غیر اللہ کی قسم اٹھانے کو جائز یا صرف مکروہ قرار دینے کی دلیل اور اس کارد

698۔ سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اہل نجد میں سے ایک آدمی آیا، اس کے بال پراگندہ تھے، ہم اس کی ہلکی سی آواز سن رہے تھے لیکن جو کچھ وہ کہہ رہا تھا ہم اسے سمجھ نہیں رہے تھے حتی کہ وہ رسول اللہﷺ کے قریب آگیا، وہ آپ سے اسلام کے بارے میں پوچھ رہا تھا، رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ))

’’دن اور رات میں پانچ نمازیں (فرض) ہیں۔‘‘

اس نے پوچھا: کیا ان کے علاوہ (اور نمازیں) بھی میرے ذمے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:

((لا، إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ، وَصِيَامُ شَهْرٍ رَمَضَانَ))

’’نہیں، الا یہ کہ تم نفلی نماز پڑھو اور ماہ رمضان کے روزے ہیں۔‘‘

اس نے پوچھا: کیا میرے ذمے اس کے علاوہ بھی (روزے) ہیں؟

فرمایا: ((لا، إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ) ’’نہیں، الا یہ کہ تم نفلی روزے رکھو۔“

پھر رسول اللہ ﷺنے اسے زکاۃ کے بارے میں بتایا تو اس نے سوال کیا: کیا میرے ذمے اس کے سوا بھی کچھ ہے؟ آپﷺ نے جواب دیا: ((لَا، إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ)) ’’نہیں، سوائے اس کے کہ تم اپنی مرضی سے (نفلی صدقہ) دو۔‘‘

(سیدنا طلحہ نے) کہا: پھر وہ آدمی واپس ہوا تو کہہ رہا تھا: اللہ کی قسم! میں نہ اس پر کوئی اضافہ کروں گا اور نہ اس میں کوئی کمی کروں گا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((أَفْلَحَ وَأَبِيهِ إِنْ صَدَقَ)) ’’یہ فلاح پا گیا، اس کے باپ کی قسم! اگر اس نے سچ کر دکھایا۔‘‘

یا (آپ ﷺ نے فرمایا:) ((دَخَلَ الْجَنَّةَ وَأَبِيهِ إِنْ صَدَقَ)) (أخرجه مسلم:11)

’’اس کے باپ کی قسم! اگر اس نے سچ کر دکھایا تو یہ جنت میں داخل ہوگا۔“

توضیح و فوائد: اس کا جواب ابن عبدالبررحمۃ اللہ علیہ نے تمہید میں دیا ہے، روایت  ((أَفْلَحَ وَأَبِيهِ إِنْ صدق)) کے متعلق کہتے ہیں: اس حدیث میں ((وابیه)) کا لفظ غیر محفوظ ہے۔ اسے مالک وغیرہ نے ابو سہیل سے روایت کیا ہے لیکن انھوں نے اس میں یہ لفظ ذکر نہیں کیا، اسماعیل بن جعفر سے بھی یہ حدیث روایت کی گئی ہے لیکن اس میں یہ الفاظ ہیں:  (أَفْلَحَ وَاللهِ إِنْ صَدَقَ، أَوْ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَاللهِ إِنْ صَدَقَ،)) یعنی اس میں  ((وَأَبِيهِ)) کے بجائے ’’واللہ‘‘ کے الفاظ ہیں، یہ الفاظ ((وَأَبِيهِ)) کی روایت کرنے والوں کے الفاظ سے اولی (اور صحیح تر) ہیں کیونکہ مذکورہ لفظ منکر ہے جس کی صحیح آثار تردید کرتے ہیں۔

699۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی:

لوگوں میں سے میرے حسن معاشرت (خدمت اور حسن سلوک) کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟

آپ نے فرمایا: ((أُمُّكَ)) ’’تمھاری ماں‘‘

اس نے کہا: پھر کون؟ فرمایا: ((ثُمَّ أُمُّكَ)) ’’پھر تمھاری ماں‘‘

اس نے پوچھا: اس کے بعد کون؟ فرمایا: ((ثُمَّ أُمُّكَ)) ’’پھر تمھاری ماں‘‘

اس نے پوچھا: پھر کون؟ فرمایا: ((أَبُوْكَ)) ’’پھر تمھارا والد “

پھر آپ ﷺ نے فرمایا:

((نَعَمُ، وَأَبِيكَ لَتُنَبَّأَنَّ)) (أخرجه مسلم:2548، وابن أبي شيبة:353/8، وابن ماجه:2706)

’’ہاں تمھارے باپ کی قسم انھیں ضرور بتایا جائے گا۔‘‘

توضیح و فوائد: اس کا جواب یہ ہے کہ ((وَأَبِيكَ لَتُنَبَّأَنَّ)) کے الفاظ کا دارو مدار شریک بن عبد اللہ پر ہے۔ اس نے ان الفاظ کے بیان میں ان ثقات کی مخالفت کی ہے جن میں سفیان بن عیینہ، عبداللہ بن مبارک، وہیب بن خالد محمد بن طلحہ، جریر بن عبد الحمید اور مفضل بن غزوان ہیں، انھوں نے یہ روایت ((وَالله لَتُنَبَّأَنَّ)) کے الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے۔ امام ابن معین نے کہا ہے: شریک صدوق اور ثقہ ہے لیکن اگر مخالفت کرے تو دوسرا راوی اس کے مقابلے میں ہمیں زیادہ محبوب ہوتا ہے۔ ان کے بارے میں حافظ ابن حجر اللہ کہتے ہیں: ’’صدوق ہیں لیکن بہت زیادہ غلطیاں کرتے ہیں پھر شریک نے خود بھی تو ((وَاللهِ لَتُنَبَّانَّ)) کے الفاظ کے ساتھ اسے روایت کیا ہے۔

التمهيد لابن عبد البر: 244/10 و 242)

700۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! کون سا صدقہ (اجر میں) بڑا ہے؟

آپﷺ نے فرمایا:

((أَمَا وَأَبِيكَ لَتُنَبَّأَنَّهُ، أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ تَخْشَى الْفَقْرَ، وَتَأْمُلُ الْبَقَاءَ، وَلَا تُمْهِلَ حَتّٰى إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ قُلْتَ: لِفُلَانٍ كَذَا وَلِفُلَانٍ كَذَا، وَقَدْ كَانَ لِفُلَانِ)) (أخرجه مسلم: 1032، والبخاري في الأدب المفرد:778، وأحمد:7159، والنسائي:237/6 وأبو يعلى: 6092)

’’آگاہ ہو جاؤ، تمھارے باپ کی قسم! تمھیں ضرور بتایا جائے گا۔ تم (اس وقت) صدقہ کرو جب تم تندرست ہو اور مال کی خواہش رکھتے ہو فقر سے ڈرتے ہو اور تو نگری کی امید رکھتے ہو اور اس قدر تاخیر نہ کرو کہ جب ( تمھاری جان) حلق تک پہنچ جائے (پھر) تم کہو: اتنا فلاں کا ہے اور اتنا فلاں گا۔ اب تو وہ فلاں (وارث ) کا ہو ہی چکا ہے۔“

توضیح و فوائد: س کا جواب یہ ہے کہ ((وَأَبِيهِ لَتُنَبَأَنَّهُ)) کے الفاظ کا دارو مدارمحمد بن فضیل پر ہے جس میں انھوں نے دیگر ثقات کی مخالفت کی ہے، مثلاً: سفیان بن عیینہ، عبدالواحد اور جریر کی کیونکہ انھوں نے اسے کسی قسم کے بغیر مطلقاً روایت کیا ہے، جبکہ محمد بن فضیل نے بذات خود یہ حدیث مطلقا بلا قسم بھی روایت کی ہے۔ پھر یہ تینوں احادیث ان احادیث سے منسوخ ہیں جن میں غیر اللہ کے ساتھ قسم اٹھانے کی ممانعت ہے، صحیح احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ متاخر حدیث غیر اللہ کا حلف اٹھانے سے ممانعت ہی کی ہے، نہ کہ احادیث اباحت۔

(أخرجه أحمد: 9081، وابن ماجه: 2706، وابن أبي شيبة: 541/8))