دین کی ضرورت و اہمیت اور اس سے دوری کے اسباب

﴿لَقَدْ جِئْنٰكُمْ بِالْحَقِّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ۝۷۸﴾ (الزخرف:78)
’’ہم تمھارے پاس حق لے کر آئے تھے مگر تم میں سے اکثر کو حق ناگوار تھا ۔‘‘
دین انسان کی بنیادی ضرورت ہے، اور ایسی بنیادی ضرورت ہے، جیسا کہ اکل و شرب (کھانا پینا ہے ) بلکہ حقیقت میں اُس سے بھی بڑھ کر، اور دو یوں کہ سب جانتے ہیں کہ کھانا پینا زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے اور کھانا پینا اگر میسر نہ آئے تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا ہے؟ انسان مر جاتا ہے اور مرنا تو ہر انسان کو ہر حال میں ہے ہی، انسان مر گیا تو بات ختم، کھانے پینے کی ضرورت بھی ختم۔
لیکن دین ایک ایسی ضرورت ہے، کہ انسان کے فوت ہو جانے پر اس کی اہمیت ختم نہیں ہوتی، زندگی میں دین سے دور اور محروم رہنے کا معاملہ رفع دفع نہیں ہوتا، کا لعدم نہیں ہو جاتا، بلکہ دین سے تعلق یا عدم تعلق کی بنیاد پر نتائج کا سامنا کرنے کا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے۔ تو دین چونکہ انسان کی دنیا اور آخرت کے لیے ایک بنیادی ضرورت ہے، اس لیے اللہ تعالی نے انسان کو اس کی مکمل رہنمائی دی ہے، اس کی ضروریات کی پہچان ، ان کا شوق اور جستجو، ان کے حصول کی استعداد انسان کی فطرت میں ودیعت کر دی ہے، اور ان کے حصول کی کوششوں کے لیے اسے عقل اور فہم عطا فرمائی ، اس کی ترغیب و تاکید اور تذکیر کے لیے انبیاء و رسل السلام کو مبعوث فرمایا جو لوگوں کو اللہ تعالی کی آیات پڑھ کر سناتے، کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے اور ان کا تزکیہ کرتے۔ اور صرف انسان ہی نہیں، بلکہ تمام مخلوقات کو اللہ تعالی نے ان کی ضروریات کے لیے ہدایت و رہنمائی فرمائی ہے۔
موسی علیہ السلام اللہ تعالی کا پیغام لے کر فرعون کے پاس گئے ، جب اللہ تعالی نے اُن سے فرمایا:
﴿فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰی۝۴۴﴾ (طه:47)
’’فرمایا: جاؤ اس کے پاس اور کہو کہ ہم تیرے رب کے رسول ہیں، بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے چھوڑ دے اور ان کو تکلیف نہ دے۔‘‘
﴿قَالَ فَمَنْ رَّبُّكُمَا یٰمُوْسٰی۝﴾
’’فرعون نے کہا: اے موسیٰ تم دونوں کا رب کون ہے؟‘‘
﴿قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْۤ اَعْطٰی كُلَّ شَیْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰی۝﴾(طه:50)
’’فرمایا: ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت بخشی، تخلیق فرمائی، پھر اس کو ہدایت رہنمائی بخشی ، راستہ بتایا۔‘‘
فرعون کے سوال کے جواب میں یوں تو اتنا کہہ دیتا ہی کافی تھا کہ اللہ ہمارا رب ہے، مگر اس کے بجائے ذرا تفصیل سے جواب دیا تا کہ شاید وہ غور کر کے نصیحت حاصل کرلے:
﴿ لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰی۝۴۴﴾ (طه:44)
’’شاید وہ نصیحت قبول کر لے یا ڈر جائے ۔‘‘
اور تفصیلی جواب میں گویا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ رب وہ ہے جو خالق ہے اور تُو تو ایک مخلوق ہے، مخلوق کو رب ہونے کا دعوی زیب نہیں دیتا۔
اور دوسری بات اس جواب میں یہ شامل کر دی کہ اس رب نے اپنی مخلوقات کو تخلیق دے کر بے یارو مددگار نہیں چھوڑ دیا بلکہ اپنی پہچان اور انسان کو اس کی ضروریات کے حوالے سے پوری پوری رہنمائی بھی دی ہے جو کہ اس کی فطرت میں ڈال رکھی ہے، اپنے رب کو پہچاننے کے لیے تو بھی اپنی فطرت سے رہنمائی حاصل کر سکتا ہے۔
﴿قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْۤ اَعْطٰی كُلَّ شَیْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰی۝﴾
’’ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو ساخت، شکل اور ہیئت بخشی اور پھر ہدایت دی۔‘‘
اس آیت کریمہ پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے اس کے اندر ایک بہت بڑی حقیت بیان کی گئی ہے، جس پر غور کرنے سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور جسم و جان اور قلب وجبین اللہ کی عظمت کے سامنے بے ساختہ جھک جاتے ہیں۔
اس نے ہر چیز کو تخلیق فرمانے کے بعد اُسے ہدایت و رہنمائی بخشی ہے، اس ہدایت سے مراد ہدایت ایمانی نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد وہ ہدایت و رہنمائی ہے جو اللہ تعالی نے تمام مخلوقات کو اُن کی ضرورتوں کی پہچان اور ان کے حصول کی کوششوں کے لیے اُس کی فطرت
میں ودیعت کر رکھی ہے۔ ہر مخلوق کی ضرورتیں مختلف یا اُن کے طریقے مختلف ہیں اور ہر ہر مخلوق کو اپنی اپنی ضرورتوں اور ان کے حصول کے طریقوں کا فطرت کے ذریعے بخوبی علم دیا گیا ہے۔
اب غور کیجئے کہ ایک نو مولود اور نوزائیدہ بچہ اپنی زندگی اور بقا کے لیے اپنی خوراک اور دیگر لوازمات زندگی کو کس طرح پہچانتا ہے، بالکل نیا نیا پیدا ہونے والا بچہ جو ابھی چند منٹس پہلے ہی دنیا میں آیا ہو اس کے گال کو اگر ہاتھ سے چھوئیں تو جس گال کو چھوا گیا ہو، بچہ اپنا منہ اس طرف گھما لیتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اسے دودھ دیا جانے لگا ہے اور جب فیڈر اس کے منہ میں ڈالا جائے تو وہ نپل کو زبان اور تالو کے درمیان پریس کرتا ہے جس سے دودھ اُس کے منہ میں آنے لگتا ہے۔
وہ بیک وقت دودھ بھی نگل رہا ہوتا ہے اور سانسیں بھی لے رہا ہوتا ہے ان کو کہتے ہیں Newborn reflexes – یعنی وہ حرکات و سکنات جو ایک نومولود بچہ رد عمل کے طور پر بے ساختہ کرنے لگتا ہے۔
اب اس میں حیران کن بات یہ ہے جو کہ کسی معجزے سے کم نہیں اور جو غور طلب بھی ہے کہ یہ Reflexes ایک تجربے اور ٹرینگ کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کسی شخص کا کوئی کام پہلی بار کرنا اور نہایت روانی اور مہارت سے کرنا ، بلا جھجک اور بلا ہچکچاہٹ اور بے ساختہ کرنے کا مطلب ہوتا ہے کہ آدمی کو پہلے سے اس کا تجربہ حاصل ہے در نہ جب کوئی شخص کوئی کام پہلی بار اور بغیر کسی سابقہ تجربے کے کرتا ہے تو بڑا سنبھل سنبھل کر اور سوچ سوچ کر اور ہچکچاہٹ کے ساتھ کرتا ہے مگر کوئی آدمی بلکہ ایک نومولود بچہ جب بے ساختہ کرنے لگے تو تعجب ہوتا ہے ایک نو مولود بچے نے وہ تجربہ بھلا کہاں سے حاصل کیا ہوگا! یہ تو وہ ہدایت و رہنمائی ہے جو اللہ تعالی نے انسان کی فطرت میں رکھ رکھی ہے، جس سے انسان اپنی بنیادی ضرورتوں کو پہچانتا اور سمجھتا ہے، ورنہ دنیا کا کوئی سکول، کوئی کالج اور یونیورسٹی اور ٹریننگ سینٹر ایسا نہیں ہے جو ایک نومولود بچے کو یہ ساری باتیں سکھا سکے۔
یہ صرف وہی ذات اور ہستی ہے ﴿ الَّذِیْۤ اَعْطٰی كُلَّ شَیْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰی﴾ جس نے ہر چیز کو پیدا فرمایا اور پھر رہنمائی دی ۔
تو جب اللہ تعالی نے تمام مخلوقات کو، بالخصوص انسان کو اُس کی اس مختصری اور عارضی دنیوی زندگی میں جسمانی بقا کے لیے اس قدر مکمل اور بھر پور رہنمائی دی ہے تو کیا وہ اُس کو اُس کی حقیقی اور ابدی زندگی کے بارے میں بے یارو مددگار اور بھٹکتا ہوا چھوڑ دے گا؟ یقینًا نہیں اللہ تعالی نے انسان کو اس کی اخروی اور ابدی زندگی کے لیے بھی یقینًا پوری پوری رہنمائی دی ہے۔
تو دین انسان کی بنیادی ضرورت ہے، اُس کی دنیوی زندگی کے لیے بھی اور اخروی زندگی کے لیے بھی ، اس سے ہرگز انکار کیا جاسکتا ہے نہ اعراض، کیونکہ اس کی ضرورت، اس کی پہچان ، اس کی طرف میلان انسان کی فطرت میں رکھ دیا گیا ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا: ((مَا مِنْ مَوْلُودِ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ))
’’جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔‘‘
((أَبَوَاهُ يُهَوّدَانِهِ أو يُنَصِّرَانِهِ أو أَوْ يُمَحِّسَانِهِ)) (صحيح البخاري كتاب الجنائز:1357)
’’پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی ، عیسائی یا مجوسی بناتے ہیں ۔‘‘
پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے کہ اس حوالے سے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھ لو:
﴿ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا ؕ لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ؕ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ﴾ (الروم:30)
’’فطرت جس پر اللہ تعالی نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے، اللہ تعالی کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے۔‘‘
جس فطرت پر اللہ تعالی نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے وہ فطرت اسلام ہے، اُس میں ہرگز ہرگز کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی، اس کے علاوہ جو دوسرے عقائد و نظریات اور ادیان و مذاہب ہیں وہ آدمی اپنے ماں باپ، اپنی کمیونٹی ، اپنے ماحول اور اپنے اساتذہ سے متاثر ہو کر اپنا سکتا ہے، مگر پیدائشی طور پر فطرت کے ذریعے جو عقیدہ اسے دیا جاتا ہے وہ عقیدہ اسلام ہے عقیدہ توحید ہے، ایک اللہ کی پہچان ہے۔
چودہ سو سال پہلے اسلام جو حقیقت بیان کر چکا ہے وہ اختیار کو آج اپنی تحقیق سے معلوم ہو رہی ہے۔
ڈاکٹر جسین پیرٹ Dr Justin Barett – آکسفورڈ یونیورسٹی میں سینئر ریسرچر ہیں، انہوں نے مختلف عمر کے بہت سارے بچوں پر ریسرچ کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ عقیدہ توحید اور ایک اللہ پر ایمان لانے کا میلان اور رجحان فطری طور پر انسان کے اندر موجود ہے وہ اپنے بارے میں جاننے کی جستجو رکھتے ہیں اور جب انہیں بتایا جاتا ہے کہ God نے انہیں پیدا کیا ہے تو وہ فورا یہ نظریہ قبول کر لیتے ہیں، اور جب انہیں کہا جائے کہ انسان اتفاق سے اور خود بخود ہی وجود میں آیا ہے تو ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔
تو جہاں ایک طرف یہ حقیقت ہے کہ دین انسان کی بنیادی اور فطری ضرورت ہے، وہاں دوسری طرف یہ بھی اک حقیقت ہے کہ لوگوں کی اکثریت اس حقیقت سے واقف نہیں ہے۔
﴿وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَۗۙ۝۳۰﴾(سبا:28)
’’لیکن اکثر لوگ یہ جانتے ہی نہیں ہیں ۔‘‘
اور اُدھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لوگوں کی غالب اکثریت دین کو نا پسند کرتی ہے:
﴿لَقَدْ جِئْنٰكُمْ بِالْحَقِّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ۝۷۸﴾ (الزخرف:78)
’’ہم تو حق تمہارے پاس لے آئے مگر تم میں کے اکثر لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں۔‘‘
سوال یہ ہے کہ دین انسان کی ضرورت ہونے اور فطرت میں اس کی طرف میلان اور رجحان ہونے کے باوجود لوگ اسے ناپسند کیوں کرتے ہیں، اس سے نفرت کیوں کرتے ہیں۔ تو دین کو ناپسند کرنے کی متعدد وجوہات ہیں، ان میں سے چند ایک یہ ہیں: ایک یہ کہ بنیادی طور پر انسان پابندی کو نا پسند کرتا ہے اور دین تو سارے کا سارا ہے ہی پابندیوں کا نام ۔ اور جس نے پیدا کیا ہے، جس نے جسم اور جان عطا کی ہے جس نے عقل دی ہے ، جس نے قوت گویائی ، قوت سماعت، قوت بصارت اور قوت شامہ عطا کی ہے، جس نے صحت و تندرستی دی ہے، جو رزق دیتا ہے، جو دولت دیتا ہے، جو اولا د دیتا ہے، جو خوشیاں دیتا ہے، جس نے پوری کائنات انسان کے لیے مسخر کر دی ہے، اس کا حق بنتا ہے وہ جو چاہے پابندیاں لگائے۔ تمہیں منظور نہیں ہے ا نہ سہی، اس کی دی ہوئی ساری چیزیں واپس کر دو، اور لے آؤ جہاں سے تمہیں آزادی ملتی ہو۔ ایک وفادار، احسان مند اور فرمانبردار بندے کے لیے یہ دنیا آزادی کی جگہ ہرگز نہیں ہے بلکہ جیل اور قید خانہ ہے جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے۔ ((الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ))
(صحيح مسلم ، کتاب الزهد والرقائق:2956)
’’یہ دنیا بندہ مؤمن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت۔‘‘
اور قید خانے میں کسی قیدی کی مرضی کا کیا تصور ہے! وہاں تو سراسر پابندی ہی پابندی ہوتی ہے، کھانا پینا، سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا ایک ایک قدم پر پابندی ہوتی ہے۔ لہٰذا ایک بچے، وفادار اور احسان مند مسلمان کا شیوہ یہ ہونا چاہیے، جیسا کہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ براہ نے فرمایا ہے: ((إِنْ إِسْتَطَعْتَ أَنْ لَا تَحُكَّ رَأْسَكَ إِلَّا بِأَثَرٍ فَافْعَلْ)) (الجامع الأخلاق الراوي وآداب السامع ، رقم:174 ، ج:1 ، ص:142)
’’ اگر تم یہ بھی کر سکو کہ تمہیں سر کھجانے کی حاجت ہو تو اس کے لیے بھی تمہارے پاس کوئی نہ کوئی دلیل ہو تو کر گزرو۔‘‘
ہاں تو بات ہو رہی تھی کہ دین کو نا پسند کرنے کی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان فطری طور پر پابندی کو ناپسند کرتا ہے اور اسلام چونکہ سراسر پابندیوں کا نام ہے، اس لیے وہ اس سے راہ فرار اختیار کرتا ہے، بلکتا ہے اور ایسے بدکرتا ہے جیسے اللہ فرماتے ہیں:
﴿فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِیْنَۙ۝﴾(المدثر:49)
’’انہیں کیا ہو گیا ہے کہ نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں۔‘‘
﴿كَاَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَةٌۙ۝۵۰﴾ (المدثر:50)
’’گویا کہ وہ بد کے ہوئے گدھے ہیں ۔ ‘‘
﴿فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍؕ۝۵۱﴾ (المدثر:51)
’’جو شیر سے ڈر کر بھاگ پڑے ہیں۔‘‘
یعنی جب ان سے دین کی بات کی جاتی ہے ، جب کوئی نصیحت کی جاتی ہے تو حق سے یوں نفرت و اعراض کرنے لگتے ہیں جیسے وحشی خوفزدہ گدھے ہوں جو شیر سے ڈر کر بھاگے ہوں۔ تو دین کو نا پسند کرنے اور اس سے نفرت کرنے کی ایک وجہ یہ ہوئی کہ انسان پابندی سے گھبراتا ہے ، اور کچھ ستی اور کسل کی بیماری بھی اسے لاحق ہوتی ہے۔ دین کو ناپسند کرنے ، اور اس سے نفرت کرنے کی ایک بڑی اور مشہور وجہ شیاطین کا انسان کو ورغلانا ، بر کانا اور اکسانا بھی ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ فرماتے ہیں:
((وَإِنِّي خَلَقْتُ عِبَادِي حُنَفَاءَ كُلَّهُمْ))
’’میں نے اپنے تمام بندوں کو ایک ہی فطرت پر دین کی طرف میلان اور رجحان رکھنے والا بنایا ہے۔‘‘
((وَإِنَّهُمْ أَتَتْهُمُ الشَّيَاطِينُ فَاجْتَا لَتْهُمْ عَنْ دِينِهِمْ))(صحیح مسلم:2865)
’’مگر شیاطین ان کے پاس آئے اور انہیں ان کے دیں سے پھیر دیا۔‘‘
شیاطین کسی طرح انسان پر حملہ آور ہوتے ہیں اور کن کن راستوں سے اور کن کن حیلوں اور طریقوں سے انہیں بہکانے اور گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ قرآن وحدیث میں بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے بس اتنا جان لیجئے کہ وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، کوشش ضرور کرتے ہیں ۔ انسان کی زندگی کے ہر شعبے اور ہر معاملے میں آتے ہیں ۔
حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ الشَّيْطَانَ يَحْضُرُ أَحَدَكُمْ عِنْدَ كُلِّ شَئٍ مِنْ شَانِهِ حَتَّى يَحْضُرُهُ عِنْدَ طَعَامِهِ)) (صحيح مسلم ، كتاب الأشربة:2033)
’’شیطان تم میں سے ہر کسی کے پاس ، اس کے ہر معاملے میں آتا ہے حتی کہ کھانے کے معاملے میں بھی آتا۔‘‘
اسی طرح دین سے ناپسندیدگی اور نفرت کی ایک وجہ خواہشات کی پیروی ہے۔ خواہشات نفس دین سے دوری اور نفرت کا ایک نہایت ہی خطر ناک سبب ہے ، کیونکہ خواہشات نفس انسان کو احساس نہیں ہونے دیتے کہ وہ دین کی نہیں بلکہ خواہشات کی پیروی کر رہا ہے۔
اور خواہشات اور دین دو متضاد چیزیں ہیں، جیسا کہ قرآن پاک میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعِ الْهَوٰی فَیُضِلَّكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ؕ ﴾ (ص:26)
’’اے داود (علیہ السلام) ہم نے تمھیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے پس لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کیجئے اور خواہشات کے پیچھے نہ چلیں ، کہ وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گی ۔‘‘
اور فرمایا:
﴿فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَهْوَآءَهُمْ ؕ﴾ (القصص:50)
’’اے پیغمبر علیہ السلام! اگر یہ لوگ آپ سے کم ) کی بات نہ مانیں تو یقین کر لیں کہ یہ صرف اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں۔‘‘
﴿وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰىهُ بِغَیْرِ هُدًی مِّنَ اللّٰهِ﴾(القصص:50)
’’اور اُس سے بڑھ کر بہ کا ہوا کون ہے جو اپنی خواہشات کی پیروی کر رہا ہو بغیر اللہ کی رہنمائی کے۔‘‘
تو خواہشات نفس دین سے نفرت کا ایک خطر ناک سبب ہے۔
اسی طرح ایک سبب دنیا کی کشش بھی ہے، دنیا کی کشش انسان کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور انسان دین سے دور ہو جاتا ہے۔ اس کو بھی قرآن وحدیث میں خوب تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ لَوْ لَاۤ اَنْ یَّكُوْنَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ یَّكْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُیُوْتِهِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّةٍ وَّ مَعَارِجَ عَلَیْهَا یَظْهَرُوْنَۙ۝۳۳
وَ لِبُیُوْتِهِمْ اَبْوَابًا وَّ سُرُرًا عَلَیْهَا یَتَّكِـُٔوْنَۙ۝۳۴
وَ زُخْرُفًا ؕ﴾ (الزخرف:33 تا 35)
’’اور اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ سارے لوگ ایک ہی طریقے کے ہو جائیں گے، تو ہم رحمن سے کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتیں اور ان کی سیڑھیاں، جن سے وہ اپنے بالا خانوں پر چڑھتے ہیں اور ان کے دروازے، اور ان کے تخت جن پر وہ تکیے لگا کر بیٹھتے ہیں سب چاندی اور سونے کے بنوا دیتے ۔‘‘
یعنی اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ تمام کفر کی طرف مائل ہو جائیں گے تو ہم کافروں کے گھر سونے چاندی کے بنا دیتے، اس لیے کہ یہ تو محض متاع دنیا ہے،﴿وَ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِیْنَ۠﴾ ’’ آخرت تیرے رب کے ہاں صرف متقین کے لیے ہے۔‘
تو دین سے نفرت کی مزید کئی وجوہات ہیں ۔
تا ہم دین کو نا پسند کر کے، اس سے نفرت کر کے اور اسے پس پشت ڈال کر اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ کامیاب ہو گیا ہے اور اسے دین کی ضرورت نہیں ہے اور یہ کہ اس سے کوئی نقصان نہیں ہوا نہایت ہی نادان ہے۔
دنیا میں جو بھی فتنہ و فساد بر پا ہے دین سے دوری اور خواہشات کی پیروی ہی کی وجہ سے ہے، قرآن و حدیث میں یہ خوب وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حق جب خواہشات کے تابع ہو جاتا ہے تو دنیا میں ہر قسم کا بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿وَ لَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَهْوَآءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهِنَّ ؕ بَلْ اَتَیْنٰهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُّعْرِضُوْنَؕ۝۷۱﴾ (المؤمنون:71)
’’اور اگر حق ان کی خواہشات کے پیچھے چلے تو سب آسمان اور زمین ضرور بگڑ جائیں اور جو کوئی ان میں ہے، بلکہ ان کی نصیحت لے کر ہم ان کے پاس آئے ہیں تو وہ اپنی نصیحت سے منہ موڑنے والے ہیں ۔‘‘
اللہ تعالی ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، اور ان خوش نصیبوں میں شامل فرمائے جن کے بارے میں فرماتا ہے:
﴿الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗ ؕ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۱۸﴾ (الزمر:18)
’’جو بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالی نے ہدایت بخشی ہے اور یہی دانش مند ہیں ۔‘‘
……………….