فضائل ذکر الہی

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ﴿ اُتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ ؕ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ ؕ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ۝۴۵ ﴾ (العنكبوت: 45)
اللہ تعالی فرماتا ہے: ’’جو کتاب آپ پر اتاری گئی ہے اس کی تلاوت کرتے رہئے اور نماز کو پابندی سے ادا کرتے رہئے یقینًا یہ نماز بے شرمی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔‘‘
خدا کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے کیونکہ ذکر الہی کرنے والے کو خدا بھی یاد کرتا ہے اور اس سے بڑی چیز اور کیا ہوگی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿فَاذْكُرُوْنِيْ أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْ لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنَ﴾ (البقرة: 152)
’’تم میرا ذ کر کرو میں بھی تمہیں یاد کروں گا میری شکرگزاری گرو اور ناشکری سے بچو۔‘‘
قرآن مجید میں جگہ جگہ اپنے ذکر پر مخلوق کو توجہ دلائی ہے۔ اس معنی کی چند آیتیں بیان کی جا رہی ہیں۔
سنئے اور عمل کرنے کی کوشش کیجئے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿ فَاِذَاۤ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۪ وَ اذْكُرُوْهُ كَمَا هَدٰىكُمْ ۚ وَ اِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ۝۱۹۸﴾ (البقرة: 198)
’’جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعر الحرام کے پاس ذکر خدا کرو اس کا ذکر کرو جیسے کہ اس نے تم کو ہدایت دی ہے حالانکہ تم اس سے پہلے راہ بھولے ہوئے تھے۔‘‘
پھر آگے چل کر اسی صورت میں اور اسی رکوع میں یہ فرما رہا ہے:
﴿ فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا ؕ ﴾ (البقرة: 200)
’’پھر جب تم ارکان حج کر چکو تو اللہ تعالی کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے باپ دادوں کا ذکر کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔‘‘
﴿ الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۝۱۹۱﴾ (آل عمران: ۱۹۱)
’’آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقینًا عقلمندوں کیلئے نشانیاں ہیں۔ جو اللہ کا ذکر کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے اپنی کروٹوں پر لیٹے اور آسمان وزمین کی پیدائش میں فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا تو پاک ہے۔ پس ہمیں عذاب آگ سے بچائے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں ذکر اور فکر کی طرف خاص توجہ دلائی گئی ہے۔ اور اللہ تعالی نے ان دونوں یعنی ذکر کرنے والوں اور فکر کرنے والوں کی بڑی تعریف بیان فرمائی ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا قول لکھا۔ کہ ایک گھڑی غور وفکر کرنا رات بھر کے قیام سے افضل ہے۔
حضرت فضیل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے کہ غور و فکر اور مراقبہ ایک ایسا آئینہ ہے جو تیرے سامنے تیری برائیاں بھلائیاں سب پیش کر دیتا ہے۔ حضرت عباس بن عینیہ فرماتے ہیں۔ غور و فکر ایک نور ہے جو تیرے دل پر اپنا پر تو ڈالے گا اور بسا اوقات یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔
إذَ الْمَرْءُ كَانَتْ لَهُ فِكْرَةٌ فَفِيْ كُلِّ شَيْءٍ لَّهُ عِبْرَةٌ
یعنی ’’جس انسان کو باریک بینی کی اور سوچ سمجھ کی عادت پڑھ گئی اسے ہر چیز میں ایک عبرت اور آیت نظر آتی ہے۔‘‘
حضرت عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں: خوش نصیب ہے وہ شخص جس کا بولنا ذکر اللہ اور نصیحت ہو اور اس کا چپ رہنا غور و فکر ہو اور اس کا دیکھنا عبرت اور تنبیہ ہو۔ لقمان حکیم علیہ السلام کا یہ حکمت آموز مقولہ بھی یاد رہے کہ تنہائی کی گوشہ نشینی جس قدر زیادہ ہو اسی قدر غور و فکر اور انجام بینی زیادہ ہوتی ہے۔ اور جس قدر یہ بڑھ جائے اُسی قدرو و راستے انسان پر کھل جاتے ہیں جو اسے جیت میں پہنچا دیں۔ حضرت وہب بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جس قدر مراقبہ زیادہ ہو گا اسی قدر سمجھ بوجھ تیز ہوگی۔ اور جتنی سمجھ زیادہ ہوگی اتنا علم نصیب ہوگا اور جس قدر علم زیادہ ہو گا نیک اعمال بھی بڑھیں گے۔
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ اللہ عز وجل کے ذکر میں زبان کا چلانا بہت اچھا ہے۔ اور خدا کی نعمتوں میں غور و فکر کرنا افضل عبادت ہے۔ حضرت مغیث اسود رحمۃ اللہ علیہ مجلس میں بیٹھے ہوئے فرماتے تھے کہ لوگو! قبرستان ہر روز جایا کرو تاکہ تمہیں انجام کا خیال پیدا ہو۔ پھر اپنے دل میں اس منظر کو حاضر کرو کہ تم خدا کے سامنے کھڑے ہو۔ پھر ایک جماعت کو جہنم میں لے جانے کا حکم ہوتا ہے اور ایک جماعت جنت میں جاتی ہے اپنے دلوں کو اس پر متوجہ کرو اور اپنے بدن کو بھی وہیں حاضر جان لو۔ جہنم کو اپنے سامنے دیکھو۔ اس کے ہتھوڑوں کو اس کی آگ کے قید خانوں کو اپنے سامنے لاؤ۔ اتنا فرماتے ہی دھاڑیں مار مار کر رونے لگتے یہاں تک کہ بیہوش ہو جاتے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نہ کھنڈرات پر جاتے اور کسی ٹوٹے پھوٹے دروازہ پر کھڑے ہو کر نہایت حسرت و افسوس کے ساتھ آواز دیتے اور فرماتے اے اجڑے ہوئے گھرو! تمہارے رہنے والے کہاں گئے؟ پھر خود ہی فرماتے سب زیر زمین چلے گئے۔ سب فنا کا جام پی چکئے۔ صرف ذات خدا کو ہمیشگی والی بقاء ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد ہے دو رکعتیں جو دل بستگی کے ساتھ ادا کی جائیں اس تمام نماز سے افضل ہیں جس میں ساری رات گزار دی۔ لیکن دلچسپی نہ تھی۔ خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اے ابن آدم! اپنے پیٹ کے تیسرے حصے میں کھا، تیسرے حصے میں پانی پی۔ تیسرا حصہ ان سانسوں کیلئے چھوڑ جس میں تو آخرت کی باتوں پر اپنے انجام پر اور اپنے اعمال پر غور و فکر کر سکے۔ بعض حکیموں کا قول ہے جو شخص دنیا کی چیزوں پر بغیر عبرت حاصل کئے نظر ڈالتا ہے۔ اس غفلت کے اندازے سے اس کی دلی آنکھ کمزور پڑ جاتی ہے۔
حضرت بشیر بن حارث حالی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ اگر لوگ خدائے تعالی کی عظمت کا خیال کرتے تو ہرگز ان سے نافرمانیاں نہ ہوتیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ اے ابن آدم! علیہ السلام۔ اے ضعیف الناس! جہاں کہیں تو ہو اللہ سے ڈرتا رہ۔ دنیا میں عاجزی اور مسکینی کے ساتھ رہ۔ اپنا گھر مسجدوں کو بنا لے۔ اپنی آنکھوں کو رونا سکھا اپنے جسم کو صبر کی عادت سکھا۔ اپنے دل کو غور و فکر کرنے والا بنا۔ کل کی روزی کی نظر آج نہ کر۔ امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ مجلس میں بیٹھ کر رونے لگئے لوگوں نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا۔ دنیا میں اور اُس کی لذتوں میں اور اس کی خواہشوں میں غور و فکر کیا اور عبرت حاصل کی۔ جب نتیجہ پر پہنچا تو میری امنگیں ختم ہو گئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص کے لئے اس میں عبرت و نصیحت ہے اور وعظ و پند ہے۔
پس اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی تعریف بیان کی جو مخلوقات اور کائنات سے عبرت حاصل کریں اور نصیحت ہیں اور ان لوگوں کی مذمت بیان کی جو قدرت کی نشانیوں پر غور نہ کریں۔ مومنوں کی مدح میں بیان فرمایا ہے کہ یہ لوگ اٹھتے بیٹھتے، لیٹے خدا کا ذکر کرتے ہیں زمین و آسمان کی پیدائش میں غور کرتے ہیں۔ کہ خدایا تو نے اس خلق کو عبث اور بیکار نہیں پیدا کیا بلکہ حق کے ساتھ پیدا کیا ہے تاکہ بروں کو برائی کا بدلہ اور نیکوں کو نیکیوں کا بدلہ عطا فرمائے۔
﴿ وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ؕ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ اَنَابَۖۚ۝۲۷
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ ؕ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُؕ۝۲۸ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ طُوْبٰی لَهُمْ وَ حُسْنُ مَاٰبٍ۝۲۹﴾ (رعد: (28-29)
’’جو لوگ ایمان لائے اُن کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک کام بھی کئے اُن کے لئے خوشخبری ہے اور بہترین ٹھکانہ ہے۔‘‘
یہ بالکل صحیح ہے کہ ہر انسان کو فطری طور پر ایک ایسی ٹھنڈی چھاؤں کی تلاش ہوتی ہے جس کے نیچے اطمینان کی زندگی بسر کر سکتے اس کے حاصل کرنے کے لئے اُسے بڑی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ رہنے سہنے کے لئے مکان تعمیر کرتا ہے اور اپنے جسم کو آرام پہنچانے کے لئے غلام رکھتا ہے اور عمدہ سے عمدہ کپڑا بنواتا ہے اور تفریح گاہوں میں جا کر دل کو سکون پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور تجارت و زراعت بلکہ ملک گیری وغیره اسی لئے کرتا ہے کہ آرام کی زندگی حاصل کر سکے۔ اس آرام کا نام سکون قلب اور اطمینان قلب ہے۔ لیکن ظاہری ان تمام عیش و عشرت کے سامان ہونے کے باوجود صیح اطمینان اور سکون قلب حاصل نہیں ہوتا اور نہ دل کو خوشی اور راحت ملتی ہے۔ شاہی محلوں میں رہنے اور عمدہ عمدہ غذاؤں کے کھانے کے باوجود اور بیوی بچوں کے ساتھ رہنے کے باوجود اطمینان قلب حاصل نہیں ہوتا۔ بلکہ دنیا کی ہر چیز سے قلق، اضطراب اور بے چینی بڑھتی رہتی ہے۔ صیح سکون اور اطمینان قلب تو ذکر الہی سے ہوتا ہے۔ جب کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ﴾
’’کہ صرف ذکر الہی سے دلوں میں اطمینان پیدا ہوتا ہے۔‘‘
کیونکہ ذکر الہی کرنے والے دراصل زندہ ہیں اور جو خدا کو نہیں یاد کرتے وہ مردے ہیں۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(مَثَلُ الَّذِي يَذْكُرُ رَبَّهُ وَالَّذِي لَا يَذْكُرُ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَيِّتِ)[1]
’’جو شخص اپنے رب کو یاد کرتا ہے اس کی مثال زندے کی سی ہے اور جو شخص اپنے رب کو یاد نہیں کرتا ہے اسکی مثال مردے کی سی ہے۔‘‘
آپ ﷺ نے اس شخص کو زندہ فرمایا جو اللہ تعالی کی یاد میں مشغول رہتا ہے۔ اس زندہ سے مراد زندہ دلی ہے جسے حقیقی اور دائمی زندگی سے سرفراز کیا جاتا ہے۔ پس ابدی حیات ذکر الہی اور یاد خداہی سے حاصل ہوتی ہے۔ جس شخص کا دل ذکر الہی سے یکسر خالی ہوگا وہ زندہ تو ہے لیکن اُس کا دل مردہ ہے اس لئے کہ اس کے اندر اس چیز کا بالکل فقدان ہے جو دلوں کو زندگی بخشتی ہے۔
در حقیقت انسان کی تمام مخلوقات پر افضلیت اور اشرفیت محض اس اعتبار سے ہے کہ اس کے اندر معرفت الہی کی استعداد اور قابلیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ یہ امتیاز اسے اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب وہ اپنی اس استعداد اور صلاحیت کو کام میں لائے اس کے بغیر اس کی روح بہیمیت کی آلائشوں میں پھنس کر بالکل مردہ ہو جائے گی جس کے نتیجے میں وہ مقام بلند سے گر کر جانوروں کی طرح زوال اور انحطاط کی آخری حد کو پہنچنے والوں میں سے ہو جائے گا۔ ذکر الہی سے دلوں کے اندر زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور اس سے اطمینان خاطر اور سکون قلب حاصل ہو جاتا ہے۔ اس لئے ذکر الہی کرنے والے مجاہدوں اور دیگر عبادت گذاروں سے افضل ہیں۔ رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام کو مخاطب کر کے فرمایا:
(أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرِ أَعْمَالِكُمْ وَأَزْكٰهَا عِنْدَ مَلِيْكِكُمْ وَأَرْفَعِهَا فِي دَرَجَاتِكُمْ وَ خَيْرٍ لَّكُمْ مِنْ إِنْفَاقِ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ وَخَيْرٍ لَّكُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّكُمْ فَتَضْرِبُوْا أَعْنَاقَهُمْ وَيَضْرِبُوْا اعْنَاقَكُمْ قَالُوْا بَلٰى قَالَ ذِكْرُ اللَّهِ)[2]
’’کیا میں تمہیں تمہارے ان عملوں کو نہ بتاؤں جو تمہارے سب عملوں سے بہتر ہیں اور تمہارے مالک خدا کے نزدیک سب سے پاکیزہ تر ہیں اور تمہارے عملوں کے درجوں میں سب عملوں سے بلند درجے والے ہیں۔ اور سونا چاندی کے خرچ کرنے سے بھی بہتر ہیں۔ اور اس سے بھی بہتر ہیں کہ تم اپنے دشمن سے ملو اور تم ان کی گردنوں کو مارو اور وہ تمہاری گردنیں ماریں۔ یعنی جہاد فی سبیل اللہ سے بھی بہتر ہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا ہاں فرمائیے۔ آپﷺ نے فرمایا: یاد الہی یعنی ذکر الہی سب عملوں سے حتی کہ جہاد سے بھی افضل ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الدعوات باب فضل ذكر الله عز و حل (6407)
[2] مسند احمد: (447/6) ترمذي، كتاب الدعوات، باب ما جاء في القوم يجلسون فيذكرون: ( 225/4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غور کیجئے جب انسان چاروں طرف پھیلے ہوئے آثار قدرت اور خود اپنے اندر خدا کی رحمت و نعمت اس کی کرم فرمائیوں، کرشمہ سازیوں اور توازشوں کا بنظر غائر مشاہدہ کرتا ہے تو اس وقت اس کا دل جذبات شکر سے لبریز ہو جاتا ہے۔ وجد و کیفیت میں آ کر خدا کی حمد و ثناء کا دلفریب ترانہ گانا چاہتا ہے۔ چہچہاتی ہوئی تھی چڑیوں کے سامنے تقدیس الہی کے نغمے میں ڈوب جانا چاہتا ہے۔ خدا ہی کے راگ اور اس کے نغمے الاپنا چاہتا ہے۔ کائنات عالم کے پتے پتے کونے کونے اور ذرے ذرے کے ساتھ بیٹھ کر اللہ تعالی کی تحمید اور تسجید اور تسبیح سے معمور ہونا چاہتا ہے۔ انسان کی اس زبردست فطری خواہش (جس کی تکمیل اسے دنیا وآخرت میں مقام بلند سے سرفراز کرتی ہے) کو محسوس کرتے ہوئے اللہ تعالی نے انسان کی اپنی زبان میں کلمات شکر ادا کرنے اور خدا کی حمد و ثنا اور تسبیح و تقدیس میں نغمہ ریز ہونے کے لئے نغمہ جاں فزا یعنی سورۂ فاتحہ نازل فرمائی تاکہ انسان اپنی اس فطری تڑپ کو اس نغمہ کے ذریعے پورا کر سکے جو اس کے اندر سے امنڈتی ہے اور ایک سکون اور اطمینان قلب حاصل کرے۔
مذکورہ بالا تمہید سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ ساری کائنات کی بنیاد شکر پر ہے۔ دوسری یہ کہ انسان کو شکر ادا کرنے کے لئے سورہ فاتحہ مرحمت فرمائی گئی یہ سورہ ہر نماز کی ہر رکعت کے اندر ایک دفعہ پڑھی جاتی ہے۔ اس لئے یہ نماز کی اصل اور اس کی روح ہوئی۔ اور یہ معلوم ہے کہ سورہ فاتحہ سراپا شکر ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(قَالَ الله تَعَالَى قَسَمْتُ الصَّلٰوةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ قَالَ اللهُ تَعَالَى حَمِدَنِي عَبْدِي وَإِذَا قَالَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ قَالَ اللهُ تَعَالَى اثْنٰي عَلَىَّ عَبْدِى وَإِذَا قَالَ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنَ قَالَ مَجَّدَنِي عَبْدِى وَإِذَا قَالَ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ قَالَ هَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّيْنَ قَالَ هٰذَا لِعَبْدِيْ وَلِعَبْدِيْ مَا سَأَلَ)[1]
’’اللہ تعالی نے فرمایا کہ میں نے سورہ فاتحہ کو آدھا آدھا اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان تقسیم کر دیا ہے۔ جب بندہ یہ کہتا ہے ﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ۝۱﴾ الله تعالی فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعریف کی۔ اور جب یہ کہتا ہے ﴿ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ۝۲﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسلم: كتاب الصلٰوة، باب وجوب قراءة الفاتحة في كل ركعة (270/1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بندے نے میری ثناء اور خوبی بیان کی۔ اور جب ﴿ مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ۝۳﴾ کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری عظمت بیان کی۔ اور جب ﴿ اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ۝۴﴾ کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے کہ یہ میرے اور بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لئے ہے جو تجھ سے مانگے اور طلب کرے۔ اور جب ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ﴾ سے اخیر تک پڑھتا تو اللہ تعالی فرماتا ہے۔ یہ میرے بندے کیلئے ہے۔ اور میرے بندے کیلئے ہے جو وہ مانگے ۔‘‘
فضائل قرآن مجید کے خطبہ میں ہم نے فضائل قرآن کو بیان کر دیا ہے قرآن مجید کی تلاوت سب ذکروں سے بہترین ذکر الہی ہے۔ اس کے بعد نماز اور جملہ ارکان واذکار اسکے افضل ذکر ہیں اس کی پوری تفصیل نماز کے خطبہ میں ہم بیان کر چکے ہیں۔
اللہ تعالی فرماتا ہے
﴿إِنَّنِي أَنَا اللهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ﴾ (سورة طه: 14)
’’بے شک میں ہی اللہ ہوں لائق عبادت، میرے سوا اور کوئی معبود نہیں تم میری عبادت کرتے رہو، اور میری یاد کے لئے نماز پڑھتے رہو۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(يَقُولُ اللهُ تَعَالٰى ا!نَا عِنْدَ عَنِ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَاء ذَكَرْتُهُ فِي مَلَاء خَيْرٍ مِّنْهُمْ)[1]
’’اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے نزدیک ہوں۔ یعنی میرا بندہ جیسا میرے ساتھ لگان کرے گا میں ان کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کروں گا۔ جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر اس نے مجھے اپنے دل میں یاد کیا ہے تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یاد رکھتا ہوں۔ اور اگر اس نے مجھے کسی جماعت میں یاد کیا ہے تو میں اس کو ایسی جماعت میں یاد رکھتا ہوں جو ان سے بہتر ہے۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ اگر میرا بندہ میرے ساتھ مغفرت اور بخشش کی امید رکھتا ہے تو اس کے خیال کے مطابق معاملہ کروں گا اور اسے بخش دوں گا۔ اس لئے اللہ تعالی کے ساتھ ہمیشہ حسن ظن رکھنا چاہئے۔ اور یہ حسن ظن حسن عمل کی وجہ سے ہے۔ خدا کی رحمتوں کی امید ہو اور اُس کے عذابوں سے ڈرتے رہنا چاہیئے۔ نہ اس کی رحمتوں سے مایوس ہو نہ عذابوں سے نڈر ہو ایمان کے لئے خوف ورجا دونوں ضروری ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی کے کچھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب التوحيد، باب قول الله تعالى و يحذركم الله في نفسه۔ (7405)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے فرشتے ہیں جو رات دن راستوں اور گلی کوچوں میں پھرتے رہتے ہیں۔ اور ذکر کرنے والوں کو تلاش کرتے رہتے ہیں تو جہاں کہیں ذکر الہی کی مجلس کو پاتے ہیں کہ وہاں کے لوگ اللہ کو یاد کر رہے ہیں تو وہ فرشتے دوسرے فرشتوں کو آواز دے کر بلاتے ہیں کہ تم اپنے مقصد اور حاجت کی طرف آ جاؤ۔ تمہارا مطلب یہاں حاصل ہو گیا کہ اللہ کو یاد کرنے والے لوگ یہاں موجود ہیں۔ تم بھی ذکر الہی سننے کے لئے آ جاؤ فرشتے وہاں جمع ہو کر دنیا سے آسمان تک ان کے گرد منڈلاتے ہیں اور ان کو گھیرے رہتے ہیں (جب یہ فرشتے اللہ کے پاس جاتے ہیں) تو ان کا پروردگار ان سے دریافت کرتا ہے حالانکہ وہ اُن سے زیادہ جانتا ہے کہ میرے بندے دنیا میں کیا کر رہے ہیں۔ تو یہ فرشتے عرض کرتے ہیں خدایا دہ تیری تعریف تسبیح، تکبیر تحمید تمجید بیان کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان بندوں نے مجھے دیکھا ہے؟ تو وہ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ تیری ذات کی قسم! اب تک انہوں نے آپ کو نہیں دیکھا ہے۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے کہ اگر وہ بندے مجھے دیکھ لیتے تو کیا ہوتا۔ تو وہ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اگر وہ آپ کو دیکھ لیتے تو اُس سے بھی کہیں زیادہ تیری عبادت کرتے اور بہت زیادہ تیری بڑائی بیان کرتے۔ پھر اللہ تعالی اُن سے دریافت فرماتا ہے: اچھا تم یہ بتاؤ کہ وہ مجھ سے کیا مانگ رہے تھے؟ تو فرشتے جواب میں عرض کرتے ہیں کہ جنت کا سوال کرتے ہیں کہ اے خدایا! تو ہمیں جنت دے۔ تو اللہ تعالی فرماتا ہے کیا ان لوگوں نے جنت دیکھی ہے؟ تو فرشتے جواب دیتے ہیں کہ خدایا! تیری قسم اب تک انہوں نے جنت نہیں دیکھی ہے۔ پھر اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اگر وہ جنت دیکھ لیں تو کیا کہیں گے تو فرشتے جواب میں کہتے ہیں کہ اگر وہ جنت دیکھ لیتے تب تو اس کو حاصل کرنے کے لئے اس سے بھی زیادہ حرص کرتے اور اسکے طلب کرنے کی کوشش کرتے اور رات دن اس کی رغبت اور شوق میں مصروف رہتے پھر اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تم یہ بتاؤ کہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہے؟ فرشتے جواب میں عرض کرتے ہیں کہ وہ جہنم سے تیری پناد مانگتے ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کیا ان لوگوں نے جنم دیکھی ہے؟ تو یہ فرشتے جواب میں کہتے ہیں کہ خدا کی قسم نہیں دیکھی ہے۔ اللہ تعالی ان سے فرماتا ہے اگر وہ جہنم کو دیکھ لیتے تو ان کی کیا کیفیت ہوتی۔ تو یہ فرشتے جواب میں عرض کرتے ہیں کہ اگر یہ لوگ جہنم کو دیکھ لیتے تو بہت زیادہ اس سے بھاگتے اور بہت زیادہ اس سے ڈرتے رہتے۔ اللہ تعالی یہ سب کچھ سن کر ارشاد فرماتا ہے کہ اے فرشتو! میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان ذکر کرنے والوں کو بخش دیا۔ ایک فرشتہ ان میں سے عرض کرتا ہے اے پروردگار! ان ذکر کرنے والے بندوں میں سے ایک بندہ کسی کام کے لئے جارہا تھا کہ وہاں آ کر شامل ہو گیا۔ لیکن ان لوگوں میں سے نہیں تھا تو اللہ تعالی فرماتا ہے کہ وہ بھی ان کے پاس بیٹھنے والوں میں سے ہے۔ اور قوم کے ساتھ بیٹھنے والا بدنصیب اور محروم نہیں رہتا ہے۔ میں نے اس کو بھی بخش دیا ہے۔[1]
اس حدیث سے ذکر الہی کرنے والوں کی اور مجالس ذکر کی بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور
بدان را به نیکاں بہ بخشد کریم!
کا مصداق ہے۔ کہ نیکوں کی برکت سے اور اُن کی صحبت سے گنہگار بھی بخش دیئے جاتے ہیں۔ رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام رضون اللہ علیہم اجمعین بھی اُٹھنے بیٹھنے والے تھے یقینًا وہ سب بخشے گئے۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی صحبت اٹھانے والے بھی اور دیگر صلحا، اور اولیاء کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے لوگ اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے بھی بخشے جائیں گے۔ جو ان سے محبت رکھے گا انہی لوگوں میں شمار ہوگا۔
أحِبُّ الصَّالِحِيْنَ وَلَسْتُ مِنْهُمْ لَعَلَّ اللهَ يَرْزُقُنِی صَلَاحًا
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(لَا يَقْعُدُ قَوْمٌ يَّذْكُرُوْنَ اللهَ إِلَّا حَفَّتْهُمُ الْمَلٰئِكَةُ وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَنَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِيْنَةٌ وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ)[2]
’’جو لوگ ذکر الہی کے لئے جہاں کہیں بیٹھ جاتے ہیں تو فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور رحمت خداوندی ان پر چھا جاتی ہے اور سکون اور اطمینان ان پر نازل ہوتا ہے اللہ تعالی اُن کا ذکر اپنے پاس والے فرشتوں سے کرتا ہے۔‘‘
اور فرمایا: جو لوگ مجلس سے بلا ذکر الہی کئے چلے جاتے ہیں۔ وہ قیامت کے روز ندامت اٹھائیں گے۔[3]
اور فرمایا جوصبح کی نماز پڑھ کر سورج نکلنے تک ذکر الہی کرتا ہے اس کو بنی اسماعیل کے چار غلاموں کے آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے اور جو عصر کی نماز پڑھ کر غروب آفتاب تک یاد الہی میں مصروف رہے گا اس کو بھی چار غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔[4]
حضرت یحیی علیہ السلام نے فرمایا کہ ذکر الہی کرنے والا اپنے کو محفوظ قلعہ میں داخل کر لیتا ہے۔ شیطان اس کو گمراہ نہیں کر سکتا۔(5)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الدعوات، باب فضل ذكر الله تعالى (6408)
[2] مسلم: كتاب الذكر، باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن.
[3] مسند احمد: 515/2، ابو داود: كتاب الادب، باب كراهية ان يقوم الرجل من مجلسه ولا يذكرالله (414/4)
[4] ابو داؤد: كتاب العلم باب في القصص(3661)
[5] ترمذي: كتاب الامثال، باب ما جاء في مثل الصلٰوة و الصيام و الصدقة( 38/4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبدالله بن بسر بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ اسلام کے بہت سے احکام مجھ پر غالب ہو گئے ہیں جن کے کرنے سے میں عاجز ہوں۔ آپ کوئی ایسا حکم آسمان بتا دیجئے کہ میں اس کو کر سکوں۔ اور میرے لئے کافی ہو جائے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم ہمیشہ اپنی زبان کو ذکر الہی سے تر رکھو۔ یعنی ذکر الہی کرتے رہو۔‘‘[ترمذي: كتاب الدعوات، باب ماجاء في فضل الذكر (224/4)]
حضرت عبد الله بن بسر بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے سوال کیا:
(فَقَالَ اَىُّ النَّاسِ خَيْرٌ فَقَالَ طُوبَى لِمَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَحَسُنَ عَمَلُهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أىُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ قَالَ أَنْ تُفَارِقَ الدُّنْيَا وَلِسَانُكَ رَطْبٌ مِّنْ ذِكْرِ اللَّهِ)[ترمذي: كتاب الدعوات، باب ماجاء في فضل الذكر (224/4)]
’’سب سے اچھا کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: جس کی عمر لمبی ہوگئی اور اس کا عمل اچھا رہا تو اس کے لئے خوشخبری اور بہتری ہے۔ پھر اس نے کہا: یا رسول اللہﷺ سب عملوں میں سے کون سا عمل بہتر ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تو دنیا سے اس حال میں رخصت ہو کہ تیری زبان ذکر الہی سے تر ہو۔‘‘
یعنی مرتے دم تک ذکر الہی میں مشغول ہوا اور کبھی زبان اس ذکر سے خشک نہ ہونے پائے تو یہ ذکر الہی سب سے بہتر عمل ہے۔
﴿مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠۝۴۰
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًاۙ۝۴۱ وَّ سَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا﴾ (سورة احزاب: 41 – 42)
’’مسلمانو! اللہ تعالی کا ذکر بہت زیادہ کرتے رہو۔ اور صبح و شام اس کی پاکیزگی بیان کرو۔‘‘
اور اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ۝۲۰۵﴾ (اعراف: 205)
’’اے نبیﷺ! تم اپنے رب کو یاد کرو صبح و شام تضرع وزاری اور پوشیدہ طور سے اور غفلت کرنے والوں میں سے مت ہو۔‘‘
صبح و شام کی خصوصیت اس لئے کی گئی ہے کہ اس وقت عموما زیادہ فضلت ہوتی ہے اسلئے اس وقت یاد کرنے کی بڑی فضیلت ہے۔ ذکر اللہ کے چار درجے ہیں۔
1۔ صرف زبان سے ذکر ہو، دل سے غافل ہو، اس کا بہت ہی کم اثر ہوتا ہے مگر بیہودہ گوئی سے تو لاکھ ذکر درجہ بہتر ہے۔
2۔ قلبی ہو، مگر یہ ذکر دل میں قرار نہ پکڑے۔ بہت مشکلوں سے وہ ذکر پر آمادہ ہوتا ہے۔
3۔ ذکر دل میں جم گیا اور کاموں کی طرف اس کا دل نہیں لگتا۔
4۔ ذکر کرتے کرتے اللہ تعالیٰ کی محبت و خیال میں بس گیا۔ اور ذکر قلبی کے ساتھ تمام اعضاء بلکہ اس کے ذکر کی وجہ سے تمام چیزیں ذکر الہی میں مصروف ہو جاتی ہیں۔
یہ ذکر کا آخری درجہ ہے یہاں پہنچ کر مشاہدہ اور مکاشفہ ہوتا ہے۔ دل صاف ہو کر سورج کی طرح چمکنے لگتا ہے۔
﴿قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكّٰهَا﴾ (الشمس:9)
’’جس نے نفس کو صاف کر لیا وہ مراد کو پہنچ گیا۔‘‘
ذکر الہی کے دینی و دنیاوی بہت سے فائدے ہیں۔ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’الوابل الصيب‘‘ میں ان کو نہایت تفصیل سے بیان فرمایا ہے جو قابل علم و عمل ہے۔ مضمون کی طوالت کے خوف سے یہاں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
جو لوگ ذکر الہی نہیں کرتے وہ خدا کو بھولے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا وَّ نَحْشُرُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰی۝۱۲۴ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْۤ اَعْمٰی وَ قَدْ كُنْتُ بَصِیْرًا۝۱۲۵ قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَهَا ۚ وَ كَذٰلِكَ الْیَوْمَ تُنْسٰی۝۱۲۶﴾ (سوره طه: 174 – 176)
’’ہاں جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی۔ اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کر کے اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا: خدایا تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا۔ حالانکہ میں تو دیکھتا بھالتا تھا۔ جواب ملے گا اسی طرح سے ہونا چاہئے تھا۔ تو نے میری آئی ہوئی آیتوں سے غفلت برتی، آج تیری بھی مطلقًا خبر نہ لی جائے گی۔‘‘
جو آدمی اللہ کی یاد سے غافل ہو کر محض دنیا کی فانی زندگی ہی کو قبلہ مقصود سمجھ بیٹھا ہے۔ اس کی گذران مکدر اور تنگ کر دی جاتی ہے۔ گو دیکھنے میں اس کے پاس بہت کچھ مال اور دولت اور سامان عیش و عشرت نظر آتے ہیں۔ مگر اس کا دل قناعت اور توکل سے خالی ہونے کی بناء پر ہر وقت دنیا کی مزید حرص ترقی کی فکر اور کمی کے اندیشہ میں بے آرام رہتا ہے۔ کسی وقت ننانوے کے پھیر سے قدم باہر نہیں لگتا۔ موت کا یقین اور زوال دولت کے خطرات الگ سوہان روح رہتے ہیں۔ اکثر دیکھ لیجئے کسی کو رات دن میں دو گھنٹے اور کسی خوش قسمت کو چار پانچ گھنٹے سونا نصیب ہوتا ہے۔ بڑے بڑے کروڑ پتی دنیا کے مخمصوں میں آکر موت کو زندگی پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس قسم کی خودکشی کی بہت سی مثالیں پائی گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں قلبی سکون اور حقیقی اطمینان کسی کو بغیر یاد الہی کے حاصل نہیں ہو سکتا۔ ﴿اَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ﴾ بعض مفسرین نے معیشة ضنكا کا مطلب یہ بیان کیا۔ وہ زندگی جس میں خیر داخل نہ ہو سکے۔
گویا خیر کو اپنے اندر لینے سے تنگ ہوگئی۔ ظاہر ہے کہ کافر جو دنیا کے نشہ میں بدمست ہے۔ اُس کا سارا مال و دولت اور سامان عیش و تنعلم آخر کار اسی کے حق میں وبال بننے والا ہے۔ جس خوشحالی کا انجام چند روز کے بعد دائمی تباہی ہوا سے خوشحالی کہنا کہاں زیبا ہے۔ بعض مفسرین نے معيشة ضنكا سے قبر کی برزخی زندگی مراد لی ہے یعنی قبر تنگ اور تاریک ہے۔ وہاں اس طرح دبوچا جائے گا کہ دائیں کی پسلیاں بائیں اور بائیں طرف کی دائیں میں گھس جائیں گی۔
اس آیت کے شان نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے ذکر سے پھرنے والوں کی معیشت تنگ ہے اس سے مراد کافر کے لئے قبر میں اس پر عذاب ہے اس پر اژدھے مقرر کئے جاتے ہیں۔ جو اسے قیامت تک ڈستے رہتے ہیں۔
ایک عمدہ سند سے بھی مروی ہے کہ اس سے مراد عذاب قبر ہے۔ یہ قیامت کے دن اندھا بنا کر اٹھایا جائے گا۔ سوائے جہنم کے اُسے کوئی چیز نظر نہ آئے گی۔ نابینا ہو گا اور میدان حشر کی طرف چلایا جائے گا اور جہنم کے سامنے کھڑا کر دیا جائے گا جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
﴿وَ نَحْشُرُهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَلٰی وُجُوْهِهِمْ عُمْیًا وَّ بُكْمًا وَّ صُمًّا ؕ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ؕ ﴾ (بنی اسرائیل:97)
’’یعنی ہم انہیں قیامت کے دن اوندھے منہ اندھے گونگے بہرے بنا کر حشر میں لے جائیں
گے۔ اُن کا اصلی ٹھکانہ دوزخ ہے۔‘‘
یہ کہے گا کہ میں دنیا میں آنکھوں والا تھا۔ خوب دیکھتا بھالتا تھا۔ پھر مجھے اندھا کیوں کر دیا گیا ؟ جواب ملے گا یہ بدلہ ہے خدا کی آیتوں سے منہ موڑ لینے کا۔ تو ایسے ہوگیا تھا گویا خبر ہی نہیں۔ بس آج ہم بھی تیرے ساتھ ایسا ہی معاملہ کریں گے جیسے کہ تو ہماری یاد سے اتر گیا۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿فَالْيَوْمَ نَنْسٰهُمْ كَمَا نَسُوْا لِقَآءَ يَوْمِهِمْ هٰذَا﴾ (اعراف:51)
’’آج ہم انہیں ٹھیک اسی طرح بھلا دیں گے جیسے کہ انہوں نے آج کے دن کی ملاقات کو بھلا دیا تھا۔‘‘
بس یہ برابر کا عمل کی طرح بدلہ ہے۔ سورہ زخرف میں اللہ تعالی نے ذکر الہی سے غفلت کرنے والوں کے بارے میں یہ فرمایا ہے:
﴿وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ۝۳۶﴾ (زخرف: 36)
’’اور جو شخص خدا کی یاد سے غفلت کرلے، ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رہتا ہے۔‘‘
یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غفلت اور بے رغبتی کرے اُس پر شیطان قابو پالیتا ہے اور اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔ حضرت سعید جریری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کافر کے اپنی قبر سے اٹھتے ہی شیطان اس کے ہاتھ سے ہاتھ ملا لیتا ہے پھر جدا نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ جہنم میں بھی دونوں کو ساتھ ڈالا جاتا ہے۔ پھر فرماتا ہے جہنم میں تم سب کا جمع ہونا اور وہاں کے عذابوں میں سب کا شریک ہونا تمہارے لئے نفع دینے والا نہیں۔ ذکر الہی کرنے والے قیامت کے روز موتیوں کے منبر پر ہوں گے۔ اور ان کے چہرے چاند کی طرح چمکتے ہوں گے۔
اللہ تعالی نے بھی رسول اللہﷺ کو ذکر الہی کی مجلسوں میں شریک ہونے کا حکم دیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
﴿وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ ﴾ (الكهف: 28)
’’آپ ان لوگوں کے پاس تشریف لے جایا کیجئے۔ اور ان کے پاس اٹھتے بیٹھتے رہئے جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے رہتے ہیں۔ اور ذکر الہی میں مصروف رہتے ہیں۔‘‘
ذکر الہی کے بہت سے الفاظ اور طریقے ہیں۔ بعض دعاؤں اور کلمات کو ذکر کر کے آپ حضرات کے سامنے بیان کر رہا ہوں، سنئے اور عمل کرنے کی کوشش کیجئے۔
1۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب ذکروں سے بہتر ذکر لا إِلهَ إِلَّا الله ہے۔
آپﷺ نے فرمایا: جو (أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللَّهِ) کہے گا اس پر دوزخ حرام ہو جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذي: كتاب الدعوات، باب ما جاء أن دعوة المسلم مستجابة (227/4)
[2] بخاري: كتاب العلم، باب من خص بالعلم قوما دون قوم كراهية ان لا يفهموا (128)۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور فرمایا جو (أَشْهَدُ أَن لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ وَابْنُ اَمَتِهِ وَكَلِمَتُهُ اَلْقٰهَا إِلٰى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ وَأَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ)
کہے گا، اللہ اس کو ضرور جنت میں داخل کرے گا اور جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے۔[1]
اور کلمہ کی فضیلت ہم نے کلمہ طیبہ کے خطبہ میں نہایت تفصیل سے بیان کر دی ہے۔
تسبیحات کی فضیلت
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ ہر روز سو بار سبحان الله وبحمدہ کہنے سے سب گناہ معاف ہو
جاتے ہیں۔[2]
اور رسول اللہﷺ نے خصوصیت سے عورتوں کے واسطے فرمایا تم انگلیوں پر سُبحان الله اور لا إلٰه إِلَّا الله اور سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوس کثرت سے پڑھا کرو کیونکہ قیامت کے روز یہ کلمات گواہی دیں گے۔[3]
اور آپ ﷺ (سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضٰى نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهٖ) کو کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔[4]
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص وضو کر کے یہ دعاء پڑھا کرے اُس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل وہ جائے۔[5]
دعاء یہ ہے:
(أَشْهَدُ أَن لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِيْنَ وَاجْعَلِنِيْ مِنَ الْمُتَطَهِّرِيْنَ)
تسبیحات اور تہلیلات و تکبیرات اور دیگر ذکر الہی کے بہت سے فضائل ہیں جن کو ہم نے اسلامی وظائف میں نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس کتاب میں تقریبًا قرآن مجید کی سب دعائیں اور حدیثوں کی اکثر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب الانبياءں باب قوله يا أهل الكتاب لا تغلوا في دينكم …. (3435)
[2] بخاري: كتاب الدعوات، باب فضل التسبيح (6405)
[3] ابو داود: كتاب الصلٰوة، باب التسيح بالحصى (556/1)
[4] مسلم: كتاب الذكر، باب التسبيح أول النهار و عند النوم.
[5] مسلم: كتاب الطهارة، باب الذكر المستحب عقب الوضوء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعائیں لکھی گئی ہیں۔ اس کے مطالعہ کی سخت ضرورت ہے۔ اگر ان تمام وظائف کو بیان کیا جائے تو خطبہ بہت لمبا ہو جاتا ہے۔ مختصر یہی ہے کہ بندہ ہر وقت ذکر الہی میں لگا رہے۔ پنج وقتہ نمازوں کے بعد بھی جو مخصوص دعائیں ہیں جنکے پڑھنے سے بہت ثواب ہے۔ اور صبح و شام اور رات و دن کی بھی مخصوص دعائیں ہیں۔ جنکے پڑھنے سے بہت نیکیاں ملتی ہیں۔ خدا خوش ہو جاتا ہے اور جنت میں داخل ہونے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
مختصر دعائیں بیان کی جاتی ہیں ﴿لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحٰنَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ﴾ پڑھنے سے بڑا فائدہ ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ یہ حکم دیا ہے کہ ﴿وَ قُلْ رَّبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَمْ وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ۠۝۱۱۸﴾ یعنی آپﷺ (رَبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَمْ وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ۠۝۱۱۸ پڑھا کیجئے۔
فجر کی نماز کے بعد وظیفہ اور ذکر الہی کے لئے اچھا وقت ہے۔ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں جس نے فجر کی نماز جماعت سے پڑھی پھر بیٹھ کر یاد الہی کرتا رہا یہاں تک کہ آفتاب نکل آیا پھر دو رکعت نماز پڑھی تو اس کو پورے حج و عمرہ کا ثواب ملے گا۔[1]
اور فرمایا فجر کی نماز سے سورج نکلنے تک بیٹھ کر ذکر الہی کرنا بہتر ہے چار اسماعیلی غلام آزاد کرنے سے۔[2]
اور فرمایا جس نے سو دفعہ (لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيْكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْ ءٍ قَدِيْر) پڑھ لیا تو اس کے لئے دیس غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھا جائے گا اور سونیکیاں لکھی جائیں گی اور سوگناہ معاف ہوں گے۔ اور اس دن شام تک شیطان کے شر و فساد سے بچا لیا جائے گا۔ اس سے زیادہ ثواب صرف اس شخص کا ہوگا جس نے اس سے زیادہ پڑھا۔[3]
دعاء اسم اعظم
حدیثوں میں اسم اعظم کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جو اسم اعظم کے ساتھ دعا کرے گا تو اللہ تعالی اس کی دعاء قبول فرمائے گا۔[4]
ایک شخص کو ’’اللهم اني اسئلكَ‘‘ پڑھتے ہوئے سُنا تو فرمایا اس نے اسم اعظم کو پڑھا ہے اسم اعظم سے تعین میں اختلاف ہے مگر ان دعاؤں میں اسم اعظم بتایا گیا ہے اس لئے ان کو پڑھنا چاہئے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] جامع ترمذي: كتاب الصلوة، باب ما ذكر مما يستحب من الجلوس في المستجد بعد صلوة الصبح (405/1)
[2] ابو داود: كتاب العلم باب في القصص (3661)
[3] صحیح بخاري. [4] ابو داود: كتاب الصلوة، باب الدعاء: (554/1 (1489)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّكَ أَنتَ اللهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ)[1]
(اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّ لَكَ الْحَمْدُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ الْحَنَّانُ الْمَنَّانُ بَدِيْعُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ يَاذَ الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ يَاحَيُّ يَا قَيُّوْمُ أَسْأَلُكَ وَاِلٰهُكُمْ إِلٰهٌ وَّاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ- المَّ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ)[3]
(لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحٰنَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ)[4]
ذکر الہی کے اس مضمون کو ان دونوں کلموں پر ختم کرتا ہوں جن پر امام بخاری ہی نے اپنی مبارک کتاب صحیح بخاری ختم فرمائی ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(كَلِمَتَانِ حَبِيْبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيْلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهٖ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ)[5]
’’دو ایسے کلمے ہیں جو اللہ تعالی کو پسند اور پیارے ہیں زبان پر ہلکے پھلکے ہیں۔ قیامت کے روز عمل کے ترازو میں بھاری اور وزنی ہوں گے۔ وہ دو کلمے یہ ہیں۔ (سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِ)
سبحان اللہ یہ اللہ تعالی کی بڑی مہربانی و احسان و کرم ہے کہ معمولی معمولی نیکیوں کا بہت زیادہ تو اب دیتا ہے۔ اسلام لانے سے سب گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ اور کم از کم ہر نیکی کا دس حصہ سے لے کر سات سوتک بلکہ اس سے بھی زیادہ ثواب دیتا ہے اور بعض نیکیاں ایسی ہیں کہ بے حساب ثواب دے دیتا ہے۔ کلمہ طیبہ لا إله إلا الله کا وزن بہت بھاری ہے۔ اس کے الفاظ بہت آسان ہیں اور ثواب بے شمار ہیں۔ یہی حال ان دونوں کلموں کا ہے جو بہت آسان ہیں۔ بلا محنت و مشقت کے زبان سے ادا ہو جاتے ہیں۔ اور ثواب کے لحاظ سے نیکیوں کے ترازو کے پلے میں سب سے زیادہ وزنی ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو اپنے ذکر کی توفیق عطا فرمائے اور (لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَسُبْحَانَ الله) پر سب کا خاتمہ کرے۔ آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: (350/5)
[2] مسند احمد 220/3، ابو داؤد: كتاب الصلوة، باب الدعاء-
[3] مسند احمد: 170/1 ، ترمذي: كتاب الدعوات (260/4)
[5] صحي بخاري: كتاب الايمان والنذور، باب اذا قال والله لا اتكلم(6682)
(رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَآرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ – رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْإِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوْبِنَا غِلًّا لِلَّذِيْنَ آمَنُوْا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُ وُفٌ رَّحِيمٌ- رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ- رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيهِ إِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ وَصَلَّى عَلَى خَيْرٍ خَلْقِهِ مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ)