غیر اللہ کے لیے نذر و نیاز کا بیان
484۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا:
((رَأَيْتُ عَمْرَو بْنَ عَامِرِ بْنِ لُحَيِّ الْخُزَاعِي يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ، وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ سَيِّبَ السَّوَائِب)) (أخرجه البُخَارِيَّ: 3521، وَمُسْلِمٍ2856)
’’میں نے عمرو بن عامر بن لحي خزاعی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی انتڑیاں گھسیٹ رہا تھا۔ اور یہی وہ پہلا شخص ہے جس نے (عرب میں) سائبہ (وہ اونٹنی جو زمانہ جاہلیت میں کسی منت وغیرہ کی وجہ سے آزاد وہ
چھوڑی جاتی تھی) کی رسم ایجاد کی تھی۔ “
توضیح وفوائد: مطلب یہ ہے کہ عربوں میں غیر اللہ کی نذر و نیاز کا رواج نہیں تھا۔ یہ عمرو بن لحیی ہی تھا جس نے بت پرستی اور غیر اللہ کی نذر و نیاز شروع کی۔ جس طرح غیر اللہ کی عبادت شرک ہے، اسی طرح اللہ کے سوا کسی اور کی نذر ماننا بھی شرک ہے۔
486۔ سیدنا کردم بن سفیان رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے ایسی نذر کے متعلق پوچھا جو زمانہ جاہلیت میں مانی گئی ہو۔ نبی کریمﷺ نے دریافت فرمایا:
((أَلِوَثَنٍ أَوْ لِنُصُبٍ؟)) ’’ کیا (یہ نذر) کسی بت، مورتی یا نصب شدہ کسی پتھر کے لیے ہے؟“
انھوں نے کہا: نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، فرمایا:
((فَأَوْفِ لِلهِ تَبَارَكَ وَتَعَالٰى مَا جَعَلْتَ لَهُ)) (أخرجه أحمد: 15456، وابن ماجه: 2131، والطبراني في الكبير: 74/25)
’’تو اللہ تعالی کے لیے تو نے جو نذر مانی ہے اسے پورا کرو۔‘‘
487- سیدنا ثابت بن ضحاک رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺکے دور میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ مقام بوانہ پر ایک اونٹ ذبح کرے گا۔ وہ نبی ﷺ کے پاس آیا اور پوچھا کہ میں نے بوانہ میں اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے۔ نبیﷺ نے دریافت فرمایا:
((هَلْ كَانَ فِيهَا وَثنٌ مِّنْ أَوْثَانِ الْجَاهِلِيَّةِ يُعْبَدُ؟))
’’کیا وہاں جاہلیت کا کوئی بت تھا جس کی عبادت ہوتی رہی ہو؟‘‘
صحابہ نے کہا: نہیں۔ آپ نے پوچھا:
((هَلْ كَانَ فِيهَا عِيدٌ مِنْ أَعْيَادِهِمْ))
’’ کیا وہ جگہ ان کی میلہ گاہ تھی؟‘‘
صحابہ نے کہا: نہیں، تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( أَوْفِ بِنَذْرِكَ، فَإِنَّهُ لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ، وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ)) (أخرجه أبو داود: 3313)
’’اپنی نذر پوری کر لوں تحقیق ایسی نذر پوری نہیں کی جائے گی جس میں اللہ کی نافرمانی ہو اور نہ وہ پوری کی جائے گی جو انسان کے اختیار میں نہ ہو۔‘‘
488۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی: اللہ کے رسول! میں نے نذر مان رکھی ہے کہ میں فلاں فلاں جگہ جانور ذبح کروں گی، جہاں اہل جاہلیت ذبح کیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے اس سے پوچھا:
((لصنحر)) ’’کیا وہاں کوئی مورتی تھی جس کے لیے وہ ذبح کرتے تھے؟‘‘
اس نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ نے پھر پوچھا:
((لِوَثَنٍ) ’’تو کیا کوئی بت تھا جس کے لیے ذبح کرتے تھے؟‘‘
اس نے کہا: نہیں۔
آپ ﷺنے فرمایا: ((أَوْ فِي بِنَذْرِكِ)) ’’ اپنی نذر پوری کرلو‘‘(أخرجه أبو داود:3312)
توضیح و فوائد: جس جگہ یا جن دنوں میں غیر اللہ کی نذر و نیاز دی جاتی ہو اس جگہ یا ان دنوں میں اللہ کے لیے نذر و نیاز دینا یا جانور ذبح کرنا بھی ناجائز ہے تاکہ مشرکین کی مشابہت نہ ہو۔
489۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نب یکریمﷺ سے بیان کرتی ہیں: آپ ﷺنے فرمایا:
((مَنْ نَذَرَ أَنْ يُّطِيْعَ اللهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَّعْصِيَهُ فَلَا يَعْصِهِ)) (أَخْرَجَةُ البُخَارِي: 6696، 6700)
’’جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کی نذر مانی ہو، اسے وہ نذر پوری کرنی چاہیے اور جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی نذر مانی ہو، وہ اسے پورا نہ کرے۔‘‘
490۔ سیدنا عبد الله بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو آدمیوں کو آپس میں بندھے ہوئے دیکھا جو بیت اللہ کی طرف (حج کے لیے) جارہے تھے۔ رسول اللہ ﷺنے پوچھا:
((مَا بَالُ الْقِرَانِ؟))
’’ ان دونوں نے اپنے آپ کو کیوں باندھا ہوا ہے؟‘‘
وہ دونوں کہنے لگے: اللہ کے رسول! ہم نے آپس میں بندھ کر بیت اللہ تک پیدل سفر کرنے کی نذر مانی ہے۔
رسول اللهﷺ نے فرمایا: ((لَيْسَ هٰذَا نَذرًا)) ’’ یہ کوئی نذر نہیں ‘‘(أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ: 6714)
چنانچہ آپ نے ان کی رسی کاٹ دی۔
491۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دوران خطبہ میں ایک اعرابی کو دھوپ میں کھڑے دیکھا تو اس سے پوچھا:
((مَا شَأْنُكَ؟)) ’’ تم یہاں دھوپ میں کیوں کھڑے ہو؟‘‘
اس نے جواب دیا: اللہ کے رسول! میں نے یہ نذر مانی ہے کہ میں بدستور دھوپ ہی میں کھڑا رہوں گا جب تک کہ آپ خطبہ سے فارغ نہ ہو جائیں، رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((لَيْسَ هٰذَا نَذْرًا، إِنَّمَا النَّذْرُ مَا ابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ)) (أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ:6975)
’’یہ (شرعی) نذر نہیں، نذر صرف وہی ہے جس کے ذریعے سے اللہ عز وجل کی رضا اور خوشنودی حاصل کی جائے۔ ‘‘
492۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبیﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ آپ نے ایک آدمی کو کھڑے دیکھا۔ آپﷺ نے لوگوں سے اس کے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا: یہ ابو اسرائیل ہے۔ اس نے نذر مانی تھی کہ وہ روزے کی حالت میں کھڑا رہے گا بیٹھے گا نہیں، نہ سایہ لے گا اور نہ کسی سے گفتگو ہی کرے گا۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
((مُرْهُ فَلْيَتَكَلَّمْ، وَلْيَسْتَظِلَّ، وَلْيَقْعُدْ، وَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ)) (أَخْرَجَهُ البخاري: 6704)
’’ اس سے کہو کہ وہ گفتگو کرے، سایہ لے، بیٹھ جائے اور اپنا روزہ پورا کرے۔
493۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا جو اپنے دو بیٹوں کے سہارے چل رہا تھا۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا:
((مَا بَالُ هٰذَا؟ ’’ اسے کیا ہوا ہے؟‘‘
لوگوں نے عرض کی کہ اس نے پیدل چلنے کی نذر مانی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ اللهَ عَنْ تَعْذِيبِ هٰذَا نَفْسَهُ، لَغَنِيٌّ)) ( أَخْرَجَهُ البُخَارِيِّ: 1865، 6701، ومُسْلِم:1642)
’’یہ شخص اپنی جان کو تکلیف دے رہا ہے جس سے اللہ تعالیٰ یقینًا بے نیاز ہے۔‘‘
آپ ﷺ نے اسے حکم دیا کہ وہ سواری پر سوار ہو کر جائے۔
توضیح و فوائد: اللہ کی نافرمانی کی نذر مانا حرام ہے، مثلا: کوئی شخص یہ نذر مانے کہ میں فلاں بندے سے کبھی بات نہیں کروں گا تو ایسی نذر ماننا حرام ہے اور اگر مان لے تو اسے چھوڑ نا فرض ہے اور اس پر کوئی کفارہ نہیں۔ دوسری وہ نذر جو بظاہر اللہ کی نافرمانی تو نہیں لیکن وہ فضول کام ہے تو ایسی نذر کو چھوڑنا بھی ضروری ہے اور اس کا کفارہ ہوگا جیسا کہ حدیث (490، 491) میں ہے۔ نذر کی تیسری صورت یہ ہے کہ نذر اللہ اور رسول ﷺکی اطاعت کے زمرے میں ہونی چاہیے، مثلا: یہ کہ کوئی شخص یہ نذر مانے کہ وہ اللہ کے لیے جانور ذبح کرے گا تو اسے ہر ممکن طور پر یہ نذر پوری کرنی چاہیے اور اگر نذر پوری کرنے سے عاجز ہو تو اس کا کفارہ ادا کرے۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ کسی مباح اور جائز کام کی نذر مانی، پھر معلوم ہوا کہ دوسرا کام اس سے بہتر ہے تو نذر کا کفارہ ادا کر کے اس سے بہتر کام کرے۔
494۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
((إِنَّ النَّذْرَ لَا يُقَدِّمُ شَيْئًا وَّلَا يُؤَخِّرُ، وَإِنَّمَا يُسْتَخْرَجُ بِهِ مِنَ الْبَخِيلِ)) (أَخْرَجَةُ البُخَارِي: 6692، ومُسْلِم: 1639، 1640)
’’ ندر کسی چیز کو آگے پیچھے نہیں کر سکتی، اس کے ذریعے سے تو صرف بخیل سے مال نکالا جاتا ہے۔“
صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
((إِنَّهُ لَا يَرُدُّ شَيْئًا)) ’’بے شک نذر کسی شے کو ٹال نہیں سکتی۔ ‘‘
495۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا:
((لَا يَأْتِي ابْنَ آدَمَ النَّذْرُ بِشَيْءٍ لَمْ أَكُنْ قَدَّرْتُهُ وَلٰكِن يُلْقِيهِ النَّذْرُ إِلَى الْقَدَرِ قَدْ قُدِّرَ لَهُ فَيَسْتَخْرِجُ اللهُ بِهِ مِنَ الْبَخِيلِ، فَيُؤْتِينِي عَلَيْهِ مَا لَمْ يَكُن يُؤْتِينِي عَلَيْهِ مِنْ قَبْلُ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِيَّ6609، 6694)
’’نذر ابن آدم کو کوئی ایسی چیز نہیں دیتی جو اس کے مقدر میں نہ ہو لیکن وہ اسے (انسان کو) اس کام کی طرف لے جاتی ہے جو اس کے مقدر میں لکھ دیا ہوتا ہے، چنانچہ نذر کے ذریعے سے اللہ تعالی بخیل سے مال نکالتا ہے، اس طرح (انسان) وہ چیزیں صدقہ کر دیتا ہے جن کی پہلے اس سے امید نہیں کی جا سکتی تھی۔ ‘‘
توضیح و فوائد: مطلق نذر ماننا کہ میں فلاں نیکی کا کام کروں گا، مثلاً: روزے کی نذر یا اللہ کی راہ میں جانور ذبح کرنے کی نذر تو ایسا کرنا پسندیدہ عمل ہے لیکن اللہ کے ساتھ شرط لگانا کہ میرا فلاں کام ہو گیا تو میں اتنے روزے رکھوں گا یا اتنا مال خرچ کروں گا یہ جائز تو ہے لیکن پسندیدہ نہیں بلکہ ایسی نذر ماننے والے کو بخیل کہا گیا ہے۔
496۔ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی ﷺ ہم کو فرماتے ہوئے سنا:
((النَّذْرُ نَذْرَانِ، فَمَا كَانَ مِنْ نَذْرٍ فِي طَاعَةِ اللهِ فَذٰلِكَ لِلهِ وَفِيهِ الْوَفَاءُ، وَمَا كَانَ مِنْ نَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ فَذٰلِكَ لِلشَّيْطَانِ وَلَا وَفَاءَ فِيهِ، وَيُكَفِّرُهُ مَا يُكَفِّرُ الْيَمِينَ) ( أَخْرَجَهُ النسائي:3876)
ندر دو طرح کی ہوتی ہے: جو نذر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے بارے میں ہو، وہ تو اللہ کے لیے معتبر ہو گی اور اسے پورا کرنا چاہیے اور جو نذر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے بارے میں ہو، وہ شیطانی کام ہے۔ اسے پورا نہیں کیا جائے گا، البتہ اس کا کفارہ قسم کے کفارے کی طرح ہوگا۔
توضیح و فوائد: نذر کا کفارہ ایک غلام آزاد کرنا یا دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا کپڑے دینا ہے اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو تین دن کے روزے رکھتا ہے۔