غیرت کی اہمیت وضرورت (حصہ دوم)

﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۙ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۱۹﴾ (النور:19)
گذشتہ جمعے غیرت کے حوالے سے بات ہو رہی تھی، اور اُس کا اسلامی تصور واضح کرنے کی کوشش میں چند باتیں عرض کی گئی تھیں۔
چونکہ پورے انسانی معاشرے کی اصلاح اور بگاڑ کا بہت حد تک ڈائریکٹ تعلق اسی خوبی اور صفت کے وجود اور عدم وجود پر ٹھہرتا ہے یعنی اگر غیرت موجود ہوگی تو معاشرے کی اصلاح ہوتی رہے گی اور اگر غیرت مفقود ہو جائے گی تو اصلاح بھی مفقود ہو جائے گی ، لہذا یہ
موضوع نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔
چنانچہ اس موضوع کی اسی اہمیت کی مناسبت سے مناسب سمجھا گیا کہ اس کی کچھ مزید تفصیلات بیان کی جائیں تاکہ بات مزید واضح اور ذہنوں میں رائج ہو جائے اور لوگ معاشرے کی اصلاح کرنے اور اسے بگاڑ سے بچانے کے لیے بھر پور طریقے سے اپنا حصہ ڈال سکیں۔
اس حقیقت سے ہر وہ شخص ضرور آگاہ ہوگا جو تاریخ انسانی سے تھوڑا بہت بھی تعلق اور شغف رکھتا ہو کہ قوموں کی تباہی و بربادی کبھی ان کی معاشی ابتری اور اقتصادی بدحالی کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ اس کے برعکس جو قو میں تبادو برباد ہوئیں وہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں اپنے اپنے دور کی طاقتور اور مضبوط ترین قو میں تھیں اور جیسا کہ قرآن پاک بیان کرتا ہے۔ قوم عاد کا تو یہ چیلنج تھا کہ:
﴿مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوةٌ ) (فصلت:15)
’’ہم سے زیادہ بھی کوئی طاقتور ہے!‘‘
اُدھر فرعون بھی خوشحالی اور آسودگی کے دعوے کرتا ہوا نظر آتا ہے:
﴿ وَ نَادٰی فِرْعَوْنُ فِیْ قَوْمِهٖ قَالَ یٰقَوْمِ اَلَیْسَ لِیْ مُلْكُ مِصْرَ وَ هٰذِهِ الْاَنْهٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ ۚ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَؕ۝﴾(الزخرف:51)
’’ایک روز فرعون نے اپنی قوم میں پکارتے ہوئے کہا: لوگو! کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں ؟ تم لوگوں کو نظر نہیں آتا ؟‘‘
اور عادارم کے بارے میں تو اللہ تعالی خود فرماتے ہیں۔
﴿ اَلَمْ تَرَ كَیْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ۪ۙ۝۶ اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ۪ۙ۝۷ الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُهَا فِی الْبِلَادِ۪ۙ۝۸ ﴾ (الفجر:6۔8)
’’تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے کیا برتاؤ کیا اونچے ستونوں والے عاد ارم کے ساتھ، جن کے مانند کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا ہی نہیں کی گئی تھی۔‘‘
چنانچہ جو قو میں تباہ و برباد ہوئیں تو وہ معاشی اور اقتصادی بدحالی کی وجہ سے کبھی نہیں ہوئیں بلکہ تباہی کا اصل سبب اخلاقی پستی اور شرم وحیا کا فقدان اور دیوالیہ پن تھا، اگر چہ دیگر بہت سے عوامل کی بناء پر بھی قوموں کو تہس نہیں اور تباہ و برباد کیا گیا ، جیسا کہ قلم نا انصافی ، کفران نعمت، اور انکار رسل وغیرہ، مگر اخلاقی پستی گویا بلاک شدہ اقوام کا اک قصور مشترک رہا ہے۔
چنانچہ ایک شاعر اس حقیقت کو اشعار میں یوں بیان کرتا ہے؟
إنَّمَا الْأُمَمُ الأَخْلاقُ مَا بَقِيَتْ
فَإِنْ هُمُو ذَهَبَتْ أَخْلَاقُهُم ذَهَبُوا
’’تو میں اپنے اخلاق کی بدولت زندہ رہتی ہیں، اگر ان کے اخلاق ختم ہو جائیں تو قو میں بھی ختم ہو جایا کرتی ہیں، یعنی پھر ان کی زندگی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔‘‘
اور اس کی تائید میں قرآن وحدیث اور تاریخ انسانی سے بہت کچھ کہنے کو ہے مگر وہ ایک الگ موضوع ہے تاہم یہ موضوع نہایت اہمیت کا حامل ہے اور ضرورت ہے کہ اس پر مزید گفتگو کی جائے، تا کہ لوگ معاشرے کی اصلاح کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کر سکیں۔ غیرت ، شرم و حیا اور اخلاقیات کے حوالے سے اس قدر زیاں ہو چکا ہے، سمجھ نہیں آتی کہ بات کہاں سے شروع کی جائے۔
جب معاملات یہاں تک پہنچ چکے ہوں کہ نیکی اور بدی کے صیح اور نماط کے معیار ہی بدل گئے ہوں، اور برائی کا احساس ہی ختم ہو گیا ہو تو آپ برائی کسی کو کسی طرح برائی باور کرائیں ۔ آپ کسی کو کسی طرح بتا ئیں گے کہ اخلاق کیا ہے اور بداخلاقی کیا ہے، حیا کیا ہے اور بے حیائی کیا ہے، غیرت کیا ہے اور بے غیرتی کیا ہے! با لخصوص جب یہ حالت زار عوام سے گزر کر خواص تک پہنچ چکی ہو۔
مثال کے طور پر کوئی ایک شخص وضع قطع سے بڑا و بیدار معلوم ہوتا ہو، مگر اس کے ہاں نیکی اور بدی کا ، ثواب اور گناہ کا معیار اس قدر خلط ملط ہو چکا ہو کہ وہ ناچ گانے کو نہ صرف
جائز سمجھتا ہو بلکہ اس کی ترویج کے لیے اپنی دولت بھی خرچ کرتا ہو تو آپ اس کو کس طرح سمجھائیں گے کہ ناچ گانا بے حیائی، بے غیرتی اور گناہ ہے اور اسی طرح ان لوگوں کو کیسے سمجھائیں گے جو اس کے طرز عمل سے متاثر ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارا آج کا انسانی معاشرہ اخلاقی پستی کی انتہائی بدترین مثال پیش کر رہا ہے اور یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ صرف خاص خاص لوگ ہی اسے جان سکتے ہیں، بلکہ ہر شخص اس کا عینی مشاہدہ کر سکتا ہے۔
آج کا ہمارا انسانی معاشرہ اس قدر خراب ہو چکا ہے اور اس میں اس قدر بگاڑ پیدا ہو چکا ہے کہ اگر دور جاہلیت کے معاشرے سے موازنہ کیا جائے تو کئی پہلوؤں سے اس سے بھی زیادہ بگڑا ہوا نظر آئے گا۔
ملاحظہ کیجئے: فتح مکہ کے بعد جب اہل مکہ پر حق واضح ہو گیا اور انہوں نے جان لیا کہ اسلام کے سوا کامیابی کا کوئی راستہ نہیں ہے، تو لوگ اسلام قبول کرتے ہوئے اور بیعت کرنے کے لیے آپ سے امام کے پاس حاضر ہونے لگے۔ آپ سے ہم کوہ صفا پر بیٹھ کر لوگوں سے بیعت لے رہے تھے، جب مردوں سے بیعت لے کر فارغ ہوئے تو عورتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، اس دوران ابوسفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ بھیس بدل کر آئی، کیونکہ اس نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی لاش کی جو بے حرمتی کی تھی، اس کی وجہ سے وہ خوف زدہ تھی کہ کہیں آپ ﷺ اسے پہچان نہ لیں ۔ تو جب آپ ﷺنے بیعت لینا شروع کی تو فرمایا: میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ:
((أ لا تُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقْنَ))
’’کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کروگی اور چوری نہ کرو گی ۔‘‘
اس پر ہندہ بول اٹھی کہ ابوسفیان بخیل آدمی ہے، کیا میں اس کی اجازت کے بغیر کچھ کھانے کی چیز لے سکتی ہوں، تو ابوسفیان جو وہیں مجلس میں موجود تھا کہا: تم جو کچھ لے لو وہ تمہارے لیے حلال ہے‘‘
(فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَ عَرَفَهَا)
’’تو آپﷺ مسکرادیے اور پہچان لیا ۔‘‘
اور فرمایا ((وَإِنَّكِ لَهند بنت عتبة ؟)
’’اچھا! تو تم ہندہ ہو عتبہ کی بیٹی!‘‘
قَالَتْ: ((نَعَمْ .))
کہنے لگی: ہاں ۔
((فَاعْفُ عَمَّا سَلَفَ، عَفَا اللَّهُ عَنْكَ))
’’اے اللہ کے نبی (ﷺ) جو کچھ گزر چکا ہے اسے معاف فرمائیے ، اللہ آپ کو معاف فرمائے۔‘‘
اس کے بعد آپ ﷺنے فرمایا:
((ولا يزنين ))
’’اور اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ زنانہ کروگی ۔‘‘
فقالت: ((وَهَلْ تَزْنِي الحُرَّة)) (سيرة النبي لابن كثير:3/603)
’’تو ہندہ نے حیران ہو کر کہا: بھلا کوئی آزاد عورت بھی زنا کرتی ہے۔‘‘
اندازہ کیجئے دور جاہلیت میں بسنے والی شریف زادیاں ایسے مکروہ اور قبیح فعل سے واقف ہی نہ تھیں، اُس دور میں یہ فعل صرف کمتر اور گھٹیا لوگوں کا فعل ہی سمجھا جاتا تھا مگر آج کل اس ترقی یافتہ دور میں اسے آزادی اور روشن خیالی سے منسوب کیا جاتا ہے اور
Society Upper Class کا شیوہ اور طور طریقہ سمجھا جاتا ہے۔
اور ایک لحاظ سے یہ بات صحیح ہے کہ کسی بھی معاشرے میں برائی کا اصل سبب وہی صاحب حیثیت اور اصحاب اثر ورسوخ ہی ہوتے ہیں، اگرچہ برائی نچلے طبقے میں پھیل کر، پورے معاشرے میں سرایت کر جاتی ہے، مگر اس کا اصل محرک اور سبب طاقتو ر لوگ ہی ہوتے ہیں۔
جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
﴿ وَ اِذَاۤ اَرَدْنَاۤ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْیَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْهَا فَفَسَقُوْا فِیْهَا فَحَقَّ عَلَیْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِیْرًا۝﴾ (الاسراء:16)
’’اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اُس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور دو اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، (فسق و فجور بر پا کرتے ہیں ) تب عذاب کا فیصلہ اس بہتی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے بر باد کر کے رکھ دیتے ہیں ۔‘‘
یعنی یہ طبعی اور فطری حکم ہے، کہ قدرتی طور پر ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے، کہ جب کسی قوم کی شامت آنے والی ہوتی ہے تو اس کے کھاتے پیتے اور خوشحال لوگ بے حیائیوں اور فحاشیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں تب تباہی و بربادی ان کا مقدر بن جاتی ہے اور نیست و نابود کر دیئے جاتے ہیں۔
معاشرے کے غریب لوگ بھی اگر چہ انہی برائیوں میں مبتلا ہوتے ہیں مگر ان کی حیثیت تبعیت اور پیروی کی ہوتی ہے، وہ الگ حیثیت سے گناہ نہیں کرتے ، بلکہ اونچے طبقے کی ھبہ پر یا ان کی اجازت سے یا ان کی خاموشی اور حوصلہ افزائی سے کرتے ہیں۔ ورنہ اونچے طبقے کے لوگ اگر چاہیں کہ ان کے علاقوں میں برائی نہ ہو تو نہیں ہونے دیتے۔
تو بات ہو رہی تھی کہ آج کا معاشرہ اس قدر بگاڑ کا شکار ہو چکا ہے کہ جاہلی معاشرے سے بھی ایک ہاتھ آگے نکل گیا ہے اور اس کی وجہ وہی غیرت کا فقدان ہے۔ اور اس جاہلی معاشرے میں چونکہ غیرت موجود تھی، لہذا بہت سی برائیوں اور قباحتوں کے باوجود شرافت ، شرم و حیا اور عزت و احترام کا عنصر موجود تھا۔ ان میں اگر چہ بعض دفعہ تو بے سبب اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر جنگیں شروع ہو جاتی تھیں جو چالیس چالیس سال تک جاری رہتیں مگر غیرت کے نام پر بھی ان میں بڑا خون خرابہ اور قتل عام شروع ہو جاتا، جیسا کہ ان کے مابین ہونے والی جنگوں میں سے ایک جنگ حرب الفجار نام کی تھی، حرب الفجار نام کی متعدد جنگیں تھیں، ایک حرب الفجار ایسی تھی جو کہ ایک عورت کی بے حرمتی کرنے پر شروع ہوئی۔
غیرت کبھی امت مسلمہ کی عزت و عظمت کی علامت اور معاشرے کا حسن ہوا کرتی تھی ، کہ غیرت کے نام پر پوری اسلامی سلطنت حرکت میں آجاتی۔ کافروں کے ملک سے مسلمان بیٹی نے دشمن کی ایک بد تمیزی پر مدد کے لیے پکارا: وامعتصماه!
’’اے معتصم کہاں ہوا مدد کے لیے پہنچو!‘‘
تو ہزاروں میل دور بغداد میں مسلمانوں کے خلیفہ معتصم باللہ کو جونہی اس پکار کی خبر پہنچی تو بے اختیار لبیک یا اختاہ! پکارتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا، اور ایک لشکر عظیم کے ساتھ کفار کے اس ملک پر ایسی یلغار کی کہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔
جب تک امت مسلمہ میں غیرت موجود تھی، معاشرے میں پاکیزگی، طہارت اور شرافت موجود تھی، عزت و عصمت محفوظ تھی، امن و امان تھا، اُس دور کا نو جوان شرم و حیا کو اپنے لیے باعث شرف سمجھتا تھا اور از راہ نظر اس خوبی کا اظہار کرتا ہوا کہتا:
وأعض طَرْفِي إِن بَدَتْ لِي جَارَتِي
حَتَّى يُوَارِي جَارَتِي مَأْوَاهَا
’’اور میری پڑوسن جب باہر نکلتی ہے تو میں اپنی آنکھیں جھکا لیتا ہوں، جب تک وہ اپنی منزل پر نہیں پہنچ جاتی ۔‘‘
مگر آج کا نوجوان گلی کی نکڑ پر کھڑا ہو کر کسی کے نکلنے کا منتظر ہوتا ہے اور جب وہ باہر نکلتی ہے تو بالوں کو سنوارنا شروع کر دیتا ہے۔ آج کے معاشرے میں بے حیائی کی یہ صورت بھی موجود ہے بلکہ اس سے بڑھ کر پوری ڈھٹائی اور جرات کے ساتھ بد اخلاقی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، جیسا کہ کچھ سیاسی جلسوں میں دیکھنے اور سننے میں آیا ہے۔ اور پھر اس کی بھی ایک ایڈوانس شکل سوشل میڈیا کی صورت میں سامنے آئی ہے، کہ جس پر بیٹھے درندے دن رات کسی شکار کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بھولی بھالی بچیوں کو بہکاتے اور گمراہ کرتے نظر آتے ہیں۔
اور ان نو جوانوں کی اکثریت ایک سیاسی پارٹی کا سرمایہ ہے کہ جس پر وہ فخر کرتی ہے۔ مگر حقیقت میں وہ بے حیائی کی ایک پہچان بن گئی ہے۔
جو بات اس ضمن میں سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ بے حیائی پھیلانے والوں کا عمل ان کی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کا اثر پوری امت پر پڑتا ہے اور اس کی نحوست تمام لوگوں کو گھیر لیتی ہے۔
چنانچہ قرآن پاک ایسے فتنوں سے خبردار کرتے ہوئے کہتا ہے:
﴿وَاتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاضَةٌ﴾ (الانفال:25)
’’اور بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انہی لوگوں تک محدود نہیں رہتی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔‘‘
﴿وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ (الانفال:25)
’’اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے ۔‘‘
اور حقیقت یہ ہے کہ آج دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ بے سبب نہیں ہے، بلکہ اس کی وجہ آج کا وہ مسلم نوجوان ہے جو ناچ گانے اور بے حیائیوں اور فحاشیوں میں کھویا ہوا ہے مگر ان تو جوانوں کی گمراہی اور بے راہ روی کے ذمہ دارگون لوگ ہیں؟ یوں تو اس فہرست میں بہت سے افراد اور اداروں کا نام بھی آتا ہے مگر سب سے پہلے اور ڈائریکٹ ذمہ داری والدین کی ہے۔
اس لیے اپنی اولادوں کو بچاؤ، کہ آپ کی اس دنیا میں بھی ذمہ داری ہے اور آخرت میں بھی اس کا حساب دینا ہو گا، جیسا کہ قرآن وحدیث میں بتلا دیا گیا ہے۔
﴿قُوْا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا﴾ (التحريم:6)
’’تم اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔‘‘
اور حدیث میں ہے:
كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ)) (صحيح البخاري ، كتاب النكاح:5188)
’’تم سب لوگ راعی ، نگران اور نگہبان ہو اور تم سب سے اپنی اپنی رعایا کے بارے میں باز پرس ہوگی ۔‘‘
اپنی اولادوں کو غیرت سکھاؤ، شرم و حیا کی ترغیب دو سوشل میڈیا پر بیٹھے بھیڑیوں سے بچاؤ کہ وہ ایسی دلدل ہے کہ آدمی اس میں پھنستا ہی چلا جاتا ہے اور اس سے نکلنا ہرگز آسان نہیں ہوتا۔
غیرت کا اسلام میں بہت بڑا درجہ اور مقام ہے، غیرت کی خاطر قتل ہونے والے کو شہادت کا درجہ دیا گیا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: ((مَنْ قُتِلَ دُونَ أَهْلِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ)) (نسائی ، کتاب تحريم الدم: 4095)
’’اور جو اپنے اہل خانہ کی حفاظت اور دفاع کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا تو وہ شہید ہے۔‘‘
اور جس میں غیرت نہیں اس کو حدیث میں دیوث کہا گیا ہے اور دیوت کی ایک سزا یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالی اس کی طرف دیکھیں گے بھی نہیں ۔ (نسائی2562)
آج ہم مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر جس راستے پر چل نکلتے ہیں اس کا انجام اس دنیا میں بھی بڑا خوفناک ہے اور آخرت میں تو سراسر خسارہ ہی خسارہ ہے، اللہ تعالی ہم سب کو محفوظ فرمائے۔ آمین
اس تہذیب کے کارناموں میں یہ بھی شامل ہے کہ ایک عورت نے اس ملک میں کتے سے شادی کی اور اس کی شادی کی تقریب میں خود پادری بھی شریک ہوا اور انہیں خوشحال زندگی کی دعائیں دیں۔ یہ اس تہذیب کا ایک نمونہ ہے۔ اسلامی تہذیب کے نمونے نہایت ہی خوبصورت، صاف ستھرے اور نہایت ہی نفیس نمونے ہیں۔ ان میں سے ایک ملاحظہ کیجئے:
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے 286ھ کا ایک واقعہ نقل کیا ہے، کہ ایک عورت قاضی کے پاس اپنے خاوند کے خلاف 500 دینا ر حق مہر کا دعوی لے کر آئی اور کہنے لگی کہ میرے خاوند نے میرا حق مہر ادا نہیں کیا۔ خاوند انکاری ہوا۔ قاضی نے عورت سے کہا: گو اہ لاؤ۔
گواہ پیش کئے، تو ایک گواہ نے کہا کہ یہ عورت اپنے چہرے سے پردہ ہٹائے تا کہ میں جان سکوں کہ کیا یہ وہی عورت ہے، قاضی نے کہا: چہرے سے پردہ ہٹاؤ۔
خاوند نے دیکھا اور کہا قاضی صاحب، پر دہ نہ ہٹاؤ، میں قبول کرتا ہوں کہ میں نے اس کے500 دین حق مہر دینا ہے۔ دوسری طرف عورت نے اپنے خاوند کی غیرت کا یہ نظارہ دیکھا تو کہنے لگی قاضی صاحب گواہ رہنا کہ میں اپنے خاوند کو اپنا حق مہر معاف کرتی ہوں ۔ (جلباب المرأة المسلمة للالباني:113، تاريخ بغداد:13 /53 ، شعب الايمان ، الغيرة والمذاء )
…………….