فرعون اور اس كي تباهي

سُوْرَةُ طٰهٰ حاشیہ نمبر :52

52۔ بیچ میں ان حالات کی تفصیل چھڑ دی گئی ہے جو اس کے بعد مصر کے طویل زمانہ قیام میں پیش آۓ۔ ان تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف رکوع 15۔16، سورۂ یونس رکوع 9 ، سورۂ مومن رکوع 3 تا 5 ، اور سورۂ زخرف رکوع 5۔

سُوْرَةُ طٰهٰ حاشیہ نمبر :53

53۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے اللہ تعالیٰ نے آخر کار ایک رات مقرر فرما دی جس میں تمام اسرائیلی اور غیر اسرائیلی مسلمانوں کو (جن کے لیے ’’ میرے بندوں ‘’ کا جامع لفظ استعمال کیا گیا ہے ) مصر کے ہر حصے سے ہجرت کے لیے نکل پڑنا تھا۔ یہ سب لوگ ایک طے شدہ مقام پر جمع ہو کر ایک قافلے کی صورت میں روانہ ہو گۓ۔ اس زمانے میں نہر سویز موجود نہ تھی۔ بحر احمر سے بحر روم (میڈیٹرینین) تک کا پورا علاقہ کھلا ہوا تھا۔ مگر اس علاقے کے تمام راستوں پر فوجی چھاؤنیاں تھیں جن سے بخیریت نہیں گزرا جا سکتا تھا۔ اس لیے حضرت موسیٰ نے بحر احمر کی طرف جانے والا راستہ اختیار کیا۔ غالباً ان کا خیال یہ تھا کہ سمندر کے کنارے کنارے چل کر جزیرہ نمائے سینا کی طرف نکل جائیں۔ لیکن ادھر سے فرعون ایک لشکر عظیم لے کر تعاقب کرتا ہوا ٹھیک اس موقع پر آ پہنچا جب کہ یہ قافلہ ابھی سمندر کے ساحل ہی پر تھا۔ سورۂ شعراء میں بیان ہوا ہے کہ مہاجرین کا قافلہ لشکر فرعون اور سمندر کے درمیان بالکل گھر چکا تھا۔ عین اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ : اِضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ ، ’’ اپنا عصا سمندر پر مار’’ : فَاَنْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ ، ’’ فوراً سمندر پھٹ گیا اور اس کا ہر ٹکڑا ایک بڑے ٹیلے کی طرح کھڑا ہو گیا‘‘۔ اور بیچ میں صرف یہی نہیں کہ قافلے کے گزرنے کے لیے راستہ نکل آیا ، بلکہ بیچ کا یہ حصہ، اوپر کی آیت کے مطابق خشک ہو کر سوکھی سڑک کی طرح بن گیا۔ یہ صاف اور صریح معجزے کا بیان ہے اور اس سے ان لوگوں کے بیان کی غلطی واضح ہو جاتی ہے جو کہتے ہیں کہ ہوا کے طوفان یا جوار بھاٹے کی وجہ سے سمندر ہٹ گیا تھا۔ اس طرح جو پانی ہٹتا ہے وہ دونوں طرف ٹیلوں کی صورت میں کھڑا نہیں ہو جاتا ، اور بیچ کا حصہ سوکھ کر سڑک کی طرح نہیں بن جاتا ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم الشعراء حاشیہ 47 )۔

بنی اسرائیل کی ہجرت اور فرعون کا تعاقب۔

چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس فرمان کو بھی فرعون نے ٹال دیا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے آزاد کر کے انہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سپرد کردے اس لئے جناب باری نے آپ کو حکم فرمایا کہ آپ راتوں رات ان کی بےخبری میں تمام بنی اسرائیل کوچپ چاپ لے کریہاں سے چلے جائیں جیسے کہ اس کا تفصیلی بیان قرآن کریم میں اور بہت سی جگہ پر ہوا ہے چنانچہ حسب ارشاد آپ نے بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لے کر یہاں ہجرت کی ۔ صبح جب فرعونی جاگے اور سارے شہر میں ایک بنی اسرائیل نہ دیکھا ۔ فرعون کو اطلاع دی وہ مارے غصے کے چکر کھا گیا اور ہر طرف منادی دوڑا دئیے کہ لشکرجمع ہوجائیں اور دانت پیس پیس کر کہنے لگا کہ اس مٹھی بھر جماعت نے ہمارے ناک میں دم کر رکھا ہے آج ان سب کو تہ تیغ کردوں گا۔ سورج نکلتے ہی لشکر آ موجود ہوا اسی وقت خود سارے لشکرکو لے کر ان کے تعاقب میں روانہ ہو گیا ۔ بنی اسرائیل دریا کے کنارے پہنچے ہی تھے کہ فرعونی لشکر انہیں دکھائی دے گیا گھبرا کر اپنے نبی سے کہنے لگے لو حضرت اب کیا ہو گا سامنے دریا ہے پیچے فرعونی ہیں ۔ آپ نے جواب دیا گھبرانے کی بات نہیں میری مدد پر خود میرا رب ہے وہ ابھی مجھے راہ دکھا دے گا اسی وقت وحی الہی آئی کہ موسیٰ دریا پر اپنی لکڑی مار وہ ہٹ کر تمہیں راستہ دے دے گا ۔ چنانچہ آپ نے یہ کہ کر لکڑی ماری کے اے دریا بحکم الہی تو ہٹ جا اسی وقت اس کا پانی پتھر کی طرح ادھر اْدھر جم گیا اور بیچ میں راستے نمایاں ہو گئے۔ ادھرادھر پانی مثل پہاڑوں کے کھڑا ہو گیا اور تیز اور خشک ہواؤں کے جھونکوں نے راستوں کو بالکل سوکھی زمین کے راستوں کی طرح کر دیا ۔ نہ تو فرعون کی پکڑ کا خوف رہا نہ دریا میں ڈوب جانے کا خطرہ رہا ۔ فرعون اور اس کے لشکری یہ حال دیکھ رہے تھے ۔ فرعون نے حکم دیا کہ انہی راستوں سے تم بھی پار ہو جاؤ ۔ چیختا کودتا مع تمام لشکر کے ان ہی راہوں میں اتر پڑا ان کے اترتے ہی پانی کو بہنے کا حکم ہوگیا اور چشم زون میں تمام فرعونی ڈبو دیئے گئے ۔ دریا کی موجوں نے انہیں چھپا لیا ۔ یہاں جو فرمایا کہ انہیں اس چیزنے ڈھانپ لیا جس نے ڈھانپ لیا یہ اس لئے کہ یہ مشہور ومعروف ہے ٫نام لینے کی ضرورت نہیں یعنی دریا کی موجوں نے اسی آیت ( وَالْمُؤْتَفِكَةَ اَهْوٰى فَغَشّٰـىهَا مَا غَشّٰى 54؀ۚ) 53-النجم:54) ہے یعنی قوم لوط کی بستیوں کو بھی اسی نے دے پٹکا تھا ۔ پھر ان پر جو تباہی آئی سو آئی۔ عرب کے اشعار میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں ۔ الغرض فرعون نے اپنی قوم کو بہکا دیا اور راہ راست انہیں نہ دکھائی جس طرح دنیا میں انہیں اس نے آگے بڑھ کر دریا برد کیا اسی طرح آگے ہو کر قیامت کے دن انہیں جہنم میں جا جھونکے گا جو بدترین جگہ ہے ۔

سُوْرَةُ الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :47

47۔ اصل الفاظ ہیں کَا لطَّوْدِ الْعَظِیْمِ۔ طود عربی زبان میں کہتے ہی برے پہاڑ کو ہیں۔ لسان العرب میں ہے الطود، الجبل العظیم۔ اس کے لیے پھر عظیم کی صفت لانے کے معنی یہ ہوئے کہ پانی دونوں طرف بہت اونچے پہاڑوں کی طرح کھڑا ہو گیا تھا۔ پھر جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ سمندر حضرت موسیٰ کے عصا مارنے سے پھٹا تھا، اور یہ کام ایک طرف بنی اسرائیل کے پورے قافلے کو گزارنے کے لیے کیا گیا تھا اور دوسری طرف اس سے مقصود فرعون کے لشکر کو غرق کرنا تھا، تو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عصا کی ضرب لگنے پر پانی نہایت بلند پہاڑوں کی شکل میں کھڑا ہو گیا اور اتنی دیر تک کھڑا رہا کہ ہزاروں لاکھوں بنی اسرائیل کا مہاجر قافلہ اس میں سے گزر بھی گیا اور پھر فرعون کا پورا لشکر ان کے درمیان پہنچ بھی گیا۔ ظاہر ہے کہ عام قانون فطرت کے تحت جو طوفانی ہوائیں چلتی ہیں وہ خواہ کیسی ہی تند و تیز ہوں ، ان کے اثر سے کبھی سمندر کا پانی اس طرح عالی شان پہاڑوں کی طرح اتنی دیر تک کھڑا نہیں رہا کرتا۔ اس پر مزید سورہ طٰہٰ کا یہ بیان ہے کہ : فَا ضْرِبْ لَہُمْ طَرِیْقاً فِی الْبَحْرِ یَبَساً، ’’ ان کے لیے سمندر میں سوکھا راستہ بنا دے ‘‘۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ سمندر پر عصا مارنے سے صرف اتنا ہی نہیں ہوا کہ سمندر کا پانی ہٹ کر دونوں طرف پہاروں کی طرح کھڑا ہو گیا، بلکہ بیچ میں جو راستہ نکلا وہ خشک بھی ہو گیا، کوئی کیچڑ ایسی نہ رہی جو چلنے میں مانع ہوتی۔ اس کے ساتھ سورہ دُخان آیت 24 کے یہ الفاظ بھی قابل غور ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو ہدایت فرمائی کہ سمندر پار کر لینے کے بعد ’’ اس کو اسی حال پر رہنے دے ، لشکر فرعون یہاں غرق ہونے والا ہے ‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ اگر دوسرے ساحل پر پہنچ کر سمندر پر عصا مار دیتے تو دونوں طرف کھڑا ہوا پانی پھر مل جاتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا تا کہ لشکر فرعون اس راستے میں اتر آئے اور پھر پانی دونوں طرف سے آ کر اسے غرق کر دے۔ یہ صریحاً ایک معجزے کا بیان ہے اور اس سے ان لوگوں کے خیال کی غلطی بالکل واضح ہو جاتی ہے جو اس واقعے کی تعبیر عام قوانین فطرت کے تحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، طٰہٰ، حاشیہ 53 )۔

[٤٤] بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بوجب وحی الٰہی جب اپنا عصا سمندر پر مارا تو وہ دو حصوں میں بٹ گیا اور درمیان میں کافی کشادہ راستہ بن گیا۔ اور راستہ خشک بھی فوراً ہوگیا۔ نیچے دلدلی زمین نہیں تھی۔ ایک طرف کا پانی بھی ساکن جامد پہاڑ کی طرح کھڑا کا کھڑا رہ گیا اور دوسری طرف کا بھی۔ لیکن مفسرین کی نقل کردہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خشک راستہ نہیں بلکہ بارہ راستے بنے تھے اور کل فرق کے الفاظ بھی ان روایات کی تائید کرتے ہیں کیونکہ کل کا لفظ دو کے لئے نہیں آتا۔ روایات کے مطابق سمندر میں بارہ راستے بنے تھے اور بنی اسرائیل کے بارہ ہی قبیلے تھے اور ہر قبیلے کے تقریباً بارہ ہزار افراد تھے جو ہجرت کرکے آئے تھے اس لحاظ سے ان مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ چوالیس ہزار بنتی ہے اور بعض روایات کے مطابق یہ تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تھی ۔ جبکہ فرعون کے لشکر کی تعداد سے بہت زیادہ تھی۔

[١٠١] فرعون کا غرقابی کے وقت ایمان لانا:۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے اس اقرار کے جواب میں فرمایا کہ جیسا اقرار تم اب کر رہے ہو ویسا اقرار پہلے بھی کئی دفعہ کرچکے ہو پھر بعد میں عہد شکنی کرکے بغاوت ہی کرتے رہے ہو لہذا تمہارا اب کا یہ اقرار قطعاً ناقابل اعتبار ہے اگر تمہیں اب بھی ہم نجات دے دیں تو پھر بھی تم وہی کچھ کرو گے جو پہلے کرتے رہے ہو اور اس مطلب پر دلیل درج ذیل حدیث ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جب فرعون نے یہ کلمات کہے تھے تو جبریل نے مجھے کہا کہ: ”کاش اے محمد! آپ دیکھتے میں نے اس وقت دریا سے کیچڑ لے کر فرعون کے منہ میں ٹھونس دیا کہ مبادا اب بھی کہیں اللہ کی رحمت اسے نہ آلے” (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)

اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اب تمہارے اس اقرار کا کچھ فائدہ نہیں کیونکہ یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ تمہاری موت آچکی اور امتحان اور توبہ کا وقت گذر چکا ہے لہذا اب ایسا اقرار بے کار ہے اس مطلب پر بھی بے شمار آیات و احادیث شاہد ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تین امور کا معین وقت کسی کو بھی نہیں بتلایا، ایک یہ کہ کسی قوم پر عذاب کب آئے گا، دوسرے یہ کہ کسی کی موت کا وقت کب ہے؟ اور تیسرے یہ کہ قیامت کب آئے گی کیونکہ ان امور کا معین وقت بتلا دیا جائے تو دنیا کے دارالامتحان ہونے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے اور فرعون کے معاملہ میں تو دو باتیں اکٹھی ہوگئی تھیں۔ ایک عذاب دوسرے موت۔ لہذا اس وقت اس کا ایمان کیسے قبول ہوسکتا تھا؟

سُوْرَةُ یُوْنُس حاشیہ نمبر :92

آج تک وہ مقام جزیرہ نمائے سینا کے مغربی ساحل پر موجود ہے جہاں فرعون کی لاش سمندر میں تیری ہوئی پائی گئی تھی۔ اس کو موجودہ زمانے میں جبل فرعون کہتے ہیں اور اسی کے قریب ایک گرم چشمہ ہے جس کو مقامی آبادی نے حمام فرعون کے نام سے موسوم کر رکھا ہے۔ اس کی جائے وقوع ابوزنیمہ سے چند میل اوپر شمال کی جانب ہے، اور علاقے کے باشندے اسی جگہ کی نشان دہی کرتے ہیں کہ فرعون کی لاش یہاں پڑی ہوئی ملی تھی۔ اگر یہ ڈوبنے والا وہی فرعون منفتہ ہے جس کو زمانہ حال کی تحقیق نے فرعون موسی قرار دیا ہے تو اس کی لاش آج تک قاہرہ کے عجائب خانے میں موجود ہے۔ سن ۱۹۰۷ میں سر گرافٹن الیٹ سمتھ نے اس کی ممی پر سے جب پٹیاں کھولی تھیں تو اس کی لاش پر نمک کی ایک تہ جمی ہوئی پائی گئی تھی جو کھاری پانی میں اس کی غرقابی کی ایک کھلی علامت تھی۔

سُوْرَةُ یُوْنُس حاشیہ نمبر :93

یعنی ہم تو سبق آموز اور عبرت انگیز نشانات دکھائے ہی جائیں گے اگرچہ اکثر انسانوں کا حال یہ ہے کہ کسی بڑی سے بڑی عبرتناک نشانی کو دیکھ کر بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلتی۔

[١٠٢] فرعون کی لاش کی حفاظت کا مطلب:۔ یعنی تیری لاش نہ تو سمندر میں ڈوب کر معدوم ہوجائے گی اور نہ مچھلیوں کی خوراک بنے گی، چونکہ فرعون کے ڈوب کر مر جانے کے بعد ایک لہر اٹھی جس نے اس کی لاش کو سمندر کے کنارے ایک اونچے ٹیلے پر پھینک دیا تاکہ باقی لوگ فرعون کا لاشہ دیکھ کر عبرت حاصل کریں کہ جو بادشاہ اتنا طاقتور اور زور آور تھا اور خود خدائی کا دعویدار تھا بالآخر اس کا انجام کیا ہوا؟ مگر انسانوں کی اکثریت ایسی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ایسی نشانیاں دیکھنے اور ان کا اعتراف کرنے کے باوجود عبرت حاصل نہیں کرتے اور نہ ہی اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یہ لاش مدتوں اسی حالت میں پڑی رہی اور گلنے سڑنے سے بچی رہی اور بعد میں آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنی رہی۔

جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ یہ لاش آج تک محفوظ ہے جس پر سمندر کے پانی کے نمک کی تہہ جمی ہوئی ہے۔ جو اسے بوسیدہ ہونے اور گلنے سڑنے سے بچانے کا ایک سبب بن گئی ہے اور یہ لاش قاہرہ کے عجائب خانہ میں آج تک محفوظ ہے۔ واللہ اعلم۔ تاہم الفاظ قرآنی کی صحت اس کے ثبوت پر موقوف نہیں کہ اس کی لاش تاقیامت محفوظ ہی رہے۔

عاشورہ کا روزہ :۔ فرعون کی غرقابی کا واقعہ ١٠ محرم کو پیش آیا تھا اسی لیے یہود فرعون سے نجات کی خوشی کے طور پر روزہ رکھتے تھے چنانچہ آپ نے بھی مسلمانوں کو اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا اور یہود کی مخالفت کے لیے ساتھ ٩ محرم یا ١١ محرم کاروزہ رکھنے کاحکم دیا پھر جب ماہ رمضان کے روزے فرض ہوئے تو اس دن کے روزہ کی حیثیت نفلی روزہ کی سی رہ گئی۔

[١٠٣] بنی اسرائیل کا شام کے علاقہ پر قبضہ اور تفرقہ بازی: یعنی ملک مصر میں بھی ان کو غلبہ دیا اور شام میں بھی اور یہ دونوں سر سبز اور شاداب ملک ہیں جہاں ہر طرح کے پھل اور غلے بکثرت پیدا ہوتے ہیں پھر ان مادی نعمتوں کے علاوہ انہیں تورات بھی عطا کی۔ جس میں ان کی زندگی کے ہر شعبہ کے لیے مکمل ہدایات موجود تھیں لیکن بعد میں یہی لوگ کئی فرقوں میں بٹ گئے تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ تورات ان کی صحیح رہنمائی کرنے کے لیے ناکافی تھی بلکہ اس کی وجہ نئے نئے فلسفیانہ مباحث پیدا کرنا، پھر آپس میں اختلاف کرنا، پھر فرقے بنانا اور اپنی اپنی چودھراہٹ کی خاطر ان کی آبیاری کرنا تھی۔ علماء و مشائخ کے حب جاہ نے ان فرقوں میں اتنا تعصب پیدا کردیا تھا کہ ان میں اتحاد کی صورت باقی نہ رہ گئی تھی حالانکہ اگر وہ اللہ کی کتاب کی طرف رجوع کرتے تو وہ پھر سے متحد ہوسکتے تھے۔

تفرقہ بازی کی وجہ اور اس کا علاج:۔ آج مسلمان بھی اسی فرقہ بازی کی لعنت کا شکار ہیں جس کا شکار یہود اور نصاریٰ ہوچکے تھے اور آج تک شکار ہیں۔ مسلمانوں کے فرقے بھی اسی ہٹ دھرمی اور ضد کا شکار ہیں اور ہر فرقہ اپنے اپنے حال میں مست اور مگن ہے۔ ان فرقوں کے قائدین کے حب مال اور جاہ کی خواہش اور ان کے مناصب سے ان کی دستبرداری ان فرقوں کے متحد ہونے میں آج بھی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ حالانکہ آج بھی اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت موجود ہے۔ اگر اس کی طرف رجوع کیا جائے تو اتحاد کی صورت آج بھی ممکن ہے بلکہ اتحاد کی ممکنہ صورت یہی ہوسکتی ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف رجوع کیا جائے اور اماموں، علماء اور مشائخ کے اقوال کو کتاب و سنت کے مقابلہ میں درخور اعتناء نہ سمجھا جائے۔