گھریلو اختلافات کو کیسے سلجھایا جا سکتا ہے؟
﴿ وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةً ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ۲۱﴾ (الروم:21)
گھریلو اختلافات کا ذکر ہو رہا تھا، گھریلو اختلافات انسان کی فطری کمزوریوں کا نتیجہ ہوتے ہیں، جن سے کوئی گھر مستثنی نہیں ہے، طبیعتوں اور مزاجوں اور دیگر بہت کی صفات کے فطری اختلاف کی وجہ سے انسان کی معاشرتی زندگی میں اختلافات رونما ہوتے ہیں۔ لوگ اپنے عادات و اطوار اور اخلاق وصفات میں ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہوتے ہیں، ہم میں سے ہر ایک شخص کو اس کا بخوبی اندازہ ہوگا، کیونکہ ہم اپنے اپنے گھروں میں اور اپنے قرب و جوار میں اس کا خوب مشاہدہ کرتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ باپ کا بیٹے سے مزاج نہیں ملتا، بیٹی کا ماں سے مزاج نہیں ملتا اور بھائی کا بہن سے مزاج نہیں ملتا، کیونکہ یہ اختلاف الطبائع انسان کی فطرت میں ہے، وہ فطرتا ایک دوسرے سے مختلف پیدا کئے گئے ہیں۔
اور یہ بھی ایک فطری بات ہے کہ جس سے آدمی کا مزاج ملتا ہو وہ اس کے ساتھ قربتیں بڑھاتا ہے اور عالمی اصطلاح میں اسے قارورہ ملنا کہتے ہیں، یعنی آپس میں ایک دوسرے کے مزاج میں موافقت اور مطابقت ہونا، چنانچہ اس حقیقت کو ہر قوم کے ہاں تسلیم کیا جاتا ہے اور شعر و ادب میں اس کا اظہار کیا جاتا ہے، جیسا کہ شاعر کہتا ہے۔
کبوتر با کبوتر باز با باز
کند ہم جنس باہم جنس پرواز
اور یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے، مزاجوں کی مطابقت اور عدم مطابقت کے حوالے سے حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((الْأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَهُ فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ وَمَا تَنَاكَرِ مِنْهَا اختلف )) (صحیح مسلم:2638)
’’روحیں مجتمع لشکر ہیں، تو جو ان میں سے پہچانتی ہیں وہ مانوس ہوتی ہیں اور جو مختلف ہوتی ہیں جدا جدا ہو جاتی ہیں‘‘
تو رو حیں جمع کئے گئے مجموعے ہیں، یعنی روحوں کو مجموعوں اور گروپوں کی شکل میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ہر مجموعے کی ایک خاص عادات و اطوار میں ایک خاص مزاج اور طبیعت ہے، کوئی مجموعه نرم مزاج والا علم و بردباری والا ، سخاوت اور فیاضی والا، نیکی کی طرف رغبت اور میلان رکھنے والا لڑائی جھگڑے، گالی گلوچ اور ناچ گانے سے اجتناب کرنے والا۔
اور کوئی دوسرا مجموعہ سخت گیر اور غصے والا، لڑائی جھگڑے والا، ہلے گلے والا ، ناچ گانے والا ، گالی گلوچ والا ، بد زبان اور طاقت کے زور پر لوگوں کو زیر کرنے والا۔ دولت کے نشے میں مدہوش ہو کر لوگوں کو حقیر سمجھنے والا ۔
تو ہر روح اپنے اپنے پسندیدہ مجموعے کے ساتھ مانوس ہوتی ہے اس کی طرف میلان اور رجحان رکھتی ہے ، اس کے لیے اس کی ہمدردیاں ہوتی ہیں، اس کے ساتھ وہ اپنی قربتیں بڑھاتی ہے۔
جب وہ روحیں اپنے اپنے جسموں میں داخل ہوتی ہیں اور ان جسموں کا آپس میں تعارف ہوتا ہے، ملاقات ہوتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے مانوس ہو جاتے ہیں۔
(مَا تَعَارَفَ مِنْهَا اِئْتَلَفَ)
جب ان کی آپس میں ملاقات ہوتی ہے تو ان میں ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے۔
اور جب کبھی وہ کسی ایسے شخص سے ملتے ہیں کہ جس کی روحوں کا مزاج آپس میں نہیں ملتا ہوتا تو وہ فطری طور پر ایک دوسرے کے لیے دل میں تنگی اور انقباض محسوس کرنے لگتے ہیں۔
(وما تناكر منها اختلف) .
اور جو ایک دوسرے سے موافقت نہیں رکھتے وہ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں۔ لہذا گھر یلو اختلافات فطری اختلافات ہیں، مکمل طور پر تو اُن سے بچنا ممکن نہیں ہے، البتہ ذرا کم کیے جاسکتے ہیں اور خوش اسلوبی سے حل کئے جاسکتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ وہ کیسے؟
تو وہ یوں کہ اپنے اپنے فرائض اور ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے۔ یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ جب گھریلو اختلافات کی بات ہوتی ہے تو عموماً اس سے مراد میاں بیوی کے درمیان اختلافات ہوتے ہیں اگر چہ اس سے گھر کے دوسرے افراد کے اختلافات بھی مراد ہو سکتے ہیں۔
تا ہم ، ہم اس وقت میاں بیوی کے درمیان ہونے والے اختلاف کا ہی ذکر کرنا چاہیں گے، تاکہ ان اختلافات کے اسباب جان کر اس کا حل معلوم کیا جائے کہ جس سے گھر کا ماحول خوشگوار ہو کیوں کہ گھر کے ماحول کا خوشگوار اور پرسکون ہونا انسان کی دنیا اور اس کی آخرت کے لیے نہایت ہی ضروری ہے۔ گذشتہ جمعوں میں گھر کی اہمیت کے ضمن میں ہم نے یہ جانا کہ گھر انسان کے آرام اور سکون کی جگہ ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا:
﴿وَاللهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ بُيُوتِكُمْ سَكَنًا) (النحل:80)
’’اور اللہ نے تمھارے لیے تمھارے گھروں کو جائے سکون بنایا ہے ۔‘‘
اور یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ کوئی گھر اُس وقت تک حقیقی معنوں میں گھر نہیں کہلاتا جب تک اس میں گھر والے نہ ہوں ، اہل خانہ نہ ہوں، اور کوئی گھر اس وقت تک حقیقی ۔ معنوں میں آرام و سکون کی جگہ نہیں بن سکتا جب تک گھر والوں کے ساتھ ہم آہنگی نہ ہو، خوشگوار تعلقات نہ ہوں۔
تو آج کی گفتگو میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے مرد کے فرائض اور ذمہ داریاں کیا ہیں۔ مرد کو اللہ تعالی نے گھر کا سر براہ اور ذمہ دار بنایا ہے چنانچہ گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کی زیادہ ذمہ داری بھی مرد ہی کی ٹھہرتی ہے۔ گھر میں کشیدگی پیدا ہونے کی کیا کیا وجوہات ہوتی ہیں، مرد سے کہاں کہاں کوتاہی ہوتی ہے، سب سے پہلے وہ کمی اور کوتاہی دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا اور بنیادی سبب تو اپنی ذمہ داریوں سے لاعلمی اور نا واقفیت ہے۔ اور ایک بڑا سبب گھر کی سربراہی کا نشہ ہے، کہ جس میں مدہوش ہو کر آدمی عورت کو حقیر خیال کرنے لگتا ہے، حالانکہ عورت مرد کی نظیر ہے، اس کی مثیل ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے:
((النِّسَاءُ شَفَائِقُ الرِّجَالِ)) (الجامع الصغير:2545)
’’عورتیں مردوں کا نصف اور ان کی مانند ہیں۔‘‘
عورتوں کو حقیر جاننے کا خیال اور نظریہ جاہلانہ اور دین سے نا واقفیت کا نتیجہ ہے۔
اسلام سے پہلے، دور جاہلیت میں عورت کو انتہائی حقیر سمجھا جاتا تھا، اس حد تک حقیر سمجھا جاتا تھا کہ ان کے ساتھ نارمل انداز میں بات کرنا بھی گوارا نہ کرتے تھے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے ، حضرت عبداللہ بن عباس بنای تا بیان کرتے ہیں کہ:
((كُنْتُ أَرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بنَ الخَطَابِ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ ) فَكُنْتُ أَهَابُهُ))
’’میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے آیت ﴿وَإِن تَظْهَرا عَلَيْهِ﴾ (التحریم:4) کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا مگر اُن سے ڈر لگتا تھا۔
((حَتَّى حَجَجْنَا معه حَجَّةً ))
’’حتی کہ ہم نے ایک بار ایک ساتھ حج کیا۔‘‘
((فَقُلْتُ: لَئِنْ لَمْ أَسْأَلُهُ فِي هَذِهِ الْحَجَّةِ لَا أَسْأَلُهُ))
’’تو میں نے دل میں کہا کہ اگر اس حج کے موقعے پر میں سوال نہ کر سکا تو پھر نہیں کر سکوں گا۔‘‘
((فَلَمَّا قَضَيْنَا حَجَّنَا أَدْرَكْنَاهُ بِبَطْن من (وادي فاطمة ، مر الظهران)))
’’جب ہم نے حج ادا کر لیا تو ہم اُن سے وادی مّر میں جاملے۔‘‘
(وادی مرمر الظہران ) جو کہ ملکہ سے ۱۶ میل کے فاصلے پر ہے۔
(قَدْ تَخَلَّفَ لِبَعْضِ حَاجَاتِهِ ) وہ وہاں اپنے کسی ضروری کام سے رک گئے تھے۔
((فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ يَابنَ عَمِّ رَسُولِ اللهِ مَا حَاجَتِكَ ))
’’تو فرمانے لگے: مرحبا اے نبی کریم ﷺ کے چا زاد کہئے کیا کام ہے؟‘‘
((قُلْتُ: شَيْءٌ كُنْتُ أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَكُنتُ أَهابُكَ ))
’’تو میں نے کہا: اے امیر المؤمنین میں ایک عرصہ سے آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا تھا مگر آپ سے ڈر لگتا تھا۔‘‘
((فَقَالَ: سَلْنِي عَمَّا شِئْتَ فَإِنَّا لَمْ نَكُنْ نَعْلَمُ شَيْئًا حَتَّى تَعَلَّمْنَا ))
’’تو انہوں نے فرمایا: جو چاہو پوچھو، جب ہم نے علم حاصل کرنا شروع کیا تو ہم بھی کچھ نہ جانتے تھے۔‘‘
((فَقُلْتُ: أَخْبِرْنِي عَنْ قَوْلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَإِنْ تَظْهَرَا عَلَيْهِ مَنْ هما؟))
’’تو میں نے کہا: مجھے اللہ تعالی کے فرمان ﴿وَاِنْ تَظْهَرَا عَلَيْهِ﴾ کے بارے میں بتلائیے ، اس سے مراد وہ دونوں کون ہیں ۔‘‘
((قَالَ: لَا تَسْأَلُ أَحَدًا أَعْلَمَ بِذَلِكَ مِنِّي كُنَّا بِمَكَّةَ لَا يُكَلِّمُ أَحَدُنَا إِمْرَأَتَهُ إِنَّمَا هِيَ خَادِمُ الْبَيْتِ))
’’تو فرمایا: اس بارے میں تم مجھ سے زیادہ کسی جاننے والے سے نہیں پوچھو گے ۔ ہم جب مکہ میں تھے تو ہم میں سے کوئی عورت سے بات بھی نہ کرتا تھا۔ وہ تو بس گھر کی ایک خادمہ تھی۔‘‘
((فَإِذَا كَانَ لَهُ حَاجَةٌ سَفَعَ بِرِجْلِهَا فَقَضَى حَاجَتَهُ))
’’اور جب اس سے کوئی کام ہوتا تو اس کی ٹانگوں پر مارتے اور اپنا کام کر لیتا۔‘‘
((فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَة تَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَاءِ الْأَنْصَارِ ))
’’پس جب ہم مدینہ آئے تو انھوں نے انصار کی عورتوں سے سیکھ لیا یعنی خاوندوں سے بحث و تکرار کرنے کی عادت لے لی۔‘‘
((فَجَعَلن يكلِّمْنَنَا وَ يُرَاجِعْنَنَا))
’’تو انصار کی عورتوں کو دیکھ کر وہ بھی ہم سے بات کرنے لگیں اور بحث و تکرار کرنے لگیں۔‘‘
((وَ إِنِّي أَمَرْتُ غِلْمَانًا لِي بِبَعْضِ الْحَاجَةِ فَقَالَتْ إِمْرَأَتِي بَلْ إِصْنَعْ كَذَا وَكَذَا))
’’میں نے ایک بار اپنے خادموں سے کوئی کام کہا تو میری بیوی نے کہا بلکہ یہ یہ کام کرو۔‘‘
((فَقُمْتُ إِلَيْهَا بِقَضَيْبٍ فَضَرَبْتُهَا بِهِ))
’’تو میں اٹھا اور چھری سے اس کو مارا۔‘‘
((فَقَالَتْ: يَا عَجَبًا لَكَ يَابْنَ الْخَطَّابِ تُرِيدُ أَنْ لَا تُكَلَّمَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ تُكَلِّمُهُ نِسَاءُ هُ))
’’تو اُس نے کہا: تعجب ہے آپ پر اے خطاب کے بیٹے! آپ چاہتے ہیں کہ آپ سے بات نہ کی جائے، جبکہ آپﷺ سے آپ کی بیویاں باتیں کرتیں ہیں۔‘‘(المعجم الأوسط للطبراني: 8764، مجمع الزوائد:7832)
لمبی حدیث ہے، اس میں سے ہمارے موضوع سے متعلق حدیث کا یہ جزء ہے کہ کوئی عورت ہم میں سے کسی سے بات کرنے کی جرات نہ کرتی تھی۔
ایک طرف عورت کو ذلیل اور حقیر سمجھنے کی یہ انتہا تھی اور دوسری طرف آج یہ انتہا ہے کہ عورت کو آزادی کے نام پر نیم برہنہ کر کے گلیوں اور بیچوں پر لا بٹھایا گیا، کہیں جلسوں میں نچھوایا گیا، کہیں ٹی وی پر اشتہاروں میں سجایا گیا ، کہیں اپنے کاروبار چمکانے کے لیے دفتروں میں بٹھایا گیا۔
غرضیکہ آج عورت کو مال تجارت بنا دیا گیا ہے، اندازہ کیجئے کس قدر بے حسی ہے، ایک وہ بے حسی تھی کہ ماں، بہن اور بیٹی کے لیے بھی دل میں کوئی عزت و احترام نہ تھا اور ایک یہ بے حسی ہے کہ کوئی اس برائی کو برائی سمجھنے کو تیار نہیں ہے۔ الا ماشاء اللہ
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
یہ بات انتہائی غور طلب ہے کہ کسی قوم کی ذلت و رسوائی اور زوال و انحطاط کی انتہائیہ ہے کہ ان میں بحیثیت مجموعی احساس زیاں ختم ہو جائے۔
یاد رکھیئے کہ کوئی قوم دنیا میں بھی اپنی کمزور معیشت کی وجہ سے تباہ و برباد نہیں ہوئی ، اس کے برعکس نہایت عروج کے زمانے میں تباہ ہو ئیں اور اس کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب اخلاقی پستی اور گراوٹ تھا۔
إِنَّمَا الْأُمَمُ الْأَخْلَاقُ مَا بَقِيَتْ
فَإِنْ هُمُو ذَهَبَتْ أَخْلَاقُهُمْ ذَهَبُوا
’’قو میں اپنے اخلاق کی بدولت زندہ رہتی ہیں، جب وہ اخلاقی پستی کا شکار ہوتی ہیں تو نیست و نابود ہو جاتی ہیں۔‘‘
آج بحیثیت قوم ہماری اخلاقی پستی کا عالم یہ ہے کہ کوئی عالم، کوئی دانشور، کوئی سیاستدان اس موضوع پر بات کرنے کو تیار نہیں ہے، اور اگر کوئی ایک آدھ شخص بات کرتا ہے تو اولا اسے پسند نہیں کیا جاتا اور دوسرے یہ کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے، جہاں
اس قدر ہنگامہ اور شور و غل ہو وہاں ایک کمزور اور نحیف آواز کون سنتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہم اس بے راہ روی اور اس بے حسی کی سنگینی کو نہیں سمجھتے۔ آپ کو معلوم ہے کہ بنی اسرائیل پر لعنت کیوں کی گئی تھی! اللہ فرماتے ہیں
﴿ لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ﴾(المائده:78)
’’بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اُن پر داود اور عیسی ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی، کیونکہ دو سرکش ہو گئے تھے اور زیادتیاں کرنے گئے تھے۔‘‘
﴿كَانُوا لَا يَتَنَاهُونَ عَنْ مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ﴾ (المائدة:79)
’’انھوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا۔‘‘
آج ہم ایک دوسرے کو برائی سے کیا روکیں گے، ہماری حالت تو اس سے کہیں ابتر ہے، وہ لوگ کم از کم برائی کو برائی تو سمجھتے تھے، مگر ہم اسے برا بھی نہیں سمجھتے یہ جو سب سے کمزور ایمان کی علامت ہے کہ گناہ کو دل میں برا جاننا ہم میں تو وہ بھی مفقود ہے۔ ہم اگر ناچنے گانے کو برا سمجھتے ہوتے تو ہماری ہمدردیاں ایسے لوگوں کے لیے نہ ہوتیں جو اس کا اہتمام کرتے ہیں، آدمی کے خیالات اور اس کی ذہنیت ہی اس کی اصلیت ہوتی ہے، اس کا عقیدہ و نظریہ ہی اس کی پہچان ہوتی ہے، کسی کی ظاہری وضع قطع اور نماز روزو اس کے دین دار ہونے کی حتمی علامت ہرگز نہیں ہے۔
ہم نے شاید کبھی غور نہیں کیا کہ ہماری اس قوم سے کتنی مشابہت ہو چکی ہے جس پر لعنت کی گئی تھی ، اور اس مشابہت پر آپﷺ کی پیشین گوئی ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ، شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَ ذِرَاعًا بِذِرَاعٍ ، حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ)) (صحیح البخاری:7320- صحيح مسلم:2669)
’’فرمایا: تم لوگ اپنے سے پہلی امتوں کے نقش قدم پر ایک ایک بالشت اور ایک ایک ہاتھ بھر چلو گے جتنی کہ اگر وہ گود کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی ان کے پیچھے چلو گے ۔‘‘
آدمی کی سوچ اور اس کے خیالات ہی اس کی اصلیت ہوتے ہیں اور اس کے مطابق جزا اور سزا ہے، چاہے عملاً کسی نیک یا برے کام میں شریک نہ بھی ہو سکے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((إِذَا عُمِلَتِ الْخَطِيئَةُ فِي الْأَرْضِ ، كَانَ مَنْ شَهِدَهَا فَكَرِهَهَا، كَمَنْ غَابَ عَنْهَا))
’’فرمایا: جب زمین میں کوئی گناہ کیا جاتا ہے ، اس وقت جو شخص وہاں موجود ہو اور اس گناہ کو نا پسند کرے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے وہ وہاں موجود ہی نہ تھا ۔‘‘
((وَمَنْ غَابَ عَنْهَا فَرَضِيهَا كَانَ كَمَنْ شَهِدَهَا)) (ابو داود:4345)
’’اور جو شخص وہاں موجود تو نہ تھا مگر اس گناہ سے راضی ہوا تو وہ ایسا ہی ہے جیسا کہ وہ گناہ کے وقت موجود تھا۔‘‘
جیسا کہ پاکستان میں یہاں سے ہزاروں میل دور اگر کوئی گناہ ہورہا ہو، مگر کوئی شخص یہاں بیٹھا اس سے خوش ہو رہا ہو تو وہ ایسے ہی ہے جیسے وہ بذات خود گناہ میں شریک تھا۔
بات اصل میں یہاں سے چلی تھی جو کچھ دوسری طرف نکل گئی کہ گھر کا ماحول خوشگوار بنانے کی زیادہ تر ذمہ داری مرد کی ہے اگر اس میں جو روکاوٹیں ہیں، ان میں سے ایک بنیادی روکاوٹ ہماری دین سے ناواقفیت ہے، اور خود کو برتر اور عورت کو حقیر سمجھنے کا نظریہ اور تصور ہے۔ بہت سے مرد حضرات گھر کا ماحول خراب ہونے کی ذمہ دار عورت کو قرار دیتے ہیں، ہاں کسی حد تک عورت کا قصور بھی ہو سکتا ہے، مگر مرد چونکہ گھر کا سربراہ ہے لہذا گھر کے ماحول کو بہتر بتانا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔
لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اکثر و بیشتر لوگوں کو گھر کا نظام چلاتا نہیں آتا، بہت جلدی نحصے میں آجاتے ہیں، اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور مسائل کو سختی سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ڈور اگر الجھ جائے تو اس کو زور سے کھینچنے سے مزید الجھ جاتی ہے، جب کہ مسائل کو سلجھانے کے لیے حمل، برداشت، حکمت اور ٹھنڈے مزاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک بہت اہم بات اس سلسلے میں یہ بھی ہے کہ اکثر مرد حضرات میں عورت کی کسی غیر ارادی لغزش اور کوتاہی کو نظر انداز کرنے کی صلاحیت اور گنجائش ہرگز نہیں ہوتی ۔ حالانکہ اگر ارادتًا بھی کوئی چھوٹی موٹی غلطی یا ناپسندیدہ کام سرزد ہو جائے تو برداشت کرنا چاہیے، کیوں کہ اجتماعی اور معاشرتی زندگی کا یہ ایک بنیادی قاعدہ اور اُصول ہے ، ایک دوسرے کی کوتاہیوں کو نظر انداز کیے بغیر ہرگز زندگی خوشگوار نہیں ہو سکتی ۔
چنانچہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((لا يَفْرَكُ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنةً)) (صحيح مسلم:1469)
’’کوئی مسلمان مرد، مسلمان عورت سے یعنی اپنی بیوی سے بغض نہ رکھے۔‘‘
((إِن كَرِهَ مِنْهَا خُلُفًا ، رَضِي مِنْهَا آخَر))
’’کہ اگر اس کی کوئی ایک عادت ناپسند ہے، تو کوئی دوسری پسند کی بھی ہوگی۔‘‘
لہٰذا یہ خواہش رکھنا کہ ایسی بیوی ملے جس میں کوئی خامی نہ ہو بڑی معصومانہ خواہش ہوگی ، جو کہ اس دنیا میں تو ممکن نہیں ہے، ایسی خواہش والا جنت میں جانے تک انتظار کرے، سو فیصد خامیوں اور کوتاہیوں سے پاک تو کوئی مرد بھی نہیں ملے گا سوائے انبیاء علہم السلام کے۔
خلاصہ یہ ہے کہ گھر کی اصلاح کی ذمہ داری مرد کی ہے پھر اس کے بعد عورت کی ہے، اگر گھر کی خرابی کا سبب آدمی اپنے میں ڈھونڈنا چاہے تو اسے بڑی آسانی سے نظر آ جائے گا مگر ہر صورت دوسروں کو قصور وار ٹھہر انا اکثر لوگوں کی عادت ہوتی ہے۔
بعض صالحین کا یہ قول اگر سامنے رکھیں تو خرابی کے اسباب سمجھنے میں آسانی ہو سکتی ہے، ((إني لأجد أثر معصيتي فِي خُلُقِ دَابَّتي وزوجتي)) ’’ میں اپنے گناہوں کا اثر اپنے جانوروں اور اپنی بیوی کے رویے میں محسوس کر لیتا ہوں۔‘‘