غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا حرام اور شرک ہے
497۔ سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا:
((لَعَنَ اللهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللهِ))
’’ جس شخص نے غیر اللہ کے نام پر (جانور وغیرہ) ذبح کیا اللہ تعالی اس پر لعنت کرے۔“
صحیح ابن حبان کی روایت میں یہ الفاظ ہیں:
((لَعَنَ اللهُ مَنْ أَهَلَّ لِغَيْرِ اللهِ)) ’’ جس نے غیر اللہ کا نام پکارا، اس پر اللہ کی لعنت ہو۔“(أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:1978،، وابن حبان: 5896، وأحمد: 855، 954، 1307، بلفظ: مَنْ ذَبَحَ، وَأَخْرَجَهُ ابن حبان: 5896 بلفظ: من أهلَّ.)
توضیح و فوائد: غیر اللہ کے نام پر جانور وغیرہ ذبح کرنا حرام اور شرک ہے اور ایسے جانور کا گوشت کھانا بھی حرام ہے۔ غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے کی دو صورتیں ہیں اور یہ دونوں ہی حرام اور شرک ہیں: جانور ذبح کرتے ہوئے بسم اللہ کی بجائے کسی غیر کا نام لیا جائے تو یہ جانور بالاتفاق حرام ہے۔ جانور کو غیر اللہ کے نام سے منسوب و مشہور کرنا کہ یہ جانور فلاں دربار کے نام کا ہے یا فلاں کی نذر ہے، ایسے جانور پر ذبح کرتے وقت بسم اللہ بھی پڑھ لی جائے تو یہ جانور حرام ہی ہو گا، چاہے اسے کسی دربار پر ذبح کیا جائے یا گھر میں، تاہم بعض لوگ اسے حلال کہتے ہیں لیکن ان کا موقف یکسر باطل ہے۔
498۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا بھی علیﷺ سے مروی حدیث جیسے الفاظ بیان کرتے ہیں:
((لَعَنَ الله مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللهِ)) (أخرجه احمد: 1875، 2913)
’’ جس شخص نے غیر اللہ کے نام پر (جانور وغیرہ) ذبح کیا اللہ تعالی اس پر لعنت کرے۔‘‘
499- سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((لا عَقْرَ فِي الْإِسْلَامِ)) ’’ اسلام میں عقر (کسی قبر پر جانور ذبح کرنا) نہیں ہے۔‘‘(أخرجه أبو داود: 3222، وعبد الرزاق في المصنف:6690)
امام عبد الرزاق رحمۃاللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں کا معمول تھا کہ وہ قبر کے پاس گائے یا بکری وغیرہ ذبح کیا کرتے تھے۔
توضیح و فوائد: مطلب یہ ہے کہ اسلام نے قبروں پر چڑھاوے چڑھانا اور جانور ذبح کرنا حرام قرار دے دیا ہے اگر کوئی شخص کسی قبر کے پاس یا اس کی خوشنودی کے لیے جانور ذبح کرتا ہے تو یہ شرک ہے اور ایسے جانور کا گوشت کھانا حرام ہے، خواہ کوئی یہ کہے کہ میں یہ فقیروں کو کھلانا چاہتا ہوں۔
500۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
((أَنَّ النَّبِيِّ ﷺ نَهَى عَنْ طَعَامِ الْمُتَبَارِيَيْنِ أَنْ يُؤْكَلَ)) (أَخْرَجَهُ أبوداود: 3754، والحاكم: 129/4، والطبراني في الكبير:11942/11)
’’بلا شبہ نبی اکرم اللہ نے مقابلہ بازی میں آکر کھانا وغیرہ کھلانے والوں کا کھانا کھانے سے منع فرمایا ہے۔‘‘
توضیح و فوائد: ریا کاری شرک ہے اور جو شخص ریا کاری کے لیے کھانا وغیرہ پکا کر لوگوں کو کھلاتا ہے تاکہ لوگ واہ واہ کریں تو ایسے شخص کی ضیافت میں شریک نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کھانے کا مقصود بھی غیر اللہ ہی کی خوشنودی ہے۔
501۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں:
((نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ مُعَاقَرَةِ الْأَعْرَابِ)) (أَخْرَجَهُ أبو داود:2820، والبيهقي: 313/9)
’’رسول اللہﷺ نے عرب کے بدوؤں کو مقابلے بازی میں اونٹ ذبح کرنے سے منع فرمایا۔ ‘‘
502۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جب بھی کسی چیز کے متعلق فرمایا کہ میرے خیال کے مطابق یہ اس طرح ہونی چاہیے، وہ اسی طرح ہوئی جیسا وہ اس کےمتعلق اظہار خیال کرتے تھے۔
ایک دن سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک خوبصورت شخص وہاں سے گزرا تو سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: یہ شخص اپنے دین جاہلیت پر ہے یا یہ زمانہ جاہلیت میں اپنی قوم کا کا ہن رہا ہے یا پھر میرا گمان غلط ہے۔ اس شخص کو میرے پاس لاؤ! اسے بلایا گیا تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کے سامنے اپنی بات دہرائی۔ اس نے کہا: میں نے تو آج کے دن جیسا معاملہ کبھی نہیں دیکھا جو کسی مسلمان کو پیش آیا ہو۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: تم پر ضروری ہے کہ تم مجھے صبح صورت حال سے آگاہ کرو، تو اس نے اقرار کیا کہ میں زمانہ جاہلیت میں اپنی قوم کا کاہن تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس سے دریافت کیا: تیرے پاس تیرے جنات جو خبریں لاتے تھے ان میں سے کوئی حیران کن اور عجیب تر خبر سناؤ۔
اس شخص نے کہا: میں ایک دن بازار میں تھا کہ میرے پاس ایک جِنِّی گھبرائی ہوئی آئی اور اس نے کہا: کیا آپ نے جنوں کو ان کی حیرانی اور ان کے سرنگوں ہونے کے بعد ان کی مایوسی کو نہیں دیکھا کہ وہ اپنی اونٹنیوں اور ان کے ٹاٹوں کے ساتھ چمٹ گئے ہیں؟
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: اس نے سچ کہا ہے۔ ایک دفعہ میں بھی مشرکین کے بتوں کے پاس تھا کہ ایک آدمی بچھڑا لے کر آیا اور جب اس نے اسے ذبح کیا تو اس سے اس قدر زور دار چیخ نکلی کہ میں نے اس سے زیادہ سخت چیچ کبھی نہ سنی تھی۔ اس نے کہا:
((يَا جَلِيحْ أَمْرٌ نَجِيحْ، رَجُلٌ فَصِيحْ، يَقُولُ: لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ))
’’اے دشمن! میں تجھے ایک بات بتاتا ہوں جس سے تجھے مراد مل جائے۔ ایک فصیح اور خوش بیان شخص یہ کہتا ہے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔“
یہ سنتے ہی وہاں تمام لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔
میں نے کہا: میں تو اسی جگہ رہوں گا تاکہ اس کے پس پردہ کچھ معلوم کروں۔
پھر اس نے آواز دی:
((يَا جَلِيحْ، أَمْرٌ نَجِيحْ، رَجُلٌ فَصِيحْ، يَقُولُ: لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ))
’’اسے دشمن! معاملہ واضح ہے۔ آدمی خوش بیان ہے جو کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ ‘‘
وہ کہتا ہے کہ پھر میں وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ کہا جانے لگا: یہ نبی مکرم ﷺ ہیں۔ (أَخْرَجَهُ البُخَارِي: 3866)
503۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی ﷺ نزول وحی سے پہلے زید بن عمرو بن نفیل سے (مکہ کے قریب) بلدح کے دامن میں ملے۔
(وہاں) نبی ﷺکے سامنے کھانا پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے اسے تناول فرمانے سے صاف انکار کر دیا۔
زید بن عمرو نے کہا: میں بھی وہ چیز نہیں کھاتا جو تم اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے ہو۔ میں تو صرف وہی چیز کھاتا ہوں جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔
زید بن عمر و قریش کے ذبیحہ پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے تھے:
((الشَّاةُ خَلَقَهَا اللهُ، وَأَنْزَلَ لَهَا مِنَ السَّمَاءِ الْمَاءَ، وَأَثْبَتَ لَهَا مِنَ الْأَرْضِ، ثُمَّ تَذْبَحُونَهَا عَلٰى غَيْرِ اسْمِ اللهِ)) (اَخْرَجَهُ البُخَارِي:3826، 5499)
’’بکری کو تو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا، اس نے اس کے لیے آسمان سے پانی اتارا اور زمین میں اس کے لیے گھاس اور چارا وغیرہ پیدا کیا، پھر تم اسے غیر اللہ کے نام پر ذبح کرتے ہو ؟“
زید بن عمرو بن نفیل مشرکین کے کام پر اعتراض کرتے اور اسے بڑا گناہ سمجھتے تھے۔
توضیح و فوائد: زید بن عمرو بن نفیل عیسائیت کی طرف راغب تھے۔ ان کے انکار سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسی علیہ السلام کے دین میں بھی غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جانے والا جانور حرام ہے۔ اسی طرح یہودیوں کے ہاں بھی غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ حرام ہے۔
504۔ سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہﷺ جس اونٹ پر سوار تھے آپ نے اسے بٹھایا۔ اور اس سے نیچے تشریف لائے تو ہم نے آپ کی خدمت میں بھنا ہوا گوشت پیش کیا۔
آپ مسلم نے پوچھا: ((ما هذه ؟)) یہ کیا ہے؟” (أَخْرَجَهُ الحاكم:217،218/2 وقال: صحيح على شرط مسلم)
ہم نے کہا: یہ بکری کا گوشت ہے جو ہم نے فلاں بت کے نام پر ذبح کی ہے۔
آپ ﷺنے فرمایا: ))إِنِّي لَا أَكُلُ مَا ذُبِحَ لِغَيْرِ اللَّهِ))
’’جو جانور غیر اللہ کے لیے ذبح کیا جائے میں وہ ہرگز نہیں کھاتا۔‘‘
یہاں ایک تانبے کا بت تھا جسے اساف اور نائلہ کہا جاتا تھا، مشرکین جب طواف کرتے تو اسے چھوا کرتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے طواف کیا اور میں نے بھی آپ کے ساتھ طواف کیا، جب میں اس کے پاس سے گزرا تو میں نے بھی اسے چھوا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((لا تَمَسَّهُ)) ’’اسے مت چھو‘‘
زید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں: (کسی اور موقع پر) ہم نے پھر طواف کیا، میں نے اپنے دل میں کہا: میں اسے لازمًا (دوبارہ) چھوؤں گا، دیکھتا ہوں آپ ﷺ کیا فرماتے ہیں؟ تو میں نے اسے ہاتھ سے چھو لیا۔
رسول اللہ اللہ نے فرمایا: ((اَلَمْ تُنهَ؟))’’ کیا مجھے منع نہیں کیا گیا ؟“
سیدنا زید رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو عزت و تکریم بخشی اور آپ پر کتاب نازل فرمائی! (اس کے بعد) میں نے کسی بت کو نہیں چھوا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت جیسے اعزاز سے نواز دیا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی۔
زید بن عمرو بن نفیل رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے قبل ہی وفات پاگئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أُمَّةٌ وَّحْدَهُ))
’’قیامت کے دن وہ اکیلے ہی ایک امت کے طور پر آئیں گے۔ “
توضیح و فوائد: اللہ تعالی نے نبیﷺ کی بچپن ہی سے حفاظت فرمائی اور آپ نے کبھی شرک کا ارتکاب نہیں کیا۔ بت پرستی سے آپ کو شدید نفرت تھی۔ اسی طرح آپ ﷺ نے بتوں کے نام پر ذبح کیے جانے والے جانور کا گوشت بھی کبھی نہیں کھایا۔
505۔ سیدنا نُبیشہ ہذلی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ذکر کیا گیا کہ ہم زمانہ جاہلیت میں (غیر اللہ کے نام پر ماہ رجب میں) جانور (عتیر ہ) ذبح کرتے تھے۔ آپ ﷺنے فرمایا: (( إِذْبَحُوا لِلهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، فِي أَيِّ شَهْرٍ مَا كَانَ، وَبَرُّوا اللهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَطْعِمُوا)) (أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ: 20723، 20726، 20727 20728، 20729، والنسائي في الكبرى: 171،170/1، 4557، و ابن ماجه: 3167، الحاكم: 235/4)
’’اللہ تعالیٰ کے نام پر کسی بھی (غیر معین) مہینے میں جانور ذبح کرو، اللہ کی فرماں برداری کرو اور کھانا کھلاتے رہو۔‘‘
506۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، وہ نبیﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا:
((لا فَرَعَ وَلَا عَتِيرَةً ) ’’فرع اور عتیرہ کی کوئی حیثیت نہیں۔‘‘ (أَخْرَجَهُ البُخَارِيَّ: 5473، ومُسْلِمِ:1976)
فرع: جانور (اونٹنی، گائے وغیرہ) کا وہ پہلا بچہ ہے جسے دور جاہلیت میں کافر اپنے بتوں کے لیے ذبح کرتے تھے اور
عتیرہ: وہ جانور جسے وہ رجب میں ذبح کرتے تھے۔
توضیح وفوائد: اللہ تعالی کے لیے جانور وغیرہ ذبح کرنے کا کوئی وقت اور مہینہ متعین نہیں اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا ہر وقت اور ہر جگہ ناجائز ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اگر کوئی ماہ رجب میں اللہ کے لیے ذبح کرتا ہے تو کوئی حرج والی بات نہیں۔‘‘ بعد ازاں جب قربانی ضروری قرار پائی تو عتیرہ وغیرہ کا سلسلہ ختم ہو گیا۔
507۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے نبی ﷺ سے عرض کی: بعض لوگ ہمارے پاس گوشت لاتے ہیں، ہم نہیں جانتے کہ اس پر اللہ کا نام ذکر کیا گیا ہے یا نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
((سَمُّوا عَلَيْهِ أَنتُمْ، وَكُلُوْهُ)) ’’ تم بسم اللہ پڑھ کر اسے کھا لیا کرو۔‘‘ ( أَخْرَجَةُ البُخَارِي: 2057، 5507، 7393)
توضیح و فوائد: مسلمان یا اہل کتاب قصاب کے بارے میں یہی حسن ظن ہونا چاہیے کہ اس نے تکبیر پڑھ کر جانور ذبح کیا ہو گا لیکن اگر کسی کو تر د ہو تو کھاتے وقت بسم اللہ پڑھ لے۔
508- سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے کہ کچھ لوگ نبیﷺ کے پاس آئے اور کہا: ہم وہ جانور تو کھا لیتے ہیں جسے ہم خود قتل (ذبح) کرتے ہیں اور جسے اللہ تعالی نے قتل کیا (مارا) ہو اسے ہم نہیں کھاتے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے (سورہ انعام کی) یہ آیات نازل فرمائیں:﴿ فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ اِنْ كُنْتُمْ بِاٰیٰتِهٖ مُؤْمِنِیْنَ وَ مَا لَكُمْ اَلَّا تَاْكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ وَ قَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْكُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْهِ ؕ وَ اِنَّ كَثِیْرًا لَّیُضِلُّوْنَ بِاَهْوَآىِٕهِمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ ؕ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْنَ وَ ذَرُوْا ظَاهِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَهٗ ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْسِبُوْنَ الْاِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوْا یَقْتَرِفُوْنَ وَ لَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْكَرِ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ وَ اِنَّهٗ لَفِسْقٌ ؕ وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰۤی اَوْلِیٰٓـِٕهِمْ لِیُجَادِلُوْكُمْ ۚ وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ۠﴾(الأنعام 118تا 121: 6) (أخرجه أبو داود: 2819، والترمذي: 3069، وقال: هذا حديث حسن غريب)
’’پھر اگر تم اللہ کی آیات پر ایمان رکھتے ہو تو جس جانور پر اللہ کا نام ذکر کیا گیا ہے اس کا گوشت کھاؤ، اگر تم اس کی آیات پر ایمان لانے والے ہو۔ اور تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اس (حلال جانور) کا گوشت نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام پڑھا گیا ہے؟ حالانکہ بلا شبہ اللہ نے تمھیں ان چیزوں کے بارے میں تفصیل سے بتا دیا ہے جو اس نے تم پر حرام کی ہیں، مگر جسے کھانے پر تم مجبور ہو جاؤ (تو وہ بھی حلال ہیں) اور بے شک اکثر لوگ اپنی خواہشات سے، بغیر علم کے دوسروں کو گمراہ کرتے ؟ تے ہیں۔ بے شک آپ کا رب حد سے گزرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔ اور تم ظاہر اور چھے گناہ چھوڑ دو، بے شک جو لوگ گناہ کرتے ہیں ان کو ان (عملوں) کی جلد سزادی جائے گی جو وہ کرتے رہے ہیں۔ اور تم اس (جانور) کا گوشت مت کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ پڑھا گیا ہو کیونکہ یہ (کھانا) یقینًا نافرمانی ہے، اور بے شک شیطان اپنے دوستوں کے ذہنوں میں مجھے ڈالتے ہیں، تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں، اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو بلا شبہ تم بھی ضرور مشرک ہو جاؤ گے۔“
توضیح وفوائد: ذبح کرتے وقت جس جانور پر جانے بوجھے اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے کھانا حرام ہے۔
509۔ سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عید کے روز دو مینڈھے ذبح کیے، جب آپ سلاﷺ نے انھیں قبلہ رخ کر لیا تو یہ دعا پڑھی:
((إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ. وَبِذٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ، بِسْمِ اللهِ، وَاللهُ أَكْبَرُ، اَللّٰهمَّ مِنْكَ وَلَكَ، عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ)) (أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ: 15022، وأبوداود: 2795، وابن ماجه: 3121، والحاكم467/1، وابن خزيمة2899، والدارمي: 1946، والبيهقي: 287/9)
’’یقیناً میں نے اپنا چہرہ اس ذات کی طرف کر لیا ہے جس نے تمام آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا، اس حال میں کہ میں یکسو اور مسلمان ہوں اور مشرکین میں سے نہیں ہوں، بے شک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور موت صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اس کا حکم ہے اور میں اولین مسلمان ہوں، اللہ کے نام کے ساتھ (ذبح کرتا ہوں) اللہ سب سے بڑا ہے، اے اللہ! یہ تیری توفیق سے ہے اور تیری خاطر ہے، محمد (ﷺ) اور اس کی امت کی طرف سے۔ ‘‘
توضیح و فوائد: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ذبح کرتے وقت کسی جانور کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ فلاں کی طرف سے ہے اس میں کوئی حرج والی بات نہیں، البتہ یہ کہنا کہ یہ جانور فلاں کے نام کا ہے یا فلاں کے لیے ہے تو یہ صریحًا شرک ہے۔