فضائل صحابہ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم
(صفر کی نحوست)(قرآن وحدیث کا فہم صحابہ کرام کے طرزِ عمل کی روشنی میں، تین اہم اصول، بدعت حسنہ؟ جشنِ میلاد النبی کی شرعی حیثیت، منانے والوں کے دلائل اور جواب)
صحابی سے مراد، فضائل قرآن سے، احادیث مبارکہ سے، فضائل انصار، اہل بدر، اہل اُحد، اصحاب بیعت رضوان، اہل السنۃ کا عقیدہ
تمہید: یہ عظیم الشان کائنات ، اللہ رب العٰلمین کی تخلیق کردہ ہے، جس کا عقلی ومنطقی تقاضا یہی ہے کہ اسی خالق کے حکم کو مانا جائے، صرف اسے راضی کرنے کی کوشش کی جائے۔ (جسے عبادت کہا جاتا ہے) ﴿ أَلَا لَهُ الخلق والأمر ﴾ ان لوگوں کو راضی کیا جائے، جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوں، اگر کسی کو خوش کرنے سے ان سے دوستی کرنے سے اللہ ناراض ہوں تو اللہ کو ناراض کرنے انہیں راضی کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ لہٰذا اس کائنات میں صرف ایک اللہ وحدہ لا شریک کا حکم چل سکتا ہے، کیونکہ وہی اس کا حقیقی خالق ومالک ہے۔ ﴿ فالحكم لله العلي الكبير ﴾ ، ﴿ إن الحكم إلا لله أمر أن لا تعبدوا إلا إياه ذلك القيّم ولكن أكثر الناس لا يعلمون ﴾ … اب الله كا حكم ہمیں کیسے معلوم ہوگا، اس کام کیلئے فرشتوں اور انسانوں میں اللہ نے اپنے رسول مقرر کر رکھے ہیں، جو امین ہیں، تو ہمارے سامنے اللہ کے نمائندہ رسول موجود ہوتے ہیں، ان کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہوتی ہے۔ مسلمان کی اصل کامیابی یہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرے اور قرآن وحدیث کی تعلیمات پر سر تسلیم خم کر دے اور ان کی بالکل خلاف ورزی نہ کرے: ﴿ ومن يطع الله ورسوله يدخله جنت تجري … وله عذاب مهين ﴾ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ہمارا دین مکمل طور پر نبی کریمﷺ کی ارد گرد گھومتا ہے، جس کو آپ نے قرآن کہہ دیا و ہ قرآن، باقی احادیث مبارکہ ہیں وہ بھی اللہ کا حکم ہوتی ہیں ، ﴿ لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة ﴾ اب سوال یہ ہے کہ ہر شخص، ہر فرقہ قرآن وحدیث کو ماننے کا دعویٰ کرتا ہے، تو کن لوگوں کا فہم قرآن وحدیث ہمارے لئے حجت ہے، جواب ہے کہ صحابہ کرام کا ، جنہیں اللہ تعالیٰ نے خود معیار قرار دیا ہے۔
﴿ وإذا قيل لهم ءامنوا كما ءامن الناس ﴾، ﴿ فإن ءامنوا بمثل ما ءامنتم به فقد اهتدوا ﴾ ان کا راستہ چھوڑنے پر اللہ تعالیٰ نے جہنم کی وعید سنائی ہے: ﴿ ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین له الهدى ﴾
خلاصہ یہ ہے کہ عملی زندگی میں ہمیں قرآن وحدیث کو سامنے رکھنا چاہئے اور اس سلسلے میں صحابہ کرام کے طرزِ عمل سے راہنمائی لینی چاہئے۔
خاص طور پر نزاعی مسائل میں، ان میں صحابہ کرام صرف اور صرف قرآن وحدیث کو سامنے رکھتے، نبی کریمﷺ کی وفات، خلیفہ چننے پر صحابہ کرام کا طرز عمل ہمارے سامنے ہے۔ اور یہی اللہ کا حکم بھی ہے:
﴿ يأيها الذين ءامنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم … ﴾، ﴿ أوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة وإن عبدا حبشيا، فإنه من يعش منكم فسيرى اختلافا كثيرا فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين، تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ، وإياكم ومحدثات الأمور فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة﴾ … صحيح أبي داؤد
متنازغ مسائل میں سے ایک بارہ ربیع الاول کو عید میلاد اور جشن منانے کا بھی ہے ، عمارتوں پر چراغاں کیا جاتا ہے، جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں، نعت خوانی کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں اور سرکاری چھٹی بھی ہوتی ہے۔
گذشتہ تمہیدی باتوں کی روشنی میں غور کیجئے کہ کیا قرآن وسنت میں مروجہ عید میلاد کا کوئی ثبوت ہے؟ کیا نبی کریمﷺ نے اپنا میلاد منایا؟ یا ترغیب دلائی؟ کیا خلفائے راشدین نے، صحابہ کرام نے جشن منایا ، کیا قرون مفضّلہ میں یہ جشن منایا جاتا تھا، کیا کسی امام نے یہ جشن منایا ہے؟
اس کا موجد: ابو سعید کوکبوری الملقب الملک المعظم مظفر الدین اربل (موصل) 630 ھ نے کی۔ اس کا جواز کا فتویٰ دینے والا ابو الخطاب عمر بن الحسن المعروف بابن وحیہ کلبی 633ھ ، بقول حافظ ابن حجر کہ ابن نجار کہتے ہیں کہ میں نے تمام لوگوں کو اس کے جھوٹ اور ضعیف ہونے پر متفق پایا ہے۔ لسان المیزان 2؍295) وہ ائمہ دین اور سلف صالحین کا گستاخ اور خبیث زبان والا تھا ۔ بڑا حمق اور متکبر تھا اور دین کے کاموں پر بڑا بے پرواہ تھا (لسان المیزان: 4؍ 296)
اس نے ایک کتاب التنویر فی مولد السراج المنیر لکھی تو شاہ اربل نے اسے 1000 اشرفی انعام دیا (وفیات الاعیان لابن خلکان: 3؍ 449)