گمنامی اور سرداری سے دور رہنے کی فضیلت

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : نَعِسَ عَبْدُ الدينارِ وَعَبدُ الدَّرْهَم وَعَبْدُ الخَمِيصَةِ، إِنْ أُعْطِيَ رَضِيَ وَإِنْ لَمْ يُعْطَ سَخِطَ تَعِسَ وَانْتَكَسَ وَإِذَا شِيْكَ فَلَا انْتَقَشَ، طُوبَى لِعَبْدِ آخِدٍ بِعَنَانِ فَرَسِهِ فِي سبيلِ اللَّهِ أَشْعَتْ رَأْسُهُ، مُغْبَرَّةً قَدَمَاهُ إِنْ كَانَ فِي الحِرَامَةِ كَانَ فِي الْحَرَاسَةِ وإن كَانَ فِي السَّاقَةِ كَانَ فِي السَّاقَةِ، إِنَّ اسْتَأْذَنَ لَمْ يُؤْذَنُ لَهُ وَإِنْ شَفَعَ لَمْ يُشْفَعُ . (أخرجه البخاري).
(صحیح بخاری: كتاب الجهاد والسير، باب الحراسة في الغزو في سبيل الله.)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اشرفی کا بندہ، سونے کا بندہ اور کمبل کا بند و تباہ ہوا، اگر اس کو کچھ دیا جاتا ہے تب تو خوش ہو جاتا ہے اگر نہ دیا جائے تو ناراض ہو جاتا ہے، ایسا شخص تباہ سرنگوں ہو۔ اس کو کانٹا لگے تو اللہ کرے کہ نہ نکلے۔ مبارک ہے وہ بندہ جو اللہ کے راستے میں (غزوہ کے موقع پر) اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے ہے، اس حال میں اس کے سر کے بال پراگندہ ہیں اور اس کے قدم گرد و غبار سے اٹے ہوئے ہیں، اگر اسے پہرے داری پر لگادیا جائے تو وہ اپنے اس کام میں پوری تندہی سے لگا رہے اور اگر لشکر کے پیچھے (دیکھ بھال کے لئے) لگا دیا جائے تو اس میں بھی پوری تندہی اور فرض شناسی سے لگا رہے (اگر چہ زندگی میں غربت کی وجہ سے اس کی کوئی اہمیت بھی نہ ہو کہ) اگر وہ کسی سے ملاقات کی اجازت چاہے تو اسے اجازت نہ ملے اور اگر کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش بھی قبول نہ کی جائے۔
وَعَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : كَانَ سَعَدُ بن أَبِي وَقَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ في إبلِهِ فَجَاءَهُ ابْنُهُ عُمَرُ، فَلَمَّا رَآهُ سَعْدٌ قَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ هَذَا الرَّاكِبِ، فَنَزَلَ فَقَالَ لَهُ: أَنزَلتَ فِي إِبِلِكَ وَعَلَمِكَ وَتَرَكْتَ النَّاسُ يتَنَازَعُونَ المُلْكَ بَيْنَهُم ؟ فَضَربَ سَعْدٌ فِي صَدْرِهِ وَقَالَ: اسْكُتُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: إن الله يُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِيَّ الْغَنِيَّ الخَفِيَّ . (أخرجه مسلم)
(صحيح مسلم: كتاب الزهد والرقائق ، باب، باب)
عامر بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ اپنے اونٹوں میں تھے اتنے میں ان کے لڑکے عمر حاضر ہوئے سعد رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو فرمایا میں اس سوار کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتا ہوں- عمر اپنی سواری سے اترے اور کہا آپ اپنے اونٹ اور بکریوں میں ہیں اور لوگوں کو ریاست کے بارے میں جھگڑتے ہوئے چھوڑ دیا ہے، تو سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ نے ان کے سینے پر مارا اور کہا خاموش! میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالی گمنام بے نیاز اور متقی بندے کو پسند کرتا ہے۔
تشریح:
دنیاوی جاہ و منصب اور مقام و مرتبہ اللہ تعالی کے نزدیک کوئی اچھی چیز نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالی کی عبادت سے غافل کرنے والی چیزیں ہیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام نے ہمیں ریا کاری اور دکھاوے اور شہرت طلبی سے سختی سے منع فرمایا ہے اسی لئے رسول اکرم ﷺ نے ہمیں عمل کو پوشیدہ رکھنے اور گمنامی کی زندگی بسر کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں ریا کاری اور شہرت طلبی سے محفوظ رکھے اور متقی و پرہیز گار بندہ بنائے۔
فوائد:
٭ انسان کے اندر تواضع ہونا چاہئے۔
٭ عمل کو پوشیدہ رکھنا مستحب ہے
٭٭٭٭