حج کے فوائد اور مناسک کا بیان

الحمد لله الذي جعل بيته حرماً آمنا، وجعل حجه على المستطيع فرضا لازما، أحمده سبحانه وأشكره على فضله وإحسانه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك سيدنا محمد وعلى آله وصحبه:
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے اپنے گھر ’’بیت اللہ‘‘ کو امن والا حرم بنایا اور استطاعت رکھنے والے کے لئے اس کا حج فرض قرار دیا اللہ سبحانہ کے فضل و احسان پر میں اس کی تعریف بیان کرتا اور شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں، اور یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ! تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اس کی اطاعت کرو اس کے احکام بجالاؤ اور اس کی نافرمانی سے بچو نیز اس کا شکر کرو کہ اس نے اپنے اس دین کی جانب تمہاری رہنمائی فرمائی جسے خود اپنے لئے بھی اس نے پسند کیا ہے اور ہمارے لئے بھی۔ اس دین کی بنیاد پانچ ستونوں پر قائم ہے: (1) اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سچے رسول ہیں (2) نماز قائم کرنا (3) زکوۃ دینا (4) رمضان کے روزے رکھنا (5) بصورت استطاعت بیت اللہ کا حج کرنا۔
چنانچه شھادتین یعنی ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کے اندر اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے لئے اخلاص عمل کا اقرار کیا جاتا ہے اتباع کا مستحق صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھا جاتا ہے اور عبادت کے جملہ اقسام کو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے خاص کر دیا جاتا ہے۔ اب اس کے سوا کسی سے بھی کوئی امید و بیم نہیں، کوئی رغبت در جہت نہیں کوئی اعتماد و توکل نہیں اور کسی سے دعا و التجا نہیں کیونکہ دعا جیسا کہ حدیث میں وارد ہے عبادت ہے بلکہ عبادت کا مغز ہے اس لئے اللہ کے سوا کسی سے بھی دعا و فریاد نہیں کر سکتے، ارشاد الہی ہے:
﴿ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ؕ وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا یَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍؕ۝۱۳ اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآءَكُمْ ۚ وَ لَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ ؕ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ ؕ وَ لَا یُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِیْرٍ۠۝۱۴﴾ (الفاطر: 13،14)
’’یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے اس کی بادشاہی ہے اور جن لوگوں کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں، اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار نہ سنیں اور اگر سن بھی لیں تو جواب نہ دے سکیں اور وہ قیامت کے روز تمہارے شرک سے انکار کر دیں گے اور اللہ باخبر کی طرح تمہیں کوئی خبر نہیں دے سکتا۔‘‘
اسی طرح نماز پڑھنے اور اس کی محافظت کرنے سے اللہ تعالیٰ کا تقرب اور اس کی مغفرت و رضا حاصل ہوتی ہے، مزید براں نماز ہر قسم کے فحش اور منکر کاموں سے باز رکھتی ہے۔ زکوۃ کی ادائیگی سے نفس کا تزکیہ اور بخل و کنجوسی سے اس کی تعمیر ہو جاتی ہے، فقراء و مساکین کے ساتھ احسان بھی ہوتا ہے اور مال کے اندر برکت بھی ہوتی ہے۔ اور روزہ سے آدمی کا نفس اللہ تعالی کی طاعت و بندگی میں صبر کرنے کا عادی ہو جاتا ہے اور اس کے اجر و ثواب میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن حج جسمانی اور مالی دونوں بادتوں پر مشتمل ہے اس کے اندر بندہ جسمانی مشقتیں بھی برداشت کرتا ہے اور اپنا مال بھی خرچ کرتا ہے، حج میں اسلام کی عظمت و برتری اور اس کے بلند پایہ اور مقدس ترین اغراض و مقاصد بالکل نمایاں ہیں اس کے ذریعہ پوری دنیا کے مسلمان ملک و قوم کے اختلاف کے باوجود ایک عظیم اجتماع گاہ میں اکٹھے ہو کر باہم ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں یہ اسلامی اجتماع سال بہ سال اسی مقدس مقام پر اس انداز سے منعقد ہوتا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی اجتماع اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ عرفات کے میدان میں مسلمانان عالم کا یہ اجتماع در حقیقت میدان محشر کے اس اجتماع کی یاد دہانی کراتا ہے جس میں لوگ حساب و کتاب کے لئے پیش ہوں گے اور ہر نفس کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جا۔ گا اعمال اچھے رہے تو اچھا بدلہ دیا جائے گا اور اعمال برے ہیں تو برا بدلہ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿يَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَيْبَ فِيهِ فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ﴾ (الشوری:7)
’’انہیں جمع ہونے کے دن کا خوف دلاؤ جس میں کچھ شک نہیں ہے اس روز ایک فریق بہشت میں ہو گا اور ایک فریق دوزخ میں۔‘‘
مسلمان عرفات کے میدان میں کھڑے ہو کر جب میدان محشر کا ہولناک منظر یاد کرتے ہیں تو ان پر اللہ تعالی کے لئے خشوع و خضوع اور عجز و انکساری کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے وہ اپنے سروں کو کھولے ہوئے اور احرام کا مخصوص لباس زیب تن کر کے دنیا سے رخصت ہونے کی گھڑی یاد کرتے ہیں گویا وہ آج ہی اپنے تمام دنیاوی امور سے بے نیاز ہو کر اللہ کے دربار میں حاضر ہو گئے ہیں اور ابراہیم خلیل علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اللہ کی بخشش و مغفرت اور رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لئے سید الا نام محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اللہ رب العالمین کی جانب متوجہ ہو گئے ہیں۔
مسلمان اس تاریخی مقام پر کھڑے ہو کر وہ وقت یاد کرتے ہیں کہ مذہب اسلام اس مقدس خطہ و سرزمین سے کسی بے چارگی کے عالم میں شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا پر چھا گیا اللہ کے فضل و کرم سے اسلام کو کس طرح رسوخ حاصل ہوا اور اس کے سپوتوں نے خود اپنے نفس اور دشمنان اسلام سے جہاد کر کے ہر چھوٹے بڑے، آقا وغلام، حاکم و محکوم اور امیر و فقیر پر اسلام کی جملہ تعلیمات نافذ کر دیں۔
پھر اس کے ساتھ ہی وہ اس پہلو پر بھی غور کرتے ہیں کہ حقیقت دین سے دوری دین بیزاری اور اسلامی تعلیمات سے بے اعتنائی کے نتیجہ میں مسلمان کیسی کیسی مشکلات، ضعف و کمزوری اور باہمی اختلاف وانتشار کا شکار ہیں سچ تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے جب اللہ تعالی کے احکام کی تعمیل نہیں کی تو اللہ نے بھی ان کے اوپر سے اپنی رحمت کا سایہ اٹھا لیا:
﴿وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوا أَمْثَالَكُمْ﴾ (محمد: 38)
’’اگر تم (احکام الہی سے) منہ پھیرو گے تو وہ تمہاری جگہ اور لوگوں کو لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح کے نہیں ہوں گے۔‘‘
مسلمانو! اپنے دین کی طرف واپس لوٹو اپنے پروردگار کی جانب رجوع کرو اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت کو لازم پکڑو کہ اس سے تمہیں عزت و سر بلندی ملے گی اور اللہ کی نصرت و تائید حاصل ہو گی:
﴿إِنْ تَنْصُرُوا اللهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ﴾ (محمد:7)
’’اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا۔‘‘
اللہ کے بندو! آپ سب سے پہلے منی کی جانب روانہ ہوتے ہیں، سنت یہ ہے کہ منی کے اندر ظہر کی نماز اس کے وقت میں قصر کر کے پڑھیں، پھر عصر کے وقت میں عصر کی نماز قصر کر کے پڑھیں، مغرب بھی وقت سے ادا کریں، پھر عشاء کی نماز قصر کر کے وقت کے اندر پڑھیں پھر جب فجر کا وقت ہو جائے تو فجر کی نماز وقت پر پڑھ لیں اور جب آفتاب طلوع ہو جائے تو عرفہ کی جانب روانہ ہو جائیں اور جب سورج ڈھل جائے تو ظہر اور عصر کی نماز میں ظہر کے اول وقت میں قصر کر کے پڑھیں، نماز سے فراغت کے بعد وہیں عرفہ ہی میں قیام پذیر رہیں اور کثرت سے ذکر واذکار دعا اور تو بہ واستغفار کر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ میں قیام کے دوران یہ دعا بکثرت پڑھا کرتے تھے:
(لا إله إلا الله وحده، لا شريك له، له الملك وله الحمد، يحيى ويميت، وهو على كل شيء قدير‘‘
عرفہ میں اسی طرح دعا و استغفار کرنے میں مشغول رہیں یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو جائے آفتاب غروب ہو جانے کے بعد مغرب کی نماز پڑھے بغیر مزدلفہ کے لئے روانہ ہو جائیں وہاں پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نماز میں ایک ساتھ جمع کر کے پڑھیں، عشاء کی نماز قصر پڑھی جائے گی نماز سے فارغ ہو کر مزدلفہ ہی میں رات گذار میں جب فجر کا وقت ہو جائے تو فجر کی نماز ادا کر میں اور ذکر و اذکار اور دعا و استغفار میں وہیں مشغول رہیں، پھر آفتاب طلوع ہونے سے پیشتر ہی وہاں سے منٰی کے لئے واپس روانہ ہو جائیں، البتہ ضعیفوں مثلاً عورتوں اور بچوں کے لئے یہ اجازت ہے کہ وہ چاہیں تو مزدلفہ سے آدھی رات کے بعد ہی منی کے لئے روانہ ہو سکتے ہیں اور آدھی رات کی تعیین یوں کی جائے گی کہ اس وقت چاند غروب ہو چکا ہو۔ منٰی پہنچ کر جمرہ عقبہ کو سات کنکریاں ماریں، پھر جن کے پاس قربانی کا جانور ہو وہ قربانی کریں اور سر کے بال منڈائیں یا چھوٹے کرائیں اس کے بعد اگر ممکن ہو تو اسی دن یا دوسرے دن بیت اللہ پہنچ کر طواف افاضہ کریں اور اگر طواف قدوم کے ساتھ سعی نہیں کی تھی تو حج قرآن اور حج افراد کا احرام باندھنے والے سعی کریں اور جنہوں نے حج تمتع کا احرام باندھا ہے وہ عمرہ کے علاوہ حج کے لئے بھی الگ سے ایک سعی کریں اس کے بعد منٰی واپس لوٹیں اور وہاں ایام تشریق کی تینوں راتیں گذار میں اور رمی جمار کریں، اگر کوئی شخص دو ہی دن میں اپنے کام پورے کر کے واپس ہونا چاہے تو کوئی حرج نہیں اور کوئی تین دن رہنا چاہے اس کے لئے بھی کوئی مضائقہ نہیں۔
حج کے اندر مذکورہ اعمال انجام دینے کے بعد اب سوائے طواف وداع کے اور کوئی کام باقی نہیں رہا طواف وداع سب سے آخری عمل ہو گا جو وہاں سے رخصت ہوتے وقت انجام دیا جائے گا۔
یا اللہ! ہمارے اور جملہ مسلمانوں کے اعمال قبول فرما، ہمیں کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامے رہنے کی توفیق دے اور مسلمانوں کو کلمہ حق پر متحد فرمادے، آمین یا رب العالمین۔
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم:﴿ وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰی كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍۙ۝۲۷ لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَ یَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ ۚ فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآىِٕسَ الْفَقِیْرَؗ۝۲۸﴾ (الج:27،28)
’’اور لوگوں میں حج کی منادی کر دو لوگ تیرے پاس پا پیادہ بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی دور دراز کی راہوں سے آئیں گے۔ تاکہ اپنے فائدے حاصل کرنے کو آئیں اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں ان مویشی چوپایوں پر جو اللہ نے انہیں دیجے ہیں پس تم ان میں سے خود بھی کھاؤ اور بھو کے فقیروں کو بھی کھلاؤ۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن الكريم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب . فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم
خطبه ثانیه
الحمد لله حمدا كثيرا كما أمر، وأشكره وقد تأذن بالزيادة لمن شكر، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له إرغاما لمن جحد به وكفر . وأشهد أن سيدنا محمداً عبده ورسوله سيد البشر، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وآله وصحبه أجمعين:
اللہ کے لئے بہت زیادہ تعریف ہے جیسا کہ اس نے حکم دیا ہے، میں اس کی شکر گذاری کرتا ہوں اس نے شکر گذاروں کو مزید دینے کا وعدہ فرمایا ہے کافروں کے علی الرغم میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں جو تمام انسانیت کے سردار ہیں۔ یا اللہ! تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کے تمام آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
مسلمانو! اللہ تعالی کا تقویٰ اختیار کرو اپنے جملہ احوال و افعال اور حرکات و سکنات میں اس سے ڈرتے رہو اور باہم عفو و در گذر نرمی اور ملائمت سے کام لو۔
آج آپ لوگ سفر حج میں ہیں، عرفات اور دیگر مشاعر حج میں وقوف و قیام کے دوران بسا اوقات کچھ پریشانیاں اور تنگیاں لاحق ہو سکتی ہیں ایسی صورت میں چاہئے کہ آپ ضبط و محل عفوودرگذر اور نرم گفتاری سے کام لیں اور بد زبانی و فحش گوئی سے اجتناب کریں، ضروری ہے کہ ایسے موقع پر اللہ رب العالمین کے اس ارشاد گرامی کو پیش نظر رکھیں:
﴿ اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ۚ فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ ۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ ؕ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْهُ اللّٰهُ ؔؕ وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی ؗ وَ اتَّقُوْنِ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ۝۱۹۷﴾ البقره:197)
’’حج کے مہینے معلوم ہیں، تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرلے تو حج کے دنوں میں نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے نہ کسی سے جھگڑے اور جو نیک کام تم کرو گے وہ اللہ کو معلوم ہو جائے گا اور زاد راہ ساتھ لے جاؤ کیونکہ بہتر زاد راہ پرہیزگاری ہے اور اسے اہل عقل! مجھ سے ڈرتے رہو۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔