فتنوں اور آزمائشوں میں اہل ایمان کا کردار

﴿ وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ۝۱۵۵﴾ (البقرة:155)
یہ دنیا دکھوں کا گھر ہے، مسائل کا گڑھ ہے، مصیبتوں، پریشانیوں، الجھنوں ، تکلیفوں، امتحانوں اور آزمائشوں کا منبع و مرکز اور آماجگاہ ہے، یہاں ہر انسان کو زندگی میں ایک نہیں، بار بار اور مختلف دکھوں اور مصیبتوں سے گزرنا پڑتا ہے، کسی انسان کو کوئی استثنا نہیں ہے، نہ صرف یہ کہ کوئی استثنا نہیں ہے بلکہ جنہیں استثنا حاصل ہو سکتا تھا انہیں اس دنیا میں دوہری مشقتیں سہنا پڑتی ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
(قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ ﷺ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً))
’’کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! سب سے سخت آزمائشیں کن پر آتی ہیں ؟‘‘
((قال: الأنبياء))
’’تو آپ ﷺ نے فرمایا: انبیاء (علیہم السلام) پر‘‘
((ثمَّ الأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ)) (ترمذي، كتاب الزهد:2398)
’’پھر جو تقوی و پرہیز گاری میں ان کے ساتھ زیادہ مماثلت رکھتا ہو، اور پھر جو ان کے ساتھ زیادہ مماثلت رکھتا ہو۔‘‘
تو انبیاء علیہم السلام کہ جنہیں دنیا کی مصیبتوں اور پریشانیوں سے استثنا ہو سکتا تھا، انہیں نسبتا زیادہ تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
((قَالَ دَخَلْتُ عَلٰى رَسُولِ اللهِ وَهُوَ يُوعَكُ))
’’کہتے ہیں میں آپ سال کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺبخار کی تکلیف میں مبتلا تھے۔‘‘
((فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّكَ لَتُوعَكُ وَعْكًا شَدِيدًا))
’’تو میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسولﷺ ! آپ کو تو بہت سخت بخار ہے۔‘‘
((قَالَ أَجَلْ إِنِّي أُوعَكُ كَمَا يُوعَكُ رَجُلَانَ مِنْكُمْ))
’’تو فرمایا: ہاں، مجھے اتنا بخار ہوتا ہے جتنا تم میں سے دو آدمیوں کو ہوتا ہے۔‘‘
((قُلْتُ ذٰلِكَ أَنَّ لَكَ أَجْرَيْنِ))
’’میں نے عرض کیا، کیا یہ اس لیے ہے کہ آپ کے لیے دھرا اجر ہے ؟‘‘
((قَالَ أَجَلْ ذَلِكَ كَذَلِكَ))
’’تو فرمایا: ہاں، وہ ایسے ہی ہے۔‘‘
اور پھر فرمایا:
((مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُّصِيبُهُ أَذًى شَوْكَةٌ فَمَا فَوْقَهَا إِلَّا كَفَرَ اللهُ بِهَا سيِّئَاتِهِ كَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَهَا)) (بخاري ، كتاب المرض:5648)
’’فرمایا: کسی بھی مسلمان کو جو کوئی تکلیف پہنچتی ہے، کوئی کانٹا ہو یا اس سے کوئی بڑی چیز، بڑی تکلیف، تو اس کے گناہ اس سے گر جاتے ہیں، جیسے درخت اپنے پتے گراتا ہے۔‘‘
تو انبیاء علیہم السلام کہ جنہیں اللہ تعالی کی طرف سے استثنا حاصل ہو سکتا تھا ، ان پر زیادہ تکلیفیں، مصیبتیں اور آزمائشیں آئیں، پھر کوئی دوسرا شخص کیسے سوچ سکتا ہے، کہ وہ اس دنیا میں خیریت سے زندگی گزار لے گا، اسے کوئی پریشانی اور تکلیف نہیں آئے گی، بالخصوص مسلمان کہ مسلمان کا پرکھا جانا تو اک لازمی اور حتمی بات ہے، اللہ فرماتے ہیں:
﴿ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ۝۲﴾(العنكبوت:2)
’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ انہیں چھوڑ دیا جائے گا، وہ کہیں کہ ہم ایمان لائے اور انہیں آزمایا نہ جائے ‘‘
اس لیے سب سے پہلی بات یہ یاد رکھنے کی ہے کہ یہ دنیا دکھوں، مصیبتوں اور آزمائشوں کی جگہ ہے، کوئی آرام گاہ نہیں ہے، پھولوں کی سیج نہیں ہے، ہر شخص کو تکلیفوں سے لازما گزرتا ہے۔
تکلیفیں اور آزمائشیں کسی قسم کی ہوں گی ؟ اللہ تعالی نے کسی ایک تکلیف کو مخصوص تو نہیں کیا، کسی بھی نوعیت کی ہو سکتی ہے اور کسی بھی درجے کی ہو سکتی ہے، البتہ چند صورتوں کا ذکر ضرور فرمایا ، جن میں سے ایک مقام پر چند ایک کا ذکر یوں فرمایا:
﴿ وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ۝۱۵۵﴾ (البقرة:155)
’’اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں آزمائشوں کی جن جن شکلوں کا ذکر فرمایا، انسان کو زندگی میں عموماً انہیں راستوں سے پریشانیاں اور مصیبتیں آتی ہیں۔ ڈر اور خوف کی صورت میں کوئی مصیبت اور آزمائش آسکتی ہے، بھوک اور غربت و افلاس کی شکل میں کوئی مصیبت ہو سکتی ہے، مال و دولت میں کسی طرح نقصان اور خسارہ کرنے کی صورت میں آزمائش ہو سکتی ہے، کوئی جانی و مالی نقصان ہو سکتا ہے، کسی دوست ، عزیز اور قریبی رشتہ دار کی موت کی صورت میں کوئی آزمائش ہو سکتی ہے۔
تو مصیبتوں کی چند صورتوں کا ذکر فرمایا، اور وہ بھی ’’بشیءٍ‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے، یعنی کچھ خوف کچھ بھوک یا کچھ جان و مال کا نقصان وغیرہ۔ کیونکہ اگر سارے کا سارا خوف، یا کا ساری کی ساری بھوک وغیرہ کی آزمائش میں ڈال دیا جائے تو وہ آزمائش نہیں بلکہ ہلاکت ہوگی ، کچھ باقی ہی نہ رہے گا۔
تو پہلی بات یاد رکھنے کی یہ رہی کہ یہ دنیا دکھوں اور مصیبتوں کا گھر ہے اور کسی کو ان سے مفر نہیں۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ دکھ مصیبتیں اور آزمائشیں جو انسان پر آتی ہیں، وہ عموما انہی راستوں سے آتی ہیں کہ جن کا اس آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ تو گویا وہ چیزیں انسان کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتی ہیں کہ جو اس کے لیے آزمائش بن سکتی ہیں۔
انسان کی بنیادی ضرورتوں کے حوالے سے آپ نے سنا ہوگا کہ روٹی کپڑا اور مکان انسان کی بنیاد ضرورتیں ہیں، جو کہ ایک حد تک بات صحیح ہے مگر ناقص اور ادھوری ہے کیونکہ ان چیزوں کا تعلق انسان کی صرف جسمانی ضرورتوں سے ہے جبکہ انسان مرکب ہے روح اور بدن سے اور روح کی ضرور تمیں بدن کی ضرورتوں سے زیادہ اہم ہیں، چنانچہ شریعت کی روشنی میں انسان کی بنیادی ضرورتوں کو الضروریات الخمس کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، کہ انسان کی پانچ بنیادی ضرورتیں ہیں اور شریعت انسان کی ان پانچ بنیادی ضرورتوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے خصوصی توجہ اور احکامات صادر کرتی ہے اور وہ ہیں: دین، نفس (یعنی جان) نسل، مال اور عقل ۔
انسان کی بنیادی ضرورتوں کے سرفہرست جو ضرورت ہے وہ ہے دین کی ضرورت۔ دین کی ضرورت تمام ضرورتوں پر مقدم ہے، اس کے بعد دیگر ضرورتیں ہیں، چنانچہ شریعت میں ان ضرورتوں کی حفاظت کے احکام جاری کیے گئے ہیں۔
دین کی حفاظت کے لیے جہاد اور قتل مرتد کی سزا کو لازم قرار دیا، جان کی حفاظت کے لیے قصاص کو، مال کی حفاظت کے لیے چوری کی سزا کو نسل کی حفاظت کے لیے قذف اور زنا کی حد کو، اور عقل کی حفاظت کے لیے شراب کی سزا کو ۔ ان ضرورتوں کی حفاظت سے متعلق تفصیلی گفتگو کے لیے تو کوئی الگ نشست درکار ہوگی ، آج کی گفتگو تو اس کے صرف ایک حصہ سے متعلق ہوگی ، ان شاء اللہ۔ انسان کی ان ضرورتوں سے متعلق ایک اہم اور قابل غور بات ان کی ترتیب ہے، اور وہ یہ ہے کہ دین کی ضرورت تمام ضرورتوں پر مقدم ہے۔ انسان کی اس ضرورت کا خود اسلامی ممالک میں کیا حشر ہوتا ہے، کیا بے قدری ہوتی ہے، کس طرح لاپرواہی برتی جاتی ہے اور نظر انداز کیا جاتا ہے اور کیا مذاق اڑایا جاتا اور تضحیک کی جاتی ہے، یہ ایک الگ موضوع ہے، جسے بہت سی عقلیں سمجھنے سے قاصر ہیں اور بہت سی نفوس کو سننا گوارہ نہیں۔
تا ہم، ہم انسان کی دیگر بنیادی ضرورتوں میں سے جان اور مال کی ضرورت سے متعلق بات کرتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ جان اور مال کی حفاظت کے لیے معاشرے میں امن قائم ہونا ضروری ہے، بدامنی، افراتفری، ڈر اور خوف، شدت پسندی اور دہشت گردی سے جہاں انسان کی جان اور مال کو خطرہ ہوتا ہے وہاں وہ انسان کی زندگی کو اجیرن بھی بنا دیتے ہیں، اس کا سکون چھین لیتے ہیں، اسے بے چین و بے قرار کر دیتے ہیں حتی کہ زندگی موت سے بھی زیادہ خطرناک لگنے لگتی ہے، لہذا امن ایک بہت بڑی نعمت ہے اور انسان کی بہت بڑی ضرورت ہے۔
آپ امن کی اہمیت کا اندازہ کریں کہ اللہ تعالی نے قریش پر اپنے بے شمار انعامات میں سے جن انعامات کا حوالہ دیتے ہوئے اور احسان جتلاتے ہوئے انہیں اپنی عبادت کا حکم دیا، ان میں سے ایک امن بھی ہے، فرمایا:
﴿فَلْيَعْبُدُوْارَبِّ هٰذَا الْبَيْتِ﴾ (القريش:3)
’’انہیں چاہیے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں ۔‘‘
﴿ الَّذِیْۤ اَطْعَمَهُمْ مِّنْ جُوْعٍ ۙ۬ وَّ اٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ۠﴾ ( القریش:4)
’’کہ جس نے انہیں بھوک سے بچا کر کھانے کو دیا اور خوف سے بچا کر امن عطا کیا۔‘‘
یہ نہیں کہ اللہ تعالی نے انہیں صرف یہی دو نعمتیں عطا کی تھیں، اللہ تعالی نے انہیں یقینا بے شمار اور بڑی بڑی نعمتیں عطا کر رکھی تھیں، انہیں سارے عرب میں معزز و محترم بنایا، اپنے گھر کی خدمت کرنے کا اعزاز بخشا کہ جس کی وجہ سے پورے عرب میں انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
اس دور میں جہاں ہر طرف لوٹ مار اور چوری اور ڈکیتی ہوتی تھی ، قافلوں کو لوٹ لیا جاتا تھا، وہاں قریش کا قافلہ جہاں سے بھی گزرتا ان سے تعرض نہ کیا جاتا ، کوئی انہیں چھیڑ نے کی جرات نہ کرتا، بلکہ اگر کوئی اکیلا قریشی بھی کہیں سے گزر رہا ہوتا اور کوئی اس سے تعرض کرنا چاہتا تو اس کا ’’حرمی‘‘ یا ’’انا من حرم الله‘‘ کہہ دینا ہی کافی ہوتا ، کہ میرا اللہ کے حرم سے تعلق ہے تو وہ پیچھے ہٹ جائے ۔ (تفسير الطبري، سورة قريش)
تو ان تمام تر نعمتوں کے باوجود اللہ تعالی نے صرف ان دو نعمتوں کا ذکر کیا۔
﴿ الَّذِیْۤ اَطْعَمَهُمْ مِّنْ جُوْعٍ ۙ۬ وَّ اٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ۠﴾ ( القریش:4)
’’کہ بھوک کے وقت کھانا دیا اور ڈر اور خوف کے وقت امن عطا کیا۔‘‘
اسی طرح حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ آمِنًا فِي سِرْبِهِ مُعَافًى فِي جَسَدِهِ عِنْدَهُ قُوتُ يَوْمِهِ فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنيا)) (ترمذي ، كتاب الزهد:2346)
’’تم میں سے جس کسی کا دن اس طرح سے ہو کہ دو اپنے گھر اور اہل و عیال میں امن وامان سے ہو، جسمانی بیماریوں سے محفوظ ہو اور اس ایک دن کا راشن اس کے پاس موجود ہو، تو اس کے لیے گویا پوری دنیا سمیٹ کے رکھ دی گئی ہے۔‘‘
تو انسان کی زندگی میں امن اس قدر اہم ہے، مگر جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ آج کے اس دور کا اور پوری دنیا کا ایک بہت بڑا مسئلہ امن کے فقدان کا مسئلہ ہے، ہر طرف بدامنی، شدت پسندی، دہشت گردی اور انتہا پسندی کا دور دورہ ہے۔ یہ کسی ایک شہر اور کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے، پوری دنیا اس میں مبتلا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس بدامنی اور دہشت گردی کے اسباب کیا ہیں ، اس کے ذمہ داران کون ہیں اور اس کا حل کیا ہے؟
یوں تو آپ دہشت گردی کے اسباب ٹی وی اور اخبارات میں سنتے اور پڑھتے ہوں گے مگر وہ تمام تجزیے اور تبصرے لوگوں کے خود ساختہ معیار کے مطابق ہوتے ہیں ، لیکن اگر آپ ٹھیک ٹھیک اسباب جاننا چاہیں تو جان لیجیے کہ اس کے درست اور حقیقی اسباب صرف قرآن وحدیث کی روشنی میں ہی جانے جاسکتے ہیں۔
دہشت گردی کے حوالے سے یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ دہشت گردی انسانی معاشرے میں کوئی نیا اور انوکھا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ تاریخ انسانی اس سے بھری پڑی ہے، مشرکین مکہ کو ہی دیکھ لیں، وہ اپنے عقائد میں انتہاء پسند تھے، وہ اپنے مخالفین کے ساتھ برتاؤ میں شدت پسند تھے اور اپنے عقیدے اور نظریے کو بزور بازو نافذ کرنے کے لیے دہشت گردی بھی کرتے تھے۔
تو دہشت گردی انسانی معاشرے میں شروع ہی سے موجود رہی ہے، البتہ حالات کے ساتھ ساتھ اس کی شکلیں اور صورتیں بدلتی چلی آئی ہیں۔
ان ممالک میں بھی دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، سکولوں میں شوٹنگ کر کے بچوں کو مارا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں گذشتہ دنوں پشاور میں جو دہشت گردی کا واقعہ ہوا شاید اس صدی کا سب سے بڑا ہولناک واقعہ ہو۔ یقین نہیں آتا کہ کوئی انسان اس قدر بھی سنگدل، جاہل، احمق اور درندہ صفت ہو سکتا ہے، بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ انہیں درندہ کہنا بھی درندوں کی توہین ہے۔ آپ نے یقینا ایسے درندوں کو دیکھا ہوگا کہ جن کا کام ہی جانوروں کو شکار کرتا اور چیر پھاڑ کرتا ہے، مگر دیکھا گیا ہے کہ ان میں سے بھی کئی درندے نہ صرف یہ کہ بچوں کا شکار نہیں کرتے بلکہ ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ اور کوئی انسان کہ جسے اشرف المخلوقات ہونے کا دعوی ہو وہ ایسے گھٹیا پن کا ثبوت دے گا ، یقین نہیں آتا۔
کوئی مسلمان ایسا کر سکتا ہے، کوئی انصاف پسند غیر مسلم بھی اس پر یقین کرنے کو تیار نہ ہوگا۔ کیونکہ وہ بھی اسلام کی ان خوبیوں کے معترف ہیں کہ اسلام کسی مسلمان کو ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ میدان جنگ میں بھی بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں پر ہاتھ اٹھائے، چہ جائیکہ کہتا ہیں ہاتھ میں تھا سے علم کی جستجو میں مگن معصوم بچوں کو اس بے رحمی اور سفاکی سے قتل کر دیا جائے۔
اسلام کس قدر امن و سلامتی کا درس دیتا اور رحمت و شفقت کی تلقین کرتا ہے اور مسلمانوں نے کس طرح رحمت و شفقت کا نمونہ بن کر دکھایا، تاریخ اسلامی اس کی گواہ ہے۔ حضرت حبیب بن عدی میلہ کی شہادت کا واقعہ اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ حدیث میں ہے کہ آپ ﷺنے ایک خفیہ مشن پر یعنی دشمن کی نقل و حرکت معلوم کرنے کے لیے دس صحابہ کرام تجارت کو بھیجا اور ان کا امیر عاصم بن ثابت بھی ان کو بنایا۔ وہ چھپ چھپا کر جا رہے تھے، دن کو کہیں رک جاتے اور رات کو سفر کرتے ، جب وہ عسفان اور مکہ کے درمیان ایک جگہ پہنچے تو مشرکین کے دوسو تیر انداز ان کی تلاش میں لگ گئے ، انہیں ڈھونڈ نے لگے، حتی کہ جب ایک جگہ پہنچے جہاں ان سے پہلے ان دس صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے قیام کیا تھا تو وہاں انہیں کھجور کی ایک گٹھلی ملی جس سے انہیں اندازہ ہو گیا کہ وہ یہاں سے گئے ہیں، لہٰذا سمت کا اندازہ کرنا مشکل نہ رہا۔ گٹھلی سے اندازہ یوں ہوا کہ مدینہ منورہ کی کھجور کی گٹھلی سائز میں چھوٹی ہے، لہٰذا وہ سمجھ گئے کہ لوگ یہیں سے گزر کر گئے ہیں۔
مختصر یہ کہ ایک اونچی جگہ پر انہوں نے مسلمانوں کو گھیر لیا، کہنے لگے کہ نیچے اتر آؤ ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے۔ انہوں نے انکار کیا، تو مشرکین نے نیزوں کے وار کر کے ان میں سے سات (۷) کو شہید کر دیا۔
دو کو پھر در غلایا، جھوٹا وعدہ کیا ، وہ نیچے اتر آئے تو مشرکین نے انہیں باندھ دیا، ایک نے دیکھا کہ یہ تو ابھی سے دھوکہ دینا شروع کر دیا ہے، جانے سے انکار کر دیا، انہیں قتل کر دیا۔
دو کو حضرت خبیب اور حضرت زید بن الدثنہ رضی اللہ تعالی عنہما کو ساتھ لے جا کر بیچ دیا، ان لوگوں کے ہاتھوں جن کے بڑوں کو انہوں نے بدر میں قتل کیا تھا، تا کہ وہ بدلہ لے سکیں۔ حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ ان کی قید میں تھے کہ وہ حرمت کے مہینہ گزرنے کا انتظار کرتے رہے، پھر حدود حرم سے باہر لے جا کر صلیب پر چڑھا کر شہید کر دیا، مگر اس سے پہلے ایک ایسا عجیب و غریب اور رحمت و شفقت کا نادر واقعہ رونما ہوا۔ ایک عورت نگرانی کر رہی تھی، اس کے ایک بچے کے ہاتھ میں ایک تیز دھار چھری تھی، وہ بچہ چلتے چلتے حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ ان کے پاس آگیا ، ماں نے دیکھا تو اس کی چیخیں نکل گئیں، کہ دشمن جسے قتل کے لیے باندھ رکھا ہے، اس کے ہاتھ میں چھری اور بچہ ، کیا وہ اس کو چھوڑ سکتا ہے، عقل نہیں مانتی ، مگر اسلام کی تعلیمات نے یہ سب کچھ ممکن بنا دیا۔ فرمایا تم سمجھتی ہو کہ میں تمہارے بچے کو قتل کر دوں گا، میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا اور بچے کو چھوڑ دیا۔
غور فرمائیے ! یہ ہیں اسلام کی تعلیمات ، ایک بچے مسلمان نے ایک ایسی صورت حال میں بھی کہ جہاں اپنی جان بچانے کے لیے کم از کم بچے کو ڈھال تو بنایا جا سکتا تھا مگر انھوں نے وہ بھی پسند نہ کیا ، تو کوئی مسلمان کیسے دہشت گرد ہو سکتا ہے، اس کی بنیاد پرستی کو دہشت گردی کا معنی کیسے پہنایا جا سکتا ہے ؟ اور اگر کوئی مسلمان دہشت گردی کے کسی ایسے کام میں ملوث پایا جائے تو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ اسلام کی تعلیمات سے ناواقف ہے یا وہ اسلام کا نام استعمال کر رہا ہے۔
اللہ تعالی ہمیں اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
…………………