فضائلِ صحابہ

اہم عناصر :
❄صحابی کی تعریف ❄فضائل صحابہ
❄بدری صحابہ کی فضیلت ❄ صلح حدیبیہ میں شریک صحابہ کی فضیلت
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ[التوبہ: 100]
ذی وقار سامعین!
کچھ چیزیں کسبی ہوتی ہیں جو محنت کر کے حاصل کی جا سکتی ہیں اور کچھ چیزیں وہبی ہوتی ہیں جو خاص اللہ رب العزت کی عطا ہوتی ہیں ، محنت اور کوشش سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
دنیا میں دو منصب ایسے ہیں جو وہبی ہیں ، محنت اور کوشش سے حاصل نہیں ہوتے بلکہ اللہ رب العزت کی خصوصی رحمت سے حاصل ہوتے ہیں ، پہلا منصب نبوت والا منصب ہے کہ کوئی شخص جتنی بھی محنت کر لے ، وہ چاہے کہ میں نبی بن جاؤں تو وہ نہیں بن سکتا ، اسی طرح دوسرا منصب صحابیت کا منصب ہے اگر کوئی شخص کہے کہ میں عبادت اور ریاضت کرکے صحابی بن جاؤں تو وہ نہیں بن سکتا ؎
یہ رتبہ بلند ملا جسے مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارو رسن کہاں
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے صحابی کی تعریف اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل سمجھیں گے۔
صحابی کی تعریف
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’صحابی‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛
’’الصحابی من لقی النبی صلي اللّٰهُ عليه وسلم مؤمنا بہ ومات علی الإسلام‘‘
’’صحابی اسے کہتے ہیں جس نے حالتِ ایمان میں نبی کریم ﷺ سے ملاقات کی اور اسلام پر ہی فوت ہوا۔‘‘
پھر اس کی شرح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس تعریف کے مطابق ہر وہ شخص صحابی شمار ہوگا جو رسول ا للہ ﷺ سے اس حال میں ملا کہ وہ آپ کی رسالت کو مانتا تھا،پھر وہ اسلام پر ہی قائم رہا یہاں تک کہ اس کی موت آگئی،خواہ وہ زیادہ عرصے تک رسول اکرم ﷺ کی صحبت میں رہا یاکچھ عرصہ کے لئے۔اور خواہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو روایت کیا ہو یا نہ کیا ہو۔اور خواہ وہ آپ کے ساتھ کسی جنگ میں شریک ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔اور خواہ اس نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا یا بصارت نہ ہونے کے سبب وہ آپ کا دیدار نہ کرسکا،ہر دو صورت میں وہ ’’صحابیٔ رسول’‘شمار کیا جائے گا۔اور ایسا شخص ’’صحابی’‘متصور نہیں ہوگا جو آپ پر ایمان لانے کے بعد مرتد ہوگیا۔
[الإصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ:ج۱ ص ۷۔۸]
فضائل صحابہ
صحابہ کی مثال تورات و انجیل میں:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
"محمد اللہ کا رسول ہے اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، تو انھیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی، کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعے کافروں کو غصہ دلائے، اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔” [الفتح: 29]
اس آیت کی تفسیر میں فضیلۃ الشیخ مولانا عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس آیت میں ان پاکباز ہستیوں کا ذکر فرمایا جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اس ہدایت اور دین حق کو روئے زمین پر غالب کرنے والا تھا۔ ’’ وَ الَّذِيْنَ مَعَه ‘‘ (وہ لوگ جو آپ کے ساتھ ہیں) اس لفظ میں تمام صحابہ کرام شامل ہیں، خواہ انھیں آپ کے ساتھ رہنے کی لمبی مدت ملی ہو یا تھوڑی۔
رضائے الٰہی کا سرٹیفکیٹ:
❄اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ؛
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
"اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ہمیشہ۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔” [التوبہ: 100]
❄رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے۔ یہ لوگ اللہ کا گروہ ہیں، یاد رکھو! یقیناً اللہ کا گروہ ہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ [المجادلہ: 22]
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنی رضا کے سرٹیفکیٹ عطا فرمائے ہیں۔
صحابہ جیسا ایمان لانے کا حکم:
❄اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ؛
فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ "پھر اگر وہ اس جیسی چیز پر ایمان لائیں جس پر تم ایمان لائے ہو تو یقیناً وہ ہدایت پا گئے اور اگر پھر جائیں تو وہ محض ایک مخالفت میں (پڑے ہوئے) ہیں، پس عنقریب اللہ تجھے ان سے کافی ہوجائے گا اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔”[البقرہ: 137]
❄وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ
"اور جب ان سے کہا جاتا ہے ایمان لاؤ جس طرح لوگ ایمان لائے ہیں، تو کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جیسے بے وقوف ایمان لائے ہیں؟ سن لو! بے شک وہ خود ہی بے وقوف ہیں اور لیکن وہ نہیں جانتے۔” [البقرہ: 13]
میرے أصحاب کو برا نہ کہو:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ
ترجمہ : سیدنا ابوسعید خدری نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا؛ میرے اصحاب کو برا بھلامت کہو ۔ اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کرڈالے تو ان کے ایک مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر۔ [بخاری: 3673]
بہترین زمانے کے لوگ:
قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: خَيْرُكُمْ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ (صحابہ) ہیں ۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے (تابعین) پھر وہ لوگ جو اس کے بھی بعد آئیں گے(تبع تابعین) ] بخاری: 2651[
صحابہ کی برکت:
❄ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَأْتِي زَمَانٌ يَغْزُو فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ، فَيُقَالُ: فِيكُمْ مَنْ صَحِبَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيُقَالُ: نَعَمْ، فَيُفْتَحُ عَلَيْهِ، ثُمَّ يَأْتِي زَمَانٌ، فَيُقَالُ: فِيكُمْ مَنْ صَحِبَ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيُقَالُ: نَعَمْ، فَيُفْتَحُ، ثُمَّ يَأْتِي زَمَانٌ فَيُقَالُ: فِيكُمْ مَنْ صَحِبَ صَاحِبَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيُقَالُ: نَعَمْ، فَيُفْتَح ُ
ترجمہ : سیدنا ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا؛ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ مسلمانوں کی فوج جہاں پر ہوں گی ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا فوج میں کوئی ایسے بزرگ بھی ہیں جنہوں نے نبی کریم ﷺ کی صحبت اٹھائی ہو ، کہا جائے گا کہ ہاں تو ان کو فتح دے دی جائے گی ۔ پھر ایک ایسا زمانہ آئے گا اس وقت اس کی تلاش ہوگی کہ کوئی ایسے بزرگ مل جائیں جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے صحابہ کی صحبت اٹھائی ہو ، ( یعنی تابعی ) ایسے بھی بزرگ مل جائیں گے اور ان کو فتح دے دی جائے گی اس کے بعد ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ پوچھا جائے گا کہ کیا تم میں کوئی ایسے بزرگ ہیں جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے صحابہ کے شاگردوں کی صحبت اٹھائی ہو کہا جائے گا کہ ہاں اور ان کو فتح دے دی جائے گی۔ [بخاری: 2897]
دنیا میں مغفرت:
حضرت عبدالرحمٰن عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ۔ ایک بار کسی سخت تکلیف کی بنا پرغشی کا دورہ پڑگیا۔ اہل خانہ نے سمجھا کہ شاید ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد انھیں افاقہ ہوا تو انھوں نے اﷲ اکبر کہا، گھر والوں نے بھی تعجب سے اﷲ اکبر کہا، پھر انھوں نے فرمایا کہ کیا مجھ پر غشی طاری ہو ئی تھی؟ تو اہل خانہ نے کہا : جی ہاں، انھوں نے فرمایا؛
إِنَّهُ انْطَلَقَ بِي فِي غَشِيَّتِي رَجُلَانِ أَحَدُهُمَا فِيهِ شِدَّةٌ وَفَظَاظَةٌ، فَقَالَا: انْطَلِقْ نُحَاكِمْكَ إِلَى الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ "”، فَقَالَ: أَرْجِعَاهُ فَإِنَّهُ مِنَ الَّذِينَ كَتَبَ اللَّهُ لَهُمُ السَّعَادَةَ وَالْمَغْفِرَةَ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِهِمْ
غشی کے دوران ایسا ہو اکہ دو شخص میرے پاس آئے اور مجھے کہا:چلو اﷲ سبحانہ وتعالیٰ سے تیرے بارے میں فیصلہ لیتے ہیں، چنانچہ ہم چلے تو راستے میں ایک شخص ملا، اس نے کہا: کہ اسے کہاں لے جا رہے ہو، ان دونوں نے کہا:اﷲ تعالیٰ سے اس کے بارے میں فیصلہ لینا چاہتے ہیں، تو اس نے کہا: واپس لوٹ جاؤ۔ ’’ یہ تو ان لوگوں میں سے ہے جن کے بارے میں سعادت مندی اور مغفرت اﷲ تعالیٰ نے اس وقت سے لکھ دی ہے جب وہ شکم مادر میں تھے۔‘‘ (حاکم ج3ص 307، المعرفۃ والتاریخ ج 1ص 367، السیر ج 1 ص 89 بسند صحیح)
اللہ کے چنیدہ لوگ:
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک قول ہے:
"إن اللهَ تعالى نظرَ في قلوبِ العباد، فوجدَ قلبَ محمدٍ – صلى الله عليه وسلم – خيرَ قلوبِ العباد، فاصطفاهُ لنفسِه، وابتعثَه برسالتِه، ثم نظرَ في قلوبِ العباد بعد قلب محمدٍ ﷺفوجدَ قلوبَ أصحابِه خيرَ قلوب العباد، فجعلَهم وُزراءَ نبيِّه، يُقاتِلون على دينِه”.
ترجمہ: یقینا اللہ تعالی نے بندوں کے دلوں میں دیکھا، تو محمدﷺ کا دل سب سے بہتر پایا، اسی لئے انہیں اپنے لئے چُن لیا، اور اپنا پیغام دے کر بھیجا، پھر محمدﷺ کے دل کے بعد بندوں کے دلوں کو دیکھا تو ان کے صحابہ کے دلوں کو سب سے بہترین پایا، اس لئے انہیں اپنے نبی کے وزراءبنادیا، جو اس کے دین کی خاطر جہاد کرتے تھے۔ [مسند احمد: 3600حسن]
بدری صحابہ کی فضیلت
❄ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے قصّے کے آخر میں ہے کہ جب حضرت عمر نے کہا کہ حاطب نے اللہ، اسکے رسول ﷺ اور مومنوں کی خیانت کی ہے لہٰذا مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی گردن اڑادوں؟ توآپ ﷺ نے فرمایا:
لَعَلَّ اللّٰہَ اطَّلَعَ عَلٰی أَہْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ وفی روایۃ: فَقَدْ وَجَبَتْ لَکُمُ الْجَنَّۃُ
’’ شاید اللہ تعالیٰ نے اہلِ بدر کی طرف ( بنظرِ رحمت ) دیکھا اور پھر کہا : تم جو چاہو کرتے رہو ، میں نے تمہیں معاف کردیاہے۔ ‘‘ اور ایک روایت میں ہے :’’ تمہارے لئے جنت واجب ہوگئی ہے۔‘‘ [بخاری: 3007]
❄ عَنْ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَ أَبُوهُ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ قَالَ: جَاءَ جِبْرِيلُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا تَعُدُّونَ أَهْلَ بَدْرٍ فِيكُمْ، قَالَ: مِنْ أَفْضَلِ المُسْلِمِينَ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، قَالَ: وَكَذَلِكَ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ المَلاَئِكَةِ
ترجمہ: حضرت جبرئیل ” نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آ ئے اور آ پ سے انہوں نے پوچھا کہ بدر کی لڑائی میں شریک ہونے والوں کا آ پ کے یہاں درجہ کیا ہے ؟ آ پ نے فرمایا کہ مسلمانوں میں سب سے افضل یا حضور ﷺ نے اسی طرح کا کوئی کلمہ ارشاد فر مایا ۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ جو فرشتے بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے تھے ان کا بھی درجہ یہی ہے۔ [بخاری: 3992]
صلح حدیبیہ میں شریک صحابہ کی فضیلت
بیعتِ رضوان میں شریک صحابہ کی بہت زیادہ فضیلت ہے:
❄حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا يَدْخُلُ النارَ أحدٌ ممَن بايعَ تحتَ الشجرةِ.
ان لوگوں میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہو گا جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی (یعنی صلح حدیبیہ کے وقت بیعتِ رضوان میں شریک رہے) [صحيح أبي داود: 4653 ]
❄یہ وہ عظیم بیعت تھی جس پر خود رب العزت کی طرف سے خوشنودی کا اظہار کیا گیا اور قرآنِ پاک میں آیت نازل فرما دی :
لَّقَدْ رَضِيَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا
"یقیناً اللہ مومنوں سے راضی ہوگیا جب وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے پس وہ جان گیا اس اخلاص کو جو ان کے دلوں میں تھا اس لئے ان پر سکون و اطمینان نازل کیا اور بطورِ جزا ایک قریبی فتح سے نوازا۔” [الفتح :18]
یہ آیت ان اصحابِ بیعتِ رضوان کے لیے رضائے الٰہی اور ان کے پکے سچے مومن ہونے کا سرٹیفکیٹ ہے جنہوں نے حدیبیہ میں ایک درخت کے نیچے اس بات پر بیعت کی کہ وہ قریشِ مکہ سے لڑیں گے اور راہِ فرار اختیار نہیں کریں گے۔
❄عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کو یہ کہتے سنا کہ:
قالَ لَنَا رَسولُ اللہِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَومَ الحُدَيْبِيَةِ: أنتُمْ خَيْرُ أهْلِ الأرْضِ. وكُنَّا ألْفًا وأَرْبَعَ مِئَةٍ، ولو كُنْتُ أُبْصِرُ اليومَ لَأَرَيْتُكُمْ مَكانَ الشَّجَرَةِ. ترجمہ: حدیبیہ کے دن رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا : تم زمین والوں میں سب سے بہتر ہو۔ اور (اس وقت) ہم چودہ سو تھے اور اگر آج مجھے دکھائی دیتا ہوتا تو میں تمہیں اس درخت کی جگہ دکھاتا۔ [بخاري: 4154 ]
❄ام مبشر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ؛
لَا يَدْخُلُ النَّارَ، إِنْ شَاءَ اللہُ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ أَحَدٌ الَّذِيْنَ بَايَعُوْا تَحْتَهَا
’’ان شاء اللہ اس درخت والوں میں سے کوئی بھی آگ میں داخل نہیں ہو گا جنہوں نے اس کے نیچے بیعت کی۔‘‘ [مسلم: 2494 ] ❄حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ حاطب کا ایک غلام حاطب کی شکایت لے کر آیا اور کہنے لگا : ’’یا رسول اللہ! حاطب ضرور آگ میں داخل ہو گا۔ تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا ؛
كَذَبْتَ لَا يَدْخُلُهَا فَإِنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا وَالْحُدَيْبِيَةَ
ترجمہ: تو نے غلط کہا وہ آگ میں داخل نہیں ہو گا کیونکہ اس نے تو بدر اور حدیبیہ میں شرکت کی ہے۔‘‘ [مسلم: 2495]