گناہوں کے نقصانات

الحمد لله على نعمه الظاهرة والباطنة، وأشكره على سوابغ آلائه المترادفة، أمر عباده بكل خير ورشاد، ونهاهم عن كل شر وفساد، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، الإله الحق المبين، وأشهد أن سيدنا محمدا عبده ورسوله الناصح الأمين، اللهم صل وسلم علٰى عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه
ہر قسم کی ظاہری و پوشیدہ اور بے پایاں نعمتوں پر اللہ ہی تمام تعریف کا سزاوار اور شکر گذاری کا مستحق ہے اس نے اپنے بندوں کو ہر قسم کی خیر و بھلائی کا حکم دیا اور ہر شر و فساد سے روکا ہے میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور وہی معبود برحق ہے ساتھ ہی یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد – صلی اللہ علیہ وسلم۔ اس کے بندے اور رسول ہیں، جو امت کے خیر خواہ اور رسالت کے امین ہیں۔ اے اللہ! تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور بحالت اسلام مرنے کی فکر کرو اللہ سبحانہ کے منہیات و محرمات سے بچ کر اور اس کے فرائض بجا لا کر اس کا تقوی اختیار کرو اس کی نازل کردہ کتاب قرآن مجید کو سمجھو اور اس کے معانی و مفاہیم کے اندر غور و فکر کرو۔ اسی میں ابدی سعادت اور دائمی نجات ہے یہ وہ مقدس کتاب ہے جس کے اندر رب العالمین نے خیر و ہدایت کی راہ واضح فرما کر اس پر چلنے کا حکم دیا ہے اور ہر اس بری راہ پر چلنے سے روکا ہے جو دنیا و آخرت کے لئے نقصان دہ ہو۔ فرمایا:
﴿ قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ اَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۝۳۳﴾ (الاعراف:33)
’’کہہ دو کہ میرے پروردگانے تولے حیائی کے باتوں کو ظاہر ہوں یا پوشیدہ، اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کرنے کو حرام کیا ہے اور اس کو بھی کہ تم کسی کو اللہ تعالی کا شریک بناؤ۔ جس کی اس نے سند نازل نہیں کی۔ اور اس کو بھی کہ اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں کچھ علم نہیں۔
اس آیت کریمہ نے ہمارے لیے حرام چیزوں کا ایک اصول پیش کیا ہے اللہ کی حرم کردہ کوئی چیز ایسی نہیں جسے یہ آیت شامل نہ ہو اور کوئی شر اور نقصان ایسا نہیں جسے بیان نہ کر دیا ہو۔ یہی وہ آیت ہے جس کے ذریعے اللہ رب العالمین نے جملہ فواحش و کبائر کو حرام قرار دیا ہے، خواہ گناہِ کبیرہ ظاہر ہوں مثلاً: قتل، زنا، لواطت، سود خوری، چوری، شراب نوشی، قماربازی، یتیموں کا حق مارنا اور باطل طریقہ سے لوگوں کا مال کھانا وغیرہ، یا ان کا تعلق باطن سے ہو جیسےتکبر، نفاق، بغض و حسد، لوگوں کی تحقیر8 سملمانوں کے ساتھ دھوکہ، فریب اور استہزاء وغیرہ۔
یہ سارے گناہ آیت مذکورہ میں بیان کردہ محرمات میں داخل ہیں۔ چاہے وہ لوگوں کے سامنے آ چکے ہوں اور انہوں نے اس کا مشاہدہ کر لی ہو، یا ان کی نگاہوں سے اوجھل صرف صاحب واقعہ کی ذات تک محدود ہوں، لیکن اللہ کے علم محیط سے وہ باہر نہیں ہو سکتے۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے ’’اثم‘‘ اور ’’بغی‘‘ کو حرام قرار ہدیا ہے۔ اثم وہ فعل معصیت ہے جو گناہ اور سزا کا باعث ہو، اور بغی لوگوں پر دست درازی اور ان کے مال و جان اور عزت و آبرو میں بے جا مداخلت کا نام ہے کیونکہ یہ ظلم ہے جو حرام ہے اور جس کے نتائج کچھ اچھے نہیں ہوتے۔
اللہ عز و جل نے مذکورہ بالا آیت میں شرک کو بھی حرام گردانا ہے اور شرک یہ ہے کہ عبادت کے حملہ اقسام مثلاً دعا، نذر ذبح، استعاثہ) استعانت اور خوف و رجا میں سے کوئی ادنیٰ چیز بھی کسی غیر اللہ کے لئے کی جائے اور ان امور و معاملات میں غیر اللہ سے تعلق خاطر پیدا کیا جائے جو صرف اللہ کے ساتھ خاص ہیں اور جن پر اللہ کے سوا کسی کا کوئی اختیار نہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے شرک کے انجام سے ڈراتے ہوئے فرمایا:
﴿ اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُ ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَار﴾ (المائده: 72)
’’جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا تو اللہ نے اس پر جنت کو حرام کر دیا ہے اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ شرک سب سے بڑا گناہ اور بدترین ظلم ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے حضرت لقمان علیہ السلام کی زبان پر فرمایا:
﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ﴾ (لقمان:13)
’’یقینًا شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔‘‘
اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا گویا بے پناہ نعمتوں سے نوازنے والے منعم حقیقی کے در میان اور اس شخص کے درمیان کوئی فرق ہی نہیں رکھتا جو اپنے لئے بھی کسی نفع و نقصان کا مالک نہیں۔ کسی غیر اللہ سے حاجت طلب کرنا اسے پکارنا یا ایسے معاملات میں اس سے مدد چاہنا جن پر اللہ کے علاوہ کسی کا کوئی اختیار نہ ہو۔ یہ سب شرک کے اقسام ہیں۔ اللہ عزوجل کا تو ارشاد ہے:
﴿وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۠۝۶0﴾ (المومن: 60)
’’تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا جو لوگ میری عبادت سے از راہ تکبر کنیاتے ہیں عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔‘‘
ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ؕ وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا یَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍؕ۝اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآءَكُمْ ۚ وَ لَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ ؕ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ ؕ وَ لَا یُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِیْرٍ۠﴾ (الفاطر:13،14)
’’یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے اس کی بادشاہی ہے اور جن لوگوں کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی تو کسی چیز کے مالک نہیں اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار نہ سنیں اور اگر سن بھی لیں تو تمہاری بات کو قبول نہ کر سکیں اور قیامت کے دن تمہارے شرک سے انکار کر دیں گے اور اللہ باخبر کی طرح تم کو کوئی خبر نہیں دے گا۔‘‘
لہٰذا ضروری ہے کہ اپنے نفس کا خیر خواہ سنبھل جائے اور قبل اس کے کہ اس کی عمر آخر ہو اور وہ وقت آئے جب ندامت و پشیمانی سے کوئی فائدہ نہ ہو گا وہ اپنے اعمال کی اصلاح کرلے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے سلسلہ میں بے علم باتیں کہنا بھی حرام قرار دیا ہے فرمایا:
﴿وَأَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (الاعراف:33)
’’میرے پروردگار نے یہ بھی حرام کیا ہے کہ اس کے بارے میں تم ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں کچھ علم نہیں۔‘‘
خواہ ان باتوں کا تعلق اللہ کے اسماء و صفات سے ہو یا شریعت سے ہو یا قدر سے ہو یا اس کی حلال کردہ چیزوں کو حرام جاننے یا حرام کردہ چیزوں کو حلال ٹھہرانے سے ہو۔
بندہ کو چاہئے کہ وہ اپنے رب سے ڈرے دین کے سلسلہ میں بصیرت رکھے اللہ کی کتاب قرآن مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے اندر فکر و تدبر سے کام لے تاکہ دنیا وآخرت کی سعادت و کامرانی سے ہمکنار ہو۔ مذکورہ بالا محرمات ایسے ہیں جن کا مرتکب انتہائی بدترین مقام پر پہنچ جاتا ہے کیونکہ ان کے اندر نوع بنوع شرا بہت بڑا فساد اور بھاری نقصانات پنہاں ہیں، گناہ کبیرہ اخلاق کی بربادی اللہ رب العالمین کے غضب اور روئے زمین کے اندر شر و فساد کا باعث ہیں جو آدمی کو دنیا میں ذلت و رسوائی کے گھاٹ پر لے جاتے ہیں اور آخرت میں بھی عذاب و عقاب کا مستحق بناتے ہیں۔ گناہوں میں سب سے خطرناک اور انجام کے اعتبار سے سب سے بدترین گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے، شرک در حقیقت اللہ تعالیٰ کے مقام الوہیت کی تنقیص اور اس کی ربوبیت کے ساتھ جنگ کرتا ہے۔ ایک مشرک کا دین اس کی عقل اور اس کی دنیا سب کچھ خسارے اور بربادی میں ہوتی ہے اللہ نے اس پر جنت کو حرام کر رکھا ہے اور جہنم اس کا ٹھکانہ قرار دیا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو اسے رب تعالیٰ نے پیدا کیا تو وہ عبادت کسی غیر کی کرتا ہے روزی اس نے دی تو شکر گذار کسی اور کا ہوتا ہے ہوائے نفسانی میں پڑ کر اپنے رب سے منہ موڑا اور شیطان کی پیروی میں لگ گیا تو شیطان نے بھی اسے گمراہ کر کے رکھ دیا۔
اللہ تعالی کے بارے میں بے علم باتیں کہنا ایک بہت بڑا گناہ اور اللہ کی ذات پر کھلا ہوا بہتان لگانے کے مترادف بلکہ شرک کے مشابہ ہے یہ بڑے ہی عیب کی بات ہے کہ دوسرے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی نیت سے سلام کی جانب بعض خطرناک اصول و مبادی منسوب کر سے شخص کے سلسلہ میں اللہ دیئے جائیں یہ سراسر ظلم اور اللہ تعالی پر کھلا ہوا بہتان ہے اور ایسے شخص کے سلسلہ میں تعالیٰ کا اعلان ہے:
﴿ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰهِ كَذِبًا لِّیُضِلَّ النَّاسَ بِغَیْرِ عِلْمٍ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۠۝1۴۴﴾ (الانعام: 144)
’’اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہے جو اللہ پر جھوٹ افتراء کرے تاکہ از راہ بے دانشی لوگوں کو گمراہ کرے بیشک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
لہذا! اللہ تعالی نے آیت بالا نیز اس کے علاوہ قرآن کریم کی دیگر آیات کے اندر جو چیزیں حرام قرار دی ہیں انہیں سمجھو اور ان سے دور رہو کیونکہ حرام چیز میں ہلاکت کا سبب ہیں ان سے برکت ختم ہو جاتی ہے اور باہم بغض و عداوت پیدا ہو جاتی ہے ساتھ ہی اللہ رب العالمین سے توبہ کرو، جو شخص اللہ سے توبہ وانابت کرتا ہے اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے اور جو اس کا تقرب چاہتا ہے اسے قریب کرتا ہے اللہ تو وہ ذات ہے جو تو بہ کرنے والے بندوں کو پسند کرتا اور ان کی توبہ سے خوش ہوتا ہے بلکہ اپنے گنہگار بندوں کو تو بہ کا حکم دیتا ہے اور اپنی رحمت و مغفرت کی امید دلاتا ہے۔ اعوذ بالله من الشيطان الرجيم:
﴿ قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤی اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۝5۳ وَ اَنِیْبُوْۤا اِلٰی رَبِّكُمْ وَ اَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ۝5۴ وَ اتَّبِعُوْۤا اَحْسَنَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَّ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَۙ۝اَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ یّٰحَسْرَتٰی عَلٰی مَا فَرَّطْتُ فِیْ جَنْۢبِ اللّٰهِ وَ اِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِیْنَۙ۝5۶ اَوْ تَقُوْلَ لَوْ اَنَّ اللّٰهَ هَدٰىنِیْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَۙ۝ اَوْ تَقُوْلَ حِیْنَ تَرَی الْعَذَابَ لَوْ اَنَّ لِیْ كَرَّةً فَاَكُوْنَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ (الزمر:53 تا58)
’’(اے پیغمبر! میری طرف سے لوگوں سے) کہدو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا اللہ تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے وہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔ اور اس سے پہلے کہ تم پر عذاب واقع ہو اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرو اور اس کے فرمانبردار ہو جاؤ پھر تم کو مدد نہیں ملے گی۔ اور اس سے پہلے کہ تم پر ناگہاں عذاب آجائے اور تم کو خبر بھی نہ ہو اس نہایت اچھی کتاب کی جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوئی ہے۔ پیروی کرو۔ مبادا اس وقت کوئی متنفس کہنے لگے کہ ہائے افسوس اس تقصیر پر جو میں نے اللہ کے حق میں کی اور میں تو ہنسی ہی کرتا رہا۔ یا یہ کہنے لگے کہ اگر اللہ مجھ کو ہدایت دیتا تو میں بھی پر ہیز گاروں میں ہوتا۔ یا جب عذاب دیکھ لے تو کہنے لگے کہ اگر مجھے پھر ایک دفعہ دنیا میں جاتا ہو تو میں نیکو کاروں میں ہو جاؤں۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن العظيم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم
خطبه ثانیه
الحمد لله على إحسانه، والشكر له على توفيقه وامتنانه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له تعظيما لشأنه سبحانه، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وأصحابه
’’ہر قسم کی حمدوثنا اللہ کے لئے ہے جو اس نے ہم پر احسان فرمایا اور شکر و سپاس کا سزاوار بھی وہی ہے جو اس نے ہمیں اپنی توفیق سے نوازا میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لاشریک کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ الہی! تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
بندگان الهی! لہٰذا اللہ سے ڈرو اس کے احکام واوامر کی تعمیل کرو اور منہیات و محرمات سے بچو۔ یہ ایام جو تم پر سایہ فگن ہیں بڑے ہی شرف و فضیلت کے حامل ہیں، یہ موقع خیر و بھلائی کے موسموں میں سے ایک گرانقدر موقع ہے رب تعالیٰ ان دنوں میں اپنے بندوں کو بے پناہ خیر و سعادت سے نوازتا اور ان پر اپنا فضل و احسان فرماتا ہے لہٰذا اس کے انعامات و نوازشات کے لئے تیار رہو۔ طاعت و بندگی کر کے اس کا تقرب حاصل کرو اور خوب خوب نماز و طواف تلاوت قرآن اور ذکر و استغفار کرو۔ تم دور دور ممالک سے آئے ہو اس کے لئے تم نے اپنا مال خرچ کیا ہے آرام و راحت کو قربان کیا ہے اولاد اور خویش و اقارب کو داغ مفارقت دی ہے اور گھر اور وطن کو خیر باد کہا ہے تاکہ رب تعالی کی رضا اور ثواب حاصل کرو اس لئے ان ایام کو غنیمت سمجھو اور کسی قسم کی کوتاہی نہ کرو ان گرانقدر اوقات کی قدر کرو اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اجر و ثواب لکھ دے گا اور یہ یقین رکھو کہ سب سے بہتر کلام اللہ کی کتاب ہے اور سب سے بہتر راستہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے اور سب سے بدترین امور دین کے اندر ایجاد کی گئی بدعتیں ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے ساتھ ہی جماعت کو لازم پکڑو جماعت ہی کے ساتھ اللہ کی مدد ہے اور جس شخص نے جماعت سے راہ شذوذ اختیار کی وہ جہنم رسید ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔