گھر یلو خوشگوار زندگی کا سب سے اہم ضابطہ

﴿وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةً ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ۝﴾ (الروم:21) گھر یلو خوشگوار زندگی کے اصول جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں ، ان میں سے ایک سب سے اہم اور بنیادی ضابطہ اور اصل ہے: ﴿وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةٌ﴾ (الروم:21)
’’اور اللہ تعالی نے تمھارے درمیان محبت اور رحمت ڈال دی ہے۔‘‘
یعنی میاں بیوی کے درمیان فطری طور پر محبت رکھ دی گئی ہے اور صرف محبت ہی نہیں بلکہ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے رحمت بھی ڈال دی گئی ہے۔ محبت اور رحمت میں کیا فرق ہے اور خوشگوار زندگی کے ان رہنما اصولوں کا ایک ساتھ ہونا کیوں ضروری ہے، آج کی گفتگو میں ان شاء اللہ یہ بھی جاننے کی کوشش کریں گے مگر اس سے پہلے میاں بیوی کے درمیان محبت اللہ تعالی کی طرف سے ڈالے جانے کا ذکر کرتے ہیں۔ میاں بیوی کے درمیان محبت ایک مثالی محبت ہے، کیونکہ یہ اللہ تعالی نے انسان کی فطرت میں ڈالی ہے اور اس پر احسان بھی جتلایا ہے۔ انسان اپنی طرف سے جب کسی سے محبت کرتا ہے، تو اس کا معیار الگ ہوتا ہے، اس کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں اور اس کا مفہوم الگ ہوتا ہے، مگر جب اللہ تعالی نے ڈالی ہے تو وہ فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہے، انسان کی ضروتوں کے مطابق ہے، اس کا احساس مختلف ہے، اس کی قوت مختلف ہے، اس کے نتائج مختلف ہیں اور اس کا مفہوم مختلف ہے اس لیے وہ ایک مثالی محبت ہوتی ہے۔
چنانچہ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((لَمْ يُرَ لِلْمُتَحَابَّيْنِ مِثْلُ النِّكَاحِ))
(سنن ابن ماجه:1847، صحیح ابن ماجه للالباني:1509)
’’دو محبت کرنے والوں میں نکاح جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی گئی ۔‘‘
یعنی نکاح کے ذریعے جو محبت ہوتی ہے اس جیسی محبت کہیں نہیں ہوتی ۔ تو اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیان جو محبت ڈالی ہے، وہ ایک فطری اور مثالی محبت ہے اور وہ بنیادی طور پر ہر شادی شدہ جوڑے میں موجود ہوتی ہے، مگر بعد میں متعدد اسباب و وجوہات کی بنا پر اس میں کچھ کمی آ جاتی ہے، یا وہ نفرت میں بدل جاتی ہے وہ وجوہات کیا ہیں کہ جن کی بنا پر اس محبت میں کمی آجاتی ہے؟
تو وہ وجوہات تو یقینًا بہت سی ہیں مگر ان میں سے چند ایک یہ ہیں کہ ایک تو یہ کہ اگر مرد نے باہر سے کسی اور کو اپنا آئیڈیل بنالیا ہو، تو پھر اس کو اپنی بیوی اچھی نہیں لگتی اور گھر کی مرغی دال برابر ہو جاتی ہے، پھر آدمی اس کی ہر بات پر نکتہ چینی کرنے لگ جاتا ہے۔ دوسری طرف بعض عورتیں بھی کسی اور کو اپنی آئیڈیل شخصیت سمجھنے لگ جاتی ہیں اور یہ عموما ان گھروں میں ہوتا ہے جہاں غیر محرموں کے ساتھ اختلاط کو برا نہیں سمجھا جاتا، یا جن گھروں میں فلمیں اور ڈرامے دیکھے جاتے ہیں، پھر وہ ٹی وی ڈراموں والے اُن کی آئیڈیل شخصیات بن جاتے ہیں کہ خاوند اس طرح کا ہونا چاہیے تب وہ بھی خاوند کو مجبورًا برداشت کر رہی ہوتی ہیں۔
اور یہ ایک حقیقت ہے ، اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا ، آدمی دوسروں سے متاثر ہوتا ہے۔ کسی کی پر سٹیلٹی پسند آجائے تو انسان اس میں کھو سا جاتا ہے، اسی لیے نظریں نیچی رکھنے کا حکم ہے، اور اگر اچانک نظر پڑ جائے تو معاف ہے، اگر نکنی باندھ کر دیکھنے لگ جائیں تو یہ گناہ بھی ہے اور اس کے معاشرتی نقصانات بھی ہیں اور ان میں سے ایک نقصان یہ ہے کہ پھر مرد کو اپنی بیوی اچھی نہیں لگتی اور عورت کو اپنا خاوند اچھا نہیں لگتا۔ اور اگر اچانک نظر پڑ جانے سے بھی آدمی کے دل میں طرح طرح کے خیالات انگڑائیاں لینے لگیں تو حدیث میں اس کا علاج بتلایا گیا ہے، فرمایا:
((فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ إِمْرَأَةَ فَأَعْجَبَتْهُ ، فَلَيَأْتِ أَهْلَهُ ، فَإِنَّ مَعَهَا مِثْلَ الَّذِي معها)) (ترمذي:1158)
’’اگر کوئی آدمی کسی عورت کو دیکھے اور اس کو اچھی لگے تو وہ اپنی اہلیہ کے پاس جائے کہ اس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہے، جو اس کے ساتھ ہے۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے:
((فَإِنَّ ذَلِكَ يَرُدُّ مَا فِي نَفْسِهِ)) (صحيح مسلم:1403)
’’تو یہ اس کے دل میں پائے جانے والے خیالات کو ختم کر دے گا ۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ ادھر ادھر جھانکنے، نظروں کو کھلا چھوڑ دینے کے نقصانات یقینی ہیں، گھر کا ماحول خراب ہوتا ہے، چپقلش اور نفرت بڑھنے لگتی ہے، حالانکہ باہر سے کوئی چیز پسند آنے کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ دور کے ڈھول سہانے ۔ دور کے ڈھول سہانے کا مطلب ہوتا ہے کہ دور دور سے چیز اچھی لگتی ہے، جیسے کہیں دور ڈھول بج رہا ہو تو اس کی ہلکی اور دھیمی آواز کانوں کو بھلی معلوم ہوتی ہے ، آدمی اس سے لطف اندوز ہوتا ہے اور بسا اوقات مست ہونے لگتا ہے مگر وہی ڈھول جب قریب بج رہا ہو تو کان پھٹنے لگتے ہیں۔
اس لیے محض شیطانی وسوسہ ہوتا ہے اور دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں، تو اللہ تعالی نے جو محبت میاں بیوی کے درمیان پیدا کی ہے ان کی فطرت اور خمیر میں رکھ دی ہے، اس کے کم ہونے یا نفرت میں بدلنے کے متعدد اسباب میں سے یہ بھی ہے، کہ ان میں سے کوئی ایک فریق کسی گناہ میں ملوث ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے اور آپ ﷺنے قسم کھا کر بات ارشاد فرمائی ہے، فرمایا:
((وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ))
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے۔‘‘
((مَا تَوَاد اثنان ففرق بينهما إلا بذنب يُحْدِثُهُ أَحَدُهُمَا )) (ارواء الغليل:8199، الأدب المفرد:401)
’’جو بھی کوئی دو انسان ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور پھر ان میں علیحدگی ہو جاتی ہے تو کسی گناہ کی وجہ سے ہوتی ہے جو ان دونوں میں سے کسی ایک نے کیا ہوتا ہے۔‘‘
لہذا یہ بات گھریلو اختلافات کو سمجھنے اور ان کا حل تلاش کرنے کے لیے نہایت ہی قابل غور ہے کہ اللہ تعالی نے جب انسانوں کی ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانے اور خوش اسلوبی سے گزارنے کے لیے اپنی طرف سے ان میں مودت و رحمت رکھ دی ہے، تو پھر وہ کون سی چیز ہے جو اس مودت و رحمت کو ختم کرتی ہے۔ تو اس کی بہت سی وجوہات میں سے سر دست ایک دو کا ذکر ہوا، تا ہم خلاصہ اس کا یہی ہے کہ کامیاب ازدواجی زندگی مودت و رحمت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔
یہ تو آپ کو اندازہ ہی ہوگا کہ جہاں صحیح معنوں میں مودت و محبت قائم ہو وہاں کسی قسم کے اختلاف، ناراضی اور لڑائی جھگڑے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ محبت نام ہے قربانی کا سر تسلیم خم کر دینے کا ، بالخصوص جب طرفین کو ایک دوسرے سے محبت ہو تو پھر تو کسی قسم کے اختلاف کے امکانات نہیں رہتے ۔ پھر آدمی ایک دوسرے کی ناگوار باتیں بھی بڑی خوش دلی سے قبول کرتا ہے پھر آدمی اسے تنگ نہیں کرتا ، طر نہیں کرتا ، برا بھلا نہیں کہتا ، بلکہ اس کی ہر جائز بات فورا مان لیتا ہے، وہ بہت نرم اور سہل ہوتا ہے جیسا کہ حدیث میں آپﷺ کے بارے میں ہے کہ:
((كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ رَجُلًا سَهْلًا ))
’’آپﷺ بہت سہل اور آسان آدمی تھے۔‘‘
((إِذَا هَوِيَتِ الشَّيْءَ تَابَعَهَا عَلَيْهِ)) (صحيح مسلم:1213)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ جب کسی چیز کی خواہش کرتیں تو آپ ﷺاس کو پورا فرماتے۔‘‘
تو یہ بات تو آسانی سے سمجھ آنے والی ہے کہ جہاں محبت ہو وہاں اختلافات کی گنجائش نہیں ہوتی۔ تو معنی یہ ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ میاں بیوی کے درمیان کیلی محبت ہی ڈال دیتا تو وہ بھی خوشگوار گھریلو زندگی کے لیے کافی ہوتی مگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کتنا مہربان ہے، کتنا رحیم و کریم ہے کہ محبت کے ساتھ رحمت بھی ڈال دی ہے۔ جس طرح ایک خوشگوار ماحول کے لیے اکیلی محبت ہی کافی ہے ، اسی طرح دوسری طرف صرف رحمت ہی ہوتی تو و د بھی کافی تھی، اور جہاں یہ دونوں چیزیں اکٹھی ہو جائیں، وہاں پھر اس گھر کا ماحول کیسا مثالی ہو سکتا ہے ، آپ یقینًا اندازہ کر سکتے ہو نگے ۔ آپ نے اس دور میں کسی کی ازدواجی زندگی میں شائد الیسا امتزاج نہ دیکھا ہو کہ جہاں دونوں چیزیں موجود ہوں ، اگر چہ ایسے گھرانے اس گئے گزرے دور میں اب بھی موجود ہیں، مگر بہت کم لیکن وہ گھرانے کس قدر بد بختی کا شکار ہوں گے جو ان دونوں چیزوں سے محروم ہوں ، ایسے گھرانے اس دنیا میں جہنم کا منظر پیش کر رہے ہوں گے۔ خوشحال اور خوشگوار گھرانے کی بنیا دان دونوں چیزوں پر رکھنے میں کیا حکمت ہے، علماء کرام اس کی ایک حکمت یہ بیان کرتے ہیں کہ میاں بیوی کے درمیان ایک مدت تک تو محبت کا پہلو غالب رہتا ہے ، پھر جب ان میں سے کوئی بیمار ہو جاتا ہے ، یا کسی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے، یا بوڑھا ہو جاتا ہے تو پھر رحمت کا پہلو غالب ہو جاتا ہے، کیونکہ اس وقت محبت کے تقاضے ماند پڑ چکے ہوتے ہیں۔
اور دوسرا یہ ہے کہ مرد کی طرف سے محبت اور رحمت دونوں چیزوں کی ایک ہی وقت میں ضرورت ہوتی ہے ، محبت خاوند اور بیوی کے تعلق کی نسبت سے ، اور رحمت اس کے قیدی ہونے کی حیثیت ہے، کہ وہ مرد کے پاس قیدی ہوتی ہے، بے بس اور بے اختیار ہوتی ہے، اور اس کی وہ حالت رحم اور نرمی کی متقاضی ہوتی ہے۔ مردوں کے ذمے عورتوں کے حقوق اور حسن سلوک سے متعلق ابھی بہت کچھ کہنے کو ہے مگر چاہتا ہوں کہ عورتوں کے ذمے مردوں کے حقوق سے متعلق بھی کچھ معلوم کرتے چلیں، مرد کے حقوق کے حوالے سے عورت کی ذمہ داریوں پر بات کرنے کے لیے ایک لمبی تمہید کی ضرورت ہے، تا کہ بات اچھی طرح بھی جاسکے اور اس میں کوئی ابہام اور اشکال پیدا نہ ہو۔ اسلام نے عورت کو ایک بہت بڑا مقام دیا ہے، ماں کی حیثیت سے وہ مردوں پر فوقیت رکھتی ہے ، البتہ بیوی کی حیثیت سے وہ مرد کے تابع ہے، اور اس کا مطلب بھی کمتر یا حقیر ہونا نہیں، بلکہ دنیا کا نظام چلانے کے لیے لوگوں کو حاکم اور رعایا میں تقسیم کیا گیا ہے ، اس کے بغیر دنیا نظام نہیں چل سکتا ، ایسے ہی گھر کے اندر بھی ہے حتی کہ دوران سفر بھی کسی ایک کو امیر مقرر کر لینے کا حکم ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے ، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِذَا خَرَجَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ)) (ابوداود:2608)
’’ جب کوئی تین لوگ سفر کے لیے نکلیں تو آپس میں کسی ایک کو امیر بنالیں۔‘‘
حتی کہ اللہ تعالی نے نظام کا ئنات کے درست طور پر چلنے میں بھی یہی دلیل بیان فرمائی ہے۔ فرمایا:
﴿لَوْ كَانَ فِیْهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ۝﴾(الانبياء:22)
’’اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا دوسرے معبود بھی ہوتے تو زمین و آسمان کا انتظام بگڑ جاتا۔‘‘
لہٰذا عورت کا اپنے خاوند کے ماتحت اور تابع ہونا اسی ضرورت کے پیش نظر ہے اور اس کی ایک اور وجہ بھی ہے اس کا بھی ذکر کریں گے۔ ان شاء اللہ ، مگر اس سے پہلے عورت کی اسلام سے پہلے، زمانہ جاہلیت میں حالت اور حیثیت کا جائز و لیتے ہیں، حدیث میں ہے،
((قَالَتْ زَيْنَبُ: وَسَمِعْتُ أُمِّي أُمَّ سَلَمَةَ))
’’حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے اپنی والد و ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے سناہے۔‘‘
((تَقُولُ: جَاءَتْ إِمْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَتْ: يَارَسُوْلَ اللَّهِ إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا وَقَدْ اشْتَكَتْ عَيْنُهَا، أَفَنَكْحُلُهَا))
’’حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتی ہیں کہ ایک عورت آپ ﷺکے پاس آئی اور کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! میری بیٹی کا خاوند فوت ہو گیا ہے اور اسے آنکھ کی تکلیف ہوگئی ہے کیا ہم اسے سرمہ لگا سکتے ہیں؟‘‘
((فَقَالَ رَسُولُ اللهِ لَا، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ: لا))
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: ’’نہیں‘‘ اس نے دو یا تین بار پوچھا اور ہر بار آپﷺ نے جواب میں فرمایا: نہیں۔‘‘
((ثُمَّ قَالَ: إِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ ))
’’اور پھر آپ ﷺنے فرمایا: یہ سارے چار مہینے اور دس ہی تو ہیں۔‘‘
((وَقَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ فِي الجَاهِلِيَّةِ تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عَلَى رَأْسِ الحول))
’’اور دور جاہلیت میں حال یہ تھا کہ تم میں سے کوئی سال کے اختتام پر مینگنی پھینکا کرتی تھی۔‘‘
((قَالَ حُمَيْدٌ فَقُلْتُ لِزَيْنَبَ وَمَا تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عَلَى رَأْسِ الحول))
’’راوی حمید کہتے ہیں کہ میں نے زینب سے پوچھا کہ سال کے اختتام پر مینگنی پھینکنے کا کیا مطلب ہے؟‘‘
((فَقَالَتْ زَيْنَبُ: كَانَتِ الْمَرْأَةُ إِذَا تُوُفِّي عَنْهَا زَوْجُهَا دَخَلَتْ حِفْشًا، وَلَبِسَتْ شَرَّ ثِيَابِهَا ، وَلَمْ تَمَسُّ طِيبًا ، حَتَّى تَمُرَّ بِهَا سنة))
’’تو زینب نے کہا کہ زمانہ جاہلیت میں عورت کا جب خاوند فوت ہو جاتا تو وہ ایک نہایت ہی تنگ کو ٹھری میں داخل ہو جاتی ، گندے ترین کپڑے پہنتی ، خوشبو کو ہاتھ نہ لگاتی حتی کہ پورا ایک سال گزر جاتا۔‘‘
((ثُمَّ تُؤْتَى بِدَابَّةٍ ، حِمَارٍ أَوْ شَاةٍ أَوْ طَائِرٍ فَتَفْتَضُ بِهِ))
’’پھر کسی جانور کو لایا جاتا، گدھا، بکری، یا پرندہ وغیرہ اور وہ اس پر ہاتھ پھیرتی یا اس کے ساتھ اپنا جسم رگڑتی ۔‘‘
((فَقَلَّمَا تَفْتَضُ بِشَيْءٍ إِلَّا مَاتَ))
’’ایسا کم ہوتا تھا کہ وہ جس سے اپنا جسم رگڑتی تھی مر نہ جاتا۔‘‘
(ثُمَّ تَخْرُجُ فَتُعْطَى بَعْرَةً فَتَرْمِي))
’’پھر وہ نکلتی اور اسے ایک مینگنی دی جاتی ، جسے وہ پھینکتی ، یعنی دور جاہلت کی یہ ایک رسم تھی۔‘‘
((ثُمَّ تُرَاجِعُ مَا شَاءَتْ مِنْ طِيب أو غيره )) (ابو داود:2299)
’’پھر اس کے بعد وہ جو خوشبو وغیرہ لگانا چاہتی لگائی۔‘‘
تو مطلب یہ تھا کہ کبھی تمھاری حالت یہ تھی اور اب اللہ تعالی نے تم پر اپنا فضل فرمایا ہے کہ تمھیں باعزت طریقے سے گھر میں رہنے کی اجازت ہے اور پھر سال کے بجائے صرف چار مہینے، دس دن انتظار کرنا ہے، اس پر بھی صبر نہیں کر رہی، تمھیں تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ تعالی نے تمہیں اس ذلت سے نکا ہے، اس کے علاوہ بھی زمانہ جاہلیت میں عورت پر بہت ظلم و ستم ہوتے ، اسے حقیر سمجھا جاتا، وراثت سے محروم رکھا جانا۔ لہذا پہلے تو عورت کو اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے اور حقیقت یہ ہے کہ مردوں کو بھی اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ تعالی نے ان کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو اس ذلت و رسوائی کی حالت سے نکالا ، ورنہ وہ بھی آج اسی جہالت کا شکار ہوتے اور عورتوں پر ظلم کر رہے ہوتے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہر انسان کو اللہ کی تقسیم پر راضی رہنا چاہیے، اللہ تعالی نے جس انسان کو جس حالت میں اور جس درجے میں رکھا ہے وہ تین عدل و انصاف ہے اور سراسر حکمت ہی حکمت ہے، تقدیر پر ایمان رکھنے اور راضی ہونے کا ثواب بھی ہے اور اس کے دنیوی فائدے بھی ہیں۔
عورت کی ذمہ داریوں کے حوالے سے آج کی آخری بات یہ ہے کہ عورت کو مرد کے سکون کے لیے بنایا گیا ہے جیسا کہ فرمایا:
﴿لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا ﴾ (الروم:21) ’’تاکہ تم اس کے پاس سکون حاصل کرو۔‘‘
سکون کا مطلب کیا ہے، اس کا ان شاء اللہ آئند و جمعے ذکر کریں گے۔
…………………..