فکرِ آخرت سے عمل کی توفیق ملتی ہے

﴿﴿یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا ۥ وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ۝۵﴾ (فاطر:5)
آخرت کے لئے انسان کو کیوں فکر مند ہونا چاہیے ، کتنا فکر مند ہونا چاہیے اور کیسے فکرمند ہونا چاہیے، گذشتہ خطبات میں ہم نے اس سے متعلق کچھ جاننے کی کوشش کی تھی۔
فکر آخرت کی ضرورت و اہمیت جاننے اور سمجھنے کے باوجود انسان کا دل اس طرف کیوں مائل نہیں ہوتا اور کیوں دو اس پر عمل درآمد کے لئے آمادہ نہیں ہوتا، اس کے اسباب کا بھی ذکر ہوا، مگر فکر آخرت کی حقیقت اور اس کی ضرورت واہمیت کے بارے میں کچھ مزید گفتگو کی ضرورت ہے تاکہ بات دل میں پختہ اور رائج ہو جائے، کیونکہ جس قدر اس کی حقیقت کا فہم و ادراک حاصل ہو گا اور جس قدر یقین پختہ ہو گا اسی قدر اس کے مطابق عمل کی رغبت اور آمادگی پیدا ہوگی اور اسی قدر آدمی اس مسئلے کو سنجیدہ لے گا اور اسی قدر ذمہ داری، پابندی اور ذوق و شوق سے اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرے گا۔
تو آئیے فکر آخرت کے حوالے سے چند مزید بنیادی باتیں جانتے ہیں، گذشتہ جمعے آخرت کی حقیقت سمجھ آجانے کے بعد اس سے اعراض کرنے ، اسے نظر انداز کرنے اور پس پشت ڈالنے کا طرز عمل قرآن وحدیث کی روشنی میں نہایت خطر ناک اور تکین حمل معلوم ہوا، آج اس بات کو ایک دوسرے پہلو سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس عقیدے پر ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں سے دنیا و آخرت میں عدل کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں اور ذرہ برابر کسی پر ظلم نہیں کرتے۔ اور یہ اللہ تعالی کے عدل ہی کا مظہر ہے کہ اللہ تعالی قیامت کے دن اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کرتے ہوئے اُن پر حجت تمام کے بغیر انہیں سزا کا مستحق نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور حجت یہ ہے کہ اللہ تعالی ان کے پاس انبیاء و رسل علیہم السلام کو اپنا پیغام دے کر بھیجتا ہے، چنانچہ فرمایا:
﴿وَمَا كُنَّا مُعَذِّ بَيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا﴾ (بنی اسرائیل:15)
’’ اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں، جب تک کہ ایک رسول نہ بھیج دیں۔‘‘
اور فرمایا:
﴿رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا۝۱۶۵﴾(النساء:165)
’’خوشخبریاں دینے والے اور ڈرانے والے رسول بنا کر بھیجے تا کہ ان کے مبعوث کر دینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہے اور اللہ بہر حال غالب رہنے والا اور حکیم و دانا ہے۔‘‘
چنانچہ جب تک کسی پر اللہ کی طرف سے حجت قائم نہ ہو جائے، اللہ تعالی اسے عذاب نہیں دیتے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ چار قسم کے لوگ ایسے ہیں جو قیامت کے دن اللہ کے حضور حجت قائم نہ ہونے کا عذر پیش کریں گے اور اللہ سے بڑھ کر بھلا عذر کس کو پسند ہو سکتا ہے؟ حدیث میں ہے:
((ولا أَحَدَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْعُذْرُ مِنَ اللهِ))
’’اور اللہ تعالی سے زیادہ کسی کو عذر پسند نہیں ہے۔‘‘
(( وَمِنْ أجل ذٰلِكَ بَعَثَ الْمُبَشِّرِينَ وَالْمُنْذِرِينَ (صحيح البخاري:7416)
’’اور اسی وجہ سے اللہ تعالی نے خوشخبریاں دینے والے اور ڈرانے والے بھیجے ہیں۔‘‘
تو چار قسم کے لوگ قیامت کے دن اپنا اپنا عذر پیش کریں گے، حدیث میں ہے:
((أربعة يحتجون يوم القيامة ))
’’چار قسم کے لوگ قیامت کے دن اپنا عذر پیش کریں گے ۔‘‘
(( رَجُلٌ أَصَمَّ لَا يَسْمَعُ شَيْئًا ))
’’ایک بہرا آدمی جو کچھ نہیں سن سکتا‘‘
((وَرَجُلٌ أَحْمَقٌ))
’’اور ایک پاگل شخص‘‘
((وَرَجُلٌ هَرِمٌ))
’’اور ایک بوڑھا اور عمر رسیدہ آدمی‘‘
((وَرَجُلٌ مَاتَ في فترة))
’’اور ایک وہ شخص جو وقفے کے زمانے میں فوت ہوا۔ یعنی رسولوں کی بعثت کے درمیانی عرصے میں۔‘‘
جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور نوح علیہ السلام کے درمیان ایک ہزار سال کا عرصہ ہے اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کے درمیان ہزار سال، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور موسی علیہ السلام کے درمیان بھی تقریبا ہزار سال ، حضرت موسی علیہ السلام اور عیسی علیہ السلام کے در میان پندرہ سو سال کا وقفہ اور آخر میں حضرت عیسی علیہ السلام اور آپﷺ کے درمیان چھ سو سال کا عرصہ ہے۔
((فَأَمَّا الْأَصَمُّ فَيَقُولُ: رَبِّ لَقَدْ جَاءَ الْإِسْلَامُ وَمَا أَسْمَعُ شَيْئًا))
’’بہرا کہے گا: اے میرے رب ! اسلام آیا اور میں تو کچھ سن ہی نہیں سکتا تھا۔‘‘
(( وَأَما الأَحْمَقُ فَيَقُولُ: رَبِّ لقَدْ جَاءَ الإِسْلَامُ وَالصَّبيان يخذفوني بالبعر ))
’’پاگل کہے گا: اے میرے رب ! اسلام آیا مگر میں تو پاگل تھا کہ بچے مجھے مینگنیاں مارا کرتے تھے۔‘‘
((وَأَما الهَرِمُ فَيَقُولُ: رَبِّ لَقَدْ جَاءَ الإِسْلامُ وَمَا أَعْقِلُ شَيْئًا))
’’بوڑھا کہے گا: اے میرے رب! اسلام آیا اور میں تو بڑھاپے کی وجہ سے کوئی سمجھ بوجھ ہی نہیں رکھتا تھا، یعنی خیر اور شر میں تمیز نہیں کر سکتا تھا۔‘‘
(( وأما الذي مات في الفترة فَيَقُولُ: رَبِّ مَا أَتَانِي لَكَ رسُولٌ))
’’اور وہ شخص جو رسولوں کی بعثت کے درمیانی وقفے میں فوت ہوا ہوگا وہ کہے گا اے میرے رب ! میرے پاس تو تیرا کوئی رسول ہی نہیں آیا ۔‘‘
(( فَيَأْخُذُ مَوَاثِيقَهُمْ لَيُطِيعُنَّهُ ))
’’اللہ تعالی ان سے عہد لے گا کہ وہ اُس کی اطاعت کریں گے، یعنی اگر اب رسول بھیجوں تو اطاعت کرو گےنا!‘‘
((فيرسل إليهِمْ رَسُولًا أَنِ ادْخُلُوا النَّارَ ))
’’حب اللہ ان کے پاس رسول بھیجے گا جو انہیں حکم دے گا کہ آگ میں داخل ہو جاؤ۔‘‘
((قَالَ: فَوَ الَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَوْ دَخَلُوهَا لَكَانَتْ عَلَيْهِمْ برداً وسلاماً . )) (مسند احمد:16301)
آپﷺ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد نے کام کی جان ہے اگر وہ اس آگ میں داخل ہو گئے تو وہ آگ ان کے لئے ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوگی ۔‘‘
اب یہاں ایک حجت تو عمومی ہے، جو تمام انسانوں کے لئے ہے کہ انبیاء و رسل علیہم السلام یا ان کے متعین کے ذریعے اللہ تعالی کا پیغام، دین اسلام ان تک پہنچا کہ نہیں۔ اگر کسی ذریعے سے بھی پیغام ان تک پہنچ گیا، تو ان پر حجت قائم ہوگئی۔
اگر پیغام تو پہنچ گیا مگر انہوں نے اسے قبول نہ کیا، یا اس سے دشمنی اور مخالفت کی تو وہ کافر اور عذاب کے مستحق ٹھہرے۔
اور اگر کسی طرح سے بھی پیغام دین نہ پہنچا، حجت قائم نہ ہوئی، تو وہ کافر تو پھر بھی تھیرے مگر عذاب کے مستحق نہیں ٹھہرے کیونکہ ان پر ابھی حجت قائم نہیں ہوئی، چنانچہ قیامت کے دن ان پر حجت تمام کر کے ان کا امتحان لیا جائے گا ، اور وہ امتحان کتنا سخت ہوگا آپ نے جانا، کہ دہکتی ہوئی آگ میں کودنے کو کہا جائے گا۔ اور دوسری حجت خصوصی ہے، یعنی بحیثیت مسلمان، دین اسلام کو قبول کرنے کے بعد کسی اعتقادی یا عملی مسئلے میں اگر کوئی گمراہی کا شکار ہوتا ہے تو اگر تو وہ لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے کرتا ہے تو وہ معذور تصور کیا جائے گا اور آخرت میں اس کا معاملہ اللہ کے ہاں اس کی مرضی اور مشیت پر ہوگا۔ لیکن اگر وہ حجت قائم ہونے کے بعد کسی بد عملی اور گمراہی کا شکار ہوتا ہے تو مسئلے کی نوعیت کے حساب سے اس پر کفر کا بھی اطلاق ہو سکتا ہے۔
تا ہم اس وقت جو بات ہمارے لئے قابل تشویش اور باعث فکر مندی ہونی چاہیے وہ یہ کہ دین کے جن بہت سارے مسائل کے بارے میں جو کہ ہم بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں، ہم پر حجت قائم ہو چکی ہے، کیا ہم ان پر پورا اتر رہے ہیں اور سرخرو ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں نماز کی فرضیت کا علم ہے، اور ہم نے یہ حدیث بھی بارہا سن رکھی ہے کہ:
((بين العبد وبين الكُفْرِ تَرك الصلاء)) (ترمذي:2620)
’’مسلمان بندے اور کفر کے درمیان ترک نماز کا فرق ہے؟‘‘
اور اس کے ساتھ ہم نے بے نمازی اور نمازوں میں سستی کرنے والوں کا انجام بھی سن رکھا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے، کہ آپ ﷺاکثر اوقات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین سے فرمایا کرتے:
((هَلْ رَأَى أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنْ رُؤْيَا ))
’’ تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے؟‘‘
(( فَيَقُصُّ عَلَيْهِ مَنْ شَاءَ اللهُ أَنْ يَقُصَّ))
’’تو جو بیان کرنا چاہتا اللہ کی محبت سے بیان کرتا‘‘
(( وَإِنَّهُ قَالَ لَنَا ذَاتَ غَدَاةِ))
’’اور ایک روز آپ ﷺ نے خود ہی بیان فرمایا:‘‘
((إِنَّهُ أَتَانِي اللَّيْلَةَ آتِيَانِ ، وَإِنَّهُمَا ابْتَعْثَانِي، وَأَنَّهُمَا قَالَا لِي، اِنطَلِقُ وَإِنِّي انْطَلَقْتُ مَعَهُما))
’’آج رات میرے پاس دو فرشتے آئے تھے، انہوں نے مجھے جگا کر کہا چلئے ، تو میں اُن کے ساتھ ہولیا۔‘‘
((وَإِنَّا آتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ مُضْطَجِعْ ، وَإِذَا آخَرُ قَائِمٌ عَلَيْهِ بصخرةٍ))
’’ہم ایک آدمی کے پاس پہنچے جو لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص پتھر لئے اس کے پاس کھڑا تھا۔ ‘‘
(( وَإِذَا هُوَ يَهْوِي بِالصَّخْرَةِ لِرَأْسِهِ فَيَبْلُغُ رَأْسُهُ ، فَيَتَدَهْدَهُ الحَجَرُ هَاهُنَا))
’’وہ پتھر کے لیے جھکتا اور مار کر اس کا سرنگڑے کر دیتا ہے اور پھر لڑھک کر دور جاپڑتا ہے۔‘‘
((فيتبع الحجر فيأخُذُهُ، فَلا يَرْجِعُ إِلَيْهِ حَتَّى يَصِحَ رَأْسُهُ كَمَا كَانَ))
’’وہ پتھر کے پیچھے جا کر اسے اٹھا کر لاتا ہے، اس کے واپس آنے تک اس کا سر پہلے کی طرح ٹھیک ہو چکا ہوتا ہے۔‘‘
((ثُمَّ يَعُودُ عَلَيْهِ فَيَفْعَلُ بِهِ مِثْلَ مَا فَعَلَ الْمَرَّةَ الأولٰى))
’’پھر دو اس پر واپس آتا اور اس کے ساتھ وہی معاملہ کرتا جو پہلی بار کیا تھا۔‘‘
قَالَ: (( قُلْتُ لَهُما: سُبْحَانَ الله مَا هَذَانَ))
’’آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے فرشتوں سے پوچھا: سبحان اللہ! ان دونوں کا کیا معاملہ ہے؟‘‘
((قَالَ قَالَالِي انْطَلِقُ ))
’’فرمایا: ان دونوں نے کہا: ابھی آگے تشریف لے چلیں۔‘‘
اسی طرح فرشتوں نے آپ سے کلام کو کچھ اور مناظر دکھائے اور پھر آخر میں ہر ایک کی تفصیل بتائی، اور کہا:
((أَما الرَّجُلُ الأول الَّذِي آتَيْتَ عَلَيْهِ يُثْلَغُ رَأْسُهُ بِالْحَجَرِ))
’’پہلا آدمی جس کے پاس آپ آئے ، جس کا سر کچلا جاتا تھا۔‘‘
((فَإِنَّهُ الرَّجُلُ يَأْخُذُ الْقُرْآنَ فَيَرْفُضُةُ وَيَنَامُ عَنِ الصَّلَاةِ المَكْتُوبَةِ)) (مسند احمد:20094 ، صحیح بخاری: 7048)
’’وہ ایک ایسا آدمی ہے جو قرآن کریم یاد کر لینے کے بعد اسے نظر انداز کر دیتا تھا یعنی جتنا بھی اس کو یاد تھا، اس پر عمل نہیں کرتا تھا اور فرض نماز کے وقت سویا رہتا تھا۔‘‘
تو بے نمازی کا انجام ہم نے سن لیا، ہم پر حجت قائم ہوگئی ، اسی طرح سود کے حرام ہونے کا حکم بھی ہمیں معلوم ہو چکا ہے ایسے ہی دھوکہ دہی، لوٹ مار، کریڈٹ کارڈ فراڈ کی ممانعت کا بھی ہمیں علم ہے۔ حرام چیزوں کی خرید و فروخت، پورک، لائو، سگریٹ، بیئر وغیرہ کی خرید و فروخت اور ان کا استعمال بھی قرآن وحدیث کے واضح دلائل کی روشنی میں حرام ہے یہ بھی ہمیں معلوم ہے اور ہم پر حجت قائم ہو چکی ہے، مگر تعجب ہے کہ یہ سن کر اور جان کر انجام کے خوف سے بھی ہمارے رونگٹے کھڑے نہیں ہوئے ، جسم میں کپکپی طاری نہیں ہوئی ، آنکھوں سے آنسو نہیں سکے اور دل اللہ کے ڈر سے جھکے نہیں ہیں۔
کیسی سنگدلی اور قسوت قلبی ہے کہ اتنا کچھ جانتے بوجھنے کے باوجود دنیا کی دلدل سے نکل نہیں پاتے اور اللہ کی طرف رجوع نہیں کرتے۔
جہاں ایک طرف حجت کا قائم ہو جانا انتہائی فکرمندی کی بات ہے، وہاں دوسری طرف اس کا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے خصوصی فضل اور کرم سے ہمیں نیکی کی طرف بڑھنے اور برائی سے باز رہنے کی رہنمائی فرمائی ہے ورنہ دنیا میں، بالخصوص اس دور میں جب کہ ہر طرف گمراہی، بے حیائی اور فحاشی کا دور دورہ ہے گمراہ کرنے والے افراد، گروہ اور لیڈر بکثرت موجود ہیں جو لوگوں کو ان کے اصلی اور حقیقی مسئلے سے ہٹا کر دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے میں لگا رہے ہیں اور اپنی کرتوتوں پر شرمندہ ہونے کو تیار نہیں۔
چنانچہ آپ ﷺنے گمراہ کرنے والے لیڈروں کے فتنے کو ایک انتہائی شدید فتنہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
((إِنَّمَا أَخَافَ عَلَى أُمَّتِي الأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ)) (ترمذي:2229)
’’مجھے اپنی امت کے بارے میں گمراہ کرنے والے حکمرانوں اور لیڈروں کا ڈر ہے۔‘‘
شاید اکثر لوگ اس بات کی سنگینی کو سمجھ نہیں پاتے کہ عوام کی اصلاح اور بگاڑ میں علماء حکمران اور لیڈران اور کسی بھی فیملی، کسی گروہ اور کسی بھی ادارے کے نگران اور سربراہ کا کتنا حصہ اور کردار ہے۔ یقینًا اصلاح اور بگاڑ کے تمام اسباب و وسائل اور ذرائع سے بڑھ کر ہے۔ فکر آخرت کی راہ میں روکاوٹ بننے والے بہت سارے عوامل میں سے یہ ایک سب سے خطر ناک عامل ہے۔
اللہ کرے کہ یہ بات ہمیں سمجھ میں آجائے ، اور بات ، حقیقت یہ ہے کہ ہمیں خود ہی مجھتی ہے، اللہ تعالی کے فضل اور اس کی توفیق کے بعد ورنہ ایک داعی، مبلغ اور مصلح کا کام تو صرف پہنچا دیتا ہے۔
منادی کرنے والا اور ہانک لگانے والا تو ہانک لگا کر گزر جائے گا، وہ آواز کڑوی لگے یا ناگوار گزرے ہمیں ہر حال میں اس پر غور کرنا ہے، یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اکثر لوگ محبت قائم ہوتی ہوئی سمجھ نہیں پاتے ، وہ کسی کی بات کو محض اک تقریر اور خطاب سمجھ رہے ہوتے ہیں جب کہ وہ حقیقت میں ان پر حجت کی مہر ثبت کی جارہی ہوتی ہے، حجت قائم کرنے کے لئے اب کوئی نبی نہیں آنے والا ہمیں میں سے کوئی ہماری خدمت اور اصلاح کے لئے مامور کر دیا جاتا ہے۔
اس کی بات سے جہاں ہم پر حجت قائم ہو رہی ہوتی ہے وہاں خود اس پر بھی حجت قائم ہو رہی ہوتی ہے، بلکہ ایک ہاتھ اس سے بھی زیادہ، کہ اس پر یہ بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جو بات کرے ایمانداری سے اور خالص قرآن وحدیث کی روشنی میں کرے، اور خالص اللہ کی رضا کے لئے کرے اور اپنی خطابت کے جو ہر دکھانے کے لئے نہ کرے۔ہمیں تقدیر نے یہاں لا جمع کیا ہے، مجھ پر خالص قرآن وحدیث کی تعلیمات کو آپ تک پہنچانے اور اس پر عمل کرنے کی ذمہ داری اور آپ پر اسے سن کر چھان پھٹک کر اس پر حمل کرنے کی ذمہ داری ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اپنی ذمہ داری نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے لئے کون سا ذریعہ ہماری ہدایت اور رہنمائی کا سبب بنتا ہے اور ہمیں کس کی رہنمائی کا سبب بنتا ہے، یہ سب کچھ تقدیر میں پہلے سے لکھا جا چکا ہے، لہذا ہمیں موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے، ہماری رہنمائی کا عمل تسلسل کے ساتھ جاری ہے، پس ہمیں اسے سمجھتا ہے۔ ہمیں خود فریبی سے بچتا ہے اور جو چند نمازیں پڑھ کر سمجھ بیٹھتے ہیں کہ بس اب سیدھے جنت میں چلے جائیں گے تو یہ خود فریبی اور دھوکہ ہے جو ہم اپنے آپ کو دے رہے ہیں، اپنے گناہوں کو نظر انداز کرنا بہت بڑا دھوکہ ہے ۔ یہ حدیث سامنے رہے تو یہ حسن ظن اور خود فریبی کا فور ہو جائے گی۔
حدیث میں ہے کہ:
((مَرَّ النَّبِيُّ عَلَى قَبْرَينِ فَقَالَ: إِنَّهُمَا لَيُعَذِّبَانِ وَمَا يُعَذِّبَانِ فِي كَبِيرٍ ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيْمَةِ)) (صحيح البخاری:1378)
’’نبیﷺ کا دو قبروں کے پاس سے گزر ہوا، آپ نے فرمایا: ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور یہ بھی نہیں کہ کسی بڑی بات پر عذاب ہو رہا ہے، ان میں سے ایک پیشاب (کے چھینٹوں) سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خوری کرتا پھرتا تھا۔‘‘
اب اندازہ کیجیے کہ کچھ ایسے کام کہ جنھیں ہمارے معاشرے میں کوئی بڑی بات نہیں سمجھا جاتا، جب ان پر عذاب ہو رہا ہے، تو وہ کام جو عقلا ، شرعا اور قانونا جرم اور گناہ قرار دیے گئے ہیں جن کا ارتکاب سر عام کیا جاتا ہے ، ان کے انجام سے بے فکر ہو کر بیٹھ جانا ، اور سمجھ لینا کہ ہم سیدھے جنت میں چلے جائیں گے، یہ آخرت کے معاملے میں غیر سنجیدگی اور محض خوش فہمی کی علامت ہے۔
آخرت کے حوالے سے فکر مند ہونا انسان کی عقلمندی ، دوراندیشی اور سنجیدگی کی علامت ہے۔
اللہ تعالی ہمیں دین کی سمجھ اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
………………..