فضائل و خصائل امهات المؤمنین رضی اللہ تعالی عنہ
إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ﴿ اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ ؕ﴾ [الأحزاب:6]
’’پیغمبر (ﷺ) مؤمنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں اور اس کی بیویاں مؤمنوں کی مائیں ہیں۔‘‘
آج کے خطبہ میں رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات، نساء النبي، امهات المؤمنین کے وہ فضائل و مناقب بیان کرنا چاہتا ہوں جو ان تمام کو برابر طور پر حاصل تھے اور دو فضائل و مناقب قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں مذکور ہیں۔ یعنی وہ تمام فضیلتیں اور عظمتیں اللہ رب العزت نے بذریعہ وحی بیان فرمائی ہیں۔
پہلی فضیلت و عظمت
رب ارض و سماء نے اپنی کتاب قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
﴿ یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ﴾ [الأحزاب:32]
’’اے پیغمبر کی بیویو! تم کسی ایک عورت کی مثل بھی نہیں ہو۔ (یعنی دنیا جہان کی کوئی عورت تمہارے مقام و مرتبے کو نہیں پہنچ سکتی)۔‘‘
غور فرمائیے! یہ کتنی بڑی رفعت، عظمت، فضیلت اور منقبت ہے کہ خالق کائنات نے ازواج مطہرات کو تمام عورتوں سے بہتر برتر اور ممتاز قرار دیا ہے اور یہ شان و عظمت تمام ازواج مطہرات میں ان کو حاصل ہے اور یہ ایک آیت ہی ازواج رسول کے مقام کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔
دوسری فضیلت و منقبت:
رب کا ئنات نے فرقان حمید میں ارشاد فرمایا:
﴿ اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ ؕ﴾ [الأحزاب:6]
’’پیغمبر کا حق مؤمنوں پر ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ ہے اور پیغمبر کی بیویاں مؤمنوں کی مائیں ہیں۔‘‘
سبحان اللہ! اللہ رب العزت نے کیسے زبردست انداز میں ازواج مطہرات کی فضیلت و عظمت بیان فرمائی کہ پہلے رسول اللہ ﷺ کا بہت بڑا حق بیان فرمایا کہ آپ کا حق مؤمنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ ہے۔ پیغمبر کی شان و عظمت بیان کر کے اعلان فرمایا:
﴿ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ ؕ﴾ [الأحزاب:6]
’’اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں۔‘‘
مقام و مرتبہ تو عام ’’ماں‘‘ کا اس قدر بلند ہے کہ اس جننے والی ماں کو ستانے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا تو وہ مائیں جنہیں رب کائنات نے تمام مؤمنوں کی مائیں قرار دیا ہو۔ انہیں ستانے والا اور ان کی گستاخی کرنے والا نجات کیسے پا سکتا ہے؟ اور پیغمبرﷺ کی بیویوں کو مؤمنوں کی مائیں اس لیے کہا گیا ہے کہ جس طرح ایک انسان کے لیے تمام رشتہ دار خواتین میں ماں کا مقام و مرتبہ سب سے زیادہ اور ماں کا حق سب سے بڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح پوری اُمت کے لیے پیغمبر کی بیویاں تمام عورتوں سے زیادہ قابل عزت اور لائق احترام ہیں۔
تیسری فضیلت و خصوصیت:
رب العالمین نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:
﴿وَ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًا ؕ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمًا﴾ [الأحزاب:53]
’’(ایمان والو!) تمہارے لیے قطعاً جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو تکلیف دو اور یہ بھی ہرگز جائز نہیں کہ تم پیغمبر (کی وفات) کے بعد اس کی بیویوں سے کبھی بھی نکاح کرو- یقینًا یہ اللہ کے ہاں بہت بڑی بات ہے۔‘‘
یہ کتنا بڑا احترام ہے کہ ہر بیوہ کا نکاح جائز ہے لیکن ازواج مطہرات کا نکاح کسی سے جائز نہیں، یہ فضیلت صرف اس وجہ سے ہے کہ انہیں پیغمبر سے ایک خاص رشتہ و تعلق حاصل ہے۔ لہذا ان کی عزت و حرمت پیغمبر کی عزت و حرمت ہے اور ان کی گستاخی و بے حرمتی بالواسط پیغمبر ﷺ کی بے حرمتی اور گستاخی ہے۔
چوتھی فضیلت و رفعت:
جب بتقاضائے بشریت ازواج مطہرات نے دنیاوی مال و متاع کا مطالبہ کیا اور ان کا یہ مطالبہ کوئی جرم اور گناہ نہیں تھا۔ صرف ان کے ارفع و اعلیٰ مقام کے لائق نہیں تھا) تو اللہ تعالی نے آیتیں اتاریں:
﴿یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا۲۸وَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۲۹﴾ [الأحزاب:29)
جن میں انہیں اختیار دیا گیا ہے کہ یا دنیا کا مال و متاع لے لو یا پیغمبر کے عقد میں رہنا پسند کرو اور آخرت کے اجر و ثواب پر راضی ہو جاؤ۔ تو تمام ازواج مطہرات نے دنیا کے مال و متاع پر اللہ اور اس کے رسول اور اخروی اجر و ثواب کو ترجیح دی۔ اور پھر زندگی بھر بھی بھی دنیاوی مال و متاع کا مطالبہ نہ کیا۔ تو اس کے نتیجے میں انہیں ایک تو یہ فضیلت حاصل ہوئی کہ وہ اللہ کے اس عظیم وعدے کی مستحق ٹھہریں:
﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۲۹﴾ [الأحزاب:29]
اور دوسرا اس کے صلے میں پیغمبر ﷺکو حکم دیا گیا:
﴿وَلَا أَنْ تَبَدَّلَ بِھِنَّ مِنْ أَزْوَاج﴾ [الأحزاب:52]
کہ آپ اپنی ان ازواج مطہرات کو تادم حیات اپنے عقد نکاح میں رکھیں۔
یہ کیسی سعادت ہے جو ازواج مطہرات کے حصے میں آئی۔
پانچویں فضیلت و نجابت:
اللہ رب العزت نے سورۃ الاحزاب کے ایک پورے رکوع میں ازواج مطہرات کو چند نصیحتیں کرنے کے بعد فرمایا:
﴿إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا﴾ [الأحزاب:33]
ان نصیحتوں کا مقصد یہ ہے کہ اے (پیغمبر کی) گھر والیو! اللہ تم سے ہر قسم کی آلائش دور کرنا چاہتا ہے اور تمہیں ایسا پاک صاف کرنا چاہتا ہے جس طرح پاک صاف کرنے کا حق ہے۔ یہ آیت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بیویاں طاہرات، طیبات اور اعلیٰ درجے کی محسنات و صالحات تھیں اور انہیں ہر طرح کی آلائشوں سے پاک صاف کرنے کا فیصلہ عرش والے نے کر لیا تھا۔
چھٹی فضیلت و شرافت:
اللہ تعالی سورۃ الاحزاب میں پیغمبرﷺ کو چند احکام دینے کے بعد فرماتے ہیں:
﴿ ذٰلِكَ اَدْنٰۤی اَنْ تَقَرَّ اَعْیُنُهُنَّ وَ لَا یَحْزَنّ﴾ [الأحزاب:51]
’’یہ حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ ازواج مطہرات کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ غمزدہ نہ ہوں۔‘‘
معلوم ہوا رب کا ئنات خالق کل جہاں فاطر السموات والارض کو بھی اپنے پیغمبر کی بیویوں کی خوشی ملحوظ ہے اور ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک پسند ہے۔ تو جنہیں کائنات کا رب خوش کرنا چاہے۔ دنیا کی کوئی طاقت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
ساتویں فضیلت و حرمت:
اللہ رب العزت نے جب شرعی پردے کے احکام نازل فرمائے تو سب سے پہلے ازواج رسول کا تذکرہ فرمایا:
﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا﴾ [الاحزاب:59]
’’اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادر میں لٹکا لیا کریں اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی (کہ یہ معزز اور حیاء دار عورتیں ہیں) پھر وہ ستائی نہ جائیں گی اور اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
یہ ترتیب بھی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ازواج مطہرات دوسری تمام عورتوں سے زیادہ فضیلت والی ہیں۔
آٹھویں فضیلت و خصوصیت:
(گزشتہ خطبہ میں بھی یہ حدیث بیان کی گئی تھی پھر دہرائے دیتا ہوں) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میں تم لوگوں میں دو بھاری چیزیں چھوڑ رہا ہوں۔ ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے اس میں ہدایت ہے نور ہے وہ اللہ کی رہی ہے جس نے اس کی پیروی کی وہ ہدایت پر رہے گا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ گمراہی میں متلا ہو جائے گا اللہ کی کتاب کو پکڑ لو اور اس پر سختی سے عمل کرو۔ اور دوسری بھاری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ میں اپنے اہل بیت کے متعلق تمہیں اللہ کی یاد دلاتا ہوں (تین مرتبہ فرمایا) (یعنی اللہ سے ڈرنا اور ان کے ساتھ بدسلوکی نہ کرنا)‘‘ [صحیح مسلم، كتاب المناقب، باب فضائل على رضی اللہ تعالی عنہ، رقم (6225)]
بیوی شوہر کی ناموس ہوتی ہے۔ بیوی کی عزت شوہر کی عزت ہوتی ہے۔ بیوی کی بے حرمتی شوہر کی بے حرمتی ہے۔ اسی بناء پر اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ’’بھاری‘‘ کا لفظ فرما کر اشارہ کر دیا کہ اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات ہیں۔ انتقال کے وقت مرد کو اپنی بیوی اور نابالغ، غیر شادی شدہ بچوں کا فکر ہوتا ہے ان بچوں کا فکر نہیں ہوتا جو اپنے گھر کے ہو چکے ہوں کیوں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت کوئی بچہ آپ کی کفالت میں نہیں تھا۔ لہٰذا آپ کا جو فکر تھا وہ ازواج کے متعلق تھا اور اسی فکر کا تقاضا تھا کہ آپ نے اپنی امت کو ان سے حسن سلوک کرنے کی وصیت فرمائی۔ آج جو بدطینت لوگ ازواج مطہرات کے خلاف زبان کھول رہے ہیں وہ ہوش کے ناخن لیں وہ قرآن کریم کی مخالفت کر رہے ہیں وہ احادیث مبارکہ کی بھی بغاوت کر رہے ہیں وہ رسول اللہ ﷺ کی وصیت کو بھی ٹھکرا رہے ہیں اور اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔
نویں فضیلت و منقبت:
رسول الله ﷺ کو اپنی ازواج مطہرات سے بہت زیادہ محبت و مودت تھی۔ اگر چہ آپ باری باری ہر ایک بیوی کے گھر رہتے تھے لیکن فرط محبت کی وجہ سے تمام ازواج مطہرات کے پاس روزانہ عصر کے بعد ملاقات کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے اور کچھ دیر بھیٹا کرتے تھے۔[صحيح البخاري، كتاب النكاح، باب دخول الرجل على نسائه في اليوم، رقم: 5216]
دسویں فضیلت و عظمت:
اسی طرح تمام ازواج مطہرات کو بھی رسول اللہ ﷺ سے بے انتہا محبت و عقیدت تھی۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ ہم جس بیوی کے گھر ہوتے آپ کی تمام بیویاں رات ملاقات کے لیے اس بیوی کے گھر جمع ہو جایا کرتی تھیں۔ [صحیح مسلم، كتاب الرضاع، باب القسم بين الزوجات، رقم: 3128]
قرآن وسنت کے ان دلائل و براہین سے روز روشن کی طرح یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ رسول الله ﷺ کی تمام ازواج مطہرات، تمام بیویاں طاہرات، طیبات، مؤمنات، مسلمات، محسنات اور صالحات تھیں اور امت کی مائیں تھیں، اس لیے ہمیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے امہات المؤمنین کا احترام کرنا چاہیئے اور ان کی شان بیان کرنا چاہیے اور ہماری ماؤں بہنوں کو چاہیے کہ اداکاراؤں گلوکاراؤں اور فاحشہ عورتوں کی بجائے ازواج مطہرات کو اپنا آئیڈیل اور نمونہ بنائیں۔
(وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔