غیر اللہ کو سجدہ کرنا حرام ہے

سیدنا قیس بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حیرہ گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں تو میں نے کہا: رسول اللہ ﷺ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ انھیں سجدہ کیا جائے۔ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو بتایا کہ میں حیرہ گیا تھا، وہاں میں نے دیکھا کہ وہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول! آپ اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ ہم آپ کے سامنے سجدہ ریز ہوں۔

آپﷺ نے فرمایا:

((أَرَأَيْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِي، أَكُنتَ تَسْجُدُ لَهُ))

’’بھلا بتلاؤ اگر تم میری قبر کے قریب سے گزرو تو کیا تم اسے سجدہ کرو گے؟‘‘

میں نے عرض کی: نہیں۔ آپ نے فرمایا:

((فَلَا تَفْعَلُوا، لَوْ كُنتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ النِّسَاءَ أَنْ يَسْجُدْنَ لأَزْوَاجِهِنَ، لِمَا جَعَلَ اللهُ لَهُمْ عَلَيْهِنَّ مِنَ الْحَقِّ)) ((أخرجه أبو داود:2140، والبيهقي:291/7، والحاكم: 187/2)

’’تم ایسا نہ کرو۔ اگر میں (اللہ کے علاوہ) کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بیوی پر شوہر کا بہت حق رکھا ہے۔‘‘

توضیح وفوائد: سجدہ عبادت اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو کرنا ہر امت میں حرام رہا ہے، البتہ تعظیمی سجدہ پہلی امتوں میں جائز تھا لیکن ہماری شریعت میں وہ بھی حرام اور ناجائز ہے۔ رسول اکرمﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔

720- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! ہم میں سے (جب) کوئی ایک دوسرے سے ملتا ہے تو کیا اس کے سامنے جھک سکتا ہے؟

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((لا)) ’’نہیں‘‘

اس نے پوچھا: کیا اس سے معانقہ کر سکتا ہے اور اسے بوسہ دے سکتا ہے؟ فرمایا: ((لا)) ’’نہیں‘‘

اس نے پوچھا: کیا اس سے مصافحہ کر سکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:

((نعم، إن شاء)) ’’ہاں، اگر اس کی مرضی ہو۔‘‘(أخرجه أحمد:13044، والترمذي: 2728، وابن ماجه3702)

توضیح وفوائد: ملتے وقت کسی کے سامنے جھکنا نا جائز اور منع ہے، تاہم سفر سے آنے والے کے لیے یا کسی خاص مناسبت کے باعث، مثلا: عید وغیرہ کے موقع پر معاشقہ کرنا جائز ہے۔

721۔ سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفٰی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: جب سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ شام سے آئے تو رسول اللہ نام کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے، آپﷺ نے پوچھا: ((ما هٰذا)) ’’یہ کیا؟‘‘

انھوں نے جواب دیا: اللہ کے رسول! میں شام سے آیا ہوں، میں نے وہاں کے لوگوں کو دیکھا ہے کہ دو لوگ اپنے علماء اور بڑے بڑے پادریوں کو سجدہ کرتے ہیں تو میں نے بھی یہ ارادہ کر لیا کہ میں بھی آپ کے ساتھ ایسا ہی کروں۔ آپ ﷺنے فرمایا:

((فَلَا تَفْعَلُ، فَإِنِّي لَوْ أُمَرْتُ شَيْئًا أَن يَسْجُدَ لِشَیْئٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَن تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا)) (أخرجه أحمد:19403، وابن جبان:4171، والحاكم 172/4)

’’تم ایسا مت کرو کیونکہ اگر میں کسی کو یہ حکم دیتا کہ وہ کسی دوسرے کو سجدہ کرے تو میں عورت کو فلم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔‘‘

توضیح و فوائد: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی لاعلمی میں کوئی شرکیہ کام کر پہلے اور توجہ دلانے پر وہ اپنی اصلاح کرلے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔

722۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ جب وہ یمن سے واپس چلئے تو انھوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے یمن میں بعض لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو سجدہ کرتے ہیں، کیا ہم بھی

آپ کو سجدہ نہ کریں؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا:

((لَوْ كُنْتُ آمِرًا بَشَرًا يَسْجُدُ لِبَشَرٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا)) (أخرجه أحد:21986، وابن أبي شيبة:527/2، والطبراني في الكبير:373/20)

’’اگر میں کسی بشر کو بشر کے سامنے سجدے کا حکم کرنے والا ہوتا تو عورت کو ضرور حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔‘‘

723۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ الﷺ نے فرمایا:

((لَا يَصْلُحُ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ)) . (أخرجه أحمد: 12614، والبزار: 2454، والضياء في المختارة :1895)

؟؟کسی انسان کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے۔‘‘

724۔  سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ)) (أخرجه الترمذي:1159، وابن حبان:4163، والبيهقي:291/7، والحاكم:171/4، والبزار:1466)

’’کسی شخص کے لیے یہ جائز اور لائق نہیں کہ وہ کسی دوسرے کو سجدہ کرے۔‘‘

725۔ سیدنا عبد الله بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نجاشی کی طرف بھیجے جانے کا قصہ اور واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: قریش نے عمرو بن عاص اور عمارہ بن ولید کو تحائف دے کر نجاشی کی طرف روانہ کیا۔ جب وہ دونوں اس کے پاس پہنچے تو اس کے سامنے سجدے میں پڑ گئے۔ پھر دونوں جلد اس کے دائیں بائیں ہوگئے، پھر انھوں نے کہا: یقینًا ہمارے کچھ چچا زاد آپ کے ملک میں آئے ہیں۔ وہ ہمیں اور ہمارے دین کو چھوڑ گئے ہیں۔

اس نے کہا: وہ کہاں ہیں؟ انھوں نے کہا: آپ کے ملک میں ہیں۔ ان کی طرف کسی کو بھیجیں۔ نجاشی نے ان کی طرف کسی کو بھیجا، (اور وہ آگئے)۔

سیدنا جعفر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: آج کے دن میں تمام احباب کی طرف سے بات کروں گا۔ باقی سب خاموش رہیں۔ سب نے ان کی پیروی کی اور ان کی بات مان لی۔ انھوں نے حاضرین مجلس کو سلام کیا اور انھیں سجدہ نہ کیا۔

لوگوں نے کہا: تمھیں کیا ہوا ہے کہ تم بادشاہ کو سجدہ نہیں کر رہے؟

انھوں نے جواب دیا:

((إِنَّا لَا تَسْجُدُ إِلَّا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ،)) ’’ہم صرف اللہ عز وجل کو سجدے کرتے ہیں۔‘‘

اس نے کہا: وہ کیوں؟

سیدنا جعفر نے فرمایا:

((إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ بَعَثَ إِلَيْنَا رَسُولَهُ، وَأَمَرَنَا أَنْ لَا نَسْجُدَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلهِ)) (أخرجه أحمد:4400، والطيالسي:346، والبيهقي في الدلائل:298/2، وإسناده ضعيف من أجل حديج، وحسن ابن حجر إسناده في الفتح:189/7، وجوّده ابن كثير في البداية والنهاية: 69/3)

’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف اپنا رسول بھیجا ہے اور اس نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اللہ عز و جل کے سوا کسی کو سجدہ نہ کریں۔‘‘