فرشتوں کا بیان

1097۔ سیدہ عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((خُلِقَتِ الْمَلَائِكَةُ مِنْ نُورٍ ، وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَّارِجٍ مِنْ نَّارٍ وَخُلِقََ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَكُمْ)) (أخرجه مسلم:2996)

’’فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے اور جنوں کو آگ کے شعلے سے اور آدم  علیہ السلام اس (مادے) سے پیدا کیا گیا ہے جس کو تمھارے لیے بیان کیا گیا ہے۔‘‘

توضیح و فوائد: فرشتے اللہ تعالی کی مخلوق ہیں۔ اللہ تعالی نے انھیں نور سے پیدا فرمایا اور ان کی تخلیق انسانوں سے پہلے ہوئی۔ جس نور سے وہ پیدا ہوئے وہ اللہ تعالی کی مخلوق ہے، اللہ کا حصہ نہیں۔ فرشتے کھانے پینے اور دیگر انسانی ضرورتوں سے بے نیاز ہیں۔ ان کی تعداد  اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، ان کی حقیقت پر ایمان رکھنا ارکان اسلام میں سے ہے۔ ان کے وجود کا منکر کا فر ہے۔ اللہ تعالٰی نے ان کی مختلف ذمہ داریاں مقرر کی ہیں جو وہ بہر صورت پوری کرتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے انھیں مختلف  شکلیں اختیار کرنے کی صلاحیت بھی دی ہے۔ وہ اللہ کے مطیع اور فرماں بردار ہیں ان میں سرے سے سرتابی یا نا قربانی کا مادہ ہی موجود نہیں۔

1098۔ سیدنا جابر بن عبد الله رضی اللہ تعالی عنہما  نبیﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا:

((أُذِنَ لِي أَنْ أُحَدِّثَ عَن مَلِكٍ مِنْ مَلَائِكَةِ اللهِ مِنْ حَمَلَةِ الْعَرْشِ، إِنَّ مَا بَيْنَ شّحْمَةِ أُذُنِهِ إِلَى عَائِقِهِ مَسِيرَةً سَبْعِ مِائَةِ عامٍ)) (أخرجه أبو داود: 4727)

’’مجھے کہا گیا ہے کہ میں تمہیں حاملین عرش میں سے ایک فرشتے کے متعلق بتاؤں ۔ بلا شبہ اس کے کانوں کی لو سے اس کے کندھے تک کا فاصلہ سات سو سال کے سفر کے برابر ہے۔‘‘

 تو ضیح و فوائد: اللہ تعالی نے کئی فرشتوں کو عرش اٹھانے کی ذمہ داری سونپ رکھی ہے، یہ ان فرشتوں کا اعزاز ہے ورنہ اللہ تعالی ان فرشتوں کا یا عرش کا محتاج نہیں ہے۔ اس بات سے ضمنا یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے غیر معمولی جسامت اور صلاحیت کے حامل ہیں۔

1099۔ سیدنا مالک بن صعصعہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((رُفِعَ لِي البَيْتُ المَعْمُورُ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ، فَقَالَ: هَذَا البَيْتُ المَعْمُورُ يُصَلِّي فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، إِذَا خَرَجُوا لَمْ يَعُودُوا إِلَيْهِ آخِرَ مَا عَلَيْهِمْ،))(أخرجه البخاري:2307، 3887،، و مسلم:164)

’’بیت المعمور میرے لیے کھول دیا گیا۔ میں نے اس کے متعلق جبر یل علیہ السلام سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ یہ بیت المعمور ہے۔ اس  میں ہر روز ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں۔ جو ایک دفعہ عبادت کر کے باہر نکل جائیں تو دوبارہ واپس نہیں آتے یعنی آخر تک ان کی باری نہیں آئے گی۔‘‘

توضیح و فوائد: فرشتوں کی تعداد کتنی ہے؟ یہ بات اللہ تعالی کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ فرشتوں کی نماز بھی صف ، رکوع وجود اور قیام پر مشتمل ہے۔ اس کی تاویل کی چنداں ضرورت نہیں۔

1100۔ سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرمﷺ اپنے صحابہ میں تشریف  فرما  تھے تو آپ نے فرمایا:

((أتَسْمَعُوْنَ مَا أَسْمَعُ؟)) "” جو میں سن رہا ہوں وہ  تمہیں سنائی دے رہا ہے؟‘‘

صحابہ نے عرض کیا: ہمیں تو کچھ سنائی نہیں دے رہا۔ آپ ﷺنے فرمایا:

((إِنِّى لَأَسْمَعُ أُطِيطَ السَّمَاءِ ، وَمَا تَلامُ أَن تَئِطَّ، وَمَا فِيهَا مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا وَعَلَيْهِ مَلَكٌ سَاجِدٌ أَوْ قَائمٌ)) (أخرجه الطبراني في الكبير:3122)

’’میں آسمان کے چرچرانے کی آواز سن رہا ہوں اور اس کا چرچرانا بنتا ہے۔ اس میں ایک بالشت جگہ بھی ایسی نہیں جہاں کوئی فرشتہ سجدے یا قیام کی حالت میں نہ ہو۔‘‘

1101- سیدنا جابر بن سمره رضي الله تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((أَلا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا))

’’ تم اس طرح صف بندی کیوں نہیں کرتے جس طرح بارگاہ الہی میں فرشتے صف بستہ ہوتے ہیں؟‘‘

 ہم نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! فرشتے اللہ تعالی کی بارگاہ میں کس طرح صف بندی کرتے ہیں؟

آپﷺ نے فرمایا:

((یُتِمُّوْنَ الصُّفُوْفَ الْأَوَّلَ، وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّف))(أخرجه مسلم:430)

’’وہ پہلی صفوں کو (پہلے) مکمل کرتے اور صف میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھرے ہوئے  ہیں‘‘

1102۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ   ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ لِلَّهِ مَلاَئِكَةً يَطُوفُونَ فِي الطُّرُقِ يَلْتَمِسُونَ أَهْلَ الذِّكْرِ، فَإِذَا وَجَدُوا قَوْمًا يَذْكُرُونَ اللَّهَ تَنَادَوْا: هَلُمُّوا إِلَى حَاجَتِكُمْ))(أخرجه البخاري:6408)

’’بلا شبہ اللہ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو اہل ذکر کو تلاش کرتے ہوئے راستوں میں چکر لگاتے رہتے ہیں۔ جب وہ کچھ لوگوں کو اللہ کے ذکر میں مصروف پالیتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں: آؤ تمھارا مطلب حل ہو گیا ہے۔‘‘

توضیح وفوائد: فرشتوں کے ایک گروہ کی ذمہ داری ہے کہ زمین میں چل پھر کر  ایسی مجالس تلاش کریں جہاں اللہ کا ذکر ہو رہا ہوں ان کی مزید ذمہ داری یہ ہے کہ اللہ کے ذکر کی مجلسوں کو حفاظتی حصار میں لے لیں۔ ان فرشتوں کی تعداد اللہ ہی جانتا ہے۔

1103۔  سیدنا ابن عباس  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے بدر کے دن فرمایا:

((هٰذَا جِبريلُ – آخِذٌ بِرَأْسِ فَرَسِهِ عَلَيْهِ أَدَاةُ الْحَرْبِ))(أخرجه  البخاري:3995، 4041)

’’یہ جبریل علیہ السلام  ہیں جو اپنے گھوڑے کا سر تھامے لڑائی کے لیے ہتھیار لگائے ہوئے  ہیں۔‘‘

توضیح وفوائد: ایک فرشتے میں بھی اتنی قوت ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے تمام دشمنوں کو ختم کر سکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالی نے اہل ایمان کے امتحان کے لیے انہیں لڑنے کا حکم دیا اور فرشتوں کو بھیجا کہ وہ ان کی ڈھارس بندھائیں۔ اصل مدد اور نصرت اللہ تعالی ہی کی ہوتی ہے۔ میدان بدر اور دیگر مواقع پر فرشتے اللہ ہی کے حکم سے مسلح ہو کر آئے اور مشرکوں کو ٹھکانے لگاتے رہے۔

1104۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابوجہل نے کہا: کیا محمد (ﷺ) تم لوگوں کے سامنے اپنا چہرہ زمین پر رکھتے ہیں؟ (سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے)کہا: تو کہا گیا: ہاں، چنانچہ اس نے کہا: لات اور عزی کی قسم!  اگر میں نے ان کو ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا تو میں ان کی گردن کو روندوں گا یا ان کے چہرے کو مٹی میں ملاؤں گا  (العیاذ باللہ !)

پھر جب رسول اللہ ان اللہ نماز پڑھ رہے تھے، وہ آپ کے پاس آیا اور یہ ارادہ کیا کہ آپ کی گردن مبارک کو روندے، (ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے) کہا: تو وہ انھیں اچانک ایڑیوں کے بل پلٹتا ہوا اور اپنے دونوں ہاتھوں (کو آگے کر کے ان )سے اپنا بچاؤ کرتا ہوا نظر آیا۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ  نے کہا: تو اس سے کہا گیا: تمہیں کیا ہوا؟ تو اس نے کہا: میرے اور اس کے در میان آگ کی ایک  خندق اور سخت ہول (پیدا کرنے والی مخلوق) اور بہت سے پر تھے۔ تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((لَوْ دَناَ مِنِّي لَاخْتَطَفَتْهُ الْمَلَائِكَةُ عَضُوًا عُضْوًا)) (أخرجه مسلم:2797)

’’اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کے ایک ایک عضو کو اچک لیتے ۔‘‘

1105۔ سيدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اسلام لانے کے بعد میرے دل میں کبھی وسوسہ پیدا نہیں ہوا سوائے ایک بار کے (اس طرح کہ ) میں نے قرآن کی ایک آیت پڑھی اور کسی آدمی نے دوسری قراءت میں اس کی تلاوت کی، چنانچہ ہم نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو میں نے کہا: کیا آپ نے مجھے فلاں فلاں آیت نہیں پڑھائی؟

آپﷺ نے فرمایا: ((نعم)) ’’ہاں‘‘

دوسرے آدمی نے عرض کی: کیا آپ نے مجھے فلاں فلاں آیت نہیں پڑھائی؟ آپﷺ نے فرمایا:

 ((نْعَمْ، أَثَانِي جِبْرِيلُ وَمِيكَائِيلُ، فَقَعَدَ جِبْرِيلُ عَن يَمِيْنِي وَمِيْكَائِيْلُ عَن يَّسَارِي . فقَالَ جِبْرِيلُ إِقْرَأِ الْقُرْآنَ عَلٰى حَرْفٍ وَاحِدٍ. فَقَالَ مِيكَائِيلُ: اسْتَزِدْهُ حَتّٰى بَلَغَ سَبْعَةَ أَحْرُفٍ كُلُّهَا شَافٍ كَافٍ)) (أخرجه أحمد:21092، 21132)

’’ہاں جبریل علیہ السلام آئے اور میرے دائیں جانب بیٹھ گئے اور میکائیل میرے بائیں جانب تھے تو جبریل علیہ السلام نے فرمایا: قرآن ایک قراءت پر پڑھیے، میکائیل علیہ السلام نے فرمایا: زیادہ کا مطالبہ  کیجیےحتی  کہ پھر وہ سات قراء توں تک پہنچے۔ وہ سب شافی و کافی ہیں۔‘‘

 توضیح و فوائد: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وحی لانے والے تو جبریل امین ہی تھے لیکن دیگر فرشتے بھی رسول اکرم  ﷺکی خدمت میں مفید مشورے دینے کے لیے آتے رہتے تھے۔

1106۔ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے اللہ نے فرمایا:

((إن صَاحِبَ الشِّمَالِ لَيَرْفَعُ القَلَمَ سِتَّ سَاعَاتٍ عَنِ الْعَبْدِ الْمُسْلِمِ المُخْطِءِ أَوِ المُسَئ، فَإِنْ نَدِمَ وَاسْتَغْفَرَ اللهَ مِنْهَا أَلْقَاهَا، وَإِلَّا كُتِبَتْ وَاحِدَةٌ)) (أخرجه الطبراني في الكبير:7765، 7787، 7971)

’’بائیں جانب والا فرشتہ ہر صورت چھ گھڑیاں خطا اور گناہ کرنے والے بندے سے قلم اٹھائے رکھتا ہے (اس دوران میں) اگر وہ نادم ہو جائے اور اللہ تعالی سے معافی مانگ لے تو وہ قلم رکھ دیتا ہے (اور کچھ نہیں لکھتا ) ورنہ ایک گناہ لکھا جاتا ہے۔‘‘

توضیح و فوائد: صاحب شمال سے مراد وہ فرشتہ ہے جو انسان کے گناہ لکھنے پر مامور ہے۔

1107سیدنا ابوہریر ہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا:

((إِذَا كَانَ يَوْمُ الجُمُعَةِ، كَانَ عَلَى كُلِّ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِ المَسْجِدِ المَلاَئِكَةُ، يَكْتُبُونَ الأَوَّلَ فَالأَوَّلَ، فَإِذَا جَلَسَ الإِمَامُ طَوَوُا الصُّحُفَ، وَجَاءُوا يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ)) (أخرجه البخاري:3211، و مسلم:850)

’’جب جمعے کا دن ہوتا ہے تو مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے مقرر ہو جاتے ہیں جو پہلے پہلے آنے والوں کا نام لکھتے ہیں، پھر جب  امام منبر پر بیٹھ جاتا ہے تو وہ اپنے صحیفے لپیٹ کر خطبہ سننے کے لیے آجاتے ہیں۔‘‘

 توضیح وفوائد: جب فرشتے رجسٹر بند کر دیتے ہیں تو بعد میں آنے والے نمازیوں کو جمعے کا خاص ثواب نہیں ملتا ، تاہم فریضہ اور ہو جاتا ہے۔

1108۔ سیدنا ابو بریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

((مَا مِنْ يَوْمٍ يُصْبِحُ الْعِبَادُ فِيهِ إِلَّا مَلَكَانِ يَنْزِلَانِ فَيَقُولُ أَحَدُهُمَا اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا وَيَقُولُ الْآخَرُ اللَّهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا)) (أخرجه البخاري:1442،ومسلم:1010)

’’ جب لوگ صبح کرتے ہیں تو وہ فرشتے اترتے ہیں، ایک کہتا ہے: اے اللہ خرچ کرنے والے کو نعم البدل عطا کر۔ اور دوسرا کہتا ہے: اے اللہ کنجوس کو تباہی و بربادی سے دو چار کرے۔‘‘

1109 سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((مَنْ أَكُلَ الْبَصَلَ وَالثُّومَ وَالْكُرَّاثَ، فَلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةُ تَتَأَذَّى مِمَّا يَتَأَذَّى مِنْهُ بَنُو آدم)) (أخرجه مسلم:564)

’’جس نے پیاز ، لہسن اور گندنا کھایا تو وہ ہرگز ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کیونکہ فرشتے (بھی) ان چیزوں سے اذیت محسوس کرتے ہیں جن سے آدم کے بیٹے اذیت محسوس کرتے ہیں۔‘‘

توضیح و فوائد: اس سے معلوم ہوا کہ فرشتے بہت حساس ہیں۔ شعور اور ادراک رکھتے ہیں۔ انسانوں کی طرح محسوس بھی کرتے ہیں اور ان کی طبیعت میں بدرجہ غایت نفاست پائی جاتی ہے۔ وہ یہ بودار چیزوں سے نفرت کرتے ہیں اور سخت اذیت محسوس کرتے ہیں۔

1110۔ سیدہ عائشہ بیان رضی اللہ تعالی عنہا کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا عثمان  رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق فرمایا:

((أَلَا أَسْتَحِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:2401)

’’کیا میں اس آدمی کا حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔‘‘

توضیح وفوائد: عام طور پر انسان فرشتوں کو نہیں دیکھ سکتا لیکن فرشتے انسان کو دیکھتے ہیں۔ انسانوں کی طرح وہ صفت حیا سے بھی متصف ہیں۔ جو شخص جس قدر زیادہ صاحب ِحیا ہو فرشتے اس نسبت سے اس سے حیا کرتے ہیں۔