرمی کا موسم تھا ۔ سوار زیادہ تھے اورسواریاں کم تھیں ، لیکن اس قدر تنگی کے عالم میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑا اور ہر قسم کی تنگ حالی کو برداشت کیا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ’’ تنگی کے وقت ‘‘ کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا :
’’ ہم شدید گرمی کے موسم میں نکلے ، راستے میں ہم ایک جگہ پر رُکے جہاں ہمیں شدید پیاس محسوس ہوئی ، حتی کہ ہمیں ایسے لگا کہ ہماری گردنیں شدتِ پیاس کی وجہ سے الگ ہوجائیں گی ۔ اور حالت یہ تھی کہ ہم میں سے کوئی شخص جب اپنا اونٹ ذبح کرتا تو اس کے اوجھ کو نچوڑ لیتا اور جو پانی نکلتا اسے پی لیتا ۔ جب حالت اس قدر سنگین ہوگئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گذارش کی کہ اے ﷲ کے رسول ! ﷲ تعالیٰ آپ کی دُعا قبول کرتا ہے ، لہٰذا ہمارے لئے دعا کیجئے ۔ چنانچہ آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور ابھی آپ کے ہاتھ واپس نہیں لوٹے تھے کہ ہم پر بادل چھاگئے اور بارش ہونے لگی ۔ پس تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے برتن بھر لئے ، پھر جب ہم وہاں سے روانہ ہوئے تو ہمیں معلوم ہوا کہ بارش تو محض اسی جگہ پر ہی ہوئی تھی جہاں ہم رکے ہوئے تھے۔‘‘
اورحضرت قتادۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جنگ تبوک کے سفر میں کھانے پینے کی اس قدر کمی تھی کہ ایک کھجور کے دو حصے کرکے دو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپس میں بانٹ لیتے ۔ اور شدتِ پیاس کو بجھانے کے لئے کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک ہی کھجور کو باری باری چوستے رہتے ۔
جبکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ’’ ہم غزوۂ تبوک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، اس دوران لوگ شدتِ بھوک میں مبتلا ہوئے اور کہنے لگے ، اے ﷲ کے رسول ! اگر آپ اجازت دیں تو ہم اپنے اونٹ ذبح کرلیں ۔ تو آپ نے اجازت دے دی لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے:
اے ﷲ کے رسول ! اگر یہ اپنے اونٹ ذبح کریں گے تو سواریاں کم ہوجائیں گی ، آپ انہیں حکم دیں کہ انکے پاس کھانے کی جو بھی چیز موجود ہو وہ ایک جگہ پر اکھٹی کریں ، پھر آپ ﷲ تعالیٰ سے برکت کی دعا فرمائیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ٹھیک ہے ۔ پھر آپ نے ایک چادر (دستر خواں ) بچھانے کا حکم دیا اور لوگوں کو ارشاد فرمایا کہ جس کے پاس جو کچھ موجود ہے وہ اسے لاکر اس چادر پر رکھ دے ۔ چنانچہ ایک شخص آتا اور وہ مٹھی بھر مکئی اس پر رکھ دیتا ۔ اور ایک شخص آتا اور وہ مٹھی بھر کھجور اس پر رکھ دیتا ۔ اور ایک شخص آتا اور وہ جَو کی روٹی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اس میں جمع کردیتا ۔ اِس طرح اس دستر خواں پر تھوڑا سا کھانے کا سامان جمع ہوگیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برکت کی دعا فرمائی اور اس کے بعد لوگوں سے کہا : ’’ اب تم اپنے برتنوں میں اس کھانے میں سے لے جاؤ ۔‘‘
چنانچہ فوج کے تمام افراد نے اپنے اپنے برتن خوب بھرلئے اور سب نے پیٹ بھر کر کھانا بھی کھایا ۔ پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ ﷲ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور میں ﷲ کا رسول ہوں ۔ جو شخص بھی ان دو گواہیوں کے ساتھ ﷲ سے ملے گا اور اسے ان کے بارے میں کوئی شک نہیں ہوگا تو ﷲ تعالیٰ اسے ضرور جنت میں داخل کرے گا ۔‘‘
سامعین ِ گرامی ! جنگِ تبوک کے دوران جن سنگین حالات سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم دوچار ہوئے انہیں قدرے تفصیل سے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا اندازہ ہو جائے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کس قدر مضبوط ایمان کے حامل اور کس طرح صبر وتحمل کے پیکر تھے ۔ اور انھوں نے دین ِ اسلام کی خاطر کیا کیا مشکلات برداشت کیں ۔ تبھی تو ﷲ تعالیٰ نے ان کے حال پر خصوصی توجہ فرمائی اور اپنی مقدس کتاب قرآن مجید میں اس بات کا واضح اعلان فرمادیا کہ وہ ان سے راضی ہوگیا ہے اور یہ اس سے راضی ہوگئے ہیں ۔
3۔فرمانِ الٰہی ہے :
‎﴿ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَىٰ عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَىٰ ﴾
’’آپ کہہ دیجئے ! تمام تعریفیں ﷲ ہی کے لئے ہیں اور اس کے ان بندوں پر سلام ہے جنہیں اس نے چن لیا۔‘‘
اس آیت میں ﷲ تعالیٰ نے اپنے جن بندوں پر سلام بھیجا ہے اور انہیں برگزیدہ قرار دیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ ان سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جنہیں ﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی کیلئے منتخب فرمایا ۔
اور امام ابن جریر الطبری رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’ وہ بندے جنہیں ﷲ تعالیٰ نے چن لیا ، ان سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں ﷲ نے اپنے نبی کے لئے منتخب فرمایا اور انہیں آپ کا ساتھی اور وزیر بنایا ۔‘‘
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
’’ مَنْ کَانَ مُسْتَنَّا فَلْیَسْتَنَّ بِمَنْ قَدْ مَاتَ ، أُولٰئِكَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وسلم ،کَانُوْا خَیْرَ الْأُمَّةِ،أبَرَّہَا قُلُوْبًا،وَأعْمَقَہَا عِلْمًا ،وَأقَلَّہَا تَکَلُّفًا،اِخْتَارَہُمُ اﷲُ لِصُحْبَةِ نَبِیِّهِ صلي الله عليه وسلم وَنَقْلِ دِیْنِهِ،فَتَشَبَّہُوْا بِأَخْلَاقِہِمْ وَطَرَائِقِہِمْ فَہُمْ أصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وسلم کَانُوْا عَلَی الْہُدَی الْمُسْتَقِیْمِ ‘‘
’’ اگر کوئی شخص اقتداء کرنا چاہتاہو تو وہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلے جو کہ فوت ہوچکے ہیں۔ وہ امت کے سب سے بہتر لوگ تھے ، وہ سب سے زیادہ پاکیزہ دل والے ، سب سے زیادہ گہرے علم والے اور سب سے کم تکلف کرنے والے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنے نبی کی صحبت اور اپنے دین کو اگلی نسلوں تک پہنچانے کیلئے منتخب کر لیا تھا ۔ لہٰذا تم انہی کے اخلاق اورطور طریقوں کو اپناؤ کیونکہ وہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے اور صراطِ مستقیم پر چلنے والے تھے ۔ ‘‘

اسی طرح حضرت عبد ﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ﷲ تعالیٰٰ نے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو ان میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو سب سے بہتر پایا ۔ لہٰذا انہیں اپنے لئے چن لیا اور انہیں منصب ِ رسالت عطا کیا ۔ اس کے بعد پھر ﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں کو سب سے بہتر پایا ۔ اس لئے انہیں اپنے نبی کے وزراء کا منصب عطا کر دیا۔
4۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا‎﴾
’’محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ﷲ کے رسول ہیں ۔ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحمدل ہیں ۔ آپ انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ رکوع اور سجدے کررہے ہیں ، ﷲ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں ،سجدوں کے اثر سے ان کی نشانی ان کی پیشانیوں پر عیاں ہے ۔ ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور انجیل میںان کی مثال اس کھیتی کی مانند بیان کی گئی ہے جس نے پہلے اپنی کونپل نکالی ، پھر اسے سہارا دیا تو وہ موٹی ہوگئی ، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی ، وہ کھیت اب کاشتکاروں کو خوش کررہا ہے۔ ( ﷲ نے ایسا اس لئے کیا ہے ) تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑ آئے ۔ ان میں سے جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل صالح کیا ان سے ﷲ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے ۔ ‘‘
اس آیت میں ﷲ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کئی اوصاف بیان فرمائے ہیں :
1۔ وہ کافروں پر سخت ہیں ۔
2۔ اور آپس میں رحم دل ہیں ۔
3۔ رکوع وسجود کی حالت میں رہتے ہیں ۔
4۔ ﷲ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طالب رہتے ہیں ۔
5۔ سجدوں کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر ایک نشان نمایاں ہے ۔
6۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ ان کے شرف وفضل کے تذکرے پہلی آسمانی کتابوں میں بھی موجود تھے۔
7۔ ان کی مثال اس کھیتی کے مانند ہے جو پہلے کمزور اور پھر آہستہ آہستہ قوی ہوتی جاتی ہے۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پہلے کمزور تھے ، پھر طاقتور ہوگئے اور ان کا اثر ورسوخ بڑھتا چلا گیا جس سے کافروں کو چڑ تھی اور وہ غیظ وغضب میں مبتلا ہوتے تھے ۔
ان صفات کے حامل اور ایمان وعملِ صالح آراستہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اﷲ تعالیٰ نے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے ۔
حافظ ابن کثیر رحمہ ﷲ نے اس آیت کی تفسیر میں ایسے کئی آثار نقل کئے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر انسان نمازی ہو اور خصوصا تہجد پڑھنے والا ہو تو اس کی وجہ سے اس کے چہرے پر نور آجاتا ہے ۔ اور اگر اس کا باطن پاک ہوتو ﷲ تعالیٰ اس کی ظاہری حالت کو خوبصورت بنادیتا ہے جس سے وہ لوگوں میں محبوب ہوجاتا ہے ۔ اس کے بعد حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نیتیں خالص تھیں اور ان کے اعمال اچھے تھے ، اس لئے جو بھی انہیں دیکھتا ان کی شخصیت اور سیرت سے ضرور متاثر ہوتا۔ امام مالک رحمہ ﷲ کہتے ہیں کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے شام کو فتح کیا تھا انہیں جب نصاریٰ دیکھتے تو ان کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکل جاتے کہ ’’ ﷲ کی قسم!یہ لوگ ہمارے حواریوں سے بہتر ہیں ‘‘اور وہ اپنی اس بات میں یقینًا سچے تھے کیونکہ اس امت کی عظمت تو پہلی کتابوں میں بیان کی گئی ہے اور اس امت کے سب سے افضل لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی ہیں ۔‘‘
برادرانِ اسلام!
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں ہم نے صرف چار قرآنی آیات اور ان کی مختصر سی تفسیر بیان کی ہے۔ ویسے قرآن مجید ان کے اوصاف وفضائل کے حسین تذکرے سے بھرا پڑا ہے لیکن ہم اختصار کے پیشِ نظر آگے بڑھتے ہیں اور نبی ٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی آپ کے قابلِ فخر شاگردان گرامی کا ذکر ِ خیر سنتے ہیں ۔
1۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( اَلنُّجُوْمُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ،فَإِذَا ذَہَبَتِ النُّجُوْمُ أَتَی السَّمَاءِ بِمَا تُوْعَدُ،وَأَنَا أَمَنَةٌ لِأَصْحَابِیْ، فَإِذَا ذَہَبْتُ أَتٰی أَصْحَابِیْ مَا یُوْعَدُوْنَ،وَأَصْحَابِیْ أَمَنَةٌ لِأُمَّتِیْ،فَإِذَا ذَہَبَ أَصْحَابِیْ أَتٰی أُمَّتِیْ مَا یُوْعَدُوْنَ ))
’’ستارے آسمان کے لئے امان ہیں ، لہٰذا جب ستارے جھڑ جائیں گے تو آسمان بھی نہیں رہے گا جیسا کہ اس سے وعدہ کیا گیا ہے۔اور میں اپنے صحابہ کے لئے امان ہوں ، لہٰذا جب میں فوت ہوجاؤں گا تو میرے صحابہ پر وہ وقت آ جائے گاجس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔ اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم میری امت کے لئے امان ہیں ، لہٰذا جب میرے صحابہ رضی اللہ عنہم ختم ہوجائیں گے تو میری امت پر وہ چیز نازل ہوجائے گی جس کا اس سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ‘‘
امام نووی رحمہ ﷲ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ جب تک ستارے باقی ہیں آسمان بھی باقی ہے ۔اور جب قیامت کے دن ستارے بے نور ہوکر گرجائیں گے تو آسمان بھی پھٹ جائے گا ۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بقا آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے امان تھی،جونہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر آزمائشیں ٹوٹ پڑیں۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بقاء امت کے لئے امان تھی ،جونہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس دنیا سے چل بسے تواس
امت میں فتنے کھڑے ہوگئے ، بدعات ظاہر ہوگئیں اور امت انتشار کا شکار ہوگئی ۔
2۔ حضرت عبد ﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کونسے لوگ سب سے بہتر ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( قَرْنِیْ ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ))
’’ میری صدی کے لوگ (سب سے بہتر ہیں) ، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے ، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے ۔ ‘‘
3۔ حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لاَ تَسُبُّوْ أَصْحَابِیْ ، فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَھَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِہِمْ وَلاَ نَصِیْفَہُ ))
’’ میرے ساتھیوں کو گالیاں مت دینا ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تم میں سے کوئی شخص اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو وہ نہ ان کے ایک مُدّ کے برابر ہوسکتا ہے اور نہ آدھے مُدّ کے برابر۔ ‘‘
اِس سے مراد یہ ہے کہ کسی ایک صحابی نے اپنی تنگ دستی کے باوجود جو تھوڑا بہت ﷲ کی راہ میں خرچ کیا وہ ﷲ کے ہاں زیادہ پاکیزہ ہے اور زیادہ اجر وثواب کے لائق ہے بہ نسبت اس زرِ کثیر کے جو ان کے بعد آنے والے کسی شخص نے خرچ کیا ۔
4۔ حضرت ابوعبد الرحمن الجہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک دو سوار رونما ہوئے ، وہ دونوںآئے اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بیٹھ گئے۔ ان میں سے ایک شخص نے بیعت کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے لگا کہ اے ﷲ کے رسول ! آپ کا اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جس نے آپ کو دیکھا ، آپ پر ایمان لے آیا اور آپ کی پیروی اور تصدیق کی ، اسے کیا ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس کے لئے طوبیٰ ہے ۔‘‘ ( جنت میں ایک درخت کا نام )پھر اس نے بیعت کی اور پیچھے ہٹ گیا ۔ اس کے بعد دوسرا شخص آگے بڑھا اور اس نے بھی بیعت کرتے ہوئے وہی سوال کیا جو پہلے شخص نے کیا تھا ۔ تو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اس کے لئے طوبیٰ ہے، پھر اس کے لئے طوبیٰ ہے۔ ‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں اور بہت سی احادیث کتبِ حدیث میں موجود ہیں ۔ بلکہ شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ ’’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل ومناقب اور ان کی تعریف میں اور اسی طرح ان کی صدی کی دوسری صدیوں پر فضیلت کے بارے میں احادیث مشہور بلکہ متواتر درجہ کی ہیں ، لہٰذا ان کی عیب گیری کرنا دراصل قرآن وسنت میں عیب جوئی کرنا ہے۔‘‘
یہ وہ فضائل تھے جو عموما تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیلئے ہیں ۔ بعض فضائل خصوصا بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ہیں ، ہم ان میں سے چند ایک کا تذکرہ کرتے ہیں۔
1۔ انصارِ مدینہ کے فضائل
انصارِ مدینۂ طیبہ کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ رب العزت یوں ارشاد فرماتا ہے :
﴿وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
’’اور ( ان لوگوں کیلئے بھی ) جو ان ( مہاجرین ِ مکہ کے آنے ) سے پہلے یہاں ( مدینہ میں) مقیم تھے اورایمان لا چکے تھے ۔ وہ ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ انہیں دیا جائے وہ اپنے دلوں میں اس کی کوئی حاجت نہیں پاتے۔ وہ ( مہاجرین کو ) اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں خواہ خود فاقہ سے ہوں ۔ اور جو لوگ اپنے نفس کی تنگی اور بخل سے بچا لئے جائیں وہی کامیاب ہونے والے ہیں ۔ ‘‘
اس آیت ِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انصارِ مدینہ رضی اللہ عنہم کی بعض صفات حمیدہ ذکر کی ہیں اور ان کے حق میں گواہی دی ہے کہ وہ مہاجرین ِ مکہ کے آنے سے پہلے ہی ایمان لا چکے تھے ۔ اور ان میں جذبہ ٔ ایثار وقربانی اس قدر پایا جاتا تھا کہ وہ ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آنے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے دلی محبت کرتے تھے ۔ اور اگر مہاجرین کو مالِ غنیمت میں سے کچھ دیا جاتا تو یہ انصاراپنے دلوں میں کوئی تنگی یا گھٹن محسوس نہیں کرتے تھے۔ اور خواہ ان کے اپنے گھروں میں حاجت اور فاقہ کشی کی صورت ہوتی یہ اپنی ذات اور اپنی ضرورتوں پر ان کو اور ان کی ضرورتوں کو ترجیح دیتے اور ان کا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے ۔
انصار مدینہ رضی اللہ عنہم کے جذبۂ ایثار وقربانی کی ویسے تو کئی مثالیں موجود ہیں لیکن ہم یہاں صرف دو مثالیں ذکر کرتے ہیں ۔
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ ایک شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا (ایک روایت کے مطابق یہ خود ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی تھے ) اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! میں بہت بھوکا ہوں ۔ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے ہاں سے پتہ کرایا لیکن وہاں سے کچھ نہ ملا ۔ [ ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک ایک بیوی کے گھر سے پتہ کرایا تو ہر گھر سے یہی جواب ملا کہ ان کے پاس سوائے پانی کے اور کچھ نہیں ] پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے کہا : کیا کوئی ہے جو اس شخص کی مہمانی کرے ؟ اللہ تعالی اس کی حالت پر رحم فرمائے (جو اس کی مہمانی کرے ۔) چنانچہ ایک انصاری ( حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ ) نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں اس کی مہمانی کرونگا ۔ پھر وہ اس شخص کو اپنے ساتھ لے گئے اور اپنی بیوی ( حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا ) سے کہا :( أَکْرِمِیْ ضَیْفَ رَسُوْلِ اللّٰہ صلي الله عليه وسلم ) یعنی ’’ یہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا (بھیجا ہوا) مہمان ہے ، لہٰذا جو چیز بھی موجود ہے اسے کھلاؤ اور اس کا اکرام کرو۔ ‘‘ وہ کہنے لگی : اللہ کی قسم ! میرے پاس تو بمشکل بچوں کا کھانا ہے۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اچھا یوں کرو کہ جب بچے کھانا مانگنے لگیں تو انہیں سلا دینا او ر جب ہم دونوں ( میں اور مہمان ) کھانا کھانے لگیں تو چراغ گل کر دینا ، اس طرح ہم دونوں آج رات کچھ نہیں کھائیں گے ( اور مہمان کھا لے گا۔) چنانچہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا۔[ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا چراغ کو ٹھیک کرنے کے بہانے کھڑی ہوئیں اور اسے بجھا دیا ۔ پھر وہ دونوں اپنے مہمان کو یہ ظاہر کر رہے تھے کہ گویا وہ بھی اس کے ساتھ کھار ہے ہیں حالانکہ وہ کھا نہیں رہے تھے ۔ وہ ساری رات بھوکے رہے ۔]
صبح جب حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لَقَدْ عَجِبَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ۔ أَوْ ضَحِكَ ۔ مِنْ فُلاَنٍ وَفُلاَنَةٍ ))
’’ فلاں مرد اور فلاں عورت پر اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوا ، یا اسے ان پر ہنسی آگئی ۔ ‘‘
تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
﴿وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ﴾‏
2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ (ہجرت کر کے ) ہمارے پاس آئے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور حضرت سعد بن الربیع رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا جو کہ بہت مالدار تھے۔ انھوں نے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا : میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار ہوں اور یہ بات انصار کو بھی معلوم ہے۔ میں اپنا مال دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں، ایک حصہ میرے لئے اور دوسرا آپ کیلئے ۔ اس کے علاوہ میری دو بیویاں بھی ہیں ، آپ کو ان دونوں میں سے جو زیادہ اچھی لگے میں اسے طلاق دے دیتا ہوں اور جب اس کی عدت پوری ہو جائے تو آپ اس سے شادی کر لیں ۔
حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا :
(بَارَكَ اللّٰہُ لَكَ فِی أَہْلِكَ وَمَالِكَ)
’’ اللہ تعالیٰ آپ کے گھر والوں اور آپ کے مال میں برکت دے ۔ ‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ گھی اور پنیر کے مالک بن گئے اور ابھی کچھ ہی عرصہ گذرا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر زرد رنگ کے کچھ آثار دیکھے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا : میں نے ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونا دے کر ایک انصاری عورت سے شادی کر لی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مبارکباد دی اور فرمایا:
(( أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاۃٍ ))
’’تم ولیمہ کرو خواہ ایک بکری ذبح کرکے ہی۔ ‘‘
یہ دونوں واقعات انصارِ مدینہ رضی اللہ عنہم کے جذبۂ ایثار وقربانی کی شہادت دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ انصار مدینہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں چند اور احادیث بھی سماعت کر لیجئے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( لَوْ أَنَّ الْأنْصَارَ سَلَکُوْا وَادِیًا أَوْ شِعْبًا لَسَلَکْتُ فِیْ وَادِی الْأنْصَارِ،وَلَوْ لاَ الْہِجْرَۃُ لَکُنْتُ امْرَئً ا مِنَ الْأنْصَارِ))
’’ اگر انصار ایک وادی یا گھاٹی میں چلیں( اور دوسرے لوگ دوسری وادی یا گھاٹی میں چلیں) تو میں بھی انصار کی وادی میں چلوں گا۔ اور اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی میں سے ایک شخص ہوتا ۔ ‘‘
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ فتحِ مکہ کے دن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو مال عطا کیا تو انصار کہنے لگے : اللہ کی قسم ! یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ہماری تلواروں سے ابھی قریش کا خون بہہ رہا ہے اور ہماری غنیمتیں بھی انہی کو لوٹائی جارہی ہیں ! یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور فرمایا : ’’ مجھے تمہاری طرف سے کیا بات پہنچی ہے ؟ ‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : وہ جھوٹ نہیں بولتے تھے ، اس لئے انھوں نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ آپ تک جو بات پہنچی ہے وہ واقعتا ہم نے کہی ہے۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(أَوَ لَا تَرْضَوْنَ أَنْ یَّرْجِعَ النَّاسُ بِالْغَنَائِمِ إِلٰی بُیُوْتِہِمْ ، وَتَرْجِعُوْنَ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم إِلٰی بُیُوْتِکُمْ؟ لَوْ سَلَکَتِ الْأنْصَارُ وَادِیًا أَوْ شِعْبًا لَسَلَکْتُ وَادِیَ الْأنْصَارِ أَوْ شِعْبَہُمْ)
’’ کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ لوگ اپنے گھروں کو مالِ غنیمت لے کر لوٹیں اور تم اپنے گھروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر لوٹو ! اگر انصار ایک وادی یا گھاٹی میں چلیں ( اور لوگ دوسری وادی یا گھاٹی میں چلیں ) تو میں بھی انصار کی وادی یا گھاٹی میں چلوں گا ۔ ‘‘
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری عورت اپنے ایک بچے کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بات چیت کی ، پھر فرمایا:
(وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ إِنَّکُمْ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَیَّ)
’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم لوگ مجھے باقی تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہو۔‘‘
اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ خندق کے دن انصار مدینہ رضی اللہ عنہم یوں کہتے تھے :
نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدًا عَلَی الْجِہَادِ مَا حَیِیْنَا أَبَدًا
’’ ہم وہ ہیں جنہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی ہے کہ جب تک زندہ رہیں گے جہاد کرتے رہیں گے ۔ ‘‘
اس کے جواب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یوں ارشاد فرماتے :
اَللّٰہُمَّ لاَ عَیْشَ إِلاَّ عَیْشُ الْآخِرَۃ فَأَکْرِمِ الْأنْصَارَ وَالْمُہَاجِرَۃ
’’اے اللہ!اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے ، پس تو انصار اور مہاجرین کی عزت افزائی فر ما ۔‘‘
2۔اہلِ بدر کے فضائل
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے قصّے کے آخر میں ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حاطب نے اﷲ، اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کی خیانت کی ہے لہٰذا مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی گردن اڑادوں؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(( لَعَلَّ اللّٰہَ اطَّلَعَ عَلٰی أَہْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ)) وفی روایة:(( فَقَدْ وَجَبَتْ لَکُمُ الْجَنَّةُ ))
’’ شاید ﷲ تعالیٰ نے اہلِ بدر کی طرف ( بنظرِ رحمت ) دیکھا اور پھر کہا : تم جو چاہو کرتے رہو ، میں نے تمہیں معاف کردیاہے۔ ‘‘ اور ایک روایت میں ہے :’’ تمہارے لئے جنت واجب ہوگئی ہے۔‘‘
اور رفاعہ بن رافع الزرقی نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے جو اہلِ بدر میں سے تھے کہ حضرت جبریل علیہ السلام رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے:اہلِ بدر کا آپ کے ہاں کیا مرتبہ ہے ؟تو آپ نے فرمایا:وہ مسلمانوں میں سب سے افضل ہیں۔ تو حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا:اسی طرح فرشتوں میں سے بھی وہ فرشتے سب سے افضل ہیں جو بدر میں شریک ہوئے۔ ‘‘
3۔اہلِ اُحد کے فضائل
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لَمَّا أُصِیْبَ إِخْوَانُکُمْ بِأُحُدٍ جَعَلَ اللّٰہُ أَرْوَاحَہُمْ فِیْ جَوْفِ طَیْرٍ خُضْرٍ تَرِدُ أَنْہَارَ الْجَنَّةِ،تَأْکُلُ مِنْ ثِمَارِہَا،وَتَأْوِیْ إِلٰی قَنَادِیْلَ مِنْ ذَہَبٍ مُعَلَّقَةٍ فِیْ ظِلِّ الْعَرْشِ،فَلَمَّا وَجَدُوْا طِیْبَ مَأْکَلِہِمْ وَمَشْرَبِہِمْ وَمَقِیْلِہِمْ قَالُوْا: مَنْ یُّبَلِّغُ إِخْوَانَنَا عَنَّا أَنَّا أَحْیَاءُ فِیْ الْجَنَّةِ نُرْزَقُ،لِئَلاَّ یَزْہَدُوْا فِیْ الْجِہَادِ وَلاَ یَنْکَلُوْا عِنْدَ الْحَرْبِ ؟ فَقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: أَنَا أُبَلِّغُہُمْ عَنْکُمْ،قَالَ:فَأَنْزَلَ اللّٰہُ:{ وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَمْوَاتًا ۔۔۔۔۔} ))
’’تمہارے بھائی جب اُحد میں شہید ہوئے تو ﷲ تعالیٰ نے ان کی روحوں کو سبز پرندوں کے پیٹوں میں بھیج دیا جوجنت کی نہروں پر جاتے اور اس کے پھل کھاتے ہیں ، پھر سایۂ عرش میں لٹکی ہوئی سونے کی قندیلوں کی طرف واپس آجاتے ہیں،پھر جب انھوں نے اپنے کھانے پینے اور اپنی نیند کی لذت محسوس کی توکہنے لگے: ہمارے بھائیوں تک ہماری طرف سے یہ بات کون پہنچائے گا کہ ہم جنت میں زندہ ہیں اور ہمیں رزق دیا جاتا ہے تاکہ وہ جہاد سے منہ نہ موڑیں اور جنگ کے دوران الٹے پاؤں واپس نہ لوٹیں ؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:میں انہیں تمھاری طرف سے یہ بات پہنچا دیتا ہوں،پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر دی :(اور وہ لوگ جو اللہ کے راستے میں شہید ہو گئے انہیں آپ مردہ نہ سمجھیں،وہ تو زندہ ہیں اور انہیں اپنے رب کے ہاں رزق دیا جاتا ہے…الخ۔‘‘
4۔ بیعت ِ رضوان میں شریک ہونے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل
ﷲ رب العزت نے سورۃ الفتح کی متعدد آیات میں ان صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی مدح وثناء کی ہے جو حدیبیہ کے مقام پر بیعت ِ رضوان میں شریک ہوئے اور انھوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ فرمانِ الٰہی ہے :
{لَّقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا ‎﴿١٨﴾‏ وَمَغَانِمَ كَثِيرَةً يَأْخُذُونَهَا ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا}
’’یقینا ﷲ تعالیٰ ان مومنوں سے خوش ہوگیا جو درخت تلے آپ سے بیعت کررہے تھے ، ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کرلیا ۔ پس اس نے ان پر اطمینان نازل فرمایا ، انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی اور بہت سی غنیمتیں جنہیں وہ حاصل کریں گے۔ ﷲ تعالی غالب اور حکمت والا ہے ۔ ‘‘
اس کے علاوہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حدیبیہ کے دن فرمایا :
(( أَنْتُمْ خَیْرُ أَہْلِ الْأرْضِ)) وَکُنَّا أَلْفًا وَّأَرْبَعَمِائَةٍ
’’ تم آج روئے زمین پر بسنے والے تمام لوگوں میں سب سے بہتر ہو۔ ‘‘ اُس دن ہم چودہ سو افراد تھے۔

اور حضرت ام بشر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لاَیَدْخُلُ النَّارَ إِنْ شَاءَ اﷲُ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَۃِ أَحَدٌ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا تَحْتَہَا ))
’’ان درخت والوں میں سے کوئی صحابی إن شاء اﷲ جہنم میں داخل نہیں ہوگا جنہوں نے اس کے نیچے بیعت کی۔‘‘
یاد رہے کہ اس حدیث میں ’’إن شاء ﷲ ‘‘ محض تبرک کے لئے ہے ، ورنہ یہ بات یقینی ہے کہ ان میں سے کوئی صحابی جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔
ان احادیث کے علاوہ خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم میں سے ہرایک کے فضائل اور اسی طرح دیگر کئی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل کے متعلق متعدد احادیث کتب حدیث میں مروی ہیں جنہیں ذکر کرنے کا اب موقعہ نہیں ۔ ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اخلاص ومحبت سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی کرنے کی توفیق دے ۔ آمین
دوسرا خطبہ
پہلے خطبہ میں ہم نے جن صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل ومناقب کو بیان کیا ان کے متعلق ہمارا عقیدہ کیا ہونا چاہئے اور ان کے بارے میں اہل السنۃ والجماعۃ کا کیا عقیدہ تھا ؟ آئیے یہ معلوم کرتے ہیں ۔
1۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرنا اور ان کے لئے دعا کرنا واجب ہے
اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرنا واجب، ان کے لئے دعا کرنا لازم اور ان سے بغض رکھنا حرام ہے، کیونکہ ﷲ تعالیٰ نے انہیں صحبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نوازا اور انہیں نصرتِ دین کی خاطر آپ کے ساتھ جہاد کیلئے منتخب فرمایا ۔ سورۃ الحشر میں ﷲ تعالیٰ نے مہاجرین وانصار کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا ہے :
﴿وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ 
’’ اور (مالِ فئے )ان لوگوں کے لئے بھی ہے جو ان کے بعد آئے ، وہ ( دعا ) کرتے ہوئے کہتے ہیں : اے ہمارے رب ! ہمیں معاف کردے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں ۔اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لئے کینہ نہ پیدا کر ، اے ہمارے رب ! یقینًا تو بڑی شفقت والا ، بے حد رحم کرنے والا ہے۔ ‘‘
یہ آیت ِ کریمہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرناواجب ہے ، کیونکہ ﷲ تعالیٰ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد آنے والے لوگوں کو بھی مالِ فئے کا مستحق قرار دیا ہے لیکن اس کی ایک شرط یہ لگا دی کہ وہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض رکھنے والے لوگ مالِ فئے کے مستحق نہیں ٹھہرتے ۔
اور اسی آیت کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’ لوگوں کو حکم دیا گیا تھاکہ وہ اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعائے مغفرت کریں ، لیکن لوگوں نے انہیں بُرا بھلا کہنا شروع کردیا ہے ۔ ‘‘
اور حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے متعلق فرمایا :
(( لاَ یُحِبُّہُمْ إِلاَّ مُؤْمِنٌ،وَلاَ یُبْغِضُہُمْ إِلاَّ مُنَافِقٌ،مَنْ أَحَبَّہُمْ أَحَبَّہُ اﷲُ، وَمَنْ أَبْغَضَہُمْ أَبْغَضَہُ اﷲُ ))
’’ ان سے محبت صرف مومن ہی کرسکتا ہے اور ان سے بغض رکھنے والامنافق ہی ہو سکتا ہے۔ اورجو ان سے محبت کرے گا ﷲ اس سے محبت کرے گا ۔ اور جو ان سے بغض رکھے گا ﷲ اس سے بغض رکھے گا ۔ ‘‘
لہٰذا معلوم ہوا کہ اہلِ ایمان کا وطیرہ یہ ہے کہ وہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں، ان کے لئے دعا کرتے ہیں اور اپنے دلوں کو ان کے بغض وعناد سے پاک رکھتے ہیں ۔
امام ابو جعفر الطحاوی رحمہ ﷲ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’نحبّ أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وسلم ،ولا نفرط فی حبّ أحد منھم ، ولا نتبرأ من أحد منہم،ونبغض من یبغضہم وبغیر الخیر یذکرہم ، ولا نذکرہم إلاّ بخیر،وحبّہم دین وإیمان وإحسان،وبغضہم کفر ونفاق وطغیان‘‘
’’ہم رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے محبت کرتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک صحابی کی محبت میں غلو نہیں کرتے ، اور نہ ہی ان میں سے کسی صحابی سے براء ت کا اعلان کرتے ہیں ۔ اور ہم ہر ایسے شخص سے بغض رکھتے ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بغض رکھتا ہو اور انہیں خیر کے ساتھ ذکر نہ کرتا ہو ۔ہم انہیں خیر کے ساتھ ہی یاد کرتے ہیں اور ان کی محبت عین دین ،ایمان اور احسان سمجھتے ہیں ، جب کہ ان سے بغض رکھنا عین کفر ،نفاق اور سرکشی تصور کرتے ہیں ۔‘‘
اور شیخ الإسلام إبن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ’’ اہل سنت والجماعت کے اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنے دلوں کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بغض سے اور اپنی زبانوں کو ان کی عیب گیری سے محفوظ رکھتے ہیں۔‘‘
2۔اہل السنۃ والجماعۃ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے جنت کی گواہی دیتے ہیں
ہم اس خطبہ کے آغاز میں سورۃ التوبۃ کی آیت { وَالسَّابِقُوْنَ الْأوَّلُوْنَ…} کے حوالے سے یہ بات ثابت کرچکے ہیں کہ ﷲ تعالیٰ نے مہاجرین وانصار اور متاخرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اپنی رضامندی کا اعلان اور ان کے لئے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ لہٰذا اہلِ سنت والجماعت تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے جنت کی گواہی دیتے ہیں ۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نام لے کر انہیں جنتی قرار دیا اہلِ سنّت والجماعت ان کے لئے بھی جنت کی گواہی دیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر عشرہ مبشرہ کے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
’’ ابوبکر رضی اللہ عنہ جنت میں ہیں ، عمر رضی اللہ عنہ جنت میں ہیں ، عثمان رضی اللہ عنہ جنت میں ہیں ، علی رضی اللہ عنہ جنت میں ہیں ، طلحہ رضی اللہ عنہ جنت میں ہیں ، بیر رضی اللہ عنہ جنت میں ہیں ، عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جنت میں ہیں ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جنت میں ہیں ، سعید بن زید رضی اللہ عنہ جنت میں ہیں اور ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ جنت میں ہیں۔ ‘‘
اسی طرح دیگر کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی نام لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جنتی قرار دیا لیکن چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نام لینے سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنتی نہیں ، بلکہ یہ تو دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر ان کی فضیلت کی دلیل ہے، ورنہ ہم یہ بات قرآن مجید کے حوالے سے پہلے ہی ثابت کرچکے ہیں کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ﷲ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے ۔
3۔ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ثقہ اور قابلِ اعتماد ہیں
فرمانِ الٰہی ہے:
﴿وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا﴾
’’ ہم نے اسی طرح تمہیں عادل ( بہترین ) امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پرگواہ ہو جائیں ۔‘‘
﴿أُمَّةً وَسَطًا﴾ کا معنی بیشتر مفسرین نے ’’عدولا خیارا ‘‘ کیا ہے یعنی بہترین ، سب سے افضل ، ثقہ اور قابل اعتماد امت ‘‘
اِس آیت کے سب سے پہلے مخاطب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جنہیں تبلیغ دین کی ذمہ داری سونپی گئی ۔جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے :
﴿کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ﴾
’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے ، تم نیک باتوں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو اور ﷲ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔ ‘‘
اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے جمِ غفیر کو مخاطب کرکے فرمایا تھا :
(( أَلَا لِیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ مِنْکُمُ الْغَائِبَ))
’’ خبردار ! تم میں جو یہاں پر موجود ہے وہ غیر حاضر تک دین پہنچائے ۔‘‘
ان آیاتِ کریمہ اور اس حدیث ِ نبوی سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم امین ، ثقہ اور قابلِ اعتماد ہیں ، تبھی تو انہیں تبلیغ دین جیسا اہم فریضہ سونپا گیا ، ورنہ اگر وہ امین اور ثقہ نہ ہوتے تو انہیں یہ ذمہ داری نہ سونپی جاتی۔
اس کے علاوہ ﷲ تعالیٰ نے﴿أُمَّةً وَسَطًا﴾ کے بعد﴿لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ﴾ فرمایا ہے ، جس کا معنی یہ ہے کہ ﷲ کے ہاں ان کی گواہی قابل قبول ہے اور یہ بھی ان کے عدول، ثقہ اور قابل اعتماد ہونے کی دلیل ہے ، ورنہ ایسا نہ ہوتا تو ان کی گواہی بھی قابلِ قبول نہ ہوتی !!
امام قرطبی رحمہ اللہ سورۃ الفتح کی آخری آیت ﴿مُمُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ…الخ ﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’ تمام کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عدول ( ثقہ اور قابل اعتماد )ہیں ، ﷲ کے اولیاء اور اس کے برگزیدہ بندے ہیں اور انبیاء ورسل علیہم السلام کے بعد اس کی مخلوق میں سب سے افضل ہیں ، یہی اہل سنت والجماعت کے ائمہ کا مذہب ہے ۔ جبکہ ایک فرقے کا کہنا یہ ہے کہ نہیں ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی عام لوگوں کی طرح ہیں ، اس لئے ان کے ثقہ ہونے کے بارے میں بحث کرنا ضروری ہے ، لیکن ان کا یہ مذہب مردود ہے ، کیونکہ ﷲ تعالیٰ نے ان سے اپنی رضامندی کا اعلان اور ان کے لئے جنت ومغفرت کا وعدہ فرمایا ہے ۔ ‘‘
4۔ خلفاء راشدین :حضرت ابوبکر ، پھر حضرت عمر ، پھر حضرت عثمان اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہم
اہل السنۃ والجماعۃ اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے افضل صحابی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور وہی خلیفۂ اول ہیں۔ ان کا یہ استحقاق خود رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی احادیث سے مأخوذ ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض الموت کے دوران لوگوں کی امامت کے لئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کو حکم دیا ۔ اور یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ تھا کہ جو شخص آپ کی حیات میں امامت کا مستحق ہے وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت کا سب سے پہلا حقدار ہے۔
نیز صحیح بخاری میں حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوبارہ آنے کا حکم دیا ۔ اس نے پوچھا : اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنْ لَّمْ تَجِدِیْنِیْ فَأْتِیْ أَبَا بَکْرٍ ))
’’اگر تم مجھے نہ پاؤ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آنا۔‘‘
یہ حدیث واضح نص ہے اس بات پر کہ خلافت کے سب سے پہلے حقدار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے ۔ اسی بات پر سقیفہ بنو ساعدہ کے اجتماع میں شریک ہونے والے تمام مہاجرین وانصار نے اتفاق کیااور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی جیسا کہ صحیح بخاری میں مروی ہے۔
اسی طرح اہل السنۃ والجماعۃ کا بالإتفاق یہ عقیدہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد دوسرے خلیفہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے ۔ ان کے بعد تیسرے خلیفہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے ۔ اور ان کے بعد چوتھے خلیفہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے۔
5۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنا حرام ہے اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنا اور انہیں گالیاں دینا حرام ہے ۔ اس کی حرمت قرآن وحدیث کے واضح دلائل سے ثابت ہے ۔ مثلاً :
1۔ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُھْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا ﴾‏
’’جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بغیر کسی جرم کے ایذا دیں وہ بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں‘‘
اس آیت میں مومنوں کا ذکر کیا گیا ہے اور اس امت کے اوّلین مومنین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے ۔ تو انہیں سب وشتم کے ذریعے ایذاء پہنچانا قرآن مجید کے الفاظ میں بہتان اور واضح گناہ ہے ۔
2۔ سورۃ الفتح کی آخری آیت :
﴿مُمُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ ……الخ﴾‏
جس کا تذکرہ اس خطبہ کے شروع میں کیا گیا ہے ، اس میں بتایا گیا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے عناد رکھنا اور ان کے بارے میں غیظ وغضب میں مبتلا ہونا کافروں کا شیوہ ہے ۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان پاکبازہستیوں کے متعلق غیظ وغضب کا اظہار کرنا اور انہیں برا بھلا کہنا مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا کیونکہ یہ کافروں کا عمل ہے۔
3۔ ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں چند احادیث کا تذکرہ پہلے خطبہ میں کرچکے ہیں ، ان میں سے ایک حدیث جسے حضرت ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے ، اس میں رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دینے سے منع فرمایا ہے ۔ اور وہ ان پر سب وشتم کے حرام ہونے کی دلیل ہے ۔
4۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَنْ سَبَّ أَصْحَابِیْ فَعَلَیْہِ لَعْنَةُ اﷲِ وَالْمَلَآئِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ))
’’جس شخص نے میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دیں اس پر ﷲ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ ‘‘
اس حدیث میں رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو ملعون قرار دیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پر زبان درازی اور سبّ وشتم کرے، لہٰذا ان پر زبان درازی کرنے والوں کو اپنے متعلق خود ہی سوچ لینا چاہئے کہ ان کے بارے میں سید الرسل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فیصلہ صادر فرمایا ہے !!
5۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا کہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہتے ہیں ، حتی کہ ابوبکر وعمر رضی ﷲ عنہما کو بھی معاف نہیں کرتے ! تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : تم اس پر تعجب کرتے ہو ؟ در اصل ان کا عمل منقطع ہوچکا ہے تو ﷲ نے اس بات کو پسند فرمایا ہے کہ ان کا اجر منقطع نہ ہو ۔
ان تمام دلائل سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اپنے دلوں کو بغض اور کینہ سے پاک رکھنا اور اپنی زبانوں کو ان پر سبّ وشتم کرنے سے محفوظ رکھنا لازمی امر ہے ۔ ورنہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جو شخص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہتا اور ان کی عیب گیری کرتا ہو وہ در اصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عیب گیری کرتا ہے ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو انہیں بشارتیں سنائی ہیں اور انہیں امین اور ثقہ قرار دیا ہے ۔ بلکہ وہ شخص در اصل ﷲ تعالیٰ پر بھی اعتراض کرتا ہے کیونکہ ﷲ تعالیٰ نے ہی انہیں اپنے نبی کے ساتھ کے لئے منتخب فرمایا، انہیں اپنی رضا مندی سے نوازا اور ان سے جنت کا وعدہ فرمایا ۔ بلکہ وہ شخص دراصل پورے دین ِ الٰہی میں طعنہ زنی کرتا ہے کیونکہ اس دین کو نقل کرنے والے یہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی تو ہیں ۔ اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عیب گیری کرنا انتہائی خطرناک امر ہے جس سے فوری طور پر توبہ کرنا ضروری ہے ۔ ﷲ تعالیٰ ہم سب کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے سچی محبت کرنے کی توفیق دے ۔آمین