غصہ کرنے کی ممانعت

اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ۝۱۹۹ وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ ؕ اِنَّهٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۝۲۰۰﴾ (الاعراف: 200)
’’معاف کرنے کی عادت ڈال۔ نیکی کی بات کہہ اور نادانوں سے درگزر کرے۔ اور اگر شیطان کی چھیڑ تجھ کو ابھار دے تو اللہ کی پناہ پکڑ بے شک وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘
بعض دفعہ بعض لوگوں کی بد زبانی اور بدسلوکی سے قصہ آ جاتا ہے جس سے شر و فساد پھیل جاتا ہے۔ کیونکہ حصہ شیطان کے ورغلانے اور بھڑ کانے سے پیدا ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] [2] بخاري كتاب الشهادات باب ما يكره من الأطناب في المدح وليقل ما يعلم۔
بخاري كتاب الشهادات باب ما يكره من الاطناب في المدح وليقل ما يعلم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حقیقت یہی ہے کہ غصہ ایک آگ کی چنگاری ہے جس سے شعلے بھڑکتے ہیں اور اس کا واحد علاج یہی ہے کہ اسے بجھا دیا جائے تاکہ شر و فساد دب جائے۔ ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ سےعرض کیا کہ آپ مجھے کچھ نصیحت فرمائیے۔ آپﷺ نے فرمایا:
(لَا تَغْضَبْ) غصہ نہ کیا کرو‘‘
آپ نے کئی دفعہ یہ لفظ فرمایا وہ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے دل میں غور کیا تو معلوم ہوا کہ۔ (الْغَضَبُ يَجْمَعُ الشَّرَّ كُلَّهُ)[2]
’’حقیقت یہی ہے کہ غصہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔‘‘
بخاري شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے دو صحابیوں میں کچھ باتیں ہو گئیں ان میں سے ایک صاحب کو اتنا غصہ آیا کہ چہرہو غصہ سے لال ہو گیا اور رگیں پھول گئیں۔ تو آنحضرت ﷺ نے ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا اور فرمایا مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے کہ اگر وہ اس کو کہہ لے تو یہ غصہ جاتا رہے اور وہ یہ ہے کہ وہ (اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ) کہے[3]
غصہ کا دبا لینا بڑی شاباشی کی بات ہے رسول ﷺ نے فرمایا:
(ليْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرْعَةِ إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِندَ الْغَضَبِ)[4]
’’یعنی پہلوان وہ نہیں ہے جو دشمن کو پچھاڑ دے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے میں اپنے آپ کو قابو میں رکھے‘‘
غصہ کو دبانے کی بڑی فضیلت ہے۔
(مَنْ كَظَمَ غَيْظًا وَهُوَ قَادِرٌ عَلَى أَنْ یُنْفِذَهُ دَعَاهُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ عَلَى رُوسِ الْخَلَائِقَ حَتَّى يُخَيِّرَهُ مِنَ الْحُوْرِ مَا شَاءَ)[5]
’’جس نے غصے کو دبا لیا حالانکہ وہ غصہ اتارنے پر قادر تھا تو اللہ سبحانہ تبارک و تعالی اسے سب مخلوق کے سامنے بلائے گا اور اختیار دے گا جس تور کو چاہے پسند کر لے۔‘‘
اور غصے کا معافی کرنے والا خدا کے نزدیک بہت عزیز ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(قَالَ مُوسَى بْن عَمْرَانَ عَلَيْهِ السَّلَامُ يَارَبٌ مَنْ أَعَزُّ عِبَادِكَ قَالَ مَنْ إِذَا قَدَرَ غَفَرَ)[6]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب الأدب باب الحذر من الغصب۔ [2] مسند احمد
[3]، [4] بخاري: كتاب الادب باب الحدر من الغضب
[5] ابو داود: كتاب الادب باب من كظم الغيظ:394/4۔
[6] شعب الیمان 319؍6
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ سے درخواست کی کہ پروردگار تیرے بندوں میں سے کون سا بندہ تیرے نزدیک زیادہ پیارا ہے تو اللہ نے فرمایا جو قادر ہو کر معاف کر دے۔“
کیونکہ غصہ شیطان کے بھڑکانے سے پیدا ہوتا ہے جس سے ایمان خراب ہو جاتا ہے جیسے شہد جیسی شیریں چیز کو ایلوا خراب کر دیتا ہے۔
غصے کے دبانے اور دور کرنے کی حدیث شریف میں یہ تین صورتیں بتائی گئی ہیں:
(1) غصے کے وقت (أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ) پڑھنا (2) وضو کر لینا یا پانی پی لینا (3) زمین پر لیٹ جانا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔