فضائل و مسائل رمضان

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ۝۱۸۳ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِیْنٍ ؕ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ ؕ وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۸۴ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَ الْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ ؕ وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ؗ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰی مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۱۸۵﴾ (سورة البقرة :183 تا 185)
’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں ۔ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تا کہ تم بچ جاؤ گنتی کے چندونوں میں لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو جائے یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں اس گفتی کو پورا کر لے۔ طاقت نہ رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دیں جو شخص نیکی میں سبقت کرے وہ اس کے لیے بہتر ہے۔ لیکن تمہارے حق میں افضل کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم جانتے ہو ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن مجید اتارا گیا حق جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں تم میں سے جو شخص اس مہینے میں مقیم ہو اسے روزے رکھنا چاہیے ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہوا ہے دوسرے دنوں میں سے گفتی پوری کرنی چاہیے اللہ تعالی کا اراد ہ تمہارے ساتھ آسانی کا سے سختی کا نہیں وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں کرو اور اس کا شکر کرو۔‘‘
ان آیتوں سے یہ باتیں ثابت ہوتی ہیں۔
(2) روزہ فرض ہے (2) چند گنتی کے دنوں میں (3) مریض و مسافر اگر روزے نہ رکھ سکیں تو وہ دونوں دوسرے دنوں میں رکھ سکتے ہیں (4) یہ رمضان کے روزے ہیں جس میں قرآن مجید اتارہ گیا ہے۔ (5) جسے یہ مہینہ مل جائے اس پر رمضان کے روزوں کا رکھنا فرض ہے بیمار مسافر اپنی مجبوری کی وجہ سے اگر اس مہینہ میں روزے نہ رکھ سکیں تو اتنی گنتی کے روزے اور مہینے میں رکھ سکتے ہیں رمضان کا روزہ اسلام کے رکنوں میں سے ایک رکن ہے اگر کوئی شخص اس کی فرضیت کا انکار کر دے تو وہ کافر ہے اور بلا عذر شرعی کے فرض روزے چھوڑ نے والا فاسق اور فاجر ہے۔
اور نبی کریمﷺ نے فرمایا:
(فَإِذَا أَنَا بِقَوْمٍ مُعَلَّقِينَ بِعَرَاقِيبِهِمْ مُشَقَّةً أَشْدَاقْهُمْ يَسِيلُ أَشْدَالُهُمْ دَمًا قَالَ قُلْتُ مَنْ هٰئُولَاءِ قَالَ الَّذِينَ يَفْطَرُونَ قَبْلَ تَحِلَّةِ صَوْمِهِمْ)۔[1]
’’میں نے خواب میں ایسے لوگوں کو دیکھا جو الٹے لٹکائے ہوئے ہیں اور ان کے منہ کو چیر دیا گیا ہے جس سے خون بہتا ہے میں نے کہا یہ کون لوگ ہیں فرمایا وہ لوگ ہیں جو روزے کو وقت سے پہلے افطار کر لیا کرتے تھے۔‘‘
رمضان المبارک کے روزے ہر عاقل بالغ مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہیں نابالغ بچوں اور مجنون یا پاگل پر فرض نہیں، لیکن عادت ڈالنے کے لیے نا بالغ بچوں سے روزہ کھوانا چاہیے جیسا کہ نبی میں تمیم نے فرمایا کہ جب بچے سات برس کے ہو جائیں تو نماز پڑھنے کا حکم دو۔ اور جب دس برس کے ہو جا ئیں تو نماز پڑھنے کے لیے انہیں تنبیہ کے طور پر مارو۔[2]
اسی طرح روزہ بھی ہے جب ان نابالغ بچوں کو روزہ رکھنے کی طاقت ہو تو جتنے روزے بغیر تکلیف کے رکھ سکتے ہیں رکھیں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رمضان میں ایک متوالے نشہ باز کو درے لگا کر فرمایا کہ کم بخت تیرا ستیاناس ہو تو رمضان شریف میں شراب پیتا ہے اور ہمارے بچے روزے سے ہیں۔
رمضان کے روزوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(2) (اٰتَاكُمْ شَهْرُ رَمَضَانَ شَهْرٌ مُّبَارَكٌ فَرَضَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ تُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح ابن حبان رقم الحدیث:7448، و مستدرك: 430/1، 210/2.
[2] ابو داود: كتاب الصلوة، باب متى يؤمر الغلام بالصلوة، رقم الحديث: 494، 495.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السَّمَاءِ وَتُعْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَحِيمِ وَ تَعَلُّ فِيهِ مَرَدَةُ الشَّيَاطِينِ لِلَّهِ فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ).[1]
’’تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آ پہنچا ہے جو بابرکت مہینہ ہے اللہ نے اس مہینے کے روزے تم پر فرض کئے ہیں۔ اس مہینہ میں آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور سرکش شیطان اس مہینہ میں جکڑ دیئے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو اس کی بھلائی سے محروم ہو گیا وہ بالکل ہی محروم ہو گیا۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(3) (مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ)‘‘[2]
’’جس نے شب قدر میں ایمان اور اخلاص کے ساتھ قیام کر لیا تو اس کے پہلے گناہ سب معاف ہو جائیں گے اور جس نے رمضان المبارک کے روزے ایمان اور اخلاص رکھ لیے اس کے پہلے سب گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(4) (إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا يُقَالُ لَهُ رَیَّانُ يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ فَإِذَا دَخَلُوا اُغْلِقَ فَلَمْ يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ).[3]
’’جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو ریان کہا جاتا ہے اس دروازے سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے اور دوسرے لوگ داخل نہیں ہوں گے جب وہ لوگ داخل ہو جائیں گے تو دروازہ بند ہو جائے گا ان کے بعد کوئی دوسرا داخل نہ ہوگا۔‘‘
اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] سنن نسائى، كتاب الصيام، ذكر الاختلاف على معمر فيه رقم الحدث:2108.
[2] صحیح بخاري: 269/1 کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، رقم الحديث 2008، 2009، صحیح مسلم:259/1، كتاب صلاة المسافرين باب الترغيب في قيام رمضان رقم الحديث:1779.
[3] صحیح بخاري: 254/1 كتاب الصوم باب الريان للصائمين رقم الحديث:1896. وصحیح مسلم: 364/1 كتاب الصيام باب فضل الصيام رقم 2710.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(5) (الصِّيَامُ جَنَّةٌ)[1]
’’روزہ جہنم سے ڈھال کی طرح ہے۔‘‘
نبی کریمﷺ نے فرمایا:
(6) (اَلصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَقُولُ الصِّيَامُ أَيْ رَبِّ مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهْوَةَ فَشَفَّعْنِي فِيهِ وَيَقُولُ الْقُرْآنُ مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي قَالَ فَيُشَفَّعَان).[2]
روزہ اور قرآن مجید دونوں بندہ کے لیے قیامت کے دن سفارش کریں گے روزہ کہے گا الی روزہ دار کو میں نے کھانے پینے اور خواہش سے روکا تھا تو میری سفارش اس کے بارے میں قبول فرما اور قرآن مجید کہے گا پروردگار میں نے اس کو رات میں نیند سے روک دیا تھا یہ رات کو کلام الہی پڑھتا رہتا تھا تو اس کو بخش دے ان دونوں کی سفارش منظور ہوگی۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(7) (مَا مِنْ عَبْدٍ يَّصُومُ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا بَاعَدَ اللَّهُ بِذَلِكَ الْيَوْمِ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِيْنَ خَرِيْفًا)[3]
’جو شخص اللہ تعالی کی رضا مندی کے لیے ایک دن کا روزہ رکھے گا تو اللہ تعالی اس کو جہنم سے ستر سال کے فاصلے تک دور کر دے گا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(8) (مَنْ قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ خُتِمَ لَهُ بِهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ صَامَ يَوْمًا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ خُتِمَ لَهُ بِهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ خُتِمَ لَهُ بِهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ)[4]
’’جو شخص لا الہ اللہ کہے اور اسی پر اس کا خاتمہ ہو جائے تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو اللہ تعالی کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: 402/2، و شعب الايمان: 289/3، رقم 3571، و بخاري: 259/1 كتاب الصوم باب فضل الصوم رقم الحديث:1894.
[2] مسند احمد: 174/2 و مستدرك: 554/1.
[3] صحیح مسلم کتاب الصيام، باب فضل الصيام في سبيل الله رقم الحديث:2711.
[4] مسند احمد: 391/5، مجمع الزوائد:327/2، الترغيب: 85/2.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوشنودی کے لیے ایک دن کا روز و ر کھے گا اور وہ اس پر مر جائے گا تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو شخص اللہ تعالی کی خوشنودی کے لیے صدقہ و خیرات کرے اور اس پر اس کا خاتمہ ہو وہ بھی جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
ترغیب و ترہیب میں حضرت ابو ہریرہ ہی منہ سے مرفوعاً روایت ہے۔
(9) (إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِّنْ شَهْرٍ رَمَضَانَ صُفَدَتِ الشَّيَاطِينُ وَ مَرَدَةُ الْجِنِّ وَغُلِّقَتْ ابْوَابُ النَّارِ فَلَمْ يُفْتَحُ مِنْهَا بَابٌ وَفُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فَلَمْ يُغْلَقُ مِنْهَا بَابٌ وَيُنَادِى مُنَادٍ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ وَیَا بَاغِيَ الشَّرِ اقْصِرْ وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ ذَلِكَ كُلَّ لَيلَة). [1]
یعنی فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ جب رمضان المبارک کی اول رات ہوتی ہے تو بڑے بڑے سرکش جن اور شیطان قید کیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں پھر ان میں سے کوئی دروازہ کھلتا نہیں اور جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں پھر ان سے کوئی دروازہ بند نہیں ہوتا اور اللہ کی طرف سے اپکارنے والا پکارتا ہے کہ اے بھائی کے تلاش کرنے والے آگے بڑھ یعنی اب وقت ہے جو کچھ کرتا ہے کر لے اور اسے گناہ کرنے والے اب پیچھے ہٹ جا یعنی اس خیر و برکت کے وقت کی شرم کر اور گناہوں سے باز آ اللہ تعالی بہت سے لوگوں کو دوزخ سے آزاد کر دیتا ہے جو آزادی کے حق ہیں اور یہ معاملہ ہر رات ہوتا ہے۔
حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالی فرماتا ہے:
(10) (كُلُّ عَمَلٍ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِى بِهِ الخ)
’’یعنی انسان کے ہر عمل کا ایک مقرر کیا ہوا ثواب ملے گا لیکن روز ہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔‘‘
وہ کھانے پینے اور دیگر نفسانی خواہشات کو میری خاطر چھوڑ دیتا ہے یہ روزہ قیامت کے دن دوزخ سے بچانے کے لیے ڈھال بن جائے گا۔ اس لیے روزہ دار جہنم میں داخل نہیں ہوگا اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالی کے نزد یک مشک سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے اور روزہ داروں کے لیے دو خوشی کے وقت ہیں کہ ان دونوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] جامع ترمذي: 31/2 کتاب الصيام باب ماجاء في فضل شهر رمضان رقم الحدیث 682 و ابن حبان:3426
[2] صحیح بخاري: 255/1 كتاب الصوم باب هل يقول اني صائم اذا شئتم رقم الحديث:1904، و صحيح مسلم: 363/1 كتاب الصيام باب فضل الصيام رقم: 2704.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقتوں میں بہت خوشی ہوتی ہے اول افطار یعنی روزہ کھولنے کے وقت۔ دوم اللہ تعالی سے ملاقات کے وقت۔
روزے کے احکام
روزے کے بہت سے احکام و مسائل ہیں ان میں سے چند حکموں کو یہاں بیان کیا جا رہا ہے۔
(1) یہ تو سب کو معلوم ہے کہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے جماع چغلی غیبت بخش اور جھوٹ وغیرہ سے ایمانداری و خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ بیچنے کا نام روز ہ ہے لہذا روزہ کی حالت میں کھانا پینا اور جماع اور دیگر بری باتوں سے بچنا اور پرہیز کرنا چاہیے۔ اگر قصدًا کھا پی لیا تو روزہ ٹوٹ گیا اس کی قضا ضروری ہے اور اگر قصد اجماع کر لیا تو قضا اور کفارہ ضروری ہے کفارہ میں اگر طاقت ایک غلام آزاد کرنے کی ہے تو ایک غلام آزاد کرے اور اگر اس کی طاقت نہیں تو دو مہینے تک پے در پے روزے رکھے اور اگر اس کی طاقت نہیں ہے تو ساتھ مسکینوں کو کھانا کھلائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں ایک صحابی سے ایسا کام ہو گیا تھا تو آپﷺ نے ان کو ان ہی تین چیزوں کے کرنے کا حکم صادر فرمایا۔[1]
(2) روزے کی حالت میں اگر کوئی غلطی سے کھا لی لے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا کیونکہ اللہ تعالی نے اس کھلایا پلایا ہے۔
(فَإِنَّمَا هُوَ رِزْقُ اللَّهِ سَاقَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَلَا قَضَاءَ عَلَيْهِ).[2]
’’واللہ کی روزی ہے جو اللہ نے اسے دی ہے اس پر قضا نہیں ہے۔‘‘
بلکہ وہ اپنا روزہ پورا کر لے اس کا روزہ ہو جائے گا رسول اللہ کی تم نے فرمایا ہے:
(مَنْ نَسِي وَهُوَ صَائِمٌ فَاكَلَ وَشَرِبَ فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ فَإِنَّمَا أَطْعَمَهُ اللَّهُ وَسَقَاهُ).[3]
’’جس نے بھول کر کھائی لیا اسے روزہ پورا کر لینا چاہیے کیونکہ اللہ تعالی نے اسے کھلایا پلایا ہے۔‘‘
(3) روزہ کی حالت میں بیماری کی وجہ سے سینگی اور پچھنے لگوانا جائز ہے بشرطیکہ ضعف کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جانے کا خوف نہ ہو رسول اللہﷺ نے روزے میں سینگی لگوائی ہے۔[4]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح بخاري: 259/1 کتاب الصوم باب اذا جامع في رمضان ولم يكن له …. رقم الحديث: 1936، 1937.
[2]سنن دار قطني: 178/2 و ابن خزیمه رقم الحدیث: 1990 و مستدرك:435/1.
صحیح بخاري: 259/1 كتاب الصوم اذا أكل أو شرب ناسيًا، رقم الحديث: 1933.
صحیح بخاري: 260/1 كتاب الصوم باب الحجامة و القي للصائم رقم الحديث: 1938، 1939.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(4) جھوٹ بولنا جھوٹی گواہی دینا بے قصور پر الزام رکھنا نغیبت اور چغلی کھانا گالی گلوچ بکنا لڑائی جھگڑا کرنا اور دیگر گناہوں کے کام کرنا ہر حالت میں منع ہیں لیکن روزے کی حالت میں خصوصیت سے ان کاموں کو نہ کرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(مَنْ لَمْ يَدْعُ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَّدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ).[1]
’’جو شخص جھوٹی بات اور برے عمل پر کام کرنا نہ چھوڑے تو اس کے کھانے پینے کو چھوڑ دینے کی اللہ تعالی کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
(فَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلَا يَرْفَثْ وَلَا يَصْخَبُ فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ فَيُلْقُلْ إِنِّي صّائِم)[2]
’’جب کوئی روزے سے ہو تو لغو اور بے ہودہ بات نہ کہے اگر کوئی جھگڑے یا گالی گلوچ پر اتر آئے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔
(5) روزہ کی حالت میں جس وقت اور جس طرح چاہے وہ مسواک کر سکتا ہے اور تیل و خوشبو لگانا اور سرمہ لگانا، نہانا سر پر پانی ڈالنا، کلی کرنا جائز ہے لیکن زیادہ مبالغہ سے کلی نہ کرے کہ ناک یا حلق کے ذریعہ پانی اتر جائے اور نہ زیادہ مبالغہ سے ناک میں پانی ڈالے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(وَ بَاِلغْ فِي الْإِسْتِشَاقِ إِلَّا أَنْ تَكُوْنَ صَائِمًا).[3]
’’اور ناک میں مبالغہ سے پانی ڈالو گر روزے کی حالت میں مت ڈالو‘‘
(6) روزے کی حالت میں بیوی کا بوسہ لینا جائز ہے اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بھی جائز ہے بشرطیکہ اپنے نفس پر قابو ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللهﷺ (يُقَبِّلُ وَهُوَ صَائِمٌ وَكَانَ أَمْلَكُكُمْ لِاِرْبهِ)[4]
’’ روزے کی حالت میں بوسہ لے لیتے تھے اور آپ اپنے نفس پر تم سے زیادہ قابو رکھتے تھے۔‘‘
جو آدمی جو اپنے نفس کی خواہش سے رک سکے اس کے لیے جائز نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح بخاري: 1/ 255 كتاب الصوم باب من لم يدع قول الزور و العمل به في الصوم رقم الحديث:1903۔
[2] صحیح بخاري: 1/ 255 كتاب الصوم باب يقول الى صائم اذاشتم رقم الحديث: 1904.
[3]مسند احمد: 33/4 و ابو داود 54/1 كتاب الطهارة باب في الاستثار رقم الحديث:143۔ [4]صحیح بخاري: 258/1 کتاب الصوم باب المباشرة للصالم….. رقم الحديث: 1927۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(7) روزه دار کو اگر دن میں احتلام ہو جائے تو اس سے اس کے روزے میں کوئی خرابی نہیں آتی اس کو غسل کر لینا چاہیے روزہ نہ توڑے۔ (لہ شواہد)
(8) روزہ دار اگر رات ہی کو جنبی ہو گیا تو صبح صادق کے بعد غسل کر لینے میں روزہ میں کوئی نقصان نہیں آتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ امر ثابت ہے۔[1] (9) روزے کی حالت میں حیض و نفاس آ جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا اس کی مدت ختم ہونے کے بعد روزہ رکھیں۔[2]
(10) بیمار مسافر، بوڑھا8 حاملہ اور مرضعہ کے لیے رخصت ہے کہ ان وقتوں میں روزے نہ رکھیں۔ [3]
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
﴿وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ﴾
بیمار اور مسافر دوسرے دنوں میں روزے رکھیں جن بوڑھوں کو روزے رکھنے کی طاقت نہیں ہے وہ فدیہ دیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسکین﴾
جن کو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں وہ مسکینوں کو کھانا کھلائیں، حمل والی اور دودھ پلانے والی عورتوں کو اگر زیادہ تکلیف ہو تو وہ روزے نہ رکھیں جب اس سے فارغ ہو جائیں جب ان روزوں کی قضا کریں وہ بیمار کے حکم میں شامل ہیں حدیث میں ہے:
(وَعَنِ الْحُبْلَى وَ الْمُرْضِعِ الصَوْمُ).[4]
اللہ تعالی نے حاملہ اور مرضعہ کو روزے کی رخصت دی ہے۔ کہ اس حالت میں روزہ نہ رکھیں قضا شدہ روزوں کو رمضان کے بعد جب موقع مل جائے رکھا جا سکتا ہے لیکن حتی الامکان جلدی رکھنے کی کوشش کی جائے اور لگا تار رکھنا ضروری نہیں ہے فاصلہ اور ناغہ کر کے رکھنا بھی درست ہے۔
(11) رمضان کا روزہ رمضان کا چاند دیکھنے کے بعد سے فرض ہو جاتا ہے رمضان کا چاند طلوع ہو جانے سے رمضان شریف کا مہینہ شروع ہو جاتا ہے اور اس کے لیے رجب کے مہینے سے خیال رکھنا چاہیے کہ رجب کی انیسویں تاریخ کو شعبان کا چاند دیکھنا چاہیے تاکہ شعبان کی انتیسویں اور تیسویں تاریخ صحیح معلوم ہو جائے کیونکہ اگر شعبان کی انتیسویں تاریخ کو ابر یا گردو غبار کی وجہ سے چاند معلوم نہ ہو سکے تو تمہیں دن شعبان کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح بخاري: 258/1 كتاب الصوم باب العالم يصبح حنبا رقم الحديث: 1925۔
[2] صحیح بخاري: 261/1 كتاب الصوم باب الخائض ترك الصوم والصلاة رقم الحديث: 1951۔
[3]مسند احمد: 347/4 و 29/5، ابوداود: 2/ 291۔
[4] سنن نسائی: كتاب الصيام – باب ذكر وضع الصيام عن المسافر، رقم الحديث: 2276۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورے کرنے پر رمضان کا روزہ رکھنا شروع کیا جائے گا اور اگر شعبان کی انیسویں تاریخ کو رمضان کا چاند نظر آجائے تو صبح کو روزہ رکھنا چاہیے اور اگر مطلع صاف تھا پھر بھی چاند نہیں دکھائی دیا تو صبح کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ اگر چاند کے ہونے یا نہ ہونے میں شک وشبہ ہو تو یقینًا روزہ نہیں رکھنا چاہیے رسول اللہﷺ نے فرمایا
(صُومُوا لِرُؤيَتِهِ وَافْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثلاثِينَ)[1]
’’رمضان کا چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور عید کا چاند دیکھ کر افطار کرو اور عید مناؤ اور اگر چاند پوشیدہ ہو جائے یعنی ابر اور گرد و غبار کی وجہ سے چاند نہ دکھائی دے تو شعبان کے تیس دن پور کرو۔‘‘
رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:
(اُحْصُو هِلَالَ شَعْبَانَ لِرَمَضَانَ)[2]
’’رمضان کے لیے شعبان کے چاند کا شمار کرو۔‘‘
(مَنْ صَامَ الْيَوْمَ الَّذِي يَشُكُّ فِيهِ فَقَدْ عَصَى أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)[3]
’’جس نے مشکوک دن میں روز درکھا اس نے نبی کریمﷺ کی نافرمانی کی۔‘‘
رمضان شریف کے چاند کی بابت اگر کوئی پکا سچا مسلمان شہادت دے تو اس کی شہادت قبول کی جائے گی
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا لوگ چاند دیکھ رہے تھے میں نے رسول اللہﷺ کو بتایا کہ مجھے چاند نظر آ گیا ہے تو آپﷺ کے ہم نے روزہ رکھا اور لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔[4]
اس سے معلوم ہوا کہ رمضان کا ثبوت ایک مسلمان آدمی کی گواہی سے ہو جائے گا لیکن عید کے چاند کے لیے کم از کم دو آدمیوں کی شہادت ضروری ہے نبی کریمﷺ نے دو اعرابیوں کی شہادت سے افطار کرنے کا حکم دیا تھا۔[5]
چاند دیکھنے سے دو چار دن پہلے رمضان کے استقبال کے طور پر روزہ رکھنا جائز نہیں۔[6]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]1 صحیح بخاري: 1/ 256 كتاب الصوم باب اذا رئيتم الهلال فصوموا …. رقم:1909۔
[2] جامع ترمذي: 33/2 کتاب الصوم ما جاء في احصاء هلال شعبان لرمضان رقم: 687۔
[3] صحیح بخاري: 256/1 كتاب الصوم باب قول النبيﷺ الا اذا رأيتم الهلال …. تعليقًا.
و عبد الرزاق: 159/4 رقم الحديث: (7318)
[4] سنن دارمي: 9/2 کتاب الصیام باب الشهادة على رؤية هلال رمضان رقم الحديث: 1692- [5] مسند احمد: 314/4 و 362/5 و ابوداود: 2/ 274۔
[6] صحيح بخاري: 256/1 كتاب الصوم باب لا يتقدم رمضان يصوم يوم ولا يومين رقم الحديث: 1914۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر وہ پہلے سے ہمیشہ سے نفلی طور پر روزہ رکھتا چلا آیا ہے تو اس کے لیے رخصت ہے۔ چاند دیکھ کر اس دعا کو پڑھنا سنت ہے۔
(اللَّهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْأَيْمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ).[1]
’’اے اللہ! تو اس مہینے کو ہم پر سے امن وامان سلامتی اور اسلام کے ساتھ گزاردے اور اے چاند! میرا اور تیرا رب اللہ بھی ہے۔‘‘
روزہ کے لیے سحری کھانا سنت ہے سحری سحر سے ہے اور سحر وقت آخری شب جو صبح صادق سے پہلے ہوتا ہے اور سحری اس کھانے کو کہتے ہیں جو روز دار رات کے آخر وقت میں صبح صادق سے پہلے کھاتا پیتا ہے تاکہ دن میں طاقت دے اور بھوک اور پیاس کی زیادہ تکلیف نہ ہو اور سحری کھانے کا اچھا وقت آخر رات ہے سحری کھانے سے دن بھر قوت رہتی ہے اور اس میں برکت بھی ہے اس لیے اس کھانے کو غداء مبارک کہا گیا ہے سحری کھانا سنت مؤکدہ ہے آنحضورﷺنے فرمایا:
(تَسَحَّرُهُ فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةٌ)[2]
’’سحری کھایا کرو کیونکہ بحری میں برکت ہے۔‘‘
اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرمایا ہے:
(فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنًا وَصِيَامِ أَهْلِ الْكِتَابِ اكْلَةُ السُّحُورِ)[3]
’’ہم مسلمانوں اور یہود و نصاری کے روزوں کے درمیان فرق صرف سحری کھانا ہے۔‘‘
کیوں کہ یہود و نصاری سحری نہیں کرتے اور مسلمان سحری کھاتے ہیں۔
(إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى الْمُسَحَّرِينَ)[4]
’’سحری کھانے والوں پر اللہ تعالی رحم فرماتا ہے اور فرشتے ان کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں۔‘‘
اور آپ ﷺ نے فرمایا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: 329/5 و ترمذي: 245/4 كتاب الدعوات باب ما يقول عند رؤية هلال رقم
الحديث:3451۔
[2] صحیح بخاري: 257/1 کتاب الصوم باب بركة السحور من غير ايجاب، رقم الحديث: 1923۔
[3]صحیح مسلم: 350/1 كتاب الصيام – باب فضل السحور و تاکید استحبابه رقم الحديث:5050۔
[4] ابن حبان: رقم الحديث: 3458 و طبراني الأوسط رقم: 6430۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(السَّحُورُ كُلَّهُ بَرَكَةٌ وَلَا تَدَعُوهُ وَلَوْ أَنْ یَجَّرَعَ أَحَدُكُمْ جُرْعَةً مَاءٍ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ
وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى المُسَحَرِينَ)[1]
’’سحری کا کھانا باعث برکت اس کو نہ چھوڑ داگر چہ پانی کے ایک گھونٹ ہی سے ہو کیونکہ سحری کھانے والوں پر اللہ تعالی رحم کرتا ہے اور اس کے فرشتے استغفار کرتے ہیں۔‘‘
روزے کی نیت ضروری سے بغیر نیت کے روزہ نہیں ہو گا رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بالنيات) ’’عملوں کا دارو مدار نیت پر ہے۔‘‘[2]
اس میں بھی روزہ شامل ہے آپ نے روزے کے متعلق خصوصیت سے فرمایا:
(مَنْ لَمْ يُجَمعِ القِيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَلَا صِيَامَ لَهُ)[3]
’’جو شخص صبح سے پہلے روزے کی نیت نہ کرے تو اس کا روزہ نہیں ہو گا۔‘‘
علامہ شوکانی و نیل الاوطار میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رات ہی کو روزے کی نیت کر لینا ضروری ہے لیکن یہ فرض روزوں کے لیے ہے اور نفلی روزے کی نیت اگر زوال آفتاب سے پہلے کر لی جائے تب بھی درست ہے زبان سے نیت نہیں کرنی چاہیے بلکہ دل میں روزہ رکھ لینے کا ارادہ کر لینا ضروری ہے زبان سے کہنے کا کوئی ثبوت نہیں بلکہ بعض کے نزدیک بدعت ہے۔
افطاری کا بیان
روز و کھولنے کو افطار کہتے ہیں اور آفتاب کے غروب ہو جانے کے بعد اس کا وقت ہے نبی کریمﷺ نے قرمایا:
(إذا أقبل الليلُ مِنْ هٰهنا وَادْبَرَ النَّهَارُ مِنْ هٰهُنَا وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ)[4].
’’جب رات ادھر سے ادھر آ جائے یعنی مغرب اور دن ادھر سے ادھر ہو جائے یعنی مشرق سے چلا جائے اور سورج چھپ جائے تو روزہ داروں کے روزہ کھولنے کا وقت ہو گیا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابن حبان، رقم الحديث: 3448- طبرانی اوسط: 222/7 رقم الحديث: 2430۔
[2] صحیح بخاري: 2/1 کتاب بدء الوحي باب كيف كان بدأ الوحي …. رقم الحديث:1۔
[3] مسند احمد: 287/5 و دارمی: 2/ 12 كتاب الصيام باب من لم يجمع الصيام من الليل رقم
الحديث: 1998۔
[4] صحیح بخاري: 262/1 كتاب الصوم باب حتى يحل فطر الصائم، رقم الحديث: 1954 و مسلم 1/ 351۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب کے غروب ہو جانے کے بعد روزہ کھولنے میں دیر کرنا ٹھیک نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(لا يَزَالُ الدِّينُ ظَاهِرًا مَا عَجَلَ النَّاسُ الْفِطْرَ لِأَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى يُؤَخِّرُونَ)[1]
’’دین ہمیشہ غالب رہے گا جب تک کہ لوگ افطار میں جلدی کریں گے کیونکہ یہود و نصاری افطار میں دیر کرتے تھے۔‘‘
ان سب حدیثوں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ افطار کرنے میں جلدی کرنی چاہیے وقت ہو جانے کے بعد متبع سنت کا کام نہیں ہے کہ دیر کر کے افطار کرے۔
روزہ افطار کرانے کی بڑی فضیلت ہے افطار کرانے والے کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں جتنے آدمیوں کو افطار کرائے گا اتنے ہی آدمیوں روزوں کے ثواب کو پالے گا ان لوگوں کے ثواب میں بھی کمی نہیں ہوگی رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْءٌ)[2]
’’جو کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے تو اس کے گناہ معاف ہو جا ئیں گے اور دوزخ سے آزاد ہو جائے گا اور روزہ دار کے برابر اس کو ثواب ملے گا ان روزہ داروں کے ثواب میں کمی نہیں ہوگی۔‘‘
کھانے پینے کی کوئی بھی حلال اور طیب چیز ہو اس کے کھانے پینے سے افطار ہو جاتا ہے لیکن کھجوروں سے افطار کرنا افضل ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
(إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيُفْطِرُ عَلٰى تَمْرٍ فَإِنَّهُ بَرَكَةٌ فَإِنْ لَمْ يَجِدُ تَمْرًا فَالْمَاءُ فَإِنَّهُ طهور)[3]
’’جب تم میں سے کوئی انتظار کرے تو کھجوروں سے افطار کرے کیونکہ وہ برکت ہے اور کھجور نہ پائے تو پانی سے کیوں کہ وہ پاک کرنے والا ہے۔‘‘
اور رسول اللہ ﷺ خود کھجوروں سے افطار کرتے تھے اور اگر یہ نہیں پاتے تو پانی سے افطار کرتے۔‘‘[4]
اور افطار کے بعد یہ دعا پڑھنی چاہیے:
(ذَهَبَ الظَّمَاْ وَابْتَلَتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْآجِرُ إِنْ شَاءَ اللهُ)[5]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] سنن ابي داود: 2/277، كتاب الصيام باب ما يستحب من تعجيل الفطر رقم الحديث: 2344۔
[2] ابن خزيمه: 191/3 رقم الحدیث: 1887- شعب الايمان 3/ 305 رقم الحديث:2608۔
[3] مسند طیالسی:ص (177 (1291) و مسند احمد: 17/4۔
[4] مسند احمد: 164/3 و ابوداود: 278/2۔
[5] سنن ابی داود: 2/ 278 رقم الحديث: 2348 كتاب الصوم باب القول عند الافطار۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’یعنی پیاس جاتی رہی اور رگیں تر ہو گئیں اور انشاء اللہ اجر ثابت ہو گیا۔‘‘
اعتکاف
اعتکاف کے معنی ٹھہرنے کے ہیں اور شرعی محاورہ میں دنیا کے سارے کاروبار چھوڑ کر عبادت الہی کی نیت اور رضائے مولی کی غرض سے مسجد میں ٹھہر کر عبادت کرنے کو اعتکاف کہتے ہیں بحالت اعتکاف کثرت سے نفل نماز پڑھنے قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر الہی تسبیح وتہلیل وتحمید تکبیر کرنے درود شریف پڑھنے میں مشغول رہنا چاہیے قرآن وحدیث کا درس دینا اور مسجد میں وعظ ونصیحت کرنا بھی جائز ہے کیونکہ یہ بھی عبادت کے کام میں اعتکاف کی بڑی فضیلت ہے۔ معتکف کا عاقل مسلمان ہونا اور حیض و نفاس اور جنابت سے پاک وصاف ہونا اور اعتکاف کی نیت کرنا اور مسجد کا ہونا ضروری ہے۔
اعتکاف کی دو قسمیں ہیں (1) فرض (2) سنت۔
فرض یہ ہے کہ نذرومنت مان کر اپنے اوپر لازم کر لے یعنی یوں کہے کہ میں خدا کے واسطے اعتکاف کروں گا تو اس کا ادا کرنا فرض ہے اللہ تعالی نے فرمایا ﴿وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ﴾ (الحج: 29) (اپنی نذروں کو پورا کرو)
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام لانے سے پہلے اعتکاف کی نذر مانی تھی رسول اللہﷺ سے دریافت کیا آپﷺ نے فرمایا تم اپنی نذر پوری کرو.[1]
اور رمضان شریف کے آخری عشرہ میں دس روز کا اعتکاف سنت ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان فرماتی ہیں رسول اللہﷺ نے رمضان شریف کے آخری عشرہ میں مرتے دم تک اعتکاف کیا۔ [2].
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف سنت موکدہ ہے آپ کسی کا نام نے ہمیشہ کیا ہے ایک مرتبہ ایک سال رمضان میں نہیں کیا تھا تو شوال کے مہینے میں اس کو ادا فرمایا۔
اعتکاف کی حالت میں بلا ضرورت مسجد سے باہر جانا جائز نہیں ہے۔ البتہ پیشاب پاخانہ اور فرض نماز اور جمعہ کی نماز کے لیے باہر جا سکتے ہیں اعتکاف کی حالت میں اپنی بیوی سے مباشرت اور ہم بستری کرنا درست نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح بخاري: 274/1، کتاب الاعتكاف باب الاعتكاف ليلاً، رقم الحديث: 2032۔
[2] صحیح بخاري: 271/1 کتاب الاعتكاف باب الاعتكاف في العشر الأواخر …. رقم الحديث: 2029۔
[3]صحیح بخاري: 1/ 274 كتاب الاعتكاف باب اعتكاف النساء رقم الحديث: 2033۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
﴿وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ﴾ (البقرة: 187)
’’اعتکاف کی حالت میں تم اپنی ہویوں سے مباشرت نہ کرو۔‘‘
مرد کی طرح عورت بھی اعتکاف کر سکتی ہے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کے ساتھ اعتکاف کیا تھا۔ [1]
صبح کی نماز پڑھ کر اعتکاف کی جگہ داخل ہونا چاہیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو صبح کی نماز پڑھ کر اپنے معتکف میں داخل ہوتے۔[2]
رمضان شریف کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا چاہیے تو بیسویں تاریخ کی صبح کو بعد نماز فجر مسجد میں آ جانا چاہیے اور پھر چاند دیکھ کر باہر نکلنا چاہیے، رسول اللہ ﷺ رمضان شریف کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے ایک دفعہ رمضان میں آپ کا اعتکاف چھوٹ گیا تو آپ نے شوال المحرم کے پہلے دس دنوں میں اس کی قضا کی۔[3]
جس سال آپ ﷺ کا انتقال ہوا اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔[4]
شب قدر کی فضیلت
اس کے معنی عزت والی رات کے ہیں اور محاورے میں رمضان شریف کے آخری عشرہ میں پانچ طاق راتوں میں سے ایک رات کو کہتے ہیں جس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے اس کی بزرگی کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:
﴿اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِۚۖ۝۱
وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِؕ۝۲
لَیْلَةُ الْقَدْرِ ۙ۬ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ۝۳
تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ ۚ مِنْ كُلِّ اَمْرٍۙۛ۝۴
سَلٰمٌ ۛ۫ هِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ۠۝﴾ (القدر: 1- 5)
’’بیشک ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل فرمایا اور آپ کو کس نے بتایا کہ شب قدر کیا چیز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح بخاري: 271/1 کتاب الاعتكاف باب الاعكتاف في العشر الأواخر …. رقم الحديث
2029۔
[2] صحیح بخاري: 1/ 272 کتاب الاعتکاف باب اعتکاف النساء رقم الحديث: 2033۔
[3] صحیح بخاري: 274/1 كتاب الاعتكاف باب اعتكاف النساء رقم الحديث: 2033۔
[4] صحیح بخاري: 274/1 كتاب الاعتكاف باب الاعتكاف في العشر الأوسط من رمضان رقم
الحديث: 2044۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس میں ہر کام کو سر انجام دینے کے لیے فرشتے اور روح اللہ تعالی کے حکم سے کرتے ہیں یہ رات سلامتی والی ہے فجر کے طلوع ہونے تک۔‘‘
حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ اس کا یہ مطلب بیان فرماتے ہیں کہ اس رات کا نیک عمل اس کی نماز ایک ہزار مہینوں کی نماز روزے سے بہتر ہے جن میں لیلۃ القدر نہ ہو۔
اور نبی ﷺ نے فرمایا کہ رمضان میں ایک رات ہے جو ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے اس کی بھلائی سے محروم رہنے والا حقیقی بد قسمت ہے۔ .[1]
اور نبی ﷺ نے فرمایا ہے:
(مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ)[2]
’’جو شب قدر میں قیام ایمانداری نیک نیتی اور اخلاص سے کرے گا اس کے اگلے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے۔‘‘
اس رات میں فرشتے اترتے ہیں اور مومن مردوں اور عورتوں کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔
اس مقدس رات کو غنیمت سمجھ کر تمام مسلمان بہن بھائیوں کو چاہیے کہ نیک نیتی اور خضوع و خشوع کے ساتھ عبادت الہی کریں قرآن مجید کی تلاوت اور تسبیح و تجلیل و تکبیر اور توبہ واستغفار میں رات بھر مشغول رہیں۔ رسول اللہ ﷺ آخر عشرہ کے اندر عبادت کرنے میں اتنی کوشش کرتے کہ اور دنوں میں اتنی کوشش نہیں کرتے تھے۔[3]
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی کیا فرماتی ہیں کہ رسول الله ﷺ
(وَإِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ وَأَحْيٰ لَيْلَهُ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ)[4]
’’جب آخر عشرہ آ جاتا تو آپ کمر بستہ ہو کر شب بیداری کرتے اور اپنے گھر والوں کو بھی اس کام کے لیے جگاتے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد (2؍230 و نسائی کتاب الصيام باب ذكر الاعتكاف على معمر فيه رقم الحديث: 2108۔
[2] صحیح بخاري: 1 / 255 کتاب الصیام باب من صام رمضان ايمانا و احتسابا … رقم 1901۔
[3] صحیح مسلم: 1/ 372 کتاب الاعتکاف باب الاجتهاد في العشر الأواخر من شهر رمضان رقم الحديث:2788۔
[4]صحیح بخاري: 1؍171 کتاب فضل ليلة القدر باب العمل في العشر الأواخر من رمضان رقم. 2024۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ اگر میں شب قدر کو پالوں تو اللہ تعالی سے کیا دعا کروں تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم اس دعا کو پڑھو۔
(اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنی)[1]
’’اے اللہ! تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو دوست رکھتا ہے تو مجھے معاف کر دے‘‘
شب قدر کی نشانی یہ ہے کہ اس رات میں سکون ہوتا ہے نہ زیادہ گرمی ہوتی ہے اور نہ زیادہ سردی اور نہ اس رات میں ستارے جھرتے ہیں آسمان روشن اور صاف ہوتا ہے اس کی صبح کو سورج کی شعا میں ہلکی ہوتی ہیں۔[2]
اللہ تعالی ہمارے روزوں کو قبول فرمائے اور ترویح اور شب بیداری کو بھی قبول فرما لے اور زیادہ سے زیادہ نیک عملوں کی توفیق دے۔ (آمین)
(وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَالصَّلُوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَ مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ بَارَكَ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ فِي الْقُرْآنِ الْعَظِيمِ وَنَفَعَنَا وَإِيَّاكُمْ بِالْآيَتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيمِ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد:182،171/9 و ترمذي: 264/4 كتاب الدعوات باب في نسخة في فضل سؤال
العافية رقم الحديث: 3513۔
[2] مسند احمد: 324/5 مجمع الزوائد: 3/ 178۔
……………………………………..