حج کے فضائل، احکام اور آداب (۱)

اہم عناصرِ خطبہ:
01.حج کی فرضیت واہمیت
02.حج کے فضائل
03.عمرہ کے احکام
پہلا خطبہ
گذشتہ خطبۂ جمعہ میں ہم نے فضائل ِ حرمین شریفین قرآن وحدیث کی روشنی میںبیان کئے تھے اور موسمِ حج کی مناسبت سے آج ہم حج کی فرضیت واہمیت، اس کے فضائل اور احکام وآداب پر روشنی ڈالیں گے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو بار بار حرمین شریفین کی زیارت نصیب فرمائے۔ آمین
حج کی فرضیت واہمیت
حج اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

(بُنِیَ الْإِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ: شَھَادَۃِ أَن لَّا إِلٰهَ إلِاَّ اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُهُ، وَإِقَامِ الصَّلاَۃِ، وَإِیْتَاءِ الزَّکَاۃِ، وَحَجِّ بَیْتِ اللّٰہِ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ) (متفق علیہ)
’’دین ِاسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اﷲ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ﷲ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، حج ِ بیت اللہ کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔‘‘
اور حج زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ ہر اس مردوعورت پرفرض ہے جو اس کی طاقت رکھتا ہو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

(أَیُّهَا النَّاسُ، قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ الْحَجَّ فَحُجُّوْا)

’’اے لوگو! اللہ نے تم پرحج فرض کیا ہے، لہٰذا تم حج کرو۔‘‘ یہ سن کر ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہر سال حج فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی حتی کہ اس نے تین مرتبہ یہی سوال کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لَوْ قُلْتُ نَعَمْ، لَوَجَبَتْ، وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ) (صحیح مسلم:1337)
’’اگر میں ہاں کہتا تو ہر سال حج واجب ہو جاتا، اور ایسا ہو جاتا تو تم اس کی طاقت نہ رکھتے۔‘‘
فرضیت ِحج کی شروط
فرضیتِ حج کی پانچ شرطیں ہیں:
01.اسلام
یعنی حج صرف مسلمان پر فرض ہوتا ہے، کافر پر فرض نہیں ہوتا اور اگر کافر حالت ِکفر میں حج کرلے تو وہ کافی نہیں ہوگا کیونکہ حج سے پہلے اس کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا اسلام قبول کرنے کے بعد اگر وہ صاحب استطاعت ہے تو دوسرا حج فرض ہو گا۔ اسی ليے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن روانہ کیا تو فرمایا:

(إِنَّكَ تَأْتِیْ قَوْمًا مِنْ أَھْلِ الْکِتَابِ، فَادْعُهُمْ إِلٰی شَھَادَۃِ أَن لَّا إلٰهَ إلَّا اللّٰہُ، وَأَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوْا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللّٰہَ افْتَرَضَ عَلَیْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَةٍ ۔۔۔۔۔ الخ) (صحیح البخاري:1496،صحیح مسلم :19)
’’تم اہلِ کتاب کی ایک قوم کے پاس جارہے ہو، اس ليے تم انہیں (سب سے پہلے) اس بات کی طرف دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ تمھاری یہ بات مان لیں تو انہیں آگاہ کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔۔۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سب سے پہلے اسلام قبول کرنا ضروری ہے اور دوسرے واجباتِ دین کا رتبہ اس کے بعد ہے۔
02.عقل
یعنی حج عاقل اور باشعور مسلمان پر ہی فرض ہوتا ہے، مجنون پر نہیں۔ کیونکہ مجنون کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرفوع القلم (غیر مکلف) قرار دیا ہے۔
03.بلوغت
فرضیتِ حج کیليے بلوغت شرط ہے کیونکہ نابالغ بچہ مکلف نہیں ہوتا، البتہ نابالغ بچہ حج کر سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنا ایک بچہ بلند کیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! کیا یہ حج کر سکتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(نَعَمْ، وَلَكِ أَجْرٌ) ’’ہاں اور تمہیں بھی اجر ملے گا۔‘‘ (صحیح مسلم:1336)
لیکن اس کا یہ حج فرض حج سے کفایت نہیں کرے گا۔ بالغ ہونے کے بعد اگر وہ مستطیع ہو تو اسے فرض حج دوبارہ کرنا پڑے گا۔
04.آزادی
یعنی حج آزاد مسلمان پر ہی فرض ہوتا ہے، غلام پر نہیں۔ البتہ غلام حج کر سکتا ہے لیکن یہ حج فرض حج سے کفایت نہیں کرے گا اور اسے آزاد ہونے کے بعد بحالتِ استطاعت فرض حج دوبارہ کرنا پڑے گا۔
05.استطاعت
یعنی وہ حج کرنے کی قدرت رکھتا ہو، مالی طور پر حج کے اخراجات اٹھا سکتا ہو اور جسمانی طور پر سفرِ حج کے قابل ہو۔ راستہ پر امن ہو اور قدرت حاصل کرنے کے بعد حج کے ایام تک مکہ مکرمہ میں پہنچنا اس کیليے ممکن ہو۔ فرمانِ الٰہی ہے:

﴿‏وَلِلَّهِ عَلَى ٱلنَّاسِ حِجُّ ٱلْبَيْتِ مَنِ ٱسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا (آل عمران4 :97)
’’حج بیت اللہ کرنا ان لوگوں پر اللہ کا حق ہے جو اسکی طرف جانے کی طاقت رکھتے ہوں۔‘‘
اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استطاعت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اَلزَّادُ وَالرَّاحِلَةُ) یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس زادِ راہ اور سواری موجود ہو (یا سواری کا کرایہ ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔) (سنن ابن ماجہ،صحیح الترغیب والترہیب للألباني:1131)
اگر کوئی شخص مالی طاقت تو رکھتا ہو لیکن جسمانی طور پر سفرِ حج کے قابل نہ ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی جانب سے کسی ایسے شخص کو حج کرائے جو پہلے اپنی طرف سے فریضۂ حج ادا کر چکا ہو۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حجۃ الوداع میں خثعم قبیلے کی ایک عورت آئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! میرے باپ پر حج فرض ہو چکا ہے لیکن وہ بہت بوڑھا ہے اور سواری پر بیٹھنے کے قابل نہیں۔ تو کیا میں اس کی طرف سے حج کر لوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نَعَمْ، حُجِّیْ عَنْهُ) ’’ہاں، تم اس کی طرف سے حج کر لو۔‘‘ (صحیح البخاري: 1513، صحیح مسلم:1334)
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سنا جو کہہ رہا تھا: (لَبَّیْكَ عَنْ شُبْرُمَةَ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: شبرمۃ کون ہے؟ اس نے کہا: میرا بھائی ہے (یا میرا رشتہ دار ہے۔) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم نے خود حج کیا ہوا ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(حُجَّ عَنْ نَفْسِكَ، ثُمَّ حُجَّ عَنْ شُبْرُمَةَ) (سنن أبي داؤد:1811،سنن ابن ماجہ :2903۔ وصححہ الألباني)
’’پہلے اپنی طرف سے حج کرو ، پھر شبرمۃ کی طرف سے کرنا۔‘‘
یاد رہے کہ عورت کیليے ان شرائط کے علاوہ ایک اورشرط یہ ہے کہ سفرِ حج کیليے اسے محرم یا خاوند کا ساتھ میسر ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس پر حج فرض نہیں۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

(لَا یَحِلُّ لِامْرَأَۃٍ أَنْ تُسَافِرَ ثَلَاثًا إِلَّا وَمَعَهَا ذُوْ مَحْرَمٍ مِنْهَا) (صحیح البخاري:1086، صحیح مسلم:1338)
’’کسی عورت کے ليے حلال نہیں کہ وہ تین دن کی مسافت کا سفر اپنے محرم کے بغیر کرے۔‘‘
یاد رہے کہ جب کوئی شخص ان شرائط کے مطابق حج کی قدرت رکھتا ہو تو اسے پہلی فرصت میں حج کر لینا چاہئے اور اگلے سال تک اسے مؤخر نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(مَنْ أَرَادَ الْحَجَّ فَلْیَتَعَجَّلْ، فَإِنَّهُ قَدْ یَمْرُضُ الْمَرِیْضُ، وَتَضِل الضَّالَّةُ، وَتَعْرِضُ الْحَاجَةُ) (احمد وابن ماجہ۔ وصحیح الجامع الصغیر للألباني:6004،والإرواء:990)
’’جس آدمی کا حج کرنے کا ارادہ ہو تو (فرضیت کے بعد) وہ جلدی کر لے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ بیمار پڑ جائے یا اس کی کوئی چیز گم ہو جائے یا اسے کوئی ضرورت پیش آجائے۔‘‘
جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں اِن شہروں میں کچھ لوگوں کو بھیج کر معلوم کروں کہ کس کے پاس مال موجود ہے اور اس نے حج نہیں کیا تو اس پر میں جزیہ لگا دوں کیونکہ وہ یقینا مسلمان نہیں ہیں۔ (صححہ ابن حجر فی الکبائر)
حج کے فضائل
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے متعدد فضائل ذکر فرمائے، لیجئے آپ بھی ان فضائل کو سماعت فرما کر اپنا ایمان تازہ کیجئے۔
01.حج مبرور کا بدلہ جنت ہی ہے
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(اَلْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةُ) (صحیح البخاري: 1773،صحیح مسلم:1349)
’’حجِ مبرور کا بدلہ جنت ہی ہے۔‘‘
حجِ مبرور سے مراد وہ حج ہے جس میں اللہ کی نافرمانی نہ کی گئی ہو اور اس کی نشانی یہ ہے کہ حج کے بعد حاجی نیکی کے کام زیادہ کرنے لگ جائے اور دوبارہ گناہوں کی طرف نہ لوٹے۔
02.حج گناہوں کو مٹا دیتا ہے
٭حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی تو میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے کہا: آپ اپنا ہاتھ آگے بڑھائیں تاکہ میں آپ کی بیعت کروں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک آگے بڑھایا لیکن میں نے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمرو! تمھیں کیا ہو گیا ہے؟ میں نے کہا: میں ایک شرط لگانا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کون سی شرط؟ میں نے کہا: میری شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے گناہ معاف کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ یَهْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَهُ، وَأَنَّ الْهِجْرَۃَ تَهْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَهَا، وَأَنَّ الْحَجَّ یَهْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَهُ) (صحیح مسلم:121)
’’کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام پہلے گناہوں کو مٹا دیتا ہے، ہجرت سابقہ خطاؤں کو ختم کر دیتی ہے اور حج پچھلے تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘
٭حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(أَدِیْمُوْا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ فَإِنَّهُمَا یَنْفِیَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوْبَ کَمَا تَنْفِیْ الْکِیْرُ خَبَثَ الْحَدِیْدِ) (الطبراني و الدارقطني وصححہ الألباني فی الصحیحة : 1185)
’’حج اور عمرہ ہمیشہ کرتے رہا کرو کیونکہ یہ دونوں غربت اور گناہوں کو اس طرح ختم کر دیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو ختم کردیتی ہے۔‘‘
03.ایمان اور جہاد کے بعد سب سے افضل عمل حج ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: (إِیْمَانٌ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِهِ) ’’اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔‘‘ پوچھا گیا: پھر کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جِهَادٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ) ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔‘‘ پوچھا گیا: پھر کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (حَجٌّ مَبْرُوْرٌ) ’’حج مبرور‘‘ (صحیح البخاري:1519،صحیح مسلم :83)
04.حج سب سے افضل جہاد ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم یہ سمجھتی ہیں کہ جہاد کرنا سب سے افضل عمل ہے تو کیا ہم جہاد نہ کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لٰکِنْ أَفْضَلُ الْجِهَادِ حَجٌّ مَبْرُوْرٌ)(صحیح البخاري :1520) ’’سب سے افضل جہاد حج مبرورہے۔‘‘
05.عمر رسیدہ، کمزور اور عورت کا جہاد حج و عمرہ ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(جِهَادُ الْکَبِیْرِ وَالضَّعِیْفِ وَالْمَرْأَۃِ: اَلْحَجُّ وَالْعُمْرَۃُ) (سنن النسائي وصححہ الألباني)
’’عمر رسیدہ، کمزور اور عورت کا جہاد حج و عمرہ ہے۔‘‘
06.حجاج کرام اللہ کے مہمان ہوتے ہیں اور ان کی دعا قبول ہوتی ہے
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(اَلْغَازِیْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُ اللّٰہِ، دَعَاهُمْ فَأَجَابُوْہُ، وَسَأَلُوْہُ فَأَعْطَاهُمْ) (سنن ابن ماجہ،ابن حبان،صحیح الترغیب والترہیب:1108)
’’اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا ‘حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا یہ سب اللہ کے مہمان ہوتے ہیں۔ اللہ نے انھیں بلایا تو یہ چلے آئے۔ اس ليے اب یہ جو کچھ اللہ سے مانگیں گے وہ انھیں عطا کرے گا۔‘‘
07.سفرِ حج کے دوران موت آجائے تو انسان سیدھا جنت میں چلا جاتا ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَنْ خَرَجَ حَاجًّا فَمَاتَ، کُتِبَ لَهُ أَجْرُ الْحَاجِّ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ، وَمَنْ خَرَجَ مُعْتَمِرًا فَمَاتَ، کُتِبَ لَهُ أَجْرُ الْمُعْتَمِرِ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ۔۔) (رواہ أبو یعلی،صحیح الترغیب والترہیب:1114)
’’جو شخص حج کیليے نکلے، پھر اسی دوران اس کی موت آجائے تو یومِ قیامت تک اس کیليے حاجی کا اجر لکھ دیا جاتا ہے اور جو شخص عمرہ کیليے نکلے، پھر اسی دوران اس کی موت آجائے تو یومِ قیامت تک اس کیليے عمرہ کرنے والے کا اجر لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک آدمی‘ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفات میں وقوف کیا اسے اچانک اس کی اونٹنی نے نیچے گرا دیا جس سے اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ فوت ہوگیا۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(اِغْسِلُوْہُ بِمَاءٍ وَّسِدْرٍ، وَکَفِّنُوْہُ بِثَوْبَیْهِ، وَلَا تُخَمِّرُوْا رَأْسَهُ، وَلَا تُحَنِّطُوْہُ، فَإِنَّهُ یُبْعَثُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مُلَبِّیًا) (صحیح البخاري:1849و 1850،صحیح مسلم :1206)
’’اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور اس کی دو چادروں میں ہی اسے کفن پہنا دو۔ اس کا سر مت ڈھانپو اور اسے خوشبو بھی مت لگاؤ کیونکہ قیامت کے روز اسے اس حالت میں اٹھایا جائے گا کہ یہ تلبیہ پڑھ رہا ہوگا۔‘‘
08.مناسک حج کی فضیلت میں ایک عظیم حدیث
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم بیت اللہ کا قصد کر کے گھر سے روانہ ہوتے ہو تو تمھاری سواری کے ہر ہر قدم پر اللہ تعالیٰ ایک ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور ایک ایک گناہ معاف کر دیتا ہے اور جب تم وقوفِ عرفہ کر رہے ہوتے ہو تو اللہ عز وجل آسمانِ دنیا پر آکر فرشتوں کے سامنے حجاج کرام پر فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے: دیکھو یہ میرے بندے ہیں جو دور دراز سے پراگندہ حالت میں اور غبار آلود ہو کر میرے پاس آئے ہیں۔ یہ میری رحمت کے امید وار ہیں اور میرے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ (حالانکہ انھوں نے مجھے نہیں دیکھا) اور اگر یہ مجھے دیکھ لیتے تو پھر ان کی حالت کیا ہوتی! پھر اگر تمھارے اوپر تہہ در تہہ ریت کے ذرات کے برابر، یا دنیا کے ایام کے برابر، یا بارش کے قطروں کے برابر گناہ ہوں تو اللہ تعالیٰ ان تمام گناہوں کو تم سے دھو دیتا ہے اور جب تم جمرات کو کنکریاں مارتے ہو تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ تمھارے ليے ذخیرہ کر دیتا ہے اور جب تم سر منڈواتے ہو تو ہر بال کے بدلے اللہ تعالیٰ تمھارے ليے ایک نیکی لکھ دیتا ہے۔ پھر جب تم طواف کرتے ہو تو اس طرح گناہوں سے پاک ہو جاتے ہو جیسا کہ تم اپنی ماں کے پیٹ سے گناہوں سے بالکل پاک پیدا ہوئے تھے۔‘‘ (الطبراني۔ وحسنہ الألباني فی صحیح الجامع الصغیر:1360)
اسی حدیث کی ایک اور روایت کے الفاظ یوں ہیں:
’’جب تم اپنے گھر سے بیت اللہ کا قصد کر کے نکلتے ہو تو تمھاری اونٹنی کے ایک ایک قدم پر اللہ تعالیٰ تمھارے ليے ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور تمھارا ایک گناہ معاف کر دیتا ہے اور طواف کے بعد تمھاری دو رکعات حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہوتی ہیں اور صفا اور مروہ کے درمیان تمھاری سعی ستر غلاموں کو آزاد کرنے کے برابر ہوتی ہے اور یومِ عرفہ کی شام کو اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر آکر تم پر فخر کرتے ہوئے کہتا ہے: دیکھو یہ میرے بندے ہیں جو دور دراز سے پراگندہ حالت میں اور غبار آلود ہو کر میرے پاس آئے ہیں، یہ میری رحمت کے امید وار ہیں۔ اگر تمھارے گناہ ریت کے ذرات کے برابر، یا بارش کے قطروں کے برابر، یا سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں تو میں نے ان تمام گناہوں کو معاف کر دیا ہے اور (أَفِیْضُوْا عِبَادِیْ مَغْفُوْرًا لَّکُمْ وَلِمَنْ شَفَعْتُمْ لَهُ) ’’سن لو میرے بندو! اب تم مزدلفہ کی طرف لوٹ جاؤ، میں نے تمھاری اور جن کیليے تم نے دعا کی ہے سب کی مغفرت کر دی ہے۔‘‘ اور جب تم جمرات کو کنکریاں مارتے ہو تو ہر کنکری کے بدلے میں ایک کبیرہ گناہ مٹا دیا جاتا ہے۔ اور جب تم قربانی کرتے ہو تو اس کا اجر تمھارے رب کے ہاں تمھارے ليے ذخیرہ کر دیا جاتا ہے۔ اور جب تم سر منڈواتے ہو تو ہر بال کے بدلے اللہ تعالیٰ تمھارے ليے ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔ پھر جب تم طواف کرتے ہو تو اس طرح گناہوں سے پاک ہو جاتے ہو جیسا کہ تم اپنی ماں کے پیٹ سے گناہوں سے بالکل پاک پیدا ہوئے تھے اور ایک فرشتہ آتا ہے اور تمھارے کندھوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر کہتا ہے: جاؤ اب مستقبل کیليے عمل کرو کیونکہ تمھارے پچھلے تمام گناہ مٹا دیئے گئے ہیں۔‘‘ (الطبراني۔صحیح الترغیب والترہیب للألباني :1112)
سفرِ حج سے پہلے چند آداب
01.عازمِ حج پر لازم ہے کہ وہ حج وعمرہ کے ذریعے صرف اللہ کی رضا اور اس کا تقرب حاصل کرنے کی نیت کرے کیونکہ ہر عملِ صالح کی قبولیت کیليے اخلاص شرط ہے۔
فرمان الٰہی ہے:

﴿وَمَآ أُمِرُوٓا۟ إِلَّا لِيَعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ حُنَفَآءَ وَيُقِيمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُؤْتُوا۟ ٱلزَّكَوٰةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ ٱلْقَيِّمَةِ ‎﴿٥﴾ (البینة 98:5)
’’انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ وہ صرف اللہ کی عبادت کریں، اسی کیليے عبادت کو خالص کرتے ہوئے اور یکسو ہو کر۔ اور نماز قائم کریں اور زکاۃ دیتے رہیں اوریہی نہایت درست دین ہے۔‘‘
02.وہ حج کے اخراجات رزقِ حلال سے کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(یَا أَیُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اﷲ طَیِّبٌ وَلَا یَقْبَلُ إِلَّا طَیِّبًا) (صحیح مسلم: 1014)
’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ پاک ہے اور صرف پاک چیز کو قبول کرتا ہے۔‘‘
پھر آپ نے ایک شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر کر کے پراگندہ اور غبار آلود حالت میں (حج کرنے جاتا ہے) اور آسمان کی طرف ہاتھوں کو بلند کرکے دعا کرتا ہے: اے میرے رب، اے میرے رب! حالانکہ اس کا کھانا، اس کا پینا اور اس کا لباس حرام کمائی سے تھا اور اس کے جسم کی پرورش حرام رزق سے ہوئی تو ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے!‘‘
اس حدیث میں ذرا غور فرمائیں کہ اس شخص نے قبولیت ِ دعا کے کئی اسباب اختیار کئے۔ سفر، پراگندہ اور غبار آلود حالت اور اللہ کے سامنے ہاتھوں کا اٹھانا وغیرہ ۔۔۔ لیکن اس کے باوجود اس کی دعا اللہ کے ہاں قابلِ قبول نہیں! اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا کھانا پینا اور لباس وغیرہ حرام کمائی سے تھا۔ اس ليے تمام مسلمانوں پر عموما اور حجاج کرام پر خصوصا لازم ہے کہ وہ حرام کمائی سے بچیں اور سفرِ حج کے اخراجات حلال کمائی سے کریں۔
03.تمام گناہوں سے سچی توبہ کر لے اور اگر اس پر لوگوں کا کوئی حق (قرضہ وغیرہ) ہو تو اسے ادا کر دے۔
اپنے گھر والوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی تلقین کرے اور اگر کچھ حقوق وہ ادا نہ کر سکا ہو توا نھیں ان کے متعلق وصیت کرے۔
04.قرآن وسنت کی روشنی میں حج وعمرہ کے احکامات کو سیکھ لے اور سنی سنائی باتوں پر اعتماد نہ کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر ارشاد فرمایا تھا:

(لِتَأْخُذُوْا مَنَاسِکَکُمْ، فَإِنِّیْ لَا أَدْرِیْ لَعَلِّیْ لَا أَحُجُّ بَعْدَ حَجَّتِیْ هَذِہ) (صحیح مسلم :1297)
’’تم حج کے احکام سیکھ لو کیونکہ مجھے معلوم نہیں، شاید میں اس حج کے بعد دوسرا حج نہ کر سکوں۔‘‘
لہٰذا جس طرح باقی تمام عبادات کیليے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ سے مطابقت ضروری ہے، اسی طرح حج کے احکام بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہی ادا ہونے چاہیئیں۔
دورانِ سفر اور دورانِ ادائیگی حج چند ضروری آداب
01.احرام کی نیت کرنے کے بعد زبان کی خصوصی طور پر حفاظت کریں اور فضول گفتگو سے پر ہیز کریں، اپنے ساتھیوں کو ایذاء نہ دیں اور ان سے برادرانہ سلوک رکھیں۔ اور اپنے تمام فارغ اوقات اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں گذاریں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ٱلْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَٰتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ ٱلْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِى ٱلْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا۟ مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ ٱللَّهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا۟ فَإِنَّ خَيْرَ ٱلزَّادِ ٱلتَّقْوَىٰ ۚ وَٱتَّقُونِ يَٰٓأُو۟لِى ٱلْأَلْبَٰبِ ‎﴿١٩٧﴾ (البقرۃ2 :197)
’’حج کے مہینے مقرر ہیں، اس ليے جو شخص ان میں حج لازم کر لے وہ اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑا کرنے سے بچتا رہے۔ تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو اور سب سے بہتر توشہ اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے۔ لہٰذا اے عقلمندو! تم مجھ سے ڈرتے رہا کرو۔‘‘

اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(مَنْ حَجَّ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ) (صحیح البخاري:1819، صحیح مسلم:1350)
’’جس نے حج کیا اور اس دوران بے ہودگی اور اللہ کی نافرمانی سے بچا رہا وہ اس طرح واپس لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے اس کو جنم دیا تھا۔‘‘
02.حجاج کے رش میں خصوصا حالتِ طواف وسعی میں اور کنکریاں مارتے ہوئے کوشش کریں کہ کسی کو آپ کی وجہ سے کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ پوچھا گیا کہ سب سے اچھا مومن کون ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِهَِ وَیَدِہٖ) (صحیح البخاري:11،صحیح مسلم:42)

’’سب سے اچھا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور اسکے ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘
اگر کسی کی وجہ سے آپ کو تکلیف پہنچے تو اسے درگذر کر دیں اورجھگڑا نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَٱلَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَٰٓئِرَ ٱلْإِثْمِ وَٱلْفَوَٰحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا۟ هُمْ يَغْفِرُونَ ‎﴿٣٧﴾(الشوری 42:37)
’’اور وہ (مومن) کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں اور غصے کے وقت معاف کر دیتے ہیں۔‘‘
نیز فرمایا: ﴿وَجَزَٰٓؤُا۟ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُۥ عَلَى ٱللَّهِ ۚ إِنَّهُۥ لَا يُحِبُّ ٱلظَّٰلِمِينَ ‎﴿٤٠﴾(الشوری 42:40)
’’برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جو معاف کر دے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔‘‘
03.باجماعت نماز پڑھنے کی پابندی کریں اور اس سلسلے میں کسی قسم کی سستی نہ برتیں۔
04.خواتین غیر محرم مردوں کے سامنے بے پردہ نہ ہوں اور ان کے سامنے دوپٹے یا چادر وغیرہ سے پردہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَٰبِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ   (الأحزاب33 :59)
’’اے نبی! اپنی بیویوں سے، اپنی بیٹیوں سے اور تمام مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں، اِس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی، پھر انھیں ستایا نہیں جائے گا۔‘‘
حج کے فضائل اور سفرِ حج کے ضروری آداب ذکر کرنے کے بعد اب ہم حج تمتع کے احکام ذکر کرتے ہیں کیونکہ پاک وہند سے جو حضرات حج کی سعادت حاصل کرنے کیليے جاتے ہیں وہ عموما حج تمتع ہی کرتے ہیں اور حج تمتع یہ ہے کہ حاجی اپنے ملک سے جاتے ہوئے جب میقات پر پہنچے تو احرام کا لباس پہن کر وہاں سے صرف عمرہ کی نیت کرے اور مکہ مکرمہ میں پہنچ کر عمرہ کر لے۔ اس کے بعد احرام اتار کر اس کی پابندیوں سے آزاد ہو جائے۔ پھر آٹھ ذو الحج کو اپنی رہائش گاہ سے دوبارہ احرام پہن کر حج کی نیت کرے اور منٰی کی طرف روانہ ہو جائے اور پھر مناسک حج مکمل کرے۔ تو آئیے سب سے پہلے عمرہ کے احکام تفصیل سے ذکر کرتے ہیں۔
عمرہ کے تفصیلی احکام
01.اِحرام 
1۔ احرام حج وعمرہ کا پہلا رکن ہے۔ اور اس سے مراد ہے احرام کا لباس پہن کر تلبیہ کہتے ہوئے مناسکِ حج وعمرہ کو شروع کرنے کی نیت کر لینا اور ایسا کرنے سے اس پر چند امور کی پابندی کرنا لازمی ہو جاتا ہے۔
عمرے کا احرام میقات سے شروع ہوتا ہے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ لباسِ احرام پہلے پہن لیا جائے اور نیت میقات سے کی جائے۔ میقات سے احرام باندھے بغیر گذرنا حرام ہے۔ اگر کوئی شخص ایسا کرے تو اسے میقات کو واپس آنا یا مکہ جا کر دم دینا پڑے گا۔
*مواقیت
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ مدینہ کیليے ذو الحلیفۃ (ابیار علی)، اہلِ شام کیليے الجحفۃ، اہلِ نجد کیليے قرن المنازل اور اہلِ یمن کیليے یلملم کو میقات مقرر فرمایا۔ یہ مواقیت اِن ملکوں کیليے ہیں اور اُن لوگوں کیليے بھی ہیں جو حج وعمرہ کی نیت سے ان مقامات سے گذریں اور جو لوگ ان مواقیت کے اندر (مکہ مکرمہ کی جانب) مقیم ہوں وہ اپنے گھروں سے ہی احرام کی نیت کریں حتی کہ اہلِ مکہ مکہ ہی سے احرام کی نیت کریں۔‘‘ (صحیح البخاري:1524، صحیح مسلم:1181)
02.اِحرام باندھتے وقت غسل کرنا، صفائی کے امور کا خیال کرنا اور بدن پر خوشبو لگانا سنت ہے۔
حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ (کُنْتُ أَطَیِّبُ رَسُوْلَ اللّٰہَ صلي الله عليه وسلم لِإِحْرَامِهِ حِیْنَ یُحْرِمُ، وَلِحِلِّهِ قَبْلَ أَنْ یَّطُوْفَ بِالْبَیْتِ) (صحیح البخاري:1539،صحیح مسلم :1189)
یعنی ’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام کیليے احرام باندھتے وقت خوشبو لگاتی تھی۔ اسی طرح جب آپ حلال ہوتے تو بیت اللہ کے طواف (طوافِ افاضہ) سے پہلے بھی آپ کو خوشبو لگاتی تھی۔‘‘
03.مرد دو سفید اور صاف ستھری چادروں میں احرام باندھیں جبکہ خواتین اپنے عام لباس میں ہی احرام کی نیت کریں۔ اگر میقات پر عورت مخصوص ایام میں ہو تو وہ غسل کر کے احرام کی نیت کر لے۔
حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہا اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ) نے ذو الحلیفۃ میں بیداء کے مقام پر (محمد بن ابی بکر) کو جنم دیا، جس کے بعد انہیں نفاس آگیا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اپنی اہلیہ کو حکم دیں کہ وہ غسل کر لیں اور احرام کی نیت کر لیں۔ (صحیح مسلم:1209،1210)
04.احرام کی نیت ان الفاظ سے کریں: ’’لَبَّیْكَ اللّٰهُمَّ عُمْرَۃً‘‘ اگر راستے میں کسی رکاوٹ کے پیش آنے کا خطرہ ہو تو یہ الفاظ بھی پڑھنے چائیں: ’’اَللّٰهُمَّ إنْ حَبَسَنِی حَابِسٌ فَمَحِلّی حَیْثُ حَبَسْتَنِی‘‘
پھر تلبیہ پڑھنا شروع کر دیں اور طواف شروع کرنے تک اسے پڑھتے رہیں۔
تلبیہ یہ ہے: (لَبَّیْكَ اللّٰهُمَّ لَبَّیْكَ‘ لَبَّیْكَ لاَ شَرِیْكَ لَكَ لَبَّیْكَ‘ إنَّ الْحَمْدَ وَالنّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ‘ لَا شَرِیْكَ لَكَ) (صحیح البخاري:1549،صحیح مسلم:1184)
’’میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں ‘ میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں ‘ میں حاضر ہوں۔ بے شک تمام تعریفیں، نعمتیں اور بادشاہت تیرے ليے ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘
05.مردوں کیليے مستحب ہے کہ وہ تلبیہ بلند آواز سے پڑھیں کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کا حکم دیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

(أَتَانِیْ جِبْرِیْلُ عَلَیْهِ السَّلَامُ فَأَمَرَنِیْ أَنْ آمُرَ أَصْحَابِیْ وَمَنْ مَّعِیَ أَنْ یَّرْفَعُوْا أَصْوَاتَهُمْ بِالْإِهْلَالِ) (سنن الترمذي:829،سنن أبی داؤد :1814وصححہ الألباني)
’’میرے پاس حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور مجھے حکم دیا کہ میں اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اور میرے ساتھ جو بھی ہے سب کو تلبیہ بلند آواز سے پڑھنے کا حکم دوں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلبیہ پڑھنے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

(مَا مِنْ مُّسْلِمٍ یُلَبِّیْ إِلَّا لَبیّٰ مَنْ عَنْ یَمِیْنِهِ وعَنْ شِمَالِهِ مِنْ حَجَرٍ أَوْ شَجَرٍ أَوْ مَدَرٍ) (سنن الترمذي:828۔ وصححہ الألباني)
’’کوئی مسلمان جب تلبیہ پڑھتا ہے تو اس کے دائیں بائیں ہر پتھر، ہر درخت اور ریت کے تمام ذرات بھی تلبیہ پڑھتے ہیں۔‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَا أَهَلَّ مُهِلٌّ قَطُّ إِلَّا بُشِّرَ، وَلَا کَبَّرَ مُکَبِّرٌ قَطُّ إِلَّا بُشِّرَ۔ قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! بِالْجَنَّةِ؟ قَالَ: نَعَمْ) (الطبراني فی الأوسط۔ صحیح الترغیب والترہیب للألباني:1137)
’’کوئی تلبیہ پڑھنے والا جب بھی تلبیہ پڑھتا ہے تو اسے بشارت دی جاتی ہے اور کوئی تکبیر کہنے والا جب بھی تکبیر کہتا ہے تو اسے بھی بشارت دی جاتی ہے۔‘‘ کہا گیا: اے اللہ کے رسول! جنت کی بشارت دی جاتی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔‘‘
06.بعض غلطیاں بغیر احرام باندھے میقات کو عبور کر جانا۔ احرام باندھتے ہی دایاں کندھا ننگا کر لینا حالانکہ ایسا صرف طوافِ قدوم میں کرنا چاہئے۔ خاص ڈھب سے بنے ہوئے جوتے کی پابندی کرنا (حالانکہ ٹخنوں کو ننگا رکھتے ہوئے ہر قسم کا جوتا پہنا جا سکتا ہے۔) احرام باندھ کر کثرت سے ذکر واستغفار اور تلبیہ کے بجائے لہو ولعب میں مشغول رہنا۔ باجماعت نماز ادا کرنے میں سستی کرنا۔ خواتین کا بغیر محرم یا بغیر خاوند کے سفر کرنا۔ غیر محرم مردوں کے سامنے عورتوں کا پردہ نہ کرنا۔ احرام باندھ لینے کے بعد کئی لوگوں کا فوٹو کھنچوانا۔
07.محظوراتِ احرام احرام کی نیت کرنے کے بعد کچھ چیزیں حرام ہو جاتی ہیں جو یہ ہیں: جسم کے کسی حصے سے بال اکھیڑنا یا کاٹنا، ناخن کاٹنا، خوشبو استعمال کرنا، بیوی سے صحبت یا بوس وکنار کرنا، دستانے پہننا اور شکار کرنا۔۔۔ یہ سب امور مرد وعورت دونوں پر حرام ہو جاتے ہیں اور مرد پر سلا ہوا کپڑا پہننا اور سر کو ڈھانپنا حرام ہو جاتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! احرام والا شخص کونسے کپڑے پہن سکتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(لَا یَلْبَسُ الْقُمُصَ وَلَا الْعَمَائِمَ، وَلَا السَّرَاوِیْلاَتِ، وَلَا الْبَرَانِسَ وَلَا الْخِفَافَ، إِلَّا أَحَدٌ لَا یَجِدُ نَعْلَیْنِ فَلْیَلْبَسْ خُفَّیْنِ، وَلْیَقْطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ، وَلَا تَلْبَسُوْا مِنَ الثِّیَابِ شَیْئًا مَسَّهُ زَعْفَرَانٌ أَوْ وَرْسٌ) (صحیح البخاري1542،صحیح مسلم :1177)
’’وہ قمیص، پگڑی، شلوار (یا پاجامہ) اور باران کوٹ نہ پہنے اور اسی طرح موزے بھی نہ پہنے۔ ہاں اگر کسی کو جوتے نہ ملیں تو وہ موزے پہن سکتا ہے بشرطیکہ وہ انہیں ٹخنوں کے نیچے تک کاٹ دے اور تم ایسا لباس مت پہنو جس پر زعفران یا ورس کی خوشبو یا ان کا رنگ لگا ہوا ہو۔‘‘
جبکہ عورت پر نقاب باندھنا حرام ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی اسی حدیث کی ایک اور روایت کے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(وَلَا تَنْتَقِبِ الْمَرْأَۃُ الْمُحْرِمَةُ، وَلَا تَلْبَسِ الْقُفَّازَیْنِ) (صحیح البخاري :1838)
’’احرام والی عورت نہ نقاب باندھے اور نہ ہی وہ دستانے پہنے۔‘‘
البتہ وہ غیر محرم مردوں کے سامنے چہرے کا پردہ کرنے کی پابند ہوگی خواہ کپڑا اس کے چہرے کو لگ جائے۔
حضرت فاطمۃ بنت المنذر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ

(کُنَّا نُخَمِّرُ وُجُوهَنَا وَنَحْنُ مُحْرِمَاتٌ وَنَحْنُ مَعَ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِی بَکْرِ الصِّدِّیْق)

’’ہم احرام کی حالت میں حضرت اسماء بنت ابی بکر الصدیق کے ساتھ اپنے چہروں کا پردہ کیا کرتی تھیں۔‘‘
اور حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:

(کُنَّا نُغَطِّی وُجُوهَنَا مِنَ الرِّجَالِ وَکُنَّا نَمْشِطُ قَبْلَ ذَلِكَ فِی الْإِحْرَامِ) (رواہماالحاکم وصححہما الألباني فی إرواء الغلیل:212/4)
’’ہم احرام میں اپنے چہرے مردوں سے چھپایا کرتی تھیں اور اس سے پہلے ہم کنگھی کر لیا کرتی تھیں۔‘‘
جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ

(کَانَ الرُّکْبَانُ یَمُرُّوْنَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم مُحْرِمَاتٌ، فَإِذَا حَاذَوْا بِنَا سَدَلَتْ إِحْدَانَا جِلْبَابَهَا مِنْ رَأْسِهَا عَلٰی وَجْهِهَا،فَإِذَا جَاوَزُوْنَا کَشَفْنَاہُ) (سنن أبي داؤد:833،سنن ابن ماجہ:2935۔ضعفہ الألباني ولکن لہ شاہد من حدیث أسماء وفاطمة المذکورین)
’’ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حالتِ احرام میں تھیں، جب لوگ ہمارے سامنے آتے تو ہم میں سے ہر عورت اپنی چادر سر سے چہرے پر لٹکا لیتی اور جب وہ آگے چلے جاتے تو ہم اپنے چہروں سے پردہ ہٹا لیتیں‘‘
08.حالتِ احرام میں غسل کرنا، سر میں خارش کرنا، چھتری وغیرہ کے ذریعے سایہ کرنا اور بیلٹ باندھنا جائز ہے۔ سایہ کرنے کے بارے میں حضرت ام حصین رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کیا اور انھوں نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ ان میں سے ایک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی لگام کو پکڑا ہوا تھا اور دوسرے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کپڑا بلند کیا ہوا تھا تاکہ آپ دھوپ سے بچ سکیں۔ (صحیح مسلم:1298)
02.طواف
1۔ مسجد حرام میں پہنچ کر تلبیہ بند کر دیں، پھر حجر اسود کے سامنے آئیں اور اپنا دایاں کندھا ننگا کر لیں۔ اسے اضطباع کہتے ہیں۔ (سنن أبي داؤد:1883،1884۔ وصححہ الألباني)
اگر بآسانی حجر اسود کو بوسہ دے سکتے ہوں تو ٹھیک ہے، ورنہ ہاتھ لگا کر اسے چوم لیں اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو دائیں ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کر کے زبان سے ’’بِسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘ کہیں اور طواف شروع کر دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا:

(یَا عُمَرُ، إِنَّكَ رَجُلٌ قَوِیٌّ، لَا تُزَاحِمْ عَلیَ الْحَجَرِ فَتُؤْذِیَ الضَّعِیْفَ، إِنْ وَجَدْتَّ خَلْوَۃً فَاسْتَلِمْهُ وَإِلَّا فَاسْتَقْبِلْهُ، فَهَلِّلْ وَکَبِّرْ) (مسند أحمد:321/1 برقم :190وہو حدیث حسن کما قال محقق المسند)
’’اے عمر! تم طاقتور ہو، لہٰذا حجر اسود پر مزاحمت نہ کرو اور کمزور کو ایذا نہ دو اور جب حجر اسود کا استلام کرنا چاہو تو دیکھ لو‘ اگر بآسانی کر سکو تو ٹھیک ہے ورنہ اس کے سامنے آ کر طواف کی نیت کر کے تکبیر کہہ لو۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

(نَزَلَ الْحَجَرُ الْأَسْوَدُ مِنَ الْجَنَّةِ وَهُوَ أَشَدُّ بَیَاضًا مِّنَ اللَّبَنِ، فَسَوَّدَتْهُ خَطَایَا بَنِیْ آدَمَ) (سنن الترمذي :877۔ وصححہ الألباني)
’’حجر اسود جب جنت سے نازل ہوا تو دودھ سے زیادہ سفید تھا، پھر بنی آدم کی غلطیوں نے اسے سیاہ کر دیا‘‘
جبکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کے بارے میں فرمایا:

(وَاللّٰہِ لَیَبْعَثَنَّهُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ لَهُ عَیْنَانِ یُبْصِرُ بِهِمَا، وَلِسَانٌ یَنْطِقُ بِهِ، یَشْهَدُ عَلٰی مَنِ اسْتَلَمَهُ بِحَقٍّ) (سنن الترمذي وابن حبان۔ صحیح الترغیب والترہیب : 1144)
’’اللہ کی قسم! اسے قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اس حالت میں اٹھائے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہونگی جن سے وہ دیکھے گا اور ایک زبان ہو گی جس سے وہ بولے گا اور ہر ایسے شخص کے حق میں گواہی دے گا جس نے اس کا حق کے ساتھ استلام کیا تھا۔‘‘
نیز یہ بات ہر حاجی کو ذہن نشین ہونی چاہئے کہ حجر اسود نفع ونقصان کا مالک نہیں ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انھوں نے حجر اسود کو بوسہ دیا۔ پھر فرمایا:

(إِنِّیْ أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلاَ تَنْفَعُ، وَلَوْ لَا أَنِّیْ رَأَیْتُ النَّبِیَّ صلي الله عليه وسلم یُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ) (صحیح البخاري:1597،صحیح مسلم:1270)
’’مجھے معلوم ہے کہ تم ایک پتھر ہو اور نہ تم نقصان پہنچا سکتے ہو اور نہ نفع۔ اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔‘‘
02.طواف کے پہلے تین چکروں میں کندھے ہلاتے ہوئے، چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ تیز تیز چلیں۔ اسے رمل کہتے ہیں۔ ہاں اگر رش ہو تو صرف کندھے ہلانا ہی کافی ہے۔ اس حکم سے خواتین مستثنی ہیں اسی طرح ان کے محرم بھی۔ تاہم محرم مردوں کو رمل جیسی کیفیت اختیار کرنی چاہئے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حج میں یا عمرہ میں طواف کرتے تو سب سے پہلے تین چکر تیز تیز قدموں کے ساتھ لگاتے، پھر چار چکر عام رفتار میں مکمل کرتے۔ اسکے بعد دو رکعات ادا فرماتے اور پھر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے۔ (صحیح البخاري:1616،صحیح مسلم:1261)
03.دورانِ طواف ذکر، دعا اور تلاوتِ قرآن میں مشغول رہیں، ہر چکر کی کوئی خاص دعا نہیں ہے۔ البتہ رکن ِ یمانی اور حجر اسود کے درمیان (رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّفِی الآخِرَۃِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ) کا پڑھنا مسنون ہے۔ (سنن أبي داؤد:1892وحسنہ الألباني)
ذکر اور دعا میں آواز بلند کرنا درست نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

‎﴿وَٱذْكُر رَّبَّكَ فِى نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ ٱلْجَهْرِ مِنَ ٱلْقَوْلِ بِٱلْغُدُوِّ وَٱلْـَٔاصَالِ وَلَا تَكُن مِّنَ ٱلْغَٰفِلِينَ ‎﴿٢٠٥﴾ (الأعراف7 :205)
’’اور اپنے رب کا ذکر کریں اپنے دل میں، عاجزی اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ، صبح اور شام اور اہلِ غفلت میں سے مت ہوں۔‘‘
اور فرمایا:﴿ ٱدْعُوا۟ رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ إِنَّهُۥ لَا يُحِبُّ ٱلْمُعْتَدِينَ ‎﴿٥٥﴾ (الأعراف7 :55)
’’تم اپنے رب سے دعا کیا کرو گڑ گڑا کر بھی اور چپکے چپکے بھی۔ بے شک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ناپسند کرتا ہے جو حد سے تجاوز کریں۔‘‘
04.’’بسم اﷲ، ﷲأکبر‘‘ کہہ کر رکن ِ یمانی کا استلام کرنا بھی مسنون ہے۔ لہٰذا اگر بآسانی اسے ہاتھ لگا سکیں تو ٹھیک ہے ورنہ بغیر اشارہ کئے اور بوسہ دیئے وہاں سے گذر جائیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(إِنَّ الرُّکْنَ وَالْمَقَامَ یَاقُوْتَتَانِ مِنْ یَاقُوْتِ الْجَنَّةِ، طَمَسَ اللّٰہُ نُوْرَهُمَا، وَلَوْ لَمْ یَطْمِسْ نُوْرَهُمَا لَأَضَاءَ تَامَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ) (سنن الترمذي: 878 وصححہ الألباني)
’’بے شک رکن (حجر اسود) اور مقام (ابراہیم) جنت کے قیمتی پتھروں میں سے دو پتھر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بے نور کر دیا ہے۔ اگر وہ انہیں بے نور نہ کرتا تو وہ مشرق ومغرب کے درمیان پوری دنیا کو روشن کر دیتے۔‘‘
05.سات چکر مکمل کر کے مقامِ ابراہیم کے پیچھے اگر جگہ مل جائے تو ٹھیک ہے ورنہ مسجد حرام کے کسی حصے میں دو رکعات ادا کریں۔ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد ’’الکافرون‘‘ اور دوسری میں ’’الاخلاص‘‘ پڑھیں۔ (صحیح مسلم:1218)
پھر زمزم کا پانی پییں اور اپنے سر پر بہائیں، اس کے بعد اگر ہو سکے تو حجر اسود کا استلام کریں کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ ورنہ سیدھے صفا کی طرف چلے جائیں۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ تشریف لائے تو مسجد حرام میں داخل ہوئے، پھر آپ نے حجر اسود کا استلام کیا، پھر اپنی دائیں سمت چل پڑے، پہلے تین چکروں میں آپ نے رمل کیا اور باقی چار چکر آپ نے عام رفتار میں پورے کئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابراہیم پر آئے اور آپ نے یہ آیت پڑھی: (وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِیْمَ مُصَلّٰی) اور مقام ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان رکھ کر دو رکعت نماز ادا فرمائی، پھر دوبارہ حجر اسود پر آئے اور استلام کیا، پھر صفا کی طرف چلے گئے۔ (صحیح مسلم:1218)
طواف میں بعض غلطیاں: حجر اسود کو بوسہ دینے کیليے مزاحمت کرنا اور مسلمانوں کو ایذا پہنچانا۔ دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے حجراسود کی طرف اشارہ کرنا۔ حطیم کے درمیان سے گذرتے ہوئے طواف کرنا۔ رکن یمانی کو بوسہ دینا اور اسی طرح اس کا استلام نہ کر سکنے کی صورت میں اس کی طرف اشارہ کرنا۔ ہر چکر کیليے ایک دعا خاص کرنا۔ کعبہ کی دیواروں پر بنیتِ تبرک ہاتھ پھیرنا۔ طواف قدوم کے بعد بھی دایاں کندھا ننگا رکھنا۔ دورانِ طواف دعائیں پڑھتے ہوئے آواز بلند کرنا۔
زمزم کی فضیلت
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(خَیْرُ مَائٍ عَلٰی وَجْهِ الْأَرْضِ مَاءُ زَمْزَمَ، فِیْهِ طَعَامُ الطَّعْمِ وَشِفَاءُ السَّقْمِ) (رواہ الطبراني وابن حبان۔صحیح الترغیب والترہیب :1161)
’’روئے زمین پر سب سے افضل پانی زمزم کا پانی ہے، وہ ایک کھانے کا کھانا ہے اور مزید برآں اس میں بیماری سے شفا بھی ہے۔‘‘
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَهُ) (رواہ الدار قطني والحاکم۔ صحیح الترغیب والترہیب : 1164)
’’زمزم کا پانی پینے سے ہر وہ مقصد پورا ہوتا ہے جس کیليے اسے پیا جائے۔‘‘
06.طواف، دو رکعات اور استلامِ حجر اسود کے بعد اگر ملتزم پر جانا چاہیں تو جاسکتے ہیں کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے پہلے طواف کیا، پھر دو رکعت نماز ادا کی، پھر استلام کیا، پھر حجر اسود اور باب کعبہ کے درمیان کھڑے ہو کر اپنا سینہ، اپنے ہاتھ اور اپنے رخسار بیت اللہ سے چمٹائے۔ پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ (سنن الترمذی۔ 2962۔ الصحیحۃ للألبانی:2138)
03.سعی
صفا کے قریب جا کر (إنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ) پڑھیں، پھر صفا پہ چڑھ جائیں اور خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے یہ دعا پڑھیں: (لَا إلٰهَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْكَ لَهُ‘ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ‘ یُحْیِی وَیُمِیْتُ، وَھُوَ عَلٰی کُلّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، لَا إلٰهَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْكَ لَهُ، أنْجَزَ وَعْدَہُ وَنَصَرَ عَبْدَہُ وَھَزَمَ الأحْزَابَ وَحْدَہُ)
پھر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگیں، تین مرتبہ اسی طرح کر کے مروہ کی طرف روانہ ہو جائیں۔ راستے میں دو سبز نشانوں کے درمیان دوڑیں۔ البتہ عورتیں اور ان کے ساتھ جانے والے مرد نہیں دوڑیں گے۔ پھر عام رفتار میں چلتے ہوئے مروہ پر پہنچیں، یہاں پہنچ کر ایک چکر پورا ہو جائے گا۔ اب یہاں بھی وہی کریں جو آپ نے صفا پر کیا تھا۔ پھر واپس صفا کی طرف آئیں، راستے میں دو سبز نشانوں کے درمیان دوڑیں، صفا پہ پہنچ کر دوسرا چکر مکمل ہو جائے گا۔ پھر اسی طرح سات چکر پورے کریں، آخری چکر مروہ پر پورا ہوگا۔ دورانِ سعی ذکر، دعا اور تلاوتِ قرآن میں مشغول رہیں۔
بعض غلطیاں: صفا اور مروہ پر قبلہ رخ ہو کر دونوں ہاتھوں سے اشارہ کرنا۔ اقامت ِنماز ہو جانے کے بعد بھی سعی جاری رکھنا۔ سعی کے سات چکروں کی بجائے چودہ چکر لگانا۔
04.سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا
صفا اور مروہ کے درمیان سعی مکمل کر کے سر منڈوا لیں یا پورے سر کے بال چھوٹے کروا لیں۔ تاہم سر کے بال منڈوانا افضل ہے۔ عورت اپنی ہر چوٹی سے انگلی کے ایک پورے کے برابر بال کٹوائے۔ مردوں کا سر کے کچھ حصے سے بال کٹوا کر حلال ہو جانا خلافِ سنت ہے۔
اس طرح آپ کا عمرہ مکمل ہو جائے گا اور احرام کی وجہ سے جو پابندیاں لگی تھیں وہ ختم ہو جائیں گی۔ اب آپ احرام کھول سکتے ہیں۔ اللہ رب العزت ہمیں اور حجاج کرام کو عمرۂ مقبولہ نصیب فرمائے۔ آمین
دوسرا خطبہ
پہلے خطبۂ جمعہ میں ہم نے حج کی اہمیت وفرضیت، حج کے فضائل، سفر حج کے بعض آداب اور عمرہ کے تفصیلی احکام بیان کئے۔ اب سوال یہ ہے کہ عمرہ کرنے کے بعد آٹھ ذو الحج (یوم الترویۃ) تک حجاج کرام کو کیا کرنا چاہئے؟
01.بعض لوگ عمرے سے فارغ ہو کر مختلف مساجد اور پہاڑوں کی زیارت کیليے ثواب کی نیت سے جاتے ہیں حالانکہ ایسا کرنا محض ضیاعِ وقت ہے۔ اسی طرح مسجد عائشہ رضی اللہ عنہا سے احرام باندھ کر بار بار عمرے کرنا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں ہے۔ ہاں صرف حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہا کے متعلق یہ ثابت ہے کہ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ مکرمہ میں پہنچی تھیں تو اس وقت آپ مخصوص ایام میں تھیں، اسی ليے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عمرہ کرنے سے منع کر دیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج ادا کیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کو واپس لوٹنے لگے تو حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: میرے دل میں یہ بات رہے گی کہ لوگوں نے حج وعمرہ دونوں کئے ہیں جبکہ میں نے صرف حج کیا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بھائی کو حکم دیا کہ وہ انہیں تنعیم میں لے جائیں جہاں سے وہ احرام کی نیت کر کے عمرہ کر لیں۔ چنانچہ انھوں نے عمرہ ادا کیا۔ (صحیح البخاري: 1556، صحیح مسلم :1211)
یہ ایک مخصوص معاملہ تھا جسے لوگوں نے اتنا عام کر لیا ہے کہ وہ عمرہ اور حج کے درمیان بار بار تنعیم میں جاتے ہیں اور وہاں سے احرام باندھ کر متعدد عمرے کرتے ہیں، حالانکہ یہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے۔ اس ليے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تنعیم سے بار بار عمرہ کرنے کی بجائے اگر مسجد حرام میں باجماعت نماز ادا کی جائے اور خانہ کعبہ کے نفلی طواف بار بار کئے جائیں تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ واللہ اعلم
02.مسجدحرام میں نماز باجماعت پڑھنے کی پابندی کریں اور اس کی فضیلت میں یہی کافی ہے کہ اس میں ایک نماز دیگر مساجد میں ایک لاکھ نماز سے افضل ہے۔ جیسا کہ ہم گذشتہ خطبۂ جمعہ میں بیان کر چکے ہیں۔
03.خانہ کعبہ کا نفلی طواف کرتے رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(مَنْ طَافَ بِالْبَیْتِ وَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ کَانَ کَعِتْقِ رَقَبَة) (سنن ابن ماجہ :2956 وصححہ الألباني)
’’جس نے بیت اللہ کا طواف کیا اور دو رکعت نماز ادا کی، اس کیليے ایک گردن کو آزاد کرنے کا ثواب ہے۔‘‘
ایک اور صحیح حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَا رَفَعَ رَجُلٌ قَدَمًا وَلَا وَضَعَهَا إِلَّا کُتِبَ لَهُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ وَحُطَّ عَنْهُ عَشْرُ سَیِّئَاتٍ وَرُفِعَ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ) (ٔحمد۔صحیح الترغیب والترھیب للألباني:1139)
’’ (دوران طواف) ہر ہر قدم پر دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں، دس گناہ مٹا دیے جاتے ہیں اور دس درجات بلند کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
04.اگر آپ خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کا شرف حاصل کرنا چاہیں تو حطیم میں پڑھ لیں کیونکہ حطیم خانہ کعبہ ہی کا ایک حصہ ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گذارش کی کہ میں چاہتی تھی کہ خانہ کعبہ کے اندر جاؤں اور اس میں نماز پڑھوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے الحِجر (حطیم) میں داخل کر دیا اور ارشاد فرمایا:

(صَلِّیْ فِیْ الْحِجْرِ إِنْ أَرَدْتِّ دُخْوْلَ الْبَیْتِ، فَإِنَّمَا هُوَ قِطْعَةٌ مِنَ الْبَیْتِ، وَلٰکِنْ قَوْمُكِ اِسْتَقْصَرُوْہُ حِیْنَ بَنَوْا الْکَعْبَةَ، فَأَخْرَجُوْہُ مِنَ الْبَیْتِ) (سنن الترمذي:876۔ وصححہ الألباني)
’’اگر تم بیت اللہ میں داخل ہونا چاہو تو حطیم میں ہی نماز پڑھ لو کیونکہ وہ بیت اللہ کا ہی ایک ٹکڑا ہے، لیکن تمہاری قوم نے جب کعبہ کو تعمیر کیا تو اسے چھوٹا کرنا چاہا، اس ليے انھوں نے اسے (یعنی حطیم کو) بیت اللہ سے الگ کر دیا۔‘‘
حج کے باقی احکام ان شاء اللہ آئندہ خطبۂ جمعہ میں ذکر کئے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ حجاج کرام اور ہم سب کی تمام عبادات قبول فرمائے۔ آمین